• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

وہ مسائل جن کو دیوبندی قابل عمل نہیں سمجھتے !!!!

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
جمشید بھائی ! موضوع پر رہنے کی بڑی نصحیت کر رہے ہیں گزارش ہے کہ آپ بھی ادھر ادھر نہ جائیں آپ کو چاہیے کہ اوپر جو مسائل بیان ہوئے ہیں ان میں حنفی علماء کا موقف واضح کریں اور ثابت کردیں کہ یہ موقف احادیث کے عین مطابق ہے خلاف نہیں ۔
مخالفت حدیث کے الفاظ بالکل واضح ہیں کوئی فلسفہ یا منطق کی اصطلاح نہیں ہے جس کے لیے کوئی لمبی چوڑی تقریر کی ضرورت ہے لہذا ان نظری بحثوں کو چھوڑ کر بات کےعملی پہلو کی طرف آئیں ۔
اورہمارے مہربان اس ضد پر تلے بیٹھے ہیں کہ ایک حدیث لیں گے اوردوسری جانب فقہ حنفی کامسئلہ رکھ دیں گے اورکہیں گے کہ احناف حدیث کے خلاف عمل کرتے ہیں۔اوریہ ضد آج کی نہیں کافی قدیم ہے ابن ابی شیبہ کے زمانے سے چلی آرہی ہے اوران ہفوات وخرافات کے جوابات کے باوجود وہی مرغے کی ایک ٹانگ ۔
کچھ نہیں تو کم ازکم نصب الرایہ ہی ایک مرتبہ پڑھ لیتے کہ ان مسائل میں احناف کے کیادلائل ہیں لیکن ظاہر سی بات ہے کہ جب احناف کے موقف سے آدمی جاہل ہو اوراس پر ضد کی بھی آمیزش تویہ کریلااورنیم چڑھا اپنااثردکھائے بغیر کہاں رہے گا۔
نصب الرایہ کا مطالعہ کریں یا کنز ، قدوری کا ، یہ آپ کی مرضی ہے بس کوشش کر کے اپنے لیے دلائل تلاش کر کے لے آئیں ۔
ابن ابی شیبہ کے جواب میں جو تیر مارا گیا ہے اس سے بھی مدد لے لیں اور الجوہر النقی سے بھی استفادہ کر لیں ۔ آثار السنن اور اعلاء السنن بھی یقینا مطالعہ میں ہوگی ۔
بہر صورت آج تک احادیث کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کی گئی ہے اگر ان کو مد نظر رکھ کر اپنی اصلاح کی کوشش کی جاتی تو یقینا یہ دن نہ دیکھنا پڑتا ۔
آخر میں آپ سے گزارش ہے کہ بار بار موضوعیت کو آڑ بنا کر اصل مسئلے کو نظر انداز نہ کریں ۔
کیونکہ تقلید کی وجہ سے احادیث کو کن کن بہانوں سے رد کیا گیا ہے یہ موضوع علیحدہ اور طویل ہے جس کو کسی اور جگہ کے لیے سنبھال رکھیں ۔
توپہلے نفس مخالفت حدیث کی ذراواضح تعریف کردیجئے تاکہ ہمیں اس کے حدود اربعہ کا علم ہوجائے تاکہ اس میزان پر ہم پرکھ سکیں کہ صرف احناف پر ہی مخالفت حدیث کا الزام باقی رہتاہے یاپھر ہمارے مہربان کے اکابرواعاظم کا پائوں بھی اس دلدل میں پھنستا ہے اوربات آگے بڑھے توکہیں اس کی بھی نوبت نہ آجائے کہ
لوآپ اپنے دام میں صیاد آگیا
ایسے خطرات سے نمٹنا ہمارے لیے کوئی مسئلہ نہیں البتہ مقلد کے لیے اس طرح کے مصائب کو جھیلنا واقعتا بہت مشکل ہے ۔
کیونکہ ایک طرف معیار قرآن وسنت ہے جبکہ دوسری طرف حجت تقلید آئمہ ہے ۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
کیا ٹودی پوائنٹ جواب آیا !!!!!
تلمیذ صاحب! آپ حنفی لوگوں کا کوئی مسئلہ غلط ثابت کر دیا جائے تو آپ رجوع نہیں کرتے بلکہ الٹا اپنے علماء کا ناجائز دفاع کرنے لگ جاتے ہیں۔
حقیقت ہے اور یہ بات ایک قلب سلیم رکھنے والا شخص دیکھ سکتا ہے کہ تمہارے تقلیدی رویوں نے دین اسلام کو کتنا نقصان پہنچایا ہے۔
یہ تو اللہ کا نور ہے جو تمہاری پھونکوں سے نہیں بجھ سکتا ورنہ تم نے اسلام کے مقابلے میں اپنا حنفی مذہب نافذ کرنے کی بھرپور طریقے سے کی ہے۔اور اگر تمہارا حنفی قانون ملک میں نافذ کر دیا جائے تو چور کو چوری اور ڈاکو کو ڈاکہ مارنے میں آسانی ہو جائے گی۔اور اگر تمہارا تقلیدی حنفی فرقہ ملک میں نافذ کر دیا جائے تو شاید ہی کوئی صحیح العقیدہ اہلحدیث ملک بدر ہونے یا قتل ہونے سے بچ جائے۔
وہ لوگ جو حنفی مقلد تھے،پھر اللہ نے ان کو ہدایت سے نوازا اور یہ ہدایت پانے والے لوگ خوش قسمت ہیں۔الحمدللہ
اور آج وہ سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرنے والے ہیں۔اسی لیے اللہ کا خوف کرو اور قرآن و حدیث کی طرف رجوع کرو۔اور ملت اسلامیہ کو گمراہ کرنے کی کوشش نہ کرو۔
حنفیت کیا ہے ملاحظہ فرمائیں:
ہر وہ آيت جو ہمارے اصحاب کے قول کے مخالف ہوگي اسے نسخ پر محمول کيا جائے گا يا مرجوح سمجھا جائے گا اور بہتر ہے کہ (ہمارے اصحاب کے قول اور آيت )دنوں کے درميان تطبيق دينے کے ليے تأويل کر لي جائے ۔ ہر وہ حديث جو ہمارے اصحاب کے قول کے مخالف ہو گي اسکو منسوخ ہونے پر محمول کيا جائے گا يا يہ کہ وہ اپني ہي جيسي حديث کے معارض ومخالف ہے پھر کسي دوسري دليل کي طرف رجوع کيا جائے گا يا ايسے انداز ميں اسے ترجيح دي جائے گي کہ جس سے ہمارے اصحاب کا قول سلامت رہ سکے يا پھر ان (احاديث اور ہمارے اصحاب کے قول ) کے درميان تطبيق دي جائے گي,اور يہ کام حسب ضرورت کيا جائے گا , اگر نسخ کي دليل مل جائے تو منسوخ مانا جائے گا اور اگر کسي اور طريقہ کار کي دليل مل جائے تو وہي اختيار کر ليا جائے گا۔اصول کرخي , از : علامہ نسفي
قرآن وحديث سے فرار کے راستے
 

