• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا امام ابو حنیفہ نے جوتے کی پوجا کو جائز قرار دیا تھا؟ غلط فہمی کا ازالہ

رضا میاں

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
1,557
ری ایکشن اسکور
3,581
پوائنٹ
384
اسلام علیکم
ایک روایت ہمارے چند علماء اور ان کی تقلید میں طلباء اکثر پیش کرتے ہیں کہ:

خبرنا محمد بن الحسين بن الفضل القطان , قال أخبرنا عبد اللہ بن جعفر بن درستويہ , قال حدثنا يعقوب بن سفيان , قال حدثني علي بن عثمان بن نفيل , قال حدثنا أبو مسهر , قال حدثنا يحيى بن حمزة , وسعيد يسمع , أن أبا حنيفة قال : لو أن رجلا عبد هذه النعل يتقرب بها إلى الله , لم أر بذلك بأسا , فقال سعيد : هذا الكفر صراحا
ترجمہ: يحيى بن حمزہ نے سعيد کے سامنے يہ بات بيان کي کہ أبو حنيفہ نے کہاہے: اگر کوئي شخص اس جوتے کي عبادت کرے اللہ کا تقرب حاصل کرنے کي نيت سے تو ميں اس ميں کوئي حرج نہيں سمجھتا ۔تو سعيد (بن عبد العزيز التنوخي ) نے (يہ سن کر ) کہا : يہ تو صريح کفر ہے۔
(المعرفۃ والتاریخ للفسوی ص 368، وتاریخ بغداد جلد 13 صفحہ 372 وغیرہ)

اب اگر کسی کا مقصد محض اس روایت سے احناف کے دل جلانا ہے اور ان کے خلاف اپنی بھڑاس نکالنا ہے تو بے شک یہ روایت بڑی زبردست ہے۔

لیکن اگر اس روایت سے کسی کا مقصد امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے عقیدے کو واضح کر کے انہیں گمراہ اور مشرک و کافر قرار دینا ہے تو یہ بہت بعید ہے۔

امام ابو حنیفہ چاہے جیسے بھی ہوں اور ان پر چاہے جتنی بھی جرحیں موجود ہوں لیکن یہ ماننا کہ وہ ایسا گندا اور کفریہ عقیدہ رکھتے تھے بالکل بھی ان کی ذات کے لائق نہیں ہے۔ امام ابو حنیفہ تو دور کی بات، اگر کوئی شخص اس جملے کی نسبت طاہر القادری جیسے بدعتی اور گمراہ شخص کی طرف بھی کرتا تو میں اسے ماننے سے پہلے ہزار بار سوچتا یا پھر یہ سوچتا کہ شاید قادری صاحب نے کچھ اور کہا ہو گا جس کا مطلب کسی نے اس طرح لے لیا ہو۔

یہ الفاظ اور یہ عقیدہ ایسا ہے کہ طاہر القادری بھی کیا کسی بھی مسلمان شخص سے اس کی نسبت کرنا مشکل ہے تو پھر امام ابو حنیفہ تو بہت دور کی بات ہے۔

یہاں ایک بات یہ بھی عرض کردوں کہ گو اہل حدیث علماء اور عوام انصاف پسندی کی باتیں تو کرتے ہیں اور مذہبی تعصب سے اظہار برات تو خوب کرتے ہیں لیکن کہیں نہ کہیں ان میں بھی یہ چیزیں کافی حد تک پائی جاتی ہیں۔ ان کے پاس اپنے کسی عالم یا امام کی کوئی غیر معقول بات سامنے آجائے تو فورا اس کی تاویلیں وغیرہ کرنے بیٹھ جاتے ہیں اور صفحات کے صفحات صرف اس بات کی وضاحت پر کالے کر دیتے ہیں کہ ہمارے عالم نے جو کہا اس سے دراصل ان کا مطلب کیا تھا۔

لیکن اگر ایسی ہی کوئی بات مخالف پارٹی کے کسی عالم سے نکل آئے تو بس، فورا فتوی بازی شروع ہو جاتی ہے، اور اس میں تاویل کا تو سوچنا ہی گناہ بن جاتا ہے۔ ایسا حال اس کیس میں بھی ہے۔

امام ابو حنیفہ جیسے بھی تھے، ایک عادل، صدوق، صالح، اور متبع قرآن وسنت عالم تھے۔ ان سے ایسی بات کے واقع ہونے کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا پھر چاہے اس کی اسناد صحیح ہی کیوں نہ ہو۔

محض اسناد کے علاوہ دیگر قرائین کو مد نظر رکھنا بہت ضروری ہے، مثلا:

1- کیا وجہ ہے کہ اگر امام ابو حنیفہ نے ایسا کہا ہو اور ان کے تمام تلامذہ، دوستوں، حتی کہ دشمنوں کو بھی اس کا علم نہ ہو! اور انہوں نے خاموشی اختیار کی ہو۔ نیز ان کے کسی معروف تلمذ نے اس کا ذکر تک نہ کیا ہو!؟

2- کیا وجہ ہے کہ امام ابو حنیفہ کے اس قول کو سننے کے بعد، قاضی کو شکایت کرنے کی بجائے، اور بنا کوئی شور کیے یحیی بن حمزہ شام میں بیٹھ کر اطمینان سے ایک مجلس میں سعید کو یہ بات سنا رہے ہیں!؟

3- کیا وجہ ہے کہ امام ابو حنیفہ جن کا منہج بالکل واضح ہے اور جو کسی کی جاہ یا وسیلے سے اللہ سے دعا مانگنے تک کو حرام قرار دیتے ہیں، وہ جوتے کی پوجا کو جائز قرار دے رہے ہیں!؟

اور پھر اگر یہ ثابت بھی ہو جائے تو دیگر کئی سوال اٹھتے ہیں مثلا کیا واقعی امام ابو حنیفہ نے بعینہ یہی الفاظ کہے تھے یا ان کی کسی دوسری بات کو ایک مفہوم دے کر خود بخود ان کی طرف منسوب کیا جا رہا ہے، اور ایسا سلف میں کثرت سے پایا جاتا ہے مثلا:

1- امام محمد بن اسحاق بن یسار نے امام مالک کے نسب کو بیان کرنے میں غلطی کی تو امام مالک نے انہیں کذاب کہہ دیا، حالانکہ آپ جھوٹے نہیں تھے!

2- امام شعبہ نے منہال بن عمرو کے گھر کے باہر میوزک یا غناء کی آواز سنی تو فورا وہاں سے چل دیے اور ان کی حدیث کو ترک کر دیا۔

3- کسی شخص نے کسی عذر کی بنا پر گھر میں نماز پڑھ لی، تو کہہ دیا گیا کہ وہ نماز کا تارک ہے۔

4- کسی نے پچھلی نماز کے وضوء کے ساتھ اگلی نماز پڑھ لی، تو دیکھنے والے نے کہہ دیا کہ فلاں بنا وضوء کے نماز کا قائل ہے۔

5- کوئی شخص نبیذ پینے کا قائل ہے تو کہہ دیا گیا وہ شراب پیتا ہے۔

وغیرہ وغیرہ۔ اس طرح کی مثالیں کتب میں عام مل جاتی ہیں۔ لہٰذا امام ابو حنیفہ کے متعلق کم از کم اتنا تو حسن ظن رکھا جائے کہ اتنی واضح اور ان کی شان، سیرت، اور عادت کے بالکل خلاف اس واقعہ کو تعصب کی پٹی چڑہائے بنا سوچے سمجھے تسلیم نہ کر لیا جائے۔

واقعہ کی سند پر بحث:

اس کلام کے بعد اب ضروری ہے کہ اس واقعہ کی سند پر بھی بحث کر لی جائے۔
بہت سے علماء نے اس کی سند کو صحیح قرار دیا ہے، لیکن اصل میں ایسا نہیں ہے۔
ایک اہم بات جو شاید ان تمام علماء نے اپنی تحقیق میں نظر انداز کی ہے وہ یہ کہ اگرچہ اس کے تمام رجال ثقہ ہیں اور سند بظاہر صحیح ہے لیکن اس میں
انقطاع موجود ہے۔

یحیی بن حمزہ بن واقد الدمشقی الشامی اور امام ابو حنیفہ کے درمیان سند منقطع ہے۔
یحیی بن حمزہ دمشق شام کے رہنے والے ہیں جبکہ امام ابو حنیفہ کوفی ہیں۔ اور نہ تو امام ابو حنیفہ کبھی شام آئے اور نہ یحیی بن حمزہ کبھی کوفہ گئے، تو یہ بات انہوں نے کہاں سے سنی!؟
بلکہ یحیی بن حمزہ کے اساتذہ کی فہرست نکال کر دیکھیں، ان کے تمام شیوخ شام یا دمشق یا حجاز کے ہیں اور سوائے سفیان الثوری کے کوفہ کا ایک بھی شخص ان کے شیوخ میں شامل نہیں ہے۔ اب جس شخص نے کوفہ کہ ایک بھی شخص سے کچھ بھی نہ سنا ہو، وہ صرف امام ابو حنیفہ سے یہ ایک جملہ سننے کے لئے ہزاروں میل کا سفر طے کر کے کوفہ کیوں جائے اور اگر جائے تو ایک بھی کوفی سے روایت نہ کرے!؟؟

اللہ ہمیں انصاف پسندی کی توفیق دے اور مذہبی تعصب سے بچائے! آمین
 
Last edited:

شادان

رکن
شمولیت
دسمبر 01، 2012
پیغامات
118
ری ایکشن اسکور
131
پوائنٹ
56
جی بات تو صحیح ہے لیکن۔۔
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,011
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

جہاں تک اس روایت کی سند کی بات ہے تو اس کی سند حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ اور رفیق طاہر حفظہ اللہ کے نزدیک درست ہے اور ظاہر ہے کہ ذکر کردہ علماء کا مقام علم و تحقیق میں آپ سے بہت اونچا ہے۔ مزید تفصیل خود رفیق طاہر اور کفایت اللہ برادران ہی بتا سکیں گے۔

سند کی بحث سے پہلے ابوحنیفہ کو بچانے کے لئے جو کلام آپ نے کیا ہے وہ بھی تو صرف تاویل ہی ہے اور وہ بھی پرتکلف تاویل۔ جبکہ لوگوں کی تاویلات پر آپ شکوہ کناں بھی ہیں! یہ کیا انصاف ہے؟ اگر دوسرے تاویل کریں تو غلط اور اگر آپ ابوحنیفہ کے دفاع میں بعید تاویلات کریں تو درست! اگر ایسا کوئی حکم ابوحنیفہ کے بارے میں شریعت نے دیا ہے تو ہمیں بھی مطلع فرمادیں کہ ابوحنیفہ کے کردار اور اعمال کو اجاگر کرتی ہوئی کوئی صحیح روایت بھی آجائے تو اسے یہ کہہ کر رد کردو کہ ابوحنیفہ سے یہ محال ہے اور اگر یہ سچ بھی ہے تو قابل تاویل ہے۔

