• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

محدث ابن حبان اور قبروں سے فیض

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ إِبْرَاهِيمَ ۚ إِنَّهُ كَانَ صِدِّيقًا نَّبِيًّا ﴿٤١﴾
اس کتاب میں ابراہیم (علیہ السلام) کا قصہ بیان کر، بیشک وه بڑی سچائی والے پیغمبر تھے۔
قرآن، سور مریم، آیت نمبر 41
اس روایت کو سینے سے لگا کراور قرآن کی آیت کو نظر انداز کر کے آپ لوگ بڑی جسارت کر رہے ہیں۔ نبیﷺ سے اس روایت کا متن صحیح نہیں ہے۔
آپ اس سے آگے والی آیات پڑھ لیں۔تو بات کلیر ہو جاے گی۔کہ انہوں نے اپنے
بات کو تبلیغ کی تھی
 
شمولیت
مئی 23، 2012
پیغامات
110
ری ایکشن اسکور
83
پوائنٹ
70
یہ تو ہر منکر حدیث کے ایمان کا حصہ ہے کہ وہ لازم دوسرے منکر حدیث کا انکار کرے گا۔۔کیونکہ ایک ایسا شخض جس نے اپنی عقل اور اپنی خواہشات کو اپنا رب بنا رکھا ہو وہ کسی صورت بھی یہ برداشت نہیں کر سکتا کہ وہ کسی کا پیروکار ہو۔

خیر میرے بھائی ابراہیم علیہ سلام کے جھوٹ والی حدیث نے آپکو بہت دکھ دیا مگر اس کا ذکر تو خود قرآن پاک نے کیا ہے۔
اسکا آپکو افسوس کیوں نہیں ہے؟
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ إِبْرَاهِيمَ ۚ إِنَّهُ كَانَ صِدِّيقًا نَّبِيًّا ﴿٤١﴾
اس کتاب میں ابراہیم (علیہ السلام) کا قصہ بیان کر، بیشک وه بڑی سچائی والے پیغمبر تھے۔
قرآن، سور مریم، آیت نمبر 41
اس روایت کو سینے سے لگا کراور قرآن کی آیت کو نظر انداز کر کے آپ لوگ بڑی جسارت کر رہے ہیں۔ نبیﷺ سے اس روایت کا متن صحیح نہیں ہے۔
انتہائی محترم T H K بھائی -

حضرت ابراہیم علیہ سلام کی تین جھوٹ والی حدیث میں آپ کو تھوڑا سا مغالطہ ہوا ہے-کہ اس کا متن قرآن سے متعارض ہے- جب کہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے -

یہ حدیث مسلم شریف اور بخاری شریف میں تفصیل سے بھی موجود ہے : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " لم يكذب إبراهيم إلا في ثلاث كذبات : ثنتين منهن في ذات الله قوله ( إني سقيم ) وقوله ( بل فعله كبيرهم هذا ) وقال : بينا هو ذات يوم وسارة إذ أتى على جبار من الجبابرة فقيل له : إن ههنا رجلا معه امرأة من أحسن الناس فأرسل إليه فسأله عنها : من هذه ؟ قال : أختي فأتى سارة فقال لها : إن هذا الجبار إن يعلم أنك امرأتي يغلبني عليك فإن سألك فأخبريه أنك أختي فإنك أختي في الإسلام ليس على وجه الأرض مؤمن غيري وغيرك فأرسل إليها فأتي بها قام إبراهيم يصلي فلما دخلت عليه ذهب يتناولها بيده . فأخذ - ويروى فغط - حتى ركض برجله فقال : ادعي الله لي ولا أضرك فدعت الله فأطلق ثم تناولها الثانية فأخذ مثلها أو أشد فقال : ادعي الله لي ولا أضرك فدعت الله فأطلق فدعا بعض حجبته فقال : إنك لم تأتني بإنسان إنما أتيتني بشيطان فأخدمها هاجر فأتته وهو قائم يصلي فأومأ بيده مهيم ؟ قالت : رد الله كيد الكافر في نحره وأخدم هاجر " قال أبو هريرة : تلك أمكم يا بني ماء السماء(حدیث نمبر 75 باب نمبر 42 کتاب النکاح بخاری)

