• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نماز میں ہاتھ باندھنے کا طریقہ اور مقام

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ!
أَنَا أَبُو مُحَمَّدٍ، ثنا أَبِي، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي سُرَيْجٍ، قَالَ: سَمِعْتُ الشَّافِعِيَّ، يَقُولُ: " سَمِعْتُ مَالِكًا، وَقِيلَ لَهُ: أَتَعْرِفُ أَبَا حَنِيفَةَ؟ فَقَالَ: نَعَمْ، مَا ظَنُّكُمْ بِرَجُلٍ، لَوْ قَالَ هَذِهِ السَّارِيَةُ مِنْ ذَهَبٍ، لَقَامَ دُونَهَا، حَتَّى يَجْعَلَهَا مِنْ ذَهَبٍ، وَهِيَ مِنْ خَشَبٍ أَوْ حِجَارَةٍ؟ ".
قَالَ أَبُو مُحَمَّدٍ: يَعْنِي أَنَّهُ كَانَ يَثْبُتُ عَلَى الْخَطَأِ وَيَحْتَجُّ دُونَهُ، وَلا يَرْجِعُ إِلَى الصَّوَابِ، إِذَا بَانَ لَهُ

امام شافعی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ امام مالک رحمہ اللہ سے کہاگیا کہ کیا آپ ابوحنیفہ کو جانتے ہیں ؟ تو انہوں نے کہا جی ہاں ! اس آدمی کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے جو اس کھمبے کو سونے کا کھمبا کہہ دے تو اسے سونے ہی کا ثابت کرنے لگ جائے گا یہاں تک کہ اسے سونے ہی کابناڈالے گا جب کہ حقیقت میں وہ لکڑی یا پتھر کا ہوگا۔
ابن ابی حاتم رحمہ اللہ نے کہا: یعنی امام مالک کی مراد یہ ہے کہ ابوحنیفہ ہٹ دھرمی کرتے ہوئے غلطی پر مصر رہتا تھا اور اس کے سامنے صحیح بات واضح ہوجاتی تھی تب بھی اس کی طرف رجوع نہیں کرتا تھا۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 162 آداب الشافعي ومناقبه - ابن أبي حاتم الرازي (المتوفى: 327هـ) - دار الكتب العلمية، بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 212 آداب الشافعي ومناقبه - ابن أبي حاتم الرازي (المتوفى: 327هـ) - مكتبة الخانجي، القاهرة
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ناف کے نیچے ہتحیلی پر ہتھیلی رکھنا سنت ہے (مسند أحمد)۔
آپ کے اپنے عالم کا جواب :
إِن من السّنة وضع الْيُمْنَى على الشمَال تَحت السُّرَّة (قلت) هَذَا قَول عَليّ بن أبي طَالب وَإِسْنَاده إِلَى النَّبِي - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم َ - غير صَحِيح وَإِنَّمَا رَوَاهُ أَحْمد فِي مُسْنده وَالدَّارَقُطْنِيّ ثمَّ الْبَيْهَقِيّ من جِهَته فِي سنَنَيْهِمَا من حَدِيث أبي جُحَيْفَة عَن عَليّ رَضِي الله تَعَالَى عَنهُ أَنه قَالَ إِن من السّنة وضع الْكَفّ على الْكَفّ تَحت السُّرَّة وَقَول عَليّ أَن من السّنة هَذَا اللَّفْظ يدْخل فِي الْمَرْفُوع عِنْدهم.
(عمدة القاري شرح صحيح البخاري (279/5)
المؤلف: أبو محمد محمود بن أحمد بن موسى بن أحمد بن حسين الغيتابى
الحنفى بدر الدين العينى (المتوفى: 855هـ) )
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