ابوحنیفہ کی عبادت ریاضت کردار کی پاکیزگی، تقویٰ وغیرہ کا ڈھنڈورا پیٹتے ہوئے آپ سمیت بہت لوگوں کو دیکھا ہے لیکن کوئی بھی مرد میدان ابوحنیفہ کی اس خیالی تقویٰ اور بزرگی کو ثابت نہیں کرسکا۔ میرے بھائی خیالی دنیا سے باہر نکلو اور ابوحنیفہ کے دفاع کا شوق ہے تو کوئی صحیح روایت لاؤ۔ اگر بالفرض اس روایت کی سند ضعیف بھی ہو تو کیا فرق پڑتا ہے۔ دسیوں ایسی صحیح روایات موجود ہیں جن میں محدثین نے ابوحنیفہ کو گمراہ،جاہل،یہودی،کذاب اور اسلام کا دشمن وغیرہ قرار دیا ہے۔ ایسی روایت ثابت کرتی ہیں کہ ابوحنیفہ جیسا شخص جوتے کی عبادت کے جواز کا فتویٰ بھی دے سکتا ہے اس میں اچھنبے اور نہ ماننے والی کوئی بات نہیں ہے۔ رضامیاں کی خدمت میں عرض ہے کہ ابوحنیفہ کی مذمت کرنے والے محدثین کا حکم بھی بیان کردیں کہ کیا وہ بھی ابوحنیفہ سے حسد اور جلن رکھتے تھے؟ ابوحنیفہ کا ناجائز دفاع کرنے والے اہل حدیثوں کو دوغلی پالیسی چھوڑ دینی چاہیے یہ ایک طرف تو ابوحنیفہ کو سچا اور پکا مسلمان قرار دیتے ہیں اور دوسری طرف ان محدثین کے ایمان میں بھی شک نہیں کرتے جو ابوحنیفہ کے کفر کو بیان کرتے ہیں۔ اب ایسا تو ہو نہیں سکتا کہ متضاد باتوں میں دونوں فریق ہی سچے ہوں۔ اگر ابوحنیفہ سچا، پاکباز،متقی اور مومن تھا تو یقینا محدثین اس پر الزام لگانے میں جھوٹے ہیں اور اگر محدثین سچے ہیں تو پھر یقینا ابوحنیفہ ہی مشکوک الاسلام تھا۔ ایک کشتی میں سوار ہوجائیں بیک وقت دو کشتیوں کی سواری خطرناک ہے۔
 

طاہر اسلام

سینئر رکن
شمولیت
مئی 07، 2011
پیغامات
843
ری ایکشن اسکور
732
پوائنٹ
256
امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ جلیل القدر فقیہ تھے؛اس طرح کے الزامات کی کوئی حقیقت نہیں؛خدا ان سے راضی ہو۔
اس طرح کی لا یعنی باتوں میں مشغول ہونے سے بچنا چاہیے اور اپنی اصلاح اور کتاب و سنت کی نشر و اشاعت پر توجہ دینا چاہیے؛خدا ہمیں ہدایت پر قائم رکھے اور علماے کبار کے ادب و احترام کی توفیق بخشے؛آمین
والسلام علیکم و رحمۃ اللہ
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
762
پوائنٹ
290
سب سے پهلی بات اگر بعد از تحقیق یہ قول ابو حنیفہ کا نہ هوا تو اس بات کی تحقیق بهی ضرور کریں کہ ایسی بات همارے درمیان کون اور کیوں لا رہا هے ۔ لازمی انکے مقاصد هونگے اور مقاصد نیک تو هرگز نہیں هو سکتے ۔ علمی تحقیق هو ، مفید تحقیق هو ۔ لفظ استعمال کیا هے "عبادت" ۔ کهٹک گیا اور قال ابو حنیفہ هو ، بعید لگتا هے ۔ واللہ اعلم

اللہ هم سبکو انتشار سے بچائے ۔ اتفاق اور اتحاد کی طرف لائے اور حق پر قائم رکهے ، آمین
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
762
پوائنٹ
290
ﺍﻟﺴﺆﺍﻝ

ﻫﻞ ﻫﺬﺍ ﺍﻷ‌ﺛﺮ ﺻﺤﻴﺢ ﻓﻲ ﺫﻡ ﺃﺑﻲ ﺣﻨﻴﻔﺔ؟ ﺭﻭﻯ ﺍﻟﻔﺴﻮﻱ ﻓﻲ ﻛﺘﺎﺏ ﺍﻟﻤﻌﺮﻓﺔ ﻭﺍﻟﺘﺎﺭﻳﺦ (ﺝ1/ﺹ368): ﺣﺪﺛﻨﻲ ﻋﻠﻲ ﺑﻦ ﻋﺜﻤﺎﻥ ﺑﻦ ﻧﻔﻴﻞ ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺃﺑﻮ ﻣﺴﻬﺮ ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻳﺤﻴﻰ ﺑﻦ ﺣﻤﺰﺓ - ﻭﺳﻌﻴﺪ ﻳﺴﻤﻊ - : ﺃﻥ ﺃﺑﺎ ﺣﻨﻴﻔﺔ ﻗﺎﻝ: ﻟﻮ ﺃﻥ ﺭﺟﻠًﺎ ﻋﺒﺪ ﻫﺬﻩ ﺍﻟﻨﻌﻞ ﻳﺘﻘﺮﺏ ﺑﻬﺎ ﺇﻟﻰ ﺍﻟﻠﻪ ﻟﻢ ﺃﺭ ﺑﺬﻟﻚ ﺑﺄﺳًﺎ, ﻓﻘﺎﻝ ﺳﻌﻴﺪ: ﻫﺬﺍ ﺍﻟﻜﻔﺮ ﺻﺮﺍﺣًﺎ.

