• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

منکرین حدیث سے پچاس سوالات

عمران علی

مبتدی
شمولیت
اگست 25، 2012
پیغامات
71
ری ایکشن اسکور
38
پوائنٹ
21
حج کب ہوتا ہے ارسلان صاحب؟ ذی الحجہ میں ہی ہوتا ہے نا! تو ذی الحجہ سے ربیع الاول تک کتنے مہینے بنے؟ چار ہی بنتے ہیں۔ممکن ہے آپ کے ہاں چھ یا دس ہوں، لیکن ہمارے مطابق چار ہی مہینے بنتے ہیں، ذی الحجہ ، محرم ، صفر، ربیع الاول۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
حج کب ہوتا ہے ارسلان صاحب؟ ذی الحجہ میں ہی ہوتا ہے نا! تو ذی الحجہ سے ربیع الاول تک کتنے مہینے بنے؟ چار ہی بنتے ہیں۔ممکن ہے آپ کے ہاں چھ یا دس ہوں، لیکن ہمارے مطابق چار ہی مہینے بنتے ہیں، ذی الحجہ ، محرم ، صفر، ربیع الاول۔
قرآن میں تو ان چاروں مہینوں کے نام نہیں لکھے ہوئے،جبکہ تم منکرین حدیث کہتے ہو کہ جو قرآن مجید میں نہ لکھا ہو یا جس کی وضاحت نہ ہو اس کو نہیں مانتے،جیسے کہ تمہارے دوسرے منکرین حدیث "مسلم" صاحب کہتے ہیں کہ زبور، توراۃ، انجیل اور قرآن مجید آسمانی کتابیں نہیں ہیں کیونکہ ان کو قرآن مجید میں کہیں آسمانی کتابیں نہیں کہا گیا؟ اب کیا کہتے ہو۔
 
شمولیت
اکتوبر 08، 2012
پیغامات
74
ری ایکشن اسکور
136
پوائنٹ
32
پاکستان میں یہ فتنہ بہت تیزی سے پیھل رھا ہے اور مولوی صاحبان جھگڑوں سے فارغ نھیں جو حدیث کو نھیں مانے اس کو تو فورا گولی مارنے چاھیے
میری بہن! آپ کا تعلق وزارت داخلہ سے تو نہیں؟؟؟ (ابتسامہ)
 

راجا

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 19، 2011
پیغامات
733
ری ایکشن اسکور
2,574
پوائنٹ
211
ارسلان بھائی،
رہ گیا معاملہ حرمت کے مہینوں کا تو اس بارے میں ہم آپکو بتاتے چلتے ہیں کہ یہ چاروں مہینے لگاتارہیں، آپکے مذہبی عقیدے کی طرح بیچ میں مہینے چھوڑ کر نہیں۔ اگر آپ سورۃ توبہ کا مطالعہ کریں گے تو اول تو اس میں حرمت کے مہینوں کے یاد رکھنے پر زور دیا ہی نہیں گیا، بلکہ مفسدین کا قلع قمع کرنے پر زور ہے، چونکہ جب "حج اکبر" کے دن اس بات کا فیصلہ ہوگیا کہ ان مجرموں کے خلاف کاروائی کرنی ہے تو چونکہ اس وقت حرمت کا کوئی مہینہ چل رہا تھا، اور اسلامی حکومت یہ معاہدہ کرچکی تھی کہ ہم حرمت کے مہینوں کا احترام کریں گے اور اس میں جنگ یا قتل و غارت نہیں کریں گے ، فلہذا ان مجرموں کے خلاف آپریشن کو حرمت کے مہینوں کے ختم ہونے پر ملتوی کیا گیا، اس سے یہ ثابت ہوتا ہے یہ مہینے لگاتار تھے، بیچ میں چھوڑ چھوڑ کر نہیں، جیسا کہ عام طور پر مذہبی لوگ مانتے ہیں۔ یہ تو ایک دلیل کہ یہ مہینے لگاتار ہیں، اب دوسری دلیل کی طرف آتے ہیں، وہ ہے، سورۃ توبہ میں وارد لفظ " انسلخ" کی۔
فَإِذَا انسَلَخَ الْأَشْهُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِينَ ٩:٥
ترجمہ : اور جب حرمت کے مہینے (لگاتار) گزر جائيں۔
اس میں لگاتار ترجمہ کی وضاحت کے لیے ہم نے لگایا، کیونکہ اس کا مادہ "س ل خ" ہے، جس کا مطلب کسی چیز کا پے در پے یا لگاتار وقوع پزیر ہونا ہے، مثلاً سلخ کا مطلب کسی جانور کی کھال کھینچ لینا، ظاہر ہے کہ کھال ایسے کھینچتے ہیں کہ کوئی نشان تک باقی نہیں رہتا، اسی طرح اس کا ایک مطلب سانپ کا اپنی کینچلی اتارنا بھی ہے، اسی طرح سورۃ یس میں ہے،
وَآيَةٌ لَّهُمُ اللَّيْلُ نَسْلَخُ مِنْهُ النَّهَار ٣٦:٣٧
ترجمہ: اور ان کے لیے ایک نشانی رات ہے کہ کس طرح ہم اس میں دن کھینچ کر نکالتے ہیں۔
دیکھیے ان تمام تر مفاہیم میں کسی چیز کا لگاتا بغیر کسی وقفہ کے متواتر واقع ہونے کی طرف اشارہ ہے، لیکن دوسری طرف مذہبی دنیا کو دیکھیں تو ان کے حرمت کے مہینے عجیب ہیں، محرم، رجب، ذوالقعدہ اور ذی الحجہ، جبکہ نام نہاد علماء کا اس میں بھی اختلاف ہے، کیونکہ ایک رائے یہ بھی ہے کہ یہ ١٠ ذوالحجہ سے لیکر ١٠ ربیع الثانی تک لگاتار چارمہینے ہیں۔ قرآن کریم کے مطابق اگر دیکھا جائے تو اگر ہم ذوالحجہ کے مہینے میں "حج اکبر " کو منعقدہ سمجھیں تو ثانی الذکر تاویل قدرے ٹھیک معلوم ہوتی ہے، کیونکہ اس طرح ذوالحجہ سے ربیع الاول تک چار مہینے لگا تا ر پڑتے ہیں۔ لہذا ہم ربیع الثانی کے دس دن اس میں شامل نہیں کریں گے۔اول الذکر تاویل تو قرآن کریم کی آیات اور لفظ "انسلخ" کی مذکورہ بالا بحث سے ہی غلط ثابت ہوجاتی ہے، اور اسکے لیے ہمیں کچھ ذیادہ دلائل دینے کی ضرورت بھی نہیں ہے۔کیونکہ رجب سے رذالحجہ تک ٥ ماہ کا وقفہ ہے، اور اگر ہم رجب سے محرم تک کو لگاتار گنیں تو یہ ٦ ماہ بنتے ہیں۔ اور ربیع الثانی تک تو یہ ٨ ماہ بن جاتے ہیں۔ لہذا یہ دلیل تو انتہائی بودی ثابت ہو جاتی ہے،
ارسلان بھائی اب ہم نے آپ کے مہینوں والا مسئلہ تو حل کر دیا ہے، فلہذا آپ مہینوں والا سوال دوبارہ پوچھنے کی زحمت نہ کیجیے گا،
بہت خوب تحریفات ہیں۔ گویا آپ جو کچھ کھینچ تان کر قرآن سے کشید کر ڈالیں وہ بھی عین قرآن ہی ٹھہرے گا۔
پہلے تو یہ بتا دیجئے کہ "س ل خ" میں سے "لگاتار" کا مفہوم آپ کا کشید کردہ ہے یا آپ سے قبل کسی ماہر لغت نے بھی اس جانب کچھ اشارہ کیا ہے؟
ظاہر ہے کہ کسی زبان کے درست معنیٰ و مفاہیم کے لئے اہل زبان ہی کی بات قابل اعتبار ہوگی، نا کہ ہر نتھو خیرے کی، کہ جو جی میں آئے کسی بھی لفظ سے خود ساختہ مفاہیم کشید کرتا پھرے۔
جانور کی کھال کھینچنے میں، سانپ کے قینچلی اتارنے میں اور رات سے دن کھینچنے میں ہمیں تو "لگاتار" کا مفہوم کہیں نظر نہیں آتا۔ آپ کو پتہ نہیں ان مفاہیم میں کیسے "لگاتار" والی بات نظر آ گئی؟ بھلا سانپ لگاتار قینچلی اتارتا رہتا ہے؟ جانور کی کھال لگاتار کھینچی جاتی ہے؟ رات میں سے دن لگاتار کھینچے پر برآمد ہوتا ہے؟ عجیب۔