Hasan

مبتدی
شمولیت
جون 02، 2012
پیغامات
103
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
0
اب اگر صحیح طورپر سمجھناچاہ رہے ہوں تواس میں انشاء اللہ کوئی اشکال نہیں ہوگا۔

کچھ چیزیں لعینہ ہوتی ہین اورکچھ چیزیں لغیرہ

کچھ وجوب ایسے ہوتے ہیں جوبذاتہ واجب ہوتے ہیں اورکچھ وجوب ایسے ہوتے ہیں جس میں خارجی عوامل کا دخل ہوتاہے۔ شریعت میں اس کی مثالیں کم نہیں ہیں اورفقہاء مجتہدین کے ارشادات اس سلسلے میں صریح ہیں۔

اصول فقہ میں ایک چیزجلت منفعت اوردفع مضرت کاہے۔ یعنی جس چیز سے بھی جلب منفعت ہو وہ پسندیدہ اورمستحب اورواجب ہوگی اورجس چیز سے بھی دفع مضرت وابستہ ہو وہ اپنے اعتبار سے مکروہ مکروہ تنزیہی ،تحریمی اورحرام ہوگی۔ اسی طرح فقہ میں ایک اوراصول سدذرائع کاہے۔ یعنی وہ طریقہ کار جو کسی حرام اورناجائز امور کا ذریعہ بنتاہو تواس ذریعہ کوبھی بند کیاجائے گا۔ اگرچہ بذاتہ چیز درست ہو ۔

اب اس پرغورکیجئے کہ عامی شخص ایک ہی مسلک کے مفتی سے فتوی طلب کرے یاہرمسلک کے مفتی سے فتوی طلب کرے اس کے حق میں تودونوں برابر ہیں کیونکہ دلائل کی تحقیق تواس کے ذمہ ہے ہی نہیں ، وہ توصرف اس کا پابند ہے کہ عالم سے مسئلہ پوچھ کر عمل کرے فاسئلوااہل الذکر۔

ہاں فقہاء کرام نے اس کو کیوں ضروری قراردیاہے کہ عامی کسی ایک مسلک کے علماء اورمفتیاں سے مسئلہ طلب کرے تواس کی وجہ زمانہ کے تغیرات اورلوگوں کے مزاج میں فساد کا وقوع اورفسق وفجو کی کثرت ہے۔


حضرت عائشہ صدیقہ نے اپنے زمانہ کی عورتوں کی حالت دیکھ کر کہاتھاکہ اگررسول پاک باحیات ہوتے تو عورتوں کومسجد میں جانے سے منع کردیتے۔ یہ زمانی تغیر کی ایک مثال ہے۔ فقہاء کرام نےاسی زمانی تغیر کو دیکھ کرکہاہے کہ عامی کسی ایک ہی مسلک والے سے فتوی حاصل کرے۔ کیونکہ اگرعامیوں کو آج یہ رخصت دے دی جاتی ہے کہ وہ جس مسلک والے سے چاہیں فتوی پوچھ کر عمل کریں تودیکھیں کیسی ہڑبونگ مچتی ہے!کیونکہ جس کو جس مسئلہ میں جس کے یہاں آسانی ملے گی اس پر عمل کرے گا۔


فقہاء کرام کے ارشادات کتابوں میں منقول ہیں کہ اگرکوئی شخص مباشرت میں اہل مدینہ، صرف کےمعاملہ میں اہل مکہ اورنبیذ کے معاملہ میں اہل کوفہ کے مسلک پر عمل کرے گا تو وہ دین سے ہاتھ دھوبیٹھے گا۔ اوراسی مفہوم کے بہت سے ارشادات ہیں جس کا مطلب صاف واضح ہے کہ اگرکوئی رخصتوں کا متلاشی ہو اورایسے مسائل چن چن کر جمع کرلے اورعمل کرے جہاں اس کوآسانی نظرآرہی ہو تو وہ پھر دین چوں چوں کا مربہ بن جائے گااوراحکام الہی کھیل وتماشابن جائیں گے۔

آج اگرکوئی ابن حزم کا موسقی کے سلسلے میں اورالبانی کا پردے کے سلسلے میں اوراسی طرح کچھ دیگر شاذ رایوں پر عمل کرے تواس کو آپ کیاکہیں گے ؟یقین رکھیں کہ عامیوں کو ہرایک سے فتوی طلب کرنے کی آزادی دینے میں ایسے بلکہ اس سے بھی کچھ زیادہ مفاسد چھپے ہوئے ہیں۔

