- شمولیت
- اگست 25، 2014
- پیغامات
- 6,372
- ری ایکشن اسکور
- 2,589
- پوائنٹ
- 791
آپ نے کہامحترم علوی صاحب -
جہاں تک عقیدہ عذاب قبر کا تعلق تو اس میں ہمارے اہل سلف بھائییوں کو یہ مغالطہ ہے کہ اس معاملے پر اہل سنّت والجماعت کے اجماع ہے - پہلی بات تو یہ کہ بہت سے دور حاضر کے علماء اجماع کے قانون کے ہی قائل نہیں - یعنی اجماع کے قانون پر ہی اجماع نہیں - دوسری بات یہ کہ فرقہ معتزلہ ، جہمیہ وغیرہ نے جن عقائد سے روگردانی کی وہ قرآن و احادیث نبوی کی واضح نصوص سے ثابت ہو رہے تھے - جہاں تک آپ نے عثمانیوں کی بات کی ہے تو میں یہ پھر کہوں گا کہ کسی باطل فرقے کا عقیدہ قرانی نصوص سے میل کھا جائے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ کسی کو اسی فرقے سے منسوب کر دیا جائے -ہمارے اکثر اہل حدیث بھائی جذباتی ہو کر کسی پر بھی منکر حدیث کا فتویٰ جڑ دیتے ہیں - لیکن وہ یہ بات بھول جاتے ہیں کہ روایات کے مفہوم کو جانچنے اور پرکھنے کے معاملے میں قرون اولیٰ میں محدثین مجتہدین میں بھی اختلاف راے ہوا - امام ابن جوزی رح تو یہاں تک پہنچ گئے کہ ان کے نزدیک نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم سے منسوب جو روایت درایت کے اصول پر پورا نہیں اترتی اس کی اگر روایت بھی صحیح تو وہ قابل قبول نہیں- امام ذہبی رح فرماتے ہے کہ اگر روی ثقہ ہو تو یہ اس بات کی ضمانت نہیں کہ وہ ہر مرتبہ ہی صحیح بات کرے گا -نسیان و بھول چوک اس سے بھی ممکن ہے اکثرعلماء امام ابو حنیفہ کو ثقہ نہیں سمجھتے - احدیث نبوی کے مفہوم میں اختلاف کی مثالیں خود نبی کریم کے اپنے دور میں بھی ملتیں ہیں - پھر یہ کہ عقائد کے کئی ایک معاملات میں جب صحابہ کرام کو مغالطہ ہوتا تو وہ ام المومنین حضرت عائشہ کے پاس جاتے - آپ رضی الله عنہ اپنے فہم سے ان کی تسلی و تشفی فرماتین- لیکن کبھی کسی پر انہوں نے منکر حدیث کا الزام عائد نہیں کیا -
اصل چیز دیکھنے کی یہ ہے کہ منکر حدیث اصل میں وہ فرقہ یا لوگ ہیں جو احادیث نبوی کی کلی افادیت کے قائل نظر نہیں آتے - جو اپنے موقف کی تائید سے مستشرقین کے نظریات کو جلا بخشتے ہیں -جسے دور حاضر میں جاوید غامدی وغیرہ جیسے لوگ - جو مغرب کے افکار کو زبردستی دین اسلام میں ایک خاص مقام دینا چاہتے ہیں - اب چاہے وہ موسیقی کے دلدادہ ہوں یا جمہوریت (جو کہ یہود و نصاریٰ کا بنایا گیا ایک نظام حکمرانی ہے) اس کو حق ثابت کرنے کی کوشش کریں یا عورتوں و مردوں کے اخلاط کو دین اسلام کی آڑ میں جائز قرار دیں -یا مردوں سے تین شادیوں کا قرانی حق چھیننے کی کوشش کریں - یہی اصل منکر حدیث ہیں- کیوں کہ یہ وہ نظریات ہیں جن کا قرون اولیٰ میں کسی ایک روایت سے بھی ثبوت نہیں ملتا -
لہذا اگر عقائد میں اجتہادی سطح پر آپ کسی کو اہل حدیث منہج سے فارغ کرنے کے اصول روا رکھیں گے-تو خود دور حاضر کے کئی اہل حدیث علماء اس کی بھینٹ چڑھ جائیں گے-
الله ہم سب کو اپنی سیدھی راہ کی طرف گامزن کرے (آمین)
والسلام -
برادر ! یہ سلفیوں کا مغالطہ نہیں ،بلکہ واقعی ثابت شدہ حقیقت ہے ؛ اور اجماع سے بھی بڑی دلیل سے ثابت ہےجہاں تک عقیدہ عذاب قبر کا تعلق تو اس میں ہمارے اہل سلف بھائییوں کو یہ مغالطہ ہے کہ اس معاملے پر اہل سنّت والجماعت کے اجماع ہے -
عن ابن عباس رضي الله عنهما عن النبي صلى الله عليه وسلم انه " مر بقبرين يعذبان ، فقال: إنهما ليعذبان وما يعذبان في كبير اما احدهما فكان لا يستتر من البول واما الآخر فكان يمشي بالنميمة ثم اخذ جريدة رطبة فشقها بنصفين ثم غرز في كل قبر واحدة فقالوا يا رسول الله: لم صنعت هذا؟ فقال: لعله ان يخفف عنهما ما لم ييبسا ".
سیدنا عبد اللہ بن ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ایسی دو قبروں پر ہوا جن میں عذاب ہو رہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان کو عذاب کسی بہت بڑی بات پر نہیں ہو رہا ہے صرف یہ کہ ان میں ایک شخص پیشاب سے نہیں بچتا تھا اور دوسرا شخص چغل خوری کیا کرتا تھا۔
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھجور کی ایک ہری ڈالی (شاخ ) لی اور اس کے دو ٹکڑے کر کے دونوں قبر پر ایک ایک ٹکڑا گاڑ دیا۔ لوگوں نے پوچھا کہ یا رسول اللہ! آپ نے ایسا کیوں کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ شاید اس وقت تک کے لیے ان پر عذاب کچھ ہلکا ہو جائے جب تک یہ خشک نہ ہوں۔
صحیح بخاری كتاب الجنائز حدیث :1361
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دیکھئے حدیث شریف کے الفاظ ہیں ’‘ النبي صلى الله عليه وسلم انه "
مر بقبرين يعذبان ’‘نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ایسی دو قبروں پر ہوا جن میں عذاب ہو رہا تھا۔
اب توجہ سے سنیں ، مر بقبرين يعذبان ’’ دو قبروں پر سے گزرے جن کو عذاب ہو رہا تھا’’
حالانکہ سب جانتے ہیں ،عذاب قبر کو نہیں ،بلکہ قبر کے اندر دفن بندے کو ہوتا ہے ،
لیکن چونکہ عذاب میں مبتلا آدمی قبر میں ہی تھے اوریہ قبریں عذاب کا محل تھیں اس لئے ۔ایسا فرمایا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوسرا دعوی آپ نے یہ کیا کہ
براہ کرم اس کا ماخذ و مصدر بتائیں ۔۔۔۔۔ابن جوزی رح تو یہاں تک پہنچ گئے کہ ان کے نزدیک نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم سے منسوب جو روایت درایت کے اصول پر پورا نہیں اترتی اس کی اگر روایت بھی صحیح تو وہ قابل قبول نہیں-
اور ضروری بات یہ کہ "درایت " کا مفہوم ومراد ۔۔سلف کے کسی محدث کے حوالے سے بتائیں ۔