پھر سورہ توبہ سے اسلامی حکومت اور آپریشن کی بابت جو کچھ آپ نے درج کیا ہے، اس کی دلیل کیا قرآن ہی میں موجود ہے؟ اگر ہے تو بتائیے، اور نہیں تو آپ کو یہ خبر کہاں سے ملی کہ سورہ توبہ کی یہ آیت جب نازل ہوئی جبکہ اسلامی حکومت قائم ہو چکی تھی اور مشرکین کے خلاف "آپریشن" ہی کرنا تھا اور وہ دوطرفہ جنگ نہیں تھی اور پھر یہ آپریشن بھی یک بارگی ہی ہونا تھا ۔ اور وہ ایک مسلسل اور مستقل جاری رہنے والی جنگ نہیں تھی؟ حقیقت یہ ہے کہ فتح مکہ تک مسلمان ہمیشہ حالت جنگ میں رہے ہیں، ان میں حرمت کے مہینوں میں جنگ بندی ہوتی تھی، لہٰذا اس سے نہ تو ان مہینوں کے لگاتار ہونے کی بابت کچھ اندازہ لگانا ممکن ہے اور نہ ہی برعکس۔

پھر سب سے بودی بات جو آپ نے کی کہ:
چونکہ جب "حج اکبر" کے دن اس بات کا فیصلہ ہوگیا کہ ان مجرموں کے خلاف کاروائی کرنی ہے تو چونکہ اس وقت حرمت کا کوئی مہینہ چل رہا تھا،
محترم، آپ کو کس نے بتایا کہ اس وقت حرمت کا مہینہ چل رہا تھا اور وہ پہلا ہی مہینہ تھا، دوسرا، یا تیسرا اور چوتھا مہینہ نہیں تھا؟ ہو سکتا ہے حرمت کا دوسرا مہینہ چل رہا ہو اور اس سے پہلے ایک مہینہ گزر چکا ہو؟ ہو سکتا ہے تیسرا مہینہ چل رہا ہو؟ گویا اپنی "ہو سکتا ہے" کی خود ساختہ تشریح کی بنیاد پر آپ ایک ایسی بات کو رد کرنے چلے ہیں جو نہ صرف صحیح احادیث سے ثابت ہے بلکہ گزشتہ چودہ صدیوں سے کبھی اس پر اختلاف بھی نہیں ہوا۔
اور آپ نے جو علماء کے اختلاف کی بات کی ہے تو اس کا حوالہ پیش کریں کہ کن علماء میں حرمت کے مہینوں کی تعیین میں اختلاف ہوا ہے؟ مہینوں کی تخصیص ہو جانے کے باوجود تاریخوں کو بیچ میں گھسیٹ لانا بھی عجیب جہالت ہے۔


یہ ایسا سوال ہے جس کا جواب حجیت حدیث کا انکار کرنے والا شخص قرآن سے کبھی دے ہی نہیں سکتا۔ آپ ہی کے ہم مسلک ہیں وہ لوگ جنہوں نے نماز کی تعداد قرآن سے ثابت کرنے کی کوشش کی تو کسی کو قرآن سے تین نمازوں کا ثبوت ملا ہے اور کسی کو پانچ کا تو کسی کو دو کا۔ کوئی نماز میں ایک ہی سجدہ کرتا ہے تو کوئی دو رکوع۔ اور یہ سب سنگین اختلاف قرآن ہی کے نام پر۔ اللہ ہدایت دے۔
 

عمران علی

مبتدی
شمولیت
اگست 25، 2012
پیغامات
71
ری ایکشن اسکور
38
پوائنٹ
21
ارسلان بھائی!
محترم آپ ہر وقت قرآن کریم کو جھٹلانے پر اپنی توانائیاں کیوں خرچ کرتے نظر آتے ہیں؟ میرے بھائی میں نے پہلے بھی عرض کیا کہ اس آیت میں مہینوں کے ناموں پر جرح نہیں کی گئی ہے، آپ یہ سورۃ مبارکہ پڑھ لیں گے تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ یہاں پر مفسدین اور فاسقین جو اسلام کے خلاف بغاوت کا علم بلند کررہے تھے، کے خلاف کاروائی کا حکم دیا گیاہے اور اللہ کہہ رہا ہے کہ اللہ کے نزدیک مہینے تو صرف بارہ ہیں اور یہ آج سے نہیں بلکہ جب سے دنیا بنی ہے، تب سے ہے، ظاہرہے کہ جنہیں یہ حکم دیا گیا تھا انہیں پتہ تھا کہ یہ چار مہینے کی مدت کب تک ہے، اور کب ختم ہوگی، اور جب ختم ہوئی تو انہوں نے انکے خلاف کاروائی بھی کی۔اس میں آپ غلط طور پر مہینوں کو لیکر بیٹھ گئے ہیں ، اس واقعہ میں ہمارے لیے مہینے یاد کا سبق نہیں ہے، وہ پرائمری میں پرائمری اسکول ٹیچر بچوں کو سکھا دیتا ہے، بلکہ اس واقعہ میں ہمارے لیے یہ سبق تھا کہ جب کوئی قوم بغاوت کردے تو اسکے خلاف فوراً ہی کاروائی نہ کرو بلکہ معاہدات کی پاسداری پر آخری حد تک جاؤ، اورپھر جب مقررہ حد گزر جائے تو مفسدین یا فاسقین کو جہاں پاؤ قتل کرو۔امید ہے آپ ہمیں دوبارہ سے مہینوں کے نام یاد کرانے کی زحمت نہیں کریں گے، اور ویسے بھی قرآن کریم کوئی جنتری نہیں، مہینوں کے نام آپ کو یاد کرنے ہیں تو کوئی جنتری خرید لیں اور اس سےتمام مہینوں کے نام یاد کر لیں۔اس میں قمری، شمسی اور ہندی تمام مہینوں کے نام موجود ہوتے ہیں۔

ثم تتفکروا
عمران علی
 

عمران علی

مبتدی
شمولیت
اگست 25، 2012
پیغامات
71
ری ایکشن اسکور
38
پوائنٹ
21
محترمہ زینب صاحبہ
پاکستان میں یہ فتنہ بہت تیزی سے پیھل رھا ہے اور مولوی صاحبان جھگڑوں سے فارغ نھیں جو حدیث کو نھیں مانے اس کو تو فورا گولی مارنے چاھیے
محترمہ یہ آپ کا ذاتی خیال ہے یا اس کے پیچھے قرآن کریم سے بھی کوئی دلیل ہے؟
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
ارسلان بھائی!
محترم آپ ہر وقت قرآن کریم کو جھٹلانے پر اپنی توانائیاں کیوں خرچ کرتے نظر آتے ہیں؟
استغفراللہ ثم استغفراللہ
اتنا بڑا بہتان۔۔۔۔ ایک تو اللہ کی آخری اور سچی کتاب کو جھٹلانے کا الزام پھر اس پر توانائیاں خرچ کرنے کا دوہرا الزام؟
پناہ مانگتا ہوں میں اللہ کی شیطان مردود سے۔
ہم قرآن مجید کو اللہ کی آخری اور سچی کتاب مانتے ہیں جو اللہ نے اپنے آخری نبی اور آخری رسول محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل فرمائی،اور ہم دل و جان سے اس پر ایمان رکھتے ہیں۔الحمدللہ
لہذا آپ کا مجھ پر یہ الزام ہے۔
میرے بھائی میں نے پہلے بھی عرض کیا کہ اس آیت میں مہینوں کے ناموں پر جرح نہیں کی گئی ہے، آپ یہ سورۃ مبارکہ پڑھ لیں گے تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ یہاں پر مفسدین اور فاسقین جو اسلام کے خلاف بغاوت کا علم بلند کررہے تھے، کے خلاف کاروائی کا حکم دیا گیاہے اور اللہ کہہ رہا ہے کہ اللہ کے نزدیک مہینے تو صرف بارہ ہیں اور یہ آج سے نہیں بلکہ جب سے دنیا بنی ہے، تب سے ہے، ظاہرہے کہ جنہیں یہ حکم دیا گیا تھا انہیں پتہ تھا کہ یہ چار مہینے کی مدت کب تک ہے، اور کب ختم ہوگی، اور جب ختم ہوئی تو انہوں نے انکے خلاف کاروائی بھی کی۔اس میں آپ غلط طور پر مہینوں کو لیکر بیٹھ گئے ہیں ،
یہاں آپ سے حرمت والے چار مہینوں کے نام پوچھنے کا مقصد صرف اتنا تھا کہ آپ کو یہ بتایا جا سکے کہ ہم قرآن اور حدیث دونوں سے رہنمائی لیتے ہیں،حدیث مبارکہ قرآن مجید کی تشریح ہیں، اور قرآن میں اگر چار مہینوں کی وضاحت نہیں تو حدیث مبارکہ میں ہے کیونکہ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔لیکن تم لوگ احادیث کا انکار کر کے غیر مسلموں کے لیے اسلام پر انگلی اٹھانے کا موقع فراہم کر رہے ہو،لیکن تم لوگوں کی یہ ساری محنتیں رائیگاں جائیں گیں۔ان شاءاللہ، کیونکہ یہ دین اسلام اللہ کا نور ہے جو نہ تمہاری پھونکوں سے بجھ سکتا ہے نہ کافروں کی۔
یہ چاروں سوالات پوچھنے کا مقصد صرف آپ کو احادیث کی اہمیت واضح کرنا ہے۔
 

عمران علی

مبتدی
شمولیت
اگست 25، 2012
پیغامات
71
ری ایکشن اسکور
38
پوائنٹ
21
محترم راجا صاحب،
پہلے تو یہ بتا دیجئے کہ "س ل خ" میں سے "لگاتار" کا مفہوم آپ کا کشید کردہ ہے یا آپ سے قبل کسی ماہر لغت نے بھی اس جانب کچھ اشارہ کیا ہے؟
ظاہر ہے کہ کسی زبان کے درست معنیٰ و مفاہیم کے لئے اہل زبان ہی کی بات قابل اعتبار ہوگی، نا کہ ہر نتھو خیرے کی، کہ جو جی میں آئے کسی بھی لفظ سے خود ساختہ مفاہیم کشید کرتا پھرے۔
میرے بھائی آپ ہم نے اگر غلط معنی و مفہوم پیش کیا تھا تو آنجناب کا بھی فرض بنتا تھا کہ بندے کی تصیح فرما دیتے، تا کہ سند رہتی، آپ ہی کا جملہ پیش کرتا ہوں، "سانپ کیا روزانہ کینچلی اتارتا ہے؟"، جی ہاں ہم بھی یہی کہتے ہیں کہ وہ بالکل روزانہ اپنی کینچلی نہیں اتارتا، بلکہ ایک ہی بار اتارتا ہے، لیکن جب اتارتا ہے ایک ساتھ ساری اتارتا ہے، وقفے وقفے سے نہیں، (جیسا کہ آپکے حرمت کے مہینے وقفے وقفے سے وارد ہوتا ہیں)

جانور کی کھال لگاتار کھینچی جاتی ہے؟ رات میں سے دن لگاتار کھینچے پر برآمد ہوتا ہے؟ عجیب
میرے بھائی لگاتار سے میری مراد وہ والا لگاتار نہیں ہے جو آپ سمجھ رہے ہیں، بلکہ میری مراد "مسلسل بغیر وقفہ کے ہے"

