ہابیل
سینئر رکن
- شمولیت
- ستمبر 17، 2011
- پیغامات
- 967
- ری ایکشن اسکور
- 2,912
- پوائنٹ
- 225
نہ ان کا جواب دینا آپ نے پسند فرمایا
نہ ہی انکا جواب دینا آپ نے پسند فرما یا؟
قرآن کی بہت سی آیات بلکل ناقابل عمل ہیں جب تک ان کی وہ تشریح تسلیم نہ کی جا ئے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے مثال کے طور پر اللہ تعالی فرماتا ہے"حج کے چند مہینے معلوم ہیں"(البقراـ197)یہ مہینے کون سے ہیں؟قرآن اس سلسلے میں خاموش ہےان مہینوں کے ناموں کاتزکرہ تو احادیث ہی میں ملتا ہے غرض یہ کہ بغیر حدیث کہ یہ آیات ناقابل عمل ہےـ اللہ فرماتا ہے
"اللہ کے نزدیک آسمان و زمیں کی پدائش کے دن سے مہینوں کی تعداد بارہ ہےان میں سے چار مہینےحرمت والے ہیں یہ ہے دین قیم"آیات مذکورہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ دین بارہ مہینوں اور چار محترم مہینوں پر مشتمل ہےلیکن قرآن ان چار محترم مہینوں کے بارے خاموش ہے بتائے کن مہینوں کو حرمت والہ سمجھا جائے؟اگر یہ کہا جائے کہ رواج کے مطابق مان لیا جائے تو یہ بھی ٹھیک نہیں کیونکہ کفار تو ان مہینوں کو بدل دیا کرتے تھے جیسا قرآن نے بتایا ہےـ
"یعنی مہینوں کا آگےپیچھے کر لینا کفر میں زیادتی ہے"(التوبہ37)
اب اگر ان مہینوں کورواج کے مطابق مان لیا جائےتو پھرمہینوں کا تقرر کفار کے ہاتھ میں ہو گاـ نہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں نہ مرکز ملت کے ہاتھ میں
جس مہینے کو کافر حرمت والہ کہ دیں بس ہم بھی اس کی حرمت کریں کیونکہ اللہ فرماتا ہے:ـ" اگر کفار کسی مہینے کی حرمت کریں تو تم بھی حرمت کروـ ادب کی چیزیں ایک دوسرے کا بدلا ہیں"ـ(ابقرۃ194)گویا قرآن مجید کی آیات کفار کی محتاج ہوئی جو عمل کفار کا وہی کفار کا منشاـ
اللہ فرماتا ہے:ـ "معلوم شدہ دنوںمیں اللہ کے نام کا ذکر کرو"(الحج28)
قرآن پھر خاموش ہے کہ ان ایام کی تشریح کرے اب بتائیں مسلم صاحب اس آیات پر کس طرح عمل ہو؟حروف مقطعات کیوں واقع ہوئے ہیں ؟ ان کی تشریح سے قرآن خاموش ہے
اور جو لوگ ان کی تشریح قرآن مجید سے کرتے ہیں وہ سوائے تک بندی کے اور کچھ نہیں:ـاللہ تعالٰی فرماتا ہے
"اور ہم میں سے ہر ایک کا مقام مقرر ہے اور ہم صف باندھنے والے ہیں"معلوم نہیں اس کا متکلم کون ہے پوری سورۃ پڑھ جا ئیے اس جملے کامتکلم نہیں ملے گا:ـ اللہ فرماتا ہے "اللہ کے لئے حج اور عمرہ پورا کروـ(البقرۃ96)معلوم نہیں حج کیا چیز ہے اور عمرہ کیا چیز ہے اور ان دونوں میں فرق کیا ہے:ـ اللہ فرماتا ہے:
ہم نہیں نازل ہوتے مگر آپ کے رب کے حکم سے "(مریم-64) بظاہر اس آیات میں متکلم اللہ تعالٰی ہے کیونکہ اس سے اوپر کی آیات میں مسلسل جمع متکلم کا صیغہ ہے جو اللہ تعالٰی نے اپنے لئے استمال کیا ہے لہٰذا مطلب یہ ہوا اللہ تعالٰی نازل نہیں ہوتا مگر رسولﷺ کہ لئے رب کے حکم سے؛گویا اللہ کابھی کوئی حاکم ہے جس کے حکم سے وہ نازل ہوتا ہے (نعوز با اللہ)غر ض اس قسم کی بیسیوں گتھیاں ہیں؛ان کو کن سلجائے؛اگر یہ کام مرکز ملت کہ سپرد کر دیا جائےتو مختلف ادوار میں بلکہ ایک ہی زمانے کہ مختلف مراکز حج کے مہینے مختلف ہون گےایام معلومات مختلف ہوں گےحروف مقتعات کی مختلف تشریحات ہو ں گی ایک ہی آیات کے مختلف متکلم مان لئے جائیں گے؛مسلم خواہ کچھ بھی کہیں غیر مسلم تو ان مختلف تشریحات کو دیکھ کر ہنسنے اور کیا کرے گا ان گتھیوں کا بس ایک ہے حل ہے اور وہ خود رسول اللہ ﷺ ہی اس کو حل کریں لہذا حدیث حجت ہوئی اور آیات زیر عنوان کی روح سے وحی
جاری ہے
نہ ہی انکا جواب دینا آپ نے پسند فرما یا؟
نہ ہی اسکاقرآن مجید کی متعدد آیات پر عمل کرناممکن نہیں مثال کے طور پر
1 ) اور جہاں کہیں سے آپ نکلیں اپنے منہ کو مسجد حرام کی طرف پھیر لیا کریں اور جہا ں کہیں بھی تم ہواپنا منہ مسجد حرام کی طرف کر لیا کرو ـ(البقرۃ ـ150)
اس آیات سے معلوم ہوا کہ ہر وقت ہر حال میں منہ کعبہ کی طرف رہناچا ئے؛ کیا یہ ممکن ہے؟آخر یہ حکم کس وقت کے لئے ہے؟کون بتائے کس طرح اس پر عمل ہو گا؟
2) اللہ سبحان و تعالٰی فر ماتا ہے:ـ جب تم خریدو فرخت کیا کرو؛ تو گواہ کر لیا کرو(البقرۃ282)
بتا ئے یہ کس طرح ممکن ہے کہ ہر چھو ٹی بڑی چیز خریدتے وقت ہر دوکان دار اور خریدار گواہ کر لیا کر یں کیااس حکم پر حدیث کے بغیر عمل ممکن ہے ؟
3) اللہ فرماتا ہے:ـ اے بنی آدم ہر نماز کے وقت اپنی زینت کی چیزیں پہن لیا کرو(الاعراف31)
اس آیات پر کس طرح عمل کیا جائے؟ زینت تو لبا س بھی ہے؛زیورات بھی ہیں؛کیا اس آیات کی رو سے عورتوں کو زیورات پہن کر نماز پرنی چاہے؟
غرض اس قسم کی بہت سی آیات ہیں جو نا قابل عمل ہیں جب تک ان کی معنی اور ان کا موقع و محل متعین نہ ہو ان پر عمل نہں ہو سکتا اور یہ چیزیں کون متعین کرے گا سوائے رسولﷺ ؛لہذاحدیث حجت ہوئی اور آیت زیر عنوان کی روح سے وحی ہوئی "تلک عشرۃ کاملۃ" یہ کچھ دلائل ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کے حدیث حجت ہے لہذا آیت زیر عنوان کی روح سے وحی ہوئی ورنہ غیر وہی کا اتبا ع لازم آئے گا اور یہ آیات کے خلاف ہے ـ۔۔۔۔۔-ـ جا ری ہے
جنا ب ہمیں ان سب کے جواب چاہییںحدیث کے وحی خفی ہونے کا ثبوت قرآن مجید سے