ﺍﻹ‌ﺟﺎﺑــﺔ

ﺍﻟﺤﻤﺪ ﻟﻠﻪ ﻭﺍﻟﺼﻼ‌ﺓ ﻭﺍﻟﺴﻼ‌ﻡ ﻋﻠﻰ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﻪ ﻭﻋﻠﻰ ﺁﻟﻪ ﻭﺻﺤﺒﻪ، ﺃﻣﺎ ﺑﻌﺪ:ﻓﺈﻥ ﻣﺜﻞ ﻫﺬﺍ ﺍﻟﻤﻘﻮﻟﺔ ﻣﻤﺎ ﻳﻨﺒﻐﻲ ﺍﻟﻘﻄﻊ ﺑﺄﻥ ﺍﻹ‌ﻣﺎﻡ ﺃﺑﺎ ﺣﻨﻴﻔﺔ ﻟﻢ ﻳﻔﻪْ ﺑﻬﺎ، ﻓﻬﺬﻩ ﺍﻟﻤﻘﻮﻟﺔ ﻻ‌ ﻳﻘﻮﻟﻬﺎ ﻋﺎﻗﻞ ﻣﻦ ﺑﻨﻲ ﺁﺩﻡ، ﻓﻜﻴﻒ ﺑﻤﺴﻠﻢ؟ ﺑﻞ ﺑﺮﺟﻞ ﻣﻦ ﺃﺋﻤﺔ ﺍﻟﻤﺴﻠﻤﻴﻦ ﻭﻓﻘﻬﺎﺋﻬﻢ ﺍﻟﻜﺒﺎﺭ؟ ﻗﺎﻝ ﺍﺑﻦ ﺍﻟﻨﺠﺎﺭ ﻓﻲ ﻛﺘﺎﺑﻪ ﺍﻟﺮﺩ ﻋﻠﻰ ﺃﺑﻲ ﺑﻜﺮ ﺑﻦ ﺍﻟﺨﻄﻴﺐ ﺍﻟﺒﻐﺪﺍﺩﻱ: ﻭﺃﻣﺎ ﻣﺎ ﻧﻘﻠﻪ ﻋﻦ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﺍﻟﺤﺴﻴﻦ ﺑﻦ ﺍﻟﻔﻀﻞ ﺍﻟﻘﻄﺎﻥ ﺇﻟﻰ ﻳﺤﻴﻰ ﺑﻦ ﺣﻤﺰﺓ ﺃَﻥَّ ﺃَﺑَﺎ ﺣﻨﻴﻔﺔ ﻗَﺎﻝَ: ﻟﻮ ﺃَﻥَّ ﺭﺟﻠًﺎ ﻋﺒﺪﻩ ﻫﺬﻩ ﺍﻟﻨﻌﻞ ﻳﺘﻘﺮﺏ ﺑﻬﺎ ﺇﻟﻰ ﺍﻟﻠﻪ ﻟﻢ ﺃﺭ ﺑﺬﻟﻚ ﺑﺄﺳًﺎ, ﻓَﻘَﺎﻝَ ﺳَﻌِﻴﺪ: ﻫَﺬَﺍ ﺍﻟﻜﻔﺮ ﺻﺮﺍﺣًﺎ. ﻓﻬﺬﺍ ﻟﻢ ﻳﻨﻘﻠﻪ ﺃﺣﺪ ﻣﻦ ﺃﺻﺤﺎﺏ ﺃﺑﻲ ﺣﻨﻴﻔﺔ, ﻭﺍﻋﻠﻢ ﺃﻥ ﺃﺻﺤﺎﺏ ﺍﻹ‌ﻧﺴﺎﻥ ﺃﻋﺮﻑ ﺑﻪ ﻣﻦ ﺍﻷ‌ﺟﻨﺒﻲ، ﺛﻢ ﺍﻋﻠﻢ ﺃﻥ ﻣﺬﻫﺐ ﺃﺑﻲ ﺣﻨﻴﻔﺔ ﻟﻪ ﺃﺻﻮﻝ ﻭﻗﻮﺍﻋﺪ ﻭﺷﺮﻭﻁ ﻻ‌ ﻳﺨﺮﺝ ﻋﻨﻬﺎ، ﻓﺄﻣﺎ ﺃﺻﻮﻝ ﻣﺬﻫﺒﻪ - ﺭﺿﻲ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻨﻪ - ﻓﺈﻧﻪ ﻳﺮﻯ ﺍﻷ‌ﺧﺬ ﺑﺎﻟﻘﺮﺁﻥ ﻭﺍﻵ‌ﺛﺎﺭ ﻣﺎ ﻭﺟﺪ ... ﻓﺈﺫﺍ ﺛﺒﺖ ﺃﻥ ﻫﺬﻩ ﺃﺻﻮﻝ ﺃﺑﻲ ﺣﻨﻴﻔﺔ ﻓﻜﻴﻒ ﻳﺴﻮﻍ ﻟﻪ ﺃﻥ ﻳﻘﻮﻝ ﻫﺬﺍ ﻣﻊ ﻋﻠﻤﻪ ﺑﻘﻮﻟﻪ ﺗﻌﺎﻟﻰ: ﻣﺎ ﻧَﻌْﺒُﺪُﻫُﻢْ ﺇِﻟَّﺎ ﻟِﻴُﻘَﺮِّﺑُﻮﻧﺎ ﺇِﻟَﻰ ﺍﻟﻠَّﻪِ ﺯُﻟْﻔﻰ .؟! ﻓﻬﺬﺍ ﻻ‌ ﻳﺼﺢ ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﺣﻨﻲﻓﺔ. ﺍﻫـ ﺑﺎﺧﺘﺼﺎﺭ.ﻭﺟﺎﺀ ﻓﻲ ﻛﺘﺎﺏ ﻣﻜﺎﻧﺔ ﺍﻹ‌ﻣﺎﻡ ﺃﺑﻲ ﺣﻨﻴﻔﺔ ﺑﻴﻦ ﺍﻟﻤﺤﺪﺛﻴﻦ ﻟﻠﺪﻛﺘﻮﺭ ﻣﺤﻤﺪ ﺍﻟﺤﺎﺭﺛﻲ: ﻗﺎﻝ ﺍﻟﺨﻄﻴﺐ: ﺃَﺧْﺒَﺮَﻧَﺎ ﻣُﺤَﻤَّﺪ ﺑﻦ ﺍﻟﺤﺴﻴﻦ ﺑﻦ ﺍﻟﻔﻀﻞ ﺍﻟﻘﻄﺎﻥ، ﺃﺧﺒﺮﻧﺎ ﻋﺒﺪ ﺍﻟﻠﻪ ﺑﻦ ﺟﻌﻔﺮ ﺑﻦ ﺩﺭﺳﺘﻮﻳﻪ، ﺣﺪّﺛﻨﺎ ﻳﻌﻘﻮﺏ ﺑﻦ ﺳﻔﻴﺎﻥ، ﺣﺪﺛﻨﻲ ﻋﻠﻲ ﺑﻦ ﻋﺜﻤﺎﻥ ﺑﻦ ﻧﻔﻴﻞ، ﺣﺪّﺛﻨﺎ ﺃﺑﻮ ﻣﺴﻬﺮ، ﺣَﺪَّﺛَﻨَﺎ ﻳَﺤْﻴَﻰ ﺑﻦ ﺣﻤﺰﺓ - ﻭَﺳَﻌِﻴﺪ ﻳﺴﻤﻊ - ﺃَﻥَّ ﺃَﺑَﺎ ﺣﻨﻴﻔﺔ ﻗَﺎﻝَ: ﻟﻮ ﺃَﻥَّ ﺭﺟﻠًﺎ ﻋَﺒْﺪ ﻫﺬﻩ ﺍﻟﻨﻌﻞ ﻳﺘﻘﺮﺏ ﺑﻬﺎ ﺇﻟﻰ ﺍﻟﻠﻪ، ﻟﻢ ﺃﺭ ﺑﺬﻟﻚ ﺑﺄﺳًﺎ, ﻓَﻘَﺎﻝَ ﺳَﻌِﻴﺪ: ﻫَﺬَﺍ ﺍﻟﻜﻔﺮ ﺻﺮﺍﺣًﺎ. ﻭﺭﻭﺍﻩ ﻣﺮﺓ ﺃﺧﺮﻯ ﻓﻘﺎﻝ: ﺃﺧﺒﺮﻧﺎ ﺍﺑﻦ ﺭﺯﻕ، ﺃَﺧْﺒَﺮَﻧَﺎ ﺃَﺣْﻤَﺪ ﺑْﻦ ﺟﻌﻔﺮ ﺑْﻦ ﺳﻠﻢ، ﺣَﺪَّﺛَﻨَﺎ ﺃﺣﻤﺪ ﺑﻦ ﻋﻠﻲ ﺍﻷ‌ﺑﺎﺭ، ﺣﺪّﺛﻨﺎ ﻋﺒﺪ ﺍﻷ‌ﻋﻠﻰ ﺑﻦ ﻭﺍﺻﻞ، ﺣﺪّﺛﻨﺎ ﺃﺑﻲ، ﺣَﺪَّﺛَﻨَﺎ ﺍﺑﻦ ﻓﻀﻴﻞ ﻋﻦ ﺍﻟْﻘَﺎﺳِﻢ ﺑﻦ ﺣﺒﻴﺐ ﻗَﺎﻝَ: ﻭﺿﻌﺖ ﻧﻌﻠﻲ ﻓﻲ ﺍﻟﺤﺼﻰ ﺛُﻢَّ ﻗُﻠْﺖُ ﻷ‌ﺑﻲ ﺣﻨﻴﻔﺔ: ﺃﺭﺃﻳﺖ ﺭﺟﻠًﺎ ﺻﻠﻰ ﻟﻬﺬﻩ ﺍﻟﻨﻌﻞ ﺣَﺘَّﻰ ﻣﺎﺕ، ﺇِﻻ‌ ﺃَﻧَّﻪُ ﻳﻌﺮﻑ ﺍﻟﻠﻪ ﺑﻘﻠﺒﻪ؟ ﻓَﻘَﺎﻝَ: ﻣﺆﻣﻦ, ﻓَﻘُﻠْﺖُ: ﻻ‌ ﺃﻛﻠﻤﻚ ﺃﺑﺪًﺍ. ﻭﻫﺎﺗﺎﻥ ﺍﻟﺮﻭﺍﻳﺘﺎﻥ ﺍﻟﻤﻀﻄﺮﺑﺘﺎﻥ ﺗﻨﻄﻘﺎﻥ ﺑﺎﻟﻜﺬﺏ ﺍﻟﻮﺍﺿﺢ ﻭﺍﻻ‌ﻓﺘﺮﺍﺀ ﻣﻦ ﺍﻟﺬﻱ ﻻ‌ ﻳﺨﺸﻰ ﺍﻟﻠﻪ، ﻓﻔﻲ ﺍﻷ‌ﻭﻟﻰ ﻋﺒﺪ ﺍﻟﻠﻪ ﺑﻦ ﺟﻌﻔﺮ ﺑﻦ ﺩﺭﺳﺘﻮﻳﻪ ﺍﻟﻨﺤﻮﻱ، ﺿﻌﻔﻪ ﺍﻟﻼ‌ﻟﻜﺎﺋﻲ, ﻭﻗﺎﻝ ﺍﻟﺒﺮﻗﺎﻧﻲ: ﺿﻌﻔﻮﻩ، ﻭﻋﻠﻲ ﺑﻦ ﻋﺜﻤﺎﻥ ﺑﻦ ﻧﻔﻴﻞ ﻣﺠﻬﻮﻝ ﻟﻢ ﺃﺟﺪ ﻣﻦ ﺗﺮﺟﻢ ﻟﻪ، ﻭﻟﻌﻠﻪ ﺧﺒﻂ ﻓﻲ ﺍﻟﺴﻨﺪ ﺧﺒﻂ ﻋﺸﻮﺍﺀ، ﺃﻭ ﺃﻟﺼﻖ ﻫﻜﺬﺍ, ﺛﻢ ﺇﻥ ﻳﺤﻴﻰ ﺑﻦ ﺣﻤﺰﺓ ﺇﻥ ﻛﺎﻥ ﻫﻮ ﺍﻟﻘﺎﺿﻲ ﺍﻟﻤﺸﻬﻮﺭ ﻓﻬﻮ ﺩﻣﺸﻘﻲ, ﻭﻟﻢ ﻳﺜﺒﺖ ﺃﻥ ﺃﺑﺎ ﺣﻨﻴﻔﺔ ﺭﺣﻞ ﺇﻟﻰ ﺍﻟﺸﺎﻡ ﻭﻟﻢ ﻳﺪﺧﻞ ﻳﺤﻴﻰ ﺍﻟﻜﻮﻓﺔ، ﻭﻟﻢ ﻳﻠﺘﻖ ﺑﺄﺑﻲ ﺣﻨﻴﻔﺔ ﻭﺇﻥ ﻛﺎﻧﺎ ﻣﺘﻌﺎﺻﺮﻳﻦ, ﻭﻓﻲ ﺍﻟﺮﻭﺍﻳﺔ ﺍﻟﺜﺎﻧﻴﺔ ﺍﻟﻘﺎﺳﻢ ﺑﻦ ﺣﺒﻴﺐ, ﻗﺎﻝ ﻋﻨﻪ ﺍﺑﻦ ﻣﻌﻴﻦ: ﻻ‌ ﺷﻲﺀ, ﻭﺿﻌﻔﻪ ﺍﻟﺬﻫﺒﻲ ,ﻭﺍﺑﻦ ﺍﻟﺠﻮﺯﻱ, ﻭﻛﺜﻴﺮ ﻣﻦ ﺍﻟﻌﻠﻤﺎﺀ، ﻭﺃﻣﺎ ﻣﻦ ﻧﺎﺣﻴﺔ ﺍﻟﻤﺘﻦ ﻓﺈﻧﺎ ﻧﺤﻴﻞ ﺃﻥ ﻳﺼﺪﺭ ﻣﺜﻞ ﻫﺬﺍ ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﺣﻨﻴﻔﺔ, ﺑﻞ ﻧﺤﻴﻞ ﺃﻥ ﻳﺼﺪﺭ ﻣﺜﻞ ﻫﺬﺍ ﻋﻦ ﺃﺻﻐﺮ ﻋﺎﻟﻢ ﻣﻦ ﻋﻠﻤﺎﺀ ﺍﻟﻤﺴﻠﻤﻴﻦ، ﻓﻤﺎ ﻟﻨﺎ ﻋﻦ ﻋﺎﻟﻢ ﺷﻬﺪﺕ ﻟﻪ ﺍﻟﺪﻧﻴﺎ ﺑﺎﻟﻌﻠﻢ ﻭﺍﻟﻌﻘﻞ، ﻓﻤﺎ ﻫﺬﺍ ﺇﻻ‌ ﻣﻦ ﺍﻟﺘﻌﺼﺐ ﺍﻟﻤﺬﻫﺒﻲ - ﻗﺎﺗﻞ ﺍﻟﻠﻪ ﺩﻋﺎﺗﻪ -. ﺍﻫـ.