• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

صحیح مسلم

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بَابٌ :الأَمْرُ بِإِرْضَاء الْمُصَدِّقِيْنَ

زکوٰۃ وصول کرنے والوں کو راضی کرنے کا حک

م

(509) عَنْ جَرِيرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ جَائَ نَاسٌ مِنَ الأَعْرَابِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فَقَالُوا إِنَّ نَاسًا مِنَ الْمُصَدِّقِينَ يَأْتُونَنَا فَيَظْلِمُونَنَا قَالَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم أَرْضُوا مُصَدِّقِيكُمْ قَالَ جَرِيرٌ مَا صَدَرَ عَنِّي مُصَدِّقٌ مُنْذُ سَمِعْتُ هَذَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم إِلاَّ وَ هُوَ عَنِّي رَاضٍ

سیدنا جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنھما کہتے ہیں کہ دیہات کے چند لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے اور عرض کی کہ بعض تحصیلدار (زکوٰۃ وصول کرنے والے) ہمارے پاس آتے ہیں اور ہم پر زیادتی کرتے ہیں۔ (یعنی جانور اچھے سے اچھا لیتے ہیں حالانکہ متوسط لینا چاہیے ) تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ تم اپنے تحصیلداروں کو راضی کر دیاکرو (یعنی اگرچہ وہ تم پر زیادتی بھی کریں)۔‘‘ سیدنا جریر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ جب سے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سنا تب سے کوئی تحصیلدار میرے پاس سے نہیں گیا مگر خوش ہو کر۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بَابٌ : الدُّعَاء لِمَنْ أَتَى بِصَدَقَتِهِ
صدقہ لانے والے کے لیے دعا کرنا
(510) عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي أَوْفَى رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم إِذَا أَتَاهُ قَوْمٌ بِصَدَقَتِهِمْ قَالَ اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَيْهِمْ فَأَتَاهُ أَبِي أَبُو أَوْفَى بِصَدَقَتِهِ فَقَالَ اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى آلِ أَبِي أَوْفَى
سیدنا عبداللہ بن ابی اوفیٰ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارکہ تھی کہ جب کوئی قوم صدقہ لاتی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے لیے فرماتے تھے :'' اے اللہ! ان پر رحمت فرما۔'' پھر میرے والد ابو اوفی رضی اللہ عنہ صدقہ لے کر آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' اے اللہ! ابو اوفیٰ کی آل پر رحمت فرما۔ ''
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بَابٌ :إِعْطَاء مَنْ يُخَافُ عَلَى إِيْمَانِهِ
اس آدمی کو عطیہ دینا جس کے ایمان میں خطرہ ہو
(511) عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِيْ وَقَّاصٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَسَمَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم قَسْمًا فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَعْطِ فُلاَنًا فَإِنَّهُ مُؤْمِنٌ فَقَالَ النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وسلم أَوْ مُسْلِمٌ أَقُولُهَا ثَلاَثًا وَ يُرَدِّدُهَا عَلَيَّ ثَلاَثًا أَوْ مُسْلِمٌ ثُمَّ قَالَ إِنِّي لَأُعْطِيَ الرَّجُلَ وَ غَيْرُهُ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْهُ مَخَافَةَ أَنْ يَكُبَّهُ اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ فِي النَّارِ
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ مال بانٹا تو میں نے عرض کی یہ یارسول اللہ! فلاں کو دیجئے کہ وہ مومن ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' یا وہ مسلمان ہے۔'' میں نے تین بار یہی کہا کہ وہ مومن ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر بار یہی فرمایا:''یا مسلمان ہے۔'' پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' میں ایک شخص کو دیتا ہوں حالانکہ دوسرے کو اس سے زیادہ چاہتا ہوں اس ڈر سے (اس شخص کو دیتا ہوں) کہ کہیں اللہ تعالیٰ اس کو اوندھے منہ جہنم میں نہ گرا دے۔ ''
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بَابٌ : إِعْطَاء الْمُؤَلَّفَةِ قُلُوْبُهُمْ عَلَى الإِسْلاَمِ وَ تَصَيُّرُ مَنْ قَوِيَ إِيْمَانُهُ

جن کے دل اسلام کی طرف راغب ہیں، ان کو دینا اور مضبوط ایمان والوں کو چھوڑ دینا


(512) عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ لَمَّا كَانَ يَوْمُ حُنَيْنٍ أَقْبَلَتْ هَوَازِنُ وَ غَطَفَانُ وَ غَيْرُهُمْ بِذَرَارِيِّهِمْ وَ نَعَمِهِمْ وَ مَعَ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم يَوْمَئِذٍ عَشَرَةُ آلاَفٍ وَ مَعَهُ الطُّلَقَاء فَأَدْبَرُوا عَنْهُ حَتَّى بَقِيَ وَحْدَهُ قَالَ فَنَادَى يَوْمَئِذٍ نِدَائَيْنِ لَمْ يَخْلِطْ بَيْنَهُمَا شَيْئًا قَالَ فَالْتَفَتَ عَنْ يَمِينِهِ فَقَالَ يَا مَعْشَرَ الأَنْصَارِ فَقَالُوا لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَبْشِرْ نَحْنُ مَعَكَ قَالَ ثُمَّ الْتَفَتَ عَنْ يَسَارِهِ فَقَالَ يَا مَعْشَرَ الأَنْصَارِ قَالُوا لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَبْشِرْ نَحْنُ مَعَكَ قَالَ وَ هُوَ عَلَى بَغْلَةٍ بَيْضَائَ فَنَزَلَ فَقَالَ أَنَا عَبْدُ اللَّهِ وَ رَسُولُهُ فَانْهَزَمَ الْمُشْرِكُونَ وَ أَصَابَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم غَنَائِمَ كَثِيرَةً فَقَسَمَ فِي الْمُهَاجِرِينَ وَالطُّلَقَائِ وَ لَمْ يُعْطِ الأَنْصَارَ شَيْئًا فَقَالَتِ الأَنْصَارُ إِذَا كَانَتِ الشِّدَّةُ فَنَحْنُ نُدْعَى وَ تُعْطَى الْغَنَائِمُ غَيْرَنَا فَبَلَغَهُ ذَلِكَ فَجَمَعَهُمْ فِي قُبَّةٍ فَقَالَ يَا مَعْشَرَ الأَنْصَارِ مَا حَدِيثٌ بَلَغَنِي عَنْكُمْ ؟ فَسَكَتُوا فَقَالَ يَا مَعْشَرَ الأَنْصَارِ أَمَا تَرْضَوْنَ أَنْ يَذْهَبَ النَّاسُ بِالدُّنْيَا وَ تَذْهَبُونَ بِمُحَمَّدٍ صلی اللہ علیہ وسلم تَحُوزُونَهُ إِلَى بُيُوتِكُمْ ؟ قَالُوا بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ رَضِينَا قَالَ فَقَالَ لَوْ سَلَكَ النَّاسُ وَادِيًا وَ سَلَكَتِ الأَنْصَارُ شِعْبًا لَأَخَذْتُ شِعْبَ الأَنْصَارِ قَالَ هِشَامٌ فَقُلْتُ يَا أَبَا حَمْزَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنْتَ شَاهِدٌ ذَاكَ قَالَ وَ أَيْنَ أَغِيبُ عَنْهُ

سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب حنین کا دن ہوا تو (قبیلہ) ہوازن اور غطفان اور دوسرے قبیلوں کے لوگ اپنی اولاد اور جانوروں کو لے کر آئے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دس ہزار غازی تھے اور مکہ کے لوگ (جو فتح مکہ کے موقع پر مسلمان ہوئے تھے) بھی، جن کو طلقاء کہتے ہیں۔ پھر یہ سب ایک بار پیٹھ دے گئے یہاں تک کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اکیلے رہ گئے۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اس دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو آوازیں دیں کہ ان کے بیچ میں کچھ نہیں کہا، پہلے دائیں طرف منہ کیااور پکارا کہ اے گروہ انصار! تو انصار نے جواب دیا کہ اے اللہ کے رسول ! ہم حاضر ہیں اور آپ خوش ہوں کہ ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بائیں طرف منہ کیااور پکارا کہ ’’اے گروہ انصار! تو انہوں نے پھر جواب دیا کہ اے اللہ کے رسول! ہم حاضر ہیں اور آپ خوش ہوں کہ ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہیں۔‘‘ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس دن ایک سفید خچر پر سوار تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اترے اور فرمایا:’’ میں اللہ کا بندہ ہوں (مقام بندگی سے بڑھ کر کوئی فخر کا مقام نہیں شیخ اکبر نے اس کی خوب تصریح کی ہے کہ مقام عبدیت انبیاء کے واسطے خاص ہے اور کسی کو اس مقام میں مشارکت نہیں۔ سبحان اللہ! اللہ کا بندہ ہونا اور اس کا رسول ہونا کتنی بڑی نعمت ہے) اور رسول ہوں۔ پس مشرک شکست کھا گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت زیادہ مال غنیمت ہاتھ آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب مہاجرین اور مکہ کے لوگوں میں تقسیم کر دیا اور انصار کو اس میں سے کچھ نہ دیا۔ تب انصار نے کہا کہ مشکل گھڑی میں تو ہم بلائے جاتے ہیں اور لوٹ کا مال اوروںکو دیا جاتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبر ہوئی توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیںایک خیمہ میں اکٹھا کیا اور فرمایا:’’ اے گروہ انصار! یہ کیسی بات ہے جو مجھے تم لوگوں سے پہنچی ہے؟‘‘ تب وہ چپ ہو رہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ اے گروہ انصار! کیا تم اس بات پر خوش نہیں ہوتے کہ لوگ دنیا لے کر چلے جائیںا ور تم محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کو اپنے گھروں میں لے جاؤ؟‘‘ انہوں نے کہا کہ بے شک اے اللہ کے رسول! ہم راضی ہو گئے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ اگر لوگ ایک گھاٹی میں چلیں اور انصار دوسری گھاٹی میں تو میں انصار کی گھاٹی کی راہ لوں گا۔‘‘ ہشام(سیدنا انس کے شاگرد) نے کہا کہ میں نے کہا کہ اے ابوحمزہ! تم اس وقت حاضر تھے؟ تو انہوں نے کہا کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ کر کہاں جاتا؟
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
(513) عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ أَعْطَى رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم أَبَا سُفْيَانَ بْنَ حَرْبٍ وَ صَفْوَانَ بْنَ أُمَيَّةَ وَ عُيَيْنَةَ بْنَ حِصْنٍ وَالأَقْرَعَ بْنَ حَابِسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ كُلَّ إِنْسَانٍ مِنْهُمْ مِائَةً مِنَ الإِبِلِ وَ أَعْطَى عَبَّاسَ بْنَ مِرْدَاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ دُونَ ذَلِكَ فَقَالَ عَبَّاسُ بْنُ مِرْدَاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
أَتَجْعَلُ نَهْبِي وَ نَهْبَ الْعُبَيْدِ بَيْنَ عُيَيْنَةَ وَالأَقْرَعِ ؟
فَمَا كَانَ بَدْرٌ وَ لاَ حَابِسٌ
يَفُوقَانِ مِرْدَاسَ فِي الْمَجْمَعِ
وَ مَا كُنْتُ دُونَ امْرِئٍ مِنْهُمَا
وَ مَنْ تَخْفِضِ الْيَوْمَ لاَ يُرْفَعِ
قَالَ فَأَتَمَّ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم مِائَةً


