• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

محترم ابو بکر قدوسی صاحب کی تحریریں

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
اہل حدیث کی فکر کب سے ہے ؟


دوست نے سوت کاتا اور برباد کر دیا ، غنیم کے غنیم قلم کی کاٹ سے ہراساں تھے ، لیکن " لشکری " اپنے ہی لشکر پر چڑھ دوڑا - مجھے کل سے راجہ پورس یاد آ رہا ہے اور بہت یاد آ رہا ہے ، جہلم کے کنارے جس کی پامردی کھیت ہوئی ، ہر معرکے کا فاتح , دھرتی کا فخر راجہ پورس ، سکندر کے مقابل آیا - ممکن ہے تاریخ بدل جاتی لیکن اس کے ترپ کے پتے " ہاتھی " پلٹ کے واپس جو بھاگے اور اپنے ہی "گھر " کو روندا تو پورس راجہ ، اسکندر یونانی کی قید میں تھا -

انکار حدیث کے رد کا کام کرنے والے ہمیشہ ہی میری محبت کا مرکز رہے ، سو محبت اور عقیدت اب بھی ہے لیکن اگلے روز "دوست " گھر کی دیوار کو ہی ڈھانے آ گئے - لکھتے ہیں کہ :

"میری نظر میں بریلوی ، دیوبندی اور اہل حدیث ، تینوں حنفیت سے ہی نکلے ہیں ۔ شیخ نذیر حسین دہلوی ، مولانا احمد رضا خان بریلوی اور مولانا محمود الحسن دیوبندی رحمہم اللہ حنفیوں میں سوچ کے تین انداز تھے جو آگے بڑھ کر تین مسلکوں کی صورت اختیار کر گئے-"

موخر الذکر بزرگوں کی بات کی جاتی تو ہمیں کیا اعتراض ہوتا - لیکن اگر برصغیر کی حد تک بھی کی جائے تو اہل حدیث کے باب میں بے بنیاد ہے - بجا کہ سید نذیر حسین رح کی بہت زیادہ خدمات ہیں اور برصغیر میں اہل حدیث کی " نشاه ثانیہ " کچھ انہی کی مرہون منت ہے - لیکن یہ کہنا کہ ان کی سوچ کا انداز آگے بڑھ کے مسلک کی صورت اختیار کر گیا ، تاریخ سے لاعلمی ہے محض - میاں صاحب اپنے کلیدی کردار کے باوجود پچھلی تحریک کا پرتو ہیں ، آگے کی منزل ہیں ، سفر نو کا آغاز ہیں -

اہل حدیث اس دیس میں سیدنا فاروق اور سیدنا عثمان رض کے ادوار سے چلے آئے تھے ، کہ جب فقہی مسالک کی بنیاد تو کیا پڑتی ، ان کے لیے ابھی زمین بھی ہموار نہ ہوئی تھی کہ امت ابھی فکری کجی سے کوسوں دور تھی - ان کی بنیادیں بھی ابھی "عالم بالا" میں تھیں - اور ان مذاہب کے وہ بزرگ ، کہ جن کے نام پر یہ تشکیل پائے ، پیدا بھی نہیں ہووے تھے - سو ایسی صورت میں سوال تو اٹھے گا کہ تب ہندوستان کے کناروں یعنی سندھ ، مالا بار اور کیرالا کے مسلمان باشندوں کا مذھب کیا تھا ؟ - دیوبند اور بریلی کا قصہ تو بہت بعد کا ہے کہ جن کا باپ حنفیت کو قرار دیا جا سکتا ہے -

کس فقہی مذاھب کے وہ پیروکار تھے ؟ -
تاریخ کی کتب کھنگالیں کیا ملے گا ؟-


ما سوا اس کے کہ وہ سیدھے سیدھے اور سادے سادے اسلام پر عامل تھے ، جس میں احکام کا منبع قران اور حدیث ہے -

اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن ان تاریخی کتب کا کیا کیا جائے جو برصغیر میں اہل حدیث فکر کی موجودگی کو واضح کرتی ہے - خلافت راشدہ کے دور سے آگے نکل کے عرض کرتا ہوں - تب کی بات کر لیتے ہیں جب "فقہی مذاہب" وجود میں آ چکے تھے - ایک سیاح سندھ کی سیر کو آیا - شمس الدین المقدسی انبیاء کی سرزمین بیت المقدس سے آیا تھا - لکھتا ہے :
"یہاں (منصورہ ، سندھ کا قدیم دار الحکومت ) کے مسلمانوں میں سے اکثر اہل حدیث ہیں ،میں نے یہاں قاضی ابو مححمد منصوری کو دیکھا ،جو داوودی (ظاہری ) تھے ، بڑے شہروں میں حنفی فقہا بھی پائے جاتے ہیں ، یہاں مالکی اور حنبلی نہیں "-

اسی طرح ریاست ہباریه بھی سندھ میں تھی ، وہاں کا مذھب بھی اہل حدیث تھا - حوالے درجنوں موجود ہیں - قاضی اطہر مبارک پوری کی کتاب اور احسن التقاسیم جن سے بھری پڑی ہے - اور بھی کتب کہ تفصیل کی یہاں گنجائش نہیں -

پھر یہی معاملہ کیرالہ ،مالا بار ، دکن کے بعض علاقوں کا ہے - یہاں جو مسلمان پائے جاتے تھے ان کی اکثریت کا بھی کبھی مذھب تھا - پھر افغانستان سے حملہ آور آنے شروع ہووے تو ہندستان میں ملوک کے مذھب کی اشاعت کا زور ہوا اور انہی کے زیر اثر عام مذھب "حنفی" قرار پایا -

دوست مزید کرم فرمائی کرتے ہوۓ لکھتے ہیں :

"پھر اس ملک میں فتنوں کے خلاف جو کردار دیوبند کے حلقے کو حاصل رہا ہے، وہ کسی اور حاصل نہیں ہے۔ ختم نبوت کے لیے سب سے زیادہ کام اسی حلقے نے کیا ہے۔ اسی طرح انکار حدیث کے فتنے کے خلاف اہل حدیث کیا بند باندھنے میں کامیاب ہو سکتے تھے، اگر انہیں دیوبند کی سپورٹ حاصل نہ ہوتی؟ "-

حضرت مجھ سا روادار یہاں اس سوشل میڈیا کے فورم پر کون ہو گا ؟ - لیکن پھر بھی دبے لفظوں میں کہوں انکار حدیث کے میدان میں " کون سی سپورٹ ، کیسی سپورٹ " - حضرت اگر خفی انکار اورانکار کی ہر دم حوصلہ افزائی سپورٹ ہے تو آپ درست کہتے ہیں ، ورنہ بخاری تک اب کوئی ایسی محبوب نہیں احباب کی محفلوں میں ، کسی درجہ "مغضوب " ہی ہے اب - جن احباب کے اصول "امام " کرخی نے طے کر دئیے حدیث کے باب میں اور آج تک کسی کو انکار کی توفیق نہ ہوئی وہ کیا سپورٹ کر سکتے ہیں ؟- کسی کی انفرادی کوشش کو جماعت کی سپورٹ کا درجہ تو نہیں دیا جا سکتا - لگے ہاتھوں امام کی عبارت دیکھ لیجئے :

"ان کل خبر یجیئی بخلاف قول اصحابنا فانہ یحمل علی نسخ او علی انہ معارض بمثلہ "

رہے دوسرے فتنے ، کم اور زیادہ کی بحث کبھی بھی انجام کو نہیں پہنچتی - فضیلتوں کا مقابلہ ہمیشہ کار بے کار اور ناگوار ، کہ فیصلہ محبت کرتی ہے جو بینائی سے محروم ہوتی ہے -

جس نے زیادہ کیا ، جس نے کم کیا ، سب کا اللہ کے ہاں اجر ہے .. لیکن کبھی "دوستوں" سے بھی کچھ لکھوا دیکھیے ، کبھی ہمارا بھی کلیجہ ٹھنڈا ہو کہ ہاں ! ہندوستان میں جمعیت علمائے ہند کی بنا کی تحریک مولانا ثناء اللہ امرتسری نے دی تھی ، جو بعد میں ہمارے لیے ہی ایسی اجنبی ٹہری کہ مجبورا "کل ہند اہل حدیث کانفرنس " کا قیام عمل میں لانا پڑا ، مسلم لیگ کی تائید میں جمعیت علمائے اسلام کی بنیاد میں مولانا سیالکوٹی بھی وسے ہی شریک اور محرک تھے جیسے مولانا شبیر احمد عثمانی ... آپ کو کبھی بھولے سے نام بھی مگر سننے کو نہیں ملے گا -

ختم نبوت کی تحریک اور مرزا غلام کے احتساب کا آغاز کس نے کیا ، اولین فتوی کس کا تھا ، مناظروں میں اسے کون آگے آگے بھگاتا پھرا ؟؟؟ - ہاں نا ! ختم نبوت کے باب میں کوئی ثناء اللہ امرتسری بھی تھا - تحریک نظام مصطفی میں کوئی احسان الہی ظہیر بھی تھا - آپ کبھی کسی "غیر " سے شاذ ہی ذکر سنیں گے - تو کیا رواداری ہماری ہی ذمے داری ہے ؟-

آپ شرارت سے "فرماتے" ہیں اور کیا غضب ڈھاتے ہیں ، اور ایسی "محبت"کے مظاہرے کہ جس میں سارا جہاں جل گیا ، زمین کیا آسمان بھی جل گیا ،اور جگر ہی نہیں دل بھی جل گیا ، لکھتے ہیں :

"ہاں البتہ بطور شرارت اتنی بات کہی جا سکتی ہے کہ حنفیوں میں سے جو پڑھ لکھ گئے، وہ دیوبندی کہلائے اور جو زیادہ پڑھ لکھ گئے، وہ اہل حدیث بن گئے۔ تو اہل حدیث ، حنفیوں سے اختلاف ضرور کریں لیکن مخالفت نہ کریں۔ باپ سے اختلاف ہو سکتا ہے لیکن اس کے باپ ہونے کا انکار نہیں ۔ برصغیر میں حنفیت ، تینوں مسالک کے لیے باپ کی حیثیت رکھتی ہے۔ اور اگر کوئی بھی اس کا انکار کرے گا تو اسے اپنا شجرہ مکمل کرنا مشکل ہو جائے گا۔ اور شجرہ سے مراد علمی شجرہ ہے کہ جسے علمی سند کہتے ہیں۔"

میں بھی " شرارت " سے کہوں .... چھوڑئیے اس بات کو کہ کون زیادہ پڑھ لکھ گیا کون کم ، لیکن اتنا عرض کردوں کہ باپ پہلے ہوتا ہے پھر بیٹا پیدا ہوتا ہے ، البتہ آپ کی اس بات سے اتفاق ہے کہ باپ سے اختلاف ہو سکتا ہے اس کے باپ ہونے سے انکار نہیں کیا جا سکتا ... جدید و قدیم کا تعین کیجیے اور پھر تاریخی "ڈی این اے" کر لیجیے ، باپ کا معلوم ہو جائے گا کہ کون ہے ؟ - اور ہاں ! منوانا پھر آپ کی ذمے داری ...

اور یہ جو علمی شجرہ ہے نا اصل میں ہمارا ہی تھا - بیچ میں ذرا ادھر ادھر نکل گیا ، اور جب واپس آیا تو حضرت شاہ ولی اللہ کو بھی ساتھ لے آیا ورنہ حجتہ اللہ کی بیش قیمت عبارتیں احباب کو دکھا دیجیے کہ جو سورج سی روشن اور چاند سی تابناک ہیں -

اور اس غلط فہمی کو بھی اب دور ہو جانا چاہیے کہ " علمی شجرہ " برصغیر سے باہر نکلنے کے لیے حضرت شاہ صاحب کا محتاج ہے ، اس پر لیکن پھر بات ہو گی ... ان شا اللہ

ابوبکر قدوسی
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
سورج گڑھ کا سورج ....

میاں نذیر حسین محدث دہلوی رحمہ اللہ
.

بہار آ گئی ، سورج نکل آیا - صوبہ بہار کے قصبے سورج گڑھ کے نواح میں جو سورج نذیر حسین کے نام سے نکلا تھا ، وہ دلی میں " میاں سید نذیر حسین محدث دہلوی" کے نام سے چمک رہا تھا ، ہزاروں نہیں لاکھوں لوگوں کے دل آپ کے ساتھ دھڑکتے تھے ، دلی کے لوگوں کے دلوں پر آپ کی حکومت تھی ، بھلے تخت دلی پر کوئی بیٹھا ہوا کرے -
لیکن مزاج میں نخوت اور غرور تو کیا آتا عجز اور انکسار بڑھتا ہی چلا گیا - امیروں کے بچے بھی پڑھنے آتے اور غریبوں کے بھی ، لیکن سید کی نظر میں غریب کچھ زیادہ ہی معتبر ٹہرے - ایک نابینا بچہ کہ ماں باپ نے سوچا کہ
" یہ تو نابینا ہے ، اسے مدرسے چھوڑ آتے ہیں "- سید صاحب کے مدرسے آ گیا ، پھر اسے زمانے نے "محدث پنجاب" کا خطاب دیا - ماں باپ کہ جن کے دوسرے بچے دنیا میں بہت آگے نکلے ، فیض اور سکون و عزت کی ٹھنڈی چھاؤں پھر بھی اسی بچے کے وجود با برکات سے ہی پا سکے - وہ قصہ پھر سہی ، میاں صاحب کے " دربار " میں چلتے ہیں -
عبد المنان کو بیت الخلا جانا تھا ، ساتھی کوئی ساتھ نہ تھا - راستہ ٹٹولتے خود چل دئیے - لیکن مصیبت پر دوسری مصیبت کہ اک بیل راستے میں یوں جم کے بیٹھا تھا کہ " جا کے دکھاؤ "- عبد المنان رک گئے ، کچھ بے بسی اور کچھ معذوری ، کیا کرتے ؟-
ایک ہاتھ آگے بڑھا اور تھام لیا -
خاموشی اور سکوت ،
نہ کوئی سوال نہ کوئی جواب -
بیت الخلا آ گیا - طالب علم اندر داخل ہوا ، جھٹ سے لوٹا اور پانی بھی آ موجود ہوۓ - راہنما ، رہبر باہر کھڑے انتظار میں اور اندر عبد المنان اس فکر میں غلطاں کہ بیل تو ابھی راستے میں ہو گا ، واپسی پر کیا ہو گا ؟-
باہر تو نکلنا تھا ، سو فارغ ہوۓ اور نکل آئے - قدم بھر نہ چلے ہوں گے کہ بازو کسی نے تھام لیا ، سہولت سے راستہ طے کرتے ہوۓ عبد المنان اپنی جگہ پر آ گے -
ایسے میں ایک ساتھی بھی آ گیا ، راہنما واپس چل دیے تو اس نے ہولے سے پوچھا :
"جانتے ہو کہ یہ روشنی کہاں سے آئ ، یہ سہارا کون بنا ، بیل کے سینگ سے کون بچا کے لے گیا اور واپس بھی لے آیا ؟؟؟-"
"ہاں یار وہ تو چپکا ہی رہا ، بولا ہی نہیں ، میں بھی اندھا آدمی ، بھلا ایسے کیا جانوں ؟ " عبد المنان بھی حیران تھے -
بھائی وہ سورج گڑھ سے نکلا سورج تھا ، جو روشنی بن گیا
" میرے بھائی ! وہ میاں صاحب تھے " -
میں لکھ رہا ہوں اور آنسو ہیں کہ لکھنے نہیں دے رہے ، عبد المنان کی نابینا آنکھوں نے کیسے کیسے ساون بہاے ہوں گے ؟-
.... اور آپ سے پوچھوں کہ بات ختم ہو گئی ؟-
جی نہیں اگر آپ استاد ہیں ، باپ ہیں ، کسی ادارے کو چلانے والے ہیں تو بات ختم نہیں ہوئی ، بات تو شروع ہوئی ہے - آپ اپنے طالب علموں سے کیسے ہیں - بات شروع ہوئی ہے سوال شروع ہوۓ ہیں -

ابوبکر قدوسی
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
انکار حدیث اصل میں انکار قرآن ہے


...کیسے ؟
جن راویوں نے قران ہم تک پہنچایا .. انہی نے رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے اقوال روایت کیے ...
اگر وہ امانت دیانت کی انتہا پر فائز نہ تھے ، "جعل ساز " تھے ، بھلکڑ تھے ؟-
تو پھر قران میں کیا کیا نہ بھول گئے ہوں گے اور کیا کیا نہ شامل کر دیا ہو گا ؟-
اب یہ نہ کہیے کہ اللہ نے قران کی حفاظت کا وعدہ کیا تھا ... کیونکہ یہ والی آیت بھی انہی "راویان " نے ہم کو پہنچائی -

.....ابو بکر قدوسی
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
حدیث کا انکار نہ کیجئے...


زمانہ بدلا ، دنیا ایک ہو گئی ، ہوائی کے جزیروں میں پتہ جو کھڑکتا ہے آواز سائبیریا کے برف زاروں اور ہمالہ کے کوہساروں میں آتی ہے...روشن خیالی نے کچھ اذہان کو اپنے مذھب پر شرمندہ کرنا جو شروع کیا تو ازالہ تشکیک کے واسطے متجددین سامنے آ گئے
وہی سر سید والا رویہ اختیار کیا ، پہلے تو حدیث کو مشکوک کیا ، پھر سنت اور حدیث کی تقسیم کی ، صحیح حدیث کو بھی قرآن ، اور "عقل" پر پرکھنا شروع کیا ، جو حدیث پسند نہ آئ اسے قران سے متصادم قرار دے کر جان چھڑائی ، پھر بھی گزارہ نہ ہوا تو اپنی عقل کو معیار بنا لیا..حالت یہ ہوئی کہ کل ایک صاحب نے لکھا :

.....................

ساری بحث کا نتیجہ یہ ھے کہ حدیث شریف یا بخاری شریف کا حوالہ سن کر ارتھ نہ ھو جایا کریں اور نہ ان کے تقدس کے نشے میں اپنی عقل کو کومے میں جانے دیا کریں. ذکر اذکار ، یا عبادات سے متعلق بےشک ایزی رھیں مگر قرآن مجید، رسول کریمﷺ . ازواج مطھرات اور خلفائے راشدین سے متعلق روایتوں پر چوکنا ھو جایا کریں اور ایسی کسی روایت کو گھاس مت ڈالیں جو ان کی توھین کرتی ھو. یہ روایتیں کوئی قرآن نہیں ھیں کہ ان کی ھر آیت پر ایمان ضروری ھو. محدثین نے لاکھوں اٹھا پھینکی ھیں . دس پندرہ اٹھا پھینکنے کی ھمت آپ بھی اپنے ضمیر میں پیدا کریں. جس روایت پر ضمیر مطمئن نہ اس کو مت قبول فرمائیں آپ کا محاسبہ آپ کے ضمیر کی بنیاد پر ھو گا -"

..............

سوال یہ ہے کہ ہر بندے کا ضمیر اپنا اپنا ہے ، عقل اپنی اپنی ....اور ہمت بھی اپنی اپنی ....اب کوئی نماز کی حدیث کو پھینکے گا ، کوئی زکات کی اور کوئی روزے پر اجتہاد کرے گا ..کسی کے نزدیک نبی کی نو شادیاں بھی دل میں تشکیک پیدا کریں گی ...کوئی سیدہ عائشہ کی نو سال کی عمر میں شادی نہیں مانے گا تو اگلا آ کے کہے گا کہ اٹھارہ سال بھی کیوں مانوں ؟ - نبی کریم کی عمر چھپن سال تھی اٹھارہ برس کی بچی سے شادی کیوں کی ؟ -

کوی زیادہ بڑا "مجتہد" پیدا ہو گیا معاشرہ ہی تلپٹ ہو جائے گا -
ماضی میں سر سید سے اصلاحی صاحب تک کی گئی اس عقل پرستی کا نقصان یہ ہوا کہ حدیث اور اس کے متوں کو مشکوک بنا کے رکھ دیا گیا اور عقل کو معیار حق ٹہرا لیا گیا
..اس غیر علمی انداز کا نتیجہ نکلا کہ لوگوں کے لیے انکار حدیث کا مشکل مرحلہ آسان ہو گیا ...وقت آئے گا کہ یہ انکار خود ان کے گلے کو آئے گا ..جو لوگ آج حدیث کا انکار کرتے ہیں کل کو قران کا بھی ایسے ہی انکار کریں گے
حدیث کے انکار کا سب سے بڑا "وقتی فائدہ" یہی ہے نا کہ بہت سی پابندیوں سے جان چھوٹ جاتی ہے...جتنے کنکر اتنے شنکر...ہر طرف متجددین اور مفکر بکھرے پڑے ہیں...کتنے چنیں؟

ان دوستوں سے سوال ہے کہ قران میں ہے

فَانْ تَنَازَعْتُمْ فِی شَیْءٍ فَرُدُّوْہ الی اللّٰہِ وَالرَّسُوْلِ


چلئے قران کی مان لیجئے کہ اگر اختلاف ہو جائے تو اللہ اور اس کے رسول کی طرف پلٹو..