حَدِيثُ وَائِلٍ الْمَذْكُورُ هُنَا وَحَدِيثُ أَبِي حَازِمٍ عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ كَانَ النَّاسُ يُؤْمَرُونَ أَنْ يَضَعَ الرَّجُلُ الْيَدَ الْيُمْنَى عَلَى ذِرَاعَيْهِ فِي الصَّلَاةِ قَالَ أَبُو حَازِمٍ وَلَا أَعْلَمُهُ إِلَّا يَنْمِي ذَلِكَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَهَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ مَرْفُوعٌ كَمَا سَبَقَ فِي مُقَدِّمَةِ الْكِتَابِ وَعَنْ هُلْبٍ الطَّائِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَؤُمُّنَا فَيَأْخُذُ شِمَالَهُ بِيَمِينِهِ رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَقَالَ حَدِيثٌ حَسَنٌ وَفِي الْمَسْأَلَةِ أَحَادِيثُ كَثِيرَةٌ وَدَلِيلُ وَضْعِهِمَا فَوْقَ السُّرَّةِ حَدِيثُ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ قَالَ صَلَّيْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَوَضَعَ يَدَهُ الْيُمْنَى عَلَى يَدِهِ الْيُسْرَى على صدره رواه بن خُزَيْمَةَ فِي صَحِيحِهِ وَأَمَّا حَدِيثُ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّهُ قَالَ مِنَ السُّنَّةِ فِي الصَّلَاةِ وَضْعُ الْأَكُفِّ عَلَى الْأَكُفِّ تَحْتَ السُّرَّةِ ضَعِيفٌ مُتَّفَقٌ عَلَى تَضْعِيفِهِ رَوَاهُ الدَّارَقُطْنِيُّ وَالْبَيْهَقِيُّ مِنْ رِوَايَةِ أَبِي شَيْبَةَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ إِسْحَاقَ الْوَاسِطِيِّ وَهُوَ ضَعِيفٌ بِالِاتِّفَاقِ قَالَ الْعُلَمَاءُ وَالْحِكْمَةُ فِي وَضْعِ إِحْدَاهُمَا عَلَى الْأُخْرَى أَنَّهُ أَقْرَبُ إِلَى الْخُشُوعِ وَمَنَعَهُمَا مِنَ الْعَبَثِ وَاللَّهُ أَعْلَمُ
(المنهاج شرح صحيح مسلم بن الحجاج 115/4
المؤلف: أبو زكريا محيي الدين يحيى بن شرف النووي (المتوفى: 676هـ) )
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
740- حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مَالِكٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي حَازِمٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "كَانَ النَّاسُ يُؤْمَرُونَ أَنْ يَضَعَ الرَّجُلُ الْيَدَ الْيُمْنَىعَلَى ذِرَاعِهِ الْيُسْرَى فِي الصَّلَاةِ"، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو حَازِمٍ:‏‏‏‏ لَا، ‏‏‏‏‏‏أَعْلَمُهُ إِلَّا يَنْمِي ذَلِكَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ إِسْمَاعِيلُ:‏‏‏‏ يُنْمَى ذَلِكَ وَلَمْ يَقُلْ يَنْمِي. أخرجه البخاري (740)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتاح الباري ( 123/2) اور علامه عيني حنفي رحمہ اللہ نے عمدة القاري (278/5) ميں اس حديث كو مرفوع ثابت كيا هے ۔
4099- وبه : عن سهلٍ أنه قال : كان الناس يؤمرون أن يضع الرجل يده اليمنى على ذراعه اليسرى في الصلاة ، قال أبو حازمٍ : ولا أعلم إلا أنه ينمي ذلك.

