• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

وہ مسائل جن کو دیوبندی قابل عمل نہیں سمجھتے !!!!

Hasan

مبتدی
شمولیت
جون 02، 2012
پیغامات
103
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
0
اگرآپ کتب فقہ کی ورق گردانی کریں گے کچھ نہیں توکم ازکم شامی وغیرہ کا ہی مطالعہ کرلیں اس میں آپ پائیں گے کہ بہت سارے مسائل ایسے ہیں جہاں فتوی صاحبین کے قول پر ہے مثلارضاعت کا مسئلہ ہے امام ابوحنیفہ ڈھائی سال کے قائل ہیں جب کہ امام ابویوسف اورامام محمد دوسال کے قائل ہیں اور اسی پر فتوی ہے اوراحناف کا عمل ہے۔ تواس طرح کے مسائل سینکڑوں میں ہیں جہاں فتوی امام صاحب کے برخلاف صاحبین کے قول پر ہے۔ علماء احناف کی تصریحات کے مطابق چودہ مسائل میں فتوی صاحبین اورامام ابوحنیفہ کے برخلاف امام زفر کے قول پر ہے۔ کچھ مسائل ایسے بھی ہیں جہاں فتوی امام زیاد بن حسن لولوئی کے قول پر ہے۔ بہت سارے مسائل ایسے ہیں جہاں عرف وعادت اورزمانہ کے تغیرات کی وجہ سے متاخرین فقہاء کے قول پر ہے۔ اس طرح کے مثالیں اگرہم پیش کرناچاہیں جہاں فتوی امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ کے قول پر نہیں ہے تواس کیلئے بلامبالغہ ایک دفتر بے پایاں درکار ہوگا اورحالت یہ ہوگی ورق تمام ہوا اورمدح باقی ہے۔ اورسفینہ چاہئے اس بحربیکراں کیلئے۔

اوریہی چیز شوافع مالکیہ اورحنابلہ کے یہاں ہے کہ وہاں بھی ہرہرقول میں فتوی ائمہ مجتہدین کے قول پر نہیں بلکہ ان کے تلامذہ اوربعد کے مجتہدین وفقہاء کے اقوال پر ہے۔
آپ نے صحیح فرمایا- تمام علمی حلقوں میں اس بات کو اچھی طرح جانا جاتا ہے-

مگر محل نزاع تقلید شخصی کے وجوب سے مراد ایک مذھب کے مفتی سے استفتاء کا وجوب ہے-

جہاں تک آپ نے احناف کی جانب سے یہ کہاہے کہ احناف فرائض کی دوسری اورتیسری رکعت مین وجوب فاتحہ کے قائل نہیں ۔ اس کا حوالہ پیش کردیں۔ والسلام





 

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
حرب بن شداد صاحب!کب کس وقت کیابات کہہ دیں گے بتانامشکل ہے۔ وہ موضوع سے الگ موضوع چھیڑیں گے اورپھر نصیحت بھی کریں گے کہ موضوع سے باہر نہیں جاناچاہئے۔ یہ کہناتومشکل ہے کہ یہ کوئی نفسیاتی پیچیدگی ہے یانیٹ کے باافراط استعمال سے کچھ مضراثرات مرتب ہوئے جس کے یہ نتائج ہیں۔

بہرحال مذکورہ تھریڈ کسی صاحب نے شروع کیاتھاجس کاعنوان تھاوہ مسائل جس کو دیوبندی قابل عمل نہیں سمجھتے۔
اس میں کچھ حدیثیں پیش کیں اوربتایاکہ چونکہ احناف ان احادیث پر عمل نہیں کرتے لہذا وہ حدیث کے مخالف ٹھہرے۔

اس پر پوچھاگیاکہ پہلے ’’مخالفت حدیث‘‘کاحدوداربعہ واضح کردیاجائے کہ مخالفت حدیث کس کو کہیں گے ۔ اس کی کچھ مناسب تشریح وتوضیح کردیاجائے تاکہ انہی کے مقررکردہ معیاراورمیزان پر ہم شوافع حنابلہ مالکیہ اورخودامام بخاری کے اجتہادات کو تول سکیں۔

چونکہ احناف کو مخالفت حدیث کا طعنہ بارہااہل حدیث حضرات دیتے ہی رہتے ہیں اسی لئے میں نے مجلس علماء میں بھی تمام شرکاء فورم سے درخواست کی تھے کہ وہ موضوع پر اظہارخیال کریں۔

حرب بن شداد صاحب کو توچاہئے تھاکہ وہ سوال کا مناسب جواب دیتے اورجوکچھ ان کا مطالعہ ہے فورم کے قارئین کے سامنے پیش کرتے لیکن انہوں نے الگ ہی راگ چھیڑدیا۔
میرے سوال کے جواب میں جوان کا مراسلہ تھاوہ یہ ہے



اس پر میں نے جواب دیاکہ
اس پر انہوں نے مخالفت حدیث پر بات کرنے کے بجائے یہ ارشاد فرمایا
بہرحال ہم نے امید کا دامن نہیں چھوڑاہے۔ اقبال کہہ گئے ہیں کہ ’’پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ‘‘کہ حرب بن شداد ،شاہد نذیرصاحب یاکوئی بھی دوسراشخص جس کولگتاہے کہ احناف نے مذکورہ حدیثوں کی یاعام طورپر حدیثوں کی مخالفت کرتے ہیں وہ مخالفت حدیث کی مناسب تشریح وتعریف ضرور پیش کرے گا۔تاکہ بات کو مثبت انداز میں آگے بڑھایاجاسکے۔
حرب بن شداد صاحب!کب کس وقت کیابات کہہ دیں گے بتانامشکل ہے۔ وہ موضوع سے الگ موضوع چھیڑیں گے اورپھر نصیحت بھی کریں گے کہ موضوع سے باہر نہیں جاناچاہئے۔ یہ کہناتومشکل ہے کہ یہ کوئی نفسیاتی پیچیدگی ہے یانیٹ کے باافراط استعمال سے کچھ مضراثرات مرتب ہوئے جس کے یہ نتائج ہیں۔
جواب دے سکتا تھا لیکن آپ سے پہچان بہت پرانی ہے اس لئے نظرانداز کرنا بہتر ہے۔۔۔

بہرحال مذکورہ تھریڈ کسی صاحب نے شروع کیاتھاجس کاعنوان تھاوہ مسائل جس کو دیوبندی قابل عمل نہیں سمجھتے۔
اس میں کچھ حدیثیں پیش کیں اوربتایاکہ چونکہ احناف ان احادیث پر عمل نہیں کرتے لہذا وہ حدیث کے مخالف ٹھہرے۔


احناف کی بات تو بعد میں آئے گی۔۔۔
پہلے بات ہونی چاہئے نعمان بن ثابت رحمہ اللہ علیہ کے تعلق سے۔۔۔

امام نسائی فرماتے ہیں!۔
امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ علیہ حدیث میں قوی نہیں ہیں۔۔۔
(کتاب الضعفاء والمتروکین صفحہ ٢٣٣)۔۔۔

اب یہ بتائیں کے یہ الزام ہم اپنے طرف سے امام صاحب کی طرف منسوب کررہے ہیں۔۔۔ یا ہم سے پہلے والے؟؟؟۔۔۔

شاہ ولی اللہ صاحب فرماتے ہیں!۔
آن یک شخصے است کہ رؤس محدثین مثل احمد و بخاری ومسلم وترمذی وابوداؤد ونسائی وابن ماجہ ودارمی یک حدیث ازوئے رادر کتاب ہائے خود روایت ذکردہ اند۔۔۔
امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ علیہ وہ شخص ہیں کے بڑے بڑے محدثین مثل امام احمد وبخاری ومسلم وترمذی ونسائی وابوداؤد ابن ماجہ درامی رحمہم اللہ نے ایک حدیث بھی ان سے اپنی کتابوں میں درج نہیں کی۔۔۔

اور ان سب کی رائے بھی سُن لیں!۔۔۔
اُن آئمہ محدثین فقہاوفضلا کے جنہوں نے حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ کو ناقص الحافظ اور حدیث کم جاننے والا اور اس کی جانچ وپرکھ میں ناقص اور نیزعربی زبان میں ناقص بتلایا ہے اور اُن کے عقائد اور مسائل پر اعتراض کیا۔۔۔

اچھا اعتراض کرنے والوں میں۔
امام مالک بن انس رحمہ اللہ، امام محمد ادریس شافعی رحمہ اللہ علیہ، امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ علیہ، امام بخاری رحمہ اللہ علیہ، امام نسائی رحمہ اللہ علیہ، امام دارقطنی رحمہ اللہ علیہ، ابویوسف رحمہ اللہ علیہ، عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ علیہ، اورزعی رحمہ اللہ علیہ، ابن عدی رحمہ اللہ علیہ، ابن عبدالبر رحمہ اللہ علیہ، ذہبی رحمہ اللہ علیہ، ابوحفص عمر بن علی رحمہ اللہ علیہ، عبداللہ بن علی رحمہ اللہ علیہ، علی بن المدنی رحمہ اللہ علیہ، ابوبکر بن داؤد رحمہ اللہ علیہ، ابویحٰیی حمانی رحمہ اللہ علیہ، ابن عیاش رحمہ اللہ علیہ، احمد الخزاعی رحمہ اللہ علیہ، قاسم بن معین رحمہ اللہ علیہ، مسعر رحمہ اللہ علیہ، کدام سلمہ کوفی رحمہ اللہ علیہ، اسرائیل رحمہ اللہ علیہ، معمر رحمہ اللہ علیہ، فضیل بن عیاض رحمہ اللہ علیہ، ایوب رحمہ اللہ علیہ، سفیان رحمہ اللہ علیہ، ابومطیع رحمہ اللہ علیہ، الحکم رحمہ اللہ علیہ، یزید رحمہ اللہ علیہ بن ہارون، ابوعاصم النبیل رحمہ اللہ علیہ، عبداللہ بن داؤد رحمہ اللہ علیہ، عامر رحمہ اللہ علیہ ہذلی، ابوعبدالرحمٰن الخیربی رحمہ اللہ علیہ، عبداللہ بن یزید المقری رحمہ اللہ علیہ، شداد بن حکم رحمہ اللہ علیہ،۔۔۔۔۔

تقریبا (٨٠) نام ہیں مندرجہ بالا سے اور کتب ہذا باریخ خطیب جلد ٢ صفحہ ١٢٠-١٢٧ وتمہید شرح موطا صفحہ ٨٣-٩٣-٦٧٥ جلد ٣ اور تاریخ کبیر امام بخاری صفحہ ١٩١ اورمیزان الاعتدال جلد ١ صفحہ ٢٤٥ اور غنیہ الطالبین صفحہ٢٠٦ وصفحہ ٢٠٨ سے لئے گئے ہیں۔۔۔

لہذا احناف کا دفاع کرنے سے بہتر ہے نعمان بن ثابت رحمہ اللہ پر جن آئمہ کرام نے یہ اعتراضات پیدا کئے ہیں۔۔۔ اس کی حقیقت کو تسلیم کیجئے۔۔۔ یا پھر اگر دفاع کرنا ہی ہے تو خالص امام صاحب کا کیجئے۔۔۔
اُن لوگوں کا نہیں جو امام صاحب کے فینز ہیں۔۔۔
شکریہ۔۔۔
 

