• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ٹوپی

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,591
پوائنٹ
791
یعنی کہ ۔۔۔ دوسرے الفاظ میں ۔۔۔۔ محدثین/مصنفین کا رویہ/عمل حجت ہے اور حسن اخلاق سے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جو سینکڑوں فرامین اور تنبیہات ہیں وہ قابل نظرانداز ہیں؟
یا پھر یہ کہنا زیادہ بہتر ہے کہ دعوت و تبلیغ کے بعض معاملات میں مبلغین کو اپنے نفس کی آزادی حاصل ہے۔ ہر معاملے میں اسوہ حسنہ پر عمل ضروری نہیں کیونکہ ایسا رویہ محدثین یا بعض مذہبی پیشوائیان سے بھی ثابت ہے۔
السلام علیکم :محترم !
آپ اس رویہ اور انداز کے بنیادی محرک اور سبب کو پتا نہیں کیوں نظر انداز کر رہے ہیں ،
جن دو اصحاب کے بارے مذکورہ رویہ یا انداز اپنایا گیا ،ان میں سے ایک بزرگ کا کہنا تھا کہ "غیر مقلد " تقیہ باز ہوتے ہیں ،لھذا ان کا اعتبار نہ کرنا چاہیے ؛
اور دوسرے کا کہنا۔۔۔۔۔ کہاں تک سناؤں ؟ ان کا تکیہ کلام شریف کا عنوان ہی یہی تھا کہ"اہل خبیث "یوں کہتے ،یوں کرتے ہیں
،اب اگر ردعمل میں کوئی کچھ کہہ دے ،تو ساری ذمہ داری اس پر ڈالنا انصاف تو نہیں ،،
آدمی جتنا بھی شریف ہو ،جب آپ اسے دیوار لگائیں گے ،تو وہ کہنے پر مجبور ہوگا "ألا لا يجهلن أحد علينا
اور خالق علیم کا کہنا ہے ،(لَا يُحِبُّ اللَّهُ الْجَهْرَ بِالسُّوءِ مِنَ الْقَوْلِ إِلَّا مَنْ ظُلِمَ )
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,591
پوائنٹ
791
نمونہ اخلاق بزرگانہ :
وأما المذاهب فأهل الحق منهم أهل السنة والجماعة المنحصرون بإجماع من يعتد بهم في الحنفيةوالشافعية والمالكية والحنابلة وأهل الهواء منهم غير المقلدين الذين يتبعون اتباع الحديث وأني لهم ذلك.
يعنی مذاہب میں اہل حق تو اہل سنت والجماعت ہیں۔جو اجماعاً چار گروہوں میں منحصر ہیں حنفیہ ،شافعیہ ،مالکیہ، اور حنابلہ،، اور اہل ہوا (گمراہ) غیرمقلدین ہیں۔ جو اتباع حدیث کا دعوی کرتے ہیں حالانکہ اتباع حدیث ان کو کہاں سے حاصل ہوسکتی ہے۔ مولانااشرف علی تھانوی کی یہ ہے بزرگی ! اہل حق کو گمراہ کہہ کر آپ اہل حق بنتے ہیں۔
http://www.urdufatwa.com/index.php?/Knowledgebase/Article/View/551/318/
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
عرف عام میں سنت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ مبارک کو کہا جاتا ہے اور سر کو ڈھک کر رکھنا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا عمومی طریقہ مبارک تھا۔ یعنی ٹوپی، رومال یا عمامہ سے سر کو ڈھکنا سنت ہے۔

تنبیہ: جو چیز اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے نسبت رکھتی ہو وہ دین یا سنت بن جاتی ہے چاہے وہ کوئی رنگ ہی کیوں نہ ہو۔ جیسے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کالے یا سفید رنگ کا عمامہ باندھا تو اسی رنگ کا عمامہ پہننا اب سنت ہے۔

جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فتح والے دن مکہ میں داخل ہوئے اور آپ نے کالا عمامہ باندھا ہوا تھا۔(صحیح مسلم)
اس حدیث کی شرح میں حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ نے لکھا ہے: کالا عمامہ یعنی کالی پگڑی سنت ہے۔(شمائل ترمذی، ص151)

اسکے برعکس ہرے رنگ کا عمامہ باندھنا سنت نہیں کیونکہ یہ رنگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عمامہ کے لئے کبھی استعمال نہیں فرمایا۔ لیکن ہرے رنگ کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے چادر میں استعمال کیا تو اسی رنگ کی چادر پہننا امت کے لئے سنت بن گیا۔

ابورمثہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا، جبکہ آپ نے وہ سبز چادریں اوڑھ رکھی تھیں۔(سنن ترمذی،نسائی،ابوداود)
اس حدیث کی شرح و فوائد میں محدث عصر حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ نے لکھا: سبز چادر اوڑھنا سنت اور جائز ہے، لیکن سبز عمامے یا سبز ٹوپی کا کوئی صحیح ثبوت میرے علم میں نہیں ہے۔(شمائل ترمذی، ص110)

اس وضاحت سے معلوم ہوا کہ عمامہ پہننا یا سر کو ڈھکنا سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے اور اس پر عمل کار ثواب ہے۔ اور یہی عمامہ یا ٹوپی پہننے کے عمل کے مستحب ہونے کی بھی دلیل ہے۔

چونکہ محمد زبیر صاحب سر کے ڈھکنے کو ایسی سنت نہیں سمجھتے جسے مستحب کہا جاسکے بلکہ سر کے ڈھکنے کو ایک ایسا فعل سمجھتے ہیں جس کے اختیار پر نہ ثواب ہے اور نہ ترک پر عذاب۔ اس طرح یقیناً محمد زبیر صاحب کے نزدیک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حلیہ مبارک (شمائل) میں کوئی ایسی چیز نہیں جس کے اختیار کرنے پر امت کو ثواب ملے۔ جیسے محمد زبیر صاحب کے نزدیک نہ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح کندھوں اور کانوں تک بال رکھنے میں امت کے لئے کوئی ثواب ہے نہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح بالوں کی بیچ کی مانگ نکالنا مستحب عمل ہے۔ اسی طرح نہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح آنکھوں میں سرمہ لگانے، بالوں میں تیل لگانے، چاندی کی انگوٹھی پہننے اور نہ ہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پسندیدہ چیزوں جیسے کدو کھانے، میٹھی چیزیں کھانے، شہد پینے، کندھے کا گوشت کھانے اور کجھور کھانے اور دودھ پینے میں امت کے لئے کسی طرح کا ثواب ہے۔

محمد زبیر صاحب کا یہ نظریہ بذات خود محل نظر ہے جبکہ اہل حدیث علماء کی اکثریت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر فعل پر عمل کو کارثواب اور مستحب ہی سمجھتی ہے الا یہ کہ کسی فعل کی تخصیص ثابت ہو۔

عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم میٹھی چیز اور شہد پسند کرتے تھے۔(بخاری،مسلم)
اس حدیث کی شرح میں حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ نے لکھا ہے: کھانے کے دوران یا بعد میں میٹھی چیز کھانا مستحب ہے۔(شمائل ترمذی، ص192)

ایک مقام پر حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ نے لکھا ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت شدہ ہر حدیث پر عمل کرنے میں ثواب ہی ثواب ہے، الا یہ کہ تخصیص کی کوئی صریح دلیل ہو۔(شمائل ترمذی،ص297)

اس سے معلوم ہوا کہ کسی فعل کے مستحب اور باعث ثواب ہونے کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ فعل نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے۔والحمدللہ


اس سلسلے میں ایک اہم ترین بات نیت کی ہے جیسے کدو کھانے پر نہ کوئی ثواب ہے اور نہ کھانے پر نہ کوئی گناہ ہے لیکن اگر ایک شخص اس نیت سے کدو کھاتا ہے کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ سبزی پسند تھی تو پھر نہ صرف کدو کھانا مستحب ہوجاتا ہے بلکہ اسے کدو کھانے پر ثواب بھی ملتا ہے۔ یعنی جب نیت بدلتی ہے تو حکم بھی بدل جاتا ہے اور یہی حال ٹوپی کا بھی ہے کہ ٹوپی پہننے پر نہ کوئی ثواب ہے اور نہ ترک کرنے پر کوئی گناہ لیکن اگر نیت اتباع سنت کی ہو تو ٹوپی پہننا مستحب اور کار ثواب ہے۔ اور خوشی کی بات تو یہ ہے کہ ہمیشہ ہر مسلمان کی نیت سر کو ڈھکتے وقت اتباع سنت ہی کی ہوتی ہے۔ نیت کی تبدیلی سے حکم کی تبدیلی کا اندازہ اس امر سے لگائیں کہ اگر کسی کو کدو ناپسند ہے تو حرج والی کوئی بات نہیں لیکن یہ علم ہوجانے کے بعد کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کدو پسند تھا اگر کوئی شخص کدو کے بارے میں ناپسندیدگی کا اظہار کرتا ہے تو اس کا حکم بھی بدل جاتا ہے۔ ملاعلی قاری حنفی نے لکھا ہے: اور ابویوسف سے ثابت ہے کہ انھوں نے اس شخص کو کافر قرار دیا، جس نے یہ معلوم ہونے کے بعد کہ ’’نبیوں کے سردار اسے پسند کرتے تھے‘‘ یہ کہا، میں کدو کو پسند نہیں کرتا۔(الردعلی القائلین بوحدۃ الوجود،ص155)

صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اجمعین کا نظریہ بھی محمد زبیر صاحب کے نظریہ کے خلاف تھا۔ صحابہ کرام نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے چھوٹے سے چھوٹے فعل پر عمل کو بھی سعادت سمجھتے تھے جس پر ثواب کی امید بھی رکھتے تھے۔ کئی صحابہ سے ثابت ہے کہ وہ سفر کے دوران سواری روک کر بغیر کسی حاجت کے ایک مخصوص جگہ بیٹھ جاتے تھے اور پھر اٹھ جاتے تھے، پوچھنے پر بتاتے تھے کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر پر تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسی جگہ رفع حاجت کے لئے بیٹھے تھے اسی لئے انہوں نے بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں ایسا ہی کیا۔ اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں ثواب ہے اور یقیناً ہے تو صحابہ کو بھی اس فعل پر اجر ملے گا اور اسی پر قیاس کرتے ہوئے اگر کوئی سر کو ٹوپی، عمامہ یا رومال سے اس لئے ڈھکتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اکثر معمول سر کو ڈھکنے کا تھا تو اسے کیوں ثواب نہیں ملے گا؟؟؟؟ اور ٹوپی یا عمامہ سے سر کو ڈھکنے کا عمل مستحب کیوں نہ ہوگا؟؟؟

محمد زبیر صاحب کے تحقیقی مضمون کے رد کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ ہر مسلمان جب ٹوپی لگاتا ہے تو اس لئے نہیں کہ یہ کوئی خاندانی رسم ہے یا معاشرہ کا رواج ہے یا کوئی ضرورت ہے بلکہ صرف اور صرف اس لئے کہ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ مبارک ہے۔ پس اس نیت اور سوچ پر ایک مسلمان کا ٹوپی لگانے کا فعل مستحب قرار پاتا ہے اور وہ اتباع سنت کے جذبہ کی وجہ سے اس کا یہ عمل ثواب سے ہرگز خالی نہیں۔


لغو ایسی باتوں اور ایسے افعال کو کہا جاتا ہے جن کے کرنے پر نہ ثواب ہو اور نہ انہیں چھوڑنے پر کوئی عذاب یعنی بے فائدہ اور فضول کام۔
بے فائدہ اور فضول کام کو شریعت ناپسند کرتی ہے اور ایسے افعال کرنے سےمسلمان کو روکتی ہے۔

’’حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا ’’انسان کے اسلام کی خوبی اس کا لایعنی (لغو) باتوں سے بچنا ہے۔‘‘ (جامع ترمذی)

محمد زبیر صاحب کی ٹوپی کے بارے میں جو رائے ہے یعنی اس کے پہننے میں کوئی ثواب نہیں اور اتارنے میں کوئی عذاب نہیں۔ اسکے مطابق تو ٹوپی پہننے کا عمل لغو قرار پاتا ہے جس کو شریعت چھوڑ دینے کا حکم دیتی ہے۔ محمد زبیر صاحب کو چاہیے کہ نہ صرف خود ٹوپی پہننے کے اس فضول عمل کو ترک کریں جو شریعت کی نگاہ میں ناپسندیدہ ہے بلکہ دوسروں کو بھی ٹوپی پہننے سے باز رہنے کی تلقین کریں آخر امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ بھی تو علماء ہی نے انجام دینا ہے۔

ٹوپی پہننے کو ثواب نہ سمجھنے کا نظریہ باطل ہے کیونکہ اس سے ٹوپی پہننا لغو، فضول اور لایعنی فعل قرار پاتا ہے اور یہ عمل نبی کا بھی ہے اور نبی کا کوئی عمل کبھی لغو، فضول اور لایعنی نہیں ہوتا۔
السلام علیکم و رحمت الله -

محترم - اس لحاظ سے دیکھا جائے تو نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم نے تو کبھی مسلسل تین دن پیٹ بھر کر کھانا تناول نہیں کیا - کیا آج تک کسی مسلمان نے اس معاملے میں نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم کی پیروی کی ہے ؟؟؟

آپ صل الله علیہ و آ له وسلم کے پاس پہننے کے صرف دو جوڑے تھے ؟؟ - کیا آج تک کسی مسلمان نے اس معاملے میں مجبوری نہیں اختیاری طور پر نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم کی پیروی کی ہے ؟؟؟

تو پھر آخر ٹوپی پر ہی زور کیوں؟؟ -

نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ وسلم کا لباس قمیض اور لنگی تھا (شلوار قمیض نہیں)- تو پھر ٹوپی پہننے پر زور دینے والوں کی اکثریت لنگی کیوں نہیں پہنتی -؟؟؟شلوار قمیض کیوں پہنتی ہے ؟؟؟
 
شمولیت
ستمبر 13، 2014
پیغامات
393
ری ایکشن اسکور
277
پوائنٹ
71
کھانا نہ کھانے یا عسرت کی وجہ سے کسی معاملے کا نہ ہونا ایک اور معمالہ ہے کیا اللہ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آسانی کے ایام میں بھی کھانا ملنے کے باوجود کھانا نہیں کھایا؟؟؟
باقی عمل کیلئے آپ کو عرض ہے کچھ لوگ ہیں اسیے جو صرف کھجور اور پانی پر سارا دن گزارتے ہیں کہ دیکھیں تو سہی اسلاف کیسے دن گزارتے تھے کیا احساسات ہوتے ہیں
ایسے ہی لباس کے معاملات بھی ہیں
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
یوسف بھائی! اگر یہ پابندی شرع شریف کی جانب سے نہیں ہے، تو کتاب و سنت کی ترویج کے داعی اس فورم کے اپنے قواعد و ضوابط کہاں سے ماخوذ ہیں پھر۔۔۔یہ ایک سوال ہے۔
مجھے لگتا ہے، یہ ایک علمی مغالطہ ہے، جس پہ اربابِ اختیار قائم رہنا ہی پسند فرمائیں گے۔
بہرحال فورم اُن کا، فہم اُن کی اور قواعد و ضوابط بھی انہی کے۔
برسبیل تذکرہ۔۔یونیورسٹی میں ہمارے شعبہ کے ڈین بخاری صاحب فرمایا کرتے تھے :
I make the rules..................I break the rules
:)
ڈاکٹر ذاکر نائیک کہتے ہیں کہ ہمارے اسلامی اسکول میں مخصوص رنگ و ڈیزائن کا لباس پہننا ہر طالب علم کے لئے ”فرض“ ہے۔ گو کہ یہ یونیفارم ”دین اسلام“ میں فرض نہیں ہے۔ اور ہمارا ایسا کرنا شریعت کے کسی ضابطہ کے خلاف بھی نہیں ہے کہ ہم کسی حرام کو فرض نہیں کر رہے۔ آپ کی یونیورسٹی میں بھی ایسے کئی ”فرائض“ ضرور ہوں گے، جن کی آپ لازماً پابندی کرتے ہوں گے، حالانکہ اسلام میں وہ ”ضابطے“ فرض نہیں ہیں۔ ابتسامہ
 

حیدرآبادی

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2012
پیغامات
287
ری ایکشن اسکور
500
پوائنٹ
120
السلام علیکم :محترم !
آپ اس رویہ اور انداز کے بنیادی محرک اور سبب کو پتا نہیں کیوں نظر انداز کر رہے ہیں ،
جن دو اصحاب کے بارے مذکورہ رویہ یا انداز اپنایا گیا ،ان میں سے ایک بزرگ کا کہنا تھا کہ "غیر مقلد " تقیہ باز ہوتے ہیں ،لھذا ان کا اعتبار نہ کرنا چاہیے ؛
اور دوسرے کا کہنا۔۔۔۔۔ کہاں تک سناؤں ؟ ان کا تکیہ کلام شریف کا عنوان ہی یہی تھا کہ"اہل خبیث "یوں کہتے ،یوں کرتے ہیں
،اب اگر ردعمل میں کوئی کچھ کہہ دے ،تو ساری ذمہ داری اس پر ڈالنا انصاف تو نہیں ،،
آدمی جتنا بھی شریف ہو ،جب آپ اسے دیوار لگائیں گے ،تو وہ کہنے پر مجبور ہوگا "ألا لا يجهلن أحد علينا
اور خالق علیم کا کہنا ہے ،(لَا يُحِبُّ اللَّهُ الْجَهْرَ بِالسُّوءِ مِنَ الْقَوْلِ إِلَّا مَنْ ظُلِمَ )
وعلیکم السلام
سبحان اللہ
حضور آپ 100 بار ردعمل ظاہر کریں ، ہمیں بھلا کیا اعتراض ہو سکتا ہے؟
ہم تو صرف اتنا جانتے ہیں کہ "اہل حدیث" کی خاصیت یہی ہے کہ وہ عمل ہو یا ردعمل ہر معاملے میں حدیث پر عمل کرتے ہیں نہ کہ اقوال رجال یا اعمال رجال کی تقلید۔
یہی تو آجکل ہو رہا ہے کہ ہر فرقہ اپنے آپ کو "مظلوم" مان کر اسی آیت کو اپنے عمل/ردعمل کی دلیل بنا رہا ہے۔ مسلمانوں کا کونسا ایسا طبقہ/فرقہ/مسلک ہے جس کے نمائندگان نے اپنی کتب میں مخالفین کی کردارکشی تہمت طرازی مغلظات انگیزی نہ کر رکھی ہو؟

ایک صاحب نے تو تاویل کی حد ہی کر دی، اللہ انہیں ہدایت دے کہ جو مفہوم شارحین نے بیان نہیں کیا وہ اس حدیث مبارکہ کو اپنے خودساختہ معنی پہنا رہے ہیں۔
جس حدیث میں یہ فقرہ ہے : "بِئْسَ أَخُو الْعَشِيرَةِ، وَبِئْسَ ابْنُ الْعَشِيرَةِ"
اسی حدیث کے آخر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں :
اے عائشہ! کیا تم نے کبھی مجھے بدزبانی کرتے دیکھا ہے؟ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے برا آدمی وہ ہوگا جس کی بدزبانی کی وجہ سے لوگ اس سے ملنا ترک کردیں۔

کسی کو "اپنے قبیلے کا برا آدمی" کہنے اور کسی کا باقاعدہ نام لے کر اسے کذاب اور دجال کا لقب دینے میں اگر حقیقتاً کسی کو کوئی فرق نظر نہیں آتا تو پھر ایسے لوگوں کے سامنے اس آیت
إِذَا خَاطَبَهُمُ الْجَاهِلُونَ قَالُوا سَلاَمًا
کو پڑھ کر رخصت ہو جانا ہی بہتر عمل ہے۔
لہذا ۔۔۔ السلام علیکم !!
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,014
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
کسی کو "اپنے قبیلے کا برا آدمی" کہنے اور کسی کا باقاعدہ نام لے کر اسے کذاب اور دجال کا لقب دینے میں اگر حقیقتاً کسی کو کوئی فرق نظر نہیں آتا تو پھر ایسے لوگوں کے سامنے اس آیت
إِذَا خَاطَبَهُمُ الْجَاهِلُونَ قَالُوا سَلاَمًا
کو پڑھ کر رخصت ہو جانا ہی بہتر عمل ہے۔
لہذا ۔۔۔ السلام علیکم !!
یہ بہت آسان طریقہ فرار ہے کہ ہر شخص اپنے مخالف کو جاہل کہہ کر سلام کرکے رخصت ہوجاتا ہے۔ ہر ایک کی نظر میں اس سے اختلاف کرنے والا شخص جاہل اور مذکورہ بالا آیت کا مصداق ہے لہذا اب اس بات کی بھی تحقیق کرنی پڑے گی کہ قرآنی آیت کا صحیح مصداق جو جہالت پر پورا اترتا ہے کون ہے تاکہ اس تحقیق شدہ جاہل سے کبھی بحث ہی نہ کی جائے اور اس کی ہر بحث کے جواب میں سلام کرکے رخصت چاہی جائے۔
 

حیدرآبادی

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2012
پیغامات
287
ری ایکشن اسکور
500
پوائنٹ
120
یہ بہت آسان طریقہ فرار ہے کہ ہر شخص اپنے مخالف کو جاہل کہہ کر سلام کرکے رخصت ہوجاتا ہے۔ ہر ایک کی نظر میں اس سے اختلاف کرنے والا شخص جاہل اور مذکورہ بالا آیت کا مصداق ہے لہذا اب اس بات کی بھی تحقیق کرنی پڑے گی کہ قرآنی آیت کا صحیح مصداق جو جہالت پر پورا اترتا ہے کون ہے تاکہ اس تحقیق شدہ جاہل سے کبھی بحث ہی نہ کی جائے اور اس کی ہر بحث کے جواب میں سلام کرکے رخصت چاہی جائے۔
سبحان اللہ :)
حضور عالیجناب! یہی تو ہم آپ کو جتانا چاہتے ہیں کہ ۔۔۔۔
اپنے حامی/ہمخیال کو کسی کی طرف سے جاہل کہہ دینا ہمیں برداشت نہیں مگر ہم بڑے خلوص و اہتمام سے دوسروں کو کذاب/دجال کہنا ضرور چاہیں گے اور اسکی دلیل میں ہمارے پاس آیات ربانی اور احادیث مبارکہ بالکل تیار رہیں گے۔
مگر جہاں خود پر ضرب پڑے وہاں آیت/حدیث کی تحقیق لازمی ٹھہرے گی کہ اس کے مصداق کون ہیں؟

اسی لیے تو ہم کہتے ہیں کہ عمل/ردعمل کی اس جنگ میں کوئی مقلد/غیرمقلد نہیں اور کوئی متبع سنت نہیں!! ان سب نے دین کو کھیل بنا رکھا ہے الاماشاءاللہ
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,591
پوائنٹ
791
وعلیکم السلام
سبحان اللہ
حضور آپ 100 بار ردعمل ظاہر کریں ، ہمیں بھلا کیا اعتراض ہو سکتا ہے؟
ہم تو صرف اتنا جانتے ہیں کہ "اہل حدیث" کی خاصیت یہی ہے کہ وہ عمل ہو یا ردعمل ہر معاملے میں حدیث پر عمل کرتے ہیں نہ کہ اقوال رجال یا اعمال رجال کی تقلید۔
یہی تو آجکل ہو رہا ہے کہ ہر فرقہ اپنے آپ کو "مظلوم" مان کر اسی آیت کو اپنے عمل/ردعمل کی دلیل بنا رہا ہے۔ مسلمانوں کا کونسا ایسا طبقہ/فرقہ/مسلک ہے جس کے نمائندگان نے اپنی کتب میں مخالفین کی کردارکشی تہمت طرازی مغلظات انگیزی نہ کر رکھی ہو؟

ایک صاحب نے تو تاویل کی حد ہی کر دی، اللہ انہیں ہدایت دے کہ جو مفہوم شارحین نے بیان نہیں کیا وہ اس حدیث مبارکہ کو اپنے خودساختہ معنی پہنا رہے ہیں۔
جس حدیث میں یہ فقرہ ہے : "بِئْسَ أَخُو الْعَشِيرَةِ، وَبِئْسَ ابْنُ الْعَشِيرَةِ"
اسی حدیث کے آخر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں :
اے عائشہ! کیا تم نے کبھی مجھے بدزبانی کرتے دیکھا ہے؟ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے برا آدمی وہ ہوگا جس کی بدزبانی کی وجہ سے لوگ اس سے ملنا ترک کردیں۔

