42- النَّهْيُ عَنِ الاسْتِنْجَاءِ بِالْيَمِينِ
۴۲- باب: داہنے ہاتھ سے استنجا کرنے کی ممانعت کا بیان
47- أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ مَسْعُودٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدٌ، قَالَ: أَنْبَأَنَا هِشَامٌ، عَنْ يَحْيَى، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ أَبِي قَتَادَةَ، عَنْ أَبِي قَتَادَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: <إِذَا شَرِبَ أَحَدُكُمْ فَلا يَتَنَفَّسْ فِي إِنَائِهِ، وَإِذَا أَتَى الْخَلائَ، فَلا يَمَسَّ ذَكَرَهُ بِيَمِينِهِ، وَلا يَتَمَسَّحْ بِيَمِينِهِ >.
* تخريج: انظر حدیث رقم: ۲۴ (صحیح)
۴۷- ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ''جب تم میں سے کوئی پانی پئے تو اپنے برتن میں سانس نہ لے، اور جب قضائے حاجت کے لیے آئے تو اپنے داہنے ہاتھ سے ذکر (عضوء تناسل) نہ چھوئے ۱؎، اور نہ اپنے داہنے ہاتھ سے استنجا کرے ''۔
وضاحت ۱؎: بعض علماء نے داہنے ہاتھ سے عضو تناسل کے چھونے کی ممانعت کو بحالت پیشاب خاص کیا ہے، کیوں کہ ایک روایت میں
''إذَا بَالَ أحَدُکُمْ فَلاَ یَمْسَّ ذَکَرَہُ'' کے الفاظ وارد ہیں، اور ایک دوسری روایت میں
''لا يمسكن أحدكم ذكره بيمينه وهو يبول '' آیا ہے، اس لیے ان لوگوں نے مطلق کو مقید پر محمول کیا ہے، اور نووی نے حالت استنجاء اور غیر استنجاء میں کوئی تفریق نہیں کی ہے، وہ کہتے ہیں کہ جب حالت استنجاء میں اس کی ممانعت ہے جب کہ اس کی ضرورت پڑتی ہے، تو دوسری حالتوں میں جب کہ اس کی ضرورت نہیں پڑتی بدرجہ اولیٰ ممنوع ہوگا۔
48- أَخْبَرَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُالْوَهَّابِ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ يِحْيَى بْنِ أَبِى كَثِيرٍ، عَنِ ابْنِ أَبِي قَتَادَةَ، عَنْ أَبِيهِ أَنَّ النَّبِيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى أَنْ يَتَنَفَّسَ فِي الإِنَاءِ، وَأَنْ يَمَسَّ ذَكَرَهُ بِيَمِينِهِ، وَأَنْ يَسْتَطِيبَ بِيَمِينِهِ .
* تخريج: انظر حدیث رقم: ۲۴ (صحیح)
۴۸- ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے برتن میں سانس لینے سے، داہنے ہاتھ سے عضو تناسل چھونے سے اور داہنے ہاتھ سے استنجا کرنے سے منع فرمایا۔
49- أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ وَشُعَيْبُ بْنُ يُوسُفَ ــ وَاللَّفْظُ لَهُ ــ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ مَهْدِيٍّ، عَنْ سُفَيَانَ، عَنْ مَنْصُورٍ، وَالأَعْمَشُ عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ سَلْمَانَ قَالَ: قَالَ الْمُشْرِكُونَ: إِنَّا لَنَرَى صَاحِبَكُمْ يُعَلِّمُكُمُ الْخِرَائَةَ! قَالَ: أَجَلْ، نَهَانَا أَنْ يَسْتَنْجِيَ أَحَدُنَا بِيَمِينِهِ، وَيَسْتَقْبِلَ الْقِبْلَةَ، وَقَالَ: "لا يَسْتَنْجِي أَحَدُكُمْ بِدُونِ ثَلاثَةِ أَحْجَارٍ".
* تخريج: انظر حدیث رقم: ۴۱ (صحیح)
۴۹- سلمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مشرکوں نے (حقارت کے انداز میں) کہا کہ ہم تمہارے نبی کو دیکھتے ہیں کہ وہ تمہیں پاخانہ (تک) کی تعلیم دیتے ہیں، تو انہوں نے (فخریہ) کہا: ہاں، آپ نے ہمیں داہنے ہاتھ سے استنجا کرنے اور (بحالت قضائے حاجت) قبلہ کا رخ کرنے سے منع فرمایا، نیز فرمایا: ''تم میں سے کوئی تین پتھروں سے کم میں استنجا نہ کرے'' ۱؎۔
وضاحت ۱؎: ابن حزم کہتے ہیں کہ''بدون ثلاثۃ احجار'' میں ''دون'' ''اقل'' کے معنی میں یا ''غیر'' کے معنی میں ہے، لہذا نہ تین پتھر سے کم لینا درست ہے نہ زیادہ، اور بعض لوگوں نے کہا ہے ''دون'' کو ''غیر'' کے معنی میں لینا غلط ہے، یہاں دونوں سے مراد ''اقل'' ہے جیسے
''ليس فيما دون خمس من الأبل صدقة'' میں ہے۔