• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

غوثِ اعظم کون ہے ؟

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
پہلی یہ جو کام تصوریر میں دیکھائے گئے ہیں یہ غیر شرعی ضرور ہیں حرام کے درجہ میں تو ہیں مگر عبادت نہیں۔اور رہ گئی پکارنے کی بات تو اگر پکارنا عبادت ہے تو اللہ نے ارشاد فرمایا کہ اے ایمان والوں رسول اللہ کو ایسے مت پکارو جیسے ایک دوسرے کو پکارتے ہو تو اگر ترجمہ آپ کے مطابق کیا جائے تو مطلب یہ ہو گا کہ رسول اللہ کی عبادت ایسے مت کرو جیسے ایک دوسرے کی کرتی ہو
وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِي سَيَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ دَاخِرِينَ (المؤمن: ٦٠)

تمہارا رب کہتا ہے ''مجھے پکارو میں تمہاری سنوں گا، جو لوگ میری عبادت سے خودسر ہوتے ہیں ضرور وہ ذلیل وخوار ہو کر جہنم میں داخل ہوں گے۔

اِس آیت کی تفسیر رسول اللہﷺ اپنی زبان مبارک سے یوں فرماتے ہیں:

عن النعمان بن بشیر قال: سمعت النبیﷺ یقول: الدُّعَاءُ ھُوَ الۡعِبَادَۃُ ثم
قرأ وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِي سَيَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ دَاخِرِينَ


(الترمذی، مسند احمد، ابن ماجة، وصححه الألبانی)

نعمان بن بشیر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، کہا: میں نے نبیﷺ کو یہ فرماتے سنا: ’’دُعا ہی تو اصل عبادت ہے‘‘ اور تب آپ ﷺ نے یہ آیت پڑھی

وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِي سَيَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ دَاخِرِينَ

’’تمہارا رب کہتا ہے: مجھے پکارو۔ میں تمہاری سنوں گا، جو لوگ میری عبادت سے خودسر ہوتے ہیں ضرور وہ ذلیل وخوار ہو کرجہنم میں داخل ہوں گے‘'


دُعاء جب عبادت ہے اور عبادت کی جان ہے تو پھر اس کو غیر اللہ کے لیے روا رکھنا غیر اللہ کی عبادت ہوئی اور غیراللہ کی عبادت کرنا شرکِ اکبر۔

وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّن يَدْعُو مِن دُونِ اللَّهِ مَن لَّا يَسْتَجِيبُ لَهُ إِلَى يَومِ الْقِيَامَةِ وَهُمْ عَن دُعَائِهِمْ غَافِلُونَوَإِذَا حُشِرَ النَّاسُ كَانُوا لَهُمْ أَعْدَاء وَكَانُوا بِعِبَادَتِهِمْ كَافِرِينَ(الاحقاف: ۵،۶)

آخر اس شخص سے زیادہ بہکا ہوا انسان اور کون ہوگا جو اللہ کو چھوڑ کر ایسوں کو پکارے جو قیامت تک اس کی دُعا قبول نہ کرسکیں بلکہ اس سے بھی بے خبر ہیں کہ پکارنے والے ان کو پکار رہے ہیں اور جب تمام انسان جمع کئے جائیں گے، اس وقت وہ اپنے پکارنے والوں کے دشمن ہو جائیں گے اور ان کی عبادت سے صاف انکار کر جائیں گے''۔

آیت کے الفاظ ] أَعْدَاء وَكَانُوا بِعِبَادَتِهِمْ كَافِرِينَ[ سے واضح ہوا کہ اللہ کے سوا ’’پکاری جانے‘‘ والی ہستیاں قیامت کے روز اپنے ’’پوجے جانے‘‘ کے اس فعل سے براءت کریں گی۔ چنانچہ (سورہ مومن کی گزشتہ آیت کی موافقت میں سورۃ الاحقاف کی اِس آیت کے اندر) ان ہستیوں کے ’’پکارا جانے‘‘ کو ’’انکی عبادت‘‘ قرار دیا گیا ہے۔

بنا بریں عیسائیوں کا 'یسوع' کو پکارنا شرک ہے۔ ('یسوع' سے مراد عیسیٰ علیہ السلام ہیں جو کہ اللہ کے ایک رسول ہیں)۔ عیسیٰ علیہ السلام کو مدد کے لیے پکارنا شرک اکبر ہے توعلی رضی اللہ عنہ کو مدد کے لیے پکارنا شرک اکبر کیوں نہ ہوگا؟ مالک الملک کو چھوڑ کر کسی بھی ’غوث‘، کسی بھی 'پنجتن پاک'، کسی بھی ’غریب نواز‘ یا کسی بھی ’دست گیر‘ کو مشکل کشائی اور حاجت روائی کے لیے پکارنا عین یہی حکم رکھتا ہے۔ کوئی کسی مخلوق'داتا' یا ’لجپال‘ یا کسی بھی قبر والے کو پکارے اور اس سے صحت، رزق یا اولاد کا سوالی ہو، شرکِ اکبر کا مرتکب ہوتا ہے۔ ایسے واقعات کے خلاف اُمت کا وہی ردعمل ہونا چاہیے جو کہ کاٹھ یا پتھر کے بتوں کو پوجنے کے خلاف۔ کیونکہ وہ بھی شرکِ اکبر ہے اور یہ بھی۔

