• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

موت سے پہلے سیدنا عمرو بن عاص رضی الله عنہ کی وصیت پر اہل ایمان موقف

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,588
پوائنٹ
791
اور سیدنا عمرو بن العاص کی وصیت کے متعلق کوئی بھی کچھ بولنے سے پہلے ایک بنیادی اور ضروری پہلو بہرحال پیش نظر رکھے :
اور وہ ایسی بنیادی لیکن اہم بات ہے جو ہر عام خاص صحیح العقیدہ مسلمان جانتا ہے ۔ دیکھئے قرآن کریم میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے
((وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ))کہ یاد رکھو تمہیں موت صرف حالت اسلام میں آنی چاہئیے ۔
اور حدیث نبوی ہے کہ
فقال النبي صلى الله عليه وسلم: «إن العبد ليعمل، فيما يرى الناس، عمل أهل الجنة وإنه لمن أهل النار، ويعمل فيما يرى الناس، عمل أهل النار وهو من أهل الجنة، وإنما الأعمال بخواتيمها» نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بندہ لوگوں کی نظر میں اہل جنت کے کام کرتا رہتا ہے حالانکہ وہ جہنم میں سے ہوتا ہے۔ ایک دوسرا بندہ لوگوں کی نظر میں اہل جہنم کے کام کرتا رہتا ہے حالانکہ وہ جنتی ہوتا ہے اور اعمال کا اعتبار تو خاتمہ پر موقوف ہے۔»صحیح بخاری​
آپ نے دیکھا قرآن وحدیث دونوں میں اس اہم حقیقت کو بیان کیا گیا ہے کہ اگر کسی کا خاتمہ ایمان و اسلام کے علاوہ کسی حالت میں ہوا ، تو وہ کامیاب نہیں ہوگا ، اگر چہ پہلے ز ندگی میں اس نے کتنے ہی اچھے عمل کیوں نہ کئے ہوں ۔
اورصحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بارے قرآن کا یہ اعلان تو سب ہی کو معلوم ہے کہ ::

وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنْصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُمْ بِإِحْسَانٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ الخ
لہذا یہ ضروری ہے کہ ان کا خاتمہ عین قرآن وسنت کی مطابقت پر ہو ،نہ کہ معاذاللہ ۔بدعت وشرک ۔کی حالت پر۔۔۔۔۔
تو اگر سیدنا عمرو بن عاص کا خاتمہ ایسی بات پر ہو جو بدعت یا شرک کی قبیل سے ہو تو ۔رضی اللہ عنہم ۔اور ـاعد لہم جنات۔کا وعدہ غلط ثابت ہوجائے گا ۔اور ایسا ہونا ناممکن ہے ۔
لہذا یہ تو طے ہے کہ ان کی وصیت از قسم شرک وبدعت یا کوئی گناہ تو ہو نہیں سکتی ۔
اب سوال ہوگا کہ پھر یہ کیا ہے ؟
تو غور سے سنئے ،،،یہ سنت سے مستفاد ان کا اجتہاد ہے ۔سنت یہ ہے :
عن عثمان بن عفان قال:‏‏‏‏ كان النبي صلى الله عليه وسلم " إذا فرغ من دفن الميت وقف عليه فقال:‏‏‏‏ استغفروا لاخيكم وسلوا له بالتثبيت فإنه الآن يسال " .
عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب میت کے دفن سے فارغ ہوتے تو وہاں کچھ دیر رکتے اور فرماتے: ”اپنے بھائی کی مغفرت کی دعا مانگو، اور اس کے لیے ثابت قدم رہنے کی دعا کرو، کیونکہ ابھی اس سے سوال کیا جائے گا“۔ ابوداؤد کہتے ہیں: بحیر سے بحیر بن ریسان مراد ہیں۔۔قال الشيخ الألباني: صحيح (تحفة الأشراف: ۸۹۴۰)
دفن کے بعد کچھ دیر رک کر میت کے لئے دعاء کرنا تو ثابت ہوگیا ۔اب باقی رہ یہ سوال کہ کتنی دیر رکا جائے تو اس سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا ۔ جو ان کے بتائے وقت جتنا نہیں رک سکتا نہ رکے ۔اور اتنا رکنا چاہے تو اس کس نص نے روکا ہے ۔
اور جس جملہ کی وجہ سے اتنی تکلیف ہورہی ہے اس کو ان تہی دستوں نے سمجھا ہی نہیں ۔
((حتى أستأنس بكم، وأنظر ماذا أراجع به رسل ربي ))یعنی میری قبر پر اتنی دیر کھڑے رہنا تاکہ تمہاری دعا ء واستغفار سے مجھے قبر میں وحشت نہ ہو اور میں فرشتوں کو صحیح جواب دے سکوں ۔۔
یہ مطلب نہیں کہ میں تمہیں دیکھ کر مانوس ہوں گا ۔
بلکہ اس کا صحیح مفہوم ومراد وہی ہے جو اوپر مرفوع حدیث میں گزری ۔استغفروا لاخيكم وسلوا له بالتثبيت فإنه الآن يسال "
کہ میت کے لئے قبر کے قریب کھڑے رہ کر دعاء واستغفار اس کےلئے قبر میں ثابت قدمی کاسبب بن سکتا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عثمانی سان پر لگی سمجھ ہی الٹی ہو تو بجائے مفہوم یا مراد حسب حال کرنے ۔ یابمطابق سیاق وسباق کرنے کے ۔۔الٹا صحابی پر ہی اعتراض شروع کردیا ۔
یا پھر صحیح مسلم کے رواۃ پر ہاتھ چلانا شروع کردیے ۔انا للہ وانا الیہ راجعون ۔
ـــــــــــــــــــــــــــــ
اور یہ بھی خوب کہی کہ
اور ساتھ کسی طرح یہ ثابت ہو جائے کہ ان کے محبوب راوی ابن عاصم کی روایت اپنی جگہ بلکل صحیح ہے -
آپ نے تو طنز شریف فرمایا ۔۔۔لیکن حقیقت یہی ہے کہ ہمیں ابوعاصم وامثالہم اپنے پیاروں سے بڑھ کر پیارے ہیں ۔
رحمہم اللہ رحمۃ واسعۃ۔انہی کی محنت وخلوص کے سبب تو ہمیں علم حدیث ملا ۔
اگر وہ آپ کو پسند نہیں تو کوئی آپ پر جبر نہیں کرتا ۔
آپ لکھنوء شریف والوں سے محبت کریں ۔اور دل کھول کے کریں ۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
آخر میں آپ نے حسب سابق ایک دفعہ پھربلا حوالہ ایک قول سیدنا علی کے ذمہ لگادیا ۔اگر یہ صحیح سند سے موجود ہے تو پیش فرمائیں۔
بیک ڈور والوں سے بھی استعانت کی جاسکتی ہے
اسی طرح ابن جوزی ؒ کا فارمولا بھی محتاج مصدر ہے ۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,588
پوائنٹ
791
اچھا ہوا کہ آپ نے خود ہی امام احمد بن حنبل رحم الله کا نام لے دیا - لگتا ہے کہ آپ امام احمد بن حنبل رحم الله کے مقلد ہیں - یہ تحریر میں یہاں ایک تھریڈ میں پیش کر چکا ہوں لیکن انتظامیہ نے وجہ بتائے بغیر وہ تھریڈ ڈیلیٹ کر دیا -