سیدنا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو سفیان، صفوان، عیینہ اور اقرع بن حابس رضی اللہ علیھم اجمعین کو سو سو اونٹ دیے اور عباس بن مرداس رضی اللہ عنہ کو کچھ کم دیے تو عباس رضی اللہ عنہ نے یہ اشعار کہے:

’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرا اور میرے گھوڑے کا حصہ جس کا نام عبید تھا عیینہ اور اقرع کے بیچ میں مقرر فرماتے ہیں حالانکہ عیینہ اور اقرع دونوں مرداس سے (یعنی مجھ سے) کسی مجمع میں بڑھ نہیں سکتے اور میں ان دونوںسے کچھ کم نہیں ہوں۔ اور آج جس کی بات نیچے ہو گئی وہ پھر اوپر نہ ہو گی۔‘‘

سیدنا رافع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے سو اونٹ پورے کر دیے۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
(514) عَنْ أَبِيْ سَعِيدِ نِالْخُدْرِيَّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ بَعَثَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم مِنَ الْيَمَنِ بِذَهَبَةٍ فِي أَدِيمٍ مَقْرُوظٍ لَمْ تُحَصَّلْ مِنْ تُرَابِهَا قَالَ فَقَسَمَهَا بَيْنَ أَرْبَعَةِ نَفَرٍ بَيْنَ عُيَيْنَةَ بْنِ حِصْنٍ وَالأَقْرَعِ بْنِ حَابِسٍ وَ زَيْدِ الْخَيْلِ وَالرَّابِعُ إِمَّا عَلْقَمَةُ بْنُ عُلاَثَةَ وَ إِمَّا عَامِرُ بْنُ الطُّفَيْلِ فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِهِ كُنَّا نَحْنُ أَحَقَّ بِهَذَا مِنْ هَؤُلآئِ قَالَ فَبَلَغَ ذَلِكَ النَّبِيَّ صلی اللہ علیہ وسلم فَقَالَ أَلاَ تَأْمَنُونِي وَ أَنَا أَمِينُ مَنْ فِي السَّمَائِ يَأْتِينِي خَبَرُ السَّمَائِ صَبَاحًا وَ مَسَائً ؟ قَالَ فَقَامَ رَجُلٌ غَائِرُ الْعَيْنَيْنِ مُشْرِفُ الْوَ جْنَتَيْنِ نَاشِزُ الْجَبْهَةِ كَثُّ اللِّحْيَةِ مَحْلُوقُ الرَّأْسِ مُشَمَّرُ الإِزَارِ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ اتَّقِ اللَّهَ فَقَالَ وَيْلَكَ أَوَ لَسْتُ أَحَقَّ أَهْلِ الأَرْضِ أَنْ يَتَّقِيَ اللَّهَ ؟ قَالَ ثُمَّ وَلَّى الرَّجُلُ فَقَالَ خَالِدُ بْنُ الْوَلِيدِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَلآ أَضْرِبُ عُنُقَهُ ؟ فَقَالَ لاَ لَعَلَّهُ أَنْ يَكُونَ يُصَلِّي قَالَ خَالِدٌ وَ كَمْ مِنْ مُصَلٍّ يَقُولُ بِلِسَانِهِ مَا لَيْسَ فِي قَلْبِهِ ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم إِنِّي لَمْ أُومَرْ أَنْ أُنَقِّبَ عَنْ قُلُوبِ النَّاسِ وَ لاَ أَشُقَّ بُطُونَهُمْ قَالَ ثُمَّ نَظَرَ إِلَيْهِ وَ هُوَ مُقَفٍّ فَقَالَ إِنَّهُ يَخْرُجُ مِنْ ضِئْضِئِ هَذَا قَوْمٌ يَتْلُونَ كِتَابَ اللَّهِ رَطْبًا لاَ يُجَاوِزُ حَنَاجِرَهُمْ يَمْرُقُونَ مِنَ الدِّينِ كَمَا
يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ قَالَ أَظُنُّهُ قَالَ لَئِنْ أَدْرَكْتُهُمْ لَأَقْتُلَنَّهُمْ قَتْلَ ثَمُودَ


سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس یمن سے کچھ سوناایک چمڑے میں رکھ کر بھیجا جو ببول کی چھال سے رنگا ہوا تھا اور ابھی (وہ سونا) مٹی سے جدا نہیں کیا گیا تھا۔ اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چار آدمیوں میں تقسیم کر دیا، عیینہ بن حصن، اقرع بن حابس، زید (عرف) خیل اور چوتھا علقمہ یا عامر بن طفیل رضی اللہ علیھم اجمعین ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے کسی شخص نے کہا کہ ہم اس مال کے ان سے زیادہ مستحق ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبر پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ کیا تم مجھے امانتدار نہیں سمجھتے؟ حالانکہ میں اس کا امانتدار ہوں جو آسمانوں کے اوپر ہے اور میرے پاس آسمان کی خبر صبح و شام آتی ہے۔ پھر کہتے ہیں کہ ایک شخص جس کی آنکھیں دھنسی ہوئی تھیں، جس کے رخساروں کی ہڈیاں ابھری ہوئی تھیں، ابھری ہوئی پیشانی، گھنی ڈاڑھی، سر منڈا ہوا، اونچی ازار باندھے ہوئے تھا، کھڑا ہوا اور کہنے لگا کہ یارسول اللہ! اللہ سے ڈرو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جوا ب دیا کہ تیری خرابی ہو، کیا میں ساری زمین والوں میں سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا نہیں ہوں؟ راوی کہتے ہیں کہ پھر وہ شخص چلا گیا۔ سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یارسول اللہ! کیا میں اس کی گردن نہ اڑا دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’نہیں شاید وہ نماز پڑھتا ہو‘‘ (معلوم ہواکہ وہ اکثر حاضر باش خدمت مبارک بھی نہ تھا ورنہ ایسی حرکت سرزد نہ ہوتی) سیدنا خالد رضی اللہ عنہ بولے کہ بہت سے نمازی ایسے (منافق ہوتے ہیں) ہیں جو زبان سے وہ بات کہتے ہیں جو ان کے دل میں نہیں ہوتی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ اللہ نے مجھے یہ حکم نہیں دیا کہ میں کسی کا دل چیر کر دیکھوں اور نہ یہ (حکم دیا) کہ میں ان کے پیٹ چیروں۔‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی طرف دیکھا جب کہ وہ پیٹھ موڑے جا رہا تھا اور کہا کہ’’ اس شخص کی نسل سے ایسے لوگ نکلیں گے جو قرآن کو اچھی طرح پڑھیں گے حالانکہ وہ ان کے گلوں سے نیچے نہیں اترے گا، وہ لوگ دین سے ایسے خارج ہو جائیں گے جیسے کہ تیر شکار (کے جسم) سے پار نکل جاتا ہے۔‘‘ (راوی کہتا ہے) میں گمان کرتا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی کہا :’’ اگر میں اس قوم کو پا لوں تو میں انہیں قوم ثمود کی طرح قتل کر دوں۔‘‘
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بَابٌ : لاَ تَحِلُّ الصَّدَقَةُ لِرَسُوْلِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم وَ أَهْلِ بَيْتِهِ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت کے لیے صدقہ حلال نہیں



(515) عَنْ أَبِيْ هُرَيْرَة رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ أَخَذَ الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ تَمْرَةً مِنْ تَمْرِ الصَّدَقَةِ فَجَعَلَهَا فِي فِيهِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم كِخْ كِخْ اِرْمِ بِهَا أَمَا عَلِمْتَ أَنَّا لاَ تَحِلُّ لَنَا الصَّدَقَةُ

