احسان احمد
رکن
- شمولیت
- ستمبر 15، 2014
- پیغامات
- 153
- ری ایکشن اسکور
- 43
- پوائنٹ
- 66
نام کے ساتھ علمی نگران لکھ لیا لیکن بات علمی نہیں کی ،
میں نے قراآن کی آیت پیش کی ۔
قرآن میں اللہ صاف فرماتا ہے ۔
اے اوﻻد آدم! اگر تمہارے پاس پیغمبر آئیں جو تم ہی میں سے ہوں جو میرے احکام تم سے بیان کریں تو جو شخص تقویٰ اختیار کرے اور درستی کرے سو ان لوگوں پر نہ کچھ اندیشہ ہے اور نہ وه غمگین ہوں گے
سورة الأعراف آیت 35
اور آپ نے کہ دیا کہ :
اس سے مراد یہ کہاں سے نکلتا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بھی نبی آئیں گے ؟ آیت کے اندر جو کچھ بیان ہے وہ درست ہے کہ آدم سے لے کر محمد صلی اللہ علیہ وسلم تک بےشمار انبیاء تشریف لائے ۔
بھائی صاحب قرآن میں جہاں بھی یا بنی آدم کہہ کر پکارا جاتا ہے تو اس میں تمام انسان شامل ہوتے ہیں ، امت بنی آدم میں داخل ہے کس طرح نکال دو گے ؟ کم از کم امام سیوطی کی اتقان ہی کھول کر دیکھ لو ان کو بھی اقرار ہے کہ قرآن میں جہاں یا بنی آدم کا خطاب وہاں اس زمانہ اور بعد کے ہر زمانہ کے انسان شامل ہیں ،
دوبارہ غور فرمائیں اور پھر دیکھیں :
يَا بَنِي آدَمَ إِمَّا يَأْتِيَنَّكُمْ رُسُلٌ مِنْكُمْ يَقُصُّونَ عَلَيْكُمْ آيَاتِي ۙ فَمَنِ اتَّقَىٰ وَأَصْلَحَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ {35}
آپ زمانہ کی قید لگا کر یا اپنی قیاس آرائیاں لگا کر بنی آدم سے امت کو نہیں نکال سکتے ، اور آپ نے جو فرمایا کہ
آیت کے اندر جو کچھ بیان ہے وہ درست ہے کہ آدم سے لے کر محمد صلی اللہ علیہ وسلم تک بےشمار انبیاء تشریف لائے ،
آپ کی سادگی کہوں یا بھولا پن ؟ آیت میں اس بات کا ذکر تک نہیں کہ بہت آئے یا نہیں آئے ، حیرت کی بات ہے آیت میں صاف لکھا ہے کہ اے بنی آدم اگر آئیں رسول تم میں سے ، اس میں آپ کی بات کہاں ہے ؟
اور آپ نے لکھا میری اس بات کے جواب میں : اللہ کے رسول نے نبی کے آنے کی خبر بھی دی تھی ۔ : کہاں ؟
اور خودی لکھا ہے کہ : حضرت عیسی علیہ السلام محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے نبوت سے سرفراز ہوچکے ہیں یا بعد میں ہوں گے ؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے عمارت نبوت میں حضرت عیسی اپنی جگہ لے چکے ہیں ۔ انہوں نے دوبارہ آنا ہے تو اس کے لیے عمارت نبوت میں کوئی کمی بیشی کی ضرورت نہیں ۔
یہ جس حدیث سے آپ ان کا نزول کہہ رہے وہی میری مراد تھی ، اور نبوت سو سرفراز وہ بنی اسرائیل کے لیے ہوئے ، نہ وہ قرآن پڑھے اور نہ ان کی نبوت تمام انسانوں کے لیے ، قرآن میں کسی جگہ ہے کہ وہ تمام انسانوں کر طرف رسول ہو کر آئے ؟ نہیں بلکہ صرف ان کی قوم بنی اسرائیل کے حوالہ سے ان کا ذکر ہے ،
