- شمولیت
- اگست 25، 2014
- پیغامات
- 6,372
- ری ایکشن اسکور
- 2,588
- پوائنٹ
- 791
اور سیدنا عمرو بن العاص کی وصیت کے متعلق کوئی بھی کچھ بولنے سے پہلے ایک بنیادی اور ضروری پہلو بہرحال پیش نظر رکھے :
اور وہ ایسی بنیادی لیکن اہم بات ہے جو ہر عام خاص صحیح العقیدہ مسلمان جانتا ہے ۔ دیکھئے قرآن کریم میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے
((وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ))کہ یاد رکھو تمہیں موت صرف حالت اسلام میں آنی چاہئیے ۔
اور حدیث نبوی ہے کہ
اورصحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بارے قرآن کا یہ اعلان تو سب ہی کو معلوم ہے کہ ::
وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنْصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُمْ بِإِحْسَانٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ الخ
لہذا یہ ضروری ہے کہ ان کا خاتمہ عین قرآن وسنت کی مطابقت پر ہو ،نہ کہ معاذاللہ ۔بدعت وشرک ۔کی حالت پر۔۔۔۔۔
تو اگر سیدنا عمرو بن عاص کا خاتمہ ایسی بات پر ہو جو بدعت یا شرک کی قبیل سے ہو تو ۔رضی اللہ عنہم ۔اور ـاعد لہم جنات۔کا وعدہ غلط ثابت ہوجائے گا ۔اور ایسا ہونا ناممکن ہے ۔
لہذا یہ تو طے ہے کہ ان کی وصیت از قسم شرک وبدعت یا کوئی گناہ تو ہو نہیں سکتی ۔
اب سوال ہوگا کہ پھر یہ کیا ہے ؟
تو غور سے سنئے ،،،یہ سنت سے مستفاد ان کا اجتہاد ہے ۔سنت یہ ہے :
عن عثمان بن عفان قال: كان النبي صلى الله عليه وسلم " إذا فرغ من دفن الميت وقف عليه فقال: استغفروا لاخيكم وسلوا له بالتثبيت فإنه الآن يسال " .
عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب میت کے دفن سے فارغ ہوتے تو وہاں کچھ دیر رکتے اور فرماتے: ”اپنے بھائی کی مغفرت کی دعا مانگو، اور اس کے لیے ثابت قدم رہنے کی دعا کرو، کیونکہ ابھی اس سے سوال کیا جائے گا“۔ ابوداؤد کہتے ہیں: بحیر سے بحیر بن ریسان مراد ہیں۔۔قال الشيخ الألباني: صحيح (تحفة الأشراف: ۸۹۴۰)
دفن کے بعد کچھ دیر رک کر میت کے لئے دعاء کرنا تو ثابت ہوگیا ۔اب باقی رہ یہ سوال کہ کتنی دیر رکا جائے تو اس سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا ۔ جو ان کے بتائے وقت جتنا نہیں رک سکتا نہ رکے ۔اور اتنا رکنا چاہے تو اس کس نص نے روکا ہے ۔
اور جس جملہ کی وجہ سے اتنی تکلیف ہورہی ہے اس کو ان تہی دستوں نے سمجھا ہی نہیں ۔
((حتى أستأنس بكم، وأنظر ماذا أراجع به رسل ربي ))یعنی میری قبر پر اتنی دیر کھڑے رہنا تاکہ تمہاری دعا ء واستغفار سے مجھے قبر میں وحشت نہ ہو اور میں فرشتوں کو صحیح جواب دے سکوں ۔۔
یہ مطلب نہیں کہ میں تمہیں دیکھ کر مانوس ہوں گا ۔
بلکہ اس کا صحیح مفہوم ومراد وہی ہے جو اوپر مرفوع حدیث میں گزری ۔استغفروا لاخيكم وسلوا له بالتثبيت فإنه الآن يسال "
کہ میت کے لئے قبر کے قریب کھڑے رہ کر دعاء واستغفار اس کےلئے قبر میں ثابت قدمی کاسبب بن سکتا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عثمانی سان پر لگی سمجھ ہی الٹی ہو تو بجائے مفہوم یا مراد حسب حال کرنے ۔ یابمطابق سیاق وسباق کرنے کے ۔۔الٹا صحابی پر ہی اعتراض شروع کردیا ۔
