• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

صحیح مسلم

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بَابٌ : اَلتَّرْغِيْبُ فِي الدُّعَائِ وَ الذِّكْرِ فِيْ آخِرِ اللَّيْلِ والإِجَابَةُ فِيْهِ

رات کے آخری حصہ میں دعا اور ذکر کی ترغیب اور اس میں دعا کی قبولیت کا بیان



(389) عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ يَنْزِلُ اللَّهُ إِلَى السَّمَائِ الدُّنْيَا كُلَّ لَيْلَةٍ حِينَ يَمْضِي ثُلُثُ اللَّيْلِ الأَوَّلُ فَيَقُولُ أَنَا الْمَلِكُ أَنَا الْمَلِكُ مَنْ ذَا الَّذِي يَدْعُونِي فَأَسْتَجِيبَ لَهُ ؟ مَنْ ذَا الَّذِي يَسْأَلُنِي فَأُعْطِيَهُ ؟ مَنْ ذَا الَّذِي يَسْتَغْفِرُنِي فَأَغْفِرَ لَهُ ؟ فَلاَ يَزَالُ كَذَلِكَ حَتَّى يُضِيئَ الْفَجْرُ

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب اول تہائی رات گزر جاتی ہے تو اللہ تعالیٰ ہر رات آسمان دنیا کی طرف اترتا ہے اور فرماتا ہے :’’میں بادشاہ ہوں‘‘ ’’میں بادشاہ ہوں‘‘ کون ہے جو مجھ سے دعا کرے کہ میں قبول کروں؟ کون ہے جو مجھ سے مانگے کہ میں اسے دوں؟ کون ہے جو مجھ سے مغفرت مانگے کہ میں اسے بخش دوں؟‘‘ غرض کہ صبح روشن ہونے تک ایسا ہی فرماتا رہتا ہے۔ ‘‘
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بَابٌ : جَامِعُ صَلاَةِ اللَّيْلِ وَ مَنْ نَامَ عَنْهُ أَوْ مَرِضَ

رات کی نماز کا جامع بیان اور جو شخص اس سے سو جائے یا بیمار ہو جائے



(390) عَنْ زُرَارَةَ أَنَّ سَعْدَ بْنَ هِشَامِ بْنِ عَامِرٍ أَرَادَ أَنْ يَغْزُوَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَقَدِمَ الْمَدِينَةَ فَأَرَادَ أَنْ يَبِيعَ عَقَارًا لَهُ بِهَا فَيَجْعَلَهُ فِي السِّلاَحِ وَالْكُرَاعِ وَ يُجَاهِدَ الرُّومَ حَتَّى يَمُوتَ فَلَمَّا قَدِمَ الْمَدِينَةَ لَقِيَ أُنَاسًا مِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ فَنَهَوْهُ عَنْ ذَلِكَ وَ أَخْبَرُوهُ أَنَّ رَهْطًا سِتَّةً أَرَادُوا ذَلِكَ فِي حَيَاةِ نَبِيِّ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فَنَهَاهُمْ نَبِيُّ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم وَ قَالَ أَلَيْسَ لَكُمْ فِيَّ أُسْوَةٌ ؟ فَلَمَّا حَدَّثُوهُ بِذَلِكَ رَاجَعَ امْرَأَتَهُ وَ قَدْ كَانَ طَلَّقَهَا وَ أَشْهَدَ عَلَى رَجْعَتِهَا فَأَتَى ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا فَسَأَلَهُ عَنْ وِتْرِ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ أَلاَ أَدُلُّكَ عَلَى أَعْلَمِ أَهْلِ الأَرْضِ بِوِتْرِ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم ؟ قَالَ مَنْ ؟ قَالَ عَائِشَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا فَأْتِهَا فَاسْأَلْهَا ثُمَّ ائْتِنِي فَأَخْبِرْنِي بِرَدِّهَا عَلَيْكَ فَانْطَلَقْتُ إِلَيْهَا فَأَتَيْتُ عَلَى حَكِيمِ بْنِ أَفْلَحَ فَاسْتَلْحَقْتُهُ إِلَيْهَا فَقَالَ مَا أَنَا بِقَارِبِهَا لِأَنِّي نَهَيْتُهَا أَنْ تَقُولَ فِي هَاتَيْنِ الشِّيعَتَيْنِ شَيْئًا فَأَبَتْ فِيهِمَا إِلاَّ مُضِيًّا قَالَ فَأَقْسَمْتُ عَلَيْهِ فَجَائَ فَانْطَلَقْنَا إِلَى عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا فَاسْتَأْذَنَّا عَلَيْهَا فَأَذِنَتْ لَنَا فَدَخَلْنَا عَلَيْهَا فَقَالَتْ أَ حَكِيمٌ؟ فَعَرَفَتْهُ فَقَالَ نَعَمْ فَقَالَتْ مَنْ مَعَكَ ؟ قَالَ سَعْدُ بْنُ هِشَامٍ قَالَتْ مَنْ هِشَامٌ ؟ قَالَ ابْنُ عَامِرٍ فَتَرَحَّمَتْ عَلَيْهِ وَ قَالَتْ خَيْرًا قَالَ قَتَادَةُ وَ كَانَ أُصِيبَ يَوْمَ أُحُدٍ فَقُلْتُ يَا أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ أَنْبِئِينِي عَنْ خُلُقِ رَسُولِ اللَّهِصلی اللہ علیہ وسلم قَالَتْ أَ لَسْتَ تَقْرَأُ الْقُرْآنَ ؟ قُلْتُ بَلَى قَالَتْ فَإِنَّ خُلُقَ نَبِيِّ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم كَانَ الْقُرْآنَ قَالَ فَهَمَمْتُ أَنْ أَقُومَ وَ لاَ أَسْأَلَ أَحَدًا عَنْ شَيْئٍ حَتَّى أَمُوتَ ثُمَّ بَدَا لِي فَقُلْتُ أَنْبِئِينِي عَنْ قِيَامِ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم ؟ فَقَالَتْ أَ لَسْتَ تَقْرَأُ يَا أَيُّهَا الْمُزَّمِّلُ ؟ قُلْتُ بَلَى قَالَتْ فَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ افْتَرَضَ قِيَامَ اللَّيْلِ فِي أَوَّلِ هَذِهِ السُّورَةِ فَقَامَ نَبِيُّ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم وَ أَصْحَابُهُ حَوْلاً وَ أَمْسَكَ اللَّهُ خَاتِمَتَهَا اثْنَيْ عَشَرَ شَهْرًا فِي السَّمَائِ حَتَّى أَنْزَلَ اللَّهُ فِي آخِرِ هَذِهِ السُّورَةِ التَّخْفِيفَ فَصَارَ قِيَامُ اللَّيْلِ تَطَوُّعًا بَعْدَ فَرِيضَةٍ قَالَ قُلْتُ يَا أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ أَنْبِئِينِي عَنْ وِتْرِ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فَقَالَتْ كُنَّا نُعِدُّ لَهُ سِوَاكَهُ وَ طَهُورَهُ فَيَبْعَثُهُ اللَّهُ مَا شَائَ أَنْ يَبْعَثَهُ مِنَ اللَّيْلِ فَيَتَسَوَّكُ وَ يَتَوَضَّأُ وَ يُصَلِّي تِسْعَ رَكَعَاتٍ لاَ يَجْلِسُ فِيهَا إِلاَّ فِي الثَّامِنَةِ فَيَذْكُرُ اللَّهَ وَ يَحْمَدُهُ وَ يَدْعُوهُ ثُمَّ يَنْهَضُ وَ لاَ يُسَلِّمُ ثُمَّ يَقُومُ فَيُصَلِّى التَّاسِعَةَ ثُمَّ يَقْعُدُ فَيَذْكُرُ اللَّهَ وَ يَحْمَدُهُ وَ يَدْعُوهُ ثُمَّ يُسَلِّمُ تَسْلِيمًا يُسْمِعُنَا ثُمَّ يُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ بَعْدَ مَا يُسَلِّمُ وَ هُوَ قَاعِدٌ وَ تِلْكَ إِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً يَا بُنَيَّ فَلَمَّا سَنَّ نَبِيُّ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم وَ أَخَذَهُ اللَّحْمُ أَوْتَرَ بِسَبْعٍ وَصَنَعَ فِي الرَّكْعَتَيْنِ مِثْلَ صَنِيعِهِ الأَوَّلِ فَتِلْكَ تِسْعٌ يَا بُنَيَّ وَ كَانَ نَبِيُّ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم إِذَا صَلَّى صَلاَةً أَحَبَّ أَنْ يُدَاوِمَ عَلَيْهَا وَ كَانَ إِذَا غَلَبَهُ نَوْمٌ أَوْ وَجَعٌ عَنْ قِيَامِ اللَّيْلِ صَلَّى مِنَ النَّهَارِ ثِنْتَيْ عَشْرَةَ رَكْعَةً وَ لاَ أَعْلَمُ نَبِيَّ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم قَرَأَ الْقُرْآنَ كُلَّهُ فِي لَيْلَةٍ وَ لاَ صَلَّى لَيْلَةً إِلَى الصُّبْحِ وَ لاَ صَامَ شَهْرًا كَامِلاً غَيْرَ رَمَضَانَ قَالَ فَانْطَلَقْتُ إِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا فَحَدَّثْتُهُ بِحَدِيثِهَا فَقَالَ صَدَقَتْ لَوْ كُنْتُ أَقْرَبُهَا أَوْ أَدْخُلُ عَلَيْهَا لَأَتَيْتُهَا حَتَّى تُشَافِهَنِي بِهِ قَالَ قُلْتُ لَوْ عَلِمْتُ أَنَّكَ لاَ تَدْخُلُ عَلَيْهَا مَا حَدَّثْتُكَ حَدِيثَهَا

