"کالم بعنوان
"موئے مبارک"اور کالم بعنوان
"فتوی" کے کچھ مندرجات سے اختلاف کے ساتھ..............."
السلام علیکم ورحمة الله وبركاته
قابل صداحترام جاوید چودهری صاحب!
امید ہے مزاج گرامی ایمان واسلام کی بہترین حالت میں شب و روز قلمی جہاد میں مصروف عمل ہوں گے.دلکش اسلوب ،شستہ شگفتہ شائستہ اندازبیان، حسن معانی کی فراوانی اور سلگتے عالمی اور معاشرتی مسائل پہ گرفت اور گفت سو ہم مدت سے زیرو پوائنٹ پہ استقامت اختیار کیے ہوئے ہیں.مستقل قاری ہونے کے ناطے بسا اوقات ہم محسوس اور تمنا کرتے ہیں کہ اے کاش چودهری صاحب اس ٹاپک پہ نہ ہی لکهتے تو اچها تها.مگر تب آپ لکھ بهی چکے ہوتے ہو.مثلا آپ کا ایک کالم بعنوان"موئے مبارک"
جناب .....!
ایک ایسی قوم جو پہلے ہی بہروپیوں، جعل سازوں اور مذهبی باوں کے ہاتهوں توہمات ، خرافات اور شرک وبدعات میں گری ہوئ ہے اسے مزید اس دلدل میں دهکیلنا ظلم ہے.
پیارے آقاعلیہ السلام کے آثار مبارک سے بابت جملہ باتیں شرعی اور علمی مسئلہ ہے.جیسے "مفتیان "کا نیٹو سپلائی کے ایشو پہ فتوی درست نہیں بعینہ کیا نازک شرعی مسائل میں"فتاوی " صحافیان " کے لیے بجا ہوگا؟
یہ پهر ہمیں تو آزادئ اظہار ہے؟؟؟
کالم بعنوان
"فتوی" کے ابتدائیہ میں آپ نے لکها کہ بغداد میں جب ہلاکوخان نے حملہ کیا تب علماۓ امت دجلہ کنارے اس بحث میں الجهے ہوئے تهے کہ مسواک کا سائز کیا ہونا چاہیے.
محترم.....!
یہ اور اس طرح کے قصے کہ تب علماۓ امت اس مسئلے پہ باہم مناظرے کررہے تهے کہ موسی علیہ السلام کا عصاکس لکڑی کا بناہوا تها وغیرہ سب بیمار ذهنیت کی اختراع اور من گهڑت افسانے ہیں کسی بهی مستند اور معتبر تاریخ کی کتاب سے یہ باتیں ثابت نہیں ہیں.بلکہ سقوط بغداد میں مسلمانوں کا جانی نقصان اتنا بڑا المیہ نہیں تها جتناکہ مسلمان علماء اور مصنفین کی کتب کو جلانے اور دجلہ میں بہانے کی صورت ہوا.
کیا یہ سب کتب جنات نے لکهی تهی؟ ظاہر ہے تب کے علماء نے ہی لکهی تهی اور ویسے بهی جس طرح آج نیٹوسپلائ پہ لب کهولنا مفتیان کا نہیں حکومت کا کام ہے بالکل اسی طرح تب بغداد کا دفاع کرنا بهی تب کی حکومت وقت کا کام تها نہ کہ علماۓ کرام کا.......!
علماء کرام کو اپنی حدود میں رہنا چاہیے لیکن کیا کرے چودهری صاحب ہونا تو یہ چاہیے تها کہ
"جس کا کام اسی کو ساجهے"
مگر ٹاک شوز میں خالص شرعی اور علمی مباحثوں میں اظہار خیال کے لیے جب علماء کی بجائے این جی اوز زدہ ایسی خواتین کو بٹهائیں گے.جن کو قل هواللہ بهی ٹهیک سے پڑهنا نہیں آتا ہو تو پهر حدود کہاں رہیں گے.شام کے مسئلہ میں آپ نے حکومت کو آڑے ہاتهوں لیا کہ فوج نہیں بھیجنی چاہیے.کیا یہ فیصلہ کرنا قومی سلامتی کے اداروں اور حکومت وقت کا کام نہیں ہے.یا پهر صرف مولوی ہی نہیں معاشرے کا ہر طبقہ اپنی حدود سے تجاوز کررہا ہے.
پچاس مفتیان کے فتوے کے فالور اور متبعین آپ کے کالم کے قارئین سے کم ہی ہوں گے.بہرحال احتیاط جملہ پہلووں میں لازم ٹھہرا ۔
یہ چند ملاحظات میری ذاتی رائے تهی آپ کو اس سے اختلاف کا حق حاصل ہے.
بطور آپ کے قاری میں نے جو محسوس کیا لکها .اللہ مزید کامیابیاں اور کامرانیاں آپ کے مقدر کرے.
اللہ آپ کا حامی وناصر ہو ۔
ایک وضاحت :
فردوس جمال صاحب جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں کلیۃ اللغۃ کے طالب علم ہیں ۔ جامعہ میں داخلہ ہونے سے پہلے کچھ دیر غالبا ہفت روزہ جرار ( غزوہ ) میں بھی لکھتے رہے ہیں ۔ ابھی بھی ان کے کالم بلتستان کے ایک ’’ پرچے : باد شمال ‘‘ میں آتے رہتے ہیں ۔ اور کئی اہم تحریریں فیس بک پر بھی دیتے رہتے ہیں ۔