• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

صحیح مسلم

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بَابٌ : عَذَابُ مَنْ سَيَّبَ السَّوَائِبَ فِي النَّارِ
جہنم میں اس شخص کا عذاب ،جس نے غیر اللہ کے نام پراونٹنیوں کو چھوڑ دیا


(1981) عَنِ ابْنِ شِهَابٍ قَالَ سَمِعْتُ سَعِيدَ بْنَ الْمُسَيَّبِ يَقُولُ إِنَّ الْبَحِيرَةَ الَّتِي يُمْنَعُ دَرُّهَا لِلطَّوَاغِيتِ فَلاَ يَحْلُبُهَا أَحَدٌ مِنَ النَّاسِ وَ أَمَّا السَّائِبَةُ الَّتِي كَانُوا يُسَيِّبُونَهَا لِآلِهَتِهِمْ فَلاَ يُحْمَلُ عَلَيْهَا شَيْئٌ وَ قَالَ ابْنُ الْمُسَيَّبِ قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم رَأَيْتُ عَمْرَو بْنَ عَامِرٍ الْخُزَاعِيَّ يَجُرُّ قُصْبَهُ فِي النَّارِ وَ كَانَ أَوَّلَ مَنْ سَيَّبَ السَّوائِبَ

ابن شہاب کہتے ہیں کہ میں نے سعید بن مسیب سے سنا ،وہ کہتے تھے کہ بحیرہ وہ جانور ہے جس کا دودھ دوہنا بتوں کے لیے موقوف کیا جاتا کہ کوئی آدمی اس جانور کا دودھ نہ دوہ سکتا تھا،اور سائبہ وہ ہے جس کو اپنے معبودوں کے نام پرچھوڑ دیتے تھے کہ اس پر کوئی بوجھ نہ لادتے تھے اور ابن مسیب نے کہاکہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ میں نے عمرو بن عامر خزاعی کو دیکھا کہ وہ اپنی آنتیں جہنم میں کھینچ رہا تھا اور سب سے پہلے سائبہ اسی نے نکالاتھا۔‘‘
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بَابٌ : عِظَمُ ضِرْسِ الْكَافِرِ فِي النَّارِ
جہنم میں کافر کی ڈاڑھ کی بڑائی کا بیان


(1982) عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم ضِرْسُ الْكَافِرِ أَوْ نَابُ الْكَافِرِ مِثْلُ أُحُدٍ وَ غِلَظُ جِلْدِهِ مَسِيرَةُ ثَلاَثٍ


سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ کافر کا دانت یا اس کی کچلی احد پہاڑ کے برابر ہو گی اور اس کی کھال کی موٹائی تین دن کی مسافت ہو گی (یعنی تین دن تک چلنے کی مسافت پر اس کی کھال کی بدبو پہنچے یا اس کی موٹائی اتنی ہو گی جتنا تین دن میں سفر کیا جائے)۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604

(1983) عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَرْفَعُهُ قَالَ مَا بَيْنَ مَنْكِبَيِ الْكَافِرِ فِي النَّارِ مَسِيرَةُ ثَلاَثَةِ أَيَّامٍ لِلرَّاكِبِ الْمُسْرِعِ


سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ کافر کے دونوں کندھوں کے بیچ میں تیز رو سوار کے تین دن کی مسافت ہو گی۔‘‘
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بَابٌ : عَذَابُ الَّذِيْنَ يُعَذِّبُوْنَ النَّاسَ
ان لوگوں کی تکلیف کا بیان ،جو لوگوں کو تکلیف دیتے تھے


(1984) عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم صِنْفَانِ مِنْ أَهْلِ النَّارِ لَمْ أَرَهُمَا قَوْمٌ مَعَهُمْ سِيَاطٌ كَأَذْنَابِ الْبَقَرِ يَضْرِبُونَ بِهَا النَّاسَ وَ نِسَائٌ كَاسِيَاتٌ عَارِيَاتٌ مُمِيلاَتٌ مَائِلاَتٌ رُئُوسُهُنَّ كَأَسْنِمَةِ الْبُخْتِ الْمَائِلَةِ لاَ يَدْخُلْنَ الْجَنَّةَ وَ لاَ يَجِدْنَ رِيحَهَا وَ إِنَّ رِيحَهَا لَيُوجَدُ مِنْ مَسِيرَةِ كَذَا وَ كَذَا

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’دوزخیوں کی دو قس میں ہیں جن کو میں نے نہیں دیکھا۔ ایک تو وہ لوگ جن کے پاس بیلوں کی دموں کی طرح کے کوڑے ہیں ،وہ لوگوں کو اس سے مارتے ہیں اور دوسرے وہ عورتیں جو پہنتی ہیں مگر ننگی ہیں (یعنی ستر کے لائق لباس نہیں ہیں) ،سیدھی راہ سے بہـکانے والی، خود بہـکنے والی اور ان کے سر بختی (اونٹ کی ایک قسم ہے) اونٹ کی کوہان کی طرح ایک طرف جھکے ہوئے ، وہ جنت میں نہ جائیں گی بلکہ اس کی خوشبو بھی ان کو نہ ملے گی حالانکہ جنت کی خوشبو اتنی دور سے آرہی ہوگی۔ ‘‘
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604

(1985) عَنْ أَبِيْ هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم يَقُولُ إِنْ طَالَتْ بِكَ مُدَّةٌ أَوْشَكْتَ أَنْ تَرَى قَوْمًا يَغْدُونَ فِي سَخَطِ اللَّهِ وَ يَرُوحُونَ فِي لَعْنَتِهِ فِي أَيْدِيهِمْ مِثْلُ أَذْنَابِ الْبَقَرِ

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے :’’ قریب ہے اگر تو دیر تک زندہ رہا تو ایسے لوگوں کو دیکھے گا جواللہ تعالیٰ کے غصے میں صبح کریں گے اور اللہ کے قہر میں شام کریں گے اور ان کے ہاتھوں میں بیل کی دم کی طرح کے (کوڑے) ہوں گے ۔‘‘
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بَابٌ : صَبْغُ أَنْعَمِ أَهْلِ الدُّنْيَا فِيْ النَّارِ وَ صَبْغُ أَشَدِّهِمْ بُؤْسَا فِي الْجَنَّةِ
دنیا کے سب سے زیادہ خوشحال کو جہنم میں غوطہ اور دنیا کے سب سے زیادہ تنگی والے کو جنت کاغوطہ دینا


(1986) عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم يُؤْتَى بِأَنْعَمِ أَهْلِ الدُّنْيَا مِنْ أَهْلِ النَّارِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَيُصْبَغُ فِي النَّارِ صَبْغَةً ثُمَّ يُقَالُ يَا ابْنَ آدَمَ هَلْ رَأَيْتَ خَيْرًا قَطُّ ؟ هَلْ مَرَّ بِكَ نَعِيمٌ قَطُّ ؟ فَيَقُولُ لاَ وَ اللَّهِ يَا رَبِّ ! وَ يُؤْتَى بِأَشَدِّ النَّاسِ بُؤْسًا فِي الدُّنْيَا مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ فَيُصْبَغُ صَبْغَةً فِي الْجَنَّةِ فَيُقَالُ لَهُ يَا ابْنَ آدَمَ ! هَلْ رَأَيْتَ بُؤْسًا قَطُّ ؟ هَلْ مَرَّ بِكَ شِدَّةٌ قَطُّ ؟ فَيَقُولُ لاَ وَ اللَّهِ يَا رَبِّ ! مَا مَرَّ بِي بُؤْسٌ قَطُّ وَ لاَ رَأَيْتُ شِدَّةً قَطُّ


سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’قیامت کے دن اہل دوزخ میں سے اس شخص کو لایا جائے گا جو دنیا میں سب سے زیادہ آسودہ اور خوشحال تھا، پس دوزخ میں ایک بار غوطہ دیا جائے گا ،پھر اس سے پوچھا جائے گا کہ اے آدم کے بیٹے! کیا تو نے دنیا میں کبھی آرام دیکھا تھا؟ کیا تجھ پر کبھی چین بھی گزرا تھا؟ وہ کہے گا کہ اللہ کی قسم!اے میرے رب! کبھی نہیں اور اہل جنت میں سے ایک ایسا شخص لایا جائے گا جو دنیا میں سب لوگوں سے سخت تر تکلیف میں رہاتھا، جنت میں ایک بار غوطہ دیا جائے گا ،پھر اس سے پوچھا جائے گا کہ اے آدم کے بیٹے! تو نے کبھی تکلیف بھی دیکھی ہے؟ کیا تجھ پر شدت اور رنج بھی گزرا تھا؟ وہ کہے گا کہ اللہ کی قسم! مجھ پر تو کبھی کوئی تکلیف نہیں گزری اور میں نے تو کبھی شدت اور سختی نہیں دیکھی۔‘‘

 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
کِتَابُ الْفِتَنِ
فتنوں کا بیان


بَابٌ : فِيْ اقْتِرَابِ الْفِتَنِ وَ الْهَلاَكِ إِذَا كَثُرَ الْخَبَثُ

فتنوں کے قریب ہونے اور ہلاکت کے بیان میں جب کہ برائی زیادہ ہو جائے


(1987) عَنْ زَيْنَبَ بِنْتِ جَحْشٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ النَّبِيَّ صلی اللہ علیہ وسلم اسْتَيْقَظَ مِنْ نَوْمِهِ وَ هُوَ يَقُولُ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ وَيْلٌ لِلْعَرَبِ مِنْ شَرٍّ قَدِ اقْتَرَبَ فُتِحَ الْيَوْمَ مِنْ رَدْمِ يَأْ جُوجَ وَ مَأْ جُوجَ مِثْلُ هَذِهِ وَ عَقَدَ سُفْيَانُ بِيَدِهِ عَشَرَةً قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ ! أَ نَهْلِكُ وَ فِينَا الصَّالِحُونَ ؟ قَالَ نَعَمْ إِذَا كَثُرَ الْخَبَثُ


ام المومنین زینب بنت جحش رضی اللہ عنھا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نیند سے اس حال میں بیدار ہوئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے:’’ لا الٰہ الا اللہ ،خرابی ہے عرب کی اس آفت سے جو نزدیک ہے۔ آج یاجوج اور ماجوج کی آڑ اتنی کھل گئی ۔‘‘ (راوئ حدیث) سفیان نے دس کا ہندسہ بنایا (یعنی انگوٹھے اور کلمہ شہادت کی انگلی سے حلقہ بنایا) میں نے عرض کی کہ یا رسول اللہ ! کیا ہم اس حال میں بھی تباہ ہو جائیں گے کہ ہم میں نیک لوگ موجود ہوں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ہاں! جب برائی زیادہ ہو گی (یعنی فسق و فجور یا زنا یا اولاد زنا یا معاصی)۔‘‘
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
(1988) عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنِ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ فُتِحَ الْيَوْمَ مِنْ رَدْمِ يَأْجُوجَ وَ مَأْجُوجَ مِثْلُ هَذِهِ وَ عَقَدَ وُهَيْبٌ بِيَدِهِ تِسْعِينَ

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’آج یاجوج ماجوج کی آڑ کی دیوار میں سے اتنا کھل گیا (یعنی اس میں اتنا سوراخ ہو گیا) ۔‘‘ (راوئ حدیث) وہیب نے اس کو انگلیوں سے نوے کا ہندسہ بنا کر بیان کیا (یہ دس کے ہندسہ سے چھوٹا ہوا شاید یہ حدیث پہلے کی ہو اور ام المومنین زینب رضی اللہ عنھا والی بعدکی اور شاید مقصود تمثیل ہو نہ کہ حد بیان کی گئی ہو)۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بَابٌ : فِيْ نُزُوْلِ الْفِتَنِ كَمَوَاقِعِ الْقَطْرِ
بارش کے قطروں کی طرح نازل ہونے والے فتنوں کے بیان میں