...اختلاف ہو گیا..ٹھیک؟..اب اللہ سے ملنے چلیں گے کہ فیصلہ کروائیں؟...ظاہر ہے ممکن نہیں .. تو یہاں آپ اور ہم اس سے مراد کتاب الله لیتے ہیں کہ اللہ کی کتاب کی طرف رجوع کیا جائے وہاں سے راہنمائی لی جائے...تب ہمارا اور آپ کا یعنی انکار حدیث والوں کا ترجمہ ایک ہی ہو جاتا ہے ، اگلے ہی لفظ پر پھنچتے ترجمہ بھی بدل جاتا ہے فہم بھی ...رسول کی ذات سے مراد حدیث کیوں نہیں...؟

صحابہ اس آیت کے مفھوم میں یکسو بھی تھے اور عامل بھی کہ ان میں نبی کریم کی ذات بابرکات موجود تھی...سو وہ کتاب اللہ کو دیکھتے ، اس سے راہنمائی لیتے تشریح کے لیے نبی کی طرف پلٹتے ،

اب ہمارا زمانہ آیا ، نہ اللہ کی ذات تک ظاہری رسائی ، نہ رسول ہم میں موجود...

اب اللہ نے قرآن میں اختلافات کا حل بتا دیا...اللہ سے رجوع کر لیا قرآن کی صورت...رسول سے کیسے رجوع کریں؟

قران کی یہ آیت بذات خود حجیت حدیث کا اعلان ہے کوئی نا مانے تو کیا علاج؟

ورنہ رسول کی طرف پلٹنے کا مطلب بتا دیجیے؟

اور اسی آیت میں اشارہ ہے محدثین کی محنت ، حدیث کی تصحیح اور تضعیف کی طرف..آپ حیران ہوں گے..یہ کیا؟

دیکھئے جو عقل حدیث کو پرکھنے کے لیے تو لنگوٹ کس کے میدان میں آ جاتی ہے ..اس عقل کو یہ سمجھ نہیں آتی کہ رب نے جب اپنی یعنی اللہ طرف رسول کی طرف پلٹنے کا حکم دیا تو معلوم تھا کہ میری ذات تک رسائی ممکن نہیں اور نبی بھی ان میں نہیں ہوں گےتب کیا ہو گا...سو اپنے قران کی حفاظت کا اہتمام تو کر لیا... ساتھ حدیث کی حفاظت کا بھی اہتمام کیا...سو اب امت بے فکر ہو " فردوہ " کے حکم پر عمل کر سکتی ہے...

.........ابو بکر قدوسی
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
صحیح بخاری .... قران کی "سوکن "--


میرے عنوان سے چونک نہ جایے گا .. یہ مفکر جدید "مولوی " حنیف ڈار صاحب کا ارشاد ہے - پہلے ان کی عبارت دیکھ لیجیے پھر اس پر بات کرتے ہیں :

"حدیث کے سارے مجموعے تاریخ اسلام سے زیادہ کوئی اھمیت نہیں رکھتے،، امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی 95٪ انہی راویوں کی روایات 12 جلدوں میں تاریخِ بخاری کہلاتی ھیں جبکہ 13 ویں جلد صحیح بخاری کہلاتی ھے- ھیں سب تاریخ تاریخِ اسلام اور شخصیات کی بائیو گرافی ،، یعنی کہ ھسٹری آف اسلام اکارڈنگ ٹو محمد اسماعیل بخاری،، مگر ان کتابوں کو قرآن کی سوکن بنا کر رکھ دیا گیا، قرآن سے زیادہ تقدس ان کا بھرا گیا، ان کو قرآن کا محافظ کہا گیا- زھر تو ھوتا ھی زھر ھے مگر بعض دفعہ خود دوا بھی زھر بن جاتی ھے۔"

مولوی صاحب کی زبان ایسی ہے کہ اس پر تبصرہ کرنے کے لیے بندے کو اپنے مقام سے نیچے آنا پڑتا ہے جو ہم سے ممکن نہیں - بس iتنا کہے دیتے ہیں کہ الفاظ کے استعمال سے بندے کی ذہنی سطح آشکار ہوتی ہے

فی الحال مولوی صاحب کی "مان" کے آگے چلتے ہیں - مولوی صاحب کہتے ہیں "حدیث کے سارے مجموعے تاریخ اسلام سے زیادہ کوئی اھمیت نہیں رکھتے" - اب سوال ہے کہ اسلام کی تاریخ کا آغاز ہوتا کہاں سے ہے ؟-

کیا کوئی ذی ہوش اس بات سے انکار کر سکتا ہے کہ تاریخ اسلام کا آغاز اس روز ہوا تھا جب جبرایل غار حرا میں نازل ہوے - ہم کسی سے اس کی ہمت اور طاقت سے زیادہ مطالبہ نہیں کرتے لیکن جو عقل دی گئی اس کے استعمال کا مطالبہ تو کر سکتے ہیں ؟...اضافی اگر نہیں ملی تو آپ کی قسمت ---

جبرائیل کی آمد سے ، ملک الموت کے آنے تک ہم نبی کریم کی زندگی کے واقعات ، آپ کے افعال ، اقوال ، اعمال کے ذکر کو حدیث کہتے ہیں ...آپ تاریخ کہہ لیجے .. اگرچہ جانتے ہیں کہ "تاریخ" کا لفظ محض حدیث کی اہمیت کم کرنے کو آپ استعمال کر رہے ہیں ...لیکن آپ آئیں تو سہی ، سینے سے لگیں تو سہی ، ہم سے بات کریں تو سہی ....

الفاظ کا جھگڑا ختم کر کے آگے کو سفر کرتے ہیں -

بقول آپ کے " تاریخ " بخاری کی بارہ جلدوں کے بعد تیرویں جلد صحیح بخاری ہے - مان لیا لیکن " تاریخ " کی اس جلد میں اقوال رسول ، اعمال رسول اور تقریر رسول کا ہی تو ذکر ہے ... کیا کوئی ذی عقل اور صاحب شعور اس بات کا انکار کرے گا .. رکیے صاحب ایسی بھی کیا جلدی ؟ - حیثیت کا تعین بعد میں ہو گا کہ صحیح ہیں یا غلط ...ابھی "سوکن " ہونے کا فیصلہ کرتے ہیں -

آپ ان کو محض "تاریخ " کہہ کر کے ان کی اہمیت گھٹانا چاہتے ہیں اور یہ ہی آپ کا مقصد حیات بن چکا -

لیکن قران تو اس "تاریخ " کو سینے سے لگانے کا حکم دے رہا ہے :

" لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ "

اب بتائیے اور موجودہ "عقل " کو ہی استعمال کر کے بتائیے کہ یہ اسوہ کہاں سے ملے گا ...اس کا ماخذ کیا ہے ، کوئی ان "سوکنوں" کے علاوہ بھی ہے تو ہم منتظر ؟؟

قران میں اللہ نے صاف صاف کہا کہ :

وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَى -- إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَى

اب اللہ رب العزت نے تو صاف صاف کہہ دیا کہ رسول اپنی مرضی سے نہیں بولتے ، وحی الہی کے تابع ہو کر کے بولتے ہیں ...اب قران نے اسوہ رسول کو اختیار کرنے کا حکم دیا نصیحت کی ..اور اس اسوہ کی عزت و سعادت کو کہا کہ وہ ہمارا عطا کردہ ہے کہ اپنی مرضی سے نہ بولتے نہ عمل کرتے -

پھر مزید عزت اور سند تکریم دیتے ہووے فرمایا :

مَّن يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّهَ ۖ

ایسی عزت کہ جس نے رسول کی اطاعت کی گویا اس نے اللہ کی اطاعت کی ...
اس کا یہ مطلب اگر لیا جائے تو کیا غلط ہو گا ؟

کہ جس نے رسول کی مخالفت کی گویا اس نے اللہ کی مخالفت کی ... اب اس اطاعت کے تقاضے اور مخالفت سے بچاؤ کا سامان کہاں سے لیا جائے

اب بتائیے رسول کی اطاعت کیسے کی جائے گی ؟؟ . "تاریخ " کے کیسے گزرا ہو گا ... "سوکن" کا لفظ تو ہم بولنے سے رہے لیکن ایسا معزز حدیث کو ہم نے تو نہیں بنایا خود اللہ نے بنایا ہے -

.. ہم شروع میں مطالبہ کر چکے ہیں اور مکرر عرض ہے کہ جس قدر اللہ نے فراست دی ہے ہم اسی سے انصاف طلب ہیں - زیادہ نہیں ملی نہ ہم تقاضا کر رہے ہیں -

جب اللہ اپنے رسول کی اطاعت کا ، اس کے اسوہ کو اپنانے کا ، اس کی طرف پلٹنے کا مطالبہ کر رہا ہے ... تو ان افعال ، عمال ، اقوال کا ماخذ بھی دیا ہوتا ... تاریخ بخاری کی تیرویں جلد " صحیح بخاری " تو بقول آپ کے محض تاریخ اسلام ہے اور قران کی سوکن - اب یہ گھسا پٹا راگ نہیں چلنے کا کہ "جی ہم احکام کی احادیث مانتے ہیں بس" ...کس دلیل کی رو سے ؟

کس اصول کے تحت ؟

جس کی امت میں ماضی میں کوئی مثال ہی نہیں ملتی ...
ویسے تو آپ احکام کی احادیث کو ماننے میں بھی اسی تاریخ کی " تیرویں جلد " کے محتاج ہیں - ہم پہلے لکھ چکے کہ انکار حدیث اصل میں انکار قران ہے - مولوی صاحب نے ، کہ جن کی " فکر " ہر گزرتے دن کے ساتھ ترقی پذیر ہے ، حدیث کی کتب کو قران کی سوکن قرار دیا ہے ، کوئی دن جاتا ہے ان آیات کی بھی من مرضی کی تشریح کریں گے
آپ نے حدیث کو زہر سے تشبیہ دی کہ دوا تھی جو زہر بن گئی .... حضور یہ نصیب جلے ہوتے ہیں جن کو دوا بھی زہر ہو جاتی ہے -

قران میں اللہ نے کہا ہے

يُضِلُّ بِهِ كَثِيرًا وَيَهْدِي بِهِ كَثِيرًا وَمَا يُضِلُّ بِهِ إِلَّا الْفَاسِقِينَ

اسی طرح ایک اور جگہ ہے

وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآنِ مَا هُوَ شِفَاءٌ وَرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِينَ ۙ وَلَا يَزِيدُ الظَّالِمِينَ إِلَّا خَسَارًا

اسی طرح حدیث شریف کسی کے لیے شفا اور ہدایت اور کسی کی گمراہی کا سبب بن جاتی ہیں ...آئنیہ ہے اگر کوئی جان سکے

....ابوبکر قدوسی
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
مفتی منیب صاحب کی "مجبوریاں "
اور سیدھے سادے " وہابی "....

.
مفتی صاحب نے کالم لکھا ، جس میں میلاد النبی کے حوالے سے جلوس میں ہونے والی خرافات ، عمارتوں پر کیا جانے والا چراغاں ، اور دیگر اسرافانہ امور پر گرفت کی ، خاص طور پر خواتین و حضرات کے اختلاط پر لکھا .... اور جلوس کے بارے میں کہا کہ یہ ضروریات دین و اہل سنت نہیں ...عمدہ لکھا سو ہمارے وہابی دوست لٹو ہو گئے .... تحریر کو لے اڑے ، خوب پھیلی ، وٹس اپ اور فیس بک بھری پڑی تھی
لیکن ان سادہ مزاج وھابیوں اور دیوبندیوں کی نظر سے موصوف کا یہ جملہ کیسے اوجھل ہو گیا کہ یہ مستحب ہے اور مستحسن ہے -
مسلسل تنقید نے حاملین مسلک بریلویت کو ، ان کے سنجیدہ اور پڑھے لکھے علماء کو اپنے ہی گھر پر ایسی تنقید پر مجبور کر دیا ہے - اصل میں پانی سر سے گذر چکا تھا ، دین کا حلیہ بگڑ گیا تھا ..
لیکن کیا آپ کا خیال ہے اس درد نے ان علماء کو اس "بیک فٹ " پر جانے پر مجبور کیا ہے ؟... جی نہیں دین کا درد ہوتا تو " ایجادات " ہی نہ ہوتیں - مضحکہ خیزی کی حد تک پہونچی حرکات نے اور اس پر سنجیدہ عوام کے رد عمل نے ان کو مجبور کر دیا - لیکن حیرت اس بات کی ہے کہ مرض کا علاج نہیں کرتے - مفتی صاحب مفتی ہیں ،ان کی نظر میں دور صحابہ بھی ہو گا ، نبی کریم کی سیرت اور دور نبوی پر بھی نظر ہو گی - صاحب مطالعہ جب اسے ضروریات دین سے نکال رہے تھے تو مستحب کس دلیل کی رو قرار دے رہے تھے ..لگے ہاتھوں اس کی بھی کوئی مثال پیش کر دیتے ..
اور ہاں اپنے سیدھے سیدھے "وہابی " بھائیوں سے بھی عرض گزارنی ہے کہ فحاشی اور اسراف کے خلاف اس کالم میں کوئی ایسا تحسین طلب پہلو نہ تھا کہ آپ ہاتھ اٹھا اٹھا کے داد دینے لگے ...یہ محض ایک "فکری خامی" کو نکھارنے کی کوشش تھی جسے "خرافات " نے گھیر لیا ہے

...ابو بکر قدوسی
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
چولی کے پیچھے کیا ہے ؟؟؟؟

