• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

صحیح مسلم

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604

(2052) عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ سَالِمٍ قَالَ سَمِعْتُ يَعْقُوبَ بْنَ عَاصِمِ بْنِ عُرْوَةَ بْنِ مَسْعُودٍ الثَّقَفِيَّ يَقُولُ سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا وَ جَائَهُ رَجُلٌ فَقَالَ مَا هَذَا الْحَدِيثُ الَّذِي تُحَدِّثُ بِهِ ؟ تَقُولُ إِنَّ السَّاعَةَ تَقُومُ إِلَى كَذَا وَ كَذَا فَقَالَ سُبْحَانَ اللَّهِ أَوْ لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ أَوْ كَلِمَةً نَحْوَهُمَا لَقَدْ هَمَمْتُ أَنْ لاَ أُحَدِّثَ أَحَدًا شَيْئًا أَبَدًا إِنَّمَا قُلْتُ إِنَّكُمْ سَتَرَوْنَ بَعْدَ قَلِيلٍ أَمْرًا عَظِيمًا يُحَرَّقُ الْبَيْتُ وَ يَكُونُ وَ يَكُونُ ثُمَّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم يَخْرُجُ الدَّجَّالُ فِي أُمَّتِي فَيَمْكُثُ أَرْبَعِينَ لاَ أَدْرِي أَرْبَعِينَ يَوْمًا أَوْ أَرْبَعِينَ شَهْرًا أَوْ أَرْبَعِينَ عَامًا فَيَبْعَثُ اللَّهُ تعالي عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ كَأَنَّهُ عُرْوَةُ بْنُ مَسْعُودٍ فَيَطْلُبُهُ فَيُهْلِكُهُ ثُمَّ يَمْكُثُ النَّاسُ سَبْعَ سِنِينَ لَيْسَ بَيْنَ اثْنَيْنِ عَدَاوَةٌ ثُمَّ يُرْسِلُ اللَّهُ رِيحًا بَارِدَةً مِنْ قِبَلِ الشَّامِ فَلاَ يَبْقَى عَلَى وَجْهِ الْأَرْضِ أَحَدٌ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالُ ذَرَّةٍ مِنْ خَيْرٍ أَوْ إِيمَانٍ إِلَّا قَبَضَتْهُ حَتَّى لَوْ أَنَّ أَحَدَكُمْ دَخَلَ فِي كَبِدِ جَبَلٍ لَدَخَلَتْهُ عَلَيْهِ حَتَّى تَقْبِضَهُ قَالَ سَمِعْتُهَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ فَيَبْقَى شِرَارُ النَّاسِ فِي خِفَّةِ الطَّيْرِ وَ أَحْلاَمِ السِّبَاعِ لاَ يَعْرِفُونَ مَعْرُوفًا وَ لاَ يُنْكِرُونَ مُنْكَرًا فَيَتَمَثَّلُ لَهُمُ الشَّيْطَانُ فَيَقُولُ أَلاَ تَسْتَجِيبُونَ ؟ فَيَقُولُونَ فَمَا تَأْمُرُنَا ؟ فَيَأْمُرُهُمْ بِعِبَادَةِ الْأَوْثَانِ وَ هُمْ فِي ذَلِكَ دَارٌّ رِزْقُهُمْ حَسَنٌ عَيْشُهُمْ ثُمَّ يُنْفَخُ فِي الصُّورِ فَلاَ يَسْمَعُهُ أَحَدٌ إِلَّا أَصْغَى لِيتًا وَ رَفَعَ لِيتًا قَالَ وَ أَوَّلُ مَنْ يَسْمَعُهُ رَجُلٌ يَلُوطُ حَوْضَ إِبِلِهِ قَالَ فَيَصْعَقُ وَ يَصْعَقُ النَّاسُ ثُمَّ يُرْسِلُ اللَّهُ أَوْ قَالَ يُنْزِلُ اللَّهُ مَطَرًا كَأَنَّهُ الطَّلُّ أَوِ الظِّلُّ نُعْمَانُ الشَّاكُّ فَتَنْبُتُ مِنْهُ أَجْسَادُ النَّاسِ ثُمَّ يُنْفَخُ فِيهِ أُخْرَى فَإِذَا هُمْ قِيَامٌ يَنْظُرُونَ ثُمَّ يُقَالُ يَا أَيُّهَا النَّاسُ هَلُمَّ إِلَى رَبِّكُمْ { وَقِفُوهُمْ إِنَّهُمْ مَسْئُولُونَ } (الصافات: 24) قَالَ ثُمَّ يُقَالُ أَخْرِجُوا بَعْثَ النَّارِ فَيُقَالُ مِنْ كَمْ؟ فَيُقَالُ مِنْ كُلِّ أَلْفٍ تِسْعَ مِائَةٍ وَ تِسْعَةً وَ تِسْعِينَ قَالَ فَذَالِكَ يَوْمَ { يَجْعَلُ الْوِلْدَانَ شِيبًا } (المزمّل: 17) وَ ذَلِكَ { يَوْمَ يُكْشَفُ عَنْ سَاقٍ } (القلم: 42)


سیدنانعمان بن سالم کہتے ہیں کہ میں نے یعقوب بن عاصم بن عروہ بن مسعود ثقفی سے سنا،وہ کہتے تھے کہ میں نے عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنھما سے سنا اور ان کے پاس ایک آدمی آیااور کہنے لگا کہ یہ حدیث کیا ہے جو تم بیان کرتے ہو کہ قیامت اتنی مدت میں ہو گی؟ انہوں نے (تعجب سے) ’’سبحان اللہ‘‘ یا ’’لا الٰہ الا اللہ‘‘یا اسی طرح کا کوئی اور کلمہ کہا اور پھر کہنے لگے کہ میرا خیال ہے اب میں کسی سے کوئی حدیث بیان نہ کروں (کیونکہ لوگ کچھ کہتے ہیں اور مجھے بدنام کرتے ہیں) ۔ میں نے تو یہ کہا تھا کہ تم تھوڑے دنوں کے بعد ایک بڑا حادثہ دیکھو گے جو گھر کو جلائے گا اور وہ ضرور ہو گا۔ پھر کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میری امت میں دجال نکلے گا اور چالیس تک رہے گا۔ میں نہیں جانتا کہ چالیس دن فرمایا یا چالیس مہینے یا چالیس برس۔ پھر اللہ تعالیٰ عیسیٰ ابن مریم علیہما السلام کو بھیجے گا اور ان کی شکل عروہ ابن مسعود کی سی ہے۔ وہ دجال کو ڈھونڈھیں گے اور اس کو قتل کریں گے۔ پھر سات برس تک لوگ ایسے رہیں گے کہ دو آدمیوں میں کوئی دشمنی نہ ہو گی۔ پھر اللہ تعالیٰ شام کی طرف سے ایک ٹھنڈی ہوا بھیجے گا تو زمین پر کوئی ایسا نہ رہے گا جس کے دل میں رتی برابر ایمان یا بھلائی ہو ،مگر یہ ہوا اس کی جان نکال لے گی ،یہاں تک کہ اگر کوئی تم میں سے پہاڑ کے کلیجے میں گھس جائے تو وہاں بھی یہ ہوا پہنچ کر اس کی جان نکال لے گی۔‘‘ سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے :’’پھر برے لوگ دنیا میں رہ جائیں گے،چڑیوں کی طرح جلد باز یا بے عقل اور درندوں کی طرح ان کے اخلاق ہوں گے۔ نہ وہ اچھی بات کو اچھا سمجھیں گے اور نہ بری بات کو برا۔ پھر شیطان ایک صورت بنا کر ان کے پاس آئے گا اور کہے گاکہ کیا تم میری بات کو قبول نہیں کرتے؟ وہ کہیں گے کہ پھر تو ہ میں کیا حکم دیتا ہے؟ شیطان کہے گا کہ بت پرستی کرو۔ وہ بت پوجیں گے اور اس کے باوجود ان کی روزی کشادہ ہو گی اور مزے سے زندگی گزاریں گے پھر صور پھونکا جائے گا اور اس کو کوئی نہ سنے گا مگر ایک طرف سے گردن جھکائے گااور دوسری طرف سے اٹھا لے گا (یعنی بے ہوش ہو کر گر پڑے گا) اور سب سے پہلے صور کو وہ سنے گا جو اپنے اونٹوں کے حوض کو لیپ رہا ہو گا۔ وہ بے ہوش ہو جائے گا اور دوسرے لوگ بھی بے ہوش ہو جائیں گے۔ پھر اللہ تعالیٰ پانی برسائے گا جو نطفہ کی طرح ہو گا،ا س سے لوگوں کے بدن اگ آئیں گے۔ پھر صور پھونکا جائے گا تو سب لوگ کھڑے ہوئے دیکھ رہے ہوں گے پھر پکارا جائے گا کہ اے لوگو! اپنے مالک کے پاس آؤ ’’اور ان کو کھڑا کرو، بے شک ان سے سوال ہو گا۔‘‘ (الصافات: ۲۴)۔ پھر کہا جائے گا کہ ایک لشکر کو دوزخ کیلئے نکال لو۔ پوچھا جائے گا کہ کتنے لوگ؟ حکم ہو گا کہ ہر ہزار میں سے نو سو ننانوے (اور ہر ہزار میں سے ایک جنتی ہو گا)۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’یہی وہ دن ہے جو بچوں کو ( ہیبت اور مصیبت سے یا درازی سے) بوڑھا کر دے گا اور یہی وہ دن ہے جب پنڈلی کھلے گی (یعنی سختی ہو گی یا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اپنی پنڈلی ظاہر کرے گا جس سے مومن سجدے میں گر جائیں گے)۔ ‘‘
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بَابٌ : أَوَّلُ الآيَاتِ طُلُوْعُ الشَّمْسِ مِنْ مَغْرِبِهَا
(قیامت کی) نشانیوں میں سے پہلی یہ ہے کہ سورج مغرب کی طرف سے طلوع ہو گا


(2053) عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ حَفِظْتُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم حَدِيثًا لَمْ أَنْسَهُ بَعْدُ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم يَقُولُ إِنَّ أَوَّلَ الْآيَاتِ خُرُوجًا طُلُوعُ الشَّمْسِ مِنْ مَغْرِبِهَا وَ خُرُوجُ الدَّابَّةِ عَلَى النَّاسِ ضُحًى وَ أَيُّهُمَا مَا كَانَتْ قَبْلَ صَاحِبَتِهَا فَالْأُخْرَى عَلَى إِثْرِهَا قَرِيبًا


سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنھما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک حدیث یاد رکھی ہے جس کو میں کبھی نہیں بھولا۔ میں نے سنا ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے :’’ قیامت کی پہلی نشانیوں میں سے سورج کا مغرب کی طرف سے نکلنا ہے اور چاشت کے وقت لوگوں پر زمین کے جانور کا نکلناہے اور جو نشانی ان دونوں میں پہلے ہو گی تو دوسری بھی اس کے بعد جلدہی ظاہر ہو گی۔‘‘
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بَابٌ : صِفَةُ الدَّجَّالِ وَ خُرُوْجِهِ وَ حَدِيْثُ الْجَسَّاسَةِ
دجال کی صفت ،اس کے (دنیا میں ) نکلنے اور جساسہ کی حدیث کے متعلق