اس حدیث پر اعتراض کرنے والے اصل میں اس حقیقت کو فراموش کردیتے ہیں کہ وہ تین جھوٹ جو ابراہیم علیہ سلام نے بولے تھے ان میں سے دو جھوٹ تو خود قرآن کریم میں موجود ہیں- لہذا اس بنا پراس حدیث کو جھٹلانا صحیح نہیں -- حضرت ابراہیم علیہ السلام کے جن واقعات پر لفظ "کذب" کا اطلاق کیا گیا ہے، وہ توریہ اور تعریض کی شرط پر پورا اترتے ہیں نا کہ حقیقی جھوٹ کی شرط پرپورا اترتے ہیں۔ دیکھیے قرآن کی آیات جن میں واضح ہے کہ یہ جھوٹ (اصل میں توریہ) لئے بولے گئے -یعنی مشرکین کو نیچا دکھانے یا ان کو لاجواب کرنے کے لئے بولے گئے تھے - نہ کہ جان بوجھ کر گناہ کے طور پر بولے گئے -

١-قَالُوا أَأَنْتَ فَعَلْتَ هَٰذَا بِآلِهَتِنَا يَا إِبْرَاهِيمُ -قَالَ بَلْ فَعَلَهُ كَبِيرُهُمْ هَٰذَا فَاسْأَلُوهُمْ إِنْ كَانُوا يَنْطِقُونَ سوره الانبیاء ٦٢-٦٣
کہنے لگے اے ابراھیم کیا تو نے ہمارے معبودوں کے ساتھ یہ کیا ہے-کہا (ابراہیم نے) نہیں! بلکہ ان کے اس بڑے نے یہ کیا ہے سوان سے پوچھ لو اگر وہ بولتے ہیں؟؟- (جب کہ حقیقت یہ ہے کہ یہ بت خود حضرت ابراہیم علیہ سلام نے توڑے تھے) -

٢-فَنَظَرَ نَظْرَةً فِي النُّجُومِ -فَقَالَ إِنِّي سَقِيمٌ سوره الصفات ٨٨-٨٩
پھر اس نے (ابراہیم علیہ سلام) نے ایک بار ستاروں کو دیکھا- پھر کہا میں بیمار ہوں- (حقیقت یہ ہے کہ ابراہیم علیہ سلام بیمار نہیں تھے - بلکہ اس انتظار میں تھے کہ ان کی قوم کے لوگ جب سالانہ جشن منانے چلے جائیں گے تو وہ ان کے پیچھے ان بتوں کو توڑ ڈالیں گے تا کہ قوم پر حجت اتمام ہو جائے کہ یہ پتھر کے بت کچھ نہیں کرسکتے)-

اور چوں کہ احدیث نبوی میں بیان دو کذب خود قرآن سے ثابت ہو رہے ہیں تو تیسرا کذب یعنی ابرہیم علیہ سلام کا "اپنی زوجہ کو بہن قرار دینا" اس کو قبول کرنے میں کوئی امر مانع نہیں ہونا چاہیے - حدیث نبوی میں بیان ان تین جھوٹ کو محض ظاہری شکل و صورت کی مشابہت کی وجہ سے "کذب" کیا گیا ہے ورنہ دراصل وہ معاریض کلام ہیں۔ (واللہ اعلم)-
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
یہ تو ہر منکر حدیث کے ایمان کا حصہ ہے کہ وہ لازم دوسرے منکر حدیث کا انکار کرے گا۔۔کیونکہ ایک ایسا شخض جس نے اپنی عقل اور اپنی خواہشات کو اپنا رب بنا رکھا ہو وہ کسی صورت بھی یہ برداشت نہیں کر سکتا کہ وہ کسی کا پیروکار ہو۔

خیر میرے بھائی ابراہیم علیہ سلام کے جھوٹ والی حدیث نے آپکو بہت دکھ دیا مگر اس کا ذکر تو خود قرآن پاک نے کیا ہے۔
اسکا آپکو افسوس کیوں نہیں ہے؟
محترم -

آپ کی بات سے متفق ہوں- لیکن خیال رہے کہ اگر دلیل نہ ہو تو کسی پر "منکرین حدیث" کا الزام لگانا اچھی عادت نہیں- ہاں اگر دلیل موجود ہے تو ضرور منکر ہونے الزام عائد کیا جا سکتا ہے -
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
اس کی وضاحت کردیں ۔

سند صحیح اور متن صحیح نہ ہونے کی دو مثالیں ضرور دیں !

ابن القيسراني (المتوفى: 507هـ) کتاب ذخيرة الحفاظ (من الكامل لابن عدي) میں ایک روایت پر لکھتے ہیں

وَهَذَا الحَدِيث وَإِن كَانَ مُسْتَقِيم الْإِسْنَاد؛ فَإِنَّهُ مُنكر الْمَتْن، لَا أعلم رَوَاهُ عَن ابْن عَيَّاش غير سُلَيْمَان بن أَيُّوب الْحِمصِي.


اور یہ حدیث اگر اس کی اسناد مستقیم بھی ہوں تو یہ منکر المتن ہے اس کو ابْن عَيَّاش سے سوائے سُلَيْمَان بن أَيُّوب الْحِمصِي کے کوئی روایت نہیں کرتا
 
شمولیت
دسمبر 10، 2013
پیغامات
386
ری ایکشن اسکور
136
پوائنٹ
91
ٹی کے ایچھ بھائی ، ابراہیم علیہ السلام نے واقعی مین ایسا کہا تھا انہیں کہ ان کو تمہارے بڑے بت نے توڑہ ہے اس کا گواہ قرآن کریم ہے اور اس سے ابراہیم علیہ السلام کے مقصد صرف ان لوگوں کے بے بس کرنا تھا جو کہ وہ ہوکر رہے کہ بت سے کیسے پوچھیں۔ یہ باتیں انہوں نے نصیحت کے واسطے کہیں۔ اگر ایسا مضمون صحیح بخاری میں ہے تو پھر قرآن میں بھی تو ہے۔
اور ہاں ایسا مجھے بھی لگتا ہے کہ اہل حدیث بھائی تھوڑے متشدد ہیں خاص کر امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے بارے میں لیکن شاید یہ تشدد بھی ان کی راستے میں حنفیوں کے کانٹے بچھانے کے عمل کا ردعمل ہی ہے بس کچھ بھائیوں کا امام کے خلاف تشدد کو ہم گوارہ کرلیتے ہیں گر ورنہ وہ ایسے نہین ہیں اللہ گواہ ہے میں حنفی ہوکر بھی ان کی بہت باتوں سے اتفاق رکھتا ہوں ۔ اہل حدیث نہ تو روایت پرست ہین نہ ہی اندہا یقین کرنے والے ہیں۔ ان میں شاید کچھ لوگ ایسے ہوں بھی تو اس کا پوری جماعت پر اثر نہیں پڑتا۔
 

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,123
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
قرآن مجید میں کہیں نہیں ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ نے جھوٹ بولا مگر یہ ”معجزہ“ فقط روایات کی کتابوں میں آیا ۔ دراصل آپ لوگوں کی نظر میں روایت کی اہمیت ہے اور ہماری نظر میں قرآن کی۔ قرآن مجید اعلان کر رہا ہے حضرت ابراہیمؑ سچے تھے مگر محض روایات کے بل بوتے پر ان کو العیاذ باللہ جھوٹا کہا جا رہا ہے صرف روایت کے نا جائز دفاع کے لیے ۔ اگر آپ لوگوں نے قرآن کی آیت نہیں ماننی تو نہ مانیں ۔ جس طرح آپ لوگ روایت کو نہیں چھوڑ سکتے اسی طرح ہم قرآن کی آیت کو نہیں چھوڑ سکتے۔حضرت ابراہیمؑ کے سچے ہونے والی بات قرآن نے ہمارے ذہن میں ڈالی ہے یہ ہماری عقلی پیدا وار نہیں ہے مگر آ پ لوگوں کی عقل میں حضرت ابراہیمؑ کے العیاذ باللہ جھوٹا ہونے کی بات روایت نے ڈالی ہے،قرآن نے نہیں۔
اگر آپ کو صحیح بخاری کے معصوم رایوں کی ثقاہت محبوب ہے تو ہمیں حضرت ابراہیم ؑ کی صدیقیت محبوب ہے۔ ہمیں راویوں کی بات سے زیادہ اللہ تعالٰی کی بات پر یقینِ کامل ہے۔
اس روایت کی تاویل میں جن علماء نے کوشش کیں ہیں وہ معاملے کو بنانے کی بجائے اور بگاڑ دیتی ہیں براہِ کرم اس روایت کی تاویل میں جو رائے پیش کی گئی ہیں ان کا مطالعہ بھی کرلیں حقیقت واضح ہو جائی گی۔
قرآن لاکھ کہے کہ حضرت ابراہیم ؑ سچے تھے مگر ہماری روایت کہتی ہے نہیں نہیںلَمْ يَکْذِبْ إِبْرَاهِيمُ إِلَّا ثَلَاثًا۔ استغفر اللہ ۔
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
قرآن مجید میں کہیں نہیں ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ نے جھوٹ بولا مگر یہ ”معجزہ“ فقط روایات کی کتابوں میں آیا ۔ دراصل آپ لوگوں کی نظر میں روایت کی اہمیت ہے اور ہماری نظر میں قرآن کی۔ قرآن مجید اعلان کر رہا ہے حضرت ابراہیمؑ سچے تھے مگر محض روایات کے بل بوتے پر ان کو العیاذ باللہ جھوٹا کہا جا رہا ہے صرف روایت کے نا جائز دفاع کے لیے ۔ اگر آپ لوگوں نے قرآن کی آیت نہیں ماننی تو نہ مانیں ۔ جس طرح آپ لوگ روایت کو نہیں چھوڑ سکتے اسی طرح ہم قرآن کی آیت کو نہیں چھوڑ سکتے۔حضرت ابراہیمؑ کے سچے ہونے والی بات قرآن نے ہمارے ذہن میں ڈالی ہے یہ ہماری عقلی پیدا وار نہیں ہے مگر آ پ لوگوں کی عقل میں حضرت ابراہیمؑ کے العیاذ باللہ جھوٹا ہونے کی بات روایت نے ڈالی ہے،قرآن نے نہیں۔
اگر آپ کو صحیح بخاری کے معصوم رایوں کی ثقاہت محبوب ہے تو ہمیں حضرت ابراہیم ؑ کی صدیقیت محبوب ہے۔ ہمیں راویوں کی بات سے زیادہ اللہ تعالٰی کی بات پر یقینِ کامل ہے۔
اس روایت کی تاویل میں جن علماء نے کوشش کیں ہیں وہ معاملے کو بنانے کی بجائے اور بگاڑ دیتی ہیں براہِ کرم اس روایت کی تاویل میں جو رائے پیش کی گئی ہیں ان کا مطالعہ بھی کرلیں حقیقت واضح ہو جائی گی۔
قرآن لاکھ کہے کہ حضرت ابراہیم ؑ سچے تھے مگر ہماری روایت کہتی ہے نہیں نہیںلَمْ يَکْذِبْ إِبْرَاهِيمُ إِلَّا ثَلَاثًا۔ استغفر اللہ ۔

http://forum.mohaddis.com/threads/ابوہریرہ-رضی-اللہ-عنہ-نے-بیان-کیا-کہ-ابراہیم-علیہ-السلام-نے-تین-مرتبہ-جھوٹ-بولا-تھا.20170/
 
شمولیت
دسمبر 10، 2013
پیغامات
386
ری ایکشن اسکور
136
پوائنٹ
91
مجھے بتائے کہ کیا حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بت توڑے تھے اور اس کا زکر قرآن میں ہے ؟
پھر مجھے بتائے کیا حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ان کے پوچھنے پر نہیں کہا کہ میں نے نہین ان کے بڑے نے یہ کام کیا ہے -- کیا اس کا زکر قرآن میں نہیں ؟
 

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,123
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
ٹی کے ایچھ بھائی ، ابراہیم علیہ السلام نے واقعی مین ایسا کہا تھا انہیں کہ ان کو تمہارے بڑے بت نے توڑہ ہے اس کا گواہ قرآن کریم ہے اور اس سے ابراہیم علیہ السلام کے مقصد صرف ان لوگوں کے بے بس کرنا تھا جو کہ وہ ہوکر رہے کہ بت سے کیسے پوچھیں۔ یہ باتیں انہوں نے نصیحت کے واسطے کہیں۔ اگر ایسا مضمون صحیح بخاری میں ہے تو پھر قرآن میں بھی تو ہے۔
اور ہاں ایسا مجھے بھی لگتا ہے کہ اہل حدیث بھائی تھوڑے متشدد ہیں خاص کر امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے بارے میں لیکن شاید یہ تشدد بھی ان کی راستے میں حنفیوں کے کانٹے بچھانے کے عمل کا ردعمل ہی ہے بس کچھ بھائیوں کا امام کے خلاف تشدد کو ہم گوارہ کرلیتے ہیں گر ورنہ وہ ایسے نہین ہیں اللہ گواہ ہے میں حنفی ہوکر بھی ان کی بہت باتوں سے اتفاق رکھتا ہوں ۔ اہل حدیث نہ تو روایت پرست ہین نہ ہی اندہا یقین کرنے والے ہیں۔ ان میں شاید کچھ لوگ ایسے ہوں بھی تو اس کا پوری جماعت پر اثر نہیں پڑتا۔
میرے محترم بھائی ! آپ کا انداز واقعی نرم لگتا ہے، ذرا ٹھنڈے دل سے غور کریں کہ کیا قرآن مجید میں اللہ تعالٰی نے حضرت ابراہیمؑ کو العیاذ باللہ ”جھوٹا “ کہا ہے ؟اس روایت پر میں نے ہی نہیں بلکہ امام رازی، مولانا مودودی، حبیب الرحمٰن کاندھلوی نے بھی تنقید کی ہے۔مولانا مودودی نے اپنی تحقیق میں اس پر بہت اچھی بحث کی ہے اور دلائل کے ساتھ اس روایت کی کمزوری کو واضح کیا ہے ۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ہر وہ روایت جو صحیح سند سے مروی ہو ضروری نہیں ہے کہ اسکا متن بھی صحیح ہو ۔ اسی روایت پر غور کریں کہ کیا یہ بات چھوٹی ہے کہ اللہ تعالٰی کے ایک جلیل القدر پیغمبر پر جھوٹ کاالزام لگایا جا رہا ہے جبکہ اس کا کوئی ثبوت قرآن میں نہیں ہے۔لطف کی بات یہ ہے کہ اس روایت کے دفاع میں جو معروضات ہمارے علماء نے پیش کی ہیں وہ اور بھی مضحکہ خیز ہیں ۔اسی روایت پرستی کو دیکھ کر لوگ احادیث سے متنفر ہو جاتے ہیں اور لوگوں کو کہتے ہیں کہ دیکھو اس میں ایسی اور ایسی روایات ہیں لہذا ان سب کو دریا برد کر دو۔
یہاں عجیب ماجرا ہے کہ جو لوگ روایت پر نقدکرتے ہیں تو محض نقد کرنے کے جرم میں الٹا انکوجھٹ سے منکرِ حدیث کہہ دیا جاتا ہے۔ روایات انسانوں سے انسانوں کو منتقل ہوئی ہیں لہذا اگر آج ان میں کوئی نقص نظر آ جائے تو اسکو بیان کر نا انکارِ حدیث نہیں ہے بلکہ حدیث ہی کی خدمت ہے۔ مگر یہ حضرات اس نقد کے حق کو بھی صرف پہلے لوگوں کےلیے مخصوص کر دیتے ہیں اور لوگوں سے وعظ کرتے ہیں کہ ان لوگوں نے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کر دیا ہے لہذا ہمیں اپنی فہم پر قفل لگا کر ان کا مقلد ہو جانا چاہیے اور بس ،ورنہ منکرِ حدیث کا خطاب تو ہر وقت ان کے ہاں تیار رہتا ہے۔
 
Top