اور اسی سند کے ساتھ( سیدنا سہل بن سعد الساعدی رضی اللہ عنہ سے) روایت ہے کہ لوگوں کو یہ حکم دیا جاتا تھا کہ آدمی اپنا دایاں ہاتھ اپنی بائیں ذراع پر رکھے ۔ ابوحازم رحمہ اللہ نے فرمایا : میں یہی جانتا ہوں کہ وہ اسے مرفوع بیان کرتے تھے ۔
(صحابه كو عبادت كے حوالے سے رسول الله ﷺ كے علاوه كون حكم دے گا ؟)
سندہ صحیح

«409- الموطأ (رواية يحيیٰي بن يحيیٰي 159/1ح 377 ، ك 9 ب 15 ح 47) التمهيد 96/21 ، الاستذكار : 347
و أخرجه البخاري (740) من حديث مالك به»
المعجم الوسيط صفحه 389 پر ذراع كا مطلب لکھا هوا هے (بازو)
قاموس الوحید صفحہ 568 پر ذراع کا ملطب لکھا ہوا ہے ” کہنی کے سرے سے درمیانی انگلی کے سرے تک “
لسان العرب 93/8 ، تاج العروس (5217/1) ، كتاب العين (96/2) ، تهذيب اللغة (189/2) كتاب الكليات (730/1)
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
7277- حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ ، حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ ، حَدَّثَنَا زَائِدَةُ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ بِإِسْنَادِهِ وَمَعْنَاهُ ، قَالَ فِيهِ : ثُمَّ وَضَعَ يَدَهُ الْيُمْنَى عَلَى ظَهْرِ كَفِّهِ الْيُسْرَى وَالرُّسْغِ وَالسَّاعِدِ : وَقَالَ فِيهِ : ثُمَّ جِئْتُ بَعْدَ ذَلِكَ فِي زَمَانٍ فِيهِ بَرْدٌ شَدِيدٌ فَرَأَيْتُ النَّاسَ عَلَيْهِمْ جُلُّ الثِّيَابِ تَحَرَّكُ أَيْدِيهِمْ تَحْتَ الثِّيَاب- (أخرجه أبوداود )

479- نا أَبُو مُوسَى، نا مُؤَمَّلٌ، نا سُفْيَانُ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ قَالَ: «صَلَّيْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَوَضَعَ يَدَهُ الْيُمْنَى عَلَى يَدِهِ الْيُسْرَى عَلَى صَدْرِهِ»
(صحيح ابن خزيمة )

2979 - وَرُوِّينَا عَنْ عَلِيٍّ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّهُ قَالَ فِي هَذِهِ الْآيَةِ: ”فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ“ (الكوثر: 2)، وَضَعَ يَدَهُ الْيُمْنَى عَلَى يَدِهِ الْيُسْرَى عَلَى صَدْرِهِ
(معرفة السنن والآثار أبو بكر البيهقي (المتوفى: 458هـ) 340/2)
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
(الفصل الثاني) : في ذكر ما تمسك به من ذهب إلى وضع اليدين فوق السرة. قال المباركفوري: لم أقف على حديث مرفوع يدل على هذا المطلوب، نعم أثر علي رضي الله عنه يدل على هذا، روى أبو داود في سننه عن جرير الضبي، قال: رأيت عليًا يمسك شماله بيمينه على الرسغ فوق السرة. قال: إسناده صحيح أو حسن، لكنه فعل علي رضي الله عنه ليس بمرفوع، ثم الظاهر أن المراد من قوله: فوق السرة - على مكان مرتفع من السرة، أي على الصدر، أو عند الصدر، كما جاء في حديث وائل بن حجر، وحديث هُلْب الطائي، ومرسل طاوس، وستأتي الأحاديث الثلاثة، ويؤيده تفسيره رضي الله عنه قوله تعالى: ”وَانْحَرْ“ بوضع اليدين على الصدر في الصلاة، كما تقدم.
(الفصل الثالث) : في ذكر متمسكات من ذهب إلى وضع اليدين على الصدر.
احتج هؤلاء بأحاديث:
منها: حديث وائل بن حجر رضي الله عنه، قال: "صليت مع النبي -صلى الله عليه وسلم-، فوضع يده اليمنى على يده اليسرى على صدره". أخرجه ابن خزيمة، وهذا حديث صحيح، صححه ابن خزيمة كما صرح به ابن سيد الناس في شرح الترمذي.
وقد اعترف الشيخ محمد قائم السندي الحنفي في رسالته "فوز الكرام" أن هذا الحديث على شرط ابن خزيمة، حيثما قال فيها: الذيأعتقده أن هذا الحديث على شرط ابن خزيمة، وهو المتبادر من صَنِيع الحافظ في "الإتحاف"، والظاهر من قول ابن سيد الناس بعد ذكر حديث وائل في شرح جامع الترمذي، وصححه ابن خزيمة. انتهى.
(شرح سنن النسائي المسمى «ذخيرة العقبى في شرح المجتبى. (276/11) )
 