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حسن بن علی ( رضی اللہ عنھما )نے ایک صدقہ کی کھجور لے کراپنے منہ میں ڈالی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ تھو۔ تھو! اس کو پھینک دے کیا تو نہیں جانتا کہ ہمارے لیے صدقہ حلال نہیں ہے۔ ‘‘
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بَابٌ :كَرَاهِيَةُ اسْتِعْمَالِ آلِ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم عَلَى الصَّدَقَةِ

صدقات کی وصولی پر آل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مقرر کرنے کی کراہت



(516) عَنْ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ بْنِ رَبِيعَةَ بْنِ الْحَارِثِ قَالَ اجْتَمَعَ رَبِيعَةُ بْنُ الْحَارِثِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَالْعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَقَالاَ وَاللَّهِ لَوْ بَعَثْنَا هَذَيْنِ الْغُلاَمَيْنِ قَالاَ لِي وَلِلْفَضْلِ بْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فَكَلَّمَاهُ فَأَمَّرَهُمَا عَلَى هَذِهِ الصَّدَقَاتِ فَأَدَّيَا مَا يُؤَدِّي النَّاسُ وَ أَصَابَا مِمَّا يُصِيبُ النَّاسُ قَالَ فَبَيْنَمَا هُمَا فِي ذَلِكَ جَائَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَوَقَفَ عَلَيْهِمَا فَذَكَرَا لَهُ ذَلِكَ فَقَالَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ لاَ تَفْعَلاَ فَوَاللَّهِ مَا هُوَ بِفَاعِلٍ فَانْتَحَاهُ رَبِيعَةُ بْنُ الْحَارِثِ فَقَالَ وَاللَّهِ مَا تَصْنَعُ هَذَا إِلاَّ نَفَاسَةً مِنْكَ عَلَيْنَا فَوَاللَّهِ لَقَدْ نِلْتَ صِهْرَ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فَمَا نَفِسْنَاهُ عَلَيْكَ قَالَ عَلِيٌّ أَرْسِلُوهُمَا فَانْطَلَقَا وَاضْطَجَعَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ فَلَمَّا صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم الظُّهْرَ سَبَقْنَاهُ إِلَى الْحُجْرَةِ فَقُمْنَا عِنْدَهَا حَتَّى جَائَ فَأَخَذَ بِآذَانِنَا ثُمَّ قَالَ أَخْرِجَا مَا تُصَرِّرَانِ ثُمَّ دَخَلَ وَ دَخَلْنَا عَلَيْهِ وَ هُوَ يَوْمَئِذٍ عِنْدَ زَيْنَبَ بِنْتِ جَحْشٍ رَضِىَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَ فَتَوَاكَلْنَا الْكَلاَمَ ثُمَّ تَكَلَّمَ أَحَدُنَا فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ ! أَنْتَ أَبَرُّ النَّاسِ وَ أَوْصَلُ النَّاسِ وَ قَدْ بَلَغْنَا النِّكَاحَ فَجِئْنَا لِتُؤَمِّرَنَا عَلَى بَعْضِ هَذِهِ الصَّدَقَاتِ فَنُؤَدِّيَ إِلَيْكَ كَمَا يُؤَدِّي النَّاسُ وَ نُصِيبَ كَمَا يُصِيبُونَ قَالَ فَسَكَتَ طَوِيلاً حَتَّى أَرَدْنَا أَنْ نُكَلِّمَهُ قَالَ وَ جَعَلَتْ زَيْنَبُ تُلْمِعُ عَلَيْنَا مِنْ وَرَائِ الْحِجَابِ أَنْ لاَ تُكَلِّمَاهُ قَالَ ثُمَّ قَالَ إِنَّ الصَّدَقَةَ لاَ تَنْبَغِي لِآلِ مُحَمَّدٍ صلی اللہ علیہ وسلم إِنَّمَا هِيَ أَوْسَاخُ النَّاسِ ادْعُوَا لِي مَحْمِيَةَ وَ كَانَ عَلَى الْخُمُسِ وَ نَوْفَلَ بْنَ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ فَجَائَاهُ فَقَالَ لِمَحْمِيَةَ أَنْكِحْ هَذَا الْغُلاَمَ ابْنَتَكَ لِلْفَضْلِ بْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا فَأَنْكَحَهُ وَ قَالَ لِنَوْفَلِ بْنِ الْحَارِثِ أَنْكِحْ هَذَا الْغُلاَمَ ابْنَتَكَ لِي فَأَنْكَحَنِي وَ قَالَ لِمَحْمِيَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَصْدِقْ عَنْهُمَا مِنَ الْخُمُسِ كَذَا وَ كَذَا قَالَ الزُّهْرِيُّ وَ لَمْ يُسَمِّهِ لِي