اور آپ نے لکھا کہ : جو میں جانتا ہوں وہ یہ ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور دیگر انبیاء کے سلسلہ کی مثال ایک عمارت کی ہے ، ساری مکمل ہوچکی تھی ، صرف ایک اینٹ کی جگہ باقی تھی ، حضور اس عمارت کی آخری اینٹ تھے ، جس کے بعد اس عمارت نبوت میں کسی کے لیے کوئی جگہ نہیں ۔
فتح الباری اور عمدۃ القاری اٹھا کر دیکھو حدیث میں عمارت اور اینٹ سے مراد شریعت والی نبوت ہے ، اور میں تو خود متفق ہوں کہ شریعت محمدی کے بعد کوئی نئی شریعت آنا ممکن نہیں ، بات تو محض ایسی نبوت کی کر رہا جو امتی ہو کر خادم ہو اسی شریعت کی ،۔
اور آپ نے فرمایا : ہمارے پاس معاذ اللہ نبوت کا کارخانہ نہیں ہے کہ ہم نبوت تقسیم کرتے پھریں کہ کسی کو آدھی دے دیں کسی کو پوری ۔ موت کے لحاظ سے آخری نبی پیدائش کے لحاظ سے آخری نبی ، یہ محض آپ کی فن کاری ہے ، مسلمانوں کا ایسا کوئی عقیدہ نہیں ، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی آخری نبی ہیں ، جو عیسی علیہ السلام تشریف لائیں گے تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت منسوخ نہیں ہوجائے گی ، آپ کی نبوت باقی رہے گی ، عیسی علیہ السلام اسی کے پیروکار ہوں گے ۔
تو یہ آپ نے ختم نبوت میں تاویل اور تخصیص کر دی ، یہ تو میں متفق ہوں کہ حضرت محمد ﷺ کی نبوت قیامس تک کے لیے قائم ہے اور جوآنا تھا اسی شریعت کا خادم ہو کر نبی آنا تھا ، اور عیسی علیہ السلام کا آپ اقرار کرتے کہ نبوت باقی رہے گی ان کی ذاتی نبوت ؟ بنی اسرائیل والی نبوت یا امت محمدی والی ؟ دونوں صورتوں میں آپ کا اپنا قول جھوٹ ثابت ہو جائے گا اسی لیے بات کا جواب نہیں دے پائے اور غصہ دکھایا بلاوجہ کا آپ نے ۔
اور آپ نے یہ رونا رویا کہ : سبحان اللہ ! کیا دلیل ہے ، کل کو کوئی قادیانی اٹھ کر کہہ دے گا کہ تم نے قادیانی امت کو اس قدر نالائق سمجھا ہے کہ اس میں ان کے بعد کوئی اور نبوت والا کاروبار نہیں چلا سکتا ۔
خیر آپ کی منطق کے مطابق قادیانی سے پہلے ہزار سالوں پر محیط امت مسلمہ سب نکمی اور نالائق تھی ، اس نکمی اور نالائق امت کی کوکھ سے ایک لائق ’’ کام ‘‘( پتہ نہیں کس کے کام کا تھا ؟! ) کا بندہ نکلا ۔
جواب یہ ہے کہ اللہ کے رسول نے ہی خبر ایک کی دی تو ہم کیا کریں تو یہ آپ خود جواب تلاش کرو کہ خلفائے اربعہ کو کیوں نہ نبوت ملی ؟ پھر حضرت عیسی علیہ السلام بقول آپ کے واپس آئیں اگر تو تب یہ سوال آپ کا ان پر نہیں آنا کہ امت کیا نکمی تھی 1400 سال سے کہ حضرت عیسی کو بلانا پڑا ؟ اب جواب دینے کے چکر میں خودی پھنس گئے اتنا برا کہ اب شائد کبھی نہ نکل سکو گے۔
اور آپ کا فرمان کہ :
محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک زمین پر مدینہ منورہ میں ہے ، اور اس جگہ پر ہے جہاں اللہ تعالی نے آپ کے لیے فیصلہ فرمایا کہ نبی وہیں دفن ہوتے ہیں جہاں وہ موت کی آغوش میں جائیں ۔