عدیل سلفی

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 21، 2014
پیغامات
1,717
ری ایکشن اسکور
430
پوائنٹ
197
نماز میں قیام کی حالت میں ہاتھ باندھنا سنتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔
احادیث:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سیدھا ہاتھ الٹے ہاتھ کی ذراع پر رکھتے تھے (صحیح بخاری)۔
علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنی دائیں ہاتھ کی ہتھیلی الٹے ہاتھ کے گٹ پر رکھتے تھے (صحیح بخاری)۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سیدھا ہاتھ الٹے ہاتھ پر رکھتے تھے (صحیح مسلم)ٌ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سیدھے ہاتھ سے الٹے ہاتھ کو پکڑتے تھے (ابوداؤد)۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ کی ہتھیلی کے الٹی طرف جوڑ کے پاس کلائی پر رکھتے تھے (ابوداؤد)۔
نماز مین ہاتھ باندھنے سے متعلق جتنی بھی روایات ہیں ان میں صحابہ کرام نے اپنا مشاہدہ ذکر کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مختلف احادیث میں مختلف کیفیات کا ذکر معلوم ہوتا ہے مگر تھوڑ سی توجہ دی جائے تو سب کا مذکورہ ہاتھ باندھنے کا طریقہ ایک ہی جیسا ہے۔
اگر دائیں ہاتھ سے بائیں ہاتھ کی کلائی کو گٹ کے پاس سے پکڑیں تو اس کی دو صورتیں ہوسکتی ہیں۔ ان دو میں بہت معمولی سا فرق ہے۔ ایک یہ کہ دائیں ہاتھ کی چاروں انگلیاں ایک طرف ہوں اور انگوٹھا دوسری طرف اور الٹے ہاتھ کی کلائی کو گٹ کے پاس سے پکڑلیں۔ دوسرا طریقہ یہ کہ دائیں ہاتھ کی چھنگلیا اور انگوٹھے سے بائیں کلائی کو گٹ کے پاس سے پکڑیں اور بقیہ انگلیں بائیں کلائی پر بچھا دیں۔
ان مذکورہ دونوں طریقوں میں سے جس کے مطابق بھی ہاتھ باندھیں گے تو کسی بھی حدیث کی مخافت نہیں ہوگی۔ لہٰذا وہی عمل مسنون کہلانے کا زیادہ مستحق ہے جو کسی بھی حدیث کا مخالف نہ ہو۔

یہاں تک تو بات ہوئی ہاتھ باندھنے کے طریقہ کار کی۔ اب بات کرتے ہیں ہاتھ باندھنے کے مقام کی۔
اس سلسلہ کی احادیث اور آثار سے پتہ چلتا ہے کہ ہاتھ باندھنے کا محور ناف ہے۔ کوئی ناف سے نیچے کہتا ہے کوئی ناف سے اوپر اور کوئی ناف پر۔ ہاں البتہ خلیفہ راشد علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے کو سنت کہتے ہیں۔ لہٰذا خلیفہ راشد کی بات سب پر مقدم ہے۔
دراصل ناف کے اوپر نیچے کا اختلاف حقیقتاً کوئی اختلاف ہے ہی نہیں۔ ناف ستر ہے اور اس کو ہر وقت ڈھانپ کر رکھنا لازم ہے۔ چونکہ ہاتھ باندھنے کی تمام احادیث مشاہدہ پر مبنی ہیں اور ناف ایک چھوٹی سی تقریباً آدھ انچ قطر کی جگہ ہے لہٰذا اس کے تعین میں غلطی کا امکان موجود ہے۔