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
اس پوری محنت پر سوال؟؟؟۔۔۔
جب ہم شیخ البانی کا موقف حلالہ پر جاننا چاہ رہے ہوتے ہیں۔۔۔
اُس وقت آپ ہم پر یہ الزام ڈال دیتے ہیں کے ہم موضوع کو بدل رہے ہیں۔۔۔
میں یہ جاننا چاہتا ہوں کے میں تصویرکے اس ہی رخ کو کیوں دیکھو جو آپ مجھے دکھانا چاہ رہے ہیں۔۔۔
اب فرض کیجئے میں آپ کی بات کو تسلیم کرلوں۔۔۔
کے شیخ البانی نے حدیث پر اپنے فہم سے اپنا نظریہ پیش کیا تو وہ درست ہے۔۔۔
پھر آپ بھی اس بات کے مجاز ہیں۔۔۔
کے باقی اُن معاملات میں شیخ البانی رحمہ اللہ کے فہم پر آپ اُن کے ہر اس نظریہ کے جو وہ اپنی زندگی میں پیش کرچکے تھے ماننے کے مجاز ہیں۔۔۔
اگر دیکھا جائے تو یہ سودا میرے لئے قطعی گھاٹے کا نہیں لیکن۔۔۔
سوال آپ کے عقیدے اور مسلک کا ہے۔۔۔

اب ہمارا کوئی بھی بھائی شیخ البانی کے وہ اعتراضات یہاں پیش کردیں۔۔۔
جو شیخ نے حنفی مجتھد کے اجتہاد پر اعتراض پیش کیا۔۔۔
تاکہ یہ غیرضروری نظریہ امامت کا عقیدے سے عامی کو محفوظ رکھا جائے۔۔۔

شیخ البانی رحمہ اللہ کا کئی معاملات میں احناف سے اختلاف ہے۔۔۔
جسے آپ اجتہادی مسئلہ بنا کر پیش کررہے ہیں۔۔۔
تو کیا شیخ البانی رحمہ اللہ علیہ سے اگر یہ سوال پوچھا جاتا۔۔۔
تو وہ بھی یہ ہی موقف یا نظریہ پیش کرتے جو آپ پیش کرتی تھی۔۔۔
سوچیں ہم کہاں کھڑے ہیں۔۔۔
اس تھریڈ کا موضوع کا عنوان ہے "وہ مسائل جن کو دیوبندی قابل عمل نہیں سمجھتے"
اور اس تھریڈ میں یہ ثابت کرنا چاہا کہ کہ احناف حدیث کی مخالفت کی وجہ سے صحیح حدیث کی مخالفت کرتے ہیں ۔ جمشید بھائی نے اس پر "مخالفت حدیث " کا حدود اربعہ پوچھا ، کہ مخالفت حدیث کے حدود و قیود کیا ہیں ۔ میں نے البانی صاحب کے حوالہ سے کچھ معروضات پیش کیں کیا وجہ البانی صاحب آپ کے ہاں حدیث کے مخالف قرار نہیں پاتے جبکہ احناف حدیث کے مخالف قرار پاتے ہیں جب کہ جو مثال البانی صاحب کے حوالہ دی کئی اس میں وہی صورت الحال ہے جس صورت الحال کی وجہ سے آپ احناف پر الزام لگاتے ہیں کہ احناف حدیث کے مخالف ہیں لیکن البانی صاحب پر کوئی الزام نہیں
اس موضوع سے متعلق رہنا آپ کو نصیب نہ ہوا بات حلالہ اور تقلید کی چھیڑ دی ، بات البانی صاحب سے احناف کے اختلافات کی چھیڑ دی ، حدیث مخالفت کا الزام ہم نے نہیں لگایا یہ تو آپ حضرات الزام لگا رہیں تو ثابت بھی آپ کو ہی کرنا ، اب الزام ثابت نہیں ہر رہا تو بات کو دوسری طرف گھمارہے ہیں

محمد ارسلان صاحب کا کہنا ہے کہ وہ دیگر افراد کی طرح بحث برائے بحث نہیں کرتے بلکہ ٹو دی پوائنٹ جواب دیتے ہیں ، یہاں ان کا جواب دیکھ لیں
ابراہیم صاحب نے دیوبند کے فتوی کا حوالہ دیا اور اس حوالہ سے کہا کہ
دیوبندیوں کے یہاں حدیث پر عمل کرنا گمراہی استغفراللہ
جب کہ اس فتوی یہ سمجھانے کی کوشش کی کئی ہے کہ جو صرف قرآن و حدیث کی بات کریں اور اجماع امت اور قیاس کا انکار کریں ان کی بات صحیح نہیں
اس پر جو جواب آیا ملاحظہ فرمائیں
ابراہیم بھائی اب آپ دیکھنا یہ لوگ اپنے مولوی کی غلط باتوں کو صحیح کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیں گے لیکن اپنے علماء کا ناجائز دفاع نہیں چھوڑیں گے۔
کیا ٹودی پوائنٹ جواب آیا !!!!!
اجماع اور قیاس کا ناماننے والا اگر منکر ہوگا تو کیا وہ دائرہ اسلام سے خارج ہے؟؟؟۔۔۔
اور اگر ہے تو اس کی تفصیل پیش کیجئے۔۔۔
اور اگر نہیں تو یہ لفظ منکر کو اجماع وقیاس کے ساتھ کیوں استعمال کیا گیا؟؟؟۔۔۔

دوسری بات نماز کی جزائیات سے آپ کی مراد کیا ہے؟؟؟۔۔۔
اور حرب بن شداد صاحب تو منکر کے لفظ کا معنی کہیں اور لے گئے ، بھائی منکر انکار کرنے والے کو کہتے ہیں اور انکار کا مطلب کفر نہیں ہوتا دیکھا جاتا ہے کہ انکار کس چیز کا کیا پھر کفر کا فتوی لگتا ہے ۔
جزئیات کا مطلب ہے ایک ایک جزو
لیکن آپ کی بات کا موضوع سے کیا تعلق ؟؟؟
 

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
اگر ہم تاریخ ابن خلدوں کی جلد ١ صفحہ ٣٧١ کی عبارت دیکھیں۔۔۔
امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ علیہ۔۔۔ کی نسبت کہا گیا ہے اُن کو ستر حدیثیں پہنچی ہیں۔۔۔

علامہ شبلی نعمانی لکھتے ہیں۔۔۔
امام صاحب رحمہ اللہ علیہ کے مزاج میں تکلف تھا۔۔۔
اکثر خوش لباس رہتے تھے کبھی کبھی انجاب وقاقم کے جبے بھی استعمال کرتے تھے۔۔۔
ابو مطیع بلخی ان کے شاگرد کا بیان ہے کہ۔۔۔
میں نے ایک دن ان کو نہایت قیمتی چادر اور قمیض پہنے دیکھا۔۔۔
جس کی قیمت کم از کم چار سو درہم ہوگی۔۔۔
چار پانچ دینار (اشرفی) کی چادر کو گندہ فرماتے اور اوڑھنے سے شرماتے۔۔۔
(سیرت نعمان)۔۔۔

مزید لکھتے ہیں۔۔۔
کے ایسے شخص کو طلب حدیث کے لئے عراق، ججاز، مصر، یمن، شام کا سفر کرنا اور علم حدیث کی طالب العلمی (تحصیل) میں برسوں کاٹنا اور احادیث حفظ کرنی اور زحمت طول سفر اٹھانی دشوار بلکہ ناممکن کہنا چاہئے اس وقت حدیث کا ایک جگہ مجموعہ تو تھا ہی نہیں کہ اُس کو منگا کر انسان فن حدیث میں شعور پیدا کرلیتا اُس زمانے میں تو محدثین اہل روایت مقامات مختلفہ میں رہتے تھے اور حدیثوں کے حافظ ہوتے تھے کسی کے پاس اجزاء بھی ہوتے تھے تو ایسے نہیں کے مجموعہ حدیثوں کا پورا یا قدر معتد مرتب ہو۔۔۔

چونکہ طالب علمی کے لئے مشقت سفر آرام طلب اشخاص سے بہت مشکل ہے اس لئے امام صاحب کوفہ ہی میں حماد رحمہ اللہ فقہ کی مجلس کو غنیمت سمجھ کر ان کے اور اُن کے استاد ابراہیم نخعی رحمہ اللہ کے مسائل اور قواعد یاد کرتے رہے۔۔۔ ان کے سوا حضرت امام مالک رحمہ اللہ کے درس میں بھی چند روز شریک رہے ہیں۔۔۔ غرضیکہ اپنی خداداد قابلیت وذہانت وطباعی سے بنابر قواعد مذکورہ استخراج مسائل کرکے فتوے دیئے اور امام اہل الرائے کے لقب سے مشہور ہوئے۔۔۔