زرارہ سے روایت ہے کہ سیدنا سعد بن ہشام بن عامر نے چاہا کہ اللہ کی راہ میں جہاد کرے اور مدینہ کو آئے اور مدینہ میں اپنی زمین اور باغ وغیرہ فروخت کریں تاکہ اس سے ہتھیار اور گھوڑے خریدیں اور نصاریٰ سے مرتے دم تک لڑیں۔ پھر جب مدینہ آئے اور مدینہ والوں سے ملے تو انہوں نے ان کو منع کیا، (یعنی بالکل کاروبار دنیا اور ضروریات بشری چھوڑ کر ایسا نہ کرنا چاہیے) اور خبر دی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں چھ آدمیوں نے اس کا ارادہ کیا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو منع کیا اور فرمایا:’’ کیا تمہارے لیے میری زندگی میں بہترین اسوہ نہیں؟‘‘ پھر جب لوگوں نے ان سے یہ کہا تو انہوں نے اپنی بیوی سے جس کو طلاق دے چکے تھے، گواہوں کی موجودگی میں رجوع کر لیا۔ پھر وہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنھما کے پاس آئے اور ان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وتر کا حال پوچھا تو انہوں نے کہا کہ میں تمہیں ایسا شخص نہ بتا دوں کہ جو ساری زمین کے لوگوں سے زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وتر کا حال بہتر جانتا ہے؟ انہوں نے کہا کہ کون ہے؟ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ وہ ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا ہیں، سو تم ان کے پاس جاؤ، ان سے پوچھو اور پھر ان کے جواب سے مجھے بھی آ کر مطلع کر دینا۔ پھر میں (سعد بن ہشام) ان کے پاس سے چلا اور حکیم بن افلح کے پاس آیا اور ان سے چاہا کہ وہ مجھے ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا کے پاس لے چلیں۔ انہوںنے کہا کہ میںا ن کے پاس نہیں جاتا اس لیے کہ میں نے انہیں ان دونوں گروہوں (یعنی صحابہ رضی اللہ علیھم اجمعین کی آپس کی لڑائیوں) میں بولنے سے منع کیا تھا مگر انہوں نے نہ مانا اور چلی گئیں۔ (سعد بن ہشام )نے کہا کہ میں نے حکیم کو قسم دی تو وہ تیار ہو گئے اور ہم (دونوں) ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا کی طرف چلے اور انہیں اطلاع کی تو انہوں نے اجازت دے دی اور ہم ان کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ تب انہوںنے کہا کہ کیا یہ حکیم ہیں؟ انہوں نے کہا ہاں۔ غرض ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا نے انہیں پہچان لیا۔ (یعنی آواز وغیرہ سے پردہ کی آڑ سے) پھر انہوں نے فرمایا:’’ تمہارے ساتھ کون ہے؟ سی‎‘‹نا حکیم نے کہا کہ میرے ساتھ سعد بن ہشام ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہشام کون سے؟ حکیم نے کہا کہ عامر کے بیٹے۔ تب ان پر رحمت کی دعا کی اور قتادہ نے کہا کہ وہ جنگ احد میں شہید ہوئے تھے۔ پھرمیں(سعد بن ہشام)نے عرض کی کہ اے ام المومنین! مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کے بارے میں بتلایے؟ انہوں نے کہا کہ کیا تم نے قرآن نہیں پڑھا؟ میں (سعد) نے کہا کہ کیوں نہیں؟ انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اخلاق قرآن تھا۔ انہوں نے کہا کہ پھر میں نے چلنے کا ارادہ کیا اورچاہا کہ موت کے وقت تک اب کسی چیز کے بارے میںنہ پوچھوں۔ پھر مجھے خیال آیا تومیں نے عرض کی کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رات کے وقت اٹھنے (اور نماز پڑھنے) کے بارے میں بتلایے۔ تو ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا نے کہا کہ کیا تم نے یَآایُّہَا الْمُزَمِّلُ نہیں پڑھی؟ میں نے کہا کہ کیوں نہیں۔ انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے اس سورت کے شروع میں رات کو کھڑے ہو کر (نماز) پڑھنے کو فرض کیا۔ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ علیھم اجمعین رات کو نماز پڑھتے رہے اور اللہ تعالیٰ نے اس سورت کا خاتمہ (آخری آیتیں) بارہ مہینے تک آسمان پر روکے رکھا، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اس سورت کا آخر اتارا اور اس میں تخفیف فرمائی۔ (یعنی تہجد کی فرضیت معاف کر دی اور مسنون ہونا باقی رہا) پھر رات کو نماز (تہجد) پڑھنا فرض ہونے کے بعد خوشی کا سودا ہو گیا (نفل ہو گیا)۔ پھر میں نے عرض کی کہ اے ام المومنین! مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وتر کے بارے میں بھی بتلایے، تو انہوں نے کہا کہ ہم لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے مسواک اور وضو کا پانی تیار رکھتے تھے اور اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو رات کو جب چاہتا اٹھادیتا تھا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسواک کرتے تھے اور وضو کرتے، پھر نو رکعت پڑھتے تھے۔اس میں نہ بیٹھتے مگر آٹھویں رکعت میںاور اللہ تعالیٰ کو یاد کرتے اور اس کی حمد و ثناء کرتے اور دعا کرتے (یعنی تشہد پڑھتے) پھر سلام نہ پھیرتے اور کھڑے ہو جاتے اور نویں رکعت پڑھتے، پھر بیٹھتے اور اللہ کو یاد کرتے اور اس کی تعریف کرتے اور اس سے دعا کرتے اور اس طرح سلام پھیرتے کہ ہم کو سنا دیتے۔ (تا کہ سوتے جاگ اٹھیں) پھر سلام کے بعد بیٹھے بیٹھے دو رکعت پڑھتے، غرض یہ گیارہ رکعات ہوئیں۔ اے میرے بیٹے! پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر مبارک زیادہ ہو گئی اور بدن میں گوشت آ گیا تو سات رکعت وتر پڑھنے لگے اور رکعتیں ویسی ہی پڑھتے جیسی پہلے پڑھتے تھے۔ غرض یہ سب نو رکعتیں ہوئیں۔ اے میرے بیٹے! (یعنی سات وتر اور تہجد اور دو رکعت وتر کے بعد) اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت تھی کہ جب کوئی نماز پڑھتے تو اس پر ہمیشگی کرتے اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نیند یا کسی درد کا غلبہ ہوتا جس کی وجہ سے رات کو نہ اٹھ سکتے تو دن کو بارہ رکعات ادا کرتے (یعنی وتر نہ پڑھتے اس سے ثابت ہوا کہ وتر کی قضا نہیں) اور میں نہیں جانتی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی سارا قرآن ایک رات میں پڑھ لیا ہو (اس سے ایک شب میں قرآن ختم کرنا بدعت ثابت ہوا) نہ یہ جانتی ہوں کہ ساری رات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح تک نماز پڑھی (یعنی ذرا بھی نہ سوئے نہ آرام کیا ہو) اور نہ یہ کہ رمضان کے سوا (کوئی اور) سارا مہینہ روزہ رکھا ہو۔ پھر میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنھما کے پاس گیا اور ان سے یہ ساری حدیث بیان کی توانہوںنے کہا کہ بے شک ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا نے سچ فرمایا اور کہا کہ اگر میں ان کے پاس ہوتا یا ان کے پاس جاتا تو یہ حدیث بالمشافہ سنتا۔ سعد نے کہا کہ اگر مجھے یہ معلوم ہوتا کہ آپ ان کے پاس نہیں جاتے تو میں کبھی ان کی بات آپ سے نہ کہتا۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بَابٌ : فِيْ صَلاَةِ الْوِتْرِ

نماز وتر کے بارے میں



(391) عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ مِنْ كُلِّ اللَّيْلِ قَدْ أَوْتَرَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم مِنْ أَوَّلِ اللَّيْلِ وَ أَوْسَطِهِ وَ آخِرِهِ فَانْتَهَى وِتْرُهُ إِلَى السَّحَرِ

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وتر اول رات میں اور درمیان میں اور آخر رات میں سب وقتوں میں ادا کیے ہیں، یہاں تک کہ فجر کے وقت تک ۔ ‘‘
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بَابٌ : فِي الْوِتْرِ وَ رَكْعَتَيِ الْفَجْرِ

وتر اور فجر کی دو سنتوں کے بارے میں



(392) عَنْ أَنَسِ بْنِ سِيرِينَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ سَأَلْتُ ابْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قُلْتُ أَرَأَيْتَ الرَّكْعَتَيْنِ قَبْلَ صَلاَةِ الْغَدَاةِ أُطِيلُ فِيهِمَا الْقِرَائَةَ ؟ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم يُصَلِّي مِنَ اللَّيْلِ مَثْنَى مَثْنَى وَ يُوتِرُ بِرَكْعَةٍ قَالَ قُلْتُ إِنِّي لَسْتُ عَنْ هَذَا أَسْأَلُكَ قَالَ إِنَّكَ لَضَخْمٌ أَلاَ تَدَعُنِي أَسْتَقْرِئُ لَكَ الْحَدِيثَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم يُصَلِّي مِنَ اللَّيْلِ مَثْنَى مَثْنَى وَ يُوتِرُ بِرَكْعَةٍ وَ يُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ قَبْلَ الْغَدَاةِ كَأَنَّ الأَذَانَ بِأُذُنَيْهِ

سیدنا انس بن سیرین رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنھما سے پوچھا کہ مجھے صبح کی نماز سے پہلے کی دو رکعتوں کے بارے میں بتلایے، کیا میں ان میں طویل قرأت کروں؟ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھما نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو دو دو رکعت پڑھا کرتے تھے اور وتر ایک رکعت پڑھتے تھے۔ (ابن سیرین)کہتے ہیں کہ میں نے کہا کہ میں یہ نہیں پوچھتا۔ سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تم موٹے آدمی ہو (یعنی موٹی عقل والے ہو کہ بات کے درمیان ہی میں بول اٹھے) کیا تم مجھے (پوری) حدیث بیان کرنے کی فرصت نہیں دیتے ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو دو دو رکعت پڑھتے تھے اور ایک وتر ادا کرتے تھے ،اور دو رکعت صبح کی فرض نماز سے پہلے ایسے وقت پڑھتے گویا کہ تکبیر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کان میں ہوتی۔ (یعنی تکبیر ہونے کے بالکل قریب پڑھتے اور ظاہر ہے کہ اس وقت جو نماز ہو گی نہایت خفیف ہو گی)۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بَابٌ : مَنْ خَافَ أَنْ لاَ يَقُوْمَ مِنْ آخِرِ اللَّيْلِ فَلْيُوْتِرْ أَوَّلَهُ

جس کو ڈر ہے کہ وہ آخر رات نہیں اٹھ سکے گا تو وہ وتر کو اول رات میں پڑھ لے



(393) عَنْ جَابِرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم مَنْ خَافَ أَنْ لاَ يَقُومَ مِنْ آخِرِ اللَّيْلِ فَلْيُوتِرْ أَوَّلَهُ وَ مَنْ طَمِعَ أَنْ يَقُومَ آخِرَهُ فَلْيُوتِرْ آخِرَ اللَّيْلِ فَإِنَّ صَلاَةَ آخِرِ اللَّيْلِ مَشْهُودَةٌ وَ ذَلِكَ أَفْضَلُ
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس کو اس بات کا خوف ہو کہ آخر شب میں نہ اٹھ سکے گا تو اول شب میں (عشاء کے بعد) وتر پڑھ لے اور جس کو امید ہو کہ آخر شب میں اٹھے گا تو چاہیے کہ وتر آخر شب میں پڑھے، اس لیے کہ شب کی نماز ایسی ہے کہ اس میں فرشتے حاضر ہوتے ہیں اور یہ افضل ہے۔ ‘‘
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بَابٌ : اَوْتِرُوْا قَبْلَ أَنْ تُصْبِحُوْا

صبح سے پہلے وتر پڑھ لیا کرو



(394) عَنْ أَبِي سَعِيدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ النَّبِيَّ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ أَوْتِرُوا قَبْلَ أَنْ تُصْبِحُوا

سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’صبح کرنے سے پہلے وتر پڑھ لیا کرو۔‘‘
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بَابٌ : فَضْلُ قِرَائَةِ الْقُرْآنِ فِي الصَّلاَةِ

نماز میں قرآن مجید پڑھنے کی فضیلت



(395) عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ إِذَا رَجَعَ إِلَى أَهْلِهِ أَنْ يَجِدَ فِيهِ ثَلاَثَ خَلِفَاتٍ عِظَامٍ سِمَانٍ ؟ قُلْنَا نَعَمْ قَالَ فَثَلاَثُ آيَاتٍ يَقْرَأُ بِهِنَّ أَحَدُكُمْ فِي صَلاَتِهِ خَيْرٌ لَهُ مِنْ ثَلاَثِ خَلِفَاتٍ عِظَامٍ سِمَانٍ

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ کیا تم میں سے کوئی یہ پسند کرتا ہے کہ جب وہ اپنے گھر کی طرف لوٹے تو اس میں تین موٹی حاملہ اونٹنیاں پائے؟ ‘‘ ہم نے عرض کی کہ جی ہاں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’تم میں سے کسی کا نماز میں تین آیات کا پڑھنا تین فربہ حاملہ اونٹنیوں سے بہتر ہے۔‘‘
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بَابٌ : فِيْ النَّظَائِرِ الَّتِيْ يَقْرَأُ سُوْرَتَيْنِ فِيْ رَكْعَةٍ

ان ایک جیسی سورتوں کے متعلق جن میں سے دو سورتیں ایک رکعت میں پڑھے گا



(396) عَنْ أَبِي وَائِلٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ غَدَوْنَا عَلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَوْمًا بَعْدَ مَا صَلَّيْنَا الْغَدَاةَ فَسَلَّمْنَا بِالْبَابِ فَأَذِنَ لَنَا قَالَ فَمَكَثْنَا بِالْبَابِ هُنَيَّةً قَالَ فَخَرَجَتِ الْجَارِيَةُ فَقَالَتْ أَلاَ تَدْخُلُونَ ؟ فَدَخَلْنَا فَإِذَا هُوَ جَالِسٌ يُسَبِّحُ فَقَالَ مَا مَنَعَكُمْ أَنْ تَدْخُلُوا وَ قَدْ أُذِنَ لَكُمْ ؟ فَقُلْنَا لاَ إِلاَّ أَنَّا ظَنَنَّا أَنَّ بَعْضَ أَهْلِ الْبَيْتِ نَائِمٌ قَالَ ظَنَنْتُمْ بِآلِ ابْنِ أُمِّ عَبْدٍ غَفْلَةً ؟ قَالَ ثُمَّ أَقْبَلَ يُسَبِّحُ حَتَّى ظَنَّ أَنَّ الشَّمْسَ قَدْ طَلَعَتْ فَقَالَ يَا جَارِيَةُ انْظُرِي هَلْ طَلَعَتْ ؟ قَالَ فَنَظَرَتْ فَإِذَا هِيَ لَمْ تَطْلُعْ فَأَقْبَلَ يُسَبِّحُ حَتَّى إِذَا ظَنَّ أَنَّ الشَّمْسَ قَدْ طَلَعَتْ ؟ قَالَ يَا جَارِيَةُ انْظُرِي هَلْ طَلَعَتْ؟ فَنَظَرَتْ فَإِذَا هِيَ قَدْ طَلَعَتْ فَقَالَ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَقَالَنَا يَوْمَنَا هَذَا فَقَالَ مَهْدِيٌّ وَ أَحْسِبُهُ قَالَ وَ لَمْ يُهْلِكْنَا بِذُنُوبِنَا قَالَ فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ قَرَأْتُ الْمُفَصَّلَ الْبَارِحَةَ كُلَّهُ قَالَ فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ هَذًّا كَهَذِّ الشِّعْرِ إِنَّا لَقَدْ سَمِعْنَا الْقَرَائِنَ وَ إِنِّي لَأَحْفَظُ الْقَرَائِنَ الَّتِي كَانَ يَقْرَؤُهُنَّ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم ثَمَانِيَةَ عَشَرَ مِنَ الْمُفَصَّلِ وَ سُورَتَيْنِ مِنَ الٓ حَمٓ

سیدنا ابووائل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم ایک دن فجر کی نماز پڑھ کر صبح صبح عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے گھر گئے۔پس ہم نے دروازے پر کھڑے ہو کر سلام کہا تو ہمیں اجازت دیدی گئی۔ ابووائل کہتے ہیں کہ ہم تھوڑی دیر دروازے پر ٹھہرے رہے تو ایک بچی نکلی، کہنے لگی کہ آپ اندر داخل کیوں نہیں ہوتے؟ چنانچہ ہم اندر داخل ہو گئے تو دیکھا کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیٹھے تسبیح پڑھ رہے تھے، فرمانے لگے کہ جب تمہیں اجازت دیدی گئی تھی تو تمہیں اندر داخل ہونے سے کس چیز نے روکا؟ ہم نے کہا اور کچھ نہیں ہم نے خیال کیا کہ آپ کے بعض گھر والے سوئے ہوں گے۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرمانے لگے کہ تم نے ابن ام عبد کے اہل خانہ کو غافل خیال کیا ہے؟ پھر وہ تسبیح میں مشغول ہو گئے یہاں تک کہ انہوں نے گمان کیا کہ سورج نکل آیا ہے۔ آپ نے بچی سے کہا دیکھو سورج نکل آیا ہے؟ ابووائل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں پس اس نے دیکھ کر کہا کہ نہیں ابھی سورج طلوع نہیں ہوا۔ وہ پھر تسبیح میں مشغول ہو گئے یہاں تک کہ انہوں نے گمان کیا کہ سورج نکل آیا ہے۔ آپ نے پھر بچی سے کہا ، دیکھو سورج نکل آیا ہے؟ تو اس نے دیکھ کر کہا ، جی ہاں سورج طلوع ہو چکا ہے۔ تو فرمانے لگے :’’ تمام تعریف اللہ رب العالمین کے لیے ہے جس نے معاف کر دیا ہم کو ہمارے اس دن میں۔‘‘ مہدی (ایک راوی)کہتے ہیں، میرا خیال ہے کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا ’’اور ہمیں ہمارے گناہوں کے سبب ہلاک نہیں کیا۔‘‘ تو لوگوں میں سے ایک آدمی نے کہا کہ میں نے آج کی رات ساری کی ساری مفصل سورتیں پڑھی ہیں۔ تو عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا’’تم نے ایسے پڑھا جیسا کوئی شعر پڑھتا ہے ۔‘‘ ہم نے البتہ قرائن کو سنا ہے اور مجھے وہ قرائن یاد ہیں جنہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پڑھا کرتے تھے۔ وہ اٹھارہ سورتیں مفصل کی اور دو سورتیں آل حَم سے ہیں۔ (قران سے وہ سورتیں مراد ہیں جنہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم دو دو سورتیں ملا کر ایک رکعت میں پڑھا کرتے تھے)
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بَابٌ : مَا جَاء فِيْ صَلاَةِ رَمَضاَنَ

رمضان کی نماز میں جو سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے وارد ہے



(397) عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم خَرَجَ مِنْ جَوْفِ اللَّيْلِ فَصَلَّى فِي الْمَسْجِدِ فَصَلَّى رِجَالٌ بِصَلاَتِهِ فَأَصْبَحَ النَّاسُ يَتَحَدَّثُونَ بِذَلِكَ فَا جْتَمَعَ أَكْثَرُ مِنْهُمْ فَخَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فِي اللَّيْلَةِ الثَّانِيَةِ فَصَلَّوْا بِصَلاَتِهِ فَأَصْبَحَ النَّاسُ يَذْكُرُونَ ذَلِكَ فَكَثُرَ أَهْلُ الْمَسْجِدِ مِنَ اللَّيْلَةِ الثَّالِثَةِ فَخَرَجَ فَصَلَّوْا بِصَلاَتِهِ فَلَمَّا كَانَتِ اللَّيْلَةُ الرَّابِعَةُ عَجَزَ الْمَسْجِدُ عَنْ أَهْلِهِ فَلَمْ يَخْرُجْ إِلَيْهِمْ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فَطَفِقَ رِجَالٌ مِنْهُمْ يَقُولُونَ الصَّلاَةُ فَلَمْ يَخْرُجْ إِلَيْهِمْ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم حَتَّى خَرَجَ لِصَلاَةِ الْفَجْرِ فَلَمَّا قَضَى الْفَجْرَ أَقْبَلَ عَلَى النَّاسِ ثُمَّ تَشَهَّدَ فَقَالَ أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّهُ لَمْ يَخْفَ عَلَيَّ شَأْنُكُمُ اللَّيْلَةَ وَ لَكِنِّي خَشِيتُ أَنْ تُفْرَضَ عَلَيْكُمْ صَلاَةُ اللَّيْلِ فَتَعْجِزُوا عَنْهَا وَ فِيْ رِوَايَةٍ : وَ ذَلِكَ فِيْ رَمَضَانَ
ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (تقریباً) آدھی رات کو نکلے اور مسجدمیں نماز پڑھی اور چند لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز ادا کی۔ پھر صبح لوگ اس کا ذکر کرنے لگے اور دوسرے دن اس سے زیادہ لوگ جمع ہوئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی نکلے۔ پھر لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز ادا کی اور صبح کو لوگ اس کا ذکر کرنے لگے۔ پھر تیسری رات میں مسجد میں اور زیادہ لوگ جمع ہوئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نکلے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ لوگوں نے نماز ادا کی۔ پھر جب چوتھی رات ہوئی اور لوگ اس قدر جمع ہوئے کہ مسجد تنگ پڑ گئی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہ نکلے تو لوگ ’’نماز،نماز‘‘ پکارنے لگے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہ نکلے یہاں تک کہ صبح کی نماز کو آئے۔ پھر جب نماز پڑھ چکے تو لوگوں کی طرف منہ کیا اور شہادتین پڑھا اور حمد و صلوٰۃ کے بعد فرمایا:’’ معلوم ہو کہ تمہارا آج کی رات کا حال مجھ پر کچھ پوشیدہ نہ تھا مگر میں ڈر گیا کہ تم پر رات کی نماز (تراویح) فرض نہ ہو جائے ا ور تم اس کی ادائیگی سے عاجز ہو جاؤ۔‘‘ اور ایک روایت میں ہے کہ یہ رمضان کا واقعہ تھا۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بَابٌ : فِيْ قِيَامِ رَمَضَانَ وَالتَّرْغِيْبِ فِيْهِ

قیام رمضان کا بیان اور اس میں ترغیب دلانا



(398) عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم يُرَغِّبُ فِي قِيَامِ رَمَضَانَ مِنْ غَيْرِ أَنْ يَأْمُرَهُمْ فِيهِ بِعَزِيمَةٍ فَيَقُولُ مَنْ قَامَ رَمَضَانَ إِيْمَانًا وَ احْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ فَتُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم وَالأَمْرُ عَلَى ذَلِكَ ثُمَّ كَانَ الأَمْرُ عَلَى ذَلِكَ فِي خِلاَفَةِ أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَ صَدْرًا مِنْ خِلاَفَةِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَلَى ذَلِكَ

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان میں تراویح پڑھنے کی ترغیب دیتے تھے تاکیداً حکم نہیں دیتے تھے اور فرماتے جو رمضان میں ایمان کے ساتھ اور ثواب حاصل کرنے کے لیے نماز پڑھے تو اس کے اگلے گناہ بخشے جائیں گے پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انتقال فرمایا اور معاملہ اسی طرح تھا پھر سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت میں بھی یہی طریقہ رہا۔ پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی شروع خلافت میں بھی یہی طریقہ رہا (یعنی جس کا جی چاہتا رات کو نماز پڑھتا)۔
 
Top