- شمولیت
- اپریل 14، 2011
- پیغامات
- 8,771
- ری ایکشن اسکور
- 8,496
- پوائنٹ
- 964
کہاں راجا بھوج کہاں گنگو تیلی
كسی صاحب نے لکھا ہے :
’’ مولانا مودودی اور غامدی صاحب نے دین کو براہ راست اصل مآخذ سے سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کی ہے اور اس کوشش میں مروجہ دینی تعبیرات سے کئی جگہ اہم اور بنیادی اختلاف بھی کیا ہے۔ ان کی پیش کردہ دینی فکر اور مذہبی تعبیرات میں قابل نقد اور کمزور باتیں بھی ہو سکتی ہیں جن پر علمی نقد لازماً ہونا چاہیے، لیکن بحیثیت مجموعی ان کی دینی فکر کو فتنہ یا گمراہی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ‘‘
ہماری گزارش ہے کہ :
مولانا مودودی رحمہ اللہ سے فکری غلطیاں ہوئیں ، لیکن انہوں نے تو تفہیم القرآن ، پردہ اور جہاد سے متعلق شانداز تصانیف کی صورت امت مسلمہ کو جو تحفہ دیا ہے ، اس پر وہ ہمیشہ ان کے شکر گزار رہیں گے ۔
لیکن غامدی صاحب نے قراءات قرانیہ کا انکار کیا ، بیت المقدس کو یہودیوں کا حق قرار دیا ، حدود اللہ کے نفاذ میں رکاوٹیں کھڑی کیں ، ناچ گانا حلال قرار دے کر اس کے مقابلے میں امت کو کیا دیا ہے ، کہ جس پر انہیں مودودی صاحب جیسے مفکر کے ساتھ ذکر کیا جائے ؟؟
پھر مودودی صاحب کے فیض یافتگان کو دیکھئے ، اور دوسری طرف غامدی کے نقش قدم پر چلنے والوں کو دیکھیے ، تو بے ساختہ یہ جملہ نوک زبان پر آجاتا ہے :
’ کہاں راجا بھوج کہاں گنگو تیلی ‘
كسی صاحب نے لکھا ہے :
’’ مولانا مودودی اور غامدی صاحب نے دین کو براہ راست اصل مآخذ سے سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کی ہے اور اس کوشش میں مروجہ دینی تعبیرات سے کئی جگہ اہم اور بنیادی اختلاف بھی کیا ہے۔ ان کی پیش کردہ دینی فکر اور مذہبی تعبیرات میں قابل نقد اور کمزور باتیں بھی ہو سکتی ہیں جن پر علمی نقد لازماً ہونا چاہیے، لیکن بحیثیت مجموعی ان کی دینی فکر کو فتنہ یا گمراہی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ‘‘
ہماری گزارش ہے کہ :
مولانا مودودی رحمہ اللہ سے فکری غلطیاں ہوئیں ، لیکن انہوں نے تو تفہیم القرآن ، پردہ اور جہاد سے متعلق شانداز تصانیف کی صورت امت مسلمہ کو جو تحفہ دیا ہے ، اس پر وہ ہمیشہ ان کے شکر گزار رہیں گے ۔
لیکن غامدی صاحب نے قراءات قرانیہ کا انکار کیا ، بیت المقدس کو یہودیوں کا حق قرار دیا ، حدود اللہ کے نفاذ میں رکاوٹیں کھڑی کیں ، ناچ گانا حلال قرار دے کر اس کے مقابلے میں امت کو کیا دیا ہے ، کہ جس پر انہیں مودودی صاحب جیسے مفکر کے ساتھ ذکر کیا جائے ؟؟
پھر مودودی صاحب کے فیض یافتگان کو دیکھئے ، اور دوسری طرف غامدی کے نقش قدم پر چلنے والوں کو دیکھیے ، تو بے ساختہ یہ جملہ نوک زبان پر آجاتا ہے :
’ کہاں راجا بھوج کہاں گنگو تیلی ‘
Last edited: