- شمولیت
- مارچ 08، 2011
- پیغامات
- 2,521
- ری ایکشن اسکور
- 11,555
- پوائنٹ
- 641
نصوص سے ثابت ہے۔ اس بارے امام ابن قیم رحمہ اللہ کی کتاب تارک الصلاۃ کا مطالعہ فرمائیں۔۱۔ محترم شیخ ابو الحسن علوی صاحب نے اہل سنت کے جس اصول کا ذکر کیا ہے کیا وہ نصوص سے ثابت ہے یا محض فقہاء کا کلام ہے؟ کیا اس پر کوئی اجماع وغیرہ ہوا ہے؟
امام ابن قیم رحمہ اللہ نے اس پر بھی بحث کی ہے۔ ساری بحث کو یہاں نقل کرنا شاید اس لیے مشکل ہوتا ہے کہ اس کام کے لیے کافی وقت درکار ہوتا ہے۔ مختصر الفاظ میں کچھ بیان کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ بت کو سجدہ کرنا یا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا گالی دینا ایک ایسا عمل ہے جو ایمان قلبی کی ضد ہے۔ یعنی کوئی شخص یہ کہے کہ میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کا نبی اور رسول مانتا ہو لیکن اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی بھی دے تو اس کا یہ عمل اس کے قلب میں موجود ایمان بالرسالت کی ضد ہے اور دونوں کا اجتماع ممکن نہیں ہے۔ یہ کامن سینس کی بات ہے کہ ایک شخص کا عمل اس کے دعوی ایمان کی نفی کر رہا ہے۔ ایک شخص کہے کہ میں توحید پر ایمان رکھتا ہوں لیکن ساتھ ہی بت کو سجدہ بھی کرے تو یہ عمل اس کے قلب میں موجود ایمان باللہ کی ضد ہے اور دونوں کا اجتماع ممکن نہیں ہے۔ یہ ہر کسی کو سمجھ میں آ سکتا ہے۔ اگر کوئی شخص کہے کہ ہو سکتا ہے کہ ایک شخص کے دل میں توحید ہو لیکن وہ بت کو سجدہ بھی کرتا ہو یا ایک شخص اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر ایمان قلبی بھی رکھتا ہو لیکن ساتھ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں بھی دیتا ہو، یہ اجتماع ممکن ہے تو ایسا شخص جھوٹا ہے اور ہر شخص اس کے جواب میں یہی کہے گا کہ یہ اجتماع ممکن نہیں ہے کیونکہ اس کا یہ فعل اور اس کا دعوی ایمان ضدین ہیں جو جمع نہیں ہو سکتی ہیں اور ضدین کے جمع نہ ہونے کا علم ہر شخص کو حاصل ہوتا ہے۔ اور اسے معلوم کرنے کے لیے کسی اجتہاد یا مجتہد ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ آگ اور پانی کا اجتماع ممکن نہیں ہے، اس کے ثبوت یا اثبات کے لیے صرف عقل کا ہونا کافی ہے۔۲۔ اگر واقعی یہ اہل سنت کا اصول ہے تو پھر یہ کون طے کرے گا کہ فلانہ کفر عملی کا اجتماع لسانی اور قلبی کے ساتھ ممکن ہے اور فلانے کا نہیں؟
تحکیم بغیر ما انزل اللہ کو قرآن نے کفر، ظلم اور فسق کہا ہے۔ تین الفاظ استعمال کرنے کا مطلب ہی یہی ہے کہ یہ بعض صورتوں میں کفر اور بعض میں ظلم اور بعض میں فسق و فجور ہے۔ تحکیم بغیر ما انزل اللہ کا اجتماع اس کے ایمان کے ساتھ ممکن ہے۔ اس کی مثال میں قاضی مجتہد مخطی کی مثال لے لیں۔ جو شریعت کے مطابق فیصلہ کرنے میں خطا کرتا ہے۔ اب اس قاضی نے اجتہاد کیا اور اس کا اجتہاد خطا ہوا اور اس کا فیصلہ شریعت کے مطابق نہ ہوا لیکن اس پر بھی اس کے لیے اجر و ثواب ہے۔ گویا کہ یہ ایسا عمل ہے کہ اس کا اجتماع اس کے ایمان کے ساتھ ممکن ہے۔ اسی طرح ایک قاضی نے کسی مسئلہ میں رشوت لے کرغلط فیصلہ دے دیا اور یہ ہمارے ہاں شروع ہی سے چلا آ رہا ہے کہ قضاۃ بادشاہوں کے حق میں فیصلے دیتے چلے آئے ہیں۔ اب اس کا یہ عمل اس کے ایمان کے منافی تو ہے لیکن اس کی ضد نہیں ہے۔ منافی اور ضد ہونے میں فرق ہے۔ اگر کوئی قاضی رشوت لے کر قضیہ معینہ میں کوئی غلط فیصلہ کر دے تو امت میں سے کسی نے بھی اس پر کفر کا فتوی نہیں لگایا تو معلوم ہوا کہ اس عمل کا اجتماع اس کے ایمان کے ساتھ ممکن ہے۔ اب گناہ پر اصرار اس کی شناعت کو تو بڑھاتا لیکن اس کا درجہ نہیں بڑھاتا یعنی اگر ایک گناہ اپنی اصل میں فسق و فجور ہے یا بدعت ہے تو اس پر اصرار سے اس گناہ کی شناعت اور برائی یا مذمت و وعید تو بڑھ جائے گی لیکن وہ گناہ فسق و فجور یا بدعت کے درجہ سے نکل کر کفر میں نہیں پہنچ جائے گا۔ گناہ پر اصرار یا استقامت یا مداومت سے اس کی اصل تبدیل نہیں ہوتی ہے۔ اگر قضیہ معینہ میں ایک گناہ فسق و فجور ہے تو تشریع عام میں بھی و فسق و فجور ہی رہے گا البتہ اس کی شناعت اور وعید بڑھ جائے گی۔