السلام علیکم۔
تمام تعریفیں اللہ کے لئے جو تمام کائنات کا پیدا کرنے والا اور پالنے والا ہے اور کروڑوں درود سلام ہوں رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر آور آپکی آل پر۔
عبدالرحمن بھائی ، مجھے امید آپ خیریت سے ہوں گے۔ بھائی جو پہلی کتاب کا لنک آپ کو پیش کیا تھا ، اور جس کے پڑھنے کا آپ دعوی بھی کر رہیں ہیں ، مگر مجھے حیرانگی اس بات پر ہے کہ آپ کے دونوں سوالوں کا مفصل جواب اسی کتاب میں ہی موجود تھا۔
میں اب ان دونوں سوالات کا جواب دوبارہ پیش کرتا ہوں ، تاکہ تازگی ہوجائے گا۔ اور امید ہے اس کے بعد کوئی اشکال باقی نہیں رہے گا۔
اور اگر پھر اشکال ہو ، میں انشاء اللہ حاضر ہوں۔
اشکال نمبر ۱:
اشکال یہ ہے کہ اگر آپ تحکیم بغیر ما انزل اللہ کے کفر اکبر ہونے کیلئے اعتقاد کو شرط مانتے ہیں تو پھر ساحر، کاہن، جادوگر کی تکفیر کرنے میں اعتقاد کی شرط کیوں نہیں لگاتے اس کی تکفیر پر تو تمام علماء متفق ہیں اسی طرح گستاخ رسول کی تکفیر کرتے وقت کسی نے یہ نہیں پوچھا کہ "تم نے جو نبی علیہ السلام کی گستاخی کی ہے کیا تم اس کو جائز بھی سمجھتے ہو یا نہیں" بلکہ اعتقاد کے ثبوت کے بغیر ہی جادوگر اور گستاخ رسول کی تکفیر کردی جاتی ہے۔ اگر آپ نے چند امور میں تکفیر کیلئے اعتقاد کی شرط نہیں لگائی اور باقی امور میں لگائی ہے تو یہ تقسیم آپ نے کس دلیل کی بنا پر کی ہے؟
محترم ایک بات پہلے ذہن نشین اور واضح سمجھ لیں کہ تحکیم کے مسئلے میں اعتقاد کی شرط میں نہیں لگا رہا بلکہ قرآن کے سیاق سے بھی یہی بات معلوم ہوتی ہے اور تمام سلف صالحین نے بھی اسی بنیاد پر تحکیم بغیر ما انزل اللہ پر جحود و اعتقاد کی شرط لگائی ہے۔
آپ کے اس اشکال بنیاد شاید یہ قول ہے ،
بعض علماء شیخ الاسلام ابن تیمیہ (رحمۃ اللہ علیہ) کا قول بطور دلیل پیش کرتے ہیں۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ (رحمۃ اللہ علیہ )فرماتے ہیں:
’’ایسے حکمران کی مثال ایسی ہےجیسے کوئی شخص اللہ تعالی یا نبی کریم(صلی اللہ علیہ والہ وسلم) یا قرآن کی تعظیم تو دل سے کرتا ہے لیکن اللہ تعالی کو یا نبی کریم(صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کو گالی دیتا ہے یا قرآن مجید کی بے حرمتی کرتا ہے (نعوذباللہ) تو ایسے شخص کیلئے ضروری نہیں کہ وہ زبان سے تصریح کرے بلکہ اس کایہ عمل ہی کافی ہے کہ وہ دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے۔‘‘
تو محترم بھائی ، اب اس قول بارے خود شیخ اسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی وضاحت موجود ہے جس سے آپ کا یہ اعتقاد والا اشکال انشاء اللہ رفع ہو جائے گا۔
جواب:
اس میں کوئی شک نہیں کہ جو شخص اللہ تعالی کو یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کو گالی دیتا ہے یا قرآن مجید کی بے حرمتی کرتا ہے وہ کافر ہی ہے اس پر اجماع ہے ۔
لیکن سوال تو یہ ہے کہ
کیا شیخ الاسلام ابن تیمیہ (رحمۃ اللہ علیہ) ہر حکمران پر کفر کا فتوی لگاتے ہیں جس نے تشریع عام کونافذ کیا؟
نہیں۔!