.
آپ بھی سوچتے ہوں گے کہ مجھ کو کیا ہو گیا ہے ؟..... سیدھی سیدھی فحاشی شروع کر دی ...
پہلی بات "موسیقی" کے حوالے سے وضاحت کر دوں کہ میں کوئی ایسا متقی انسان نہیں لیکن گانے نہیں سنتا .. اگرچہ لاہور کے رہنے والے ، کیا تمام پنجاب والوں کو ، نہ سننے کے باوجود بیشتر گانوں کا پتا ہوتا ہے ، اس کے لیے ہم ویگنوں اور چنگ چی رکشاؤں کے مالکان کے "ممنون" ہیں کہ گناہ سے بھی محفوظ رہتے ہیں اور "مارکیٹ میں کیا چل رہا ہے " ، سے بھی با خبر رہتے ہیں ... آپ گانوں کی بات کرتے ہیں ہم اردو بازار والے چونکہ بھاٹی چوک کے علاقے میں رہتے ہیں اس لیے ہم کو تو گجروں والے بیشتر "فن پاروں" کے ابتدائی جملے تک یاد ہو چکے ہیں....ذاتی وضاحت ممکنہ فتووں کے ڈر سے لمبی ہو گئی....آمدم بر سر مطلب...کہ...کچھ برس گزرے :
میں اپنے اہل خانہ کے ساتھ کسی کام سے نکلا تھا ..میرے محلے کے باہری کونے پر ایک مسجد ہے ، اس سے آگے چوراہا پڑتا ہے ...وہاں ، چوراہے کے بیچو بیچ ، ایک سٹیج سجا تھا .... بے محابا میوزک کی چیختی چنگھاڑتی آواز دل و دماغ کو بری طرح مجروح کر رہی تھی .. میں نے اپنا راستہ لیا اور نکل گیا ...
لیکن جب واپس آئے تو گانا بدل چکا تھا اور خاصا فحش ہندوستانی گیت چل رہا تھا ، "چولی کے پیچھے کیا ہے" اور لڑکے اس پر جھوم رہے تھے ، ڈانس کر رہے تھے ، ہجوم کی کثرت سے راستہ تنگ ہو رہا تھا .. میں ٹھہر گیا .. بلکہ یہ کہنا بجا ہو گا کہ اب برداشت کرنا میرے بس میں نہ رہا کہ اس زیادہ توہین رسول کیا ہو گی کہ ان کے نام پر بے حیائی کا ارتکاب کیا جائے ..مجھے شدید غصہ آ گیا اور کچھ طیش کے عالم میں گاڑی سے نکلا - میری اہلیہ نے مجھے روکنا چاہا مگر میں اس وقت اپنے آپ میں نہ تھا ..میں نے جا کر ان کو شرم دلانا شروع کر دی کہ سرور کائنات ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے نام پر تم کیا کر رہے ہو...بس میں بہت بولا ..لیکن شرم و حیا تو جانے کب سے وہاں سے بوریا بستر باندھ کے رخصت ہو چکی تھی...
اصولی طور پر یہ میرا کام نہ تھا بلکہ اس پڑوس کی مسجد کے مولوی صاحب کا کام تھا جو انہی کے ہم مسلک تھے اور سرور کائنات کے نام کی روٹیاں کھاتے تھے اور ان کی ناک تلے یہ سب کچھ ہو رہا تھا ، لیکن جب ضمیر کی باضابطہ موت ہو جائے تو " اندر" سے کوئی آواز باہر تک نہیں آتی - لکھ چکا کہ یہ واقعہ چند برس پرانا ہے
اب کچھ برس سے وہابیوں کے "طعنوں" کا حل نعت خوانی کی جدید اشکال کے ذریعے نکالا گیا ..مگر ساتھ ہی ساتھ شرم و حیا کے پیکر نبی کی شان میں "گستاخی" کی اور صورتیں وضع کر لیں گئیں... انہی میں ہندی اور پاکستانی فحش گانوں کی طرز پر پڑھی گئی نعتیں ہیں..اور بازار میں جو نعت بہت زیادہ پڑھی جاتی ہے ... وہ اسی بدنام زمانہ گانے کی طرز پر ہے کہ" چولی کے پیچھے کیا ہے".... افسوس ہے کہ یہ سب حب نبی کے نام پر ہوتا ہے اور مولوی خاموش رہتے ہیں - اور جب کوئی ہم جیسا "وہابی" ان کو سمجھانے کی کوشش کرتا ہے تو الٹا اس کو گستاخ اور ابلیس کا ہم نوا قرار دیا جاتا ہے -

ہم تو یہی کہ سکتے ہیں کہ

خوف خداے پاک دلوں سے نکل گیا
آنکھوں سے شرم سرور کون و مکاں گئی

............ ابو بکر قدوسی
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
ہمارا المیہ .. قیادت سے محرومی



پاکستان اور ہندوستان کے سلفیوں کی اس وقت سب سے بڑی بدقسمتی ان کا فکری قیادت سے محروم ہونا ہے - مزید بدقسمتی کہ عالمی و علاقائی حالات کے تناظر میں ایسی قیادت کی ضرورت معمول سے کئی گنا بڑھی ہوئی تھی اور قسمت کی بربادی کہ
آج ہی گھر میں بوریا نہ ہوا
فکری کمزوری اور حوصلہ مندی کی کمی نے بہت جلد ہماری برصغیر کی قیادت کو مدافعانہ روش اختیار کرنے پر مجبور کر دیا - اندازہ کیجئے کہ چند ماہ پیشتر ہندوستان میں انتہا پسندی کے خلاف اہل حدیث نے کانفرنس منعقد کی ، اسی طرح کی بیان بازی ہمارے پاکستان میں بھی معمول بن گئی ، لیکن جن مظالم کے نیتجے میں یہ انتہا پسندی ہمارے نوجوانوں کو کھا گئی اس پر خال ہی کوئی آواز اٹھی .. یہ رویہ صفائی پیش کرنے سے بڑھ کر اپنی کھال بچانے والا ہو گیا -

افغانستان کی جنگ اور اس کے بعد عراق ، شام کی جنگ نے جس طرح نوجوان طبقے کو فکری کج روی کا شکار کیا اس نے اس محرومی کو دوچند کر دیا ... نتیجہ یہ ہوا کہ "جتنے کنکر اتنے شنکر " .. یا یوں کہہ لیں کہ "جو ذرہ جہاں ہے وہیں آفتاب ہے " ...ہر کوئی مفتی بن گیا ... اور نوجوان بذات خود بھی مفتی ہی رہے -

ہر کسی نے الگ راہ اختیار کی - کوئی خارجی رہا ، کوئی مدخلی ، کسی پر اخوانی کی پھبتی کسی گئی اور کوئی قطبی قرار دیا گیا ، مگر بذات خود دعوی سبھی کا "سلفیت " کا ہے -

ایسے میں الجھا ذہن مزید الجھ جاتا ہے کہ سلفیت آخر ہے کہاں ؟

دوسری طرف احناف کا " عملی کینوس " علاقائی وسعت لیے ہوۓ نہ تھا - ان کا میدان عمل ، سوچ اور " جہاد افغانستان " ہی رہا ، ان میں بھی یہی تقسیم ہوئی اور نوجوان اپنی ہی فوج سے بھڑ گئے .. لیکن ان کے علماء نے مسلسل کوشش سے خود کو مکمل نظریاتی تفریق سے کسی حد تک بچا لیا ، البتہ سیاسی تفریق کا وہ بھی بری طرح شکار ہوۓ - ایک دوسرے پر فتوے ان کے ہاں بھی بہت عام ہوۓ لیکن نظریاتی تفریق کی ایسی صورت نہ ہوئی جیسی سلفیت کے ہاں رہی -

عالم عرب اور شام میں اس شدت نے آگے بڑھ کے قتال کی صورت اختیار کر لی - اور یہی دن بشار کی فتح کا تھا جس دن آپس میں قتال ہوا - مغرب کی بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا اور انہوں نے "خارجی اور داخلی " کے جھگڑے کو خوب ہوا دی - ہمارا میڈیا بھی خوب بروے کار آیا اور ان کے پراپیگنڈے کو خوب آگے بڑھایا ... ایسے میں عرب علماء کی ذمے داری معمول سے بڑھی ہوئی تھی ..لیکن افسوس وہ بھی اسی گروہ بندی کا شکار ہوۓ اور حکومتی "ضروریات " اہم ہو گئیں -

تیسری طرف متحارب قوت شیعہ تھی جن کی قسمت کہ خمینی کے بعد خامنائی کی صورت میں بہترین قیادت میسر رہی- اور انہوں نے اپنی تاریخ کے اہم ترین فیصلے کیے جیسے یمن کے حوثیوں کو ساتھ ملانا .. حو ثی یعنی زیدی فرقہ کبھی بھی معروف شیعت کا حصہ نہیں رہا بلکہ عقائد میں اہل سنت کے قریب تر ہے ، اور شیعہ کے نزدیک کافر لیکن ان کو ساتھ ملا لیا اور مل کر یمن میں لڑ رہے ہیں ، اسی طرح شام کے نصیری جن پر ہمیشہ شیعہ اکابر نے کفر کا فتوی لگایا اور ان کو غیرمسلم قرار دیا ..لیکن اب سب ملت واحدہ بنے ہوۓ ہیں ..یہ سب عمدہ قیادت کی بدولت ہی ممکن ہوا ، یہ الگ بات کہ ان کی شقاوت نے ظلم کی انتہا کر دی اور یہی ان کی ناکامی کا سبب بننے جا رہی ہے کہ فطرت کے اپنے قوانین ہیں -

سب سے بدقسمت ہمارا برصغیر رہا کہ یہاں کے نوجوان نظریاتی تفریق کا بھی شکار ہوۓ اور بے گناہ ہوتے ہوۓ بھی ظلم کا شکار ہو رہے ہیں - حکومتی فیصلوں کے رد عمل میں دیوبندی نوجوانوں کا ایک گروہ اس انتہا کو پہنچا کہ عام اہل اسلام کو بھی محارب قرار دے دیا اور گمراہی میں یہاں تک پہنچے کہ لاہور کے بھاٹی چوک میں ، پنڈی کے راجہ بازار میں عوام کی بھیڑ میں خود کش دھماکے بھی ثواب اور جنت کا راستہ قرار پایا - بجا کہ یہ رد عمل ہماری سیاسی قیادت کا امریکہ کا ساتھ دینا تھا ، قبائل میں بعض زیادتیوں کا نتیجہ تھا ..لیکن اسلام کے قوانین آفاقی ہیں اور جنگی قوانین بھی طے شدہ ہیں - عام اور غیر حربی کافر کو بھی قتل کی اجازت نہیں یہاں تو مسلمان تھے - کم کم ہی سہی لیکن سلفی نوجوان بھی اس سوچ کا شکار ہوۓ اور ان کا ہم راہ ہووے -

اب آئیے دوسری طرف - یہاں کی صلح کل والی " انتہا پسندی " بھی اس خود کش انتہا پسندی کا رد عمل تھی - جو حکمرانوں کی کاسہ لیسی کی صورت میں سامنے آئی اور پہلی انتہا پسندی میں اضافے کا سبب بنی - طرز فکر یہ تھا کہ اب کسی حکمران کو برا تو کیا کہنا اس پر جائز تنقید بھی گناہ ہے - مداہنت کی اس انتہا نے بھی انتہا پسندی کو جنم دیا - اس گروہ کی سوچ ایسی غیرعملی اور دورخی ہے کہ حیرت ہوتی ہے - بنیادی طور پر یہ فکر عرب حکمرانوں کی ضرورت تھی سو وہاں کے علماء نے اختیار کی ... صلح کل کی اس پالیسی نے ہمارے اسلاف کی راویات اور حریت فکر کے تذکروں کو بھی گہنا دیا ... اور مسلم معاشروں میں انتہا پسندی کو جنم دیا .. آپ کو میری بات پر حیرت ہو گی کہ صلح صفائی کی اس تحریک سے انتہا پسندی کیسے جنم لے سکتی ہے ؟- ایک مثال دیتا ہوں ....

محلے میں لڑائی ہو جائے باپ کے ساتھ جوان بیٹا کھڑا ہو ..باپ کو گالیاں پر رہی ہوں تو جوان بیٹا برداشت نہیں کر سکے گا ..لیکن اگر باپ خود بھی مخاطب کو ویسی ہی بے نطق سنا رہا ہو تو بیٹے کا پارہ ٹھنڈا رہے گا اور زیادہ سا زیادہ وہ باپ کا ساتھ دے لے گا ...لیکن اگر باپ کو گالیاں پڑ رہی ہیں اور وہ کسی "نظریاتی " وجہ سے سر پھینک کے سن رہا ہے تو بیٹا کچھ دیر کو برداشت کرے گا اور پھر اندر جا کے کوئی پستول یا لوہے کا راڈ اٹھا لائے گا اور مخاطب کے سر پر مار کے "جنت " میں چلا جائے گا

...ابوبکر قدوسی
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
ہم انہتا پسند کیوں ہو گئے ؟


ہماری بد قسمتی ہے کہ ہمارے ہاں ، امت مسلمہ میں ، سوچ اور فکر کا میدان وسعت پذیری کی بجائے تحدید کی طرف گامزن ہے - امت کی حالیہ شکست و ریخت نے فکری ڈھانچہ ہی برباد کر کے رکھ دیا ہے - ہم کہ اپنے ماضی پر فخر کرتے ، الٹا ماضی پر یا تو شرمندہ ہیں یا اس کی ایسی دور پار کی تاویلات کرتے ہیں کہ بے اختیار اقبال یاد آ جاتا ہے :

ز من بر صوفی و ملا سلامے
کہ پیغامِ خُدا گفتند ما را.
ولے تاویلِ شاں در حیرت انداخت
خدا و جبرئیل و مصطفیﷺ را.

یہی معاملہ حکمرانوں کے باب میں ہوا ہے - علماء کی کج فکری اور کم کوشی کے سبب انتہا پسندی کو معاشرے میں فروغ ملا - ایسے اہل علم کہ جو امت کی فکری راہنمائی کر سکتے ، اٹھ گیے - اور اپنے مذموم مقاصد کی خاطر مغرب نے بے کار کی فکری مباحث کو ہمارے ہاں رواج دیا -ممکن ہے کہ آپ اس بات پر اچنبھے کا اظہار کریں یا زیرلب مسکرا دیں کہ اہل مغرب کو کیا پڑی کہ اتنی دور تک جائیں لیکن اپنے کمزور سے مشاہدے اور چند سپانسرڈ علمی پروگراموں میں شرکت کے بعد میں اس بات پر پختہ ہو گیا ہوں کہ مغرب صرف ہمارے شہروں پر ہی بمباری نہیں کر رہا بلکہ ہمارے فکر و سوچ پر بھی اس کی "فکری بمبارمنٹ " مسلسل جاری ہے -

ہمارے ہاں دو طبقے پیدا ہو گیے

ایک طبقہ وہ تھا جس نے مغرب کے ظلم و تشدد اور بربریت پر خاموشی اختیار کرنے ، اور بعض صورتوں میں تعاون ، پر حکام کے خلاف عملی بغاوت کر دی - اور اسی پر بس نہیں ہم عام شہریوں پر بھی فتوے لگا دیئے کہ ٹیکس دینے پر ، طاغوت نہ ماننے پر ، ان کے قوانین کی اطاعت پر انہی کا حصہ ہیں - اور واجب القتل ہیں - یقینا یہ فکری گمراہی کی انتہا تھی -

دوسرا گروہ وہ پیدا ہو گیا کہ جو حکمرانوں پر جائز تنقید کو بھی اسی خروج کا حصہ گرداننے لگا - اور اپنے اس فلسفے کو تمام عالم انسانی پر منطبق کرنے کی ضد کرنے لگا
انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند رے
اور ممکن ہے آپ حیران ہوں یا مجھ سے اختلاف کریں کہ جب میں کہوں کہ ہمارے معاشرے میں انتہا پسندی کے فروغ میں یہ سوچ بھی مجرم گردانی جائے گی ..میں نے چند اگلے روز اپنے ایک مضمون کے آخر میں اس طرف اشارہ کیا تھا مکرر عرض ہے :
........

اب آئیے دوسری طرف - یہاں کی صلح کل والی " انتہا پسندی " بھی اس خود کش انتہا پسندی کا رد عمل تھی - جو حکمرانوں کی کاسہ لیسی کی صورت میں سامنے آئی اور پہلی انتہا پسندی میں اضافے کا سبب بنی - طرز فکر یہ تھا کہ اب کسی حکمران کو برا تو کیا کہنا اس پر جائز تنقید بھی گناہ ہے - مداہنت کی اس انتہا نے بھی انتہا پسندی کو جنم دیا - اس گروہ کی سوچ ایسی غیرعملی اور دورخی ہے کہ حیرت ہوتی ہے - بنیادی طور پر یہ فکر عرب حکمرانوں کی ضرورت تھی سو وہاں کے علماء نے اختیار کی ... صلح کل کی اس پالیسی نے ہمارے اسلاف کی راویات اور حریت فکر کے تذکروں کو بھی گہنا دیا ... اور مسلم معاشروں میں انتہا پسندی کو جنم دیا .. آپ کو میری بات پر حیرت ہو گی کہ صلح صفائی کی اس تحریک سے انتہا پسندی کیسے جنم لے سکتی ہے ؟- ایک مثال دیتا ہوں ....

محلے میں لڑائی ہو جائے باپ کے ساتھ جوان بیٹا کھڑا ہو ..باپ کو گالیاں پر رہی ہوں تو جوان بیٹا برداشت نہیں کر سکے گا ..لیکن اگر باپ خود بھی مخاطب کو ویسی ہی بے نطق سنا رہا ہو تو بیٹے کا پارہ ٹھنڈا رہے گا اور زیادہ سا زیادہ وہ باپ کا ساتھ دے لے گا ...لیکن اگر باپ کو گالیاں پڑ رہی ہیں اور وہ کسی "نظریاتی " وجہ سے سر پھینک کے سن رہا ہے تو بیٹا کچھ دیر کو برداشت کرے گا اور پھر اندر جا کے کوئی پستول یا لوہے کا راڈ اٹھا لائے گا اور مخاطب کے سر پر مار کے "جنت " میں چلا جائے گا

...ابوبکر قدوسی
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
فیس بک کی " آپی " .......


میں اپنے دفتر بیٹھا تھا کہ وہ میرا پاس آیا.. باتوں کے بیچ ، اچانک سے بولا کہ:
آپ فیس بک پر ہوتے ہیں ، میں آپ کا فین ہوں ، آپ نے وہ " سلمیٰ" * والا اکاونٹ دیکھا ہو گا ..؟ .. وہ میرا ہی ہے..."-
میں نے لاعلمی کا اظہار کیا .. کچھ حیران بھی ہوا.. کہ بھائی اگر خاتون کے نام سے اکاونٹ بنا ہی لیا ہے تو اس کی تشہیر کیوں کر رہے ہو- لیکن موصوف کا نقطہ نظر تھا کہ اس طرح لوگ بات کو توجہ سے سن لیتے ہیں ... خیر یہ ان کا نقطۂ نظر تھا...
لیکن حقیقی صورت کچھ ایسی ہی ہےکہ خاتون کا نام یا تصویر سامنے آتے ہی ، مرد حضرات کا من ڈولنے لگتا ہے...جو بہت شریف بھی ہوتے ہیں ... وہ بہن بنا لیتے ہیں ... اور آپا کے ساتھ خوب مذاق اور اخلاق کے "مظاہرے" ہوتے ہیں ...
دل چسپ بات ہے کہ اپنی حقیقی بہن ، جو ساتھ والے محلے میں ہی رہتی ہوتی ہے ، مدتوں بھائی صاحب کی شکل کو ترستی رہتی ہے ..اور کبھی ملیں بھی تو بھائی صاحب کا "اخلاق" دیکھنے کی چیز ہوتا ہے.. مگر یہاں فیس بک کی آپی کے ساتھ بھائی صاحب صدقے واری جا رہے ہوتے ہیں....
اور جو بہن بناتے ہیں نہ سمجھتے ہیں ، اور خاتون کو محض وقت گزاری کی ایک "شے " جانتے ہیں ، ان کا تو یہ عالم ہے کہ خواتین کا اکاونٹ سامنے آتے ہی دنیا کے سب سے زیادہ با اخلاق انسان بن جاتے ہیں..
اگر آپ مذھب کی بات کریں تو اختلاط کی کوئی صورت روا نہیں ....گپ شپ کی تو کوئی گنجائش ہی نہیں .. بات کرنا حرام نہیں لیکن جس بات کی حاجت ہو .... اور ضرورت کا فیصلہ آپ کا ضمیر آسانی سے کر سکتا ہے ...
یاد رکھیے خواتین کی صورت میں آپ کے اپنے گھروں میں بہنیں موجود ہیں ، جن کو آپ کی شفقت کی ضرورت ہے .. آپ کی بیویاں موجود ہیں جن کو آپ کی توجہ اور محبت کی طلب ہے .. آپکی ماں موجود ہو جو خدمت کی سب سے زیادہ حق دار ہے ...
اور چلتے چلتے ایک عرض ، ہماری بہنوں کا بھی فرض ہے کہ اسلام میں غیر محرم سے جس فاصلے کا حکم ہے اس کو پیش نگاہ رکھا کریں اور اگر کچھ نہیں تو پنجابی کا یہ جملہ ہی سیکھ لیں
"گھر ماں بہن نئی تیرے " کہ جو ان باکس میں چلا آئے اس کو کہا جا سکے - جو تاثیر اس پنجابی جملے کی ہے وہ کسی منتر میں بھی نہ ہو گی

ابو بکر قدوسی

...#abubakr #quddusi


**سلمیٰ نام فرضی ہے جو میں نے استعمال کیا ہے ...
 
Top