ساجد تاج
فعال رکن
- شمولیت
- مارچ 09، 2011
- پیغامات
- 7,174
- ری ایکشن اسکور
- 4,517
- پوائنٹ
- 604
(695) عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ قَالَ قُلْتُ لِابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَ رَأَيْتَ هَذَا الرَّمَلَ بِالْبَيْتِ ثَلاَثَةَ أَطْوَافٍ وَ مَشْيَ أَرْبَعَةِ أَطْوَافٍ أَسُنَّةٌ هُوَ ؟ فَإِنَّ قَوْمَكَ يَزْعُمُونَ أَنَّهُ سُنَّةٌ قَالَ فَقَالَ صَدَقُوا وَ كَذَبُوا قَالَ قُلْتُ مَا قَوْلُكَ صَدَقُوا وَ كَذَبُوا ؟ قَالَ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم قَدِمَ مَكَّةَ فَقَالَ الْمُشْرِكُونَ إِنَّ مُحَمَّدًا وَ أَصْحَابَهُ لاَ يَسْتَطِيعُونَ أَنْ يَطُوفُوا بِالْبَيْتِ مِنَ الْهُزَالِ وَ كَانُوا يَحْسُدُونَهُ قَالَ فَأَمَرَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم أَنْ يَرْمُلُوا ثَلاَثًا وَ يَمْشُوا أَرْبَعًا قَالَ قُلْتُ لَهُ أَخْبِرْنِي عَنِ الطَّوَافِ بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ رَاكِبًا أَسُنَّةٌ هُوَ ؟ فَإِنَّ قَوْمَكَ يَزْعُمُونَ أَنَّهُ سُنَّةٌ قَالَ صَدَقُوا وَكَذَبُوا قَالَ قُلْتُ وَ مَا قَوْلُكَ صَدَقُوا وَ كَذَبُوا ؟ قَالَ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم كَثُرَ عَلَيْهِ النَّاسُ يَقُولُونَ هَذَا مُحَمَّدٌ صلی اللہ علیہ وسلم هَذَا مُحَمَّدٌ صلی اللہ علیہ وسلم حَتَّى خَرَجَ الْعَوَاتِقُ مِنَ الْبُيُوتِ قَالَ وَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم لاَ يُضْرَبُ النَّاسُ بَيْنَ يَدَيْهِ فَلَمَّا كَثُرَ عَلَيْهِ رَكِبَ وَالْمَشْيُ وَالسَّعْيُ أَفْضَلُ
سیدنا ابو الطفیل کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنھما سے کہا کہ آپ کا کیا خیال ہے طواف میںتین بار رمل کرنا اور چار بار چلنا سنت ہے؟ اس لیے کہ تمہارے ساتھی کہتے ہیں کہ وہ سنت ہے۔ تو انہوں نے کہا کہ وہ سچے بھی ہیں اور جھوٹے بھی ۔ میں نے پوچھا اس کا کیا مطلب کہ انہوں نے سچ بولا اور جھوٹ کہا؟ انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ میں تشریف لائے تو مشرکوں نے کہا کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب بیت اللہ شریف کا طواف ضعف اور لاغری و کمزوری کے سبب نہیں کر سکتے اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے حسد رکھتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ تین بار رمل کریں اور چار بار عادت کے موافق چلیں (غرض یہ ہے کہ انہوں نے اس فعل کو جو سنت مؤکدہ مقصودہ سمجھا، یہ ان کا جھوٹ تھا باقی بات سچ تھی) پھر میں نے کہا کہ ہمیں صفا اور مروہ کے درمیان میں سوار ہو کر سعی کرنے کے بارے میں بتایے کہ کیا یہ سنت ہے؟ کیونکہ آپ کے ساتھی اسے سنت کہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ سچے بھی ہیں اور جھوٹے بھی۔ میں نے کہا کہ اس کا کیا مطلب کہ وہ سچے ہیںاور جھوٹے بھی؟ انہوں نے فرمایا:’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ میں تشریف لائے تولوگوں کی بھیڑ ایسی ہوئی کہ کنواری عورتیں تک باہر نکل آئیں اور لوگ کہنے لگے کہ یہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ہیں، یہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (کی خوش خلقی ایسی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم )کے آگے لوگ مارے نہ جاتے تھے (یعنی ہٹو بچو ، جیسے امرائے دنیا کے واسطے ہوتی ہے، ویسی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے نہ ہوتی تھی) پھر جب لوگوں کی بڑی بھیڑ ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سوار ہو گئے اور پیدل سعی کرنا افضل ہے (یعنی اتنا جھوٹ ہوا کہ جو چیز بضرورت ہوتی تھی اس کو بلاضرورت سنت کہا باقی سچ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سوار ہو کر سعی کی)۔