پھر سورہ توبہ سے اسلامی حکومت اور آپریشن کی بابت جو کچھ آپ نے درج کیا ہے، اس کی دلیل کیا قرآن ہی میں موجود ہے؟ اگر ہے تو بتائیے، اور نہیں تو آپ کو یہ خبر کہاں سے ملی کہ سورہ توبہ کی یہ آیت جب نازل ہوئی جبکہ اسلامی حکومت قائم ہو چکی تھی اور مشرکین کے خلاف "آپریشن" ہی کرنا تھا اور وہ دوطرفہ جنگ نہیں تھی اور پھر یہ آپریشن بھی یک بارگی ہی ہونا تھا ۔ اور وہ ایک مسلسل اور مستقل جاری رہنے والی جنگ نہیں تھی؟ حقیقت یہ ہے کہ فتح مکہ تک مسلمان ہمیشہ حالت جنگ میں رہے ہیں، ان میں حرمت کے مہینوں میں جنگ بندی ہوتی تھی، لہٰذا اس سے نہ تو ان مہینوں کے لگاتار ہونے کی بابت کچھ اندازہ لگانا ممکن ہے اور نہ ہی برعکس۔
میرے بھائی آپ نے سورۃ توبہ لگتا ہے توجہ سے پڑھی نہیں ہے، اس سورۃ مبارکہ اور اس سے ماقبل کی سورۃ میں اسلام کے سیاسی نظام کے اصول بتلائے گئے ہیں، بالخصوص دیگر اقوام کے ساتھ امکانی معاہدات اور انکی پاسداری کا طریقہ کار وضع کیا گیا ہے اور ساتھ ہی ساتھ اسلامی حکومت کے افسران ، (اولیاء) چننے کے قوانین بیان ہوئے ہیں، اسکے علاوہ جنگی غنیمتوں کا بھی بیان ہے، اور مفسدین ، منافقین اور فاسقین کے ساتھ کس انداز سے نمٹنا ہے ان سب باتوں کی نشاندہی انہی دو سورتوں میں موجود ہے۔ حرف عام میں ایسی سورتیں جن میں اس طرح کے یا کوئی دوسرے بھی احکام ہوں آپ انہیں "مدنی سورتیں " کہتے ہیں اور ہم انہیں "اسلامی مملکت کے قیام کے بعد کی سورتیں" کہتے ہیں، بات بہرحال ایک ہی ہے۔ مکی سورتوں یا "اسلامی مملکت کے قیام سے ماقبل کی سورتوں" میں ذیادہ تر یہود و نصاری اور مشرکین سے مخاطب ہے اور ان سب کو اخلاقی ترغیب کے ذریعے آخرت کا خوف یاددلایا گیا ہے، اس میں جنگی حکمت عملی کی آیات نہیں ہیں۔ فلہذا آپ سے التماس ہے پہلے قرآن کریم کا مطالعہ کیجیے اور بعد میں لب کشائی کیجیے۔

اور آپ نے جو علماء کے اختلاف کی بات کی ہے تو اس کا حوالہ پیش کریں کہ کن علماء میں حرمت کے مہینوں کی تعیین میں اختلاف ہوا ہے؟ مہینوں کی تخصیص ہو جانے کے باوجود تاریخوں کو بیچ میں گھسیٹ لانا بھی عجیب جہالت ہے۔
محترم حوالہ میں دے دیتا ہوں ملاحظہ آپ خود کر لیجیے گا،

حاشیہ سورۃ التوبہ آیت نمبر ٥ ترجمہ قرآن شاہ فہد پرنٹنگ پریس سعودی عرب حوالہ تفسیر " ابن کثیر": تصویر ساتھ لگا رہا ہوں، ملاحظہ کیجیے
 

عمران علی

مبتدی
شمولیت
اگست 25، 2012
پیغامات
71
ری ایکشن اسکور
38
پوائنٹ
21
تصویر اپ لوڈ کی تھی لیکن اپ لوڈ ہونہیں سکی، ممکن ہے اس ویب صحفہ میں کوئی مسئلہ ہو۔
 
Top