حضرت عیسی کو نہ موت آئی ، نہ وہ اس دنیا میں موجود ہیں بل رفعہ اللہ الیہ ( اللہ انہیں اپنا پاس لے گئے ہیں ) اگر ان کو موت آتی تو اس دنیا میں اپنی جائے وفات پر دفن ہوتے جیساکہ انبیاء کے بارے میں اللہ تعالی کا فیصلہ ہے ۔
جواب جناب اس کا تب دیتا جب یہ ثابت بات ہوتی کیوں کہ آپ کا قول :حضرت عیسی کو نہ موت آئی: یہ قرآن میں نہیں ہے کسی جگہ ، اور آپ کا کہنا کہ : نبی وہیں دفن ہوتے ہیں جہاں وہ موت کی آغوش میں جائیں : یہ روایت کے راوی کس درجے کے ہیں اور روایت صحیح ثابت نہیں یہ کہ دلیل بن سکے ، اور پھر اس میں تاویل بھی آپ کے علماء کرتے ہیں کہیں گے تو دکھا دیا جائے گا ۔ اور آپ کا رفع سے رفع جسمانی لینا محض جہالت ہے جو لغت سے اور قرآن سے بھی ثابت نہیں ہے اور قرآن نے رفع کا استعمال قرآن میں دوسرے مقامات میں دیگر انسانوں کے لیے بھی کیا ہے اس لیے یہ رفع روحانی اور درجات کا ہوتا ہے ، حضرت عیسی علیہ السلام کے لیے الگ قانون اور لغت خود سے بنانے کی ضرورت نہیں ۔
اور ابن ماجہ میں اور المستدرک میں روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ جو دو سجدوں کے درمیان دعا پڑھا کرتے تھے وہ جو درج ہے دعا اس میں وارفعنی بھی آتا ہے جس کا مطلب کہ مجھے بلندی عطا فرما اور یہ ابن ماجہ میں آپ کے عطاءاللہ ساجد صاحب کا کیا ہوا ترجمہ بتا رہا ہوں روایت نمبر 898 ہے ،۔
میں جواب دلائل سے دے چکا ہوں ، اللہ کے فضل سے آپ کے علماء کی کتب پڑھی بھی ہیں اور جواب بھی دینا جانتا ہوں اور خاموش کرا دینا بھی ۔
والسلام
احسان احمد
میں نے قراآن کی آیت پیش کی ۔
قرآن میں اللہ صاف فرماتا ہے ۔
اے اوﻻد آدم! اگر تمہارے پاس پیغمبر آئیں جو تم ہی میں سے ہوں جو میرے احکام تم سے بیان کریں تو جو شخص تقویٰ اختیار کرے اور درستی کرے سو ان لوگوں پر نہ کچھ اندیشہ ہے اور نہ وه غمگین ہوں گے
سورة الأعراف آیت 35
اور آپ نے کہ دیا کہ :
اس سے مراد یہ کہاں سے نکلتا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بھی نبی آئیں گے ؟ آیت کے اندر جو کچھ بیان ہے وہ درست ہے کہ آدم سے لے کر محمد صلی اللہ علیہ وسلم تک بےشمار انبیاء تشریف لائے ۔
بھائی صاحب قرآن میں جہاں بھی یا بنی آدم کہہ کر پکارا جاتا ہے تو اس میں تمام انسان شامل ہوتے ہیں ، امت بنی آدم میں داخل ہے کس طرح نکال دو گے ؟ کم از کم امام سیوطی کی اتقان ہی کھول کر دیکھ لو ان کو بھی اقرار ہے کہ قرآن میں جہاں یا بنی آدم کا خطاب وہاں اس زمانہ اور بعد کے ہر زمانہ کے انسان شامل ہیں ،
دوبارہ غور فرمائیں اور پھر دیکھیں :
يَا بَنِي آدَمَ إِمَّا يَأْتِيَنَّكُمْ رُسُلٌ مِنْكُمْ يَقُصُّونَ عَلَيْكُمْ آيَاتِي ۙ فَمَنِ اتَّقَىٰ وَأَصْلَحَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ {35}
آپ زمانہ کی قید لگا کر یا اپنی قیاس آرائیاں لگا کر بنی آدم سے امت کو نہیں نکال سکتے ، اور آپ نے جو فرمایا کہ
آیت کے اندر جو کچھ بیان ہے وہ درست ہے کہ آدم سے لے کر محمد صلی اللہ علیہ وسلم تک بےشمار انبیاء تشریف لائے ،
آپ کی سادگی کہوں یا بھولا پن ؟ آیت میں اس بات کا ذکر تک نہیں کہ بہت آئے یا نہیں آئے ، حیرت کی بات ہے آیت میں صاف لکھا ہے کہ اے بنی آدم اگر آئیں رسول تم میں سے ، اس میں آپ کی بات کہاں ہے ؟
اور آپ نے لکھا میری اس بات کے جواب میں : اللہ کے رسول نے نبی کے آنے کی خبر بھی دی تھی ۔ : کہاں ؟
اور خودی لکھا ہے کہ : حضرت عیسی علیہ السلام محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے نبوت سے سرفراز ہوچکے ہیں یا بعد میں ہوں گے ؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے عمارت نبوت میں حضرت عیسی اپنی جگہ لے چکے ہیں ۔ انہوں نے دوبارہ آنا ہے تو اس کے لیے عمارت نبوت میں کوئی کمی بیشی کی ضرورت نہیں ۔
یہ جس حدیث سے آپ ان کا نزول کہہ رہے وہی میری مراد تھی ، اور نبوت سو سرفراز وہ بنی اسرائیل کے لیے ہوئے ، نہ وہ قرآن پڑھے اور نہ ان کی نبوت تمام انسانوں کے لیے ، قرآن میں کسی جگہ ہے کہ وہ تمام انسانوں کر طرف رسول ہو کر آئے ؟ نہیں بلکہ صرف ان کی قوم بنی اسرائیل کے حوالہ سے ان کا ذکر ہے ،
اور آپ نے لکھا کہ : جو میں جانتا ہوں وہ یہ ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور دیگر انبیاء کے سلسلہ کی مثال ایک عمارت کی ہے ، ساری مکمل ہوچکی تھی ، صرف ایک اینٹ کی جگہ باقی تھی ، حضور اس عمارت کی آخری اینٹ تھے ، جس کے بعد اس عمارت نبوت میں کسی کے لیے کوئی جگہ نہیں ۔
فتح الباری اور عمدۃ القاری اٹھا کر دیکھو حدیث میں عمارت اور اینٹ سے مراد شریعت والی نبوت ہے ، اور میں تو خود متفق ہوں کہ شریعت محمدی کے بعد کوئی نئی شریعت آنا ممکن نہیں ، بات تو محض ایسی نبوت کی کر رہا جو امتی ہو کر خادم ہو اسی شریعت کی ،۔
اور آپ نے فرمایا : ہمارے پاس معاذ اللہ نبوت کا کارخانہ نہیں ہے کہ ہم نبوت تقسیم کرتے پھریں کہ کسی کو آدھی دے دیں کسی کو پوری ۔ موت کے لحاظ سے آخری نبی پیدائش کے لحاظ سے آخری نبی ، یہ محض آپ کی فن کاری ہے ، مسلمانوں کا ایسا کوئی عقیدہ نہیں ، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی آخری نبی ہیں ، جو عیسی علیہ السلام تشریف لائیں گے تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت منسوخ نہیں ہوجائے گی ، آپ کی نبوت باقی رہے گی ، عیسی علیہ السلام اسی کے پیروکار ہوں گے ۔
تو یہ آپ نے ختم نبوت میں تاویل اور تخصیص کر دی ، یہ تو میں متفق ہوں کہ حضرت محمد ﷺ کی نبوت قیامس تک کے لیے قائم ہے اور جوآنا تھا اسی شریعت کا خادم ہو کر نبی آنا تھا ، اور عیسی علیہ السلام کا آپ اقرار کرتے کہ نبوت باقی رہے گی ان کی ذاتی نبوت ؟ بنی اسرائیل والی نبوت یا امت محمدی والی ؟ دونوں صورتوں میں آپ کا اپنا قول جھوٹ ثابت ہو جائے گا اسی لیے بات کا جواب نہیں دے پائے اور غصہ دکھایا بلاوجہ کا آپ نے ۔