خدالگتی کہئے گاکہ جولوگ احناف میں سے یاشوافع اورمالکیہ میں سے طلاق ثلاثہ کے بعد ابن تیمیہ کے فتوی پر عمل کرتے ہیں اس میں کتنے لوگ ایسے ہیں جو دلائل کا موازنہ کرتے ہیں اورکتنے لوگ ایسے ہیں جو محض آسانی اورشرمندگی سے بچنے کیلئے ایساکرتے ہیں ۔ میری رائے ہے اورذمہ دارانہ رائے ہے کہ سو میں شاید ایک بھی شخص ایسانہیں ہوگاکہ طلاق ثلاثہ کے وقوع کے بعد اس مسئلہ کی تحقیق کرتاہو اوراس کے بعد دلائل کے رجحان اورمضبوطی کو دیکھ کر تین طلاق کو ایک طلاق مانتاہو بلکہ سومیں سے شاید ١٠٠فیصد افراد ایسے ہوتے ہیں جو بس شرمندگی سے بچناچاہتے ہیں اورجوکچھ کرگزرے ہیں اس کے متوقع نتائج سے جان چھراناچاہتے ہیں لہذا وہ اہل حدیث مفتی کے پاس پہنچ جاتے ہیں۔


ہاں اگرآپ کا خیال ہے کہ سبھی لوگ نہایت نیکوکار اورطبعیت ومزاج کے صالح ومتقی ہیں تو پھرآپ آزاد ہیں اپنی رائے میں لیکن خارجی دنیا کے حالات آپ کی رائے کی تائید نہیں کریں گے اور اسی بناء پر اپنی رائے بھی فقہاء کرام کے ساتھ ہے۔ والسلام
تقلید شخصی کی مثال اس مسئلے پر بحث کیلئے نہیں بلکہ اس مسئلہ پر بات کرنے کے بجائے لفظ تقلید پر وقت ضائع ہونے کی غرض سے دی گئی تھی- لیکن آپ نے اس پر بھی کافی کچھ کہہ دیا ہے- اس لیے میں بھی چند گزارشات کیے دیتا ہوں:

١- تقلید شخصی کے وجوب کے قائلین اس کی وجہ سد ذرئعہ بتاتے ہیں- یہ بات بھی بہت معتدل حلقوں میں مشہور ہے-
٢- عائشہ رضی اللہ عنہ کا خیال ابن عمر کے بالکل مخالف تھا جو خواتین کے مسجد میں حاضری کے قائل تھے-
٣- حنفی عوام میں سے ولی کی اجازت کے بغیر بھاگ کر شادی کرنے والے ١٠٠ فیصد لوگ اپنی خواہش پرستی اور بے راہ روی کو حنفی مسلک کے ذریعے چھپاتے ہیں-
٤- تقلید شخصی کے خلاف بہت فقہا ہو گزرے ہیں- جو حنفی شافعی وغیرہ تھے-
 

Hasan

مبتدی
شمولیت
جون 02، 2012
پیغامات
103
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
0
آپ نے سابق میں جوکچھ کہاتھا وہ یہ تھا

اورجوحوالہ پیش کیاہے وہ تیسری اورچوتھی رکعت کا ہے ۔
شاید ماقبل میں لکھنے میں غلطی ہوگئی ہوگی آپ تیسری اورچوتھی لکھناچاہ رہے ہوں گے اورسرعت کی بورڈ(ابتسامہ)سے دوسری اورتیسری ہوگیاہوگا۔ اس سوال کو پوچھنے کا مقصد یہ تھاکہ اگرواقعتاآپ سے لکھنے میں غلطی ہوئی ہے تو اپنی غلطی پر متنبہ ہوجاتے لیکن اپنے حالیہ مراسلہ میں آپ نے اپنی اس غلطی اورفروگزارشت کے احساس واعتراف کی جانب کچھ بھی اشارہ نہیں کیا ۔
اگرجوحوالہ پیش کیاہے اور وہی موقف آپ کابھی ہے۔ کہ تیسری اورچوتھی رکعت میں اگرسورہ فاتحہ نہ پڑھنے کی بات مخالفت حدیث ہے تو براہ کرم پہلے یہ واضح کردیں کہ اسلاف میں جولوگ مطلقا سورہ فاتحہ کے وجوب یافرضیت کے قائل نہیں تھے ان کو آپ کیاکہیں گے یاجواجلہ علماء اس مسئلہ میں احناف کے ہم زبان ہیں ان کو کیاکہیں گے مخالف حدیث؟
اگربات اتنی ہو کہ اس مسئلہ میں یاان مسائل میں احناف کے دلائل کمزور ہیں تو ہمیں کسی قسم کی گزارش اوراپناقیمتی وقت ضائع کرنے کی کوئی ضرورت پیش نہ آئے لیکن جب ذہن وفکر کی تنگی اس درجہ بڑھ جائے اورعقل ونظر کا افلاس اس سطح کو پہنچ جائے کہ علمی اختلاف کو مخالفت حدیث کا عنوان دیاجانے لگے توقیمتی وقت لگاناہی پڑتاہے اوراس احساس کے ساتھ لگاناپڑتاہے کہ شاید اس مشارکت کسے کسی ناواقف کی گمراہی دور ہو اور وہ اس مسئلہ میں صحیح اورحق بات جان سکے۔
لہذاآپ سےگزارش ہے کہ اس مسئلہ کو آپ علمی اوراجتہادی اختلاف مانتے ہیں یاپھر مخالفت حدیث!اورقائلین کو مخالفین حدیث؟
اگرآپ اسے علمی اختلاف اوراجتہادی خطاء تک محدود رکھیں تو راقم الحروف اس پر عرض ومعروضات کیلئے تیار ہے؟اوراگرآپ اسے مخالفت حدیث سمجھتے ہیں توراقم الحروف آپ سے یہ ضرور جانناچاہے گاکہ مخالفت حدیث کا تصور آپ کے نزدیک کیاہے اورمخالفت حدیث کا معیار کیاہے پھراسی پر بات آگے بڑھے گی۔
اپناموقف ضرور واضح کیجئے؟
میں نے پہلی پوسٹ میں تدوین کرکے تصحیح کردی ہے- مسئلہ تیسری اورچوتھی رکعت میں سورہ فاتحہ نہ پڑھنے کا ہے نہ کہ دوسری اور تیسری رکعت میں- گرما گرمی کے اس ماحول میں آپ نے جتنا بھی حسن ظن کیا بڑی بات ہے-