امام محمد التمیمی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:

ہمارے اِس دور کے بعض مشرک رسول اللہ ﷺ کے دور کے مشرکوں سے بھی بدتر ہیں اور وہ اس طرح کہ قرآن میں اُن کی بابت ذکر ہوا ہے کہ وہ عام حالات میں تو ضرور مخلوق ہستیوں کو پکارتے لیکن جب منجدھار میں کشتی ڈولنے لگتی تو وہ ایک خدا کو ہی خالصتاً مدد کے لیے پکارتے، جیساکہ اِس فصل کی شروع آیت میں بھی یہ مذکور ہے۔ البتہ آج کے مشرک کڑے سے کڑے وقت میں بھی پکاریں گے تو اپنی ان خاص ہستیوں کو ہی۔ دعاء بمعنیٰ عبادت
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
اس سلسے میں @اسحاق سلفی بھائی سے بھی وضاحت پونچھ لیتے ہیں
جی بالکل، بلکہ فورم کے علماء کو خاص کر اس طرف توجہ کرنی چاہئے کیونکہ یہ عقائد کا معاملہ ہے اور عقائد کے معاملے میں اہل شرک و بدعت نے کافی سارے مغالطے پیدا کر دئیے ہیں، میں خود سوچ رہا ہوں کہ شیخ کفایت اللہ سنابلی صاحب سے گزارش کروں کہ وہ ایک مدلل کتاب "عقیدہ توحید" پر بھی لکھیں، جس طرح انہوں نے تفصیلی کتاب یزید کے موضوع پر لکھی ہے، یزید کا معاملہ تو پھر بھی اہل علم کے مطابق سکوت کا ہے جبکہ عقیدہ توحید کا معاملہ دین کی اساس ہے، اُس کتاب میں وہ اہل شرک و بدعت کی طرف سے بیان کردہ مغالطات کا رد اور ضعیف و موضوع روایات کی جانچ پرکھ کا تفصیلی کام کر لیں، ایسا کرنے سے ہمارے لئے دعوت کا کام آسان ہو جائے گا۔ ان شاءاللہ

@ابن داؤد بھائی
@اسحاق سلفی بھائی
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
مزید فیس بک پر کئی لوگوں کو یہ پوائنٹ سینڈ کر دیا ہے کہ وہ علماء سے اس کا محققانہ جواب پوچھیں، اور خود بھی علماء کو بھیج دیا ہے، جو بھی جواب آئے گا پھر وہ ادھر پیش کر دیں گے ان شاءاللہ

کیونکہ بہتر یہی ہے کہ بجائے اپنی طرف سے کچھ بولنے کے، جس مسئلے پر علم کی کمی ہو پہلے اس مسئلے پر تحقیق کر لینی ضروری ہے۔ الحمدللہ
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069

لیکن یہاں تو آپ کی پوسٹ میں صدیق اکبر لکھا ہوا ہے اس کو میں کیا کہوں چالاکی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرے بھائی سادہ سا سوال پوچھا ہاں یہ نا میں جواب دے دیں بات کو مت گمھائیں -

کیا آپ ان چاروں کو جنتی مانتے ہیں ؟؟؟
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069

لیکن یہاں تو آپ کی پوسٹ میں صدیق اکبر لکھا ہوا ہے اس کو میں کیا کہوں چالاکی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس پوسٹ پر میں نے یہی اعتراض اٹھایا ہے

بریلویوں کا شکوہ اہلحدیثوں سے - آپ کا اس بارے میں کیا کہنا ہیں

http://forum.mohaddis.com/threads/بریلویوں-کا-شکوہ-اہلحدیثوں-سے-آپ-کا-اس-بارے-میں-کیا-کہنا-ہیں.21537/
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
پہلی یہ جو کام تصوریر میں دیکھائے گئے ہیں یہ غیر شرعی ضرور ہیں حرام کے درجہ میں تو ہیں مگر عبادت نہیں۔اور رہ گئی پکارنے کی بات تو اگر پکارنا عبادت ہے تو اللہ نے ارشاد فرمایا کہ اے ایمان والوں رسول اللہ کو ایسے مت پکارو جیسے ایک دوسرے کو پکارتے ہو تو اگر ترجمہ آپ کے مطابق کیا جائے تو مطلب یہ ہو گا کہ رسول اللہ کی عبادت ایسے مت کرو جیسے ایک دوسرے کی کرتی ہو

وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّن يَدْعُو مِن دُونِ اللَّهِ مَن لَّا يَسْتَجِيبُ لَهُ إِلَى يَومِ الْقِيَامَةِ وَهُمْ عَن دُعَائِهِمْ غَافِلُونَوَإِذَا حُشِرَ النَّاسُ كَانُوا لَهُمْ أَعْدَاء وَكَانُوا بِعِبَادَتِهِمْ كَافِرِينَ(الاحقاف: ۵،۶)

آخر اس شخص سے زیادہ بہکا ہوا انسان اور کون ہوگا جو اللہ کو چھوڑ کر ایسوں کو پکارے جو قیامت تک اس کی دُعا قبول نہ کرسکیں بلکہ اس سے بھی بے خبر ہیں کہ پکارنے والے ان کو پکار رہے ہیں اور جب تمام انسان جمع کئے جائیں گے، اس وقت وہ اپنے پکارنے والوں کے دشمن ہو جائیں گے اور ان کی عبادت سے صاف انکار کر جائیں گے''۔

آیت کے الفاظ ] أَعْدَاء وَكَانُوا بِعِبَادَتِهِمْ كَافِرِينَ[ سے واضح ہوا کہ اللہ کے سوا ’’پکاری جانے‘‘ والی ہستیاں قیامت کے روز اپنے ’’پوجے جانے‘‘ کے اس فعل سے براءت کریں گی۔ چنانچہ (سورہ مومن کی گزشتہ آیت کی موافقت میں سورۃ الاحقاف کی اِس آیت کے اندر) ان ہستیوں کے ’’پکارا جانے‘‘ کو ’’انکی عبادت‘‘ قرار دیا گیا ہے۔


 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
تخت لانے کا کہنا مافوق الاسباب مدد مانگنے کے مترادف ہے؟
پہلے آپ اتنا بتادیں کہ تاکہ فیصلہ ہو جائے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کا اپنے درباریوں سے تخت لانے کے لئے مدد مانگنا مافوق الاسباب تھا یا ماتحت الاسباب
1۔جہاں حضرت سلیمان علیہ السلام کا دربار سجا تھا وہاں سے ملکہ بلقیس کا تخت کتنے فاصلے پر تھا یعنی کتنے دن کی مسافت پر تھا ؟
2۔اس تخت کا وزن کتنا تھا ؟
3۔ اس تخت کا حجم کتنا تھا ؟

نیز پہلے بھی آپ سے "بریلویت کا اللہ تعالیٰ سے اختلاف" والے تھریڈ میں اِس پوائنٹ پر گفتگو کرتے ہوئے میں نے حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ کی تفسیر کا یہ اقتباس پیش کیا تھا جس میں اس واقعے کی معتدلانہ وضاحت موجود ہے۔ ملاحظہ فرمائیں:
"یہ کون شخص تھا جس نے یہ کہا؟ یہ کتاب کون سی تھی؟ اور یہ علم کیا تھا، جس کے زور پر یہ دعویٰ کیا گیا؟ اس میں مفسرین کے مختلف اقوال ہیں۔ ان تینوں کی پوری حقیقت اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے۔ یہاں قرآن کریم کے الفاظ سے جو معلوم ہوتا ہے وہ اتنا ہی ہے کہ وہ کوئی انسان ہی تھا، جس کے پاس کتاب الہی کا علم تھا۔ اللہ تعالیٰ نے کرامت اور اعجاز کے طور پر اسے یہ قدرت دے دی کہ پلک چھپکتے میں وہ تخت لے آیا ۔ کرامت اور معجزہ نام ہی ایسے کاموں کا ہے جو ظاہری اسباب اور امور عادیہ کے یکسر خلاف ہوں۔ اور وہ اللہ تعالیٰ کی قدرت و مشیت سے ہی ظہور پذیر ہوتے ہیں۔ اس لیے نہ شخصی قوت قابل تعجب ہے اور نہ اس علم کے سراغ لگانے کی ضرورت، جس کا ذکر یہاں ہے۔ کیونکہ یہ تو اس شخص کا تعارف ہے جس کے ذریعے یہ کام ظاہری طور پر انجام پایا، ورنہ حقیقت میں تو یہ مشیت الہی ہی کی کارفرمائی ہے جو چشم زدن میں، جو چاہے، کر سکتی ہے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام بھی اس حقیقت سے آگاہ تھے، اس لئےجب انہوں نے دیکھا کہ تخت موجود ہے تو اسے فضل ربی سے تعبیر کیا"

نوٹ: آپ کی طرف سے مافوق الاسباب مدد طلب کرنے کی نفی کے نظریے کے بیان پر یہی پوائنٹ بار بار دھرایا جاتا ہے، میں مزید اس موضوع پر اس واقعے کی تحقیق کروں گا، کیونکہ آپ کے پاس یہی ایک پوائنٹ ہے جس پر آپ عوام کو مغالطہ دینے کی کوشش کرتے ہیں اور اپنا من مانی مفہوم نکالتے ہیں۔ تحقیق سے مزید بات کھل کر سامنے آئے گی۔ ان شاءاللہ
وہاں بھی میں یہ عرض کیا تھا کہ سوال یہ نہیں کہ تخت کون لایا سوال یہ تھا کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کا اپنے درباریوں سے تخت لانے کے مدد مانگنا ماتحت الاسباب تھا یا ما فوق الاسباب ؟؟؟
 
Top