یہ تحریر ایک بندے سے مجھے موصول ہوئی ہے - سوچا تھا کہ یہاں لگا دوں تا کہ اگر اس میں کوئی ڈنڈی ماری گئی ہے تو میں اس کی اصلاح کر دوں - اب اس کو ایک دفعہ پھر یہاں لگا رہا ہوں تا کہ @اسحاق سلفی بھائی ہمارے علاوہ کسی اور پر بھی فتویٰ لگانے کے لیے اپنی بند زبان کو کھول دیں - دیکھتے ہیں کہ وہ اب کیا فتویٰ لگاتے ہیں -

امید ہے کہ انتظامیہ اب اس کو ڈیلیٹ نہیں کرے گی -



عقیدہ عود روح شیعت کے آئینے میں / عقیدہ عود روح کس لئے گھڑا گیا؟

عمر رضی الله تعالی عنہ کی شہادت کے بعد ایک شخص بنام عبد اللہ بن سبا اسلام میں ظاہر ہوا اس نے دین میں شیعہ عقیدے کی بنیاد ڈالی اور نئی تشریحات کو فروغ دیا

الشھرستانی اپنی کتاب الملل و النحل میں لکھتے ہیں کہ:

السبائية أصحاب عبد الله بن سبأ؛ الذي قال لعلي كرم الله وجهه: أنت أنت يعني: أنت الإله؛ فنفاه إلى المدائن. زعموا: أنه كان يهودياً فأسلم؛ وكان في اليهودية يقول في يوشع بن نون وصي موسى عليهما السلام مثل ما قال في علي رضي الله عنه. وهو أول من أظهر القول بالنص بإمامة علي رضي الله عنه. ومنه انشعبت أصناف الغلاة. زعم ان علياً حي لم يمت؛ ففيه الجزء الإلهي؛ ولا يجوز أن يستولي عليه، وهو الذي يجيء في السحاب، والرعد صوته، والبرق تبسمه: وأنه سينزل إلى الأرض بعد ذلك؛ فيملأ الرض عدلاً كما ملئت جوراً. وإنما أظهر ابن سبا هذه المقالة بعد انتقال علي رضي الله عنه، واجتمعت عليع جماعة، وهو أول فرقة قالت بالتوقف، والغيبة، والرجعة؛ وقالت بتناسخ الجزء الإلهي في الأئمة بعد علي رضي الله عنه.


السبائية : عبداللہ بن سبا کے ماننے والے ۔ جس نے علی كرم الله وجهه سے کہا کہ: تو، تو ہے یعنی تو خدا ہے پس علی نے اس کو مدائن کی طرف ملک بدر کر دیا - ان لوگوں کا دعوی ہے کہ وہ (ابن سبا) یہودی تھا پھر اسلام قبول کر لیا ۔ انہوں نے کہا کہ موسیٰ کا جانشین یوشع بن نون تھا اور اسی طرح علی رضی الله عنہ ۔ اور وہ (ابن سبا) ہی ہے جس نے سب سے پہلے علی کی امامت کے لئے بات پھیلائی - اور اس سے غالیوں کے بہت سے فرقے وابستہ ہیں ۔ ان کا خیال تھا کہ علی زندہ ہے وفات نہیں کر گئے - اور علی میں الوہی حصے تھے اور الله نے ان کو لوگوں پر ظاہر کرنے کے لئے اجازت نہیں دی - اور وہ (علی) بادلوں کے ساتھ موجود ہیں اور آسمانی بجلی ان کی آواز ہے اور کوند انکی مسکراہٹ ہے اور وہ اس کے بعد زمین پر اتریں گے اور اس کو عدل سے بھر دیں گے جس طرح یہ زمین ظلم سے بھری ہے - اور علی کی وفات کے بعد ابن سبا نے اس کو پھیلایا - اور اس کے ساتھ (ابن سبا) کے ایک گروپ جمع ہوا اور یہ پہلا فرقہ جس نے توقف (حکومت کے خلاف خروج میں تاخر)، غیبت (امام کا کسی غار میں چھپنا) اور رجعت (شیعوں کا امام کے ظہور کے وقت زندہ ہونا) پر یقین رکھا ہے - اور وہ علی کے بعد انپے اماموں میں الوہی اجزاء کا تناسخ کا عقید ہ رکھتے ہیں


ابن اثیر الکامل فی التاریخ میں لکھتے ہیں کہ:

أن عبد الله بن سبأ كان يهودياً من أهل صنعاء أمه سوداء، وأسلم أيام عثمان، ثم تنقل في الحجاز ثم بالبصرة ثم بالكوفة ثم بالشام يريد إضلال الناس فلم يقدر منهم على ذلك، فأخرجه أهل الشام، فأتى مصر فأقام فيهم وقال لهم: العجب ممن يصدق أن عيسى يرجع، ويكذب أن محمداً يرجع، فوضع لهم الرجعة، فقبلت منه، ثم قال لهم بعد ذلك: إنه كان لكل نبي وصي، وعلي وصي محمد، فمن أظلم ممن لم يجز وصية رسول الله، صلى الله عليه وسلم، ووثب على وصيه، وإن عثمان أخذها بغير حق، فانهضوا في هذا الأمر وابدأوا بالطعن على أمرائكم…


عبد اللہ بن سبا صنعاء، یمن کا یہودی تھا اس کی ماں کالی تھی اور اس نے عثمان (رضی الله عنہ) کے دور میں اسلام قبول کیا. اس کے بعد یہ حجاز منتقل ہوا پھربصرہ پھر کوفہ پھر شام، یہ لوگوں کو گمراہ کرنا چاہتا تھا لیکن اس میں کامیاب نہ ہو سکا - اس کو اہل شام نے ملک بدر کیا اور یہ مصر پہنچا اور وہاں رہا اور ان سے کہا: عجیب بات ہے کہ تم لوگ کہتے ہو کہ عیسیٰ واپس آئے گا اور انکار کرتے ھو کہ نبی محمد صلی الله علیہ وسلم واپس نہ آیئں گے - اس نے ان کے لئے رجعت کا عقیدہ بنایا اور انہوں نے اس کو قبول کیا - پھر اس نے کہا: ہر نبی کےلئے ایک وصی تھا اور علی محمد کے وصی ہیں لہذا سب سے ظالم وہ ہیں جنہوں نے آپ کی وصیت پر عمل نہ کیا - اس نے یہ بھی کہا کہ عثمان نے بلا حق، خلافت پر قبضہ کیا ہوا ہے لہذا اٹھو اور اپنے حکمرانوں پر طعن کرو


رجعت کا عقیدہ شیعہ مذہب کی جڑ ہے اور اس کے بنا ساری خدائی بےکار ہے - ابن سبا کو اسلام میں موت و حیات کے عقیدے کا پتا تھا جس کے مطابق زندگی دو دفعہ ہے اور موت بھی دو دفعہ. اس کی بنیاد قرآن کی آیات ہیں

سورہ غافر میں ہے کہ:

قَالُوا رَبَّنَا أَمَتَّنَا اثْنَتَيْنِ وَأَحْيَيْتَنَا اثْنَتَيْنِ فَاعْتَرَفْنَا بِذُنُوبِنَا فَهَلْ إِلَىٰ خُرُوجٍ مِّن سَبِي


وہ (کافر) کہیں گےاے رب تو نے دو زندگیاں دیں اور دو موتیں دیں ہم اپنے گناہوں کا اعتراف کرتے ہیں پس یہاں (جہنم ) سے نکلنے کا کوئی رستہ ہے


ابن سبا نے اس عقیدے پر حملہ کیا اور ان آیات کو رجعت کی طرف موڑ دیا کہ مستقبل میں جب خلفاء کے خلاف خروج ہو گا تو ہم مر بھی گئے تو دوبارہ زندہ ہوں گے اور ہمارے دشمن دوبارہ زندہ ہو کر ہمارے ہاتھوں ذلیل ہونگے - اس آیت کا شیعہ تفاسیر میں یہی مفہوم لکھا ہے اور اہل سنت جو مفہوم بیان کرتے ہیں وہ شیعہ کے نزدیک اہل سنت کی عربی کی غلط سمجھ بوجھ ہے -

رجعت کے عقیدہ کو اہل سنت میں استوار کرنے کے لئے دو زندگیوں اور دو موتوں والی آیات کو ذھن سے نکالنا ضروری تھا - اس کے لئے عود روح کی روایت بنائی گئیں کہ ایک دفعہ مردے میں موت کا مفہوم ختم ہو جائے تو پھر میدان صاف ہے - آہستہ آہستہ اہل سنت مردے کے سننے اور مستقبل میں کسی مبارزت طلبی پر قبر سے باہر نکلنے کا عقیدہ اختیار کر ہی لیں گے -