احادیث
علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ناف کے نیچے ہتحیلی پر ہتھیلی رکھنا سنت ہے (مسند أحمد)۔
حضرت علیؓ فرماتے الله عز و جل کے فرمان: {فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ} [الكوثر: 2] (کے بارے) میں، فرمایا: (نماز میں) رکھنا دائیں ہتھیلی کو بائیں ہتھیلی پر ناف کے نیچے .[التمهيد لابن عبد البر]

آثار
ابن جریر الضبی اپنے والد سے روایت کرتے ہین کہ میں نے علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دیکھا کہ انہون نے بائیں ہاتھ کو دائیں ہاتھ سے گٹ کے پاس سے ناف کے اوپر پکڑا ہؤا تھا (سنن ابوداؤد)۔
ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ نماز میں ناف کے نیچے ہتھیلی کو ہتھیلی سے پکڑیں (سنن ابو داؤد)۔

محدثین و فقہاء
عقبہ بن صہبان فرماتے ہیں کہ مین نے علی رجی اللہ تعالی کو فرماتے سنا ہے کہ نماز میں ہاتھ ناف کے نیچے بادھیں (التمهيد لما في الموطأ من المعاني والأسانيد)۔
ابو عیسیٰ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہین کہ لوگ ناف کے نیچے یا اوپر ہاتھ باندھتے تھے (سنن الترمذی)۔
امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں کہ نماز میں ہاتھ ناف کے نیچے باندھو یا اوپر یا اس پر (بدائع الفوائد)۔
محمد بن الحسن الشیبانی رحمۃ الل علیہ فرماتے ہیں کہ سیدھے ہاتھ کی ہتھیلی الٹے ہاتھ کے گٹ پر ناف کے نیچے رکھے (مؤطا امام محمد)۔
ابراہیم نخعی رحمۃ اللہ علیہ ناف کے نیچے ہاتھ باندھتے تھے (الآثار لمحمد بن الحسن)۔
سعید بن جبیر فرماتے ہیں کہ نماز مین ہاتھ ناف کے اوپر باندھے جائیں (سنن الکبریٰ للبیہقی)۔
ناف کے نیچے ہاتھ باندھے کی روایت حضرت ابوہریرہ ،حضرت ابومجلز ،ابراہیم نخی ،سفیان ثوری اور اسحاق بن راہویہ سے مروی ہے کیونکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ سنت میں سے ہے کہ دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر ناف کے نیچے رکھنا،روایت کیا اس حدیث کو احمد بن حنبل اور ابو داؤد نے اور سنت سے مراد نبیﷺ کی سنت ہے(المغنی ج 2 ص 141)

یہ سارے حوالے بے سند ہیں لہذا مردود ہیں

حضرت ابراھیم نخی فرماتے ہیں کہ نمازی نماز میں دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر ناف کے نیچے رکھے (مصنف ابن ابی شیبہ ج 2 ص 309 ح 3963)
اس اثر میں ربیع راوی غیر متعین ہے اگر اس سے مراد ربیع بن صبیح ہے تو وہ جمہور محدثین کے نزدیک ضعیف ہے