یا پھر صحیح مسلم کے رواۃ پر ہاتھ چلانا شروع کردیے ۔انا للہ وانا الیہ راجعون ۔
ـــــــــــــــــــــــــــــ
اور یہ بھی خوب کہی کہ
رحمہم اللہ رحمۃ واسعۃ۔انہی کی محنت وخلوص کے سبب تو ہمیں علم حدیث ملا ۔
اگر وہ آپ کو پسند نہیں تو کوئی آپ پر جبر نہیں کرتا ۔
آپ لکھنوء شریف والوں سے محبت کریں ۔اور دل کھول کے کریں ۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
آخر میں آپ نے حسب سابق ایک دفعہ پھربلا حوالہ ایک قول سیدنا علی کے ذمہ لگادیا ۔اگر یہ صحیح سند سے موجود ہے تو پیش فرمائیں۔
بیک ڈور والوں سے بھی استعانت کی جاسکتی ہے
اسی طرح ابن جوزی ؒ کا فارمولا بھی محتاج مصدر ہے ۔
اور وہ ایسی بنیادی لیکن اہم بات ہے جو ہر عام خاص صحیح العقیدہ مسلمان جانتا ہے ۔ دیکھئے قرآن کریم میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے
((وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ))کہ یاد رکھو تمہیں موت صرف حالت اسلام میں آنی چاہئیے ۔
اور حدیث نبوی ہے کہ
فقال النبي صلى الله عليه وسلم: «إن العبد ليعمل، فيما يرى الناس، عمل أهل الجنة وإنه لمن أهل النار، ويعمل فيما يرى الناس، عمل أهل النار وهو من أهل الجنة، وإنما الأعمال بخواتيمها» نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بندہ لوگوں کی نظر میں اہل جنت کے کام کرتا رہتا ہے حالانکہ وہ جہنم میں سے ہوتا ہے۔ ایک دوسرا بندہ لوگوں کی نظر میں اہل جہنم کے کام کرتا رہتا ہے حالانکہ وہ جنتی ہوتا ہے اور اعمال کا اعتبار تو خاتمہ پر موقوف ہے۔»صحیح بخاری
آپ نے دیکھا قرآن وحدیث دونوں میں اس اہم حقیقت کو بیان کیا گیا ہے کہ اگر کسی کا خاتمہ ایمان و اسلام کے علاوہ کسی حالت میں ہوا ، تو وہ کامیاب نہیں ہوگا ، اگر چہ پہلے ز ندگی میں اس نے کتنے ہی اچھے عمل کیوں نہ کئے ہوں ۔اورصحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بارے قرآن کا یہ اعلان تو سب ہی کو معلوم ہے کہ ::
وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنْصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُمْ بِإِحْسَانٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ الخ
لہذا یہ ضروری ہے کہ ان کا خاتمہ عین قرآن وسنت کی مطابقت پر ہو ،نہ کہ معاذاللہ ۔بدعت وشرک ۔کی حالت پر۔۔۔۔۔
تو اگر سیدنا عمرو بن عاص کا خاتمہ ایسی بات پر ہو جو بدعت یا شرک کی قبیل سے ہو تو ۔رضی اللہ عنہم ۔اور ـاعد لہم جنات۔کا وعدہ غلط ثابت ہوجائے گا ۔اور ایسا ہونا ناممکن ہے ۔
لہذا یہ تو طے ہے کہ ان کی وصیت از قسم شرک وبدعت یا کوئی گناہ تو ہو نہیں سکتی ۔
اب سوال ہوگا کہ پھر یہ کیا ہے ؟
تو غور سے سنئے ،،،یہ سنت سے مستفاد ان کا اجتہاد ہے ۔سنت یہ ہے :
عن عثمان بن عفان قال: كان النبي صلى الله عليه وسلم " إذا فرغ من دفن الميت وقف عليه فقال: استغفروا لاخيكم وسلوا له بالتثبيت فإنه الآن يسال " .
عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب میت کے دفن سے فارغ ہوتے تو وہاں کچھ دیر رکتے اور فرماتے: ”اپنے بھائی کی مغفرت کی دعا مانگو، اور اس کے لیے ثابت قدم رہنے کی دعا کرو، کیونکہ ابھی اس سے سوال کیا جائے گا“۔ ابوداؤد کہتے ہیں: بحیر سے بحیر بن ریسان مراد ہیں۔۔قال الشيخ الألباني: صحيح (تحفة الأشراف: ۸۹۴۰)
دفن کے بعد کچھ دیر رک کر میت کے لئے دعاء کرنا تو ثابت ہوگیا ۔اب باقی رہ یہ سوال کہ کتنی دیر رکا جائے تو اس سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا ۔ جو ان کے بتائے وقت جتنا نہیں رک سکتا نہ رکے ۔اور اتنا رکنا چاہے تو اس کس نص نے روکا ہے ۔
اور جس جملہ کی وجہ سے اتنی تکلیف ہورہی ہے اس کو ان تہی دستوں نے سمجھا ہی نہیں ۔
((حتى أستأنس بكم، وأنظر ماذا أراجع به رسل ربي ))یعنی میری قبر پر اتنی دیر کھڑے رہنا تاکہ تمہاری دعا ء واستغفار سے مجھے قبر میں وحشت نہ ہو اور میں فرشتوں کو صحیح جواب دے سکوں ۔۔
یہ مطلب نہیں کہ میں تمہیں دیکھ کر مانوس ہوں گا ۔
بلکہ اس کا صحیح مفہوم ومراد وہی ہے جو اوپر مرفوع حدیث میں گزری ۔استغفروا لاخيكم وسلوا له بالتثبيت فإنه الآن يسال "
کہ میت کے لئے قبر کے قریب کھڑے رہ کر دعاء واستغفار اس کےلئے قبر میں ثابت قدمی کاسبب بن سکتا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عثمانی سان پر لگی سمجھ ہی الٹی ہو تو بجائے مفہوم یا مراد حسب حال کرنے ۔ یابمطابق سیاق وسباق کرنے کے ۔۔الٹا صحابی پر ہی اعتراض شروع کردیا ۔
یا پھر صحیح مسلم کے رواۃ پر ہاتھ چلانا شروع کردیے ۔انا للہ وانا الیہ راجعون ۔
ـــــــــــــــــــــــــــــ
اور یہ بھی خوب کہی کہ
آپ نے تو طنز شریف فرمایا ۔۔۔لیکن حقیقت یہی ہے کہ ہمیں ابوعاصم وامثالہم اپنے پیاروں سے بڑھ کر پیارے ہیں ۔اور ساتھ کسی طرح یہ ثابت ہو جائے کہ ان کے محبوب راوی ابن عاصم کی روایت اپنی جگہ بلکل صحیح ہے -
رحمہم اللہ رحمۃ واسعۃ۔انہی کی محنت وخلوص کے سبب تو ہمیں علم حدیث ملا ۔
اگر وہ آپ کو پسند نہیں تو کوئی آپ پر جبر نہیں کرتا ۔
آپ لکھنوء شریف والوں سے محبت کریں ۔اور دل کھول کے کریں ۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
آخر میں آپ نے حسب سابق ایک دفعہ پھربلا حوالہ ایک قول سیدنا علی کے ذمہ لگادیا ۔اگر یہ صحیح سند سے موجود ہے تو پیش فرمائیں۔
بیک ڈور والوں سے بھی استعانت کی جاسکتی ہے
اسی طرح ابن جوزی ؒ کا فارمولا بھی محتاج مصدر ہے ۔