(1) اللہ تبارک و تعالٰی فرماتا ہے:- جو درخت تم نے کا ٹے یا چھوڑدئے یہ سب اللہ کے حکم سے تھا( الحشر5)
اس آیات سے معلوم ہوتا ہےکہ درخت اللہ کے حکم سے کاٹے گیے تھے لیکن وہ حکم قرآن میں کہیں نہیں لہٰذا ثابت ہواکہ قرآن کے علاوہ بھی کوئی وحی تھی جس کے ذریے حکم بیجھا گیا تھا:
2) اللہ سبحان و تعالٰی فرماتا ہے:ـ اور اس قبلہ کو جس پر آپ اس وقت ہیں(یعنی بیت المقدس) کو ہم نے اس لئے مقرر کیا تھا کہ ہم جان لیں کون رسول کی اتباع کرتا ہے(البقرۃ-143)
بیت المقدس کو قبلہ مقرر کرنے کا حکم قرآن میں کہیں نہیں ہے لہٰذا وہ حکم بذریہ وحی خفی تھا؛واضح ہوکہ اس آیات میں قبلہ سے مراد بیت المقدس ہے کیونکہ اس سے آگے ارشاد ہے"ہم عنقریب اس قبلے کی طرف آپ کو موڑ دیں گیں جس قبلے کی آپ کو خواہش ہے"یعنی کعبہ کی طرف منہ کرنےکا حکم ابھی نازل نہیں ہوا تھا:
(3) اللہ تبارک و تعالٰی ارشاد فرماتا ہے:ـ اور جب نبی نے ایک بات پوشیدہ طور پر اپنی ایک بیوی سے کہی تو اس بیوی نے اس بات کو ظاہر کر دیا؛اللہ نے نبی کو اس افشا ء رازسے مطلع کر دیا تو نبی نے بعض بات جتا دی اور بعض بات سے چشم پوشی کی پس جب نبی نے اس بیوی سے اس بات کا ذکر کیا تو بی بی نے پوچھا آپ کو کس نے خبر دی نبی نے کہا مجھے علیم و خبیر نے خبر دی(التحریم-3)
قرآن مجید میں کہیں نہیں کہ اللہ نے اپنے نبی کو مطلع کیا کہ فلاں بیوی نے تمہارا راز ظاہر کر دیا پھر علیم و خبیر اللہ نے کس طر ح خبر دی؟ ظاہر ہے وحی خفی یعنی حدیث کے ذریہ سے
4)اللہ سبحان و تعالٰی فرماتا ہے:ـ جس وقت اے نبی تم مومنین سے کہہ رہے تھےکہ کیا تمہارے لئے یہ کافی نہیں کہ تمہارا رب تین ہزار فرشتو ں سے تمہاری مدد کرے بلکہ اگر تم صبر کرو گے اور پر ہیز گاری اختیار کرو گے اور کافر پورے جو ش و خروش سے تم پر حملہ اور ہوں گے تو تمہارا رب پانچ ہزار فرشتوں تمہاری مدد فرما ئے گا
(ال عمران:ـ124-125)
یہ خبر جو رسول ﷺ نے جنگ سے پہلے صحابہ کو دی تھی اور جس کا ذکر اللہ نے جنگ کہ بعد ان آیات میں کیا ہے؛ قرآن مجید میں کہاں ہے ؟ آخر آپ کو کیسے معلوم ہوا کہ اللہ تعالٰی تین ہزار بلکے پانچ ہزار فرشتوں مدد فرمائے گا-
اللہ تبارک و تعالٰی فرماتا ہے:ـ کیا آپ نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جن کو سرگوشی سے منع کر دیا گیا تھا لیکن وہ اب بھی وہی کام کر رہے ہیں جس کی ممانعت کی گئی تھی اور وہ برابر گناہ ظلم و زیادتی اور رسول کی نا فرمانی کی سر گو شی کر تے رہتے ہیں(المجادلہ:8)
ظاہر ہے کہ اس آیات کے نزول سے پہلے سر گوشی سے منع کر دیا گیا ہو گا لیکن ممانعت کا حکم قرآن میں اس آیات کے بعد ہے پس ثابت ہوا کہ پہلے بزریہ وحی خفی منع کیا گیا تھا:
اللہ سبحان و تعالٰی فرماتا ہے:ـ نمازوں کی حفاظت کرو خصو صا درمیانی نماز کی اور اللہ کے سامنےادب سے کھڑے ہوا کرو اگر تم کو خوف ہو تو پھر نماز پیدل یا سوار ی پر پڑھ لو لیکن جب امن ہو جائے تو پھر اسی طریقہ سے اللہ کا ذکر کرو جس طریقہ سے اللہ نے تمہیں سیکھایا ہے اور جس طریقہ کو تم( پہلے) نہیں جانتے تھے(ابقرۃ238-239)
اس آیت سے ظاہر ہوا کہ نماز پڑھنے کا ایک خاص طریقہ مقرر ہے جق بحالت جنگ معاف ہے:بحالت امن اسی طریقہ سے نماز پرھی جائے گی،اس طریقہ کی تعلیم کو اللہ نے اپنی طرف منسوب کیا ہے لیکن قرآن مجید میں یہ طریقہ کہیں مذکور نہیں ظاہر ہے کہ اللہ نے سکھا یا اور حدیث کہ زریعہ سکھایا جو بزریعہ و حی نازل ہوئی:
اللہ سبحان و تعالٰی فرماتا ہے:ـ اے ایما والو ، جب جمعہ کے دن نماز کے لیے تم کو بلایا جا ئے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی سے آجایا کرو اور خریدو فروخت چھوڑ دیا کرو(الجمعہ 9)
آیات سے ظاہر ہوتا ہے نماز جمعہ کے لئے بلا یا جاتا تھا لیکن اس بلانے کا طریقہ کیا تھا؟ یہ بلانا کس کے حکم سے مقرر ہوا تھا قرآن اس سلسہ میں خاموش ہے ـ پھر جمعہ کی نماز کا اہتمام علاوہ اور دنوں کا کو ئی درجہ رکھتا ہو گا جمعہ کی نماز کا کوئی خاص وقت بھی مقرر ہو گا یہ تو ہو نہیں سکتا کہ ہر وقت تیار رہیں،جب بلایا جائے چلے آئیں خواہ دن میں کئی بار بلایا جائے - یہ سب چیزیں اس آیت کے نزول سے پہلے مقرر ہیں ہو چکی تھیں لیکن قرآن اس سلسلہ میں بلکیل خاموش ہے – ظاہر ہے کہ پھر یہ تمام کام بزریعہ وحی خفی یعنی بذریہ حدیث مقرر ہوئے تھے:
اللہ تبارک و تعالٰی فرماتا ہے:ـ
اگر دو لڑکیاں ہوں تو ان کو دہ تہا ئی ترکہ ملے (النساء11)
آیات سے ظاہر نہیں ہوتا کہ کن حالات میں ترکہ اس طرح تقسیم ہو گا لہٰذا لازمی ہے کہ ان حالات کا علم بزریعہ وحی خفی دیا گیا ہو ،اسی طرح اس آیات میں یہ بھی نہیں بتایا گیا کہ تقسیم کے بعد باقی ترکہ کا کیا کیا جائے آخر اس کا بھی کوئی مصرف ہونا چاہیئے ، یہ نہیں ہو سکتا کہ اسے ضا ئع ہونے دیا جائے یا یو ں ہی چھوڑ دیا جائے ، لہٰذا اس کے متعلق بھی کوئی ہدائت ہونی چاہیئے لیکن قرآن میں نہیں ہے ظاہر ہے کہ وہ ہدایت حدیث میں ہو گی ، لہٰذا حدیث وحی ہے:
اللہ سبحان و تعالٰی فرماتا ہے:ـ
اب تم رمضان کی راتوں میں عورتوں سے مل سکتے ہو ( البقرۃ 87ا)
اس آیات سے معلوم ہوا کہ پہلے رمضا ن کی راتوں میں عورتوں سے ملنا منع تھا ، لیکن ممانعت کا حکم قرآن مجید میں کہیں نہیں ،لہٰذا یہ حکم بزریہ وحی خفی نازل ہوا تھا لہٰذا حدیث وحی خفی ہوئی: