محمد عامر یونس
خاص رکن
- شمولیت
- اگست 11، 2013
- پیغامات
- 17,117
- ری ایکشن اسکور
- 6,800
- پوائنٹ
- 1,069
وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِي سَيَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ دَاخِرِينَ (المؤمن: ٦٠)پہلی یہ جو کام تصوریر میں دیکھائے گئے ہیں یہ غیر شرعی ضرور ہیں حرام کے درجہ میں تو ہیں مگر عبادت نہیں۔اور رہ گئی پکارنے کی بات تو اگر پکارنا عبادت ہے تو اللہ نے ارشاد فرمایا کہ اے ایمان والوں رسول اللہ کو ایسے مت پکارو جیسے ایک دوسرے کو پکارتے ہو تو اگر ترجمہ آپ کے مطابق کیا جائے تو مطلب یہ ہو گا کہ رسول اللہ کی عبادت ایسے مت کرو جیسے ایک دوسرے کی کرتی ہو
تمہارا رب کہتا ہے ''مجھے پکارو میں تمہاری سنوں گا، جو لوگ میری عبادت سے خودسر ہوتے ہیں ضرور وہ ذلیل وخوار ہو کر جہنم میں داخل ہوں گے۔
اِس آیت کی تفسیر رسول اللہﷺ اپنی زبان مبارک سے یوں فرماتے ہیں:
عن النعمان بن بشیر قال: سمعت النبیﷺ یقول: الدُّعَاءُ ھُوَ الۡعِبَادَۃُ ثم
قرأ وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِي سَيَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ دَاخِرِينَ
(الترمذی، مسند احمد، ابن ماجة، وصححه الألبانی)
نعمان بن بشیر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، کہا: میں نے نبیﷺ کو یہ فرماتے سنا: ’’دُعا ہی تو اصل عبادت ہے‘‘ اور تب آپ ﷺ نے یہ آیت پڑھی
وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِي سَيَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ دَاخِرِينَ
’’تمہارا رب کہتا ہے: مجھے پکارو۔ میں تمہاری سنوں گا، جو لوگ میری عبادت سے خودسر ہوتے ہیں ضرور وہ ذلیل وخوار ہو کرجہنم میں داخل ہوں گے‘'
دُعاء جب عبادت ہے اور عبادت کی جان ہے تو پھر اس کو غیر اللہ کے لیے روا رکھنا غیر اللہ کی عبادت ہوئی اور غیراللہ کی عبادت کرنا شرکِ اکبر۔
وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّن يَدْعُو مِن دُونِ اللَّهِ مَن لَّا يَسْتَجِيبُ لَهُ إِلَى يَومِ الْقِيَامَةِ وَهُمْ عَن دُعَائِهِمْ غَافِلُونَوَإِذَا حُشِرَ النَّاسُ كَانُوا لَهُمْ أَعْدَاء وَكَانُوا بِعِبَادَتِهِمْ كَافِرِينَ(الاحقاف: ۵،۶)
آخر اس شخص سے زیادہ بہکا ہوا انسان اور کون ہوگا جو اللہ کو چھوڑ کر ایسوں کو پکارے جو قیامت تک اس کی دُعا قبول نہ کرسکیں بلکہ اس سے بھی بے خبر ہیں کہ پکارنے والے ان کو پکار رہے ہیں اور جب تمام انسان جمع کئے جائیں گے، اس وقت وہ اپنے پکارنے والوں کے دشمن ہو جائیں گے اور ان کی عبادت سے صاف انکار کر جائیں گے''۔
آیت کے الفاظ ] أَعْدَاء وَكَانُوا بِعِبَادَتِهِمْ كَافِرِينَ[ سے واضح ہوا کہ اللہ کے سوا ’’پکاری جانے‘‘ والی ہستیاں قیامت کے روز اپنے ’’پوجے جانے‘‘ کے اس فعل سے براءت کریں گی۔ چنانچہ (سورہ مومن کی گزشتہ آیت کی موافقت میں سورۃ الاحقاف کی اِس آیت کے اندر) ان ہستیوں کے ’’پکارا جانے‘‘ کو ’’انکی عبادت‘‘ قرار دیا گیا ہے۔
بنا بریں عیسائیوں کا 'یسوع' کو پکارنا شرک ہے۔ ('یسوع' سے مراد عیسیٰ علیہ السلام ہیں جو کہ اللہ کے ایک رسول ہیں)۔ عیسیٰ علیہ السلام کو مدد کے لیے پکارنا شرک اکبر ہے توعلی رضی اللہ عنہ کو مدد کے لیے پکارنا شرک اکبر کیوں نہ ہوگا؟ مالک الملک کو چھوڑ کر کسی بھی ’غوث‘، کسی بھی 'پنجتن پاک'، کسی بھی ’غریب نواز‘ یا کسی بھی ’دست گیر‘ کو مشکل کشائی اور حاجت روائی کے لیے پکارنا عین یہی حکم رکھتا ہے۔ کوئی کسی مخلوق'داتا' یا ’لجپال‘ یا کسی بھی قبر والے کو پکارے اور اس سے صحت، رزق یا اولاد کا سوالی ہو، شرکِ اکبر کا مرتکب ہوتا ہے۔ ایسے واقعات کے خلاف اُمت کا وہی ردعمل ہونا چاہیے جو کہ کاٹھ یا پتھر کے بتوں کو پوجنے کے خلاف۔ کیونکہ وہ بھی شرکِ اکبر ہے اور یہ بھی۔
امام محمد التمیمی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:
ہمارے اِس دور کے بعض مشرک رسول اللہ ﷺ کے دور کے مشرکوں سے بھی بدتر ہیں اور وہ اس طرح کہ قرآن میں اُن کی بابت ذکر ہوا ہے کہ وہ عام حالات میں تو ضرور مخلوق ہستیوں کو پکارتے لیکن جب منجدھار میں کشتی ڈولنے لگتی تو وہ ایک خدا کو ہی خالصتاً مدد کے لیے پکارتے، جیساکہ اِس فصل کی شروع آیت میں بھی یہ مذکور ہے۔ البتہ آج کے مشرک کڑے سے کڑے وقت میں بھی پکاریں گے تو اپنی ان خاص ہستیوں کو ہی۔ دعاء بمعنیٰ عبادت