نماز میں قیام کی حالت میں ہاتھ باندھنا سنتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔
احادیث:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سیدھا ہاتھ الٹے ہاتھ کی ذراع پر رکھتے تھے (صحیح بخاری)۔
علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنی دائیں ہاتھ کی ہتھیلی الٹے ہاتھ کے گٹ پر رکھتے تھے (صحیح بخاری)۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سیدھا ہاتھ الٹے ہاتھ پر رکھتے تھے (صحیح مسلم)ٌ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سیدھے ہاتھ سے الٹے ہاتھ کو پکڑتے تھے (ابوداؤد)۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ کی ہتھیلی کے الٹی طرف جوڑ کے پاس کلائی پر رکھتے تھے (ابوداؤد)۔
نماز مین ہاتھ باندھنے سے متعلق جتنی بھی روایات ہیں ان میں صحابہ کرام نے اپنا مشاہدہ ذکر کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مختلف احادیث میں مختلف کیفیات کا ذکر معلوم ہوتا ہے مگر تھوڑ سی توجہ دی جائے تو سب کا مذکورہ ہاتھ باندھنے کا طریقہ ایک ہی جیسا ہے۔
اگر دائیں ہاتھ سے بائیں ہاتھ کی کلائی کو گٹ کے پاس سے پکڑیں تو اس کی دو صورتیں ہوسکتی ہیں۔ ان دو میں بہت معمولی سا فرق ہے۔ ایک یہ کہ دائیں ہاتھ کی چاروں انگلیاں ایک طرف ہوں اور انگوٹھا دوسری طرف اور الٹے ہاتھ کی کلائی کو گٹ کے پاس سے پکڑلیں۔ دوسرا طریقہ یہ کہ دائیں ہاتھ کی چھنگلیا اور انگوٹھے سے بائیں کلائی کو گٹ کے پاس سے پکڑیں اور بقیہ انگلیں بائیں کلائی پر بچھا دیں۔
ان مذکورہ دونوں طریقوں میں سے جس کے مطابق بھی ہاتھ باندھیں گے تو کسی بھی حدیث کی مخافت نہیں ہوگی۔ لہٰذا وہی عمل مسنون کہلانے کا زیادہ مستحق ہے جو کسی بھی حدیث کا مخالف نہ ہو۔
یہاں تک تو بات ہوئی ہاتھ باندھنے کے طریقہ کار کی۔ اب بات کرتے ہیں ہاتھ باندھنے کے مقام کی۔
اس سلسلہ کی احادیث اور آثار سے پتہ چلتا ہے کہ ہاتھ باندھنے کا محور ناف ہے۔ کوئی ناف سے نیچے کہتا ہے کوئی ناف سے اوپر اور کوئی ناف پر۔ ہاں البتہ خلیفہ راشد علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے کو سنت کہتے ہیں۔ لہٰذا خلیفہ راشد کی بات سب پر مقدم ہے۔
دراصل ناف کے اوپر نیچے کا اختلاف حقیقتاً کوئی اختلاف ہے ہی نہیں۔ ناف ستر ہے اور اس کو ہر وقت ڈھانپ کر رکھنا لازم ہے۔ چونکہ ہاتھ باندھنے کی تمام احادیث مشاہدہ پر مبنی ہیں اور ناف ایک چھوٹی سی تقریباً آدھ انچ قطر کی جگہ ہے لہٰذا اس کے تعین میں غلطی کا امکان موجود ہے۔
احادیث
علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ناف کے نیچے ہتحیلی پر ہتھیلی رکھنا سنت ہے (مسند أحمد)۔
حضرت علیؓ فرماتے الله عز و جل کے فرمان: {فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ} [الكوثر: 2] (کے بارے) میں، فرمایا: (نماز میں) رکھنا دائیں ہتھیلی کو بائیں ہتھیلی پر ناف کے نیچے .[التمهيد لابن عبد البر]
آثار
ابن جریر الضبی اپنے والد سے روایت کرتے ہین کہ میں نے علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دیکھا کہ انہون نے بائیں ہاتھ کو دائیں ہاتھ سے گٹ کے پاس سے ناف کے اوپر پکڑا ہؤا تھا (سنن ابوداؤد)۔
ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ نماز میں ناف کے نیچے ہتھیلی کو ہتھیلی سے پکڑیں (سنن ابو داؤد)۔
محدثین و فقہاء
عقبہ بن صہبان فرماتے ہیں کہ مین نے علی رجی اللہ تعالی کو فرماتے سنا ہے کہ نماز میں ہاتھ ناف کے نیچے بادھیں (التمهيد لما في الموطأ من المعاني والأسانيد)۔
ابو عیسیٰ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہین کہ لوگ ناف کے نیچے یا اوپر ہاتھ باندھتے تھے (سنن الترمذی)۔
امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں کہ نماز میں ہاتھ ناف کے نیچے باندھو یا اوپر یا اس پر (بدائع الفوائد)۔
محمد بن الحسن الشیبانی رحمۃ الل علیہ فرماتے ہیں کہ سیدھے ہاتھ کی ہتھیلی الٹے ہاتھ کے گٹ پر ناف کے نیچے رکھے (مؤطا امام محمد)۔
ابراہیم نخعی رحمۃ اللہ علیہ ناف کے نیچے ہاتھ باندھتے تھے (الآثار لمحمد بن الحسن)۔
سعید بن جبیر فرماتے ہیں کہ نماز مین ہاتھ ناف کے اوپر باندھے جائیں (سنن الکبریٰ للبیہقی)۔
ناف کے نیچے ہاتھ باندھے کی روایت حضرت ابوہریرہ ،حضرت ابومجلز ،ابراہیم نخی ،سفیان ثوری اور اسحاق بن راہویہ سے مروی ہے کیونکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ سنت میں سے ہے کہ دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر ناف کے نیچے رکھنا،روایت کیا اس حدیث کو احمد بن حنبل اور ابو داؤد نے اور سنت سے مراد نبیﷺ کی سنت ہے(المغنی ج 2 ص 141)
یہ سارے حوالے بے سند ہیں لہذا مردود ہیں
حضرت ابراھیم نخی فرماتے ہیں کہ نمازی نماز میں دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر ناف کے نیچے رکھے (مصنف ابن ابی شیبہ ج 2 ص 309 ح 3963)
اس اثر میں ربیع راوی غیر متعین ہے اگر اس سے مراد ربیع بن صبیح ہے تو وہ جمہور محدثین کے نزدیک ضعیف ہے
حجاج بن حسان فرماتے ہیں کہ میں نے ابو مجلز سنا،یا پوچھا کہ نمازمیں ہاتھ کیسے باندھے جائیں؟انھوں نے فرمایا کہ دائیں ہاتھ کی ہتھیلی کے اندر کے حصے کو بائیں ہاتھ کی ہتھیلی کے اوپر کے حصے پر رکھے اور دونوں ہاتھ ناف کے نیچے باندھے(مصنف ابن ابی شیبہ (2966)۔
1: ابو مجلز کا یہ قول نبیﷺکی اس حدیث کے خلاف آیا ہے جس میں آپﷺ سینے پر ہاتھ باندھتے تھے(صحیح ابن خزیمہ 479)۔
2: ابو مجلز کا یہ قول دوسرے تابعی طاؤس کے خلاف آیا ہے جو فرماتے ہیں کہ نبیﷺسینے پر ہاتھ باندھتے تھے(سنن ابوداؤد759)۔
حضرت ابو جحیفہ سے روایت ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا نماز میں ہتھیلی کو ہتھیلی پر ناف کے نیچے رکھنا سنت ہے (سنن ابو داؤد ص 568 ح 756).
یہ روایت ضعیف ہے ۔ اس کا راوی عبدالرحمان بن اسحاق الکوفی الواسطی جمہور محدثین کے نزدیک ضعیف ہے
علامہ نیموی نے کہا:وفیہ عبدالرحمان بن اسحاق الواسطی وھو ضعیف: (آثار السنن حاشیہ :ح 330)
حضرت انس سے روایت ہے کہ جلدی افطار کرنا اور سحری میں تاخیر کرنا اور نماز میں دائیں ہاتھ کو بائیں پر ناف کے نیچے رکھنا نبوت کے اخلاق میں سے ہے(مختصر خلافیات البیھقی ج 2 ص 34)
اس روایت کی سند میں سعید بن زربی سخت ضعیف ہے (تقریب التھذیب :2304)
حضرت ابراہیم نخی سے روایت ہے کہ وہ اپنا دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر ناف کے نیچے رکھتے تھے (کتاب الآثار ص 322،323)
یہ روایت موضوع ہے،محمد بن الحسن الشیبانی کذاب ہے (کتاب الضعفاء للعقیلی ج 4 ص 52)
حضرت عقبہ بن صہبان فرماتے ہیں کہ انہوں نے حضرت علی کو اللہ کے ارشاد فصل لربک وانحر کی تفسیر میں فرماتے ہوئے سنا کہ اس سے مراد یہ ہے کہ دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر ناف کے نیچے رکھے۔(التمھید ج 20 ص 78)
یہ روایت 3 وجہ سے ضعیف ہے
1:عاصم الجحدری اور عقبہ بن صہبان کے درمیان العجاج الجحدری کا واسطہ ہے ۔(التاریخ الکبیر ج6 ص 437)
العجاج مجہول الحال ہے
2:اسی روایت کی دوسری اسانید میں “علی صدرہ” کے الفاظ ہیں ۔(السنن الکبری ج2 ص 30)
3:ابن الترکمانی حنفی نے لکھا ہے”وفی سندہ ومتنہ اضطراب”اس کی سند اور متن میں اضطراب ہے(الجواہر النقی ج2 ص30)