برائے مہربانی آپ کی بات اچھی ہے ، اس کا لنک بھی اچھا دیں ۔
اگر آپ کسی اصلاحی موضوع مثلا ’ بچوں کی تربیت ’ پر تحریر لکھتے ہیں ، اور اس میں اقتباسات ، مثالیں دے رہے ہیں فلمز ، ڈائجسٹ ، ناولز سے ، اور حوالے دے رہے ہیں مغربی مفکرین کے ، جبکہ قرآن وسنت کی بے شمار نصوص ، اور اسلامی تاریخ سے روشن مثالیں ، آپ کے ذہن کے کسی کوچے میں نہیں آرہیں تو سمجھ لیں کہ آپ اپنے بچوں کو ، اور قارئین کو لا شعوری طور پر ان سے قریب کررہے ہیں ، جن کے حوالے دے رہے ہیں ، اور ان سے دور کر رہے ہیں ، جن کو آپ نے نظر انداز کیاہے .
لہذا بچوں سے پہلے ، آب کی تربیت کی ضرورت ہے ، قارئین سے پہلے آپ کو اصلاح کی ضرورت ہے .
قرآن وسنت کا حوالہ دیں گے ، کسی صحابی ، تابعی یا بزرگ کی سیرت کا حوالہ دیں گے ، تو پڑھنے والے اس مقام پر موجود دیگر اچھی چیزوں سے بھی مستفید ہو سکیں گے ، اور اگر آپ اہل مغرب کے حوالے دیں گے ، تو رجوع کرنے والے ایک اچھی بات کے دھوکے میں وہاں سے دس غلط باتیں سیکھ کر آئیں گے۔
لہذا گزارش ہے کہ اگر آپ کی بات اچھی ہے تو اس کا لنک بھی درست دیں . وہ اس لیے بھی تاکہ اسلامی لٹریچر کی ٹریفک بڑھے ، اس کی ریٹنگ میں مزید اضافہ ہو ، اور اس کے متضاد لٹریچر کی ریٹنگ کم ہو ، اور اس کی ٹریفک بڑھانے میں ہمارا کوئی حصہ نہ ہو ۔
یہ درست کہ اچھی بات جہاں سے بھی ملے ، لے لینی چاہیے ، لیکن یہ بات درست نہیں کہ آپ کے والد صاحب کسی موضوع پر بہترین رہنمائی کر رہے ہوں ، لیکن آپ پھر بھی کہیں کہ نہیں میں نے کسی ’ ماجے ’ ، ’ گامے ’ کے ہی حوالے دینے ہیں .
ابنے اسلامی لٹریچر سے تعلق مضبوط کریں ، احساس کمتری سے باہر نکلیں ۔
بالفاظ دیگر ’ مغرب ’ کی فلموں ، فلسفوں ، اور مفکرین کی دلدل سے باہر نکلیں ، اور قرآن وسنت ، اور سلف صالحین کے أقوال زریں کے چشمہ صافی سے سیراب ہوں .
ــــــــ
نوٹ : اہل مغرب کے افکار پر نقد و تنقید کے ضمن میں ان کے اقوال ، اور ان کے فلسفے کا تذکرہ کرنا ، یہ الگ چیز ہے ، ایسا ہونا چاہیے ، کئی علماء کا بھی یہ طریقہ کار رہا ہے ۔ اسی طرح اگر مخاطبین کسی اور علاقہ و مذہب سے تعلق رکھتے ہیں ، تو حق کی تائید میں ان کے بزرگوں کی باتیں بیان کی جاسکتی ہیں ۔