اور آپ نے یہ رونا رویا کہ : سبحان اللہ ! کیا دلیل ہے ، کل کو کوئی قادیانی اٹھ کر کہہ دے گا کہ تم نے قادیانی امت کو اس قدر نالائق سمجھا ہے کہ اس میں ان کے بعد کوئی اور نبوت والا کاروبار نہیں چلا سکتا ۔
خیر آپ کی منطق کے مطابق قادیانی سے پہلے ہزار سالوں پر محیط امت مسلمہ سب نکمی اور نالائق تھی ، اس نکمی اور نالائق امت کی کوکھ سے ایک لائق ’’ کام ‘‘( پتہ نہیں کس کے کام کا تھا ؟! ) کا بندہ نکلا ۔
جواب یہ ہے کہ اللہ کے رسول نے ہی خبر ایک کی دی تو ہم کیا کریں تو یہ آپ خود جواب تلاش کرو کہ خلفائے اربعہ کو کیوں نہ نبوت ملی ؟ پھر حضرت عیسی علیہ السلام بقول آپ کے واپس آئیں اگر تو تب یہ سوال آپ کا ان پر نہیں آنا کہ امت کیا نکمی تھی 1400 سال سے کہ حضرت عیسی کو بلانا پڑا ؟ اب جواب دینے کے چکر میں خودی پھنس گئے اتنا برا کہ اب شائد کبھی نہ نکل سکو گے۔
اور آپ کا فرمان کہ :
محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک زمین پر مدینہ منورہ میں ہے ، اور اس جگہ پر ہے جہاں اللہ تعالی نے آپ کے لیے فیصلہ فرمایا کہ نبی وہیں دفن ہوتے ہیں جہاں وہ موت کی آغوش میں جائیں ۔
حضرت عیسی کو نہ موت آئی ، نہ وہ اس دنیا میں موجود ہیں بل رفعہ اللہ الیہ ( اللہ انہیں اپنا پاس لے گئے ہیں ) اگر ان کو موت آتی تو اس دنیا میں اپنی جائے وفات پر دفن ہوتے جیساکہ انبیاء کے بارے میں اللہ تعالی کا فیصلہ ہے ۔
جواب جناب اس کا تب دیتا جب یہ ثابت بات ہوتی کیوں کہ آپ کا قول :حضرت عیسی کو نہ موت آئی: یہ قرآن میں نہیں ہے کسی جگہ ، اور آپ کا کہنا کہ : نبی وہیں دفن ہوتے ہیں جہاں وہ موت کی آغوش میں جائیں : یہ روایت کے راوی کس درجے کے ہیں اور روایت صحیح ثابت نہیں یہ کہ دلیل بن سکے ، اور پھر اس میں تاویل بھی آپ کے علماء کرتے ہیں کہیں گے تو دکھا دیا جائے گا ۔ اور آپ کا رفع سے رفع جسمانی لینا محض جہالت ہے جو لغت سے اور قرآن سے بھی ثابت نہیں ہے اور قرآن نے رفع کا استعمال قرآن میں دوسرے مقامات میں دیگر انسانوں کے لیے بھی کیا ہے اس لیے یہ رفع روحانی اور درجات کا ہوتا ہے ، حضرت عیسی علیہ السلام کے لیے الگ قانون اور لغت خود سے بنانے کی ضرورت نہیں ۔
اور ابن ماجہ میں اور المستدرک میں روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ جو دو سجدوں کے درمیان دعا پڑھا کرتے تھے وہ جو درج ہے دعا اس میں وارفعنی بھی آتا ہے جس کا مطلب کہ مجھے بلندی عطا فرما اور یہ ابن ماجہ میں آپ کے عطاءاللہ ساجد صاحب کا کیا ہوا ترجمہ بتا رہا ہوں روایت نمبر 898 ہے ،۔
میں جواب دلائل سے دے چکا ہوں ، اللہ کے فضل سے آپ کے علماء کی کتب پڑھی بھی ہیں اور جواب بھی دینا جانتا ہوں اور خاموش کرا دینا بھی ۔
والسلام
احسان احمد