(2054) عَنْ عَامِرِ بْنِ شَرَاحِيلَ الشَّعْبِيِّ شَعْبِ هَمْدَانَ أَنَّهُ سَأَلَ فَاطِمَةَ بِنْتَ قَيْسٍ أُخْتَ الضَّحَّاكِ بْنِ قَيْسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا وَ كَانَتْ مِنَ الْمُهَاجِرَاتِ الْأُوَلِ فَقَالَ حَدِّثِينِي حَدِيثًا سَمِعْتِيهِ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم لاَ تُسْنِدِيهِ إِلَى أَحَدٍ غَيْرِهِ فَقَالَتْ لَئِنْ شِئْتَ لَأَفْعَلَنَّ فَقَالَ لَهَا أَجَلْ حَدِّثِينِي فَقَالَتْ نَكَحْتُ ابْنَ الْمُغِيرَةِ وَ هُوَ مِنْ خِيَارِ شَبَابِ قُرَيْشٍ يَوْمَئِذٍ فَأُصِيبَ فِي أَوَّلِ الْجِهَادِ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فَلَمَّا تَأَيَّمْتُ خَطَبَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ فِي نَفَرٍ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم وَ خَطَبَنِي رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم عَلَى مَوْلاَهُ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ وَ كُنْتُ قَدْ حُدِّثْتُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ مَنْ أَحَبَّنِي فَلْيُحِبَّ أُسَامَةَ فَلَمَّا كَلَّمَنِي رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم قُلْتُ أَمْرِي بِيَدِكَ فَأَنْكِحْنِي مَنْ شِئْتَ فَقَالَ انْتَقِلِي إِلَى أُمِّ شَرِيكٍ وَ أُمُّ شَرِيكٍ امْرَأَةٌ غَنِيَّةٌ مِنَ الْأَنْصَارِ عَظِيمَةُ النَّفَقَةِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ يَنْزِلُ عَلَيْهَا الضِّيفَانُ فَقُلْتُ سَأَفْعَلُ فَقَالَ لاَ تَفْعَلِي إِنَّ أُمَّ شَرِيكٍ امْرَأَةٌ كَثِيرَةُ الضِّيفَانِ فَإِنِّي أَكْرَهُ أَنْ يَسْقُطَ عَنْكِ خِمَارُكِ أَوْ يَنْكَشِفَ الثَّوْبُ عَنْ سَاقَيْكِ فَيَرَى الْقَوْمُ مِنْكِ بَعْضَ مَا تَكْرَهِينَ وَ لَكِنِ انْتَقِلِي إِلَى ابْنِ عَمِّكِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو ابْنِ أُمِّ مَكْتُومٍ وَ هُوَ رَجُلٌ مِنْ بَنِي فِهْرٍ فِهْرِ قُرَيْشٍ وَ هُوَ مِنَ الْبَطْنِ الَّذِي هِيَ مِنْهُ فَانْتَقَلْتُ إِلَيْهِ فَلَمَّا انْقَضَتْ عِدَّتِي سَمِعْتُ نِدَائَ الْمُنَادِي مُنَادِي رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم يُنَادِي الصَّلاَةَ جَامِعَةً فَخَرَجْتُ إِلَى الْمَسْجِدِ فَصَلَّيْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فَكُنْتُ فِي صَفِّ النِّسَائِ الَّتِي تَلِي ظُهُورَ الْقَوْمِ فَلَمَّا قَضَى رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم صَلاَتَهُ جَلَسَ عَلَى الْمِنْبَرِ وَ هُوَ يَضْحَكُ فَقَالَ لِيَلْزَمْ كُلُّ إِنْسَانٍ مُصَلَّاهُ ثُمَّ قَالَ أَتَدْرُونَ لِمَ جَمَعْتُكُمْ ؟ قَالُوا اللَّهُ وَ رَسُولُهُ أَعْلَمُ قَالَ إِنِّي وَ اللَّهِ مَا جَمَعْتُكُمْ لِرَغْبَةٍ وَ لاَ لِرَهْبَةٍ وَ لَكِنْ جَمَعْتُكُمْ لِأَنَّ تَمِيمًا الدَّارِيَّ كَانَ رَجُلًا نَصْرَانِيًّا فَجَائَ فَبَايَعَ وَ أَسْلَمَ وَ حَدَّثَنِي حَدِيثًا وَ افَقَ الَّذِي كُنْتُ أُحَدِّثُكُمْ عَنْ مَسِيحِ الدَّجَّالِ حَدَّثَنِي أَنَّهُ رَكِبَ فِي سَفِينَةٍ بَحْرِيَّةٍ مَعَ ثَلاَثِينَ رَجُلًا مِنْ لَخْمٍ وَ جُذَامَ فَلَعِبَ بِهِمُ الْمَوْجُ شَهْرًا فِي الْبَحْرِ ثُمَّ أَرْفَئُوا إِلَى جَزِيرَةٍ فِي الْبَحْرِ حَتَّى مَغْرِبِ الشَّمْسِ فَجَلَسُوا فِي أَقْرُبِ السَّفِينَةِ فَدَخَلُوا الْجَزِيرَةَ فَلَقِيَتْهُمْ دَابَّةٌ أَهْلَبُ كَثِيرُ الشَّعَرِ لاَ يَدْرُونَ مَا قُبُلُهُ مِنْ دُبُرِهِ مِنْ كَثْرَةِ الشَّعَرِ فَقَالُوا وَيْلَكِ مَا أَنْتِ ؟ فَقَالَتْ أَنَا الْجَسَّاسَةُ قَالُوا وَ مَا الْجَسَّاسَةُ ؟ قَالَتْ أَيُّهَا الْقَوْمُ انْطَلِقُوا إِلَى هَذَا الرَّجُلِ فِي الدَّيْرِ فَإِنَّهُ إِلَى خَبَرِكُمْ بِالْأَشْوَاقِ قَالَ لَمَّا سَمَّتْ لَنَا رَجُلًا فَرِقْنَا مِنْهَا أَنْ تَكُونَ شَيْطَانَةً قَالَ فَانْطَلَقْنَا سِرَاعًا حَتَّى دَخَلْنَا الدَّيْرَ فَإِذَا فِيهِ أَعْظَمُ إِنْسَانٍ رَأَيْنَاهُ قَطُّ خَلْقًا وَ أَشَدُّهُ وِثَاقًا مَجْمُوعَةٌ يَدَاهُ إِلَى عُنُقِهِ مَا بَيْنَ رُكْبَتَيْهِ إِلَى كَعْبَيْهِ بِالْحَدِيدِ قُلْنَا وَيْلَكَ مَا أَنْتَ ؟ قَالَ قَدْ قَدَرْتُمْ عَلَى خَبَرِي فَأَخْبِرُونِي مَا أَنْتُمْ ؟ قَالُوا نَحْنُ أُنَاسٌ مِنَ الْعَرَبِ رَكِبْنَا فِي سَفِينَةٍ بَحْرِيَّةٍ فَصَادَفْنَا الْبَحْرَ حِينَ اغْتَلَمَ فَلَعِبَ بِنَا الْمَوْجُ شَهْرًا ثُمَّ أَرْفَأْنَا إِلَى جَزِيرَتِكَ هَذِهِ فَجَلَسْنَا فِي أَقْرُبِهَا فَدَخَلْنَا الْجَزِيرَةَ فَلَقِيَتْنَا دَابَّةٌ أَهْلَبُ كَثِيرُ الشَّعَرِ لاَ يُدْرَى مَا قُبُلُهُ مِنْ دُبُرِهِ مِنْ كَثْرَةِ الشَّعَرِ فَقُلْنَا وَيْلَكِ مَا أَنْتِ ؟ فَقَالَتْ أَنَا الْجَسَّاسَةُ ؟ قُلْنَا وَ مَا الْجَسَّاسَةُ قَالَتِ اعْمِدُوا إِلَى هَذَا الرَّجُلِ فِي الدَّيْرِ فَإِنَّهُ إِلَى خَبَرِكُمْ بِالْأَشْوَاقِ فَأَقْبَلْنَا إِلَيْكَ سِرَاعًا وَ فَزِعْنَا مِنْهَا وَ لَمْ نَأْمَنْ أَنْ تَكُونَ شَيْطَانَةً فَقَالَ أَخْبِرُونِي عَنْ نَخْلِ بَيْسَانَ قُلْنَا عَنْ أَيِّ شَأْنِهَا تَسْتَخْبِرُ ؟ قَالَ أَسْأَلُكُمْ عَنْ نَخْلِهَا هَلْ يُثْمِرُ ؟ قُلْنَا لَهُ نَعَمْ قَالَ أَمَا إِنَّهُ يُوشِكُ أَنْ لاَ تُثْمِرَ قَالَ أَخْبِرُونِي عَنْ بُحَيْرَةِ الطَّبَرِيَّةِ قُلْنَا عَنْ أَيِّ شَأْنِهَا تَسْتَخْبِرُ ؟ قَالَ هَلْ فِيهَا مَائٌ ؟ قَالُوا هِيَ كَثِيرَةُ الْمَائِ قَالَ أَمَا إِنَّ مَائَهَا يُوشِكُ أَنْ يَذْهَبَ قَالَ أَخْبِرُونِي عَنْ عَيْنِ زُغَرَ قَالُوا عَنْ أَيِّ شَأْنِهَا تَسْتَخْبِرُ ؟ قَالَ هَلْ فِي الْعَيْنِ مَائٌ ؟ وَ هَلْ يَزْرَعُ أَهْلُهَا بِمَائِ الْعَيْنِ ؟ قُلْنَا لَهُ نَعَمْ هِيَ كَثِيرَةُ الْمَائِ وَ أَهْلُهَا يَزْرَعُونَ مِنْ مَائِهَا قَالَ أَخْبِرُونِي عَنْ نَبِيِّ الْأُمِّيِّينَ مَا فَعَلَ ؟ قَالُوا قَدْ خَرَجَ مِنْ مَكَّةَ وَ نَزَلَ يَثْرِبَ قَالَ أَقَاتَلَهُ الْعَرَبُ قُلْنَا نَعَمْ قَالَ كَيْفَ صَنَعَ بِهِمْ فَأَخْبَرْنَاهُ أَنَّهُ قَدْ ظَهَرَ عَلَى مَنْ يَلِيهِ مِنَ الْعَرَبِ وَ أَطَاعُوهُ قَالَ لَهُمْ قَدْ كَانَ ذَلِكَ قُلْنَا نَعَمْ قَالَ أَمَا إِنَّ ذَاكَ خَيْرٌ لَهُمْ أَنْ يُطِيعُوهُ وَ إِنِّي مُخْبِرُكُمْ عَنِّي إِنِّي أَنَا الْمَسِيحُ [الدجال] وَ إِنِّي أُوشِكُ أَنْ يُؤْذَنَ لِي فِي الْخُرُوجِ فَأَخْرُجَ فَأَسِيرَ فِي الْأَرْضِ فَلاَ أَدَعَ قَرْيَةً إِلَّا هَبَطْتُهَا فِي أَرْبَعِينَ لَيْلَةً غَيْرَ مَكَّةَ وَ طَيْبَةَ فَهُمَا مُحَرَّمَتَانِ عَلَيَّ كِلْتَاهُمَا كُلَّمَا أَرَدْتُ أَنْ أَدْخُلَ وَاحِدَةً أَوْ وَاحِدًا مِنْهُمَا اسْتَقْبَلَنِي مَلَكٌ بِيَدِهِ السَّيْفُ صَلْتًا يَصُدُّنِي عَنْهَا وَ إِنَّ عَلَى كُلِّ نَقْبٍ مِنْهَا مَلاَئِكَةً يَحْرُسُونَهَا قَالَتْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم وَ طَعَنَ بِمِخْصَرَتِهِ فِي الْمِنْبَرِ هَذِهِ طَيْبَةُ هَذِهِ طَيْبَةُ هَذِهِ طَيْبَةُ يَعْنِي الْمَدِينَةَ أَلاَ هَلْ كُنْتُ حَدَّثْتُكُمْ ذَلِكَ؟ فَقَالَ النَّاسُ نَعَمْ فَإِنَّهُ أَعْجَبَنِي حَدِيثُ تَمِيمٍ أَنَّهُ وَافَقَ الَّذِي كُنْتُ أُحَدِّثُكُمْ عَنْهُ وَ عَنِ الْمَدِينَةِ وَ مَكَّةَ أَلاَ إِنَّهُ فِي بَحْرِ الشَّامِ أَوْ بَحْرِ الْيَمَنِ لاَ بَلْ مِنْ قِبَلِ الْمَشْرِقِ مَا هُوَ مِنْ قِبَلِ الْمَشْرِقِ مَا هُوَ مِنْ قِبَلِ الْمَشْرِقِ مَا هُوَ وَ أَوْمَأَ بِيَدِهِ إِلَى الْمَشْرِقِ قَالَتْ فَحَفِظْتُ هَذَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم


سیدنا عامر بن شراحیل شعبی (شعب ہمدان) سے روایت ہے ،انہوں نے فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنھا سے جو کہ سیدنا ضحاک بن قیس رضی اللہ عنہ کی بہن تھیں اور ان عورتوں میں سے تھیں جنہوں نے پہلے ہجرت کی تھی، کہا کہ مجھ سے ایک ایسی حدیث بیان کرو جو تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بلاواسطہ (براہ راست)سنی ہو ۔وہ بولیں کہ اچھا ! اگر تم یہ چاہتے ہو تو میں بیان کروں گی۔ انہوں نے کہا کہ ہاں بیان کرو۔ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنھا نے کہا کہ میں نے ابن مغیرہ سے نکاح کیا اور وہ ان دنوں قریش کے عمدہ جوانوں میں سے تھے، پھر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پہلے ہی جہاد میں شہید ہوگئے ۔ میں بیوہ ہو گئی تو مجھے عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے چند کے ساتھ آکر نکاح کا پیغام دیا او ر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مولیٰ اسامہ بن زید رضی اللہ عنھما کے لیے پیغام بھیجا اور میں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث سن چکی تھی کہ جو شخص مجھ سے محبت رکھے ،اس کو چاہیے کہ اسامہ رضی اللہ عنہ سے بھی محبت رکھے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے اس بارے میں گفتگو کی تو میں نے کہا کہ میرے کام کا اختیار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہے ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم جس سے چاہیں نکاح کر دیجیے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’ تم ام شریک کے گھر چلی جاؤ ۔‘‘ اور ام شریک انصار میں ایک مالد ار عورت تھی اور اللہ کی راہ میں بہت زیادہ خرچ کرتی تھیں، اس کے پاس مہمان اترتے تھے۔ میں نے عرض کی کہ بہت اچھا، میں ام شریک کے پاس چلی جاؤںگی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ام شریک کے پاس مت جا، اس کے پاس مہمان بہت آتے ہیں اور مجھے برا معلوم ہوتا ہے کہ کہیں تیری اوڑھنی گر جائے یا تیری پنڈلیوں پر سے کپڑا ہٹ جائے اور لوگ تیرے بدن میں سے وہ دیکھیں جو تجھے برا لگے ،تم اپنے چچا کے بیٹے عبداللہ بن عمرو ا بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کے پاس چلی جاؤ۔‘‘ اور وہ بنی فہر میں سے ایک شخص تھا اور فہر قریش کی ایک شاخ ہے اور وہ اس قبیلہ میں سے تھا جس میں سے سیدہ فاطمہ بھی تھیں۔پھر سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنھا نے کہا کہ میں ان کے گھر میں چلی گئی۔ جب میری عدت گزر گئی تو میں نے پکارنے والے کی آواز سنی اور وہ پکارنے والا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا منادی تھا ،وہ پلا رہا تھا کہ نماز کیلئے جمع ہو جاؤ۔ میں بھی مسجد کی طرف نکلی اور میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی۔ میں اس صف میں تھی جس میں عورتیں لوگوں کے پیچھے تھیں جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھ لی تو منبر پر بیٹھے اور آ پ صلی اللہ علیہ وسلم ہنس رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ہر ایک آدمی اپنی نماز کی جگہ پر رہے۔‘‘ پھر فرمایا: ’’تم جانتے ہو کہ میں نے تمہیں کیوں اکٹھا کیا ہے؟‘‘ صحابہyبولے کہ اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم خوب جانتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ کی قسم! میں نے تمہیں رغبت دلانے یا ڈرانے کے لییجمع نہیں کیا بلکہ اس لیے جمع کیا کہ تمیم داری ایک نصرانی تھا ، وہ آیا اور اس نے بیعت کی اور مسلمان ہوا اور مجھ سے ایک حدیث بیان کی جو اس حدیث کے موافق ہے جو میں تم سے دجال کے بارے میں بیان کیا کرتا تھا۔ اس نے بیان کیا کہ وہ یعنی تمیم رضی اللہ عنہ سمندر کے جہاز میں تیس آدمیوں کے ساتھ سوار ہوا جو لخم اور جذام کی قوم میں سے تھے، پس ان سے ایک مہینا بھر سمندر کی لہریںکھیلتی رہیں (یعنی شدت موج سے جہاز تباہ رہا) پھر وہ لوگ سمندر میں ڈوبتے سورج کی طرف ایک جزیرے کے کنارے جا لگے ۔پس وہ جہاز سے پلوار (یعنی چھوٹی کشتی) میں بیٹھے اور جزیرے میں داخل ہوگئے، وہاں ان کو ایک جانور ملا جو کہ بھاری دم، بہت بالوں والا کہ اس کا اگلا پچھلا حصہ بالوں کے ہجوم سے معلوم نہ ہوتا تھا۔ لوگوں نے اس سے کہا کہ اے کمبخت ! تو کیا چیز ہے؟ اس نے کہا کہ میں جاسوس ہوں۔ لوگوں نے کہا کہ جاسوس کیا؟ اس نے کہا کہ اس مرد کے پاس چلو جو دیر میں ہے، وہ تمہاری خبر کا بہت مشتاق ہے۔ تمیم رضی اللہ عنہ نے کہا کہ جب اس نے مرد کا نام لیا تو ہم اس جانور سے ڈرے کہ کہیں شیطان نہ ہو۔ تمیم نے کہا کہ پھر ہم دوڑتے ہوئے(یعنی جلدی سے)کہ دیر میں داخل ہوئے۔ دیکھا تو وہاں ایک بڑے قد کا آدمی ہے کہ ہم نے اتنا بڑا آدمی اور ویسا سخت جکڑا ہوا کبھی نہیں دیکھا۔ اس کے دونوں ہاتھ گردن کے ساتھ بندھے ہوئے تھے اور دونوں زانوؤں سے ٹخنوں تک لوہے سے جکڑا ہوا تھا۔ہم نے کہا کہ اے کمبخت! تو کیا چیز ہے؟ اس نے کہا تم میری خبر پر قابو پا گئے ہو (یعنی میرا حال تو تم کو اب معلوم ہو جائے گا) ،تم اپنا حال بتاؤ کہ تم کون ہو؟ لوگوں نے کہا کہ ہم عرب لوگ ہیں، سمندر میں جہاز میں سوار ہوئے تھے، لیکن جب ہم سوار ہوئے تو سمندر کو جوش میں پایا، پھر ایک مہینے کی مدت تک لہر ہم سے کھیلتی رہی،پھرہم اس جزیرے میں آ لگے تو چھوٹی کشتی میں بیٹھ کر ایک اورجزیرے میں داخل ہوئے، پس ہ میں ایک بھاری دم کا اور بہت بالوں والا جانور ملا، ہم اس کے بالوں کی کثرت کی وجہ سے اس کا اگلا پچھلا حصہ نہ پہچانتے تھے۔ ہم نے اس سے کہا کہ اے کمبخت! تو کیا چیز ہے؟ اس نے کہا کہ میں جاسوس ہوں۔ ہم نے کہا کہ جاسوس کیا؟ اس نے کہا کہ اس مرد کے پاس چلو جو دیر میں ہے اور تمہاری خبر کا بہت مشتاق ہے۔ پس ہم تیری طرف دوڑتے ہوئے آئے او رہم اس سے ڈرے کہ کہیں بھوت پریت نہ ہو۔ پھر اس مرد نے کہا کہ مجھے بیسان کے نخلستان کی خبر دو۔ ہم نے کہا کہ تو اس کا کونسا حال پوچھتا ہے؟ اس نے کہا کہ میں اس کے نخلستان کے بارے میں پوچھتا ہوں کہ پھلتا ہے؟ ہم نے اس سے کہا کہ ہاں پھلتا ہے۔ اس نے کہا کہ خبردار رہو عنقریب وہ نہ پھلے گا۔ اس نے کہا کہ مجھے طبرستان کے دریا کے بارے میں بتلاؤ۔ ہم نے کہا کہ تو اس دریا کا کونسا حال پوچھتا ہے؟ وہ بولا کہ اس میں پانی ہے؟ لوگوں نے کہا کہ اس میں بہت پانی ہے۔ اس نے کہا کہ البتہ اس کا پانی عنقریب ختم ہو جائے گا۔ پھر اس نے کہا کہ مجھے زغر کے چشمے کے بارے میں خبر دو۔ لوگوں نے کہا کہ اس کا کیا حال پوچھتا ہے؟ اس نے کہا کہ اس چشمہ میں پانی ہے اور وہاں کے لوگ اس پانی سے کھیتی کرتے ہیں؟ ہم نے اس سے کہا کہ ہاں! اس میں بہت پانی ہے اور وہاں کے لوگ اس کے پانی سے کھیتی کرتے ہیں۔ اس نے کہا کہ مجھے امیوں کے پیغمبر کے بارے میں خبر دو کہ وہ کیا ہے؟ لوگوں نے کہا کہ وہ مکہ سے نکلے ہیں اور مدینہ میں گئے ہیں۔ اس نے کہا کہ کیا عرب کے لوگ ان سے لڑے؟ ہم نے کہا کہ ہاں۔ اس نے کہا کہ انہوں نے عربوں کے ساتھ کیا کیا؟ ہم نے کہا کہ وہ اپنے گردو پیش کے عربوں پر غالب ہوئے اور انہوں نے ان کی اطاعت کی۔ اس نے کہا کہ یہ بات ہو چکی؟ ہم نے کہا کہ ہاں۔ اس نے کہا کہ خبردار رہو یہ بات ان کے حق میں بہتر ہے کہ پیغمبر کے تابعدار ہوں ۔ میں تم سے اپنا حال کہتا ہوں کہ میں مسیح (دجال)ہوں اور البتہ وہ زمانہ قریب ہے کہ جب مجھے نکلنے کی اجازت ہو گی۔ پس میں نکلوں گااور سیرکروں گا اور کسی بستی کو نہ چھوڑوں گا ،جہاں چالیس رات کے اندر نہ جاؤں ،سوائے مکہ اور طیبہ کے کہ وہاں جانا مجھ پر حرام ہے یعنی منع ہے۔ جب میں ان دونوں بستیوں میں سے کسی کے اندر جانا چاہوں گا تو میرے آگے ایک فرشتہ بڑھ آئے گا اوراس کے ہاتھ میں ننگی تلوار ہو گی، وہ مجھے وہاں جانے سے روک دے گا اور البتہ اس کے ہرایک ناکے پر فرشتے ہوں گے جو اس کی چوکیداری کریں گے۔‘‘ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنھا نے کہا کہ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی چھڑی منبر پر مارکر فرمایا: ’’ طیبہ یہی ہے، طیبہ یہی ہے، طیبہ یہی ہے۔ یعنی طیبہ سے مراد مدینہ منورہ ہے۔ خبردار رہو! بھلا میں تم کواس حال کی خبر دے نہیں چکا ہوں؟‘‘ تو اصحابy نے کہا کہ ہاں۔‘‘ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مجھے تمیم رضی اللہ عنہ کی بات اچھی لگی جو اس چیز کے موافق ہوئی جو میں نے تم لوگوں سے دجال اور مدینہ اور مکہ کے حال سے فرما دیا تھا۔ خبردار رہو کہ وہ شام یا یمن کے سمندر میں ہے؟ نہیں بلکہ وہ مشرق کی طرف ہے، وہ مشرق کی طرف ہے، وہ مشرق کی طرف ہے۔‘‘ (مشرق کی طرف بحر ہند ہے شاید دجال بحر ہند کے کسی جزیرہ میں ہو) اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرق کی طرف اشارہ کیا۔ سیدہ فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنھا نے کہا کہ یہ حدیث میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یاد رکھی ہے۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
(2055) عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم لَيْسَ مِنْ بَلَدٍ إِلَّا سَيَطَؤُهُ الدَّجَّالُ إِلَّا مَكَّةَ وَ الْمَدِينَةَ وَ لَيْسَ نَقْبٌ مِنْ أَنْقَابِهَا إِلَّا عَلَيْهِ الْمَلاَئِكَةُ صَافِّينَ تَحْرُسُهَا فَيَنْزِلُ بِالسِّبْخَةِ فَتَرْجُفُ الْمَدِينَةُ ثَلاَثَ رَجَفَاتٍ يَخْرُجُ إِلَيْهِ مِنْهَا كُلُّ كَافِرٍ وَ مُنَافِقٍ

سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کوئی شہر ایسا نہیں ہے جس میں دجال نہ آئے سوائے مکہ اور مدینہ کے اور ان کا کوئی راستہ نہیں ہو گا مگر فرشتے ان کے ہر راستے پر صف باندھے کھڑے ہوں گے اور چوکیداری کریں گے پھر دجال (مدینہ کے قریب) سبخہ شام پر اترے گا اور مدینہ تین بار کانپے گا (یعنی تین بار اس میں زلزلہ ہو گا) اور جو اس میں کافر یا منافق ہو گا،وہ نکل کردجال کے پاس چلا جائے گا۔‘‘
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بَابٌ : يَتْبَعُ الدَّجَّالَ مِنْ يَهُوْدِ أَصْبَهَانَ سَبْعُوْنَ أَلْفًا
اصبہان شہر کے ستر ہزاریہودی دجال کی پیروی کریں گے


(2056) عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ يَتْبَعُ الدَّجَّالَ مِنْ يَهُودِ أَصْبَهَانَ سَبْعُونَ أَلْفًا عَلَيْهِمُ الطَّيَالِسَةُ

سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اصفہان کے ستر ہزار یہودی سیاہ چادریں اوڑھے ہوئے دجال کی اتباع کریں گے۔ ‘‘
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بَابٌ : فِيْ فِرَارِ النَّاسِ مِنَ الدَّجَّالِ فِي الْجِبَالِ وَ قِلَّةِ الْعَرَبِ يَوْمَئِذٍ
لوگوں کا دجال سے بھاگ کر پہاڑوں میں چلے جاتے اور اس زمانہ میں عربوں کے کم ہونے کے متعلق


(2057) عَنْ أُمِّ شَرِيكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَنَّهَا سَمِعَتِ النَّبِيَّ صلی اللہ علیہ وسلم يَقُولُ لَيَفِرَّنَّ النَّاسُ مِنَ الدَّجَّالِ فِي الْجِبَالِ قَالَتْ أُمُّ شَرِيكٍ يَا رَسُولَ اللَّهِ ! فَأَيْنَ الْعَرَبُ يَوْمَئِذٍ ؟ قَالَ هُمْ قَلِيلٌ

سیدہ ام شریک رضی اللہ عنھا سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ،آ پ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے:’’ لوگ دجال سے (بچنے کے لیے)پہاڑوں میں بھاگ جائیں گے۔‘‘ ام شریک رضی اللہ عنھا نے کہا کہ یا رسول اللہ ! عرب کے لوگ اس دن کہاں ہوں گے؟ (یعنی وہ دجال سے مقابلہ کیوں نہ کریں گے؟) آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’عرب ان دنوں تھوڑے ہوں گے (اور دجال کے ساتھی کروڑوں)۔‘‘
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بَابٌ : مَا بَيْنَ خَلْقِ آدَمَ إِلَى قِيَامِ السَّاعَةِ خَلْقٌ أَكْبَرُ مِنَ الدَّجَّالِ
آدم علیہ السلام کی پیدائش سے قیامت تک دجال سے (شر و فساد کے لحاظ سے) بڑی کوئی مخلوق نہیں ہے


(2058) عَنْ حُمَيْدِ بْنِ هِلاَلٍ عَنْ رَهْطٍ مِنْهُمْ أَبُو الدَّهْمَائِ وَ أَبُو قَتَادَةَ قَالُوا كُنَّا نَمُرُّ عَلَى هِشَامِ بْنِ عَامِرٍ نَأْتِي عِمْرَانَ بْنَ حُصَيْنٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَقَالَ ذَاتَ يَوْمٍ إِنَّكُمْ لَتُجَاوِزُونِي إِلَى رِجَالٍ مَا كَانُوا بِأَحْضَرَ لِرَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم مِنِّي وَ لاَ أَعْلَمَ بِحَدِيثِهِ مِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم يَقُولُ مَا بَيْنَ خَلْقِ آدَمَ إِلَى قِيَامِ السَّاعَةِ خَلْقٌ أَكْبَرُ مِنَ الدَّجَّالِ

حمید بن ہلال ایک گروہ سے جن میں ابو الدہماء اور ابو قتادہ بھی شامل تھے، سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ ہم سیدنا ہشام بن عامر رضی اللہ عنہ کے سامنے سیدناعمران بن حصین رضی اللہ عنہ کے پاس جاتے تھے۔ ایک دن سیدنا ہشام نے کہا کہ تم آگے بڑھ کر ایسے لوگوں کے پاس جایا کرتے ہو جو مجھ سے زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر نہیں رہتے تھے اور نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کو مجھ سے زیادہ جانتے ہیں۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آ پ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے :’’آدم علیہ السلام کے وقت سے لے کر قیامت تک کوئی مخلوق (شر و فساد میں ) دجال سے بڑی نہیں ہے (سب سے زیادہ مفسد اور شریر دجال ہے)۔‘‘
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بَابٌ : نُزُوْلُ عِيْسَى ابْنِ مَرْيَمَ عَلَيْهِمَا السَّلاَمُ وَ كَسْرُ الصَّلِيْبِ وَ قَتْلُ الْخِنْزِيْرِ
عیسیٰ علیہ السلام کا نازل ہونا اور صلیب کا توڑنا اور خنزیر کا قتل ہونا


(2059) عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم وَ اللَّهِ لَيَنْزِلَنَّ ابْنُ مَرْيَمَ حَكَمًا عَادِلًا فَلَيَكْسِرَنَّ الصَّلِيبَ وَ لَيَقْتُلَنَّ الْخِنْزِيرَ وَ لَيَضَعَنَّ الْجِزْيَةَ وَ لَتُتْرَكَنَّ الْقِلاَصُ فَلاَ يُسْعَى عَلَيْهَا وَ لَتَذْهَبَنَّ الشَّحْنَائُ وَ التَّبَاغُضُ وَ التَّحَاسُدُ وَ لَيَدْعُوَنَّ إِلَى الْمَالِ فَلاَ يَقْبَلُهُ أَحَدٌ


سیدناابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’اللہ کی قسم! مریم [کے بیٹے (آسمان سے) اتریں گے اور وہ حاکم ہوں گے، عدل کریں گے، صلیب کو توڑ ڈالیں گے، خنزیر کو مار ڈالیں گے اور جزیہ لینا موقوف کر دیں گے اور جوان اونٹ کو چھوڑ دیا جائے گا،پھر کوئی اس پر محنت نہ کرے گا اور لوگوں کے دلوں میں سے بخل، دشمنی اور حسد جاتی رہیں گے اور وہ لوگوں کو مال دینے کے لیے بلائیں گے لیکن کوئی قبول نہ کرے گا۔‘‘ (اس وجہ سے کہ حاجت نہ ہو گی اور مال کثرت سے ہر ایک کے پاس ہو گا)۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604

(2060) عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ كَيْفَ أَنْتُمْ إِذَا نَزَلَ فِيكُمُ ابْنُ مَرْيَمَ فَأَمَّكُمْ مِنْكُمْ ؟ فَقُلْتُ لِابْنِ أَبِي ذِئْبٍ إِنَّ الْأَوْزَاعِيَّ حَدَّثَنَا عَنِ الزُّهْرِيِّ عَنْ نَافِعٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ وَ إِمَامُكُمْ مِنْكُمْ قَالَ ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ تَدْرِي مَا أَمَّكُمْ مِنْكُمْ؟ قُلْتُ تُخْبِرُنِي قَالَ فَأَمَّكُمْ بِكِتَابِ رَبِّكُمْ وَ سُنَّةِ نَبِيِّكُمْ صلی اللہ علیہ وسلم

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تمہارا کیا حال ہو گا جب مریم [کے بیٹے (آسمان سے) اتریں گے، پھر تم لوگوں میں سے ہی تمہارے لوگ امامت کریں گے۔‘‘ (راوی ولید بن مسلم نے کہا) میں نے ابن ابی ذئب سے کہا ،مجھ سے اوزاعی نے حدیث بیان کی زہری سے، انہوں نے نافع سے اور انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ، اس میں یہ ہے کہ تمہارا امام تم ہی میں سے ہو گا۔ ‘‘ ابن ابی ذئب نے کہا تو جانتا ہے کہ اس کا مطلب کیا ہے کہ تمہاری امامت تمہی لوگوں میں سے کریں گے؟۔ میں نے کہا کہ آپ ہی بتلائیے ،تو انہوں نے کہا عیسیٰعلیہ السلام تمہارے پیغمبر کی سنت سے تمہاری امامت کریں گے۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604


(2061) عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صلی اللہ علیہ وسلم يَقُولُ لاَ تَزَالُ طَائِفَةٌ مِنْ أُمَّتِي يُقَاتِلُونَ عَلَى الْحَقِّ ظَاهِرِينَ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ قَالَ فَيَنْزِلُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ عَلَيْهِمَا السَّلاَمُ فَيَقُولُ أَمِيرُهُمْ تَعَالَ صَلِّ لَنَا فَيَقُولُ لاَ إِنَّ بَعْضَكُمْ عَلَى بَعْضٍ أُمَرَائُ تَكْرِمَةَ اللَّهِ هَذِهِ الْأُمَّةَ

سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنھما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے : ’’قیامت تک میری امت میں سے ایک گروہ (کافروں اور مخالفوں سے) ہمیشہ حق (بات) پر لڑتا رہے گا، وہ (گروہ) غالب رہے گا۔ پھر عیسیٰ ابن مریم علیہما السلام اتریں گے اور اس گروہ کا امام (عیسیٰ علیہ السلام سے) کہے گا کہ آیے نماز پڑھایے۔ وہ کہیں گے نہیں، تم میں سے ایک دوسروں پر حاکم رہیں۔ یہ وہ بزرگی ہے جو اللہ تعالیٰ اس امت کو عنایت فرمائے گا۔
 
Top