عبدالمطلب بن ربیعہ بن حارث کہتے ہیں کہ ربیعہ بن حارث رضی اللہ عنہ اور عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ دونوں جمع ہوئے اور کہا کہ اللہ کی قسم! ہم ان دونوں لڑکوں (یعنی مجھے اور فضل بن عباس) کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیج دیں اور یہ دونوں جا کر عرض کریں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو زکوٰۃ پر تحصیلدار بنا دیں اور یہ دونوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو لا کر ادا کر دیں جیسے اور لوگ ادا کرتے ہیں اور ان کو کچھ مل جائے جیسے اور لوگوں کو ملتا ہے۔ غرض یہ گفتگو ہو رہی تھی کہ سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ بھی آ کر ان کے پاس کھڑے ہو گئے تو ان دونوں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے اس کا ذکر کیا۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ انہیں مت بھیجو کہ اللہ کی قسم! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسا نہیں کریں گے۔ (اس لیے کہ آپ کو معلوم تھا کہ زکوٰۃ سیدوں کو حرام ہے) پس ربیعہ بن حارث سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو برا کہنے لگے اور کہا کہ اللہ کی قسم تم ہمارے ساتھ حسد سے ایسا کرتے ہو اور اللہ کی قسم کہ تم نے جو شرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دامادی کا پایا ہے تو اس کا ہم تو تم سے کچھ حسد نہیں کرتے۔ تب سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اچھا ان دونوں کو بھیج دو۔ تو ہم دونوں گئے اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ لیٹ رہے۔ پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر کی نماز پڑھ چکے تو ہم دونوں جلدی سے حجرے میںآپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے جا پہنچے اور حجرے کے پاس کھڑے ہو گئے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور ہم دونوں کے کان پکڑے (یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفقت اور ملاعبت تھی کہ لڑکے اس سے خوش ہوتے ہیں) اور فرمایا:’’ ظاہر کرو جو تم دل میں چھپا کر لائے ہو۔‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی حجرے میں گئے اور ہم بھی، اور اس دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم ام المومنین زینب بنت جحش رضی اللہ عنھا کے پاس تھے۔ پھر ایک دوسرے سے کہنے لگے کہ تم بیان کرو۔ غرض ایک نے عرض کی کہ یارسول اللہ! آپ سب سے زیادہ صلہ رحمی کرنے والے اور قرابت داروں سے سب سے زیادہ احسان کرنے والے ہیں اور ہم نکاح (کی عمر) کو پہنچ گئے ہیں۔ پھر ہم اس لیے حاضر ہوئے ہیں کہ آپ ہمیں ان زکوٰتوں پر عامل بنا دیں کہ ہم بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تحصیل لا دیں جیسے اور لوگ لاتے ہیںاور ہمیں بھی کچھ مل جائے جیسے اوروں کو مل جاتا ہے۔ (تاکہ ہمارے نکاح کا خرچ نکل آئے) پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بڑی دیر تک چپ ہو رہے یہاں تک کہ ہم نے چاہا کہ پھر کچھ کہیں اور ام المومنین زینب رضی اللہ عنھا ہم سے پردہ کی آڑ سے اشارہ فرماتی تھیں کہ اب کچھ نہ کہو۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ زکوٰۃآل محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے لائق نہیں یہ تو لوگوںکامیل ہے۔‘‘ (شاید یہ مثل یہیں سے ہے کہ روپیہ پیسہ ہاتھوں کی میل ہے) تم میرے پاس محمیہ رضی اللہ عنہ (یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خزانچی کا نام تھا) جو خمس پرمقرر تھے اور نوفل بن حارث بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کو بلا لاؤ۔‘‘ راوی نے کہا کہ پھر یہ دونوں حاضر ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے محمیہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا:’’ تم اپنی لڑکی اس لڑکے فضل بن عباس کو بیاہ دو۔‘‘ تو انہوں نے اپنی لڑکی ان سے بیاہ دی اور نوفل بن حارث سے فرمایا:’’ تم اپنی لڑکی اس لڑکے (یعنی عبدالمطلب بن ربیعہ سے، جو راوی حدیث ہیں) بیاہ دو تو انہوں نے اپنی لڑکی میرے نکاح میں دے دی اور محمیہ سے فرمایا:’’ ان دونوں کا مہر خمس سے اتنا اتنا ادا کر دو۔‘‘ زہری نے کہا کہ مجھ سے میرے شیخ عبداللہ بن عبداللہ نے مہر کی تعداد بیان نہیں کی۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بَابٌ : إِبَاحَةُ مَا أُهْدِيَ مِنَ الصَّدَقَةِ لِآلِ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم

جو صدقہ کے مال سے بطور ہدیہ آل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بھیجا جائے، وہ مباح ہے



(517) عَنْ أَنَسِ ابْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ أَهْدَتْ بَرِيرَةُ إِلَى النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم لَحْمًا تُصُدِّقَ بِهِ عَلَيْهَا فَقَال هُوَ لَهَا صَدَقَةٌ وَ لَنَا هَدِيَّةٌ

سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ بریرہ رضی اللہ عنھا نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کچھ گوشت ہدیہ دیا جو کہ اس کو کسی نے صدقہ میں دیا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لے لیا اور فرمایا:’’ ان کے لیے صدقہ ہے اور ہمارے لیے ہدیہ ہے۔ ‘‘
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
(518) عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ رَضِىَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ بَعَثَ إِلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم بِشَاةٍ مِنَ الصَّدَقَةِ فَبَعَثْتُ إِلَى عَائِشَةَ رَضِىَ اللَّهُ عَنْهَا مِنْهَا بِشَيْئٍ فَلَمَّا جَائَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم إِلَى عَائِشَةَ رَضِىَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَ هَلْ عِنْدَكُمْ شَيْئٌ ؟ قَالَتْ لاَ إِلاَّ أَنَّ نُسَيْبَةَ بَعَثَتْ إِلَيْنَا مِنَ الشَّاةِ الَّتِي بَعَثْتُمْ بِهَا إِلَيْهَا قَالَ إِنَّهَا قَدْ بَلَغَتْ مَحِلَّهَا

سیدہ ام عطیہ رضی اللہ عنھا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے صدقہ کی ایک بکری بھیجی تو میں نے اس میں سے تھوڑا گوشت ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا کو بھیج دیا۔ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا کے پاس تشریف لائے اور فرمایا:’’ تمہارے پاس کچھ کھانے کو ہے ؟‘‘ انہوں نے کہا کہ نہیں مگر نسیبہ (یعنی ام عطیہ) نے ہمارے پاس اس بکری میں سے گوشت بھیجا ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے پاس بطور صدقہ کے بھیجی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ وہ اپنی جگہ پہنچ گئی۔ (یعنی ان کے لیے صدقہ تھا اب ہمارے لیے ہدیہ ہے)۔‘‘
 
Top