مندرجہ ذیل وجوہات ملاحظہ فرمائیں:
۱۔خود شیخ الاسلام ابن تیمیہ(رحمۃ اللہ علیہ) فرماتے ہیں:
’’اور انسان جب بھی
حرام چیز کو ،جس کے حرام ہونے پر اجماع ہو ،حلال کر دے یا حلال چیز جس کے حلال ہونے پر اجماع ہو، اسے حرام کر دے یا اس
شریعت کو تبدیل کر دے جس پر اجماع ہو، تو وہ کافر اور مرتد ہے اور اس پر فقہاء کا اتفاق ہے۔‘‘
(فتاوی ابن تیمیہ جلدنمبر3صفحہ نمبر267)
حلال کو حرام یا حرام کو حلال پر کفر بواح کا حکم تب ہی لگے گا تب اعتقاد ہو ، مثلا ایک شخص نے زنا کیا تو کیا ہم یہ کہیں گے اس نے زنا کو حلال کر لیا ہے اور یہ کفر بواح کا مرتکب ہے؟ نہیں، اس میں ہم اس کے اعتقاد بارے جانیں گے۔ اگر تو اس کا اعتقاد اس فعل کے حرام ہونے کا ہی تھا مگر وہ یہ حرام کام نفسانی خواہش پر ، فائدہ پر کر گزرا تو اس کو مرتد نہیں کہیں گے۔ کیونکہ کبیرہ گناہ کا مرتکب صرف اس گناہ کے حلال ہونے کے عقیدہ کی وجہ سے ہی کفر بواح کا مرتکب ہوگا۔اور کیوں کہ اللہ کی نازل کردہ شریعت سے ہٹ کر فیصلہ کرنا مسلمان کے لئے حرام ہے تو اس مسئلے پر بھی سلف صالحین کا یہی رویہ ہے
اور شریعت کو تبدیل کرنے سے کیا مراد ہے ، خود شیخ اس کی مزید وضاحت فرما دیتے ہیں
آگے فرماتے ہیں:
’’اور شرع مبدل (یعنی
تبدیل شدہ شریعت) وہ ہے جس میں اللہ تعالی پر اور رسول اللہ(صلی اللہ علیہ والہ وسلم) پر جھوٹ باندھا جائے یا لوگو ں پر جھوٹی شہادتوں کے ذریعہ سے جھوٹ باندھا جائے اور یہ کھلا ظلم ہے
پس جس نے یہ کہا کہ یہ اللہ تعالی کی شریعت میں سے ہے تو وہ بلا نزاع کے کافر ہے ۔‘‘
(فتاوی ابن تیمیہ جلدنمبر3صفحہ نمبر268)
تو اس سے ثابت ہوا کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ (رحمۃ اللہ علیہ) صرف اس حکمران کے کافر ہونے کے قائل ہیں جو تحکیم بغیر ما انزل اللہ کو اپنے لئے حلال سمجھتا ہو اور تشریع عام کو اللہ تعالی کے دین کی طرف منسوب کرتا ہے اور اسے تبدیل کہتے ہیں۔ جیسے کہ پہلے بیان ہو چکا ہے یہ کفر اکبر ہے اور اس پر اجماع ہے۔ اور
ایک حکمران تشریح عام کا مرتکب ہے مگر وہ اسے اللہ کی طرف منسوب بھی نہیں کرتا اور تحکیم بغیر ما انزل اللہ کو اپنے لئے حلال بھی نہیں سمجھتا تو ایسا حکمران کفر بواح کا مرتکب ہر گز نہیں ، ہاں فسق و ظلم کا مرتکب ہے۔
۲۔ جن چیزوں سے شیخ الاسلام ابن تیمیہ(رحمۃ اللہ علیہ) نے استدلال کیا ہے
یعنی اللہ تعالی یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم)کو یا دین اسلام کو گالی دینا ،کہ یہ کفر اکبر ہے ایسے شخص کے کافر ہونے پر اجماع ہے تو اس صورت میں ایسے حکمران کے کافر ہونے پر کیسے مشابہ ہوسکتی ہے جس کے کفر پراجماع ہی نہیں ہے بلکہ قوی اختلاف ہے۔ اسی لئے قرآن مجید میں بھی آپ ذرا غور کریں جب اللہ تعالی نے اس مسئلہ کو بیان کیا تو تین مختلف احکام کے ساتھ بیان کیا۔
[فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ]
یہ کفر ہے۔
[فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ]
یہ کفر نہیں بلکہ فسق ہے۔
[فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ]
یہ بھی کفر نہیں بلکہ ظلم ہے۔
اوراگر ان آیات کریمہ سے ظاہر بھی لیا جائے تو پہلا کفر اکبر ہوگیا اور باقی دو کفر اصغر ہیں۔
توجب یہ دونوں چیزیں مختلف ہیں تو ان کاحکم بھی مختلف ہے۔ تو اس سے ثابت ہو
ا شیخ الاسلام ابن تیمیہ(رحمۃ اللہ علیہ ) کا اشارہ اس حکمران کی طرف ہے جس کے کفر پرعلماء کا اجماع ہے اور ان چھ صورتوں میں تشریع عام شامل نہیں ہے۔
اور اگر آپ اس آیت
(وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللَّـهُ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ)(سورۃ مائدہ آیت نمبر44)‘‘ کا سیاق پڑھ لیں تو اس کے واضح طور پر جحود و انکار کا اعتقاد کا وجود نظر آئے گا، جیسا کہ بنی اسرائیل کہتے تھے
يُحَرِّفُونَ ٱلۡكَلِمَ مِنۢ بَعۡدِ مَوَاضِعِهِۦۖ يَقُولُونَ إِنۡ أُوتِيتُمۡ هَـٰذَا فَخُذُوهُ وَإِن لَّمۡ تُؤۡتَوۡهُ فَٱحۡذَرُواْۚ المائدہ: ۴۱
"ب
ات کو اس کےٹھکانے سے بدل دیتے ہیں کہتے ہیں کہ تمہیں یہ حکم ملے تو قبول کر لینا اور اگر یہ نہ ملے تو
چھوڑ(انکار کر) دینا "۔
یعنی ایک تو اللہ کے حکم میں تبدیل کے مرتکب اور پھر تشریح عام کے اور پھر اس تبدیل کی بجائے صحیح حکم الہی کی بات آئی تو جحود و انکار کے قائل۔
یہی بات ہے ، کہ اگر کوئی ،مسلمان جب تحکیم بغیر ما انزل اللہ یا تشریح عام کا مرتکب ہوتا ہو تو دیکھا جائے گا کہ وہ تبدیل یعنی اللہ کے حکم میں تبدیلی کو اللہ ہی کی طرف منسوب کرتا ہے یا وہ حکم ما انزل اللہ کے انکار و جحود کا اعتقاد رکھتا ہے۔ اگر تو وہ تبدیل اور جحود و انکار کا اعتقاد رکھ کر تحکیم بغیر ما انزل اللہ کرے یا تشریح عام تو کفر بواح کا مرتکب اور اگر وہ تبدیل اور جحود و انکار کے اعتقاد کے بغیر تحکیم بغیر ما انزل اللہ کرے یا تشریح عام تو فاسق و ظالم۔
مجھے امید ہے آپ کا اعتقاد بارے اشکال رفع ہو چکا ہو گا۔
اگر نہیں تو میں مزید وضاحت کے لئے حاضر انشاء اللہ