حجاج بن حسان فرماتے ہیں کہ میں نے ابو مجلز سنا،یا پوچھا کہ نمازمیں ہاتھ کیسے باندھے جائیں؟انھوں نے فرمایا کہ دائیں ہاتھ کی ہتھیلی کے اندر کے حصے کو بائیں ہاتھ کی ہتھیلی کے اوپر کے حصے پر رکھے اور دونوں ہاتھ ناف کے نیچے باندھے(مصنف ابن ابی شیبہ (2966)۔
1: ابو مجلز کا یہ قول نبیﷺکی اس حدیث کے خلاف آیا ہے جس میں آپﷺ سینے پر ہاتھ باندھتے تھے(صحیح ابن خزیمہ 479)۔
2: ابو مجلز کا یہ قول دوسرے تابعی طاؤس کے خلاف آیا ہے جو فرماتے ہیں کہ نبیﷺسینے پر ہاتھ باندھتے تھے(سنن ابوداؤد759)۔

حضرت ابو جحیفہ سے روایت ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا نماز میں ہتھیلی کو ہتھیلی پر ناف کے نیچے رکھنا سنت ہے (سنن ابو داؤد ص 568 ح 756).
یہ روایت ضعیف ہے ۔ اس کا راوی عبدالرحمان بن اسحاق الکوفی الواسطی جمہور محدثین کے نزدیک ضعیف ہے
علامہ نیموی نے کہا:وفیہ عبدالرحمان بن اسحاق الواسطی وھو ضعیف: (آثار السنن حاشیہ :ح 330)

حضرت انس سے روایت ہے کہ جلدی افطار کرنا اور سحری میں تاخیر کرنا اور نماز میں دائیں ہاتھ کو بائیں پر ناف کے نیچے رکھنا نبوت کے اخلاق میں سے ہے(مختصر خلافیات البیھقی ج 2 ص 34)
اس روایت کی سند میں سعید بن زربی سخت ضعیف ہے (تقریب التھذیب :2304)

حضرت ابراہیم نخی سے روایت ہے کہ وہ اپنا دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر ناف کے نیچے رکھتے تھے (کتاب الآثار ص 322،323)
یہ روایت موضوع ہے،محمد بن الحسن الشیبانی کذاب ہے (کتاب الضعفاء للعقیلی ج 4 ص 52)

حضرت عقبہ بن صہبان فرماتے ہیں کہ انہوں نے حضرت علی کو اللہ کے ارشاد فصل لربک وانحر کی تفسیر میں فرماتے ہوئے سنا کہ اس سے مراد یہ ہے کہ دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر ناف کے نیچے رکھے۔(التمھید ج 20 ص 78)
یہ روایت 3 وجہ سے ضعیف ہے
1:عاصم الجحدری اور عقبہ بن صہبان کے درمیان العجاج الجحدری کا واسطہ ہے ۔(التاریخ الکبیر ج6 ص 437)
العجاج مجہول الحال ہے
2:اسی روایت کی دوسری اسانید میں “علی صدرہ” کے الفاظ ہیں ۔(السنن الکبری ج2 ص 30)
3:ابن الترکمانی حنفی نے لکھا ہے”وفی سندہ ومتنہ اضطراب”اس کی سند اور متن میں اضطراب ہے(الجواہر النقی ج2 ص30)
 
شمولیت
مارچ 16، 2017
پیغامات
290
ری ایکشن اسکور
10
پوائنٹ
39
امام نووی رحمتہ اللہ (المتوفی ۶۷۶) نے کہا:
ضعيف متقق علي تضعيفه
یہ روایت ضعیف ہے اس کے ضعیف ہونے پر اتفاق ہے
شرح النووي علي مسلم (١١٥/٤)
امام نووی رحمتہ اللہ نے تو اتفاق نقل کردیا

امام ترمذی رحمتہ اللہ اور باقی آئمہ کی متن کی توثیق کا حوالہ کیا شیر مادر سمجھ کر پی گئے یا وہ بھی پہلی پوسٹ میں ہے :)
اور یاد رہے متن کی توثیق مکمل حوالے کے ساتھ ہو

امام ترمذی رحمتہ اللہ متساہل ہیں جس کی تضعیف ثابت ہوجائے اس کے بارے میں تحسین و تصیح ناقابل اعتبار ہے
اس موضوع پر بعد میں آئیں گے پہلے اس موضوع کا نپٹا لیں جو چل رہا ہے۔
جس راوی کو ضعیف کہا گیا ہے اس کے ضعف کا سبب کیا ہے؟ اس پر دلیل چاہیئے۔ اس پر دلیل نہیں مانگی جا رہی کہ کس کس نے ضعیف کہا ہے بلکہ مطالبہ یہ ہے کہ اس میں ضعف کا سبب کیا ہے؟
کسی کی بات بلا دلیل کیسے مان لی جائے؟
 

عدیل سلفی

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 21، 2014
پیغامات
1,717
ری ایکشن اسکور
430
پوائنٹ
197
اس موضوع پر بعد میں آئیں گے پہلے اس موضوع کا نپٹا لیں جو چل رہا ہے۔
جس راوی کو ضعیف کہا گیا ہے اس کے ضعف کا سبب کیا ہے؟ اس پر دلیل چاہیئے۔ اس پر دلیل نہیں مانگی جا رہی کہ کس کس نے ضعیف کہا ہے بلکہ مطالبہ یہ ہے کہ اس میں ضعف کا سبب کیا ہے؟
کسی کی بات بلا دلیل کیسے مان لی جائے؟
عبدالرحمن بن اسحق، امام احمد بن حنبل کی نظر میں :

«قال عبد الله: سألت أبي عن عبد الرحمن بن إسحاق الکوفي فقال ھذا يقال له أبوشيبة وھو الواسطي کان يروي عنه ابن إدريس وأبومعاوية وابن فضيل وھو الذي يحدث عن النعمان بن سعد ليس ھو بذاك في الحديث»(العلل:۲۵۶۰)

''امام احمد ؒکے فرزند ِارجمند کہتے ہیں کہ میں نے اپنے والد ماجد سے عبدالرحمن کے بارے میں دریافت کیا، انہوں نے فرمایا: یہ وہی ہے جسے ابوشیبہ واسطی کہا جاتا ہے، اس سے ابن ادریس، ابومعاویہ اور ابن فضیل روایت کرتے ہیں جبکہ یہ نعمان بن سعد سے روایت کرتا ہے... یہ حدیث میں قابل اعتبار نہیں ہے۔''

«قال أبوطالب سألت أحمد بن حنبل عن أبي شيبة الواسطي عبدالرحمن بن إسحٰق قال ليس بشيء منکرالحديث»
(الجرح والتعدیل: ج۵؍ص۳۱۳۳، میزان الاعتدال: ج۴؍ص۲۶۰، تہذیب التہذیب:ج۶؍ص۱۲۵۵)
''ابوطالب کہتے ہیں کہ میں نے احمد بن حنبلؒ سے ابوشیبہ الواسطی کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے فرمایا: یہ ایسا بے قیمت راوی ہے جس کی روایات کو ناپسند کیا گیا ہے۔''

«قال أبوداود سمعت أحمد بن حنبل: يضعف عبد الرحمن ابن إسحق الکوفي»
(ابوداؤد نسخہ ابن العربی: ج۱؍ص۲۸۱)

''امام ابوداود فرماتے ہیں کہ احمد بن حنبلؒ، عبدالرحمن بن اسحق کو ضعیف قرار دیتے ہیں۔''

عبدالرحمن بن اسحق،امام ابوزرعہ اور امام ابوحاتم رازی کی نظر میں:

«عن عبدالرحمن قال سألت أبي عن أبي شيبة عبدالرحمن بن إسحاق فقال ھو ضعيف الحديث منکر الحديث يکتب حديثه ولا يحتج به»
(الجرح والتعدیل: ج۵؍ص۲۱۳۳، تہذیب التہذیب: ج۶؍ ص۱۲۴۴)
''عبدالرحمن کہتے ہیں: میں نے اپنے والد ماجد سے ابوشیبہ عبدالرحمن بن اسحاق کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے فرمایا کہ وہ ضعیف الحدیث اور منکر الحدیث ہے، ا س کی روایات کو لکھا تو جاسکتا ہے مگر دلیل کے طور پر پیش نہیں کیا جاسکتا۔''