(1989) عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّ النَّبِيَّ صلی اللہ علیہ وسلم أَشْرَفَ عَلَى أُطُمٍ مِنْ آطَامِ الْمَدِينَةِ ثُمَّ قَالَ هَلْ تَرَوْنَ مَا أَرَى ؟ إِنِّي لأَرَى مَوَاقِعَ الْفِتَنِ خِلاَلَ بُيُوتِكُمْ كَمَوَاقِعِ الْقَطْرِ

سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ کے محلوں میں سے ایک محل (یاقلعہ)پر چڑھے، پھر فرمایا: ’’ کیا جو کچھ میں دیکھ رہا ہوں ،تم بھی دیکھ رہے ہو؟بے شک میں تمہارے گھروں میں فتنوں کی جگہیں اس طرح دیکھتا ہوں جیسے بارش کے گرنے کی جگہوں کو (یعنی بوندوں کی طرح بہت ہوں گے ۔مراد جمل اور صفین اور فتنہ عثمان اور شہادت حسین رضی اللہ عنھما اور ان کے سوا بہت سے فساد جو مسلمانوں میں ہوئے تھے) ۔‘‘
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بَابٌ : عَرْضُ الْفِتَنِ عَلَى الْقُلُوْبِ وَ نَكْتُهَا فِيْهَا
دلوں پر فتنوں کا پیش کیا جانا اور فتنوں کا دلوں میں داغ پیدا کر دینا


(1990) عَنْ حُذَيْفَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ كُنَّا عِنْدَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَقَالَ أَيُّكُمْ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم يَذْكُرُ الْفِتَنَ فَقَالَ قَوْمٌ نَحْنُ سَمِعْنَاهُ فَقَالَ لَعَلَّكُمْ تَعْنُونَ فِتْنَةَ الرَّجُلِ فِي أَهْلِهِ وَ جَارِهِ قَالُوا أَجَلْ قَالَ تِلْكَ تُكَفِّرُهَا الصَّلاَةُ وَ الصِّيَامُ وَ الصَّدَقَةُ وَ لَكِنْ أَيُّكُمْ سَمِعَ النَّبِيَّ صلی اللہ علیہ وسلم يَذْكُرُ الْفِتَنَ الَّتِي تَمُوجُ مَوْجَ الْبَحْرِ ؟ قَالَ حُذَيْفَةُ فَأَسْكَتَ الْقَوْمُ فَقُلْتُ أَنَا قَالَ أَنْتَ لِلَّهِ أَبُوكَ ؟ قَالَ حُذَيْفَةُ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم يَقُولُ تُعْرَضُ الْفِتَنُ عَلَى الْقُلُوبِ كَالْحَصِيرِ عُودًا عُودًا فَأَيُّ قَلْبٍ أُشْرِبَهَا نُكِتَ فِيهِ نُكْتَةٌ سَوْدَائُ وَ أَيُّ قَلْبٍ أَنْكَرَهَا نُكِتَ فِيهِ نُكْتَةٌ بَيْضَائُ حَتَّى تَصِيرَ عَلَى قَلْبَيْنِ عَلَى أَبْيَضَ مِثْلِ الصَّفَا فَلاَ تَضُرُّهُ فِتْنَةٌ مَا دَامَتِ السَّمَاوَاتُ وَ الأَرْضُ وَ الْآخَرُ أَسْوَدُ مُرْبَادًّا كَالْكُوزِ مُجَخِّيًا لاَ يَعْرِفُ مَعْرُوفًا وَ لاَ يُنْكِرُ مُنْكَرًا إِلاَّ مَا أُشْرِبَ مِنْ هَوَاهُ قَالَ حُذَيْفَةُ وَ حَدَّثْتُهُ أَنَّ بَيْنَكَ وَ بَيْنَهَا بَابًا مُغْلَقًا يُوشِكُ أَنْ يُكْسَرَ قَالَ عُمَرُ أَكَسْرًا لاَ أَبَا لَكَ ؟ فَلَوْ أَنَّهُ فُتِحَ لَعَلَّهُ كَانَ يُعَادُ قُلْتُ لاَ بَلْ يُكْسَرُ وَ حَدَّثْتُهُ أَنَّ ذَلِكَ الْبَابَ رَجُلٌ يُقْتَلُ أَوْ يَمُوتُ حَدِيثًا لَيْسَ بِالْأَغَالِيطِ قَالَ أَبُو خَالِدٍ فَقُلْتُ لِسَعِيْدٍ يَا أَبَا مَالِكٍ ! مَا أَسْوَدُ مُرْبَادًّا ؟ قَالَ شِدَّةُ الْبَيَاضِ فِي سَوَادٍ قَالَ قُلْتُ فَمَا الْكُوزُ مُجَخِّيًا ؟ قَالَ مَنْكُوسًا

سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے نزدیک بیٹھے ہوئے تھے کہ انہوں نے پوچھا ، تم میں سے کس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فتنوں کا ذکر کرتے ہوئے سنا ہے؟ بعض لوگوں نے کہا کہ ہاں! ہم نے سنا ہے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ شاید تم فتنوں سے وہ فتنے سمجھے ہو جو آدمی کو اس کے گھر بار اور مال او رہمسائے میں درپیش ہوتے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ ہاں! سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ان فتنوں کا کفارہ تو نماز ، روزے اور زکوٰۃ سے ہو جاتا ہے، لیکن تم میں سے ان فتنوں کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کس نے سنا ہے جو دریا کی موجوں کی طرح امنڈ کر آئیں گے؟ سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ لوگ خاموش ہو گئے تو میں نے کہا کہ میں نے سنا ہے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تو نے سنا ہے ،تیرا باپ بہت اچھا تھا (یہ ایک دعائیہ کلمہ ہے جو عرب استعمال کرتے تھے)۔ سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے :’’فتنے دلوں پر ایک کے بعد ایک، ایک کے بعد ایک ایسے آئیں گے جیسے بوریے کی تیلیاں ایک کے بعد ایک ہوتی ہیں۔ پھر جس دل میں فتنہ رچ جائے گا، اس میں ایک کالا داغ پیدا ہو گا اور جو دل اس کو نہ مانے گا تو اس میں ایک سفید نورانی نشان ہو گا، یہاں تک کہ اسی طرح کالے داغ اور سفید نشان ہوتے ہوتے دو قسم کے دل ہو جائیں گے۔ ایک تو خالص سفید دل چکنے پتھر کی طرح کہ آسمان و زمین کے قائم رہنے تک اسے کوئی فتنہ نقصان نہ پہنچائے گا۔دوسرا کالا سفیدی مائل یا الٹے کوزے کی طرح ، جو نہ کسی اچھی بات کو اچھی سمجھے گا نہ بری بات کو بری ،مگر وہی جو اس کے دل میں بیٹھ جائے۔‘‘ سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ پھر میں نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے حدیث بیان کی کہ تمہارے اور اس فتنے کے درمیان میں ایک بند دروازہ ہے،مگر نزدیک ہے کہ وہ ٹوٹ جائے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تیرا باپ نہ ہو(یہ بھی ایک کلمہ ہے جسے عرب عام طور پر کسی کام پر شبہ کرنے یا مستعد کرنے کو کہتے ہیں)کیا وہ ٹوٹ جائے گا ؟کھل جاتا تو شاید پھر بند ہو جاتا ۔ میں نے کہا کہ نہیں ٹوٹ جائے گا اور میں نے ان سے حدیث بیان کی کہ یہ دروازہ ایک شخص ہے، جو مارا جائے گا یا مر جائے گا۔ پھر یہ حدیث کوئی غلط (دل سے بنائی ہوئی بات) نہ تھی۔ ابوخالد نے کہا کہ میں نے سعید بن طارق سے پوچھا کہ ’’اسود مربادا‘‘ سے کیا مراد ہے؟ انہوں نے کہا کہ سیاہی میں سفیدی کی شدت۔ میں نے کہا کہ ’’ کالکوز مجخیا ‘‘سے کیا مراد ہے؟ انہوں نے کہا کہ اوندھا کیاہوا کوزا۔
 
Top