کسی کو "اپنے قبیلے کا برا آدمی" کہنے اور کسی کا باقاعدہ نام لے کر اسے کذاب اور دجال کا لقب دینے میں اگر حقیقتاً کسی کو کوئی فرق نظر نہیں آتا تو پھر ایسے لوگوں کے سامنے اس آیت
إِذَا خَاطَبَهُمُ الْجَاهِلُونَ قَالُوا سَلاَمًا
کو پڑھ کر رخصت ہو جانا ہی بہتر عمل ہے۔
لہذا ۔۔۔ السلام علیکم !!
سلام علیکم :
بڑے ادب سے عرض ہے کہ اولاً آپ غصہ نہ کریں ،
ثانیاً : آپ نے سامنے والے فریق پر جہالت کا فتوی تو بڑی آسانی سے لگادیا ،لیکن اپنے کیمپ کی طرف مڑ کر بھی نہیں دیکھا،
گل پھینکے ہے اوروں کی طرف بلکہ ثمر بھی
اے خانہ بر اندازِ چمن، کچھ تو اِدھر بھی
کیا ضد ہے مرے ساتھ، خدا جانئے ورنہ
کافی ہے تسلّی کو مرے ایک نظر بھی
انہوں نے تو صرف دو آدمیوں کا نام لے کر کچھ کہا ،
لیکن ان دو اصحاب مذکور نے تو پوری جماعت کو رگید ڈالا، آپ اگر "تجلیات صفدر " نامی سیاہی کا دفتر دیکھ سکیں ،تو شاید شکوہ کی تیزی میں کچھ فرق آجائے !
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,014
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
سبحان اللہ :)
حضور عالیجناب! یہی تو ہم آپ کو جتانا چاہتے ہیں کہ ۔۔۔۔
اپنے حامی/ہمخیال کو کسی کی طرف سے جاہل کہہ دینا ہمیں برداشت نہیں مگر ہم بڑے خلوص و اہتمام سے دوسروں کو کذاب/دجال کہنا ضرور چاہیں گے اور اسکی دلیل میں ہمارے پاس آیات ربانی اور احادیث مبارکہ بالکل تیار رہیں گے۔
مگر جہاں خود پر ضرب پڑے وہاں آیت/حدیث کی تحقیق لازمی ٹھہرے گی کہ اس کے مصداق کون ہیں؟

اسی لیے تو ہم کہتے ہیں کہ عمل/ردعمل کی اس جنگ میں کوئی مقلد/غیرمقلد نہیں اور کوئی متبع سنت نہیں!! ان سب نے دین کو کھیل بنا رکھا ہے الاماشاءاللہ
انااللہ واناالیہ راجعون!

محترم بھائی آپ نے دین کو کھیل بنانے اور نفسانی خواہشات کی اتباع کا الزام عائد کرکے بہت سخت اور بے انصافی والی بات کی ہے۔

میں آپ پر واضح کردینا چاہتا ہوں کہ اہل حدیث کے نزدیک نہ کوئی اپنا ہوتا ہے نہ کوئی غیر۔ اس کے لئے اپنا صرف وہ ہے جو قرآن و حدیث کی اتباع کرنے والا اور اسکی طرف دعوت دینے والا ہے چاہے وہ غیر اہل حدیث ہی کیوں نہ ہو اور غیر یا مخالف وہ ہے جو قرآن و حدیث کی اتباع سے روکتا ہو اب چاہے ایسا شخص خود کو اہل حدیث ہی کیوں نہ کہتا ہو۔ اہل حدیث کے نزدیک دوستی اور دشمنی کا معیار قرآن و حدیث ہے اہل حدیث جماعت یا برادری نہیں۔

ہمیں اشرف علی تھانوی یا امین اوکاڑوی سے کوئی ذاتی دشمنی یا عداوت نہیں ہے۔ امین اوکاڑوی سے نفرت اور بغض اس لئے ہے کہ یہ قرآن و حدیث کا دشمن تھا اور اتنی کثرت سے جھوٹ بولتا اور بہتان لگاتا تھا کہ دجال کے علاوہ کوئی ایسا موزوں لفظ نہیں جس سے اسکی پہچان کروائی جائے۔ اشرف علی تھانوی کے کذبات کی فہرست بھی اتنی طویل ہے کہ کذاب سے بہتر کسی لفظ سے انکا تعارف نہیں کروایا جاسکتا۔

ہمارا معیار ایک ہے ہم اسی معیار سے اپنوں کو بھی دیکھتے ہیں اور غیروں کو بھی۔ اگر آپ کسی اہل حدیث عالم یا راقم الحروف کی تحریروں سے بھی کچھ واضح اور صریح جھوٹ ثابت کردو تو میں اس اہل حدیث عالم اور خود کو بھی کذاب تسلیم کرنے کے لئے تیار ہوں۔
 
Top