لہذا عود روح کی روایات شیعہ راویوں نے اصحاب رسول کی طرف منسوب کیں اور بالآخر یہ راوی کم از کم اس بات میں کامیاب ہوئے کہ دو موتوں اور دو زندگیوں کا اصول ذہن سے محو ہو گیا -

جب بھی دو موتوں اور دو زندگیوں والی آیات پر بات کی جاتی ہے تو خود سنی ہونے کے دعویدار کہتے ہیں کیا کیجئے گا قرآن میں تو خود تین زندگیوں والی آیات موجود ہیں کہ الله نے قوم موسی کو زندہ کیا عیسی نے زندہ کیا وغیرہ ، گویا با الفاظ دیگر روایات نے ان آیات کو منسوخ کر دیا نعوذ باللہ -

کبھی کہتے ہیں کہ موت نیند ہے انسان زندگی میں سینکڑوں دفعہ سوتا ہے اور لاتعداد موتوں سے ہمکنار ہوتا ہے یعنی وہی سبائی سوچ کے تسلط میں قرآن میں تضاد کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے - افسوس تمہاری سوچ پر اور افسوس تمہاری عقل پر!!!

الغرض سبائی سوچ کامیاب ہوئی اور امام احمد رحم الله اپنی مسند میں موجود ایمان لائے اور فتوی دینے لگے کہ ایمانیات میں سے ہے کہ

والإيمان بمنكر ونكير وعذاب القبر والإيمان بملك الموت يقبض الأرواح ثم ترد في الأجساد في القبور فيسألون عن الإيمان والتوحيد


ایمان لاؤ منکر نکیر اور عذاب قبر پر اور موت کے فرشتے پر کہ وہ روحوں کو قبض کرتا ہے پھر جسموں میں لوٹاتا ہے قبروں میں پس سوال کیا جاتا ہے ایمان اور توحید پر




وہ یہ بھی کہنے لگے کہ:

كان يقول إن الأنبياء أحياء في قبورهم يصلون وأن الميت يعلم بزائره يوم الجمعة بعد طلوع الفجر وقبل طلوع الشمس


بے شک انبیاء قبروں میں زندہ ہیں نماز پڑھتے ہیں اور میت زائر کو پہچانتی ہے جمعہ کے دن، فجر کے بعد سورج طلوع ہونے سے پہلے




وہ خواب میں نبی صلی الله علیہ وسلم سے سن کر روایت بیان کرنے لگے

رأيت أبي رحمه الله يصحح الأحاديث التي تروى عن النبي صلى الله عليه وسلم في الرؤية ويذهب إليها وجمعها أبي رحمه الله في كتاب وحدثنا بها

عود روح کے امام احمد رحم الله کے عقیدے کو ابن تیمیہ رحم الله بھی مان گئے اور فتوی میں کہا کہ امام احمد رحم الله کے یہ الفاظ امت کے نزدیک تلقاها بالقبول کے درجے میں ہیں یعنی قبولیت کے درجے پر ہیں -

ابن تیمیہ رحم الله نے لکھا کہ نبی صلی الله علیہ وسلم قبر میں زندہ ہیں اور حسین راضی الله و یزید کے معرکے میں خالی مسجد النبی میں قبر سے اذان دیتے رہے -

وہ اپنی کتاب اقتضاء الصراط المستقيم مخالفة أصحاب الجحيم میں لکھتے ہیں کہ:

وكان سعيد ين المسيب في أيام الحرة يسمع الأذان من قبر رسول الله صلى الله عليه و سلم في أوقات الصلوات وكان المسجد قد خلا فلم يبقى غيره

اور سعيد ين المسيب ایام الحرہ میں اوقات نماز قبرِ رسول الله صلى الله عليه وسلم سے اذان کی آواز سن کر معلوم کرتے تھے اور مسجد (النبی) میں کوئی نہ تھا اور وہ با لکل خالی تھی


بس کسر ہی رہ گئی ، نبی صلی الله علیہ وسلم قبر سے نہ نکلے - شاید رجعت کا وقت نہیں آیا تھا -

اب تو عقیدے کا بگاڑ سر چڑھ کر بولا - ارواح کا قبروں میں اترنا اور چڑھنا شروع ہوا - روحوں نے اپنی تدفین کا مشاہدہ کیا - زندوں کے اعمال مرودں کو دکھائے جانے لگے نبی کی قبر پر بنے گنبد پر لَب سی لئے گئے اور کسی نے اس پر کلام کیا تو ان کی آواز کو فتووں کی گھن گرج سے پست کر دیا گیا -



قبرنبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے اذان کی آواز سننے والی ایک روایت کی تحقیق@
کفایت اللہ
بھائی
کر چکے ہیں وہ بھی دیکھ لیں -


لنک


http://forum.mohaddis.com/threads/قبرنبوی-صلی-اللہ-علیہ-وسلم-سے-اذان-کی-آواز-سننے-والی-روایت.2477/



۔
یہ تحریر سوائے گستاخیوں کے اور کیا ہے ۔کچھ عبارتوں کی کتر بیونت کرکے محدثین وعلماء کو برا بھلا کہنے کی راہ ہموار کی گئی ہے ۔
جھوٹ اور سچ کو خلط ملط کرکے بھڑاس نکالنے کی مذموم کوشش ہے ۔
انتظامیہ کو چاہیئے کہ اس کو بلاتاخیر ڈیلیٹ کردے ۔۔یہ استفسار کےلئے نہیں بلکہ تشکیک کےلئے ہے ۔
اور ذیل کی اس لائن میں تو حد ہی کردی :
بس کسر ہی رہ گئی ، نبی صلی الله علیہ وسلم قبر سے نہ نکلے - شاید رجعت کا وقت نہیں آیا تھا -
أعاذنا الله من شرهم وتلبيسهم
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
یہ تحریر سوائے گستاخیوں کے اور کیا ہے ۔کچھ عبارتوں کی کتر بیونت کرکے محدثین وعلماء کو برا بھلا کہنے کی راہ ہموار کی گئی ہے ۔
جھوٹ اور سچ کو خلط ملط کرکے بھڑاس نکالنے کی مذموم کوشش ہے ۔
انتظامیہ کو چاہیئے کہ اس کو بلاتاخیر ڈیلیٹ کردے ۔۔یہ استفسار کےلئے نہیں بلکہ تشکیک کےلئے ہے ۔
اور ذیل کی اس لائن میں تو حد ہی کردی :

أعاذنا الله من شرهم وتلبيسهم

کیا ان گستاخیوں کا کوئی جواب بھی ہے یا بس یہ وہ گستاخیاں ہیں جن کا جواب @اسحاق سلفی بھائی کے پاس نہیں -
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
اور سیدنا عمرو بن العاص کی وصیت کے متعلق کوئی بھی کچھ بولنے سے پہلے ایک بنیادی اور ضروری پہلو بہرحال پیش نظر رکھے :
کیا محمد بن صالح بن محمد العثيمين نے فتویٰ دیتے وقت اس بات کا خیال رکھا ہے -


محمد بن صالح بن محمد العثيمين

اپنے فتوی میں کہتے ہیں کہ:



هذا أوصى به عمرو بن العاص رضي الله عنه فقال: "أقيموا حول قبري قدر ما تنحر جزور ويقسم لحمها"، لكن النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لم يرشد إليه الأمة، ولم يفعله الصحابة رضي الله عنهم فيما نعلم


ترجمہ: یہ عمرو بن العاص رضی الله عنہ نے وصیت کی پس کہا میری قبر کے اطراف اتنی دیر کھڑے رہنا جتنی دیر میں اونٹ ذبح کیا جائے اور اس کا گوشت تقسیم کیا جائے - لیکن نبی صلی الله علیہ وسلم نے نہ ہی اسکی نصیحت امت کو کی ، نہ صحابہ رضی الله عنہم نے ایسا کیا جیسا ہمیں پتا ہے -

(مجموع فتاوى ورسائل العثيمين: کتاب الجنائز: باب: بعد دفن الميت هناك حديث ، جلد ١٧ ، صفحہ ٢١٨ ، دار الوطن - دار الثریا)


اب دیکھتے ہیں کہ @اسحاق سلفی بھائی کے فتویٰ کی زد میں کون آتا ہے - یا صرف فتویٰ ہمارے لیے ہی ہے -
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
اور سیدنا عمرو بن العاص کی وصیت کے متعلق کوئی بھی کچھ بولنے سے پہلے ایک بنیادی اور ضروری پہلو بہرحال پیش نظر رکھے :
اور وہ ایسی بنیادی لیکن اہم بات ہے جو ہر عام خاص صحیح العقیدہ مسلمان جانتا ہے ۔ دیکھئے قرآن کریم میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے
((وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ))کہ یاد رکھو تمہیں موت صرف حالت اسلام میں آنی چاہئیے ۔
اور حدیث نبوی ہے کہ
فقال النبي صلى الله عليه وسلم: «إن العبد ليعمل، فيما يرى الناس، عمل أهل الجنة وإنه لمن أهل النار، ويعمل فيما يرى الناس، عمل أهل النار وهو من أهل الجنة، وإنما الأعمال بخواتيمها» نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بندہ لوگوں کی نظر میں اہل جنت کے کام کرتا رہتا ہے حالانکہ وہ جہنم میں سے ہوتا ہے۔ ایک دوسرا بندہ لوگوں کی نظر میں اہل جہنم کے کام کرتا رہتا ہے حالانکہ وہ جنتی ہوتا ہے اور اعمال کا اعتبار تو خاتمہ پر موقوف ہے۔»صحیح بخاری​
آپ نے دیکھا قرآن وحدیث دونوں میں اس اہم حقیقت کو بیان کیا گیا ہے کہ اگر کسی کا خاتمہ ایمان و اسلام کے علاوہ کسی حالت میں ہوا ، تو وہ کامیاب نہیں ہوگا ، اگر چہ پہلے ز ندگی میں اس نے کتنے ہی اچھے عمل کیوں نہ کئے ہوں ۔
اورصحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بارے قرآن کا یہ اعلان تو سب ہی کو معلوم ہے کہ ::

وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنْصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُمْ بِإِحْسَانٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ الخ
لہذا یہ ضروری ہے کہ ان کا خاتمہ عین قرآن وسنت کی مطابقت پر ہو ،نہ کہ معاذاللہ ۔بدعت وشرک ۔کی حالت پر۔۔۔۔۔
تو اگر سیدنا عمرو بن عاص کا خاتمہ ایسی بات پر ہو جو بدعت یا شرک کی قبیل سے ہو تو ۔رضی اللہ عنہم ۔اور ـاعد لہم جنات۔کا وعدہ غلط ثابت ہوجائے گا ۔اور ایسا ہونا ناممکن ہے ۔
لہذا یہ تو طے ہے کہ ان کی وصیت از قسم شرک وبدعت یا کوئی گناہ تو ہو نہیں سکتی ۔
اب سوال ہوگا کہ پھر یہ کیا ہے ؟
تو غور سے سنئے ،،،یہ سنت سے مستفاد ان کا اجتہاد ہے ۔سنت یہ ہے :
عن عثمان بن عفان قال:‏‏‏‏ كان النبي صلى الله عليه وسلم " إذا فرغ من دفن الميت وقف عليه فقال:‏‏‏‏ استغفروا لاخيكم وسلوا له بالتثبيت فإنه الآن يسال " .
عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب میت کے دفن سے فارغ ہوتے تو وہاں کچھ دیر رکتے اور فرماتے: ”اپنے بھائی کی مغفرت کی دعا مانگو، اور اس کے لیے ثابت قدم رہنے کی دعا کرو، کیونکہ ابھی اس سے سوال کیا جائے گا“۔ ابوداؤد کہتے ہیں: بحیر سے بحیر بن ریسان مراد ہیں۔۔قال الشيخ الألباني: صحيح (تحفة الأشراف: ۸۹۴۰)
دفن کے بعد کچھ دیر رک کر میت کے لئے دعاء کرنا تو ثابت ہوگیا ۔اب باقی رہ یہ سوال کہ کتنی دیر رکا جائے تو اس سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا ۔ جو ان کے بتائے وقت جتنا نہیں رک سکتا نہ رکے ۔اور اتنا رکنا چاہے تو اس کس نص نے روکا ہے ۔
اور جس جملہ کی وجہ سے اتنی تکلیف ہورہی ہے اس کو ان تہی دستوں نے سمجھا ہی نہیں ۔
((حتى أستأنس بكم، وأنظر ماذا أراجع به رسل ربي ))یعنی میری قبر پر اتنی دیر کھڑے رہنا تاکہ تمہاری دعا ء واستغفار سے مجھے قبر میں وحشت نہ ہو اور میں فرشتوں کو صحیح جواب دے سکوں ۔۔
یہ مطلب نہیں کہ میں تمہیں دیکھ کر مانوس ہوں گا ۔
بلکہ اس کا صحیح مفہوم ومراد وہی ہے جو اوپر مرفوع حدیث میں گزری ۔استغفروا لاخيكم وسلوا له بالتثبيت فإنه الآن يسال "
کہ میت کے لئے قبر کے قریب کھڑے رہ کر دعاء واستغفار اس کےلئے قبر میں ثابت قدمی کاسبب بن سکتا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عثمانی سان پر لگی سمجھ ہی الٹی ہو تو بجائے مفہوم یا مراد حسب حال کرنے ۔ یابمطابق سیاق وسباق کرنے کے ۔۔الٹا صحابی پر ہی اعتراض شروع کردیا ۔
یا پھر صحیح مسلم کے رواۃ پر ہاتھ چلانا شروع کردیے ۔انا للہ وانا الیہ راجعون ۔
ـــــــــــــــــــــــــــــ
اور یہ بھی خوب کہی کہ

آپ نے تو طنز شریف فرمایا ۔۔۔لیکن حقیقت یہی ہے کہ ہمیں ابوعاصم وامثالہم اپنے پیاروں سے بڑھ کر پیارے ہیں ۔
رحمہم اللہ رحمۃ واسعۃ۔انہی کی محنت وخلوص کے سبب تو ہمیں علم حدیث ملا ۔
اگر وہ آپ کو پسند نہیں تو کوئی آپ پر جبر نہیں کرتا ۔
آپ لکھنوء شریف والوں سے محبت کریں ۔اور دل کھول کے کریں ۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
آخر میں آپ نے حسب سابق ایک دفعہ پھربلا حوالہ ایک قول سیدنا علی کے ذمہ لگادیا ۔اگر یہ صحیح سند سے موجود ہے تو پیش فرمائیں۔
بیک ڈور والوں سے بھی استعانت کی جاسکتی ہے
اسی طرح ابن جوزی ؒ کا فارمولا بھی محتاج مصدر ہے ۔
السلام و علیکم

فقال النبي صلى الله عليه وسلم: «إن العبد ليعمل، فيما يرى الناس، عمل أهل الجنة وإنه لمن أهل النار، ويعمل فيما يرى الناس، عمل أهل النار وهو من أهل الجنة، وإنما الأعمال بخواتيمها» نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بندہ لوگوں کی نظر میں اہل جنت کے کام کرتا رہتا ہے حالانکہ وہ جہنم میں سے ہوتا ہے۔ ایک دوسرا بندہ لوگوں کی نظر میں اہل جہنم کے کام کرتا رہتا ہے حالانکہ وہ جنتی ہوتا ہے اور اعمال کا اعتبار تو خاتمہ پر موقوف ہے۔»صحیح بخاری

یہ حدیث ہم اور آپ جسے لوگوں کے لئے ہےایک نصیحت ہے -صحابہ کرام رضوان الله اجمعین کے لئے نہیں ہے -

صحابہ کرام تو پہلے ہی جنتی ہیں قرآن میں ہے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں دو طبقے یا گروہ تھے: ایک مہاجرین اور دوسرا انصار، اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے قرآن پاک میں جگہ جگہ ان کے فضائل اور مناقب، ان کی بخشش اور مغفرت کا ذکر کیا ہے بلکہ ان کے نقش قدم پر چلنے والوں کو بھی اپنی رضا مندی اور جنت کی بشارت دی ہے، چنانچہ ارشاد فرمایا: ”وَالسَّابِقُونَ الأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالأَنصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُم بِإِحْسَانٍ رَّضِيَ اللّهُ عَنْهُمْ وَرَضُواْ عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي تَحْتَهَا الأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَداً ذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ [التوبة : 100]“
مہاجرین اور انصار میں سے سبقت کرنے والے سب سے پہلے لوگ اور وہ لوگ جو نیکی کے ساتھ ان کے پیچھے آئے، اللہ ان سے راضی ہوگیا اور وہ اس سے راضی ہوگئے اور اس نے ان کےلیے باغات تیار کیے ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں، ان میں ہمیشہ رہنے والے ہیں، یہی بڑی کامیابی ہے۔

جہاں تک اس حدیث کا تعلق ہے

عثمان بن عفان قال:‏‏‏‏ كان النبي صلى الله عليه وسلم ” إذا فرغ من دفن الميت وقف عليه فقال:‏‏‏‏ استغفروا لاخيكم وسلوا له بالتثبيت فإنه الآن يسال ” .

عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب میت کے دفن سے فارغ ہوتے تو وہاں کچھ دیر رکتے اور فرماتے: ”اپنے بھائی کی مغفرت کی دعا مانگو، اور اس کے لیے ثابت قدم رہنے کی دعا کرو، کیونکہ ابھی اس سے سوال کیا جائے گا“۔ ابوداؤد کہتے ہیں: بحیر سے بحیر بن ریسان مراد ہیں۔۔قال الشيخ الألباني: صحيح (تحفة الأشراف: ۸۹۴۰

روایت صحیح نہیں منکر ہے سنن ابو داود میں اسکی سند ہے[/HL]

حدَّثنا إبراهيمُ بن موسى الرازيُّ، حدَّثنا هشامٌ -يعني: ابن يوسف-، عن عبدِ الله بن بَحِير، عن هانىء مولى عثمانَ
عن عثمان بن عفان

اور ضعیف حدیث عقائد میں دلیل نہیں بن سکتی -

جہاں تک آپ کا یہ کہنا کہ ابو عاصم سقہ اور اپنے پیاروں سے بڑھ کر پیارے ہیں - تو کیا وہ صحابہ کرام رضوان الله اجمعین سے بھی بڑھ کر سقہ ہیں ؟؟؟ صحابہ کرام سقہ ہونے کے باوجود مقتلولین بدر کے سماع موتہ میں مغالطہ کھا گئے - اور اماں عائشہ رضی الله عنہ کی تفسیر سے ان کی تسلی و تشفی ہوئی -

جب کہ ان کے متعلق
ابو زید انصاری کہتے ہیں ابو عاصم اپنی روایتوں میں ضعيف العقل ہیں
یحییٰ بن سعید القطان بھی ان سے نا خوش تھے- (یاد رہے کہ یہ میرا ذ
اتی قول نہیں )

حقیقت یہ ہے کہ آپ صرف اپنے عقیدے کو ثابت کرنے کے لئے ابو عاصم کی بیان کردہ روایت پر یہ که رہے ہیں -

حافظ ابو الفرج عبد الرحمن بن الجوزی کی احادیث سے متعلق اصول ان کی کتابوں میں مل جائے گا “ ”تلبیس ابلیس“ رؤوس القواریر“ اور ”التبصرة“ تفصیل کا موقع نہیں ہے
حضرت علی رضی الله عنہ کا قول صرف ایک نصیحت کے طور پر پیش کیا گیا - حوالہ ابھی موجود نہیں کہیں پڑھا تھا - جا ملے حاضر کردوں گا - اگر اس قول سے اختلاف ہے تو یہ الگ بات ہے -

مولانا عبد الرحمان کیلانی اور محمد بن صالح بن محمد العثيمين کے عمرو بن العاص رضی الله عنہ کی وصیت سے متعلق روایت سے متعلق نظریات پر ابھی تک آپ کے جوابات کا انتظار ہے -[/HL]
 
Last edited:

محمد بن محمد

مشہور رکن
شمولیت
مئی 20، 2011
پیغامات
110
ری ایکشن اسکور
224
پوائنٹ
114
کیا علمیت ہے جناب محمد علی جواد صاحب کی کہ کتنی دفعہ "ثقہ" راوی کو "سقہ" راوی لکھا ہے۔ ایک نہیں دو نہیں تین سے زیادہ مرتبہ ہے۔ جس آدمی کو ثقہ اور سقہ کا علم نہیں وہ چلا ہے تبصرے کرنے امام اہل السنۃ احمد بن حنبل رحمہ اللہ پر کہ خلق قرآن کے مسئلہ میں ساری امت جن کی زیر بار احسان ہے اور امت اہل السنۃ کے ہاں مستند محدث اور فقیہ ہیں۔
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
کیا علمیت ہے جناب محمد علی جواد صاحب کی کہ کتنی دفعہ "ثقہ" راوی کو "سقہ" راوی لکھا ہے۔ ایک نہیں دو نہیں تین سے زیادہ مرتبہ ہے۔ جس آدمی کو ثقہ اور سقہ کا علم نہیں وہ چلا ہے تبصرے کرنے امام اہل السنۃ احمد بن حنبل رحمہ اللہ پر کہ خلق قرآن کے مسئلہ میں ساری امت جن کی زیر بار احسان ہے اور امت اہل السنۃ کے ہاں مستند محدث اور فقیہ ہیں۔
السلام و علیکم -
محترم -

تصیح کا شکریہ - غلطی سے سقہ لکھا گے ہے - لفظ ثقہ ہی ہے جو ثقاہت سے نکلا ہے -

جہاں تک امام احمد بن حنبل رح کا تعلق ہے تو ممکن ہے میرے دل میں آپ لوگوں سے زیادہ ان کا احترام ہو - لیکن محترم وہ عالم و امتی تھے - نبیوں کی طرح معصوم نہیں تھے کہ ان سے غلطی ہونا محال ہو - ،میرا حسن زن یہ بھی کہتا ہے کہ ممکن ہے کہ انہوں نے اپنے عقیدے سے رجوع کرلیا ہو -

لیکن انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ میرے یہ متشدد اہل سلف بھائی جنھیں امام حنبل رح کے نظریہ پر تنقید کی وجہ سے تکلیف ہو رہی ہے -جب ان کا حنفیوں سے بحث و مباحثہ ہوتا ہے تو امام ابو حنیفہ رح کو کذاب تک کا لقب دے ڈالتے ہیں - اور امام احمد بن حنبل رح کے صرف ایک غلط نظریے پر کوئی انگلی اٹھاے تو کہتے ہیں کہ یہ امام کے گستاخ ہیں- ایسے امام پر انگلی اٹھا رہے ہیں کہ جس کے عقیدے سے رو گردانی کرنا ان پر بہتان ہے -آخر یہ کس منہ سے ابو حنیفہ رح اور ان کی کی تقلید پر تنقید کے صفحے سیاہ کرتے ہیں - ؟؟؟ کیا یہ انصاف کا تقاضہ ہے - کہ اک امام غلطی کرے تو اس کی تنقید پر پورا زور ہو اور دوسرا امام غلطی کرے تو اس کے بارے میں کچھ بیان کرنا گناہ کبیرہ ہو جائے -؟؟ جتنا میں حنفیت کا مخالف ہوں شاید ہی اتنا سلفی بھائیوں میں سے کوئی ہو - لیکن انصاف کا تقاضہ یہی تھا کہ ہر اک کی علمیت کو ایک ہی ترازو میں تولا جاتا

مزید یہ کہ انبیاءکا قبروں میں زندہ ہونا اگر کوئی بریلوی کہے توفورا اس کی تنقیص کی جاتی ہے -اور اگر یہی نظریہ اک معزز امام کا ہو جو یہ کہے کہ واقعہ کربلا کے دنوں میں نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم کی قبرمبارک سے اذان کی آواز آتی تھی تو اس نظریہ پر کوئی تنقید کرنا جائز نہیں ؟؟

الله سے یہی دعا ہے ہم سب کو کہ اپنی سیدھی راہ پر قائم کرے (آمین )
 
Last edited:

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
السلام و علیکم -

اہل سلف بھائی نوٹ کرلیں مزید اب اس "ٹاپک" پر گفتگو کرنا میرے لئے ممکن نہیں- قیامت کے دن ہاتھ پاؤں زبان سب کو حساب دینا ہے - ممکن ہے کل کو کوئی ایسی بات منہ سے نکل جائے جو عذاب کا موجب بن جائے - اس لیے الله سے درخواست ہے کہ اگر غلطی پر ہوں تو ہدایت دے اور اگر صحیح عقیدے پر ہوں تو اس پر ہی قائم رکھے اور اسی پر موت دے (آمین )
 

محمد بن محمد

مشہور رکن
شمولیت
مئی 20، 2011
پیغامات
110
ری ایکشن اسکور
224
پوائنٹ
114
لگتا ہے آپ کو ایک عربی پڑھ کر بتانے والے کے ساتھ ساتھ ایک پروف ریڈر کی بھی ضرورت ہے۔ اس ایک غلطی کے اعتراف میں جو لکھا اس میں تو مزید غلطیوں کی بھرمار ہے بہر حال اگر ثقہ کو سقہ لکھنا کسی کتاب کی نقل نہیں بلکہ واقعی ٹائپناگ کی غلطی تھی اگرچہ ٹائپنگ کی غلطی مسلسل نہیں ہوتی۔ بات یہ ہے محترم کہ غلطی کا ہونا نہ امام ابوحنیفہ سے بعید ہے اور نہ امام احمد بن حنبل سے کیونکہ دونوں ہی معصوم نہیں ہیں لیکن نظریہ جزا وسزا فی العالم البرزخ صرف امام احمد بن حنبل کا ہے؟ کل قیامت سے پہلے عالم برزخ بھی ہے جو موضوع بحث ہے اور آخرت کی جوابدہی کا خوف بہت اچھی بات ہے اور خوف کا تقاضا یہ بھی ہے کہ عالم برزخ کی جزا و سزا کا بھی خوف رکھا جائے اور اس سے بھی اللہ کی پناہ مانگی جائے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے:
۔۔۔۔ اللھم انی اعوذبک من عذاب القبر۔۔۔۔۔۔ الدیث۔
 
Last edited:

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436

ایک اہلحدیث عالم نے بھی کیا خوب بات کی ہے - سمجھنے لئے کافی ہے لیکن جو نہ سمجھنا چاہے ہم کچھ نہیں کر سکتے -


khawaja muhamad qasim.jpg




 
Top