ﻭﻗﺪ ﺑﻴﻦ ﺍﺑﻦ ﻋﺒﺪ ﺍﻟﺒﺮ ﻓﻲ ﻛﺘﺎﺏ ﺍﻻ‌ﻧﺘﻘﺎﺀ ﺳﺒﺐ ﺻﺪﻭﺭ ﻣﺜﻞ ﻫﺬﻩ ﺍﻷ‌ﻗﻮﺍﻝ ﺍﻟﻄﺎﻋﻨﺔ ﻋﻠﻰ ﺍﻹ‌ﻣﺎﻡ ﺃﺑﻲ ﺣﻨﻴﻔﺔ، ﻓﻘﺎﻝ: ﻛَﺜِﻴﺮٌ ﻣِﻦْ ﺃَﻫْﻞِ ﺍﻟْﺤَﺪِﻳﺚِ ﺍﺳْﺘَﺠَﺎﺯُﻭﺍ ﺍﻟﻄَّﻌْﻦَ ﻋَﻠَﻰ ﺃَﺑِﻲ ﺣَﻨِﻴﻔَﺔَ ﻟِﺮَﺩِّﻩِ ﻛَﺜِﻴﺮًﺍ ﻣِﻦْ ﺃَﺧْﺒَﺎﺭِ ﺍﻵ‌ﺣَﺎﺩِ ﺍﻟْﻌُﺪُﻭﻝِ؛ ﻷ‌َﻧَّﻪُ ﻛَﺎﻥَ ﻳَﺬْﻫَﺐُ ﻓِﻲ ﺫَﻟِﻚَ ﺇِﻟَﻰ ﻋَﺮْﺿِﻬَﺎ ﻋَﻠَﻰ ﻣَﺎ ﺍﺟْﺘَﻤَﻊَ ﻋَﻠَﻴْﻪِ ﻣِﻦَ ﺍﻷ‌َﺣَﺎﺩِﻳﺚِ ﻭَﻣَﻌَﺎﻧِﻲ ﺍﻟْﻘُﺮْﺁﻥِ, ﻓَﻤَﺎ ﺷَﺬَّ ﻋَﻦْ ﺫَﻟِﻚَ ﺭَﺩَّﻩُ ﻭَﺳَﻤَّﺎﻩُ ﺷَﺎﺫًّﺍ, ﻭَﻛَﺎﻥَ ﻣَﻊَ ﺫَﻟِﻚَ ﺃَﻳْﻀًﺎ ﻳَﻘُﻮﻝُ: ﺍﻟﻄَّﺎﻋَﺎﺕُ ﻣِﻦَ ﺍﻟﺼَّﻼ‌ﺓِ ﻭَﻏَﻴْﺮِﻫَﺎ ﻟَﺎ ﺗُﺴَﻤَّﻰ ﺇِﻳﻤَﺎﻧًﺎ, ﻭَﻛُﻞُّ ﻣَﻦْ ﻗَﺎﻝَ ﻣِﻦْ ﺃَﻫْﻞِ ﺍﻟﺴُّﻨَّﺔِ ﺍﻹ‌ِﻳﻤَﺎﻥُ ﻗَﻮْﻝٌ ﻭَﻋَﻤَﻞٌ ﻳُﻨْﻜِﺮُﻭﻥَ ﻗَﻮْﻟَﻪُ ﻭَﻳُﺒَﺪِّﻋُﻮﻧَﻪُ ﺑِﺬَﻟِﻚَ, ﻭَﻛَﺎﻥَ ﻣَﻊَ ﺫَﻟِﻚَ ﻣَﺤْﺴُﻮﺩًﺍ ﻟِﻔَﻬْﻤِﻪِ ﻭَﻓِﻄْﻨَﺘِﻪِ.ﺍﻫـ.ﻭﻟﻴﻌﻠﻢ ﺃﻥ ﺍﻷ‌ﺋﻤﺔ ﺍﻟﺬﻱ ﺯﻛﻮﺍ ﺍﻹ‌ﻣﺎﻡ ﺃﺑﺎ ﺣﻨﻴﻔﺔ ﺃﻛﺜﺮ ﻣﻦ ﺍﻟﺬﻳﻦ ﻃﻌﻨﻮﺍ ﻓﻴﻪ، ﻗﺎﻝ ﺍﺑﻦ ﻋﺒﺪ ﺍﻟﺒﺮ: ﺍﻟﺬﻳﻦ ﺭﻭﻭﺍ ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﺣﻨﻴﻔﺔ ﻭﻭﺛﻘﻮﻩ ﻭﺃﺛﻨﻮﺍ ﻋﻠﻴﻪ ﺃﻛﺜﺮ ﻣﻦ ﺍﻟﺬﻳﻦ ﺗﻜﻠﻤﻮﺍ ﻓﻴﻪ، ﻭﺍﻟﺬﻳﻦ ﺗﻜﻠﻤﻮﺍ ﻓﻴﻪ ﻣﻦ ﺃﻫﻞ ﺍﻟﺤﺪﻳﺚ، ﺃﻛﺜﺮ ﻣﺎ ﻋﺎﺑﻮﺍ ﻋﻠﻴﻪ ﺍﻹ‌ﻏﺮﺍﻕ ﻓﻲ ﺍﻟﺮﺃﻱ ﻭﺍﻟﻘﻴﺎﺱ, ﻭﺍﻹ‌ﺭﺟﺎﺀ, ﻭﻛﺎﻥ ﻳﻘﺎﻝ: ﻳﺴﺘﺪﻝ ﻋﻠﻰ ﻧﺒﺎﻫﺔ ﺍﻟﺮﺟﻞ ﻣﻦ ﺍﻟﻤﺎﺿﻴﻦ ﺑﺘﺒﺎﻳﻦ ﺍﻟﻨﺎﺱ ﻓﻴﻪ ﻗﺎﻟﻮﺍ: ﺃﻻ‌ ﺗﺮﻯ ﺇﻟﻰ ﻋﻠﻲ ﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﻃﺎﻟﺐ - ﻋﻠﻴﻪ ﺍﻟﺴﻼ‌ﻡ، -ﺃﻧﻪ ﻗﺪ ﻫﻠﻚ ﻓﻴﻪ ﻓﺘﻴﺎﻥ: ﻣﺤﺐ ﺃﻓﺮﻁ, ﻭﻣﺒﻐﺾ ﺃﻓﺮﻁ, ﻭﻗﺪ ﺟﺎﺀ ﻓﻲ ﺍﻟﺤﺪﻳﺚ ﺃﻧﻪ ﻳﻬﻠﻚ ﻓﻴﻪ ﺭﺟﻼ‌ﻥ ﻣﺤﺐ ﻣﻄﺮ, ﻭﻣﺒﻐﺾ ﻣﻔﺘﺮ، ﻭﻫﺬﻩ ﺻﻔﺔ ﺃﻫﻞ ﺍﻟﻨﺒﺎﻫﺔ, ﻭﻣﻦ ﺑﻠﻎ ﻓﻲ ﺍﻟﺪﻳﻦ ﻭﺍﻟﻔﻀﻞ ﺍﻟﻐﺎﻳﺔ .ﺍﻫـ. ﻣﻦ ﺟﺎﻣﻊ ﺑﻴﺎﻥ ﺍﻟﻌﻠﻢ ﻭﻓﻀﻠﻪ.ﺑﻞ ﺫﻛﺮ ﺷﻴﺦ ﺍﻹ‌ﺳﻼ‌ﻡ ﺍﺑﻦ ﺗﻴﻤﻴﺔ ﺍﻹ‌ﻣﺎﻡ ﺃﺑﺎ ﺣﻨﻴﻔﺔ ﺿﻤﻦ ﺍﻷ‌ﺋﻤﺔ ﺍﻟﺬﻳﻦ ﺍﺗُّﻔِﻖ ﻋﻠﻰ ﺍﻟﺜﻨﺎﺀ ﻋﻠﻴﻬﻢ، ﻓﻘﺎﻝ: ﻭﻗﺎﻝ ﻃﺎﺋﻔﺔ: ﺑﻞ ﻣﻦ ﺍﺳﺘﻔﺎﺽ ﻣﻦ ﺑﻴﻦ ﺍﻟﻨﺎﺱ ﺇﻳﻤﺎﻧﻪ ﻭﺗﻘﻮﺍﻩ, ﻭﺍﺗﻔﻖ ﺍﻟﻤﺴﻠﻤﻮﻥ ﻋﻠﻰ ﺍﻟﺜﻨﺎﺀ ﻋﻠﻴﻪ - ﻛﻌﻤﺮ ﺑﻦ ﻋﺒﺪ ﺍﻟﻌﺰﻳﺰ, ﻭﺍﻟﺤﺴﻦ ﺍﻟﺒﺼﺮﻱ, ﻭﺳﻔﻴﺎﻥ ﺍﻟﺜﻮﺭﻱ, ﻭﺃﺑﻲ ﺣﻨﻴﻔﺔ, ﻭﻣﺎﻟﻚ, ﻭﺍﻟﺸﺎﻓﻌﻲ, ﻭﺃﺣﻤﺪ, ﻭﺍﻟﻔﻀﻴﻞ ﺑﻦ ﻋﻴﺎﺽ, ﻭﺃﺑﻲ ﺳﻠﻴﻤﺎﻥ ﺍﻟﺪﺍﺭﺍﻧﻲ, ﻭﻣﻌﺮﻭﻑ ﺍﻟﻜﺮﺧﻲ, ﻭﻋﺒﺪ ﺍﻟﻠﻪ ﺑﻦ ﺍﻟﻤﺒﺎﺭﻙ - ﺭﺿﻲ ﺍﻟﻠﻪ ﺗﻌﺎﻟﻰ ﻋﻨﻬﻢ - ﻭﻏﻴﺮﻫﻢ ﺷﻬﺪﻧﺎ ﻟﻪ ﺑﺎﻟﺠﻨﺔ. ﺍﻫـ. ﻣﻦ ﻣﺠﻤﻮﻉ ﺍﻟﻔﺘﺎﻭﻯ.ﻭﻟﻠﻤﺰﻳﺪ ﻣﻦ ﺍﻟﻔﺎﺋﺪﺓ ﻓﻲ ﺍﻟﺪﻓﺎﻉ ﻋﻦ ﺍﻹ‌ﻣﺎﻡ ﺃﺑﻲ ﺣﻨﻴﻔﺔ ﺍﻧﻈﺮ ﺍﻟﻔﺘﻮﻯ: 43484.ﻭﺍﻟﻠﻪ ﺃﻋﻠﻢ.
 
Top