امام اہل الرائے۔۔۔
جو اپنے استادوں کے مسائل اور قواعد کی بناء پر استخراج مسائل کرے وہ کون کہلائے گا؟؟؟۔۔۔
وہی جو آج احناف کہلاتے ہیں۔۔۔
لہذا تقلید کیسے غلط ہوگی۔۔۔ جو خود امام صاحب کا طریقہ تھا۔۔۔
اور اس تھریڈ میں یہ ثابت کرنا چاہا کہ کہ احناف حدیث کی مخالفت کی وجہ سے صحیح حدیث کی مخالفت کرتے ہیں ۔
لہذا اس موضوع پر کچھ ثابت کرنے کی کیا ضرورت ہے۔۔۔
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,332
پوائنٹ
180
احناف کی بات تو بعد میں آئے گی۔۔۔
پہلے بات ہونی چاہئے نعمان بن ثابت رحمہ اللہ علیہ کے تعلق سے۔۔۔
امام نسائی فرماتے ہیں!۔
امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ علیہ حدیث میں قوی نہیں ہیں۔۔۔
(کتاب الضعفاء والمتروکین صفحہ ٢٣٣)۔۔۔
میں نے سابق میں جوکچھ کہاتھاایک مرتبہ پھر سے اسے دوہرانابہت مناسب ہوگا۔
حرب بن شداد صاحب!کب کس وقت کیابات کہہ دیں گے بتانامشکل ہے۔ وہ موضوع سے الگ موضوع چھیڑیں گے اورپھر نصیحت بھی کریں گے کہ موضوع سے باہر نہیں جاناچاہئے۔ یہ کہناتومشکل ہے کہ یہ کوئی نفسیاتی پیچیدگی ہے یانیٹ کے باافراط استعمال سے کچھ مضراثرات مرتب ہوئے جس کے یہ نتائج ہیں۔
تھریڈ میں پچاس سے زائد حدیثیں لکھ کریہ کہاگیاکہ احناف ان حدیثوں کو نہیں مانتے قابل عمل نہیں سمجھتے اورتاثر یہ دیاگیاکہ حدیث کی مخالفت کرتے ہیں۔اس پر مخالفت حدیث کا حدوداربعہ دریافت کیاگیا جس کی تشریح ووضاحت کی کسی کوتوفیق نہیں ہوئی۔
حرب بن شداد صاحب سے پرانی جان پہچان ہے اس لئے ان کے طبعیت ومزاج کے بارے میں جانکاری ہوتے ہوئے بھی جس کا اظہار بھی ماقبل میں کیاجاچکاہے یہ امید نہیں تھی کہ وہ دوران بحث اس سطح پر آجائیں گے۔ جوبالترتیب شاہد نذیر اورکفایت اللہ صاحبان کو زیباہے ۔ جوتھوڑی سے خوش گمانی باقی تھی وہ بھی اس مراسلہ کےبعد جاتی رہی۔
خوش گمانی یاخوش فہمی ختم ہونے کی وجہ یہ نہیں ہے کہ انہوں نے امام ابوحنیفہ پرنقد کو نقل کیاہے بلکہ اس خوش فہمی کے ختم ہونے کی وجہ یہ ہے ان کایہ مراسلہ ’’مارے گھٹناپھوٹے سر‘‘کاشاہکار ہے۔
سوال تویہ تھاکہ ’’مخالفت حدیث‘‘ کیاہے؟ اس کا حدود اربعہ کیاہے۔ اس کی تعریف کیاہے؟وہ کیامعیار اورمیزان ہے جس پر تول کر ہم کہہ سکیں کہ اس نے حدیث کی مخالفت کی اوراس نے حدیث کی مخالفت نہیں کی۔
اس سوال کا جواب دینے کے بجائے (جس میں کچھ کتابوں کے دیکھنے اورمطالعہ کرنے کی زحمت اٹھانی پڑتی لہذا اس زحمت سے بچنے کیلئے)انہوں نے بحث کو ایک نیارخ دینے کی شروعات کی ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ پر کتب جرح وتعدیل میں منقول جروحات نقل کی جائیں۔
سوال یہ ہے کہ اگر بالفرض یہ ثابت ہوگیاکہ امام ابوحنیفہ روایت حدیث میں ضعیف ہیں مجروح ہیں۔ تواس سے مخالفت حدیث کا کیاتعلق ہے؟۔ کتنے محدثین اوراجلہ فقہاء ایسے ہیں جو روایت حدیث میں کمزور ہیں توکیاوہ حدیث کے مخالف ٹہریں گے؟اگرانہیں یہ شوق ہے کہ امام ابوحنیفہ کو ضعیف فی الحدیث قراردیاجائے تو وہ اس کیلئے پورے طورپر آزاد ہیں کیونکہ جمہوریت ہرایک کو اپناذفلی بجانے کاحق دیتی ہے آپ کی مرضی جتنے زور سے ڈفلی بجائیں لیکن اسی کے ساتھ جمہوریت کا ایک دوسراحق بھی توملحوظ خاطر رہے کہ دوسرے کے تھریڈ کو خواہ مخواہ کی بحث سے خراب نہ کریں۔
آپ بصدشوق امام ابوحنیفہ کے تعلق سے کتب جرح وتعدیل کے اقوال نقل کریں لیکن اس تھریڈ میں نہیں کیونکہ اس کا موضوع سے کوئی تعلق نہیں ہے اوراگرآپ کو کوئی تعلق دکھتاہے تو وہ واضح کردیں۔
اب اگرآنجناب کے خیال مبارک میں یہ بات ہوکہ کچھ ’’صالحین‘‘نے ان پر مخالفت حدیث کا الزام عائد کیاہے توواضح رہے کہ ان کایہ الزام محض الزام ہی ہے انہوں نے بھی مخالفت حدیث کاکوئی معیار مقرر نہیں کیا لہذا یہ الزام بھی اسی قابل ہے کہ ردی کی ٹوکری کی نذر کی جائے یاپھر نذرآتش ہی کردی جائے۔ کیونکہ بہرحال یہ ایک امتی کا قول ہے اورامتی کا قول جب دلائل سے مزین نہ ہوتو ردی کی ٹوکری میں ڈالنے کے قابل ہے۔ یہ اصول توآپ کاہے اپنے اصول کی پاسداری کا بھرم تورکھ لیجئے اور وہ طرفہ تماشامت کیجئ کہ جب دلائل پر بات ہوتوشخصیات کی جانب بھاگیں کہ فلاں نے یہ کہافلاں نے وہ کہااورجب شخصیات ہی کے تعلق سے گفتگو ہو تودلائل کی طرز زقندیں اورچھلانگیں لگانی شروع کردیں۔

دورنگی چھوڑدے یک رنگ ہوجا
سراپاسنگ ہویاموم ہوجا​

ویسے مخالفت حدیث پر گفتگو کرناچاہیں تواب بھی راہ کھلی ہوئی ہے اوراگریوں ہی بحث برائے بحث کرنی ہے تو پھر آپ کوبھی کچھ کام ہوں گے؟
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,332
پوائنٹ
180
مام اہل الرائے۔۔۔
جو اپنے استادوں کے مسائل اور قواعد کی بناء پر استخراج مسائل کرے وہ کون کہلائے گا؟؟؟۔۔۔
وہی جو آج احناف کہلاتے ہیں۔۔۔
لہذا تقلید کیسے غلط ہوگی۔۔۔ جو خود امام صاحب کا طریقہ تھا۔۔۔
اور اس تھریڈ میں یہ ثابت کرنا چاہا کہ کہ احناف حدیث کی مخالفت کی وجہ سے صحیح حدیث کی مخالفت کرتے ہیں ۔
لہذا اس موضوع پر کچھ ثابت کرنے کی کیا ضرورت ہے۔۔۔
جناب جب کسی بحث کو خود سمجھ لیں تو اسے لکھاکریں خواہ مخواہ کنفیوژن میں مبتلاہونے اورمبتلاکرنے کی ضرورت کیاہے۔ اس اقتباس سے واضح ہوتاہے کہ چیزیں خود آپ کے ذہن میں واضح نہیں ہیں لیکن کچھ لکھناضروری تھااس لئے یہ پوسٹ یامراسلہ لکھ مارا۔
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,332
پوائنٹ
180
اگر ہم تاریخ ابن خلدوں کی جلد ١ صفحہ ٣٧١ کی عبارت دیکھیں۔۔۔
امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ علیہ۔۔۔ کی نسبت کہا گیا ہے اُن کو ستر حدیثیں پہنچی ہیں۔۔۔
یہ الزام عمومالگایاجاتارہاہے اوراس کا سہرابھی عمومی طورپر اہل حدیث حضرات کے ہی سر ہے۔ لیکن اس کی مثال لاتقربواالصلوۃ وانتم سکاری کے طرز کی ہے کہ کوئی لاتقربواالصلوۃ کو رٹتارہے اوروانتم سکاری کو حذف کردے ۔
ابن خلدون نے یہ بات دفاع کیلئے نقل کی ہے کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ امام ابوحنیفہ کو صرف سترہ حدیثیں پہنچی تھیں امام مالک کو صرف اتنی ہی حدیثیں معلوم تھیں جو موطا میں درج ہیں پھر آگے اسی بحث میں اس قول کے قائلین پر نقد کیاکہ ائمہ عظام اورمجتہدین کرام کے حق میں ایسی بات کہنامناسب نہیں کیونکہ ان سے جس کثرت سے فتاوی منقول ہیں وہ اس الزام کے دفع کیلئے بہتر ثبوت اورشاہد عدل ہیں۔
ویسے اگریہ مان لیاجائے کہ امام ابوحنیفہ کو صرف سترہ حدیثیں پہنچی تھیں توپھر ان سے منقول مسائل اورفتاوی کو دیکھ کریہ کہنا پڑے گاکہ صحابہ کرام کے بعد امت میں ان سے بڑاکوئی فقییہ نہیں ہوا۔
کیونکہ وہ واقعہ ملحوظ رہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود نے مہرمثل کا ایک فتوی اپنی رائے سے دیاپھربعد میں اس رائے کی تائید میں حدیث مل گئی تو اتناخوش ہوئے کہ اسلام کی دولت کےبعد کبھی اتناخوش نہیں ہوئے تھے۔
اب سوچئے کہ جس شخص کو صرف سترہ حدیثیں پہنچی ہوں اورسینکڑوں مسائل میں اس کا فتوی حدیث کے مطابق ہواہو اس کی عظمت اورفقاہت کو کون پہنچ سکتاہے اس کی بلندی مرتبت اوررفعت قدر کی برابری کون کرسکتاہے

تاریخ اسلام میں ہے کوئی شخص!اگرہے توپیش کریں جس کو صرف سترہ حدیثیں پہنچیں ہوں اوراس کے باوجود اس کثرت سے اس کی رائے احادیث کے موافقت میں ہو۔
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,332
پوائنٹ
180
مگر محل نزاع تقلید شخصی کے وجوب سے مراد ایک مذھب کے مفتی سے استفتاء کا وجوب ہے-
اب اگر صحیح طورپر سمجھناچاہ رہے ہوں تواس میں انشاء اللہ کوئی اشکال نہیں ہوگا۔

کچھ چیزیں لعینہ ہوتی ہین اورکچھ چیزیں لغیرہ

کچھ وجوب ایسے ہوتے ہیں جوبذاتہ واجب ہوتے ہیں اورکچھ وجوب ایسے ہوتے ہیں جس میں خارجی عوامل کا دخل ہوتاہے۔ شریعت میں اس کی مثالیں کم نہیں ہیں اورفقہاء مجتہدین کے ارشادات اس سلسلے میں صریح ہیں۔

اصول فقہ میں ایک چیزجلت منفعت اوردفع مضرت کاہے۔ یعنی جس چیز سے بھی جلب منفعت ہو وہ پسندیدہ اورمستحب اورواجب ہوگی اورجس چیز سے بھی دفع مضرت وابستہ ہو وہ اپنے اعتبار سے مکروہ مکروہ تنزیہی ،تحریمی اورحرام ہوگی۔ اسی طرح فقہ میں ایک اوراصول سدذرائع کاہے۔ یعنی وہ طریقہ کار جو کسی حرام اورناجائز امور کا ذریعہ بنتاہو تواس ذریعہ کوبھی بند کیاجائے گا۔ اگرچہ بذاتہ چیز درست ہو ۔

اب اس پرغورکیجئے کہ عامی شخص ایک ہی مسلک کے مفتی سے فتوی طلب کرے یاہرمسلک کے مفتی سے فتوی طلب کرے اس کے حق میں تودونوں برابر ہیں کیونکہ دلائل کی تحقیق تواس کے ذمہ ہے ہی نہیں ، وہ توصرف اس کا پابند ہے کہ عالم سے مسئلہ پوچھ کر عمل کرے فاسئلوااہل الذکر۔

ہاں فقہاء کرام نے اس کو کیوں ضروری قراردیاہے کہ عامی کسی ایک مسلک کے علماء اورمفتیاں سے مسئلہ طلب کرے تواس کی وجہ زمانہ کے تغیرات اورلوگوں کے مزاج میں فساد کا وقوع اورفسق وفجو کی کثرت ہے۔


حضرت عائشہ صدیقہ نے اپنے زمانہ کی عورتوں کی حالت دیکھ کر کہاتھاکہ اگررسول پاک باحیات ہوتے تو عورتوں کومسجد میں جانے سے منع کردیتے۔ یہ زمانی تغیر کی ایک مثال ہے۔ فقہاء کرام نےاسی زمانی تغیر کو دیکھ کرکہاہے کہ عامی کسی ایک ہی مسلک والے سے فتوی حاصل کرے۔ کیونکہ اگرعامیوں کو آج یہ رخصت دے دی جاتی ہے کہ وہ جس مسلک والے سے چاہیں فتوی پوچھ کر عمل کریں تودیکھیں کیسی ہڑبونگ مچتی ہے!کیونکہ جس کو جس مسئلہ میں جس کے یہاں آسانی ملے گی اس پر عمل کرے گا۔


فقہاء کرام کے ارشادات کتابوں میں منقول ہیں کہ اگرکوئی شخص مباشرت میں اہل مدینہ، صرف کےمعاملہ میں اہل مکہ اورنبیذ کے معاملہ میں اہل کوفہ کے مسلک پر عمل کرے گا تو وہ دین سے ہاتھ دھوبیٹھے گا۔ اوراسی مفہوم کے بہت سے ارشادات ہیں جس کا مطلب صاف واضح ہے کہ اگرکوئی رخصتوں کا متلاشی ہو اورایسے مسائل چن چن کر جمع کرلے اورعمل کرے جہاں اس کوآسانی نظرآرہی ہو تو وہ پھر دین چوں چوں کا مربہ بن جائے گااوراحکام الہی کھیل وتماشابن جائیں گے۔

آج اگرکوئی ابن حزم کا موسقی کے سلسلے میں اورالبانی کا پردے کے سلسلے میں اوراسی طرح کچھ دیگر شاذ رایوں پر عمل کرے تواس کو آپ کیاکہیں گے ؟یقین رکھیں کہ عامیوں کو ہرایک سے فتوی طلب کرنے کی آزادی دینے میں ایسے بلکہ اس سے بھی کچھ زیادہ مفاسد چھپے ہوئے ہیں۔

خدالگتی کہئے گاکہ جولوگ احناف میں سے یاشوافع اورمالکیہ میں سے طلاق ثلاثہ کے بعد ابن تیمیہ کے فتوی پر عمل کرتے ہیں اس میں کتنے لوگ ایسے ہیں جو دلائل کا موازنہ کرتے ہیں اورکتنے لوگ ایسے ہیں جو محض آسانی اورشرمندگی سے بچنے کیلئے ایساکرتے ہیں ۔ میری رائے ہے اورذمہ دارانہ رائے ہے کہ سو میں شاید ایک بھی شخص ایسانہیں ہوگاکہ طلاق ثلاثہ کے وقوع کے بعد اس مسئلہ کی تحقیق کرتاہو اوراس کے بعد دلائل کے رجحان اورمضبوطی کو دیکھ کر تین طلاق کو ایک طلاق مانتاہو بلکہ سومیں سے شاید ١٠٠فیصد افراد ایسے ہوتے ہیں جو بس شرمندگی سے بچناچاہتے ہیں اورجوکچھ کرگزرے ہیں اس کے متوقع نتائج سے جان چھراناچاہتے ہیں لہذا وہ اہل حدیث مفتی کے پاس پہنچ جاتے ہیں۔


ہاں اگرآپ کا خیال ہے کہ سبھی لوگ نہایت نیکوکار اورطبعیت ومزاج کے صالح ومتقی ہیں تو پھرآپ آزاد ہیں اپنی رائے میں لیکن خارجی دنیا کے حالات آپ کی رائے کی تائید نہیں کریں گے اور اسی بناء پر اپنی رائے بھی فقہاء کرام کے ساتھ ہے۔ والسلام
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,332
پوائنٹ
180
آپ نے سابق میں جوکچھ کہاتھا وہ یہ تھا
میری رائے میں ایک اختلاف دونوں طرف مساوی دلائل کی بناء پر ہوتا ہے- دوسرے میں دلائل غیرمساوی ہوتے ہیں- دوسرے کی مثال میں عرض ہے کہ حنفیہ دوسری اور تیسری رکعت میں فرائض میں بھی فاتحہ کے وجوب کے قائل نہیں- نہ امام کیلئے نہ مقتدی نہ مفرد کیلئے- اس کی کیا وجہ ہے ؟جماعتوں میں یہ مسئلہ سکھایا جاتا ہے اور سفر کے دوران تبلیغی ساتھی اس پر عمل پیرا بھی رہتے ہیں- اسے حدیث کی مخالفت کا عنوان دیے بغیر ٹھنڈے ماحول میں زیر بحث لائیں-
اورجوحوالہ پیش کیاہے وہ تیسری اورچوتھی رکعت کا ہے ۔
شاید ماقبل میں لکھنے میں غلطی ہوگئی ہوگی آپ تیسری اورچوتھی لکھناچاہ رہے ہوں گے اورسرعت کی بورڈ(ابتسامہ)سے دوسری اورتیسری ہوگیاہوگا۔ اس سوال کو پوچھنے کا مقصد یہ تھاکہ اگرواقعتاآپ سے لکھنے میں غلطی ہوئی ہے تو اپنی غلطی پر متنبہ ہوجاتے لیکن اپنے حالیہ مراسلہ میں آپ نے اپنی اس غلطی اورفروگزارشت کے احساس واعتراف کی جانب کچھ بھی اشارہ نہیں کیا ۔
اگرجوحوالہ پیش کیاہے اور وہی موقف آپ کابھی ہے۔ کہ تیسری اورچوتھی رکعت میں اگرسورہ فاتحہ نہ پڑھنے کی بات مخالفت حدیث ہے تو براہ کرم پہلے یہ واضح کردیں کہ اسلاف میں جولوگ مطلقا سورہ فاتحہ کے وجوب یافرضیت کے قائل نہیں تھے ان کو آپ کیاکہیں گے یاجواجلہ علماء اس مسئلہ میں احناف کے ہم زبان ہیں ان کو کیاکہیں گے مخالف حدیث؟
اگربات اتنی ہو کہ اس مسئلہ میں یاان مسائل میں احناف کے دلائل کمزور ہیں تو ہمیں کسی قسم کی گزارش اوراپناقیمتی وقت ضائع کرنے کی کوئی ضرورت پیش نہ آئے لیکن جب ذہن وفکر کی تنگی اس درجہ بڑھ جائے اورعقل ونظر کا افلاس اس سطح کو پہنچ جائے کہ علمی اختلاف کو مخالفت حدیث کا عنوان دیاجانے لگے توقیمتی وقت لگاناہی پڑتاہے اوراس احساس کے ساتھ لگاناپڑتاہے کہ شاید اس مشارکت کسے کسی ناواقف کی گمراہی دور ہو اور وہ اس مسئلہ میں صحیح اورحق بات جان سکے۔
لہذاآپ سےگزارش ہے کہ اس مسئلہ کو آپ علمی اوراجتہادی اختلاف مانتے ہیں یاپھر مخالفت حدیث!اورقائلین کو مخالفین حدیث؟
اگرآپ اسے علمی اختلاف اوراجتہادی خطاء تک محدود رکھیں تو راقم الحروف اس پر عرض ومعروضات کیلئے تیار ہے؟اوراگرآپ اسے مخالفت حدیث سمجھتے ہیں توراقم الحروف آپ سے یہ ضرور جانناچاہے گاکہ مخالفت حدیث کا تصور آپ کے نزدیک کیاہے اورمخالفت حدیث کا معیار کیاہے پھراسی پر بات آگے بڑھے گی۔
اپناموقف ضرور واضح کیجئے؟
 
شمولیت
دسمبر 28، 2011
پیغامات
153
ری ایکشن اسکور
420
پوائنٹ
57
۱۔ تیمّم میں صرف ایک مرتبہ صاف مٹی پر ہاتھ مار کر صرف منھ اور یاتھوں کا مسح کرنا ہے ۔ ( بخاری )
۲۔ وضو کے فرائض میں نیت اور ترتیب بھی شامل ہے ۔ (قرآن و بخاری )
۳۔ وضو میں پورے سر کا مسح ہے ۔ ( قرآن )

۴۔ فجر کی سنتوں کے بعد لیٹنا ، تھوڈی دیر کیلئے سنت ہے ۔ ( بخاری )
۵۔ ظہر سے پہلے دو رکعت بھی سنت سے ثابت ہے ۔ ( بخاری )
۶۔ تہجد و تراویح ایک ہی نماز ہے ۔ ( بخاری )
قارئیں مزکورہ ۵۰ مسائل کتب احادیث سے ثابت ہیں لیکن حنفی دیوبند ان مسائل کو قابل عمل نہیں سمجھتے !!!!
غیر مقلدین کی دو رخی(آئینہ)

ویسے تو ہزاروں احادیث پیش کی جا سکتی ہیں جن پر غیر مقلدین عمل نہیں کرتے بلکہ ان احادیث کی بخوشی مخالفت کرتےرہتے ہیں بطور مثال ہم دوچار کے ذکر پر اکتفا کرتے ہیں

١-صحیح ترین احادیث سے کھڑے ہو کر پیشاب کرنا ہی ثابت ہے ( بخاری و مسلم)
٢- جوتوں سمیت نماز ادا کرنا صحیح ترین احادیث سے ثابت ہے۔ (بخاری و مسلم)
٣- بچی گود میں اٹھا کر نماز پڑھنا صحیح ترین احادیث سے ثابت ہے۔ ( بخاری و مسلم)
٤- ایک کپڑے میں نماز پڑھنا صحیح ترین احادیث سے ثابت ہے۔ ( بخاری باب الصلوٰہ فی ثوب واحد)
امید ہے آج کے بعد غیر مقلدین حضرات اگرہزار نہیں تو کم از کم ان چار صحیح ترین احادیث پر ضرور عمل کریں گے اور اپنے بزرگوں اور بچوں کو ان پر عمل کا پابند کریں گے

احناف کی حقا نیت

احناف پہلے قرآن پر عمل کرتے ہیں
پھر سنت پر عمل کرتے ہیں
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی حکم یہی ہے کہ میری سنت پر عمل کرو
علیکم بسنتی (حدیث)
کشمیری بھائی نے پوسٹ میں ٤٨ مسائل حدیث کے لکھے ہیں۔ اور اس بات کا اقرار ہمیں بھی ہے کہ یہ احادیث تو ہیں لیکن سنت نہیں ہیں۔ جبکہ احناف اہل سنت ہیں اور ان ٤٨ مسائل کے مقابلے میں ہم نےسنت پر عمل کرنا ہے جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے۔ ہاں اگر غیر مقلدوں نے اہل حدیث ہی بننا ہے سنت پر عمل نہیں کرنا تو ہم حدیث پر عمل کرنے میں آپ کی مدد کر سکتے ہیں۔ بلکہ مندرجہ بالا احادیث اس ضمن میں پہلا ہدیہ سمجھ کر قبول کر لیں۔

مطالبہ


کشمیری بھائی نے مسائل نمبر ٢ اور ٣ کو قرآن کے مسائل بتایا ہے۔ اس پر ہمارا ان سے مطالبہ ہے
١۔ قرآن کی وہ آیت پیش کریں جس میں لکھا ہو کہ نیت وضو کے فرائض میں سے ہے
٢۔ قرآن کی وہ آیت بھی پیش کریں جس میں لکھا ہو کہ وضو کو ترتیب سے ادا کرنا وضو کے فرائض میں شامل ہے۔
٣۔ قرآن کی وہ آیت پیش کریں جس میں صراحت ہو کہ وضو میں پورے سر کا مسح ہو۔(واضح رہے کہ صرف سر کا مسح نہیں بلکہ مکمل سر کو پورے کا پورامسح کرنا بلصریح مذکور ہو)

امید ہے کشمیری اور دیگر غیر مقلدین ہماری مدد فرماکر ثواب دارین کو موقع نہیں جانے دیں گے
والسلام
 
Top