ساجد تاج
فعال رکن
- شمولیت
- مارچ 09، 2011
- پیغامات
- 7,174
- ری ایکشن اسکور
- 4,517
- پوائنٹ
- 604
(2052) عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ سَالِمٍ قَالَ سَمِعْتُ يَعْقُوبَ بْنَ عَاصِمِ بْنِ عُرْوَةَ بْنِ مَسْعُودٍ الثَّقَفِيَّ يَقُولُ سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا وَ جَائَهُ رَجُلٌ فَقَالَ مَا هَذَا الْحَدِيثُ الَّذِي تُحَدِّثُ بِهِ ؟ تَقُولُ إِنَّ السَّاعَةَ تَقُومُ إِلَى كَذَا وَ كَذَا فَقَالَ سُبْحَانَ اللَّهِ أَوْ لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ أَوْ كَلِمَةً نَحْوَهُمَا لَقَدْ هَمَمْتُ أَنْ لاَ أُحَدِّثَ أَحَدًا شَيْئًا أَبَدًا إِنَّمَا قُلْتُ إِنَّكُمْ سَتَرَوْنَ بَعْدَ قَلِيلٍ أَمْرًا عَظِيمًا يُحَرَّقُ الْبَيْتُ وَ يَكُونُ وَ يَكُونُ ثُمَّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم يَخْرُجُ الدَّجَّالُ فِي أُمَّتِي فَيَمْكُثُ أَرْبَعِينَ لاَ أَدْرِي أَرْبَعِينَ يَوْمًا أَوْ أَرْبَعِينَ شَهْرًا أَوْ أَرْبَعِينَ عَامًا فَيَبْعَثُ اللَّهُ تعالي عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ كَأَنَّهُ عُرْوَةُ بْنُ مَسْعُودٍ فَيَطْلُبُهُ فَيُهْلِكُهُ ثُمَّ يَمْكُثُ النَّاسُ سَبْعَ سِنِينَ لَيْسَ بَيْنَ اثْنَيْنِ عَدَاوَةٌ ثُمَّ يُرْسِلُ اللَّهُ رِيحًا بَارِدَةً مِنْ قِبَلِ الشَّامِ فَلاَ يَبْقَى عَلَى وَجْهِ الْأَرْضِ أَحَدٌ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالُ ذَرَّةٍ مِنْ خَيْرٍ أَوْ إِيمَانٍ إِلَّا قَبَضَتْهُ حَتَّى لَوْ أَنَّ أَحَدَكُمْ دَخَلَ فِي كَبِدِ جَبَلٍ لَدَخَلَتْهُ عَلَيْهِ حَتَّى تَقْبِضَهُ قَالَ سَمِعْتُهَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ فَيَبْقَى شِرَارُ النَّاسِ فِي خِفَّةِ الطَّيْرِ وَ أَحْلاَمِ السِّبَاعِ لاَ يَعْرِفُونَ مَعْرُوفًا وَ لاَ يُنْكِرُونَ مُنْكَرًا فَيَتَمَثَّلُ لَهُمُ الشَّيْطَانُ فَيَقُولُ أَلاَ تَسْتَجِيبُونَ ؟ فَيَقُولُونَ فَمَا تَأْمُرُنَا ؟ فَيَأْمُرُهُمْ بِعِبَادَةِ الْأَوْثَانِ وَ هُمْ فِي ذَلِكَ دَارٌّ رِزْقُهُمْ حَسَنٌ عَيْشُهُمْ ثُمَّ يُنْفَخُ فِي الصُّورِ فَلاَ يَسْمَعُهُ أَحَدٌ إِلَّا أَصْغَى لِيتًا وَ رَفَعَ لِيتًا قَالَ وَ أَوَّلُ مَنْ يَسْمَعُهُ رَجُلٌ يَلُوطُ حَوْضَ إِبِلِهِ قَالَ فَيَصْعَقُ وَ يَصْعَقُ النَّاسُ ثُمَّ يُرْسِلُ اللَّهُ أَوْ قَالَ يُنْزِلُ اللَّهُ مَطَرًا كَأَنَّهُ الطَّلُّ أَوِ الظِّلُّ نُعْمَانُ الشَّاكُّ فَتَنْبُتُ مِنْهُ أَجْسَادُ النَّاسِ ثُمَّ يُنْفَخُ فِيهِ أُخْرَى فَإِذَا هُمْ قِيَامٌ يَنْظُرُونَ ثُمَّ يُقَالُ يَا أَيُّهَا النَّاسُ هَلُمَّ إِلَى رَبِّكُمْ { وَقِفُوهُمْ إِنَّهُمْ مَسْئُولُونَ } (الصافات: 24) قَالَ ثُمَّ يُقَالُ أَخْرِجُوا بَعْثَ النَّارِ فَيُقَالُ مِنْ كَمْ؟ فَيُقَالُ مِنْ كُلِّ أَلْفٍ تِسْعَ مِائَةٍ وَ تِسْعَةً وَ تِسْعِينَ قَالَ فَذَالِكَ يَوْمَ { يَجْعَلُ الْوِلْدَانَ شِيبًا } (المزمّل: 17) وَ ذَلِكَ { يَوْمَ يُكْشَفُ عَنْ سَاقٍ } (القلم: 42)
سیدنانعمان بن سالم کہتے ہیں کہ میں نے یعقوب بن عاصم بن عروہ بن مسعود ثقفی سے سنا،وہ کہتے تھے کہ میں نے عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنھما سے سنا اور ان کے پاس ایک آدمی آیااور کہنے لگا کہ یہ حدیث کیا ہے جو تم بیان کرتے ہو کہ قیامت اتنی مدت میں ہو گی؟ انہوں نے (تعجب سے) ’’سبحان اللہ‘‘ یا ’’لا الٰہ الا اللہ‘‘یا اسی طرح کا کوئی اور کلمہ کہا اور پھر کہنے لگے کہ میرا خیال ہے اب میں کسی سے کوئی حدیث بیان نہ کروں (کیونکہ لوگ کچھ کہتے ہیں اور مجھے بدنام کرتے ہیں) ۔ میں نے تو یہ کہا تھا کہ تم تھوڑے دنوں کے بعد ایک بڑا حادثہ دیکھو گے جو گھر کو جلائے گا اور وہ ضرور ہو گا۔ پھر کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میری امت میں دجال نکلے گا اور چالیس تک رہے گا۔ میں نہیں جانتا کہ چالیس دن فرمایا یا چالیس مہینے یا چالیس برس۔ پھر اللہ تعالیٰ عیسیٰ ابن مریم علیہما السلام کو بھیجے گا اور ان کی شکل عروہ ابن مسعود کی سی ہے۔ وہ دجال کو ڈھونڈھیں گے اور اس کو قتل کریں گے۔ پھر سات برس تک لوگ ایسے رہیں گے کہ دو آدمیوں میں کوئی دشمنی نہ ہو گی۔ پھر اللہ تعالیٰ شام کی طرف سے ایک ٹھنڈی ہوا بھیجے گا تو زمین پر کوئی ایسا نہ رہے گا جس کے دل میں رتی برابر ایمان یا بھلائی ہو ،مگر یہ ہوا اس کی جان نکال لے گی ،یہاں تک کہ اگر کوئی تم میں سے پہاڑ کے کلیجے میں گھس جائے تو وہاں بھی یہ ہوا پہنچ کر اس کی جان نکال لے گی۔‘‘ سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے :’’پھر برے لوگ دنیا میں رہ جائیں گے،چڑیوں کی طرح جلد باز یا بے عقل اور درندوں کی طرح ان کے اخلاق ہوں گے۔ نہ وہ اچھی بات کو اچھا سمجھیں گے اور نہ بری بات کو برا۔ پھر شیطان ایک صورت بنا کر ان کے پاس آئے گا اور کہے گاکہ کیا تم میری بات کو قبول نہیں کرتے؟ وہ کہیں گے کہ پھر تو ہ میں کیا حکم دیتا ہے؟ شیطان کہے گا کہ بت پرستی کرو۔ وہ بت پوجیں گے اور اس کے باوجود ان کی روزی کشادہ ہو گی اور مزے سے زندگی گزاریں گے پھر صور پھونکا جائے گا اور اس کو کوئی نہ سنے گا مگر ایک طرف سے گردن جھکائے گااور دوسری طرف سے اٹھا لے گا (یعنی بے ہوش ہو کر گر پڑے گا) اور سب سے پہلے صور کو وہ سنے گا جو اپنے اونٹوں کے حوض کو لیپ رہا ہو گا۔ وہ بے ہوش ہو جائے گا اور دوسرے لوگ بھی بے ہوش ہو جائیں گے۔ پھر اللہ تعالیٰ پانی برسائے گا جو نطفہ کی طرح ہو گا،ا س سے لوگوں کے بدن اگ آئیں گے۔ پھر صور پھونکا جائے گا تو سب لوگ کھڑے ہوئے دیکھ رہے ہوں گے پھر پکارا جائے گا کہ اے لوگو! اپنے مالک کے پاس آؤ ’’اور ان کو کھڑا کرو، بے شک ان سے سوال ہو گا۔‘‘ (الصافات: ۲۴)۔ پھر کہا جائے گا کہ ایک لشکر کو دوزخ کیلئے نکال لو۔ پوچھا جائے گا کہ کتنے لوگ؟ حکم ہو گا کہ ہر ہزار میں سے نو سو ننانوے (اور ہر ہزار میں سے ایک جنتی ہو گا)۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’یہی وہ دن ہے جو بچوں کو ( ہیبت اور مصیبت سے یا درازی سے) بوڑھا کر دے گا اور یہی وہ دن ہے جب پنڈلی کھلے گی (یعنی سختی ہو گی یا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اپنی پنڈلی ظاہر کرے گا جس سے مومن سجدے میں گر جائیں گے)۔ ‘‘