جمہوریت یعنی جمہور یعنی اکثریت کی اتباع کرنا صرف اسی صورت مذموم ہے جبکہ وہ شریعت کے خلاف ہو ورنہ اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ قرآن کی اس آیت سے مراد ایسی اکثریت کی اتباع ہے جو کتاب وسنت کے خلاف ہو ورنہ تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے جنگی وملی فیصلے جمہوریت یعنی اکثریت ہی کی رائے کی روشنی میں طے ہوتے تھے اور ہمارے فقہ اسلامی میں جمہور یعنی اکثر علماء کا کسی مسئلے میں ایک ہی رائے کسی طور مذموم نہیں ہے اور نہ ہی جمہور علماء کی اتباع پر یہ آیت صادق آ سکتی ہے۔ پس محض جمہوریت ہمارے دین میں کوئی مذموم شے نہیں ہے۔
بقیہ رہی یہ بات کہ عذاب قبر جیسے مسئلے میں کسی کو اہل سنت یا اہل حدیث سے خارج کرنا تو یہ کام اہل سنت نے اس وقت کیا جبکہ گمراہ فرقوں نے اپنے باطل افکار کتاب وسنت سے ثابت کرنا شروع کر دیے۔ اہل سنت کی عقیدے کی معروف کتاب عقیدہ طحاویہ میں اہل سنت کا یہ عقیدہ بیان کیا گیا ہے کہ وہ مسح علی الخفین کے قائل ہیں حالانکہ یہ عملی مسئلہ ہے اس کا عقیدے سے کوئی تعلق نہیں ہے لیکن اس کے جزوی اور عملی مسئلہ ہونے کے باوجود اسے وقت کے باطل فرقوں سے اہل سنت کو ممتاز قرار دینے کے لیے اہل سنت میں شامل ہونے کا معیار قرار دیا گیا۔ تو یہی معاملہ عذاب قبر کے مسئلے کا بھی ہے۔ آج کے دور میں اہل سنت یا اہل حدیث کے عقیدے کی اگر کوئی جدید کتاب مرتب ہو گی تو اس میں آج کے تناظر میں فرق باطلہ عثمانی گروپ یا جماعت المسلمین رجسٹرڈ گروپ کو اہل حدیث سے علیحدہ کرنے کے لیے کچھ ان عملی اور امتیازی مسائل کو بھی بطور عقیدہ بیان کیا جائے گا کہ جن پر اہل حدیث علماء کا اتفاق ہو۔
اہل حدیث کا منہج اعتصام بالکتاب والسنۃ کا ہے جبکہ دوسرے فرق کا منہج یہ ہے کہ اپنی رائے کو کتاب وسنت سے ثابت کریں۔ اب ان میں سے بعض تو وہ ہیں جو کتاب وسنت کی ایسی تشریح یا تعبیر کرتے ہیں کہ کتاب وسنت ان کے امام کی رائے کے موافق ہو جائے اور یہ عام طور اہل تقلید کرتے ہیں۔ اور ایک جماعت ایسے لوگوں کی بھی ہے جنہیں ہم متجددین کہہ سکتے ہیں جو درحقیقت ہیں تو غیر مقلد لیکن اہل حدیث نہیں ہیں۔ سلف کے زمانے میں ان کی مثال معتزلہ وغیرہ جیسے گروہ تھے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو تقلید کے تو قائل نہیں ہیں لیکن کتاب وسنت کی چند ایک نصوص سے اپنا ایک نقطہ نظر بنا لیتے ہیں اور اب کتاب وسنت کی بقیہ نصوص کو اپنے نقطہ نظر کے مطابق ثابت کرنے میں اہل تقلید کی طرح تاویل سے کام لیتے ہیں۔ یہ لوگ کتاب وسنت کی وہ تعبیر چاہتے ہیں جو ان کی سوچ کے موافق ہو۔ یہ اپنی سوچ کو کتاب وسنت کے تابع نہیں کرتے کہ وہ جہاں چاہیں ان کو لے جائیں بلکہ کتاب وسنت کو اپنی سوچ کے تابع کرتے ہیں۔ اگرچہ ان کی وہ محدود سوچ، کتاب وسنت کے محدود مطالعہ کی بنیاد پر قائم ہوتی ہے جس کی وجہ سے وہ اس غلط فہمی میں مبتلا ہوتے ہیں کہ وہ اعتصام بالکتاب والسنۃ کے منہج پر قائم ہیں لیکن ان کا منہج اعتصام بالکتاب والسنۃ نہیں ہوتا۔
