• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

صحیح مسلم

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604


(954) عَنْ أَبِي نَضْرَةَ قَالَ سَأَلْتُ ابْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا وَ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا عَنِ الصَّرْفِ فَلَمْ يَرَيَا بِهِ بَأْسًا فَإِنِّي لَقَاعِدٌ عِنْدَ أَبِي سَعِيدِ نِالْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَسَأَلْتُهُ عَنِ الصَّرْفِ فَقَالَ مَا زَادَ فَهُوَ رِبًا فَأَنْكَرْتُ ذَلِكَ لِقَوْلِهِمَا فَقَالَ لاَ أُحَدِّثُكَ إِلاَّ مَا سَمِعْتُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم جَائَهُ صَاحِبُ نَخْلِهِ بِصَاعٍ مِنْ تَمْرٍ طَيِّبٍ وَ كَانَ تَمْرُ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم هَذَا اللَّوْنَ فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وسلم أَنَّى لَكَ هَذَا ؟ قَالَ انْطَلَقْتُ بِصَاعَيْنِ فَاشْتَرَيْتُ بِهِ هَذَا الصَّاعَ فَإِنَّ سِعْرَ هَذَا فِي السُّوقِ كَذَا وَ سِعْرَ هَذَا كَذَا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم وَيْلَكَ أَرْبَيْتَ إِذَا أَرَدْتَ ذَلِكَ فَبِعْ تَمْرَكَ بِسِلْعَةٍ ثُمَّ اشْتَرِ بِسِلْعَتِكَ أَيَّ تَمْرٍ شِئْتَ قَالَ أَبُو سَعِيدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَالتَّمْرُ بِالتَّمْرِ أَحَقُّ أَنْ يَكُونَ رِبًا أَمِ الْفِضَّةُ بِالْفِضَّةِ قَالَ فَأَتَيْتُ ابْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا بَعْدُ فَنَهَانِي وَ لَمْ آتِ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ فَحَدَّثَنِي أَبُو الصَّهْبَائِ أَنَّهُ سَأَلَ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا عَنْهُ بِمَكَّةَ فَكَرِهَهُ

ابونضرہ کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابن عمر اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنھم سے (بیع)صرف کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے اس میں کوئی قباحت نہیں دیکھی (اگرچہ کمی بیشی ہو بشرطیکہ نقد و نقد ہو) پھر میں سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھا ہوا تھا تو میں نے ان سے (بیع)صرف کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا کہ جو زیادہ ہو وہ سود ہے۔ میں نے سیدنا ابن عمر اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنھم کے کہنے کی وجہ سے اس کا انکار کیا تو انہوں نے کہا کہ میں تجھ سے نہیں بیان کروںگا مگر (صرف) وہ جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے۔ ایک کھجور والا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک صاع عمدہ کھجور لے کر آیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کھجور بھی اسی قسم کی تھی۔ تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ ’’یہ کھجور کہاں سے لایا؟‘‘ وہ بولا کہ میں دوصاع کھجور لے کر گیا اور ان کے بدلے ان کھجوروں کا ایک صاع خریدا ہے کیونکہ اس کا نرخ بازار میں ایسا ہے اور اس کا نرخ ایسا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ تیری خرابی ہو! تو نے سود دیا۔ جب تو ایسا کرنا چاہے تو اپنی کھجور کسی اور شے کے بدلے بیچ ڈال، پھر اس شے کے بدلے جو کھجور تو چاہے خرید لے۔‘‘ سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ نے کہا کہ پس جب کھجور کے بدلے کھجور دی جائے، اس میں سود ہو تو چاندی جب چاندی کے بدلے دی جائے (کم یا زیادہ) تو اس میں سود ضرور ہو گا (اگرچہ نقد و نقد ہو) ابونضرہ نے کہا کہ اس کے بعد پھر میں سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنھما کے پاس آیا تو انہوں نے بھی اس سے منع کیا (شاید ان کو سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ کی حدیث پہنچ گئی ہو) اور میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنھما کے پاس نہیں گیا، لیکن مجھ سے ابوالصہباء نے بیان کیا کہ انہوں نے اس کے بارے میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنھما سے مکہ میں پوچھا توانہوں نے مکروہ کہا۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بَابٌ : لَعْنُ آكِلِ الرِّبَا وَ مُوْكِلِهِ
سود کھانے والے اور کھلانے والے پر لعنت ہے


