رضا میاں
سینئر رکن
- شمولیت
- مارچ 11، 2011
- پیغامات
- 1,557
- ری ایکشن اسکور
- 3,581
- پوائنٹ
- 384
اسلام علیکم
ایک روایت ہمارے چند علماء اور ان کی تقلید میں طلباء اکثر پیش کرتے ہیں کہ:
خبرنا محمد بن الحسين بن الفضل القطان , قال أخبرنا عبد اللہ بن جعفر بن درستويہ , قال حدثنا يعقوب بن سفيان , قال حدثني علي بن عثمان بن نفيل , قال حدثنا أبو مسهر , قال حدثنا يحيى بن حمزة , وسعيد يسمع , أن أبا حنيفة قال : لو أن رجلا عبد هذه النعل يتقرب بها إلى الله , لم أر بذلك بأسا , فقال سعيد : هذا الكفر صراحا
ترجمہ: يحيى بن حمزہ نے سعيد کے سامنے يہ بات بيان کي کہ أبو حنيفہ نے کہاہے: اگر کوئي شخص اس جوتے کي عبادت کرے اللہ کا تقرب حاصل کرنے کي نيت سے تو ميں اس ميں کوئي حرج نہيں سمجھتا ۔تو سعيد (بن عبد العزيز التنوخي ) نے (يہ سن کر ) کہا : يہ تو صريح کفر ہے۔
اب اگر کسی کا مقصد محض اس روایت سے احناف کے دل جلانا ہے اور ان کے خلاف اپنی بھڑاس نکالنا ہے تو بے شک یہ روایت بڑی زبردست ہے۔
لیکن اگر اس روایت سے کسی کا مقصد امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے عقیدے کو واضح کر کے انہیں گمراہ اور مشرک و کافر قرار دینا ہے تو یہ بہت بعید ہے۔
امام ابو حنیفہ چاہے جیسے بھی ہوں اور ان پر چاہے جتنی بھی جرحیں موجود ہوں لیکن یہ ماننا کہ وہ ایسا گندا اور کفریہ عقیدہ رکھتے تھے بالکل بھی ان کی ذات کے لائق نہیں ہے۔ امام ابو حنیفہ تو دور کی بات، اگر کوئی شخص اس جملے کی نسبت طاہر القادری جیسے بدعتی اور گمراہ شخص کی طرف بھی کرتا تو میں اسے ماننے سے پہلے ہزار بار سوچتا یا پھر یہ سوچتا کہ شاید قادری صاحب نے کچھ اور کہا ہو گا جس کا مطلب کسی نے اس طرح لے لیا ہو۔
یہ الفاظ اور یہ عقیدہ ایسا ہے کہ طاہر القادری بھی کیا کسی بھی مسلمان شخص سے اس کی نسبت کرنا مشکل ہے تو پھر امام ابو حنیفہ تو بہت دور کی بات ہے۔
یہاں ایک بات یہ بھی عرض کردوں کہ گو اہل حدیث علماء اور عوام انصاف پسندی کی باتیں تو کرتے ہیں اور مذہبی تعصب سے اظہار برات تو خوب کرتے ہیں لیکن کہیں نہ کہیں ان میں بھی یہ چیزیں کافی حد تک پائی جاتی ہیں۔ ان کے پاس اپنے کسی عالم یا امام کی کوئی غیر معقول بات سامنے آجائے تو فورا اس کی تاویلیں وغیرہ کرنے بیٹھ جاتے ہیں اور صفحات کے صفحات صرف اس بات کی وضاحت پر کالے کر دیتے ہیں کہ ہمارے عالم نے جو کہا اس سے دراصل ان کا مطلب کیا تھا۔
لیکن اگر ایسی ہی کوئی بات مخالف پارٹی کے کسی عالم سے نکل آئے تو بس، فورا فتوی بازی شروع ہو جاتی ہے، اور اس میں تاویل کا تو سوچنا ہی گناہ بن جاتا ہے۔ ایسا حال اس کیس میں بھی ہے۔
امام ابو حنیفہ جیسے بھی تھے، ایک عادل، صدوق، صالح، اور متبع قرآن وسنت عالم تھے۔ ان سے ایسی بات کے واقع ہونے کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا پھر چاہے اس کی اسناد صحیح ہی کیوں نہ ہو۔
محض اسناد کے علاوہ دیگر قرائین کو مد نظر رکھنا بہت ضروری ہے، مثلا:
1- کیا وجہ ہے کہ اگر امام ابو حنیفہ نے ایسا کہا ہو اور ان کے تمام تلامذہ، دوستوں، حتی کہ دشمنوں کو بھی اس کا علم نہ ہو! اور انہوں نے خاموشی اختیار کی ہو۔ نیز ان کے کسی معروف تلمذ نے اس کا ذکر تک نہ کیا ہو!؟
2- کیا وجہ ہے کہ امام ابو حنیفہ کے اس قول کو سننے کے بعد، قاضی کو شکایت کرنے کی بجائے، اور بنا کوئی شور کیے یحیی بن حمزہ شام میں بیٹھ کر اطمینان سے ایک مجلس میں سعید کو یہ بات سنا رہے ہیں!؟
3- کیا وجہ ہے کہ امام ابو حنیفہ جن کا منہج بالکل واضح ہے اور جو کسی کی جاہ یا وسیلے سے اللہ سے دعا مانگنے تک کو حرام قرار دیتے ہیں، وہ جوتے کی پوجا کو جائز قرار دے رہے ہیں!؟
اور پھر اگر یہ ثابت بھی ہو جائے تو دیگر کئی سوال اٹھتے ہیں مثلا کیا واقعی امام ابو حنیفہ نے بعینہ یہی الفاظ کہے تھے یا ان کی کسی دوسری بات کو ایک مفہوم دے کر خود بخود ان کی طرف منسوب کیا جا رہا ہے، اور ایسا سلف میں کثرت سے پایا جاتا ہے مثلا:
1- امام محمد بن اسحاق بن یسار نے امام مالک کے نسب کو بیان کرنے میں غلطی کی تو امام مالک نے انہیں کذاب کہہ دیا، حالانکہ آپ جھوٹے نہیں تھے!
2- امام شعبہ نے منہال بن عمرو کے گھر کے باہر میوزک یا غناء کی آواز سنی تو فورا وہاں سے چل دیے اور ان کی حدیث کو ترک کر دیا۔
3- کسی شخص نے کسی عذر کی بنا پر گھر میں نماز پڑھ لی، تو کہہ دیا گیا کہ وہ نماز کا تارک ہے۔
4- کسی نے پچھلی نماز کے وضوء کے ساتھ اگلی نماز پڑھ لی، تو دیکھنے والے نے کہہ دیا کہ فلاں بنا وضوء کے نماز کا قائل ہے۔
5- کوئی شخص نبیذ پینے کا قائل ہے تو کہہ دیا گیا وہ شراب پیتا ہے۔
وغیرہ وغیرہ۔ اس طرح کی مثالیں کتب میں عام مل جاتی ہیں۔ لہٰذا امام ابو حنیفہ کے متعلق کم از کم اتنا تو حسن ظن رکھا جائے کہ اتنی واضح اور ان کی شان، سیرت، اور عادت کے بالکل خلاف اس واقعہ کو تعصب کی پٹی چڑہائے بنا سوچے سمجھے تسلیم نہ کر لیا جائے۔
اس کلام کے بعد اب ضروری ہے کہ اس واقعہ کی سند پر بھی بحث کر لی جائے۔
بہت سے علماء نے اس کی سند کو صحیح قرار دیا ہے، لیکن اصل میں ایسا نہیں ہے۔
ایک اہم بات جو شاید ان تمام علماء نے اپنی تحقیق میں نظر انداز کی ہے وہ یہ کہ اگرچہ اس کے تمام رجال ثقہ ہیں اور سند بظاہر صحیح ہے لیکن اس میں انقطاع موجود ہے۔
یحیی بن حمزہ بن واقد الدمشقی الشامی اور امام ابو حنیفہ کے درمیان سند منقطع ہے۔
یحیی بن حمزہ دمشق شام کے رہنے والے ہیں جبکہ امام ابو حنیفہ کوفی ہیں۔ اور نہ تو امام ابو حنیفہ کبھی شام آئے اور نہ یحیی بن حمزہ کبھی کوفہ گئے، تو یہ بات انہوں نے کہاں سے سنی!؟
بلکہ یحیی بن حمزہ کے اساتذہ کی فہرست نکال کر دیکھیں، ان کے تمام شیوخ شام یا دمشق یا حجاز کے ہیں اور سوائے سفیان الثوری کے کوفہ کا ایک بھی شخص ان کے شیوخ میں شامل نہیں ہے۔ اب جس شخص نے کوفہ کہ ایک بھی شخص سے کچھ بھی نہ سنا ہو، وہ صرف امام ابو حنیفہ سے یہ ایک جملہ سننے کے لئے ہزاروں میل کا سفر طے کر کے کوفہ کیوں جائے اور اگر جائے تو ایک بھی کوفی سے روایت نہ کرے!؟؟
اللہ ہمیں انصاف پسندی کی توفیق دے اور مذہبی تعصب سے بچائے! آمین
