ساجد تاج
فعال رکن
- شمولیت
- مارچ 09، 2011
- پیغامات
- 7,174
- ری ایکشن اسکور
- 4,517
- پوائنٹ
- 604
بَابٌ : مَا يُقَالُ فِي الْخُطْبَةِ
خطبہ میں کیا کہا جائے
(409) عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّ ضِمَادًا قَدِمَ مَكَّةَ وَ كَانَ مِنْ أَزْدِ شَنُوئَةَ وَ كَانَ يَرْقِي مِنْ هَذِهِ الرِّيحِ فَسَمِعَ سُفَهَآئَ مِنْ أَهْلِ مَكَّةَ يَقُولُونَ إِنَّ مُحَمَّدًا صلی اللہ علیہ وسلم مَجْنُونٌ فَقَالَ لَوْ أَنِّي رَأَيْتُ هَذَا الرَّجُلَ لَعَلَّ اللَّهَ يَشْفِيهِ عَلَى يَدَيَّ قَالَ فَلَقِيَهُ فَقَالَ يَا مُحَمَّدُ ! إِنِّي أَرْقِي مِنْ هَذِهِ الرِّيحِ وَ إِنَّ اللَّهَ يَشْفِي عَلَى يَدَيَّ مَنْ شَائَ فَهَلْ لَكَ ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم إِنَّ الْحَمْدَ لِلَّهِ نَحْمَدُهُ وَ نَسْتَعِينُهُ مَنْ يَهْدِهِ اللَّهُ فَلاَ مُضِلَّ لَهُ وَ مَنْ يُضْلِلْ فَلاَ هَادِيَ لَهُ وَ أَشْهَدُ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ وَحْدَهُ لاَ شَرِيكَ لَهُ وَ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَ رَسُولُهُ أَمَّا بَعْدُ ! قَالَ فَقَالَ أَعِدْ عَلَيَّ كَلِمَاتِكَ هَؤُلاَئِ فَأَعَادَهُنَّ عَلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم ثَلاَثَ مَرَّاتٍ قَالَ فَقَالَ لَقَدْ سَمِعْتُ قَوْلَ الْكَهَنَةِ وَ قَوْلَ السَّحَرَةِ وَ قَوْلَ الشُّعَرَائِ فَمَا سَمِعْتُ مِثْلَ كَلِمَاتِكَ هَؤُلاَئِ وَ لَقَدْ بَلَغْنَ نَاعُوسَ الْبَحْرِ قَالَ فَقَالَ هَاتِ يَدَكَ أُبَايِعْكَ عَلَى الإِسْلاَمِ قَالَ فَبَايَعَهُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم وَ عَلَى قَوْمِكَ ؟ قَالَ وَ عَلَى قَوْمِي قَالَ فَبَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم سَرِيَّةً فَمَرُّوا بِقَوْمِهِ فَقَالَ صَاحِبُ السَّرِيَّةِ لِلْجَيْشِ هَلْ أَصَبْتُمْ مِنْ هَؤُلاَئِ شَيْئًا ؟ فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ أَصَبْتُ مِنْهُمْ مِطْهَرَةً فَقَالَ رُدُّوهَا فَإِنَّ هَؤُلاَئِ قَوْمُ ضِمَادٍ
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ ضماد (ایک شخص کا نام ہے) مکہ میں آیا اور وہ قبیلہ ازد شنوء ۃ میں سے تھا اور جنوں اور آسیب وغیرہ سے دم جھاڑ کرتا تھا۔ تو اس نے مکہ کے نادانوں سے سنا کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) (معاذ اللہ!) مجنون ہیں تو اس نے کہا کہ میں اس شخص کو دیکھوں گا شاید اللہ تعالیٰ میرے ہاتھ سے انہیں اچھا کر دے۔ غرض آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملا اور کہا کہ اے محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )! میں جنوں وغیرہ کے اثر سے جھاڑ پھونک کرتا ہوں اور اللہ تعالیٰ میرے ہاتھ سے جسے چاہتا ہے شفا دیتا ہے۔ تو کیا آپ کو خواہش ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’سب خوبیاں اللہ کے لیے ہیں، میں اس کی خوبیاں بیان کرتا ہوں اور اس سے مدد چاہتا ہوں جس کو اللہ راہ بتلائے اسے کون بہکا سکتا ہے اور جسے وہ بہکائے اسے کون راہ بتلا سکتا ہے؟ اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اس کے بندے اور بھیجے ہوئے (رسول) ہیں۔ اب حمد کے بعد جو (کہو کہوں)۔‘‘ ضماد نے کہا کہ ان کلمات کو پھر پڑھو۔ غرض کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کلمات کو تین بار پڑھا۔ پھر ضماد نے کہا کہ میں نے کاہنوں کی باتیں سنیں، جادوگروں کے اقوال سنے، شاعروں کے اشعار سنے مگر ان کلمات کے برابر میں نے کسی کو نہیں سنا اور یہ تو دریائے بلاغت کی تہہ تک پہنچ گئے ہیں۔ پھر ضماد نے کہا کہ اپنا ہاتھ لائیے کہ میں اسلام کی بیعت کروں۔ غرض انہوں نے بیعت کی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ میں تم سے تمہاری قوم (کی طرف) سے بھی بیعت کر لوں؟‘‘ انہوں نے عرض کیا کہ ہاں، میں اپنی قوم کی طرف سے بھی بیعت کرتا ہوں۔ (راوی) کہتا ہے آخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک فوجی دستہ بھیجا اور وہ ان (ضماد) کی قوم پر سے گزرے تو اس لشکر کے سردار نے کہا کہ تم نے اس قوم سے تو کچھ نہیں لوٹا؟ تب ایک شخص نے کہا کہ ہاں میں نے ایک لوٹا ان سے لیا ہے۔ انہوں نے حکم دیا کہ جاؤ اسے واپس کر دو، اس لیے کہ یہ ضماد کی قوم ہے (اور وہ ضماد کی بیعت کے سبب سے امان میں آ چکے ہیں)۔
خطبہ میں کیا کہا جائے
(409) عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّ ضِمَادًا قَدِمَ مَكَّةَ وَ كَانَ مِنْ أَزْدِ شَنُوئَةَ وَ كَانَ يَرْقِي مِنْ هَذِهِ الرِّيحِ فَسَمِعَ سُفَهَآئَ مِنْ أَهْلِ مَكَّةَ يَقُولُونَ إِنَّ مُحَمَّدًا صلی اللہ علیہ وسلم مَجْنُونٌ فَقَالَ لَوْ أَنِّي رَأَيْتُ هَذَا الرَّجُلَ لَعَلَّ اللَّهَ يَشْفِيهِ عَلَى يَدَيَّ قَالَ فَلَقِيَهُ فَقَالَ يَا مُحَمَّدُ ! إِنِّي أَرْقِي مِنْ هَذِهِ الرِّيحِ وَ إِنَّ اللَّهَ يَشْفِي عَلَى يَدَيَّ مَنْ شَائَ فَهَلْ لَكَ ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم إِنَّ الْحَمْدَ لِلَّهِ نَحْمَدُهُ وَ نَسْتَعِينُهُ مَنْ يَهْدِهِ اللَّهُ فَلاَ مُضِلَّ لَهُ وَ مَنْ يُضْلِلْ فَلاَ هَادِيَ لَهُ وَ أَشْهَدُ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ وَحْدَهُ لاَ شَرِيكَ لَهُ وَ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَ رَسُولُهُ أَمَّا بَعْدُ ! قَالَ فَقَالَ أَعِدْ عَلَيَّ كَلِمَاتِكَ هَؤُلاَئِ فَأَعَادَهُنَّ عَلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم ثَلاَثَ مَرَّاتٍ قَالَ فَقَالَ لَقَدْ سَمِعْتُ قَوْلَ الْكَهَنَةِ وَ قَوْلَ السَّحَرَةِ وَ قَوْلَ الشُّعَرَائِ فَمَا سَمِعْتُ مِثْلَ كَلِمَاتِكَ هَؤُلاَئِ وَ لَقَدْ بَلَغْنَ نَاعُوسَ الْبَحْرِ قَالَ فَقَالَ هَاتِ يَدَكَ أُبَايِعْكَ عَلَى الإِسْلاَمِ قَالَ فَبَايَعَهُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم وَ عَلَى قَوْمِكَ ؟ قَالَ وَ عَلَى قَوْمِي قَالَ فَبَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم سَرِيَّةً فَمَرُّوا بِقَوْمِهِ فَقَالَ صَاحِبُ السَّرِيَّةِ لِلْجَيْشِ هَلْ أَصَبْتُمْ مِنْ هَؤُلاَئِ شَيْئًا ؟ فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ أَصَبْتُ مِنْهُمْ مِطْهَرَةً فَقَالَ رُدُّوهَا فَإِنَّ هَؤُلاَئِ قَوْمُ ضِمَادٍ
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ ضماد (ایک شخص کا نام ہے) مکہ میں آیا اور وہ قبیلہ ازد شنوء ۃ میں سے تھا اور جنوں اور آسیب وغیرہ سے دم جھاڑ کرتا تھا۔ تو اس نے مکہ کے نادانوں سے سنا کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) (معاذ اللہ!) مجنون ہیں تو اس نے کہا کہ میں اس شخص کو دیکھوں گا شاید اللہ تعالیٰ میرے ہاتھ سے انہیں اچھا کر دے۔ غرض آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملا اور کہا کہ اے محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )! میں جنوں وغیرہ کے اثر سے جھاڑ پھونک کرتا ہوں اور اللہ تعالیٰ میرے ہاتھ سے جسے چاہتا ہے شفا دیتا ہے۔ تو کیا آپ کو خواہش ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’سب خوبیاں اللہ کے لیے ہیں، میں اس کی خوبیاں بیان کرتا ہوں اور اس سے مدد چاہتا ہوں جس کو اللہ راہ بتلائے اسے کون بہکا سکتا ہے اور جسے وہ بہکائے اسے کون راہ بتلا سکتا ہے؟ اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اس کے بندے اور بھیجے ہوئے (رسول) ہیں۔ اب حمد کے بعد جو (کہو کہوں)۔‘‘ ضماد نے کہا کہ ان کلمات کو پھر پڑھو۔ غرض کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کلمات کو تین بار پڑھا۔ پھر ضماد نے کہا کہ میں نے کاہنوں کی باتیں سنیں، جادوگروں کے اقوال سنے، شاعروں کے اشعار سنے مگر ان کلمات کے برابر میں نے کسی کو نہیں سنا اور یہ تو دریائے بلاغت کی تہہ تک پہنچ گئے ہیں۔ پھر ضماد نے کہا کہ اپنا ہاتھ لائیے کہ میں اسلام کی بیعت کروں۔ غرض انہوں نے بیعت کی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ میں تم سے تمہاری قوم (کی طرف) سے بھی بیعت کر لوں؟‘‘ انہوں نے عرض کیا کہ ہاں، میں اپنی قوم کی طرف سے بھی بیعت کرتا ہوں۔ (راوی) کہتا ہے آخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک فوجی دستہ بھیجا اور وہ ان (ضماد) کی قوم پر سے گزرے تو اس لشکر کے سردار نے کہا کہ تم نے اس قوم سے تو کچھ نہیں لوٹا؟ تب ایک شخص نے کہا کہ ہاں میں نے ایک لوٹا ان سے لیا ہے۔ انہوں نے حکم دیا کہ جاؤ اسے واپس کر دو، اس لیے کہ یہ ضماد کی قوم ہے (اور وہ ضماد کی بیعت کے سبب سے امان میں آ چکے ہیں)۔