(955) عَنْ جَابِرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم آكِلَ الرِّبَا وَ مُؤْكِلَهُ وَ كَاتِبَهُ وَ شَاهِدَيْهِ وَ قَالَ هُمْ سَوَائٌ

سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سود کھانے والے پر لعنت کی اور سود کھلانے والے، سود لکھنے والے اور سود کے گواہوں سب پر لعنت فرمائی اور فرمایا:’’وہ سب برابر ہیں۔ ‘‘
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604

بَابٌ : أَخْذُ الْحَلاَلِ الْبَيِّنِ وَ تَرْكُ الشُّبُهَاتِ
واضح حلال کو لینا چاہیے اور مشتبہ چیزوں سے پرہیز کرنا چاہیے


(956) عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم يَقُولُ وَ أَهْوَى النُّعْمَانُ بِإِصْبَعَيْهِ إِلَى أُذُنَيْهِ إِنَّ الْحَلاَلَ بَيِّنٌ وَ إِنَّ الْحَرَامَ بَيِّنٌ وَ بَيْنَهُمَا مُشْتَبِهَاتٌ لاَ يَعْلَمُهُنَّ كَثِيرٌ مِنَ النَّاسِ فَمَنِ اتَّقَى الشُّبُهَاتِ اسْتَبْرَأَ لِدِينِهِ وَ عِرْضِهِ وَ مَنْ وَقَعَ فِي الشُّبُهَاتِ وَقَعَ فِي الْحَرَامِ كَالرَّاعِي يَرْعَى حَوْلَ الْحِمَى يُوشِكُ أَنْ يَرْتَعَ فِيهِ أَلاَوَ إِنَّ لِكُلِّ مَلِكٍ حِمًى أَلاَ وَ إِنَّ حِمَى اللَّهِ مَحَارِمُهُ أَلاَ وَ إِنَّ فِي الْجَسَدِ مُضْغَةً إِذَا صَلَحَتْ صَلَحَ الْجَسَدُ كُلُّهُ وَ إِذَا فَسَدَتْ فَسَدَ الْجَسَدُ كُلُّهُ أَلاَ وَ هِيَ الْقَلْبُ

سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے اور سیدنا نعمان نے اپنی انگلیوں سے دونوں کانوں کی طرف اشارہ کیا (یعنی یہ بتانے کے لیے کہ میں نے اپنے کانوں سے سنا ہے) کہ ’’یقینا حلال واضح ہے اور حرام بھی واضح ہے لیکن حلال و حرام کے درمیان ایسی چیزیں ہیں جو دونوں سے ملتی جلتی ہیں، یعنی ان میں شبہ ہے اور ان کو بہت سے لوگ نہیںجانتے تو جو شبہات سے بچا ،وہ اپنے دین اور آبرو کو سلامت لے گیا اور جو شبہات میں پڑا وہ آخر حرام میں بھی پڑا ،اس چرواہے کی طرح جو چراگاہ کے آس پاس چراتا ہے۔ قریب ہے کہ اسکے جانور ممنوع چراگاہ کو بھی چر جائیں۔ خبردار! ہر بادشاہ کے لیے چراگاہ یا حدود ہوتی ہیں اور آ گاہ رہو کہ اللہ تعالیٰ کی روکی ہوئی چیز یعنی چراگاہ اس کی حرام کی ہوئی چیزیں ہیں۔ جان رکھو !بیشک بدن میں گوشت کا ایک ٹکڑا ہے۔‘‘ اگر وہ سنور گیا تو سارا بدن سنور گیاا ور جو وہ بگڑ گیا تو سارا بدن بگڑ گیا اور یاد رکھو کہ وہ ٹکڑا دل ہے۔ ‘‘
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بَابٌ : مَنِ اسْتَلَفَ شَيْئًا، فَقَضَى خَيْرًا مِنْهُ وَ خَيْرُكُمْ أَحْسَنُكُمْ قَضَاء
جس نے کسی کا قرض دینا ہو اور اس سے بہتر دیدے اور تم میں سے بہتر وہ ہے
جو اچھی طرح ادائیگی کرے


(957) عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ كَانَ لِرَجُلٍ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم حَقٌّ فَأَغْلَظَ لَهُ فَهَمَّ بِهِ أَصْحَابُ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم فَقَالَ النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وسلم إِنَّ لِصَاحِبِ الْحَقِّ مَقَالاً فَقَالَ لَهُمُ اشْتَرُوا لَهُ سِنًّا فَأَعْطُوهُ إِيَّاهُ فَقَالُوا إِنَّا لاَ نَجِدُ إِلاَّ سِنًّا هُوَ خَيْرٌ مِنْ سِنِّهِ قَالَ فَاشْتَرُوهُ فَأَعْطُوهُ إِيَّاهُ فَإِنَّ مِنْ خَيْرِكُمْ أَوْ خَيْرَكُمْ أَحْسَنُكُمْ قَضَاء

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر قرض تھا۔ اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سختی سے ادائیگی کا کہا توصحابہ رضی اللہ عنھم نے ا س کو سزا دینے کا قصد کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ یقینا جس کا حق ہے اس کو کچھ کہنا جائز ہے۔‘‘ (یہ اخلاق دلیل ہیں نبوت کے)۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ اس کو ایک اونٹ خرید کر دو۔‘‘ انہوں نے کہا ہمیں تو اس کے اونٹ سے بہتر ملتا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ وہی خرید کر دو کیونکہ تم میں بہتر لوگ وہ ہیں جو قرض کو اچھی طرح ادا کریں۔ ‘‘
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بَابٌ : اَلنَّهْيُ عَنِ الْحَلْفِ فِي الْبَيْعِ
بیع میں قسم اٹھانے کی ممانعت


(958) عَنْ أَبِي قَتَادَةَ الأَنْصَارِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم يَقُولُ إِيَّاكُمْ وَ كَثْرَةَ الْحَلِفِ فِي الْبَيْعِ فَإِنَّهُ يُنَفِّقُ ثُمَّ يَمْحَقُ

سیدنا ابوقتادہ انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے:’’ تم بیع میں بہت زیادہ قسم کھانے سے بچو !اس لیے کہ وہ مال کی نکاسی کرتی ہے پھر (برکت کو) مٹا دیتی ہے۔ ‘‘
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604

(959) عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم ثَلاَثَةٌ لاَ يُكَلِّمُهُمُ اللَّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَ لاَ يَنْظُرُ إِلَيْهِمْ وَ لاَ يُزَكِّيهِمْ وَ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ رَجُلٌ عَلَى فَضْلِ مَائٍ بِالْفَلاَةِ يَمْنَعُهُ مِنَ ابْنِ السَّبِيلِ وَ رَجُلٌ بَايَعَ رَجُلاً بِسِلْعَةٍ بَعْدَ الْعَصْرِ فَحَلَفَ لَهُ بِاللَّهِ لَأَخَذَهَا بِكَذَا وَ كَذَا فَصَدَّقَهُ وَ هُوَ عَلَى غَيْرِ ذَلِكَ وَ رَجُلٌ بَايَعَ إِمَامًا لاَ يُبَايِعُهُ إِلاَّ لِدُنْيَا فَإِنْ أَعْطَاهُ مِنْهَا وَ فَى وَ إِنْ لَمْ يُعْطِهِ مِنْهَا لَمْ يَفِ

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ تین شخص ایسے ہیں جن سے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن نہ کلام کرے گا نہ ان کو دیکھے گا، نہ ان کو گناہ سے پاک کرے گا اور ان کے لیے بڑے درد کاعذاب ہے۔ ایک تو وہ شخص جو جنگل میں حاجت سے زیادہ پانی رکھتا ہو اور مسافر کو اس پانی سے روکتا ہو، دوسرا وہ شخص جس نے کسی کے ہا تھ کوئی مال عصر کے بعد بیچا اور قسم کھائی کہ میں نے اتنے پیسوں کا لیا ہے اور خریدار نے اس کی بات کو سچ سمجھا، حالانکہ اس نے اتنے پیسوں کا نہیں لیا تھا (یعنی جھوٹی قسم کھائی اور عصر کے بعد کی بات اس وجہ سے کہ وہ متبرک وقت ہے فرشتوں کے جمع ہونے کا یا وہ اصل وقت ہے خرید و فروخت کا) اور تیسرا وہ شخص جس نے امام سے دنیا کی طمع کے لیے بیعت کی۔ پھر اگر امام نے اس کو دنیا کا کچھ مال دیا تو اس نے اپنی بیعت پوری کی اور اگر نہ دیا تو پوری نہ کی (تو اس شخص نے بیعت کر کے مسلمانوں کو دھوکا دیا اور وہ اس کے عہد کے بھروسے پر رہے اور یہ دنیا کی فکر میں تھا اسے عہد کی پروا نہ تھی)۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بَابٌ : بَيْعُ الْبَعِيْرِ وَاسْتِثْنَاء حُمْلاَنِهِ
اونٹ بیچتے وقت اس پر سوار ہونے کا استثناء کرنا جائز ہے


(960) عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ غَزَوْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فَتَلاَحَقَ بِي وَ تَحْتِي نَاضِحٌ لِي قَدْ أَعْيَا وَ لاَ يَكَادُ يَسِيرُ قَالَ فَقَالَ لِي مَا لِبَعِيرِكَ ؟ قَالَ قُلْتُ عَلِيلٌ قَالَ فَتَخَلَّفَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فَزَجَرَهُ وَ دَعَا لَهُ فَمَا زَالَ بَيْنَ يَدَيِ الإِبِلِ قُدَّامَهَا يَسِيرُ قَالَ فَقَالَ لِي كَيْفَ تَرَى بَعِيرَكَ ؟ قَالَ قُلْتُ بِخَيْرٍ قَدْ أَصَابَتْهُ بَرَكَتُكَ قَالَ أَفَتَبِيعُنِيهِ ؟ فَاسْتَحْيَيْتُ وَ لَمْ يَكُنْ لَنَا نَاضِحٌ غَيْرُهُ قَالَ فَقُلْتُ نَعَمْ فَبِعْتُهُ إِيَّاهُ عَلَى أَنَّ لِي فَقَارَ ظَهْرِهِ حَتَّى أَبْلُغَ الْمَدِينَةَ قَالَ فَقُلْتُ لَهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ ! إِنِّي عَرُوسٌ فَاسْتَأْذَنْتُهُ فَأَذِنَ لِي فَتَقَدَّمْتُ النَّاسَ إِلَى الْمَدِينَةِ حَتَّى انْتَهَيْتُ فَلَقِيَنِي خَالِي فَسَأَلَنِي عَنِ الْبَعِيرِ فَأَخْبَرْتُهُ بِمَا صَنَعْتُ فِيهِ فَلاَمَنِي فِيهِ قَالَ وَ قَدْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ لِي حِينَ اسْتَأْذَنْتُهُ مَا تَزَوَّجْتَ أَبِكْرًا أَمْ ثَيِّبًا ؟ فَقُلْتُ لَهُ تَزَوَّجْتُ ثَيِّبًا قَالَ أَفَلاَ تَزَوَّجْتَ بِكْرًا تُلاَعِبُكَ وَ تُلاَعِبُهَا ؟ فَقُلْتُ لَهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ ! تُوُفِّيَ وَالِدِي أَوِ اسْتُشْهِدَ وَ لِيَ أَخَوَاتٌ صِغَارٌ فَكَرِهْتُ أَنْ أَتَزَوَّجَ إِلَيْهِنَّ مِثْلَهُنَّ فَلاَ تُؤَدِّبُهُنَّ وَ لاَ تَقُومُ عَلَيْهِنَّ فَتَزَوَّجْتُ ثَيِّبًا لِتَقُومَ عَلَيْهِنَّ وَ تُؤَدِّبَهُنَّ قَالَ فَلَمَّا قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم الْمَدِينَةَ غَدَوْتُ إِلَيْهِ بِالْبَعِيرِ فَأَعْطَانِي ثَمَنَهُ وَ رَدَّهُ عَلَيَّ
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنھما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جہاد کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے (راستے میں) ملے اور میری سواری پانی کا ایک اونٹ تھا جو تھک چکا تھا اور بالکل نہ چل سکتا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا :’’ تیرے اونٹ کو کیا ہوا ہے؟، میں نے عرض کی کہ بیمار ہے۔ یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پیچھے ہٹے اور اونٹ کو ڈانٹا اور اس کے لیے دعا کی تو پھر وہ ہمیشہ سب ا ونٹوں کے آگے ہی چلتا رہا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ اب تیرا اونٹ کیسا ہے؟‘‘ میں نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کی برکت سے اچھا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ اسے میرے ہاتھ بیچتا ہے؟‘‘ مجھے شرم آئی اور ہمارے پاس پانی لانے کے لیے اور کوئی اونٹ بھی نہ تھا، آخر میں نے کہا کہ ہاں بیچتا ہوں۔ پھر میں نے اس اونٹ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ اس شرط پربیچ ڈالا کہ میں مدینے تک اس پر سواری کروں گا۔ پھر میں نے عرض کی کہ یارسول اللہ ! میری نئی نئی شادی ہوئی ہے۔ مجھے (لوگوں سے پہلے مدینہ جانے کی) اجازت دیجیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دے دی۔ میں لوگوں سے آگے بڑھ کر مدینہ آپہنچا۔ وہاں میرے ماموں ملے اور اونٹ کا حال پوچھا تو میں نے سب حال بیان کیا۔ انہوں نے مجھے ملامت کی (کہ تیرے پاس ایک ہی اونٹ تھا اور گھر والے بہت ہیں، اس کو بھی تو نے بیچ ڈالا اور اس کو یہ معلوم نہ تھا کہ اللہ تعالیٰ کو سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کا فائدہ منظور ہے) سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا کے جب میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت مانگی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ تونے کنواری سے شادی کی ہے یا نکاحی سے؟‘‘ میں نے کہا کہ نکاحی سے۔ آپ نے فرمایا:’’ کنواری سے کیوں نہ کی کہ وہ تجھ سے کھیلتی اور تو اس سے کھیلتا۔‘‘ میں نے کہا کہ یارسول اللہ! میرا باپ میری کئی چھوٹی چھوٹی بہنیں چھوڑ کر فوت یا شہید ہو گیا ہے تو مجھے برا معلوم ہوا کہ میں شادی کر کے ان کے برابر ایک اور لڑکی لاؤں جو نہ ان کو ادب سکھائے اور نہ ان کو دبائے، اس لیے میں نے ایک نکاحی سے شادی کی تاکہ ان کو دبائے اور تمیز سکھائے۔ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں تشریف لائے تو میںصبح ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اونٹ لے گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی قیمت مجھے دی اور اونٹ بھی لوٹا د یا۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بَابٌ : فِيْ الْوَضْعِ مِنَ الدَّيْنِ
قرض میں سے کچھ معاف کر دینا


(961) عَنْ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّهُ تَقَاضَى ابْنَ أَبِي حَدْرَدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ دَيْنًا كَانَ لَهُ عَلَيْهِ فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فِي الْمَسْجِدِ فَارْتَفَعَتْ أَصْوَاتُهُمَا حَتَّى سَمِعَهَا رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم وَ هُوَ فِي بَيْتِهِ فَخَرَجَ إِلَيْهِمَا رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم حَتَّى كَشَفَ سِجْفَ حُجْرَتِهِ وَ نَادَى كَعْبَ بْنَ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَقَالَ يَا كَعْبُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَقَالَ لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ ! فَأَشَارَ إِلَيْهِ بِيَدِهِ أَنْ ضَعِ الشَّطْرَ مِنْ دَيْنِكَ قَالَ كَعْبٌ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَدْ فَعَلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ ! قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم قُمْ فَاقْضِهِ

سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں ابن ابی حدرد رضی اللہ عنہ سے مسجد میں اپنے قرض کا تقاضا کیا تو دونوں کی آوازیں بلند ہوگئیں ،یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سنا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم باہر نکل کر ان کے پاس آئے اور پکارا :’’ اے کعب بن مالک! ‘‘ وہ بولے کہ یا رسول اللہ!میں حاضر ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ سے اشارہ فرمایا:’’ آدھا قرضا معاف کر دے۔ تو سیدنا کعب صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ یارسول اللہ!میں نے آدھا معاف کیا ۔ تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابن ابی حدرد سے فرمایا:’’ اٹھ اور اس کا قرض ادا کر دے۔ ‘‘
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بَابٌ : فِيْ (مَطْلِ الْغَنِيِّ ظُلْمٌ) وَالْحَوَالَةِ
طاقتور کا قرض ادا کرنے میں دیر کرنا ظلم ہے اور حوالہ کا بیان


(962) عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ مَطْلُ الْغَنِيِّ ظُلْمٌ وَ إِذَا أُتْبِعَ أَحَدُكُمْ عَلَى مَلِيئٍ فَلْيَتْبَعْ

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ جو شخص مالدار ہو (یعنی اتنا کہ قرض ادا کرنے کی طاقت رکھتا ہو) اس کا قرض کے ادا کرنے میں دیر کرنا ظلم ہے اور جب تم میں سے کوئی مالدار پر لگا دیا جائے تو اس کا پیچھا کرے۔‘‘ (یعنی مالدار قرض دینے کا ذمہ اٹھا لے تو قبول کر لینا چاہیے اور اس سے تقاضا کرنا چاہیے)۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بابٌ : فِيْ إِنْظَارِ الْمُعْسِرِ وَالتَّجَاوُزِ
تنگ دست کو مہلت دینے اور معاف کر دینے کے متعلق


(963) عَنْ حُذَيْفَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنِ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم أَنَّ رَجُلاً مَاتَ فَدَخَلَ الْجَنَّةَ فَقِيلَ لَهُ مَا كُنْتَ تَعْمَلُ ؟ قَالَ فَإِمَّا ذَكَرَ وَ إِمَّا ذُكِّرَ فَقَالَ إِنِّي كُنْتُ أُبَايِعُ النَّاسَ فَكُنْتُ أُنْظِرُ الْمُعْسِرَ وَ أَتَجَوَّزُ فِي السِّكَّةِ أَوْ فِي النَّقْدِ فَغُفِرَ لَهُ فَقَالَ أَبُو مَسْعُودٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَ أَنَا سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم
سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ ایک شخص فوت ہو گیا اور وہ جنت میں گیا تو اس سے پوچھا گیا کہ تو کیا عمل کرتا تھا؟ پس اس نے خود یاد کیا یا یا د دلایا گیا تو اس نے کہا کہ میں (دنیا میں) لوگوں کو مال بیچتا تھا تو مفلس کو مہلت دیتا تھا اور سکہ یا نقد میں درگزر کرتا تھا (اس کے نقصان یا عیب سے اور قبول کر لیتا تھا) تو اس وجہ سے اس کی بخشش ہو گئی۔‘‘ سیدنا ابو مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے بھی یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے۔
 
Top