آپ کے مسئلے میں غلطی وہی ہے جو معتزلہ کی تھی۔ معتزلہ کو جس طرح توحید کا ہیضہ ہوا، وہی آپ کو بھی لاحق ہے اور انہوں نے توحید میں ہی مبالغہ کرتے ہوئے اسماء وصفات کا جو حشر کیا وہ اہل علم کے سامنے ہے بلکہ معتزلہ کے اصول خمسہ میں پہلے نمبر پر توحید ہے۔ تو گمراہ فرقے ایسے ہی گمراہ نہیں ہو جاتے، وہ بڑے خوبصورت نعروں سے گمراہ ہوتے ہیں جیسا کہ توحید، عدل، امر بالمعروف ونہی عن المنکر وغیرہ ۔ اللہ تعالی آپ کو وہ توحید ماننے کی توفیق عطا فرمائے جو کتاب وسنت سے ثابت شدہ ہر نص کے سامنے جھکنے کے لیے تیار ہو۔
محترم علوی صاحب -
ویسے تو اس تھریڈ کا موضوع "جمہوریت " نہیں- لیکن چوں کہ میں نے ایک مثال دی تھی کہ اگر ایک عقیدے میں گمراہی کے سبب کسی کو اہل سنّت یا اہل حدیث کے منہج سے فارغ کیا جا سکتا ہے - تو دوسرے معاملات میں گمراہی پر کسی کو اہل حدیث منہج سے کیوں فارغ نہیں کیا جا سکتا -اس پر آپ کا اور کچھ اور اہل سلف کا نظریہ یہ تھا کہ ی
ہ جمہوریت کے معاملے میں ان علماء کے باہمی اختلاف کی بنیا پر ایسا ہے -تو میرے خیال میں یہ ان کی ناجائز طرفداری ہے - لفظ جمہور
"جمہوریت" سے ہی نکلا ہے - جس کا مطلب ہے اکثریت کا موقف - اب آج کل اس دنیا میں اکثریت عیسائییوں کی ہے تو کیا باقی مذاہب کو اپنا دین چھوڑ کر عیسایت کو قبول کرلینا چاہیے ؟؟؟- آپ فرماتے ہیں کہ "
ورنہ تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے جنگی وملی فیصلے جمہوریت یعنی اکثریت ہی کی رائے کی روشنی میں طے ہوتے تھے اور ہمارے فقہ اسلامی میں جمہور یعنی اکثر علماء کا کسی مسئلے میں ایک ہی رائے کسی طور مذموم نہیں ہے" - تو محترم یہی مغالطہ لوگوں کے جمہوریت کے جائز ہونے کی دلیل کے طور پر پیش کیا جاتا ہے - جب کہ محترم اکثریت کا مشورہ لینا اور بات ہے اور مشورے پر عمل کرنا اور بات ہے - مشوره لینے والا اس بات کا پابند نہیں ہوتا کہ وہ ہر میں صورت مشوره دینے والوں کی راے پرعمل کرے -اس کی کئی ایک مثالیں نا صرف نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم کے دور میں موجود رہی ہیں بلکہ بعد کے ادوار میں خلفاء راشدین و صحابہ کرام کے دور میں بھی یہی طرز عمل کار فرما رہا (اس وقت تفصیل کا موقع نہیں )--کہ اکثریت کے موقف سے ہٹ کر اقلیت کے موقف کو اپنایا گیا- جب کہ جمہوریت نظام ہی اس نام کا ہے کہ جس میں اکثریت کی راے پر عمل کیا جائے -اگراس نظام میں اکثریت کے فیصلے یا راے پر عمل درآمد ضروری قرار نہ دیا جائے تو وہ جمہوریت ہی نہیں کہلاے گا - پھر اس کی تخصیص اسلامی جمہوریت اور مغربی جمہوریت کی صورت میں کرنا ایک لا حاصل سعی ہے - یہ ایسے ہی ہے کہ آپ شراب کی بوتل پر اسلامی شراب کا لیبل لگا کر بیچنا شروع کر دیں -
جہاں تک عقیدہ عذاب قبر کا تعلق تو اس میں ہمارے اہل سلف بھائییوں کو یہ مغالطہ ہے کہ اس معاملے پر اہل سنّت والجماعت کے اجماع ہے - پہلی بات تو یہ کہ بہت سے دور حاضر کے علماء اجماع کے قانون کے ہی قائل نہیں - یعنی اجماع کے قانون پر ہی اجماع نہیں - دوسری بات یہ کہ فرقہ معتزلہ ، جہمیہ وغیرہ نے جن عقائد سے روگردانی کی وہ قرآن و احادیث نبوی کی واضح نصوص سے ثابت ہو رہے تھے - جہاں تک آپ نے عثمانیوں کی بات کی ہے تو میں یہ پھر کہوں گا کہ کسی باطل فرقے کا عقیدہ قرانی نصوص سے میل کھا جائے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ کسی کو اسی فرقے سے منسوب کر دیا جائے -ہمارے اکثر اہل حدیث بھائی جذباتی ہو کر کسی پر بھی منکر حدیث کا فتویٰ جڑ دیتے ہیں - لیکن وہ یہ بات بھول جاتے ہیں کہ روایات کے مفہوم کو جانچنے اور پرکھنے کے معاملے میں قرون اولیٰ میں محدثین مجتہدین میں بھی اختلاف راے ہوا - امام ابن جوزی رح تو یہاں تک پہنچ گئے کہ ان کے نزدیک نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم سے منسوب جو روایت درایت کے اصول پر پورا نہیں اترتی اس کی اگر روایت بھی صحیح تو وہ قابل قبول نہیں- امام ذہبی رح فرماتے ہے کہ اگر روی ثقہ ہو تو یہ اس بات کی ضمانت نہیں کہ وہ ہر مرتبہ ہی صحیح بات کرے گا -نسیان و بھول چوک اس سے بھی ممکن ہے اکثرعلماء امام ابو حنیفہ کو ثقہ نہیں سمجھتے - احدیث نبوی کے مفہوم میں اختلاف کی مثالیں خود نبی کریم کے اپنے دور میں بھی ملتیں ہیں - پھر یہ کہ عقائد کے کئی ایک معاملات میں جب صحابہ کرام کو مغالطہ ہوتا تو وہ ام المومنین حضرت عائشہ کے پاس جاتے - آپ رضی الله عنہ اپنے فہم سے ان کی تسلی و تشفی فرماتین- لیکن کبھی کسی پر انہوں نے منکر حدیث کا الزام عائد نہیں کیا -
اصل چیز دیکھنے کی یہ ہے کہ منکر حدیث اصل میں وہ فرقہ یا لوگ ہیں جو احادیث نبوی کی کلی افادیت کے قائل نظر نہیں آتے - جو اپنے موقف کی تائید سے مستشرقین کے نظریات کو جلا بخشتے ہیں -جسے دور حاضر میں جاوید غامدی وغیرہ جیسے لوگ - جو مغرب کے افکار کو زبردستی دین اسلام میں ایک خاص مقام دینا چاہتے ہیں - اب چاہے وہ موسیقی کے دلدادہ ہوں یا جمہوریت (جو کہ یہود و نصاریٰ کا بنایا گیا ایک نظام حکمرانی ہے) اس کو حق ثابت کرنے کی کوشش کریں یا عورتوں و مردوں کے اخلاط کو دین اسلام کی آڑ میں جائز قرار دیں -یا مردوں سے تین شادیوں کا قرانی حق چھیننے کی کوشش کریں - یہی اصل منکر حدیث ہیں- کیوں کہ یہ وہ نظریات ہیں جن کا قرون اولیٰ میں کسی ایک روایت سے بھی ثبوت نہیں ملتا -
لہذا اگر عقائد میں اجتہادی سطح پر آپ کسی کو اہل حدیث منہج سے فارغ کرنے کے اصول روا رکھیں گے-تو خود دور حاضر کے کئی اہل حدیث علماء اس کی بھینٹ چڑھ جائیں گے-
الله ہم سب کو اپنی سیدھی راہ کی طرف گامزن کرے (آمین)
والسلام -