اسلاف میں جولوگ مطلقا سورہ فاتحہ کے وجوب یافرضیت کے قائل نہیں تھے ان کے اسمائے گرامی باحوالہ نقل فرمادیں-

اگر کسی عالم کو یقین ہوجائے کہ فلان حدیث پر عمل نہ کرنے یا اعتقاد نہ رکھنے کی کوئی شرعی وجہ نہیں پھر پھی وہ اسے ترک کردے تو وہ مخالفت حدیث کا مرتکب ہوگا- وگرنہ وہ غلطی پر ہے مخالف حدیث نہیں-

اب آپ فرمائیں-
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
جمشید بھائی ! موضوع پر رہنے کی بڑی نصحیت کر رہے ہیں گزارش ہے کہ آپ بھی ادھر ادھر نہ جائیں آپ کو چاہیے کہ اوپر جو مسائل بیان ہوئے ہیں ان میں حنفی علماء کا موقف واضح کریں اور ثابت کردیں کہ یہ موقف احادیث کے عین مطابق ہے خلاف نہیں ۔
موضوع پر رہنے کی نصیحت تواچھی بات ہے اوراس اچھی بات کو ہرشخص کوقبول کرناچاہئے۔

موضوع یہی ہے کہ مذکورہ احادیث کی احناف مخالفت کرتے ہیں ۔ اس کاعنوان ہے ۔ ’’وہ مسائل جس پر دیوبندی عمل نہیں کرتے‘‘اورکچھ پچاس سے زائد حدیثیں ذکر کی گئی ہیں۔
اگرکوئی کسے پر الزام لگائے تواس الزام کی حقیقت ثابت کرنا کس کی ذمہ داری ہے۔ میں اگرکہوں کہ ’’خضرحیات ظاہری‘‘ ہیں ۔ اگرکوئی پوچھے کہ ظاہری کون ہوتاہے تویہ بتانے کی ذمہ داری میری ہوگی یاخضرحیات کی۔

ظاہر سی بات ہے کہ ایک الزام میں نے لگایاہے تواس کی حقیقت واضح کرنابھی میری ذمہ داری ہے۔ لہذا جس نے یہ تھریڈ بنایاہے اوراحناف پر جوالزام لگانے کی کوشش کی ہے اس کی حقیقت کو واضح کرنا کس کی ذمہ داری ہے۔ اگرانصاف اورعدل سے کہاجائے تو الزام تراشی کرنے والوں کی۔ یعنی اس کی جس نے یہ تھریڈ شروع کیاہے یاپھر وہ لوگ جواس تھریڈ کے دفاع میں اترے ہیں اورہرطرح اسے الزام کوثابت کرناچاہ رہے ہیں تواگران کے پاس لینے اوردینے کے پیمانے الگ الگ نہیں ہیں تومخالفت حدیث کی وضاحت ان کی ذمہ داری بنتی ہے۔

اس سوال سے پیچھاچھڑانے کیلئے اس کونظری سوال کہنامسئلہ کا حل نہیں ہے۔ نہ ہی یہ ہے کہ آپ ایک الزام لگائیں اورہم فوری طورپر اپنے دفاع میں اترجائیں ۔ یہاں توپہلامرحلہ ہی جوآپ حضرات کے لئے دل گداز اورجاں گداز ہے وہ یہ کہ مخالفت حدیث کا میعار مقرر کریں۔ تاکہ اسی میزان اورترازو پر دیگر مجتہدین کے اجتہادات کوبھی تولاجاسکے۔

آپ نے مجلس علماء میں مخالفت حدیث کے ضمن میں جوکچھ فرمایاہے وہ محض دفع الوقتی ہ اورکچھ نہیں۔ اس کو ایسامنکرحدیث اوراس کو ایسامخالف حدیث کہیں گے لیکن سوال یہ ہے کہ اس کہنے کا میعار کیاقائم کیاہے۔ اس پر توکچھ عرض کیاجائے۔
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
میں نے پہلی پوسٹ میں تدوین کرکے تصحیح کردی ہے- مسئلہ تیسری اورچوتھی رکعت میں سورہ فاتحہ نہ پڑھنے کا ہے نہ کہ دوسری اور تیسری رکعت میں- گرما گرمی کے اس ماحول میں آپ نے جتنا بھی حسن ظن کیا بڑی بات ہے-

اسلاف میں جولوگ مطلقا سورہ فاتحہ کے وجوب یافرضیت کے قائل نہیں تھے ان کے اسمائے گرامی باحوالہ نقل فرمادیں-

اگر کسی عالم کو یقین ہوجائے کہ فلان حدیث پر عمل نہ کرنے یا اعتقاد نہ رکھنے کی کوئی شرعی وجہ نہیں پھر پھی وہ اسے ترک کردے تو وہ مخالفت حدیث کا مرتکب ہوگا- وگرنہ وہ غلطی پر ہے مخالف حدیث نہیں-

اب آپ فرمائیں-
میں نے سابق میں عرض کیاتھاکہ آپ اگراس بحث کو اجتہادی خطائ اورعلمی اختلاف مانتے ہیں تواس کو واضح کریں پھرمخالفت حدیث کی ہی گردان وردلب ہے توپھر مخالفت حدیث کا تصور واضح کریں۔ حسن بھائی نے ثانی الذکر شق کوپسند کیااورمخالفت حدیث کی تعریف معیار یاحدود اربعہ اپنے مطالعہ اورعلم کی روشنی میں پیش کیاہے۔ لیکن ان کے اس تعریف سے بات ختم ہونے کے بجائے مزید بڑھنے کی امید ہے کیونکہ یہ تعریف بقول رفیق طاہر نہ جامع ہے نہ مانع ہے۔
علاوہ ازیں حسن بھائی نے جوتعریف کی ہے
کسی عالم کو یقین ہوجائے کہ فلان حدیث پر عمل نہ کرنے یا اعتقاد نہ رکھنے کی کوئی شرعی وجہ نہیںتواس عالم کے تعلق سے یہ معلوم کرنے کا ذریعہ کیاہے کہ اس کے نزدیک فلاں حدیث پر عمل کرنے یااعتقاد رکھنے کا کوئی شرعی وجہ نہیں ہے۔
چونکہ حضرت ابن تیمیہ سے آپ حضرات کو خاص لگائو ہے۔ اس لئے انہی کی ایک بات پیش کرتاہوں جو اس فورم پر لکھ بھی چکاہوں لیکن اب کہاں تک تلاش کرتاپھروں۔
کسی حدیث پر عمل اورترک کے لحاظ سے علماء کے سارے دلائل ہمارے سامنے نہیں ہوتے کبھی عالم اورمجتہد اپنے تمام دلائل ظاہر نہیں کرتا بہت سی باتیں اس کے سینوں میں ہی محفوظ اوردفن رہتی ہیں پھر یہ کہ یہ ضروری نہیں ہے کہ اسلاف متقدمین کے پاس جو دلائل تھے وہ سب کے سب کتابوں میں منقول ہوگئے ہوں۔ (بحوالہ رفع الملام)
اب اگر ہم یہ جانناچاہیں کہ امام ابوحنیفہ کے پاس کسی حدیث پر عمل اوراعتقاد ترک کرنے کی کوئی شرعی وجہ نہیں تھی یاابن تیمیہ نے رفع الملام میں مجتہدین کی جانب سے کسی حدیث پر ترک عمل اوراعتقاد نہ رکھنے کی جو دس وجوہات بیان کی ہیں اس میں سے کوئی وجہ نہیں تھی تواس کے معلوم کرنے کا ہمارے پاس کیاذریعہ ہوسکتاہے۔ اس کے شاگردوں سے منقول دلائل ۔ لیکن بقول ابن تیمیہ بہت ممکن ہے کہ علماء نے اپنے تمام دلائل بیان نہ کئے ہوں ۔ کتابیں لیکن کتابیں بھی اس کی ضامن نہیں ہیں کہ اس میں الف سے لے کر ی تک تمام دلائل بیان کئے گئے ہوں۔ توپھر ہمارے پاس کسی کو مخالفت حدیث کے طعنہ سے متہم کرنے کا اوریہ معلوم کرنے کاکہ اس کے پاس فلاں حدیث کو ترک کرنے کا کوئی شرعی جواز نہیں تھا،کیاصورت اورکیاتدبیر ہے۔ بینواوتوجروا۔
آپ کی اسی تعریف سے ایک دوسراسوال پیداہوتاہے کہ وہ اہل حدیث یاغیرمقلدین جو امام ابوحنیفہ سے لے کر موجودہ حنفی تک سبھی پر مخالفت حدیث کی تہمت تراشتے ہیں ان کے پاس یہ جاننے کا کیاذریعہ تھاکہ ان سبھی کے پاس حدیث کے ترک عمل اوراعتقاد نہ رکھنے کی کوئی شرعی وجہ نہیں تھی۔ کیایہ بات بدگمانی اورالزام تراشی کے قبیل سےنہیں ہے۔
کیایہ بہترنہیں ہوگاکہ ہم سورہ فاتحہ پر بحث کو اس وقت تک کیلئے ٹال دیں جب تک مخالفت حدیث کا تصور واضح اورصاف نہ ہوجائے بہرحال ان تمام بزرگوں کے اسمائے گرامی میرے سامنے ہیں جو سورہ فاتحہ کی فرضیت ووجوب کے قائل نہ تھے ۔ والسلام
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
موضوع پر رہنے کی نصیحت تواچھی بات ہے اوراس اچھی بات کو ہرشخص کوقبول کرناچاہئے۔

موضوع یہی ہے کہ مذکورہ احادیث کی احناف مخالفت کرتے ہیں ۔ اس کاعنوان ہے ۔ ’’وہ مسائل جس پر دیوبندی عمل نہیں کرتے(1)‘‘اورکچھ پچاس سے زائد حدیثیں ذکر کی گئی ہیں۔
اگرکوئی کسے پر الزام لگائے تواس الزام کی حقیقت ثابت کرنا کس کی ذمہ داری ہے۔ میں اگرکہوں کہ ’’خضرحیات ظاہری‘‘ ہیں ۔ اگرکوئی پوچھے کہ ظاہری کون ہوتاہے تویہ بتانے کی ذمہ داری میری ہوگی یاخضرحیات کی۔ (2)
ظاہر سی بات ہے کہ ایک الزام میں نے لگایاہے تواس کی حقیقت واضح کرنابھی میری ذمہ داری ہے۔ لہذا جس نے یہ تھریڈ بنایاہے اوراحناف پر جوالزام لگانے کی کوشش کی ہے اس کی حقیقت کو واضح کرنا کس کی ذمہ داری ہے۔ اگرانصاف اورعدل سے کہاجائے تو الزام تراشی کرنے والوں کی۔ یعنی اس کی جس نے یہ تھریڈ شروع کیاہے یاپھر وہ لوگ جواس تھریڈ کے دفاع میں اترے ہیں اورہرطرح اسے الزام کوثابت کرناچاہ رہے ہیں تواگران کے پاس لینے اوردینے کے پیمانے الگ الگ نہیں ہیں تومخالفت حدیث کی وضاحت ان کی ذمہ داری بنتی ہے۔ (3)
اس سوال سے پیچھاچھڑانے کیلئے اس کونظری سوال کہنامسئلہ کا حل نہیں ہے۔ نہ ہی یہ ہے کہ آپ ایک الزام لگائیں اورہم فوری طورپر اپنے دفاع میں اترجائیں ۔ یہاں توپہلامرحلہ ہی جوآپ حضرات کے لئے دل گداز اورجاں گداز ہے وہ یہ کہ مخالفت حدیث کا میعار مقرر کریں۔ تاکہ اسی میزان اورترازو پر دیگر مجتہدین کے اجتہادات کوبھی تولاجاسکے۔ (4)
آپ نے مجلس علماء میں مخالفت حدیث کے ضمن میں جوکچھ فرمایاہے وہ محض دفع الوقتی ہ اورکچھ نہیں۔ اس کو ایسامنکرحدیث اوراس کو ایسامخالف حدیث کہیں گے لیکن سوال یہ ہے کہ اس کہنے کا میعار کیاقائم کیاہے۔ اس پر توکچھ عرض کیاجائے۔(5)
1۔ آپ ثابت کردیں کہ لکھنے والے نے غلط لکھا ہے بلکہ ہم عمل کرتے یا پھر اپنی بے عملی کا اقرار کر لیں ۔
2۔ جناب الزام آپ پر یہ لگایا گیا ہے کہ آپ مذکورہ احادیث پر عمل نہیں کرتے ۔ یہاں دو چیزیں مطلوب تھیں ایک آپ کی کتب سے آپ کا موقف اور دوسرا احادیث کا حوالہ دوسرا کام کردیا گیا ہے جبکہ پہلا شاید شہرت کی وجہ سے چھوڑ دیا گیا ہے اگر میں یہ موضوع شروع کرتا تو یقینا دوسرا کام بھی کرتا ۔ بہر صورت اس کوتاہی پر آپ کا اعتراض نہ کرنا بھی مضمون شروع کرنے والے بھائی کی تائید میں سمجھا جائے گا کہ ان حوالوں کی ضرورت نہیں تھی ۔
باقی آپ ظاہری ہونے کا الزام لگانا چاہتے ہیں تو بڑے شوق سے لیکن موضوع سے جان چھڑانے کے لیے یہاں یہ کام نہ کیجیے گا ۔
3۔ محترم بھائی جس بات پر آپ زور دے رہے ہیں اس پر ہم پہلے ہی سر تسلیم خم کیے بیٹھے ہیں لیکن یہاں اس کا موقعہ و محل نہیں ہے ۔
لیکن آپ بھی تو کچھ ہمت کریں آپ پر جو الزام لگایا گیا ہے اس کی تردید کرنے کی کوشش کریں ۔
4۔ اس طرح کی دھمکیاں دینے کا کوئی فائدہ نہیں ہے ۔ شاید آپ استعجالا یا استرواحا سابقہ مشارکت میں میری یہ گزارش نظر انداز کر گئے ہیں :
ایسے خطرات سے نمٹنا ہمارے لیے کوئی مسئلہ نہیں البتہ مقلد کے لیے اس طرح کے مصائب کو جھیلنا واقعتا بہت مشکل ہے ۔
کیونکہ ایک طرف معیار قرآن وسنت ہے جبکہ دوسری طرف حجت تقلید آئمہ ہے ۔

5۔ اس کو وہیں تک رہنے دیں اور یہاں جو آپ پر الزام لگ گیا ہے اس کو دھونے کی کوشش کریں اللہ آپ کو جزائے خیر دے ۔
 

Hasan

مبتدی
شمولیت
جون 02، 2012
پیغامات
103
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
0
اگرکوئی کسے پر الزام لگائے تواس الزام کی حقیقت ثابت کرنا کس کی ذمہ داری ہے۔ میں اگرکہوں کہ ’’خضرحیات ظاہری‘‘ ہیں ۔ اگرکوئی پوچھے کہ ظاہری کون ہوتاہے تویہ بتانے کی ذمہ داری میری ہوگی یاخضرحیات کی۔
خضر پھائی کیلئے آسان راستہ ہے کہ وہ احادیث سے یا غیر ظاھریہ سے اپنے مؤقف کے دلائل پیش کردیں اور وہ کسی قیاسی دلیل پر کیوں عامل نہیں وہ بھی بتادیں- جیسا کہ آپ کیلئے سہل تھا آپ احادیث سے دلائل پیش کرتے-

میں نے گفتگو کے آغاز میں ہی عرض کردیا تھا کہ فاتحہ والے مسئلہ کو مخالفت حدیث کا عنوان دیے بغیر بات کی جائے- مگر آپ کی دوبارہ فرمائش پر میں نے مخالفت حدیث کی بدیھی وضاحت بھی پیش خدمت کردی- اب آپ اصول و مقدمات کے طے کرنے ہی پر وقت لگانا چاہتے ہیں توآ پ کی مرضی-

آپ کے سوالات کے مزید جواب دے کر امید کرتا ہوں کہ آپ بحث کو سمیٹیں گے-

کسی مسئلہ میں آئمہ مجتھدین کے سامنے دلائل کے جمع ہوجانے اور ان کے خلاف جانے کی وجوہات قلمبند نہیں- اگرکوئی بحث ہو اور کوئی عالم دلائل کے مقابل اپنے مسلک ہی کو ترجیح دے تو باآسانی معلوم ہوجائے گا کہ وہ حدیث کی مخالفت کررہاہے- ظاہر سی بات ہے کہ یہ تب ہوگا جب دلائل غیرمساوی ہونگے- اسی وجہ سے جہاں علماء نے مجتہدین کیلئے عذر بیان فرمائے وہیں مخالفین حدیث کا رد بھی فرمایا ہے-

اور فرمائیں-
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
تقلید شخصی کی مثال اس مسئلے پر بحث کیلئے نہیں بلکہ اس مسئلہ پر بات کرنے کے بجائے لفظ تقلید پر وقت ضائع ہونے کی غرض سے دی گئی تھی- لیکن آپ نے اس پر بھی کافی کچھ کہہ دیا ہے- اس لیے میں بھی چند گزارشات کیے دیتا ہوں:

١- تقلید شخصی کے وجوب کے قائلین اس کی وجہ سد ذرئعہ بتاتے ہیں- یہ بات بھی بہت معتدل حلقوں میں مشہور ہے-
٢- عائشہ رضی اللہ عنہ کا خیال ابن عمر کے بالکل مخالف تھا جو خواتین کے مسجد میں حاضری کے قائل تھے-
٣- حنفی عوام میں سے ولی کی اجازت کے بغیر بھاگ کر شادی کرنے والے ١٠٠ فیصد لوگ اپنی خواہش پرستی اور بے راہ روی کو حنفی مسلک کے ذریعے چھپاتے ہیں-
٤- تقلید شخصی کے خلاف بہت فقہا ہو گزرے ہیں- جو حنفی شافعی وغیرہ تھے-
یہ بات پہلے کہی جاچکی ہے کہ تقلید شخصی کا کہیں کوئی وجود نہیں ہے اورجولوگ تقلید شخصی کے نام پر حنفیوں کو مطعون کرتے ہیں وہ اپنے دراصل اپنے فکر ونظرکے افلاس کے خول میں بند ہیں ۔ تقلید حکمی کا وجوب سدذرائع کے طورپر ہے۔ یہ بات بھی صاف کردی گئی ہے۔

جب یہ بات صاف کردی گئی کہ تقلید شخصی کا کوئی وجود نہیں تو تقلید شخصی کے خلاف کوئی شخص کیسے ہوسکتاہے۔ ہاں یہ ممکن ہے اورایساہواہے کہ کچھ اشخاص کو تقلید میں غلواورجمود ہواکرتاہے۔ توایسوں کے خلاف علماء احناف کی کاوشیں آب زرسے لکھنے کے قابل ہیں۔


لیکن اسی کے ساتھ یہ بھی واضح رہناضروری ہے کہ تقلید میں جمود کا مخالف ہوناالگ ہے اورنفس تقلید کا مخالف ہوناالگ چیز ہے۔ دونوں ایک دوسرے سے گڈمڈ کرنا علمی تحقیق کے رجحان میں ضعف کی جانب اشارہ کرتاہے۔


حنفی عوام میں سے ولی کی اجازت کے بغیر بھاگ کر شادی کرنے والے ١٠٠ فیصد لوگ اپنی خواہش پرستی اور بے راہ روی کو حنفی مسلک کے ذریعے چھپاتے ہیں-
آج تک میں نے ایسی بات نہیں سنی کہ کسی نے بھاگ کر شادی کی ہو اورپھر اپنے جواز میں کہاہو کہ فقہ حنفی میں ایساہی ہے۔ اس کیلئے وہ سول لاء کا سہارالیتے ہیں اورملکی قوانین جو انگریزوں کے وضع کردہ ہیں۔ ان کا سہارالیتے ہیں۔ سیکولرازم کی دہائی دیتے ہیں لیکن اس مسئلہ میں فقہ حنفی کا سہارابالکل نئی چیز ہے۔


ناچیز کا اخبارات سے تعلق ہے لیکن اس کے باوجود کسی گھر سے بھاگنے والے ’’پریمی جوڑے‘‘کی طرف سے اپنی اس حرکت کیلئے فقہ حنفی کا جواز نہ سننے میں آیااورنہ ہی پڑھنے میں۔ ویسے یہ بات حسن صاحب نے طلاق ثلاثہ کے تعلق سے عوام کی خواہش پرستی کے تعلق سے جوکچھ میں نے لکھاتھا

خدالگتی کہئے گاکہ جولوگ احناف میں سے یاشوافع اورمالکیہ میں سے طلاق ثلاثہ کے بعد ابن تیمیہ کے فتوی پر عمل کرتے ہیں اس میں کتنے لوگ ایسے ہیں جو دلائل کا موازنہ کرتے ہیں اورکتنے لوگ ایسے ہیں جو محض آسانی اورشرمندگی سے بچنے کیلئے ایساکرتے ہیں ۔ میری رائے ہے اورذمہ دارانہ رائے ہے کہ سو میں شاید ایک بھی شخص ایسانہیں ہوگاکہ طلاق ثلاثہ کے وقوع کے بعد اس مسئلہ کی تحقیق کرتاہو اوراس کے بعد دلائل کے رجحان اورمضبوطی کو دیکھ کر تین طلاق کو ایک طلاق مانتاہو بلکہ سومیں سے شاید ١٠٠فیصد افراد ایسے ہوتے ہیں جو بس شرمندگی سے بچناچاہتے ہیں اورجوکچھ کرگزرے ہیں اس کے متوقع نتائج سے جان چھراناچاہتے ہیں لہذا وہ اہل حدیث مفتی کے پاس پہنچ جاتے ہیں۔
اس کے جواب میں لکھاہے لیکن دونوں میں اتنافرق ہے کہ بے ساختہ تیلی اورجاٹ والالطیفہ یاد آجاتاہے۔ سن لیں!



ایک جاٹ اورتیلی کہیں ساتھ ساتھ رہتے تھے۔ ایک دن تیلی نے جاٹ سے کہا
جاٹ رے جاٹ تیرے سرپر باٹ
جاٹ کو یہ بات بہت بری لگی اس نے بھی جوابی حملہ کیا
تیلی رے تیلی تیرے سرپر کولہو
تیلی نے کہاکہ تمہاراجملہ غیرموزون ہے۔
جاٹ نے کہاکہ جملہ کی موزونیت مت دیکھو بلکہ کولہو کا وزن دیکھو۔



حسن صاحب نے وہی حال کچھ یہاں کیاہے خاکسار نے جوکچھ طلاق ثلاثہ کے تعلق سے عوامی رویے کی بات کی ہے اس پر بغیر ولی کی اجازت اورگھر سے بھاگ کر شادی کرنے کی مثال پیش کی گئی ہے۔ لیکن دونوں میں کچھ اہم فرق کی جانب نشاندہی کرتاہوں۔

1:گھر سے بھاگ کرشادی کرنے والے لوگ پہلے ہی عمومی طورپر آپس مین غیرشرعی طورپر ملتے رہتے ہیں اورفسق ووفجور کی جانب ان کارجحان ہوتاہے وہ کسی مفتی کے پاس نہیں جاتے کہ ان کی یہ شادی جائز قراردو بلکہ اسکیلئے وہ سول کورٹ جاتے ہیں۔ اس کے برعکس طلاق ثلاثہ والے کسی اہل حدیث مفتی کو ڈھونڈتے ہیں جو انہیں طلاق ثلاثہ کے سنگین نتائج سے گلوخلاصی کی صورت نکال کر دے۔

جیساکہ ماقبل میں لکھ چکاکہ آج تک گھر سے بھاگنے والے جوڑوں نے کبھی کسی حنفی عالم کا پناہ نہیں لیا اوراس طرح اپنے عمل کوجائز قرارنہیں دیااس کے برعکس طلاق ثلاثہ کے وقوع کےبعد لوگ کسی اہل حدیث مفتی کو ڈھونڈنے لگتے ہیں کہ کسی طرح ان کو شرمندگی سے نجات ملے۔

گھر سے بھاگنے والے اپنے عمل کو شرعی لحاظ سے جائزقراردینے کے خواہاں نہیں ہوتے اورنہ ہی ان کو اس کی ضرورت ہوتی ہے کہ اس کےبرعکس طلاق ثلاثہ کے وقوع کے بعد اگرکسی کو پاکستان سے چین جاناپڑے اورکسی اہل حدیث مفتی سے فتوی حاصل کرناپڑے توشاید اس سے بھی بے دریغ نہ کریں۔

پھر آنجناب نے غورنہیں کیاکہ راقم الحروف نے جوکچھ کہاتھا کہ اگرتقلید حکمی کو واجب قرارنہ دیاجائے تو عوام خواہش پرستی اورنفس پرستی میں بے لگام ہوجائیں گے اورجدھر کا مسئلہ آسان ملااسی طرف دوڑپریں گے۔ زیر بحث مسئلہ دیکھیں تواسی کی مثال ٹھہرتی ہے۔


جیساکہ آپ نے فرمایاکہ گھر سے بھاگ کر بغیر ولی کی اجازت کے شادی کرنا ہوتوفقہ حنفی کی پناہ میں آئیں گے اورپھرشادی کے بعد جب کبھی غصے میں تین طلاق دے دیں گے تو پھر اہل حدیث مفتی کے پاس آجائیں گے ۔ اسی چیز سے تو فقہاء کرام نے سدذرائع کے طورپر روکاہےا ورتقلید حکمی یاکسی ایک مکتبہ فکر کے علماء سے وابستہ رہنے کوواجب قراردیاہے۔
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
پتہ نہیں لوگ جب کسی بات کو سمجھ نہیں پاتے تب یہ کیفیت ہوتی ہے یاجب کسی بات کو سمجھنانہیں چاہتے تب اس طرح کے جوابات سامنے آتے ہیں۔
میں نے بطورمثال ایک بات پیش کی تھی
اگرکوئی کسے پر الزام لگائے تواس الزام کی حقیقت ثابت کرنا کس کی ذمہ داری ہے۔ میں اگرکہوں کہ ’’خضرحیات ظاہری‘‘ ہیں ۔ اگرکوئی پوچھے کہ ظاہری کون ہوتاہے تویہ بتانے کی ذمہ داری میری ہوگی یاخضرحیات کی۔
تواس کا جواب یہ آیاہے قارئین اسے پڑھیں اورپڑھ کر دوسروں کا سردھنیں ۔
خضر پھائی کیلئے آسان راستہ ہے کہ وہ احادیث سے یا غیر ظاھریہ سے اپنے مؤقف کے دلائل پیش کردیں اور وہ کسی قیاسی دلیل پر کیوں عامل نہیں وہ بھی بتادیں- جیسا کہ آپ کیلئے سہل تھا آپ احادیث سے دلائل پیش کرتے-
جب کہ خضرحیات صاحب کہتے ہیں
باقی آپ ظاہری ہونے کا الزام لگانا چاہتے ہیں تو بڑے شوق سے لیکن موضوع سے جان چھڑانے کے لیے یہاں یہ کام نہ کیجیے گا ۔
سوال بہت آسان تھاکہ اگرکوئی کسی پر الزام لگاتاہے تواس الزام کی وضاحت کس کے ذمہ ہے۔
لیکن یہ اتنی سہل بات بھی سمجھنی اتنی مشکل ہوجائے گی ۔ اندازہ نہیں تھا۔ ویسے اس سلسلے میں مزید کوئی بات کرنے کے بجائے کلیم عاجزکے اس شعر پر اکتفاء کرتے ہیں (تھوڑی ترمیم کے ساتھ )اورخضرحیات اورحسن صاحب دونوں کو ہی دعوت غوروفکر دے رہے ہیں۔
بہت دشوار ہے سمجھاناکسی
سمجھ لینے میں دشواری نہیں ہے​

خضرحیات صاحب نے مزید جوکچھ کہاہے اسپر ہم کیاعرض کریں
جناب الزام آپ پر یہ لگایا گیا ہے کہ آپ مذکورہ احادیث پر عمل نہیں کرتے ۔ یہاں دو چیزیں مطلوب تھیں ایک آپ کی کتب سے آپ کا موقف اور دوسرا احادیث کا حوالہ دوسرا کام کردیا گیا ہے جبکہ پہلا شاید شہرت کی وجہ سے چھوڑ دیا گیا ہے اگر میں یہ موضوع شروع کرتا تو یقینا دوسرا کام بھی کرتا ۔ بہر صورت اس کوتاہی پر آپ کا اعتراض نہ کرنا بھی مضمون شروع کرنے والے بھائی کی تائید میں سمجھا جائے گا کہ ان حوالوں کی ضرورت نہیں تھی ۔
اس کو بلاتبصرہ ہی رہنے دیں کیونکہ ماقبل میں بارہاوضاحت کی جاچکی ہے کہ ساری تگ ودو اسی الزام کی وضاحت کیلئے ہے۔ والسلام
 
Top