قال عبد الرحمن سئل أبوزرعة عن عبد الرحمن بن إسحق الذي يروي عنه أبي زائدة وأبومعاوية، فقال: ليس بقوي
(الجرح والتعدیل: ۵؍۲۱۳۳)
یعنی ابوزرعہ بھی اسے ضعیف قرار دیتے ہیں۔

عبدالرحمن بن اسحق،امام بخاری اور امام نسائی کی نظر میں :

قال البخاري: فيه نظر
(التاریخ الصغیر للبخاری ص۱۵۶)

قال النسائي: ضعيف
(کتاب الضعفاء والمتروکین للنسائی)

امام بخاری نے 'فیہ نظر' کہہ کر عبدالرحمن بن اسحاق کو ضعیف ترین قرار دیا ہے جیسا کہ شیخ عبدالحئ لکھنوی رقم طراز ہیں :

قول البخاري في حق أحد من الرواة 'فيه نظر' يدل علی أنه متهم عندہ
(الرفع والتکمیل فی الجرح والتعدیل: ص۵۹)

''امام بخاری ؒ کا کسی راوی کے بارے میں 'فیہ نظر' کہنا اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ وہ راوی امام بخاری کے نزدیک متہم بالکذب ہے۔ ''

امام ذہبی فرماتے ہیں:
ولا يقول ھذا إلافيمن يتهمه غالباً
(میزان الاعتدال: ج۴؍ص۹۲)

'' امام بخاریؒ عام طور پر متہم بالکذب راوی کے بارے میں یہ الفاظ 'فیہ نظر' کہا کرتے ہیں۔''

امام عراقی فرماتے ہیں:
فلان فيه نظر وفلان سکتوا عنه: ھاتان العبارتان يقولھما البخاري فيمن ترکوا حديثه ''
جس راوی کی روایت کو محدثین نے مسترد کیا ہے ،اس کے بارے میں امام بخاری درج بالا الفاظ (یعني 'فیه نظر' اور'سکتواعنه) استعمال کرتے ہیں۔''

عبدالرحمن بن اسحق،امام یحییٰ بن معین اور امام ابن خزیمہ کی نظر میں:

عن ابن معين ليس بذاك القوي
(تہذیب التہذیب: ج۴ ص۱۲۴)

قال ابن خزيمة لا يحتج بحديثه (ایضاً)

مختصر یہ ہے کہ عبدالرحمن بن اسحق کو تمام ماہرین نے ناقابل اعتبار و استشہاد قرار دیا ہے۔

ان صاف الفاظ میں جرح کے الفاظ واضح ہیں اب بھی ہٹ دھرمی ہے تو اس راوی کی توثیق تو ثابت کرو
 

عدیل سلفی

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 21، 2014
پیغامات
1,717
ری ایکشن اسکور
430
پوائنٹ
197
عبدالرحمن بن اسحاق الکوفی علمائے اسماء الرجال کی نظر میں

الفاظ جرح میں لیس بشیء چوتھے درجہ کی جرح ہے جس کے بارے میں آپ کے مولانا عثمانی نے ہی فرمایا ہے:
قواعد في علوم الحديث
ومن قيل فيه ذلك أي لفظ من الرابعة أو الخامسة فهو ساقط لا يكتب حديثه ولا يُعتبرُ به ولا يُستشهد

جس کے بارے میں چوتھے اور پانچویں درجہ کے الفاظ جرح ہوں وہ ساقط ہے اس کی حدیث نہیں لکھی جائے گی نہ ہی اعتباراً و استشہاداً لی جائے گی
 
Top