ایک روایت ہمارے چند علماء اور ان کی تقلید میں طلباء اکثر پیش کرتے ہیں کہ:
خبرنا محمد بن الحسين بن الفضل القطان , قال أخبرنا عبد اللہ بن جعفر بن درستويہ , قال حدثنا يعقوب بن سفيان , قال حدثني علي بن عثمان بن نفيل , قال حدثنا أبو مسهر , قال حدثنا يحيى بن حمزة , وسعيد يسمع , أن أبا حنيفة قال : لو أن رجلا عبد هذه النعل يتقرب بها إلى الله , لم أر بذلك بأسا , فقال سعيد : هذا الكفر صراحا
ترجمہ: يحيى بن حمزہ نے سعيد کے سامنے يہ بات بيان کي کہ أبو حنيفہ نے کہاہے: اگر کوئي شخص اس جوتے کي عبادت کرے اللہ کا تقرب حاصل کرنے کي نيت سے تو ميں اس ميں کوئي حرج نہيں سمجھتا ۔تو سعيد (بن عبد العزيز التنوخي ) نے (يہ سن کر ) کہا : يہ تو صريح کفر ہے۔
(المعرفۃ والتاریخ للفسوی ص 368، وتاریخ بغداد جلد 13 صفحہ 372 وغیرہ)
اب اگر کسی کا مقصد محض اس روایت سے احناف کے دل جلانا ہے اور ان کے خلاف اپنی بھڑاس نکالنا ہے تو بے شک یہ روایت بڑی زبردست ہے۔
لیکن اگر اس روایت سے کسی کا مقصد امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے عقیدے کو واضح کر کے انہیں گمراہ اور مشرک و کافر قرار دینا ہے تو یہ بہت بعید ہے۔
امام ابو حنیفہ چاہے جیسے بھی ہوں اور ان پر چاہے جتنی بھی جرحیں موجود ہوں لیکن یہ ماننا کہ وہ ایسا گندا اور کفریہ عقیدہ رکھتے تھے بالکل بھی ان کی ذات کے لائق نہیں ہے۔ امام ابو حنیفہ تو دور کی بات، اگر کوئی شخص اس جملے کی نسبت طاہر القادری جیسے بدعتی اور گمراہ شخص کی طرف بھی کرتا تو میں اسے ماننے سے پہلے ہزار بار سوچتا یا پھر یہ سوچتا کہ شاید قادری صاحب نے کچھ اور کہا ہو گا جس کا مطلب کسی نے اس طرح لے لیا ہو۔
یہ الفاظ اور یہ عقیدہ ایسا ہے کہ طاہر القادری بھی کیا کسی بھی مسلمان شخص سے اس کی نسبت کرنا مشکل ہے تو پھر امام ابو حنیفہ تو بہت دور کی بات ہے۔
یہاں ایک بات یہ بھی عرض کردوں کہ گو اہل حدیث علماء اور عوام انصاف پسندی کی باتیں تو کرتے ہیں اور مذہبی تعصب سے اظہار برات تو خوب کرتے ہیں لیکن کہیں نہ کہیں ان میں بھی یہ چیزیں کافی حد تک پائی جاتی ہیں۔ ان کے پاس اپنے کسی عالم یا امام کی کوئی غیر معقول بات سامنے آجائے تو فورا اس کی تاویلیں وغیرہ کرنے بیٹھ جاتے ہیں اور صفحات کے صفحات صرف اس بات کی وضاحت پر کالے کر دیتے ہیں کہ ہمارے عالم نے جو کہا اس سے دراصل ان کا مطلب کیا تھا۔
لیکن اگر ایسی ہی کوئی بات مخالف پارٹی کے کسی عالم سے نکل آئے تو بس، فورا فتوی بازی شروع ہو جاتی ہے، اور اس میں تاویل کا تو سوچنا ہی گناہ بن جاتا ہے۔ ایسا حال اس کیس میں بھی ہے۔
امام ابو حنیفہ جیسے بھی تھے، ایک عادل، صدوق، صالح، اور متبع قرآن وسنت عالم تھے۔ ان سے ایسی بات کے واقع ہونے کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا پھر چاہے اس کی اسناد صحیح ہی کیوں نہ ہو۔
محض اسناد کے علاوہ دیگر قرائین کو مد نظر رکھنا بہت ضروری ہے، مثلا:
1- کیا وجہ ہے کہ اگر امام ابو حنیفہ نے ایسا کہا ہو اور ان کے تمام تلامذہ، دوستوں، حتی کہ دشمنوں کو بھی اس کا علم نہ ہو! اور انہوں نے خاموشی اختیار کی ہو۔ نیز ان کے کسی معروف تلمذ نے اس کا ذکر تک نہ کیا ہو!؟
2- کیا وجہ ہے کہ امام ابو حنیفہ کے اس قول کو سننے کے بعد، قاضی کو شکایت کرنے کی بجائے، اور بنا کوئی شور کیے یحیی بن حمزہ شام میں بیٹھ کر اطمینان سے ایک مجلس میں سعید کو یہ بات سنا رہے ہیں!؟
3- کیا وجہ ہے کہ امام ابو حنیفہ جن کا منہج بالکل واضح ہے اور جو کسی کی جاہ یا وسیلے سے اللہ سے دعا مانگنے تک کو حرام قرار دیتے ہیں، وہ جوتے کی پوجا کو جائز قرار دے رہے ہیں!؟
اور پھر اگر یہ ثابت بھی ہو جائے تو دیگر کئی سوال اٹھتے ہیں مثلا کیا واقعی امام ابو حنیفہ نے بعینہ یہی الفاظ کہے تھے یا ان کی کسی دوسری بات کو ایک مفہوم دے کر خود بخود ان کی طرف منسوب کیا جا رہا ہے، اور ایسا سلف میں کثرت سے پایا جاتا ہے مثلا:
1- امام محمد بن اسحاق بن یسار نے امام مالک کے نسب کو بیان کرنے میں غلطی کی تو امام مالک نے انہیں کذاب کہہ دیا، حالانکہ آپ جھوٹے نہیں تھے!
2- امام شعبہ نے منہال بن عمرو کے گھر کے باہر میوزک یا غناء کی آواز سنی تو فورا وہاں سے چل دیے اور ان کی حدیث کو ترک کر دیا۔
3- کسی شخص نے کسی عذر کی بنا پر گھر میں نماز پڑھ لی، تو کہہ دیا گیا کہ وہ نماز کا تارک ہے۔
4- کسی نے پچھلی نماز کے وضوء کے ساتھ اگلی نماز پڑھ لی، تو دیکھنے والے نے کہہ دیا کہ فلاں بنا وضوء کے نماز کا قائل ہے۔
5- کوئی شخص نبیذ پینے کا قائل ہے تو کہہ دیا گیا وہ شراب پیتا ہے۔
وغیرہ وغیرہ۔ اس طرح کی مثالیں کتب میں عام مل جاتی ہیں۔ لہٰذا امام ابو حنیفہ کے متعلق کم از کم اتنا تو حسن ظن رکھا جائے کہ اتنی واضح اور ان کی شان، سیرت، اور عادت کے بالکل خلاف اس واقعہ کو تعصب کی پٹی چڑہائے بنا سوچے سمجھے تسلیم نہ کر لیا جائے۔
واقعہ کی سند پر بحث:
اس کلام کے بعد اب ضروری ہے کہ اس واقعہ کی سند پر بھی بحث کر لی جائے۔
بہت سے علماء نے اس کی سند کو صحیح قرار دیا ہے، لیکن اصل میں ایسا نہیں ہے۔
ایک اہم بات جو شاید ان تمام علماء نے اپنی تحقیق میں نظر انداز کی ہے وہ یہ کہ اگرچہ اس کے تمام رجال ثقہ ہیں اور سند بظاہر صحیح ہے لیکن اس میں انقطاع موجود ہے۔
یحیی بن حمزہ بن واقد الدمشقی الشامی اور امام ابو حنیفہ کے درمیان سند منقطع ہے۔
یحیی بن حمزہ دمشق شام کے رہنے والے ہیں جبکہ امام ابو حنیفہ کوفی ہیں۔ اور نہ تو امام ابو حنیفہ کبھی شام آئے اور نہ یحیی بن حمزہ کبھی کوفہ گئے، تو یہ بات انہوں نے کہاں سے سنی!؟
بلکہ یحیی بن حمزہ کے اساتذہ کی فہرست نکال کر دیکھیں، ان کے تمام شیوخ شام یا دمشق یا حجاز کے ہیں اور سوائے سفیان الثوری کے کوفہ کا ایک بھی شخص ان کے شیوخ میں شامل نہیں ہے۔ اب جس شخص نے کوفہ کہ ایک بھی شخص سے کچھ بھی نہ سنا ہو، وہ صرف امام ابو حنیفہ سے یہ ایک جملہ سننے کے لئے ہزاروں میل کا سفر طے کر کے کوفہ کیوں جائے اور اگر جائے تو ایک بھی کوفی سے روایت نہ کرے!؟؟
اللہ ہمیں انصاف پسندی کی توفیق دے اور مذہبی تعصب سے بچائے! آمین
Last edited: