• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا شیخ الاسلام ابن تیمہ رحمہ اللہ کے مزاج میں شدت تھی ؟

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

باذوق

رکن
شمولیت
فروری 16، 2011
پیغامات
888
ری ایکشن اسکور
4,011
پوائنٹ
289
۔۔۔۔ ہم قارئین کے سامنے مطلب کی بات کو رکھتے ہیں تاکہ وہ غالب کے طرفدار نہ بن کر بلکہ سخن فہم بن کربھی دیکھ لیں کہ ۔۔۔۔
ایک غیرجانبدار طالب علم کی حیثیت سے اس مراسلے کی بیشتر باتوں پر میں آپ سے اتفاق کرنے پر مجبور ہوں!!
اتنی معقول وضاحت کا شکریہ جمشید بھائی۔
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
قارئین کرام !
آپ نے ابھی اوپر ٍٍظفر تھانوی صاحب کا قول پڑھا جس میں موصوف نے ابن تیمہ رحمہ اللہ پر نہ صرف یہ کہ تشدد کا الزام لگایا بلکہ ساتھ ہی یہ بھی صراحت کردی کہ اس تشدد کے سبب ان کے اقوال قابل قبول نہیں ہیں۔
ہم قارئین سے انصاف کے خواہاں ہیں کہ وہ مولاناظفراحمدتھانوی کے اصل جملہ پرغورکریں
فمثل هولاء المتشددين لايحتج بقولهم إلا بعد التثبت و التأمل
اس کا ترجمہ خود کفایت اللہ صاحب نے یہ کیاہے۔ لہذا ایسے متشددین کے اقوال کو بغیر غور فکرکے قبول نہیں کیا جائے گا
اورمعابعد کفایت اللہ صاحب کہہ رہے ہیں کہ
آپ نے ابھی اوپر ٍٍظفر تھانوی صاحب کا قول پڑھا جس میں موصوف نے ابن تیمہ رحمہ اللہ پر نہ صرف یہ کہ تشدد کا الزام لگایا بلکہ ساتھ ہی یہ بھی صراحت کردی کہ اس تشدد کے سبب ان کے اقوال قابل قبول نہیں ہیں۔
کیاغوروفکر کے بعد کسی کی بات کو قبول کرنا اوراورتشدد کے سبب قابل قبول نہیں ماننا دونوں ایک بات ہے۔ابھی تک توہمیں صرف ان کی عربی پر ہی کچھ اعتراضات تھے اب ان کی اردو بھی مشکوک ہوگئی ہے۔
کفایت اللہ صاحب خود بتائیں کہ وہ حضرت ابن تیمیہ اورابن قیم کے اقوال غوروفکر کے بعد قبول کرتے ہیں یامحض پڑھ کر اورسن کر قبول کرلیتے ہیں۔اگرشق ثانی ہے تویہ تقلید ہے اوراگر شق اول ہے تویہ بعینہ وہی بات ہے جومولاناظفراحمد تھانوی صاحب کہہ رہے ہیں؟

لیکن اب اس سے بھی بڑا عجوبہ دیکھئے اوروہ بھی دنیائے حنفیت کی ایک بہت عظیم شخصیت کی زبان میں ، میری مراد علامہ انورشاہ کاشمیری صاحب ہیں ، ٍظفرتھانوی نے تو ابن تیمیہ پر تشدد کاالزام لگا کر اس سبب ان کے اقوال کو ناقابل قبول بتلایا ، مگرشاہ صاحب نے تو ابن تیمیہ رحمہ اللہ پر تشددکاالزام لگا کر ان کے نقل پر بھی سوال اٹھا دیا ! انا للہ وانا الیہ راجعون !
ملاحظہ فرمائیں ، شاہ صاحب لکھتے ہیں:
أما الحافظ ابن تيمية رحمه الله تعالى فإنه ۔۔۔۔۔۔وإن نسب الزيادة والنقصان إلى إمامنا رحمه الله تعالى۔۔۔۔۔۔ لكنّ في طبعه سَوْرَةٌ وحِدَّة، فإذا عَطَفَ إلى جانب عَطَفَ ولا يبالى، وإذا تصدى إلى أحد تصدى ولا يُحاشي، ولا يُؤمَنُ مثله من الإفراط والتفريط، فالتردد في نقله لهذا، وإن كان حافظاً متبحراً.[ فيض البارى:1/ 63]۔

غورکریں کہ شاہ صاحب نے ابن تیمیہ رحمہ اللہ پر تشدد کا الزام لگایا پھر اس کے سبب انہیں افراط وتفریط کا مرتکب قرار دیا حتی کے ان کی نقل کردہ باتوں کو بھی مشکوک قرار دے دیا۔
شاہ صاحب کے اس قول سے بھی یہ حقیقت کھل کر سامنے آگئی کہ شیخ الاسلام رحمہ اللہ پر تشدد کا الزام لگانے میں کیا مصلحت کار فرما ہے، یعنی اس بہانے نہ صرف یہ کہ ان کے اقوال وفتاوی کو مہمل قراد دے دیا جائے بلکہ نقل میں بھی ان پر اعتماد قطعا نہ کیا جائے !!!! (یعنی وہ نقل میں خیانت کرسکتے ہیں) لاحول ولا قوۃ الا باللہ۔
بزرگان دین کہ گئے ہیں کہ ایک من علم رادہ من دماغ باید۔اسی لئے بعض لوگوں کے بارے میں کہاگیاہے کہ علمہ اکبرمن عقلہ ۔یہاں علم سے مراد معلومات ہیں۔ علم تودوسری شیے ہے علم تونورالہی ہے جو اللہ کسی بندے کے دل میں ڈالتاہے۔معلومات دوسری شیے ہیں۔ لیکن معلومات کا افراط بھی اگراس کو سمجھے اورہضم کئے بغیر ہوتواس کے سائڈ ایفکٹ اورمضراثرات ہوسکتے ہیں۔

علامہ انورشاہ کاشمیری نے یہ ضرور کہاہے کہ حضرت ابن تیمیہ کے مزاج مین حدت ہے اوراس کی وجہ سے وہ جب ایک جانب جھکتے ہیں تواسی طرف کے ہورہتے ہیں اوراس میں افراط وتفریط کاخدشہ رہتاہے۔
لیکن اس بات سے یہ نتیجہ اخذ کرنا کہ وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ ابن تیمیہ نقل میں امین نہیں ہیں۔بلکہ خیانت کرتے ہیں توجیہ القول بمالایرضی بہ القائل کے قبیل سے ہے۔

یہ بات توہم بھی شروع سے کہتے آرہے ہیں کہ حضرات ابن تیمیہ میں نسبتاًاعتدال وتوازن کی کمی ہے اوروہ فریق مخالف کے موقف کے ساتھ پوراانصاف نہیں کرتے۔

علامہ انورشاہ صاحب کشمیری کے قول کا مطلب یہ ہے کہ حضرت ابن تیمیہ جس موقف کے اثبات کے درپے ہوتے ہیں تومکمل طورپر اس کے درپے ہی ہوتے ہیں اورمسئلہ کے دوسرے پہلو اوراس کے دلائل کے ساتھ انصاف نہیں کرتے اس کی وجہ سے بسااوقات ایساہوتاہے کہ وہ اپنے مدعا کے اثبات میں اگرکمزور قول اورکمزور دلیل ملے تواسے بھی اخذ کرلیتے ہیں اور اسے پرزور بناکر ثابت کرتے ہیں۔

یہ مطلب نہیں کہ وہ دانستہ نقل میں خیانت اورتحریف کرتے ہیں؟یاجوکچھ وہ نقل کرتے ہیں اس میں وہ امین نہیں ہوتے۔وہ نقل توکرتے ہین جوبات ان کو ملتی ہے ویسی ہی ۔لیکن اس نقل میں مزاج کی حدت وشدت کے باعث ہوتایہ ہے کہ وہ اپنے موقف کے اثبات پر پوری توجہ دیتے ہیں اوراس میں جہاں ضعیف قول بھی ملتاہے تواس کوبھی پرزور بناکر نقل کردیتے ہیں ۔اوراس کے برعکس مخالف کے قول کے ساتھ سلوک کرتے ہیں۔
اسی کو ابن حجرؒ نے اس سے تعبیر کیاکہ ہے کہ انہوں نے رافضی کی تردید کرتے کرتے بہت ساری جیاد حدیثوں کابھی انکار کردیا۔اس کی وجہ بقول ابن حجر یہ ہے کہ وہ اپنے حافظہ پر زیادہ اعتماد کرتے ہیں جب کہ انسان سے بھول چوک ہوہی جاتی ہے۔اوراسکو علامہ انورشاہ کاشمیری اس سے تعبیر کرتے ہیں کہ ان کے مزاج میں حدت ہے اورجس جانب ان کاجھکاؤہوتاہے وہ پورے طورپر اسی کے اثبات اوردوسرے پہلو کی نفی پر توجہ مرکوز کئے رہتے ہیں۔

شیخ محمداسماعیل سلفی رحمہ اللہ ، شاہ صاحب کے الزام پر تبصرہ کرتے ہوئے بجاطورپرفرماتے ہیں:
فلينظر العاقل العارف بأحوال الرجال، هل لرأيه هذا قيمة علمية، لعل الشيخ لم يعلم أن نقده هذا علي ابن تيمية قد أسقط رتبته العلمية في أعين أهل المعرفة، يطعن علي ابن تيمية بالسورة والحق أنه السائر والثائر عليه. إن لم تؤمن بنقله فالعالم کله يؤمن بنقله.
وهل هذا، إلا سورة منک رحمک الله. نشأت بين العصبية المنتنة و البغض بأهل التوحيد والسنة المتمسکين بالسلفية، کأنک رحمک الله کوثري أوانک وترکماني زمانک لاتخاف في مؤمن إلا ولا ذمة.
أيش تقول إن محمد بن عبدالوهاب بليد، قليل العلم! و تقوية الايمان لشدته لم تفد شيئا! وابن تيمية لسورته لايعتمد عليه!!
أهذا علمک وذکاءک؟ رحمک الله ألا تري أن التوحيد الخالص القراني قد عم أقطار البلاد بمساعي هؤلاء الائمة رحمهم الله.
صدق المجربون: إن الخفاش لايفيده ضوء الشمس وإن کان نصف النهار.
[مقدمہ شرف اصحاب الحدیث :ص ١٥ از شیخ محمداسماعیل السفی رحمہ اللہ ، بحوالہ دعوۃ شیخ الاسلام ۔۔۔۔۔از شیخ صلاح الدین مقبول]۔
اس قسم کی بحثوں میں شیخ اسماعیل سلفی یاکسی دوسرے ایسے ہی سلفی کا حوالہ براہ کرم مت دیجئے ۔شیخ اسماعیل سلفی کے اقوال ہوسکتاہے کہ آپ ان کو حجت مانتے ہوں اوردلیل تسلیم کرتے ہوں لیکن ان کی باتوں کی ہمارے نزدیک کوئی اہمیت نہیں ہے۔ اس لئے علمی حوالوں میں ایسے اشخاص کے حوالے دیجئے جو غیرجانبدار ہوں ۔نہ کہ البانی اوراسماعیل سلفی اوراسی قبیل کے دوسرے لوگ۔کیوں کہ ہمارے پاس بھی ایسے بہت سارے حوالے موجود ہین لیکن ہمیں یقین واثق ہے کہ اگران کاحوالہ دیاجائے توپھرآپ ناک بھوں چڑھاناشروع کردیں گے۔لہذا اسماعیل سلفی صاحب کابیان اس لائق نہیں ہے کہ اس کو ایک علمی ابحاث مین بالخصوص جب آپ دوسرے فریق سے کررہے ہوں پیش کرین۔

ویسے بھی موصوف نے یہاں یکطرفہ بیان دیاہے۔یہ بھی خوب رہاکہ جوبھی آپ کامخالف ہو وہ توحید اورسنت کا مخالف ہو یعنی سلفی حضرات خود کوتوحید اوسنت کے برابرٹھہراتے ہیں اوران پر کسی تنقید کا مطلب یہ ہے کہ توحید اورسنت کی مخالفت کی جائے یہ تصور اورخیال ہی توحید اورسنت کی توہین اوراستخفاف ہے کہ کسی شخص واحد کو یاجماعت کو توحید و سنت کے برابر کا مقام دے دیاجائے۔ دوسروں کو تواسماعیل سلفی صاحب العصبیۃ المنتنہ کاخطاب دے رہے لیکن خود انہوں نے اپنی اوراپنی جماعت کے بدبودار عصبیت سے آنکھیں بند کررکھی ہیں۔خود یہ کتاب جس کا حوالہ دیاگیاہے ۔ وہ ان ابحاث کو توبڑے وثوق سے پیش کرتے ہیں جہاں شافعیوں اورحنفیوں کے نزاع نے ناخوشگوار صورت حال پیش کیں لیکن خود محدثین کے درمیان جوآپسی نزاعات ہوئے اس کے ذکر وہ سرے سے گول کرجاتے ہیں۔یہ بھی بدبودار عصبیت ہے اگرچہ اس کی بدبو سے موصوف نے اپنے ناک بند کرلئے ہوں۔

اپنی اس کتاب میں توانہوں نے شاہ ولی اللہ کے تعلق سے وہ باتیں توبڑے ذوق وشوق کے ساتھ نقل کی ہیں جہاں انہوں نے فقہاء احناف پر اورمقلدین پر کلام کیاہے لیکن جہاں انہوں نے محدثین پر کلام کیاہے یاپھرتصوف پر کلام کیاہے اس کے ذکر سے سرسری طورپر گزرگئے ہیں۔ یہ بھی عصبیت منتنہ ہے۔بس حال وہی ہے کہ
سارے جہاں کاجائزہ اپنے جہاں سے بے خبر
واضح رہے کہ یہی شاہ صاحب محمدبن عبدالوھاب رحمہ اللہ کے بارے میں فرماتے ہیں:
أما محمد بن عبد الوهاب النَّجْدِي فإنه كان رجلاً بليداً قليلَ العلمِ، فكان يتسارع إلى الحكم بالكفر ولا ينبغي أن يقتحم في هذا الوادي إلا من يكون متيقِّظاً متقِناً عارفاً بوجوه الكفر وأسبابِهِ. [فيض البارى: 1/ 188]۔
ترجمہ : جہاں تک محمدبن عبدالوھاب نجدی کا تعلق ہے تو یہ نادان اورکم علم شخص تھا ، کسی کو کافر کہنے میں جلدی بازی کیاکرتا تھا ، اس وادی میں اسی شخص کوقدم رکھنا چاہئے جو بیدارمغز ، پختہ کار اور کفر کے اسباب و وجوہ سے واقف ہو۔
اب انصاف کریں کہ اصل متشدد کون ہے ، محمدبن عبدالوھاب النجدی رحمہ اللہ جیسی عظیم شخصیت کو نادان اورکم علم کہنا کون سا علمی انصاف ہے؟؟؟
شیخ محمد بن عبدالوہاب کو جوکچھ علماء دیوبند نے کہاہے وہ اس میں متفرد نہیں ہیں۔ یہی بات شیخ عبدالوہاب کے اپنے بھائی ان کے بارے میں کہہ چکے ہیں۔ یہی بات علامہ شامی نے بھی اپنے مشہور زمانہ شرح میں لکھی ہے۔اوراس زمانہ کے دیگر علماء نے بھی اپنی کتابوں میں لکھاہے۔اگرچہ سعودی عرب سے شائع ہونے والے شامی کے نسخہ میں شیخ عبدالوہاب کے تعلق سے ان کی عبارت حذف کردی گئی ہے جوبجائے خود تحریف سلفیان کی جیتی جاگتی مثال ہے۔ خاص طورپر اس پر ان لوگوں کو غورکرناچاہئے جو کتاب المجروحین سے امام ابوحنیفہ کا ترجمہ نکالنے کو تحریف کہتے ہیں تواسے بھی تحریف کہناچاہئے لیکن شاید ان کے اندر اس کی اخلاقی جرات نہ ہوگی وہ ضرور کوئی لایعنی تاویل کرکے اس کو حق بجانب ٹھہرانے کی کوشش کریں گے۔
شیخ محمد بن عبدالوہاب کے تعلق سے علامہ انورشاہ کشمیری کے جن بیانات کا شکوہ اورشکایت کااظہار کیاجارہاہے تعجب ہے کہ وہی اورایسے ہی بیانات نواب صدیق حسن خان اوردوسرے عربی وغیرعربی سبھی سے منقول ہیں۔
اگرفرصت ملی توعلامہ شامی عبدالوہاب کے بھائی اوردیگر ان کے معاصرین علمائ سے ان کے تعلق سے بیانات نقل کردوں گاکہ جس میں انہوں نے عبدالوہاب کے تعلق سے اس سے بھی زیادہ سخت الفاظ استعمال کئے ہیں۔

ہم غربیوں کو بلاوجہ بدنام کیا جاتا ہے ، اوربداخلاقی و بدزبانی کا شکوہ کیا جاتاہے ایک پل کے لئے غورکریں کہ یہ ان کی زبان ہیں جودنیائے حنفیت کے علامہ ، محقق ، شیخ الحدیث بلکہ محدث کبیر ہیں ۔
یہ آپ کی غلط بیانی ہے کہ صرف ہم آپ کے بداخلاقی اوربدزبانی کاشکوہ کرتے ہیں۔ اس کا روناتوخود آپ کی جماعت کے بزرگوں نے رویاہے اوران کو اس کا شکوہ رہاہے کہ اہل حدیث ائمہ اربعہ کی تعظیم نہیں کرتے ۔
اس کی کچھ مثالیں ملاحظہ ہو۔
میں نے ان کو (اہل حدیثوں )بارہاآزمایا لیکن میں نے ا ن مین سے کسی کو ایسانہیں پایا جسے صالحین کے طریقہ پر چلنے کی رغبت ہو یاوہ اہل ایمان کی سیرت کے مطابق چلتاہو۔ بلکہ یں نے توان میں سے ہرایک کوکمینی دنیا میں منہمک اوراس کے ردی سازوسامان میں مستغفرق ،جاہ ومال کو جمع کرنے والا ،حلال وحرام کی تمیز کے بغیر مال کی لالچ رکھنے والاپایا۔ اسلام کی مٹھاس سے خالی الذہن اورعام مسلمانوں کی نسبت شریر کمینے لوگوں کی طرح سنگدل پایا۔۔۔۔۔بخدایہ امیر انتہاءی تعجب اورحیرت کاباعث ہے کہ یہ لوگ اپنے آپ کو خالص موحد گردانتے ہیں اوراپنے ماسویٰ سب مسلمانوں کو مشرک بدعتی قراردیتے ہیں حالانکہ یہ خود انتہائی متعصب اور اوردین مین غلوکرنے والے ہیں۔(الحطہ ص154تا155)
دیکھئے مولانا عبدالجبارصاحب غزنوی کیاکہتے ہیں۔
ہمارے اس زمانے میں ایک نیافرقہ کھڑاہواہے جو اتباع حدیث کا دعویٰ رکھتاہے اورحقیقت میں وہ لوگ اتباع حدیث سے کنارے ہیں جوحدیثیں کہ سلف کے یہاں معمول بہاہیں ان کو ادنی سے قد اورکمزور جرح پر مردود کہہ دیتے ہیں اورصحابہ کے اقوال وافعال کو ایک بے طاقت سے قانون اوربے نور سے قول کے سبب پھینک دیتے ہیں اوران پر اپنے بیہودہ خیالوں اوربیمارفکروں کو مقدم رکھتے ہیں اوراپنانام محقق رکھتے ہیں۔ حاشاوکلااللہ کی قسم یہی لوگ جوشریعت نبویہ کے نشان کو گراتے ہیں اورملت حنفیہ کی بنیادوں کو کہنہ کرتے ہیں اور سنت مصطفویہ کے نشانوں کو مٹاتے ہیں ۔احادیث مرفوعہ کو چھوڑرکھاہے اورمتصل الاسناد آثار کو پھینک دیاہے اوران کو دفع کرنے کیلئے وہ حیلے بناتے ہیں کہ جن کیلئے کسی یقین کرنے والے کاشرح صدر نہیں ہوتا اورنہ کسی مومن کا سراٹھتاہے۔(فتاوی علمائے اہل حدیث 7/80،بحوالہ غیرمقلدین کی ڈائری ص232
اوراسی طرح مولانااسحاق بھٹی نے بھی نقوش موعظت کے کسی شمارے میں اپنی جماعت کے اس طرزعمل کا شکوہ کیاہے کہ یہاں بزرگوں کا اکرام نہیں کیاجاسکتا ہرشخص قلم سنبھالے دوسرے کے رد کا منتظر بیٹھاہے(مفہوم)شمارہ ملاتو ان کی اپنی بات میں شیئر کردوں گا۔

اس سے بھی آنکھیں ٹھنڈی نہ ہوں توشیخ ابن جبرین کی یہ بات ملاحظہ کیجئے دیکھئے انہوں نے کس طرح غیرمقلدین کے طرزعمل سے اپنی برات ظاہر کی ہے۔
امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پہ جرح اور تنقیص کا حکم


ایک آخری مثال اس کی بھی لے لیں جہاں دیکھئے مقصود الحسن فیضی نے اپنی جماعت کے نوجوان دعاۃ کے طرز عمل اورخیال ومعتقد پر روشنی ڈالی ہے۔
مام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے متعلق یہ چند سطریں اس لئے تحریر کی گئیں کہ بہت سے جذباتی اور نوجوان اہلحدیث دعاۃ سے متعلق سننے میں آتا ہے کہ وہ امام موصوف سے متعلق بدزبانی ہی نہیں بلکہ بدعقیدگی میں مبتلا ہیں حتی کہ ان میں سے بعض تو امام موصوف کو " رحمہ اللہ " کہنے کے لئے بھی تیار نہیں ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ امام صاحب کو مسلمان نہیں سمجھتے { حاشا للہ } مجھے تو ڈر ہے کہ کہیں ایسے لوگ خود ہی رحمت الہی سے محروم نہ ہوجائیں
امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ اور ان پر لعن طعن (مقصود الحسن فیضی)

کیااس سب کے باوجود یہی کہاجائے گاکہ

ہم غربیوں کو بلاوجہ بدنام کیا جاتا ہے ، اوربداخلاقی و بدزبانی کا شکوہ کیا جاتاہے ایک پل کے لئے غورکریں کہ یہ ان کی زبان ہیں جودنیائے حنفیت کے علامہ ، محقق ، شیخ الحدیث بلکہ محدث کبیر ہیں ۔
علاوہ ازیں غیرمقلدین اوراحناف کے طرزعمل میں بڑافرق ہے۔ غیرمقلدین اپنی جماعت کی قلت کی وجہ سے ڈرے سہمے رہتے ہیں لہذا ان کو یہ حوصلہ نہیں ہوپاتاکہ وہ اپنی بات کو اپنے طورپر سامنے رکھیں۔ دیگرمحدثین کے مثالب اورطعون کے بیانات نقل کردیتے جیساکہ حقیقت الفقہ اور دیگر غیرمقلدین حضرات نے اپنی کتابوں میں نقل کیاہے ۔جب کبھی ان سے پوچھاجاتاہے تووہ محدثین کے پردے مین خود کو چھپانے لگتے ہیں۔ جب کہ احناف کا طرزعمل اس کے برعکس ہے۔ وہ اپنی بات کہتے ہیں کسی دوسرے کے پردے مین خود کو چھپاتے نہیں ہیں۔

اس تقیہ کی ایک بہتر مثال توآنجناب خود بھی ہیں۔ جب امام ابوحنیفہ کو نعوذباللہ گمراہ کن شخصیت کہاتھااورندوی صاحب نے آپ کا موقف دریافت کیاتھاتوآپ نے بھی سفیان ثوری کے دامن مین خود کوچھپایاتھا۔

الغرض انور شاہ کاشمیری کے مذکورہ قول سے بھی یہ حقیقت طشت ازبام ہوگئی کہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ پر تشدد کا الزام لگانے کے پیچھے یہی حکمت کارفرما ہے کہ اس ہتھیار سے ان کے اقوال وفتاوی کو اپنے خلاف پاکر رد کردیا جائے حتی کہ ان کی ذریعہ نقل کردہ بات پربھی اعتماد نہ کیا جائے۔
یہ بھی طرفہ تماشاکی اچھی مثال ہے ۔ابن تیمیہ کے فتاویٰ آپ کیلئے قابل حجت اورقابل عمل ہوں گے (اگرچہ پوچھنے پر آپ فوری طورپر انکار کردیں گے)ابن تیمیہ کے فتاوی کو رد کرنے کیلئے مکروحیلہ کی ضرورت ان کوپڑسکتی ہے جوان کے فتاوی کو حجت مانتاہے جیسے کہ آپ لوگ ۔ احناف نے کب کہاہے کہ ان کے فتاوی حجت اوردلیل ہیں۔ اورابن تیمیہ کے فتاوی پر عمل کرنا احناف کیلئے لازم ہے۔ جب احناف اس کے قائل ہی نہیں ہیں اورڈنکے کے چوٹ پر اس کے قائل نہیں ہیں توان کو کیاضرورت پڑی ہے کہ وہ ان کے فتاوی کو رد کرنے کیلئے اس طرح کے حیلہ وحوالہ اختیار کریں جوکہ آپ حضرات کا شعار ہے۔

حضرت حکیم الامت تھانوی سے لے کر مولانا عبدالحی لکھنوی تک جتنی بھی مثالیں آنجناب نے پیش کی ہیں۔ ان میں تمام حضرات نے اپنے ذاتی خیالات ابن تیمیہ کے تعلق سے پیش کئے ہیں۔ اس میں ان کے فتوی کو رد کرنے اورقبول کرنے کاکوئی دور دور مسئلہ ہے ہی نہیں۔ابن تیمیہ کی کی کتابوں سے جوان کا تاثر سامنے آیاوہ ان حضرات نے بیان کردیا۔
رہاسازش کامسئلہ تو وہ ان پانچوں مثالوں میں گدھے کے سرسے سینگ کی طرح غائب ہے۔
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
( مولوی عبدالحیی لکھنوی حنفی متوفی 1304 ھ)
مولوی لکھنوی نے شیخ الاسلام کی شان میں بدتمیزی کی حد کردی ہے ،اورشیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے تعلق سے اڑائی گئی جھوٹی اورمن گھڑت باتوں کو نقل کرکے ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے خطرہ سے اپنے پیروکاروں کو آگاہ کیا ہے ۔
یہ کفایت اللہ صاحب کی لن ترانی ہے مولانا عبدالحی لکھنوی کے متعلق صرف اس لئے کہ انہوں نے ابن تیمیہ کے پرکلام کیاہے ۔جب کہ اہل حضرات کے ایک بڑے عالم مولانا ارشاد الحق اثری سے ان کی یہ تعریف بھی ملاحظہ کرلیجئے ۔
برصغیر پاک وہند میں جن حضرات کو تبحر علمی ،جودت وذہانت ،فہم وفراست،زہد وتقویٰ کے ساتھ ساتھ کثرت تصنیف کاشرف حاصل ہے ان میں ایک حضرت مولانا علامہ عبدالحی لکھنوی رحمہ اللہ بھی ہیں۔ ٍٍٍص11
اندازہ کیجئے کہ کل 23سالہ تدریسی وتصنیفی دورمیں ایک سوسے زائد کتابوں کی تصنیف کس قدر اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی توفیق وعنایت کا نتیجہ ہے جس سے وہ اپنے مقبول بندوں کو ہی نوازتے ہیں۔ص11
ان ضروری گزارشات کے بعد اب آئے مولانا لکھنوی کے افکار وآراء کو پڑھئے یقیناآپ اس میں ان کی وسعت نظروظرف کا اعتراف کریں گے۔ص 29،مسلک احناف اورمولانا عبدالحی لکھنوی

ایک طرف مولانا لکھنوی کے بارے میں مولانا ارشادالحق اثری صاحب کے یہ اعترافات ملاحظہ ہوں۔ دوسری جانب کفایت اللہ صاحب نے جوکچھ کہاہے وہ ملاحظہ ہو ۔اب دونوں مین سے کون صحیح ہے اورکون غلط ہے۔

ایک شخص جس کو خدا نے تبحرعلمی، جودت وذہانت ،فہم وفراست اوران سب کے ساتھ زہدوتقویٰ سے بھی مالامال کیاہو کیاوہ کسی عالم دین کے خلاف سازش کرے گا؟کیایہ چیز ماننے کے لائق ہے۔

کفایت اللہ صاحب کا طرزکلام اس پورے مبحث میں یہی رہاہے کہ وہ تنقید کو سازش کے معنی میں لیتے ہیں اورکسی شخص کے حالات میں اس کے بارے میں ذکرکردہ تمام امور کو بیان کردینے کو وہ سازش سمجھتے ہیں۔

اگرکفایت اللہ صاحب کا استدلال اس پر منحصر ہےکہ انہوں نے اس بارے میں ابن بطوطہ کی بات کیوں بیان کی جوکہ واضح طورپر کذب ہے تویہی الزام خطیب بغدادی پر بھی آئے گاکہ اس نے امام ابوحنیفہ کے مثالب میں جوبیان کیاہے اس میں سے بہت سی ایسی بھی ہیں جس کی سند میں کذاب راوی موجود ہیں۔توآپ خطیب بغدادی کوسازشی کیوں نہیں کہتے۔بدتمیزی کی حد کردینے والابدتمیز کیوں نہیں کہتے؟

اب ایساتونہیں ہوسکتاکہ ایک شخص اگرابن تیمیہ کے تعلق سے کچھ کہہ رہاہے تو وہ بدتمیزی کی حد کرنے والاہوجائے اورسازشی ہوجائے لیکن اگراسی قسم کی بات کوئی دوسراامام ابوحنیفہ کے تعلق سے کہہ رہاہے تو وہ بڑاقابل اکرام وتعظیم قراردپائے۔
ہم منتظر رہیں گے کہ وہ ہمیں بتائیں کہ وہ کب سے خطیب بغدادی کو سازشی اوربدتمیزی کی حد کرنے والاکہہ رہے ہیں۔
اورپوری صراحت کے ساتھ یہ کہا ہے کہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے تشدد کی وجہ سے ان کی بہت ساری باتیں مردود ہیں ، موصوف نے یہ باتیں تو بہت ساری کتب میں کہی ہیں ہم صرف ان کی ایک کتاب ’’ إمام الكلام في القراءة خلف الإمام‘‘ کے حواشی سے چند اقتباسات پیش کرتے ہیں:

ان استناده في ذكر عيب الطحاوي بقول ابن تميمة ساقط عند ارباب القرائح الذكية فان مبالغات ابن تميمة وتشدداته الغير الرضية ومجماوزاته الحدود المرضية ومجازفاته الغير المرضية مشهورة بين جملة الوية الشريفة النقية [إمام الكلام في القراءة خلف الإمام 3/ 14]۔

ولذكر هاهنا عبارات السلف الدالة على بن علم ابن تميية اكبر من عقله وعلى تشدده وتجاوزهه عن حده في تقريره وتحريره
قال الحافظ ابن حجر العسقلاني وهو من ما وحية فيترجمته في كتاب الدر المختار في اعيان المائه الثامنة نقلان عن الذهبي انا لا اعتقده في جميع ماقاله بل انا مخالف له في مسائل اصلية وفرعية فانه كان مع سعة علمه وفرط شحاعته وسيلان ؟ وتغطمه لحرمات الدين تعتريه حدة في البحث وغضب وشطف الخصم يزرع له عداوة في النفوس وكان كبارهم خاضعين لعلومه معترفين بفضله وأنه بحر لا ساحل به وكنز لا نظير له ولكن يقمون عليه خلاف واقعالا انتهىة [إمام الكلام في القراءة خلف الإمام 3/ 14]


وقال ابن حجر ايضاً نقلاعن رحلة الاقشهري حتى زها على أبناء جنسه واستشعر أنه مجتهد فصار يرد على صغير العلماء وكبيرهم قويهم وحديثهم حتى انتهى إلى عمر فخطأه في شيء فبلغ الشيخ إبراهيم الرقي فأنكر عليه فذهب إليه واعتذر واستغفر وقال في حق علي أخطأ في سبعة عشر شيئا ثم خالف فيها نص الكتاب منها اعتداد المتوفى عنها زوجها أطول الأجلين وكان لتعصبه لمذهب الحنابلة يقع في الأشاعرة حتى أنه سب الغزالي فقام عليه قوم كادوا ، يقتلونه [إمام الكلام في القراءة خلف الإمام (3/ 14)]۔

وقال ابن حجر ايضاً في لسان الميزان طالعت رد ابن تيمية على الحليف وجدته كثير التحامل في رد الاحاديث[إمام الكلام في القراءة خلف الإمام 3/ 14]
تعجب کی بات یہ ہے کہ کفایت اللہ صاحب علامہ لکھنوی پر تومختلف قسم کے اتہامات تراش رہے ہیں لیکن ان اتہامات کو جن بزرگ نے اپنی کتاب میں جگہ دی ہے اس کے خلاف کچھ بھی بولنے کو تیار نہیں ہیں۔میری مراد حافظ ابن حجر علیہ الرحمہ سے ہے۔ انہوں نے ہی اپنی کتاب میں وہ تمام باتیں نقل کی ہیں جس کو بیان کرنے پر وہ حضرت علامہ لکھنوی پر "بدتمیزی کی حد کرنے والا اورسازشی جیسے الفاظ استعمال کررہے ہیں۔
مذکورہ اقتباسات میں وہی باتیں ہیں جنہیں جمشید صاحب نے جابجاپیش کیا ہے اوران سب کی حقیقت اس دھاگہ میں بیان کردی گئی ہے۔
جیسی حقیقت بیان کی گئی ہے اس کو ناظرین نے بھی ملاحظہ کرلیاہے۔دعویٰ کچھ اورہے دلیل کچھ اور ہے اورمدعاعنقاہے دونوں کے درمیان ربط کا اوران کے مذکورہ سازش کی تہمت اوراس کی ذکر کردہ دلیل کو دیکھ کر ابوالکلام آزاد کا مصرعہ ذہن میں آجاتاہے
پوچھی زمین کی توکہی آسمان کی​

لیکن لکھنوی صاحب نے تو بدتمیزی اوربے حیائی کے سارے حدود پارکرتے ہوئے ابن تیمیہ رحمہ اللہ سے متعلق واضح طور پر من گھڑت اورجھوٹی باتوں تک کو نقل کردیا ہے ،مثلا ابن بطوطہ کذاب کی بات نقل کرتے ہوئے لغوطراز ہیں:
وقال المورخ المغربي ابو عبد الله محمد الشهير بان بطوطة في رحلته المسماة بتحفة النظار في غرغائب المصار عند ذكر معالم دمشق وفصلائه وكان بدمشق الفقهاء الحنابلة تقي الدين ابن تيمية كبير الشام يتكلم في الفنون الا ان في عقله شيئاً وكان اهل دمشق يعظمونه اشد التعظيم ويعظهم على المنبر انتهى ثم ذكر بعض مقالته وأنه حضر مجلس وعظم يوم الجمعة فقال في وعظه ان الله ينزل الى سماء الدنيا كنزولي هذا ونزل درجه من درج المنبر فانكر عليه ذلك [إمام الكلام في القراءة خلف الإمام 3/ 14]
ہمیں ایک بات کنفرم کرنی ہے کہ اگرکسی شخصیت کے ضمن میں کوئی ایساواقعہ نقل کیاجاتاہے جس کو ہم بالفرض مان لیتے ہیں کہ وہ جھوٹ ہے توکیااس نقل کرنے والے کو ہم بدتمیزی اوربے حیائی جیسی بات کہیں گے اوراگریہی بات ہے توپھربات صرف علامہ لکھنوی تک محدود نہیں رہے گی۔ دیگر محدثین بھی اس کے ضمن میں آئیں گے۔کیونکہ انہوں نے بھی جوکچھ روات کے ضمن میں نقل کیاہے جب کہ بہت سوں کی سند میں کذاب اوروضاع راویان موجود ہیں۔توکفایت اللہ صاحب کاکیاخیال ہے کہ ہم ان کو بدتمیزی کی حد اوربے حیائی کی حد پارکرنے والاکہہ سکتے ہیں۔ اگرکہہ سکتے ہیں توپھربسم اللہ شروع کریں گے ۔

عرض ہے کہ ابن بطوطہ کے حوالہ سے موصف نے یہ حوالہ نقل کرکے بہت بری خیانت کا ثبوت دیا ہے ۔
یادرہے کہ ابن بطوطہ کی محولہ کتاب پوری کی پوری غیر معتبرہے اس کتاب کو ابن بطوطہ نے خود نہیں لکھا بلکہ اس کا مصنف ایک دوسرا شخص ہے اوراسے کذاب کہا گیا ہے :
حافظ ابن حجررحمہ اللہ کہتے ہیں:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ابو عبد الله ابن بطوطة ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قال شيخنا ابو البركات ابن البلفيقي حدثنا بغرائب مما رآه فمن ذلك انه زعم انه دخل القسطنطينيه فرآى في كنيستها اثني عشر الف اسقف ثم انتقل الى العدوة ودخل بلاد السودان ثم استدعاه صاحب فاس وامره بتدوين رحلته - انتهى وقرأت بخط ابن مرزوق ان ابا عبد الله بن جزي نمقها وحررها بامر السلطان ابي عنان[الدرر الكامنة لابن حجر: 5/ 227]۔

معلوم ہوا کہ اس سفرنامہ کو لکھنے والا ابن بطوطہ نہیں بلکہ ’’ابوعبداللہ بن جزی ‘‘ ہے ۔
اوراس شخص کو کذاب کہا گیا ہے ، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
وقرأت بخط ابن مرزوق ان ابا عبد الله بن جزي نمقها وحررها بامر السلطان ابي عنان وكان البلفيقي رماه بالكذب فبرأه ابن مرزوق [الدرر الكامنة لابن حجر: 5/ 227]۔
کفایت اللہ صاحب مکتہ شاملہ سے اپنے مطلب کی بات ضرور اخذ کرتے ہیں لیکن پتہ نہیں جلد بازی یاعربی زبان میں کمزوری کے باعث وہ عربی عبارت کو صحیح سے سمجھ نہیں پاتے اورمکتبہ شاملہ سے عربی عبارت نقل کرکے زیر بحث عبارت کے سیاق وسباق میں غورکئے بغیر پیسٹ کرکے اپنے فرض سے سبکدوش ہوجاتے ہیں ۔ایک مرتبہ کم ازکم وہ غورکرکے دیکھ لیاکریں کہ جس عبارت کو اپنے مطلب کی عبارت سمجھ رہے ہیں وہ واقعتاان کے مطلب کی عبارت ہے بھی یانہیں ہے؟

زیربحث عبارت کو انہوں نے جس میں عبداللہ بن جزی کو انہوں نے کذاب قراردیاہے اوراس کیلئے بلفیقی اورابن مرزوق کا حوالہ دیاہے ۔اصل میں یہ کذب کی تہمت ابن جزی پر نہیں بلکہ خود ابن بطوطہ پر ہے۔
اس سلسلے کی پوری عبارت ملاحظہ ہو۔تجزیہ اورتحلیل کے ساتھ

مُحَمَّد بن عبد الله بن إِبْرَاهِيم بن مُحَمَّد بن ابراهيم بن يُوسُف اللوائي الطنجي ابو عبد الله ابْن بطوطة
یہ ہوانام لقب ولدیت وغیرہ
قَالَ ابْن الْخَطِيب كَانَ مشاركا فِي شَيْء يسير ورحل إِلَى الْمشرق فِي رَجَب سنة 25 فجال الْبِلَاد وتوغل فِي عراق الْعَجم ثمَّ دخل الْهِنْد والسند والصين وَرجع على الْيمن فحج سنة 26 وَلَقي من الْمُلُوك والمشايخ خلقا كثيرا وجاور ثمَّ رَجَعَ إِلَى الْهِنْد فولاه ملكهَا الْقَضَاء ثمَّ خلص فَرجع إِلَى الْمغرب فَحكى بهَا أَحْوَاله وَمَا اتّفق لَهُ وَمَا اسْتَفَادَ من أَهلهَا
مذکورہ ممالک عراق عجم ،ہند،سند چین، یمن وغیرہ کی سیاحت کا شرف ابن بطوطہ کوہی حاصل ہے۔ ابن بطوطہ محمد تغلق کے زمانہ میں دلی آیاتھا یہ بادشاہ بہت ذہین تھا لیکن اس کی حرکتیں بڑی عجیب تھی اسی بناء پر مولانا سید ابوالحسن علی ندوی نے اس کے بارے میں لکھاہے الملک العاقل المجنوں ۔شاہ محمد تغلق نے ہی اس کو قاضی بنایاتھا وہ یہاں چھ سات سال قضاء کی ذمہ داری انجام دیتارہا۔اس کے بعد وہ اپنے وطن لوٹ گیا اورجوکچھ احوال وواقعات دوران سفر پیش آئے تھے ۔اس کو لوگوں سے بیان کیا۔
قَالَ شَيخنَا أَبُو البركات ابْن البلفيقي حَدثنَا بِغَرَائِب مِمَّا رَآهُ فَمن ذَلِك أَنه زعم أَنه دخل الْقُسْطَنْطِينِيَّة فَرَأى فِي كنيستها اثْنَي عشر ألف أَسْقُف ثمَّ انْتقل إِلَى العدوة وَدخل بِلَاد السودَان ثمَّ استدعاه صَاحب فاس وَأمره بتدوين رحلته –
اس نے دوران سفر جوکچھ دیکھااس کو فاس کے والی نے تدوین کرنے کا حکم دیا۔
وقرأت بِخَط ابْن مَرْزُوق أَن أَبَا عبد الله بن جزي نمقها وحررها بِأَمْر السُّلْطَان أبي عنان
ابن مرزوق کہتے ہیں کہ ابوعبداللہ بن جزی نے ابن بطوطہ کے سفر کے واقعات واحوال جواس نے لکھاتھااس کی تہذیب وصفائی کی۔اوریہ کام اس نے سلطان ابوعنان کے حکم سے کیاتھا۔
وَكَانَ البلفيقي رَمَاه بِالْكَذِبِ فبرأه ابْن مَرْزُوق
اب یہاں سے اصل عبارت شروع ہورہی ہے۔ کفایت اللہ صاحب کاکہناہے کہ بلفیقی کے رماہ بالکذب کا مشارالیہ ابن جزی ہے جب کہ ہماراکہنایہ ہے کہ اس کا مشارالیہ ابن بطوطہ ہے۔
بات یہ ہے کہ شروع سے ہی بات چل رہی ہے۔ ابن بطوطہ پر۔ابن جزی کا ذکر درمیان میں جملہ معترضہ کے طورپر صرف اس لئے آیاہے کہ اس نے اب بطوطہ کے سفرنامہ کی تہذیب وصفائی کی تھی۔
اب پھر سے دوبارہ بات چل رہی ہے ابن بطوطہ پر ۔رماہ بالکذب میں کذب کا تعلق ابن بطوطہ سے ہے۔ نہ کہ ابن جزی سے ۔ویسے بھی دیکھاجائے توجس شخص نے صرف کسی کتاب کی تہذیب کی ہو اس پر کیسے کوئی کذب کی تہمت لگاسکتاہے۔ کذب کی تہمت تواسی پرلگ سکتی ہے جس کا یہ سفرنامہ ہے اورجس نے اپنے احوال وواقعات پیش کئے ہیں۔ لہذا بلفیقی کے رماہ بالکذب کا مشارالیہ ابن بطوطہ ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ کذب کی تہمت سے برات کے معابعد ابن مرزوق کہتے ہیں۔
وَقَالَ إِنَّه بَقِي إِلَى سنة سبعين وَمَات وَهُوَ مُتَوَلِّي الْقَضَاء بِبَعْض الْبِلَاد قَالَ ابْن مَرْزُوق وَلَا أعلم أحدا جال الْبِلَاد كرحلته وَكَانَ مَعَ ذَلِك جوادا محسنا
کہ ان کا انتقال ایسے وقت ہوا جب کہ وہ بعض شہروں کے قاضی تھے ۔ابن مرزوق مزید کہتے ہیں کہ میں نہیں جانتاکہ کسی نے ان کے اتنا بھی سفروسیاحت کیا اسی کے ساتھ وہ سخی اوراحسان کرنے والے بھی تھے۔
الدررالکامنہ5/227
یہ تمام امور یہ واضح کرنے کیلئے کافی ہیں کہ رماہ البلفیقی بالکذب کا مشارالیہ ابن بطوطہ ہے نہ کہ ابن جزی ۔ابن جزی پر کذب کی تہمت کسی بھی کتاب میں اوران کے ترجمہ میں نہیں لگائی گئی ہے۔ کفایت اللہ صاحب چاہیں توابن جزی کا ترجمہ مکتبہ شاملہ سے دیکھ لیں۔کیاکسی بھی جگہ ان پر کذب کی تہمت ہمیں ملتی ہے۔اگرنہیں ملتی تویہ واضح کرنے کیلئے کافی ہے کہ رماہ بالکذب کا مشارالیہ کون ہے؟

جہاں تک ابن بطوطہ پر اس جرح کی بات ہے توجرح و تعدیل میں تعارض ہو توجرح کو مقدم کیا جاتاہے ابن جزی کو کذاب کہی جانے والی بات جرح ہونے کے ساتھ ساتھ مفسربھی ہے لہٰذا یہی مقدم ہے ۔
لوگ جب جرح وتعدیل کی کتابوں کو صحیح طورپر سمجھ کر نہیں پڑھتے ہیں توایسے ہی مغالطے ہواکرتے ہیں۔نہ مطلقا ہرجگہ جرح مفسر مقدم ہے اورنہ ہی ہرجگہ جرح مبہم ناقابل قبول ہے۔ ہرایک کی اپنی کچھ شرائط ہیں۔
کفایت اللہ صاحب مجھے بتائیں کہ اگرکسی راوی پر جرح مفسر ہو لیکن دوسراجرح وتعدیل کا ماہر اس کی تعدیل کررہاہو اوراس جرح مفسر سے اس کی برات کررہاہوتو وہاں پر جرح مفسر مقدم ہوگی یاتعدیل کرنے والے کی بات مقدم ہوگی؟
اب یہاں آئیے ۔بلفیقی کذاب کہہ رہے ہیں اورابن مرزوق ابن جزی کو اس کذب کی تہمت سے بری قراردے رہے ہیں۔ کفایت اللہ صاحب سے گزارش ہے کہ کسی کو جب کسی تہمت یاکسی الزام سے بری قراردیاجاتاہے تووہ اس تہمت اورالزام کوجاننے کے بعد بری قراردیاجاتاہے یابغیرجانے ہوئے ۔
بری کا مطلب ہی یہی ہے کہ الزام سے پوری واقفیت کے بعد لیکن الزام ثابت نہ ہونے یاالزام غلط ہونے کے بعد کسی شخص کو الزام اورتہمت سے بری قراردیاجاتاہےتوابن مرزوق نے ابن جزی کو کذب کی تہمت سے بری قراردیاہے جیساکہ حافظ ابن حجر کاکہناہے ۔
اس سے معلوم ہوا کہ یہ پوری کتاب ہی غیر معتبر ہے ۔
سابقہ تفصیلات سے معلوم ہوگیاکہ کذب کی تہمت اگرچہ ہے لیکن دوسرے نے اس کذب کے تہمت کی تردید کی ہے۔

نیز خود ابن بطوطہ کو بھی کذاب کہا گیا ہے ۔
علامہ ابن خلدون الإشبيلي (المتوفى: 808)نے کہا:
فتناحى النّاس بتكذيبه ولقيت أيّامئذ وزير السّلطان فارس بن وردار البعيد الصّيت ففاوضته في هذا الشّأن وأريته إنكار أخبار ذلك الرّجل لما استفاض في النّاس من تكذيبه[تاريخ ابن خلدون 1/ 228]۔
کفایت اللہ صاحب کا عجیب وغریب حال ہے۔کہیں تووہ کسی کی بات اس لئے رد کردیتے ہیں کہ اس کے بارے میں کسی نے ثقہ وصدوق نہیں کہا اورکہیں ابن خلدون کی عبارت سے استدلال کرتے ہیں۔الاقشھری کی بات ابن تیمیہ کے ضمن میں اس لئے رد کردی ہے کہ وہاں اقشھری کو کسی نے بھی ثقہ اورصدوق نہیں کہاہے لہذا اس کی عدالت نامعلوم اورمجہول ہے اور وہ ضعیف راوی ہے اس کی بناء پراس کی بات سے استدلال نہیں کیاجاسکتا۔
یہاں ابن بطوطہ کے بارے میں ابن خلدون کے قول سے استشہاد کررہے ہیں۔
ابن خلدون اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ عمرانیات کابانی گزراہے۔اوراصول تاریخ کواس نے نیارنگ ڈھنگ بلکہ آہنگ بخشاہے لیکن اس کی ذاتی زندگی ایک مسلم ومومن کی حیثیت سے انتہائی ناقص رہی ہے۔اس کی پوری زندگی دیکھئے جوڑتوڑ اوربادشاہوں سے قربت حاصل کرنے میں گزری ہے۔ اس نے مناصب جلیلہ کے حصول کیلئے اپنے محسنوں سے دغاکرنے میں بھی کوئی عارنہیں سمجھا اوروقت پڑنے انہی سے آنکھیں پھیر لیں جس کے احسان کے بوجھ تلے وہ دباتھا۔
اس کی احسان ناشناسی کیلئے اتناکہناہی کافی ہوگاکہ جب دمشق کو تیمور کی فوجوں نے گھیرلیاتھاتواہالیان شہر نے اس کو سفیر بناکر بھیجاکہ وہ شہروالوں کیلئےتیمور سے کچھ رعایت حاصل کرے۔تیمور نے اس کااکرام اورآؤبھگت کیا اوراس کو اپنی تاریخ لکھنے کا کام سونپ دیا۔ابن خلدون نے یہ بھول کر کہ اس کو شہر والوں نے کس غرض سے بھیجاہے تیمور کی نمک حلالی شروع کردی یعنی تاریخ لکھنے کاکام شروع کردیا۔اورتیمورکی فیاضیوں سے لطف اندوز ہوتارہا۔دوسری جانب تیمور کی فوجوں نے دمشق کی اینٹ سے اینٹ بجادی اورجوقتل عام ہوا وہ الگ۔
اس کے علاوہ ابن خلدون کی ذاتی زندگی پر اوردوسرے بھی اعتراضات اوراتہامات ہیں ۔
کفایت اللہ صاحب سے سوال یہ ہے کہ جب ابن تیمیہ کے باب میں اقشھری کی بات قبول نہیں توابن بطوطہ کے باب میں ابن خلدون کی بات کیوں کرقبول ہوگی۔
ابن بطوطہ کی مذکورہ بکواس بھی اس کے کذاب ہونے کی دلیل ہے کیونکہ :
ابن بطوطہ نو رمضان ٧٢٦ ھ كو جمعرات كے دن دمشق پہنچا تھا جیساکہ اس نے خود بیان کیا ہے:
وخرجت منها بالغد لفرط اشتياقي إلى دمشق. وصلت يوم الخميس التاسع من شهر رمضان المعظم عام ستة وعشرين إلى مدينة الشام فنزلت منها بمدرسة المالكية المعروفة بالشرابشية ودمشق هي التي تفضل جميع البلاد حسنا وتقدمها جمالا [رحلة ابن بطوطة ط دار الشرق العربي 1/ 62]۔

اور امام ابن تيميہ اس سے ایک ماہ قبل 6 شعبان ، 726 ھ كو قلعهء دمشق ميں مجبوس ہو چکے تھے ۔ اور اسى قيد ميں ان كا انتقال ہوا ، دیکھئے طبقات الحنابلة 2/ 405 البداية والنهاية 14/ 123 العقود الدرية 329. ۔

اب سوال یہ ہے کہ جب دمشق میں ابن بطوطہ کے ورود سے ایک ماہ قبل ہی ابن تیمیہ رحمہ اللہ قید میں محبوس ہوگئے اوراسی حالات میں فوت بھی ہوگئے تو ابن بطوطہ نے ابن تیمیہ رحمہ اللہ کو خطبہ دیتے ہوئے کیسے دیکھا لیا ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
کیا یہ بیان ابن بطوطہ کے کذاب ہونے کی دلیل نہیں ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
بیشتر لوگوں نے ابن بطوطہ کے کذب مین اسی واقعہ کوبطور دلیل استعمال کیاہے لیکن حالت یہ ہے کہ بیشتر افراد اس باب میں سخن فہم نہ ہوکر طرفدار بن جاتے ہیں۔
حافظے دوقسم کے ہوتے ہیں۔ ایک توحافظہ یہ ہوتاہے کہ واقعہ یاد رہ جاتاہے لیکن وہ کس دن ہوا کس وقت ہوا یہ چیزیں یاد نہیں رہ پاتیں۔دوسراحافظہ وہ ہوتاہے جس مین دن اوروقت تویاد رہتاہے لیکن اصل واقعہ ذہن سے محوہوجاتاہے۔بیشترافراد مردوں مین سے ایسے لوگ ہیں جن کا حافظہ پہلی قسم کا ہوتاہے کہ واقعہ یاد رہتاہے کتاب میں کچھ پڑھاتو وہ بات یاد رہ جاتی ہے لیکن کتاب کانام ،صفحہ نام جلد نمبر وغیرہ ذہن سے محوہوجاتاہے۔عورتوں میں بیشتر یہ ہوتاہے کہ وہ واقعہ کے دن اورتاریخ کو تویاد رکھتی ہیں لیکن واقعہ ان کو پورے طورپر یاد نہیں رہتا۔کچھ لوگ ہوتے ہیں جن کو اللہ دونوں قسم کے حافظے سے نوازتاہے اورایسے ہی لوگ محیرالعقول حافظہ کے مالک ہوتے ہیں جیسے کہ حضرت ابن تیمیہ،حافظ ذہبی،حافظ ابن حجر اوردیگر بزرگان امت اورعلامہ انورشاہ کشمیری وغیرہ۔
اس تمہید کے بعد غورکریں کہ ایک شخص گھر سے نکلتاہے چین ہند،سندھ اوردیگر مقامات کی سیاحت کرتاہے اورتقریباً20/22برس کے بعد وہ دوبارہ اپنے وطن پہنچتاہے۔ تاریخی شہادت اس کی بھی موجود نہیں ہے کہ اس نے دوران سفر کوئی یادداشت مرتب کی تھی۔ پھران تمام چیزوں کو وہ اپنے حافظہ سے مرتب کرتاہے ۔کیااس میں اگراس سے کہیں کوئی فروگزاشت ہوجائے تواس کو ہم کذب سے تعبیر کریں گے۔ اگریہ کذب ہے توبیشتر محدثین نے روایات بیان کرنے میں جوغلطیاں کی ہیں اس کو کذب کے خانے میں کیوں نہ رکھاجائے؟وہ بدرجہ اولی اس کے مستحق ہوں گے کہ انہیں کذب سے متصف کیاجائے۔

کیوں کہ محدثین کرام تویادداشت اورنوٹس مرتب کرتے تھے پھرساتھیوں سے اس کا مذاکرہ کرتے تھے اوران کو رٹ کریاد بھی کیاجاتاتھا۔اس سب کے باوجود اگران سے حدیث بیان کرنے میں غلطی ہوسکتی ہے راوی کا نام لینے میں غلطیاں ہوسکتی ہے توہم اس کو توبرداشت کرجائیں لیکن حضرت ابن بطوطہ جو اپنے وطن سے 22/20برس دور رہے پھر وطن آکر یادداشت کے خزانہ سے اپنے مشاہدات کو قلم بند کرے تواس کو ہم کذب کی صفت سے متصف کردیں۔

ہم سارازور اسی پر کیوں لگادیں کہ ابن بطوطہ نے حضرت ابن تیمیہ کے تعلق سے جھوٹ بولاہے یہ کیوں نہ تسلیم کریں کہ اس سے دمشق مین داخلے کی تاریخ بیان کرنے میں چوک ہوئی ہے؟ خصوصا اس صورت میں جب کہ بیشتر افراد کا حافظہ اسی طریقہ کاہوتاہے کہ وہ واقعہ کو یاد رکھتے ہیں اوردن اورتاریخ کوبھول جاتے ہیں۔

نیز کہاجاتا ہے کہ ابن بطوطہ سے پہلے ’’ أبو علي ، عمر بن محمد بن حمد بن خليل السكوني (المتوفی 717)‘‘ نے بھی مذکورہ بات ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی طرف منسوب کی ہے ، واللہ اعلم۔
عبد العزيز بن محمد بن علي آل عبد اللطيف لکھتے ہیں:
وقد اشتهرت هذه المقولة عن ابن بطوطة (متوفی ٧٧٩)، وهي تنسب - أيضاً - إلى أبي علي السكوني ، وأنه نسبها إلى ابن تيمية عزّ وجل قبل ابن بطوطة (متوفی ٧٧٩).[ دعاوى المناوئين لشيخ الإسلام ابن تيمية (1/ 140)]۔
کیاابوعلی عمروبن محمدبن حمد بن خلیل السکونی کے کذاب اورجھوٹے ہونے کی کسی نے بھی تصریح کی ہے؟میرے علم کی حد تک نہیں لیکن چونکہ بات شیخ الاسلام ابن تیمیہ کی ہے لہذا جوشخص ان کے خلاف کچھ کہے چاہے وہ ان کامعاصر ہو یاکچھ بھی ہو تو وہ ناقابل قبول ۔
اوراس کی دلیل کیاہے صرف یہ کہ شیخ الاسلام کے مزاج مین حدت نہیں ہوسکتی وہ ایسانہیں کہہ سکتے وہ ایسانہیں کرسکتے دوسراان کے بارے میں ایسانہیں لکھ سکتا۔
یہی باتیں اگرہم محدثین کے بے بنیاد جرح بلکہ شناعت اوردشنام طراز ی کی حد تک پہنچے ہوئے جرح کے تعلق سے کہیں توپھر کہاجاتاہے کہ یہ محدثین کی جرحیں نہیں مانتے یہ امام ابوحنیفہ کی حمایت میں تعصب اختیار کرتے ہیں؟محدثین کی جرحیں جیساہے ویساہی مان لو ۔لیکن نہ مانوتوصرف یہ یہ بات کہ ابن تیمیہ کے مزاج میں حدت وشدت تھی چاہے اس کا اعلان ان کے معاصرین اوربعد کے مورخین کرتے رہیں کیونکہ ابن تیمیہ کے مزاج مین حدت وشدت ہوہی نہیں سکتی؟

لگتاہے کہ یہ جھوٹ سب سے پہلے أبو علي السكوني (المتوفی 717) نے بولا۔
پھر ابن بطوطہ (المتوفى: 779 ) نے اس کی تائید میں اپنا ایک مشاہدہ گڑھ لیا اوراپنے سفرنامہ میں بیان کردیا۔
پھر ابو عبد الله بن جزي نے بھی بغیر کسی تدبر کے اسے تحریر کردیا۔
اورپھر مولوی لکنوی جیسے لوگوں نے بھی ان کذابین کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے اسے بیان کرنا اپنا فرض سمجھا۔
نہ ابوعلی السکونی پر کسی نے کذب کی تہمت لگائی ہے نہ ہی ابن بطوطہ کے جھوٹے ہونے کی کوئی واضح بات سامنے ہے اورنہ ہی ابن جزی کذت کی تہمت سے متصف ہے۔اورنہ ہی مولاناعبدالحی لکھنوی نے کذابین کی ہاں میں ہاں ملایاہے ۔

گویا کہ مذکورہ بات کو ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی طرف منسوب کرنے میں کئی کذابین نے حصہ لیا ہے اوراسی کذب بیانی میں مولوی لکھنوی نے بھی ان کا ساتھ دیا ہے ، { لَعْنَتَ اللَّهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ } [آل عمران: 61]
جوکوئی بغیر کسی واضح ثبوت اورشہادت کے دوسروں کوجھوٹاقراردے خود ایسے جھوٹے پر خداکی لعنت ہو۔
ابن بطوطہ کی اس بکواس کے بارے میں جاننے کے لئے درج ذیل موضوعات بھی دیکھ لیں۔
امام ابن تيميہ رحمہ اللہ پر ايک افترا والا قصہ - URDU MAJLIS FORUM
امام ابن تيمیہ (رح) پر لگائے گئے ايك بہتان كى حقيقت - URDU MAJLIS FORUM
ان تھریڈز کی حقیقت یہی ہے کہ وہ اولاتو یہ بیان کرتے ہیں کہ ابن تیمیہ کا اللہ کی صفات کے بارے میں کیاخیال تھا پھراس کے بعد وہ دمشق میں داخلے کی تاریخ کولے کر ابن بطوطہ کو جھوٹاثابت کرناچاہتے ہیں۔
قارئین کرام !
غورکرین کہ مولوی لکنوی نے ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی صرف ایک بات کو رد کرنے کی خاطر وہ تمام جھوٹی باتین بیان کرنے پر اتر آتے جو ابن تیمیہ رحمہ اللہ سے متعلق باطل طور پر مشہور ہیں ، تو بتلائیں کہ اگر ہم ابوحنیفہ سے متعلق صرف وہی باتیں نقل کریں جو بسند صحیح ثابت ہوں تو اس میں ہمارا کیا قصور ہے۔
اگریہ باتیں باطل ہیں تواس کا نقل کرنے کا گناہ توحضرت حافظ ابن حجر اوردیگر مورخین کےسرجاتاہے ان کے بارے میں کیاارشاد ہوتاہے۔ پھرحافظ ذہبی جیساکہ آپ نے ذیل تاریخ الاسلام کے دوسری سند سے دیکھاوہی بات کہتے ہیں کہ ان کے مزاج میں حدت وشدت تھی۔یہی بات صفدی بھی کہتے ہیں۔ صفدی ان کے معاصر ہیں۔یہی بات حافظ سخاوی بھی کہتے ہیں اوردیگر مورخین بھی کہتے ہیں۔ان سب کے بارے میں کچھ کہتے ہوئے توآپ کےہونٹ بند ہوجاتے ہیں اوردہن شریف پر قفل لگ جاتاہے لیکن اگریہی باتیں لکھنوی صاحب نے عرض کردیں توبڑی مرچ لگتی ہے۔
آپ توامام ابوحنیفہ کے ضمن میں ضال مضل کا قول نقل کرتے ہیں اورپھرمعصومیت برتتے ہیں کہ یہ ہماراقول نہیں سفیان ثوری کا قول ہے ؟ہم نے توصرف نقل کیاہے۔ یہی نقل کرنے کاکام توحضرت لکھنوی نے بھی انجام دیاہے پھر اس پر اتنے چیں بجیں کیوں ہیں؟

حقیقت تو یہ ہے کہ احناف کی ان ہفوات کے سامنے آنے کے بعد مجھے یہ سبق مل گیا ہے کہ آج تمام لوگوں کو ابوحنیفہ کی اوقات سے آگاہ کردینا چاہئے ، آج دین کی سب سے بڑی خدمت یہی ہے کہ ابوحنیفہ جیسی پرفتن اورگمراہ اورگمراہ گر شخصیت کے خطرہ سے پوری امت کو آگاہ کردیا ہے۔
انگلش میں ایک محاورہ ہے کہ بلی تھیلے سے باہر آگئی ۔آپ کے مذکورہ بالااقتباس کیلئے انگلش کے اس محاورہ سے بہتر کوئی دوسرامحاورہ میرے علم میں نہیں ہے۔یہ ہے آنجناب کی اس طولانی تحریر کا اصل مقصد !
لیکن مطمئن رہئے کہ چاند پر تھوکنے سے چاند کا کچھ بگڑتانہیں ہے تھوکنے والاکی تھوک ہی اس پر لوٹ کر آتی ہے۔آپ جن کے حوالہ سے یہ سب لکھیں گے ۔انہوں نے یہ سب بول لیا لکھ لیا پھر وہ دنیا سے چلے گئے اوردنیا نے دیکھ لیاکہ اللہ نے کس کو اپنے بندوں کے بیچ محبوبیت اوررفعت عطاکی کس کے ذکر کو بلند کیاکس کی ذات پر دنیا کے دوتہائی مسلمانوں کو جمع کیا۔کس کے اجتہاد پر دوتہائی مسلمان تیرہ صدیوں سے عبادات معاملات اوردیگر احکام شریعت انجام دیتے چلے آرہے ہیں۔

جنہوں نے امام ابوحنیفہ کے خلاف لکھا،بولااورزورصرف کیا ۔ان کی کوئی کوشش بارآورثابت نہ ہوئی اور وہ اپنی کوششوں سمیت قبر میں چلے گئے لیکن جس اللہ کے بندے نے ہمعصروں کے طعن وتشنیع سے بے پرواخداکی رضاکیلئے اپنی کوشش جاری رکھی خدانے اسے وہ مقام عطاکیا کہ دنیا دیکھ رہی ہے اوردیکھتی رہے گی۔پھونکوں سے یہ چراغ بجھایانہ جائے گا

آپ اپنی یہ پھونکیں اورتوانائی کسی دوسرے اوراچھے کام میں صرف کیجئے ورنہ یقین رکھئے کہ جس طرح دوسرے تیرہ صدیوں سے پھونکیں ماررہے ہیں اورپھونک مار مار کر اپنی قبرآباد کررہے ہیں۔ اس میں ایک آپ کا بھی اضافہ ہوگالیکن اس سے امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ کے شان مقام اوربلندی مرتبت کو کوئی بٹہ نہیں لگے گا۔
بے ادب کووں کے چلانے سے کیاہوتاہے؟
 
شمولیت
دسمبر 28، 2011
پیغامات
153
ری ایکشن اسکور
420
پوائنٹ
57
لیکن مطمئن رہئے کہ چاند پر تھوکنے سے چاند کا کچھ بگڑتانہیں ہے تھوکنے والاکی تھوک ہی اس پر لوٹ کر آتی ہے۔آپ جن کے حوالہ سے یہ سب لکھیں گے ۔انہوں نے یہ سب بول لیا لکھ لیا پھر وہ دنیا سے چلے گئے اوردنیا نے دیکھ لیاکہ اللہ نے کس کو اپنے بندوں کے بیچ محبوبیت اوررفعت عطاکی کس کے ذکر کو بلند کیاکس کی ذات پر دنیا کے دوتہائی مسلمانوں کو جمع کیا۔کس کے اجتہاد پر دوتہائی مسلمان تیرہ صدیوں سے عبادات معاملات اوردیگر احکام شریعت انجام دیتے چلے آرہے ہیں۔

جنہوں نے امام ابوحنیفہ کے خلاف لکھا،بولااورزورصرف کیا ۔ان کی کوئی کوشش بارآورثابت نہ ہوئی اور وہ اپنی کوششوں سمیت قبر میں چلے گئے لیکن جس اللہ کے بندے نے ہمعصروں کے طعن وتشنیع سے بے پرواخداکی رضاکیلئے اپنی کوشش جاری رکھی خدانے اسے وہ مقام عطاکیا کہ دنیا دیکھ رہی ہے اوردیکھتی رہے گی۔پھونکوں سے یہ چراغ بجھایانہ جائے گا

آپ اپنی یہ پھونکیں اورتوانائی کسی دوسرے اوراچھے کام میں صرف کیجئے ورنہ یقین رکھئے کہ جس طرح دوسرے تیرہ صدیوں سے پھونکیں ماررہے ہیں اورپھونک مار مار کر اپنی قبرآباد کررہے ہیں۔ اس میں ایک آپ کا بھی اضافہ ہوگالیکن اس سے امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ کے شان مقام اوربلندی مرتبت کو کوئی بٹہ نہیں لگے گا۔
بے ادب کووں کے چلانے سے کیاہوتاہے؟
جزاک اللہ جمشید بھائی جان ! آپ نے حق ادا کردیا۔۔۔!!!
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
نادان دوست


اعتدال پسند اورنام نہاد شرافت کا ڈھڈورا پیٹنے والے مطئمن رہیں اوراچھی طرح سمجھ لیں کہ ہم ابوحنیفہ سے متعلق وہی باتیں پیش کریں گے جو جلیل القدر محدثین سے باسند صحیح ثابت ہوں گے۔
اجلہ محدثین کے بالقابل آج کے نام نہاد مصلحین وشرفاء کی باتیں ہماری نظر میں جانوروں کی نجس وپلید لید سے بھی بدترہیں جس طرح اجلہ محدثین کے نظرمیں ابوحنیفہ کے اقوال جانوروں کی گندگی کے مانند نجس و خبیث ہیں ۔
سیانوں نے کہاہے اوربڑے تجربے کے بعد کہاہے اوراس کی واقعیت پر تجربات شاہد عدل ہیں کہ یہ قول سچااورصحیح ہے کہ
دانادشمن نادان دوست سے بہتر ہے
اس محاورے اورکہاوت کو اگرہم بدل کر کہیں کہ نادان دوست دانادشمن سے بدتر ہے تو وہ بھی سوفیصد حقیقت پر مبنی ہوگا۔
کفایت اللہ صاحب امام ابوحنیفہ کے خلاف اتنے طیش اورغضب میں آگئے کہ امام ابوحنیفہ کی جانب سے دفاع کرنے والے اوران کی خوبیوں کا ذکرکرنے والوں کی باتیں ان کی نگاہ میں جانوروں کی نجس وپلید لید سے بھی بدتر ہوگئیں۔

کفایت اللہ صاحب نے اس پر بھی ذراغورکرنے کی زحمت گوارانہیں کی کہ اس تند وتیز جملے کی زد میں خودان کے ممدوح ابن تیمیہ بھی آرہے ہیں جس کے دفاع کیلئے اتناوقت صرف کیا اتنی محنت کی پھر آخر میں ان کے اقوال نجس وپلید لید سے بھی بدترٹھہرادیا۔
سوال یہ ہے کہ کیاامام ابوحنیفہ علیہ الرحمہ کے تعلق سے تعریف وتحسین کے کلمات صرف متاخرین نے اداکئے ہیں یامتقدمین بھی اس میں ہم زبان ہیں۔
اگرچہ اس سلسلے میں دکتوربشاردعواد کی تحقیق سے شائع شدہ تاریخ بغداد سے امام ابوحنیفہ کے ترجمہ میں ذکرکردہ اقوال کو نقل کیاجاسکتاہے جس میں صحیح اورحسن اسناد سے متقدمین کی تعریفیں مذکور ہیں۔لیکن اسے ہم قارئین کے بھروسہ پر چھوڑدیتے ہیں ۔دکتوربشاردعواد نے ہرقول پر صحت وضعف کا حکم لگایاہے ۔تفصیل کے خواہشمند دکتوربشار عواد کی تحقیق سے شائع تاریخ بغداد کی جانب رجوع کریں۔وہاں ان کو متقدمین کی زبان سے ایسے اقوال مل جائیں گے اوراچھے خاصے مل جائیں گے جس میں امام ابوحنیفہ کے علم وفقہ اورفہم کی تعریف کی گئی ہے۔
الحمد لله. اعتقاد الشافعي رضي الله عنه هو اعتقاد سلف أئمة الإسلام، كمالك والثوري والأوزاعي وابن المبارك وأحمد بن حنبل وإسحاق بن راهويه، وهو اعتقاد المشايخ المقتدَى بهم، كالفضيل بن عياض وأبي سليمان الداراني وسهل بن عبد الله التستري وغيرهم. فإنه ليس بين هؤلاء الأئمة وأمثالهم نزاع في أصول الدين. وكذلك أبو حنيفة رضي الله عنه، فإن الاعتقاد الثابت عنه في التوحيد والقدر ونحو ذلك موافق لاعتقاد هؤلاء، واعتقادُ هؤلاء هو ما كان عليه الصحابة والتابعون لهم بإحسان، وهو ما نطق به الكتاب والسنة.
جامع المسائل لابن تیمیہ 3/195
ابن تیمیہ کہہ رہے ہیں کہ امام ابوحنیفہ کا عقیدہ وہی ہے جو دیگر علماء مسلمین کا عقیدہ تھا توپھر امام ابوحنیفہ رضی اللہ کو ضال ومضل کہنے والے کفایت اللہ صاحب فرمائیں کہ ہم کس کی بات کو درست مانیں ۔
وَمَنْ ظَنَّ بِأَبِي حَنِيفَةَ أَوْ غَيْرِهِ مِنْ أَئِمَّةِ الْمُسْلِمِينَ أَنَّهُمْ يَتَعَمَّدُونَ مُخَالَفَةَ الْحَدِيثِ الصَّحِيحِ لِقِيَاسِ أَوْ غَيْرِهِ فَقَدْ أَخْطَأَ عَلَيْهِمْ وَتَكَلَّمَ إمَّا بِظَنِّ وَإِمَّا بِهَوَى فَهَذَا أَبُو حَنِيفَةَ يَعْمَلُ بِحَدِيثِ التوضي بِالنَّبِيذِ فِي السَّفَرِ مُخَالَفَةً لِلْقِيَاسِ وَبِحَدِيثِ الْقَهْقَهَةِ فِي الصَّلَاةِ مَعَ مُخَالَفَتِهِ لِلْقِيَاسِ؛ لِاعْتِقَادِهِ صِحَّتَهُمَا وَإِنْ كَانَ أَئِمَّةُ الْحَدِيثِ لَمْ يُصَحِّحُوهُمَا. وَقَدْ بَيَّنَّا هَذَا فِي رِسَالَةِ " رَفْعِ الْمَلَامِ عَنْ الْأَئِمَّةِ الْأَعْلَامِ " وَبَيَّنَّا أَنَّ أَحَدًا مِنْ أَئِمَّةِ الْإِسْلَامِ لَا يُخَالِفُ حَدِيثًا صَحِيحًا بِغَيْرِ عُذْرٍ بَلْ لَهُمْ نَحْوٌ مِنْ عِشْرِينَ عُذْرً
(مجموع الفتاوی20/305)
وھولاء اھل العلم الذین یبحثون اللیل والنہار عن العلم ،ولیس لھم غرض مع احد بل یرجحوں قول ھذاالصحابی تارۃ وقول ھذا الصحابی تارۃ بحسب مایرونہ من ادلۃ الشرع۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مثل علقمۃ والاسود،وشریح القاضی، وامثالھم ،ثم ابراہیم النخعی وعامر اشلعبی والحکم بن عتیبہ ومنصوربن المعتمر ،الی سفیان الثوری، وابی حنیفۃ وابن ابی لیلیٰ وشریک الی وکیع بن الجراح وابی یوسف ومحمد بن الحسن وامثالھم۔
(منہاج السنۃ 3/142)
لَمْ يُنَازِعْ (10) فِي ذَلِكَ أَحَدٌ مِنْ أَئِمَّةِ الْمُسْلِمِينَ الَّذِينَ لَهُمْ فِي الْأُمَّةِ (11) لِسَانُ صِدْقٍ مِنَ الصَّحَابَةِ وَالتَّابِعِينَ لَهُمْ بِإِحْسَانٍ، وَالْفُقَهَاءِ الْمَشْهُورِينَ كَمَالِكٍ وَأَبِي حَنِيفَةَ وَالثَّوْرِيِّ وَالْأَوْزَاعِيِّ وَاللَّيْثِ بْنِ سَعْدٍ وَالشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ وَإِسْحَاقَ بْنِ رَاهَوَيْهِ (12) وَأَمْثَالِ هَؤُلَاءِ الَّذِينَ هُمْ أَهْلُ الِاجْتِهَادِ فِي الدِّينِ وَخُلَفَاءُ الْمُرْسَلِينَ (13) .
(منہاج السنۃ 3/115)
حضرت ابن تیمیہ امام ابوحنیفہ کو ان علمائ مسلمین کی فہرست میں شامل کررہے ہیں جن کو امت میں "لسان صدق"کا مرتبہ حاصل ہے اورکفایت اللہ صاحب کیاکہہ رہے ہیں قارئین خود دیکھیں پرکھیں اورغورکریں۔
ان مثالوں میں چونکہ حضرت ابن تیمیہ نے امام ابوحنیفہ کی تعریف کی ہے لہذا ان کی یہ بات کفایت اللہ صاحب کی نگاہ میں جانوروں کی نجس اورپلید لید سے بھی زیادہ نجس ہوگی۔اب اس سے زیادہ نادانی اورکیاہوسکتی ہے کہ ایک شخص جس کی بابت حدت وشدت کی بات کہی گئی تھی ۔وہ اس کے دفاع پر اترے اوراپنے ممدوح کے اقوال کو جانوروں کے نجس اورپلید لید سے بھی بدتر ثابت کردے۔

ابن قیم

حضرت ابن قیم ابن تیمیہ کے مشہور شاگرد ہیں ۔دیکھتے چلیں کہ وہ امام ابوحنیفہ کے بارے میں کیاکہتے ہیں۔
دیکھئے ایک جگہ وہ لکھتے ہیں۔
وقد احتج الائمۃ الاربعۃ والفقہاء قاطبۃ بصحیفۃ عمروبن شعیب عن ابیہ عن جدہ ،ولایعرف فی ائمۃ الفتوی الامن احتجاج الیھا واحتج بھا،وانماطعن فیھامن لم تیحمل اعباء الفقہ والفتوی کابی حاتم البستی وابن ھزم وغیرھما1/35)
ایک دوسری جگہ وہ لکھتے ہیں۔
اماطریقۃ الصحابۃ والتابعین وائمۃ الحدیث کالشافعی والامام احمد ومالک وابی حنیفۃ وابی یوسف والبخاری واسحاق(المصدارالسابق 1/359)
یہاں توابن قیم نے سیدھے حضرت امام ابوحنیفہ اورامام ابویوسف وغیرہ کو ائمہ حدیث میں شمار کیاہے؟
ابن قیم کا یہ قول بھی ضرور بالضرور کفایت اللہ صاحب کی نگاہ میں نجس اورپلید ہوگا۔

حافظ ذہبی​

حافظ ذہبی نے بالفرض امام ابوحنیفہ کو ضعیف کہاہے تو کسی راوی کے ضعیف ہونے اورضال مضل ہونے میں زمین وآسمان کافرق ہے لہذا حافظ ذہبی سے جوتعریفیں امام ابوحنیفہ کے حق میں منقول ہیں وہ تولازمی طورپر نجس اورپلید ہوگی ۔
أبو حنيفة الإمام الأعظم فقيه العراق النعمان بن ثابت
(تذکرۃ الحفاظ1/226)
قلت: مناقب هذا الإمام قد أفردتها في جزء(تذکرۃ الحفاظ1/226)
وَمِنْ مَرَاسِيْلِ أَبِي العَالِيَةِ الَّذِي صَحَّ إِسْنَادُهُ إِلَيْهِ: الأَمْرُ بِإِعَادَةِ الوُضُوْءِ، وَالصَّلاَةِ عَلَى مَنْ ضَحِكَ فِي الصَّلاَةِ. وَبِهِ يَقُوْلُ أَبُو حَنِيْفَةَ، وَغَيْرُهُ مِنْ أَئِمَّةِ العِلْمِ.
(سیر اعلام النبلاء5/120)
فَأَفْقَهُ أَهْلِ الكُوْفَةِ عَلِيٌّ، وَابْنُ مَسْعُوْدٍ، وَأَفْقَهُ أَصْحَابِهِمَا: عَلْقَمَةُ، وَأَفْقَهُ أَصْحَابِهِ: إِبْرَاهِيْمُ، وَأَفْقَهُ أَصْحَابِ إِبْرَاهِيْمَ: حَمَّادٌ، وَأَفْقَهُ أَصْحَابِ حَمَّادٍ: أَبُو حَنِيْفَةَ، وَأَفْقَهُ أَصْحَابِهِ أَبُو يُوْسُفَ، وَانْتَشَرَ أَصْحَابُ أَبِي يُوْسُفَ فِي الآفَاقِ، وَأَفْقَهُهُم: مُحَمَّدٌ، وَأَفْقَهُ أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ: أَبُو عَبْدِ اللهِ الشَّافِعِيُّ رَحِمَهُمُ اللهُ تَعَالَى.
(سیر اعلام النبلاء5/531)

فَهَذَا كِتَابٌ فِي أَخْبَارِ فَقِيهِ الْعَصْرِ وَعَالِمِ الْوَقْتِ، أَبِي حَنِيفَةَ، ذِي الرُّتْبَةِ الشَّرِيفَةِ، وَالنَّفْسِ الْعَفِيفَةِ، وَالدَّرَجَةِ الْمُنِيفَةِ: النُّعْمَانِ بْنِ ثَابِتِ بْنِ زُوطَى مُفْتِي أَهْلِ الْكُوفَةِ
(مناقب الامام ابی حنیفۃ وصاحبیہ)
النعمان بن ثابت - تم ن- بن زوطي [3] الإِمَامُ الْعَلَمُ أَبُو حَنِيفَةَ الْكُوفِيُّ الْفَقِيهُ مَوْلَى بني تيم الله بن ثعلبة.
(تاریخ الاسلام 9/305)

وَكَانَ خَزَّازًا يُنْفِقُ مِنْ كَسْبِهِ وَلا يَقْبَلُ جَوَائِزَ السُّلْطَانِ تَوَرُّعًا، وَلَهُ دَارٌ وَصُنَّاعٌ وَمَعَاشٌ مُتَّسِعٌ، وَكَانَ مَعْدُودًا فِي الأَجْوَادِ الأَسْخِيَاءِ وَالأَوْلِيَاءِ الأَذْكِيَاءِ، مَعَ الدِّينِ وَالْعِبَادَةِ وَالتَّهَجُّدِ وَكَثْرَةِ التِّلاوَةِ وَقِيَامِ اللَّيْلِ رَضِيَ الله عنه.
(تاریخ الاسلام 9/306)
قلْتُ: وَأَخْبَارُ أَبِي حَنِيفَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَمَنَاقِبُهُ لا يَحْتَمِلُهَا هَذَا التَّارِيخُ
(تاریخ الاسلام 9/313)
وَفِي هَذَا الْعَصْرِ شَرَعَ عُلَمَاءُ الإِسْلامِ فِي تَدْوِينِ الْحَدِيثِ وَالْفِقْهِ وَالتَّفْسِيرِ، فَصَنَّفَ ابْنُ جُرَيْجٍ التَّصَانِيفَ بِمَكَّةَ، وَصَنَّفَ سَعِيدُ بْنُ أَبِي عَرُوبَةَ، وَحَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ وَغَيْرُهُمَا بِالْبَصْرَةِ، وَصَنَّفَ الأَوْزَاعِيُّ بِالشَّامِ، وَصَنَّفَ مَالِكٌ الْمُوَطَّأَ بِالْمَدِينَةِ، وَصَنَّفَ ابْنُ إِسْحَاقَ الْمُغَازِيُّ، وَصَنَّفَ مَعْمَرٌ بِالْيَمَنِ، وَصَنَّفَ أَبُو حَنِيفَةَ وَغَيْرُهُ الْفِقْهَ وَالرَّأْيَ بِالْكُوفَةِ
(تاریخ الاسلام 9/13)

ابن کثیر​

هُوَ الْإِمَامُ أَبُو حَنِيفَةَ وَاسْمُهُ النُّعْمَانُ بْنُ ثَابِتٍ التَّيْمِيُّ مَوْلَاهُمُ الْكُوفِيُّ، فَقِيهُ الْعِرَاقِ، وَأَحَدُ أَئِمَّةِ الْإِسْلَامِ، وَالسَّادَةِ الْأَعْلَامِ، وَأَحَدُ أَرْكَانِ الْعُلَمَاءِ، وأحد الأئمة الأربعة أصحاب المذاهب المتنوعة، وَهُوَ أَقْدَمُهُمْ وَفَاةً، لِأَنَّهُ أَدْرَكَ عَصْرَ الصَّحَابَةِ، وَرَأَى أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ، قِيلَ وَغَيْرَهُ. وَذَكَرَ بَعْضُهُمْ أَنَّهُ رَوَى عَنْ سَبْعَةٍ مِنَ الصَّحَابَةِ فاللَّه أعلم.
وَرَوَى عَنْ جَمَاعَةٍ مِنَ التَّابِعِينَ مِنْهُمْ الْحَكَمُ وَحَمَّادُ بْنُ أَبِي سُلَيْمَانَ، وَسَلَمَةُ بْنُ كُهَيْلٍ، وَعَامِرٌ الشَّعْبِيُّ، وَعِكْرِمَةُ، وَعَطَاءٌ، وَقَتَادَةُ، وَالزُّهْرِيُّ، وَنَافِعٌ مَوْلَى ابْنِ عُمَرَ، وَيَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْأَنْصَارِيُّ وَأَبُو إِسْحَاقَ السَّبِيعِيُّ. وَرَوَى عَنْهُ جَمَاعَةٌ مِنْهُمُ ابْنُهُ حَمَّادٌ وَإِبْرَاهِيمُ بْنُ طَهْمَانَ، وَإِسْحَاقُ بْنُ يُوسُفَ الْأَزْرَقُ، وَأَسَدُ بْنُ عَمْرٍو الْقَاضِي، وَالْحَسَنُ بْنُ زِيَادٍ اللُّؤْلُؤِيُّ، وَحَمْزَةُ الزَّيَّاتُ، وَدَاوُدُ الطَّائِيُّ، وَزُفَرُ، وَعَبْدُ الرَّزَّاقِ، وَأَبُو نُعَيْمٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ الشَّيْبَانِيُّ، وَهُشَيْمٌ، وَوَكِيعٌ، وَأَبُو يُوسُفَ الْقَاضِي. قَالَ يَحْيَى بْنُ مَعِينٍ: كَانَ ثِقَةً، وَكَانَ مِنْ أَهْلِ الصِّدْقِ وَلَمْ يُتَّهَمْ بِالْكَذِبِ، وَلَقَدْ ضَرَبَهُ ابْنُ هُبَيْرَةَ عَلَى الْقَضَاءِ فَأَبَى أَنْ يكون قاضيا. وَقَدْ كَانَ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ يَخْتَارُ قَوْلَهُ فِي الْفَتْوَى، وَكَانَ يَحْيَى يَقُولُ:
لَا نَكْذِبُ اللَّهَ! مَا سَمِعْنَا أَحْسَنَ مِنْ رَأْيِ أَبِي حنيفة، وقد أخذنا بِأَكْثَرِ أَقْوَالِهِ. وَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ: لولا أن الله أعاننى بِأَبِي حَنِيفَةَ وَسُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ لَكُنْتُ كَسَائِرِ النَّاسِ. وقال في الشافعيّ:
رَأَيْتُ رَجُلًا لَوْ كَلَّمَكَ فِي هَذِهِ السَّارِيَةِ أَنْ يَجْعَلَهَا ذَهَبًا لَقَامَ بِحُجَّتِهِ: وَقَالَ الشَّافِعِيُّ: مَنْ أَرَادَ الْفِقْهَ فَهُوَ عِيَالٌ عَلَى أَبِي حنيفة، ومن أراد السير فَهُوَ عِيَالٌ عَلَى مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، وَمَنْ أَرَادَ الْحَدِيثَ فَهُوَ عِيَالٌ عَلَى مَالِكٍ، وَمَنْ أَرَادَ التَّفْسِيرَ فَهُوَ عِيَالٌ عَلَى مُقَاتِلِ بْنِ سليمان. وقال عبد الله بن داود الحريبى:
يَنْبَغِي لِلنَّاسِ أَنْ يَدْعُوا فِي صَلَاتِهِمْ لِأَبِي حَنِيفَةَ، لِحِفْظِهِ الْفِقْهَ وَالسُّنَنَ عَلَيْهِمْ. وَقَالَ سُفْيَانُ الثوري وابن الْمُبَارَكِ: كَانَ أَبُو حَنِيفَةَ أَفْقَهَ أَهْلِ الْأَرْضِ فِي زَمَانِهِ. وَقَالَ أَبُو نُعَيْمٍ: كَانَ صَاحِبَ غَوْصٍ فِي الْمَسَائِلِ. وَقَالَ مَكِّيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ: كان أعلم أهل الأرض. وروى الخطيب بِسَنَدِهِ عَنْ أَسَدِ بْنِ عَمْرٍو أَنَّ أَبَا حنيفة كان يصلى بالليل وَيَقْرَأُ الْقُرْآنَ فِي كُلِّ لَيْلَةٍ، وَيَبْكِي حَتَّى يَرْحَمَهُ جِيرَانُهُ. وَمَكَثَ أَرْبَعِينَ سَنَةً يُصَلِّي الصُّبْحَ بوضوء العشاء، وختم القرآن في الموضع الّذي توفى فيه سبعين ألف مَرَّةٍ، وَكَانَتْ وَفَاتُهُ فِي رَجَبٍ مِنْ هَذِهِ السَّنَةِ- أَعْنِي سَنَةَ خَمْسِينَ وَمِائَةٍ- وَعَنِ ابْنِ معين سنة إحدى وخمسين.

(البدایہ والنہایۃ10/107)
یہ دیکھئے حافظ ابن کثیر نے امام ابوحنیفہ کا ترجمہ کیاہے اورصرف تحسین وتعریف کے کلمات ہی ذکر کئے ہیں اوران کو فَقِيهُ الْعِرَاقِ، وَأَحَدُ أَئِمَّةِ الْإِسْلَامِ، وَالسَّادَةِ الْأَعْلَامِ، وَأَحَدُ أَرْكَانِ الْعُلَمَاءِ، وأحد الأئمة الأربعة أصحاب المذاهب المتنوعة جیسے گراں قدرخطابات دیئے ہیں ۔یہ اقوال جوحافظ ابن کثیر نے ذکر کئے ہیں وہ سب آپ کے نزدیک نجس اورپلید ہوں گے؟

ابن عبدالہادی​

اسی طرح ابن تیمیہ کے مشہور شاگرد عبدالہادی صاحب الصارام المنکی نے بھی المختصر فی طبقات علماء الحدیث میں امام ابوحنیفہ کا ذکر کیاہے اوراچھے لفظوں میں ذکر کیاہے توان کا یہ اعتدال پسندانہ رویہ بھی آپ کے نزدیک نجس اورپلید ہوگا۔ قارئیں کی مزید توجہ کیلئے ہم ان کے چند الفاظ جوانہوں نے امام ابوحنیفہ کے ترجمہ میں کہے ہیں۔ ذکر کرتے ہیں۔
وکان اماما،ورعا،عالما ،عاملا ،متعبدا،کبیرالشان،لایقبل جوائز السلطان ،بل یتجر ویکتسب۔
اس کے بعد وہ دوسرے علماء ومحدثین سے امام ابوحنیفہ کے حق میں توصیفی کلمات نقل کرتے ہیں پھر آخر میں کہتے ہیں۔
ومناقبہ وفضائلہ کثیرۃطبقات علماء الحدیث2/97
حافظ مزی
امام ابوحنیفہ کا نہایت اچھے لفظوں میں ذکر حافظ مزی نے بھی تہذیب الکمال میں کیاہے اور33صفحات میں مختلف محدثین اورفقہاء سے امام ابوحنیفہ کی تعریف وتوصیف کے الفاظ بھی نقل کئے ہیں ۔یہ بھی کفایت اللہ کی نگاہ میں نجس اورپلید کام ہے جو حافظ مزی نے انجام دیاہے۔

ابن حجر​

یادش بخیر حافظ ابن حجر علیہ الرحمہ نے بھی تہذیب التہذیب وغیرہ میں نہ صرف یہ کہ امام ابوحنیفہ کی شان میں تضعیف وتنقیص کا کوئی قول نقل نہیں کیا بلکہ ان کی حددرجہ تعریف بھی ان کے عہداوربعد کے محدثین وفقہاء سے نقل کیاہے آخر میں کہتے ہیں۔
ومناقب الإمام أبي حنيفة كثيرة جدا فرضي الله تعلى عنه واسكنه الفردوس آمين
(تہذیب التہذیب10/452)
حافظ ابن حجر سے ایک مرتبہ امام ابوحنیفہ کے حفظ وضبط کے بارے میں سوال کیاگیا کہ بعض محدثین جیسے نسائی وغیرہ نے ان پر جرح کی ہے تواس تعلق سے حافظ ابن حجر نے جواب دیاکہ
النسائی من ائمۃ الحدیث والذی قالہ انماھوحسب ماظہرلہ واداہ الیہ اجتھادہ ،ولیس کل احد یوخذ بجمیع قولہ ،وقدوافق النسائی علی مطلق القول جماعۃ من المحدثین واستوعب الخطیب فی ترجمتہ من تاریخہ اقاویلھم ،وفیھامایقبل ومایرد وقد اعتذر عن الامام بانہ کان یری انہ لایحدث الابماحفظہ منذ سمعہ الی ان اداہ فلھذاقلت الروایۃ عنہ وصارت روایتہ قلیلۃ بالنسبۃ لذلک والافھو فی نفس الامر کثیرالروایۃ ،وفی الجملۃ :ترک الخوض فی مثل ھذا اولیٰ،فان الامام وامثالہ ممن قفزوالقنطرۃ ،فماصاریوثر فی احد منھم قول احد بل ھم فی الدرجۃ التی رفعھم اللہ تعالیٰ الیھا،من کونھم متبوعین یقتدی بھم فلیعتمد ھذا،واللہ ولی التوفیق۔(الجواہروالدرر ،بحوالہ اثرالحدیث الشریف 116)

یہاں توحافظ ابن حجر نےبقول کفایت اللہ صاحب حد ہی کردی ہے۔ان کو نہ صرف یہ کہہ دیاکہ امام ابوحنیفہ کے بارے میں طاعنین کے قول کا کوئی اعتبار نہیں بلکہ ساتھ ہی ساتھ ان کو نہایت اچھے لفظوں میں تعریف بھی کردی ۔
یہ قول بھی نجس اورپلید ہی ہوگا۔

ابن اثیر​
حافظ ابن اثیر امام ابوحنیفہ کے ذکر میں ان کے تعلق سے لکھتے ہیں۔
ولو ذهبنا إلى شرح مناقبه وفضائله لأطلْنا الخُطب، ولم نصلْ إلى الغرض منها، فإنه كان عالماً عاملاً، زاهداً، عابداً، [ص:954] ورعاً، تقياً، إماماً في علوم الشريعة مرضياً، وقد نسب إليه وقيل عنه من الأقاويل المختلفة التي نجلُّ قدره عنها ويتنزه منها؛ من القول بخلقِ القرآن، والقول بالقدر، والقول بالإرجاء، وغير ذلك مما نُسب إليه.
ولا حاجة إلى ذكرها ولا إلى ذكر قائليها، والظاهر أنه كان منزهاً عنها، ويدل على صحة نزاهته عنها، ما نشر الله تعالى له من الذِّكْر المنتشر في الآفاق، والعلم الذي طبق الأرض، والأَخْذ بمذهبه وفقهه والرجوع إلى قوله وفعله، وإن ذلك لو لم يكن لله فيه سرّ خفي، ورضى إِلهيّ، وفقه الله له لما اجتمع شطرُ الإسلامِ أو ما يقاربهُ على تقليده، والعمل برأيه ومذهبه حتى قد عُبِدَ اللهُ ودِيْنَ بفقهه، وعُمل برأيه، ومذهبه، وأُخذَ بقوله إلى يومنا هذا ما يقارب أربعمائة وخمسين سنة، وفي هذا أدل دليل على صحة مذهبه، وعقيدته، وأنما قيل عنه هو منزَّه منه، وقد جمع أبو جعفر الطحاوي - وهو من أكبر الآخذين بمذهبه - كتاباً سماه «عقيدةُ أبي حنيفةَ - رحمه الله-» وهي عقيدةُ أهل السُّنَّة والجماعة، وليس فيها شيء مما نُسبَ إليه وقيل عنه، وأصحابه أخبرُ بحاله وبقوله من غيرهم، فالرجوعُ إلى ما نقلوه عنه أوْلى مما نقله غيرُهم عنه، وقد ذُكِر أيضاً سبب قول من قال عنه ما قال والحامل له على ما نسب إليه، ولا حاجة بنا إلى ذكر ما قالوه، فإن مثل أبي حنيفة ومحلُه في الإسلام لا يحتاجُ إلى دليل يُعْتَذَرُ به مما نُسب إليه. والله أعلم.

(جامع الاصول12/952)
ابن اثیر نے توبہت کچھ امام صاحب کی تعریف میں فرمادیاہے ۔میراخیال ہے کہ یہ بھی کفایت اللہ صاحب کے نزدیک نجس اورپلید ہی ہوگا۔

امام ابوحنیفہ کے بارے میں اگر ائمہ اعلام وعلمائے سادات نے جوکچھ لکھاہے ان سب کو جمع کیاجائے توبلامبالغہ ایک ضخیم کتاب تیار ہوجائے گی۔لیکن ظاہر سی بات ہے کہ اس مکالمہ میں اس کی گنجائش نہیں ہے۔
ویسے ہمیں بھی معلوم ہے کفایت اللہ صاحب کوبھی معلوم ہوگاکہ البانی سمیت ابن باز،ابن عثیمین اوردیگر سعودی علماء اوراہل حدیث علماء کا امام ابوحنیفہ کاتعلق سے کیاخیال اورکیاموقف ہے۔ کفایت اللہ صاحب کے اپنے اصول کے مطابق ان کی باتیں بھی جانوروں کی نجس اورپلید لید سے بدتر ہوں گی؟

اردو کا ایک بڑااچھاساشعر ہے

ناوک نے تیرے صید نہ چھوڑازمانے میں
تڑپے ہے مرغ قبلہ نماآشیانے میں​

آنجناب کے اصول مذکورہ کے بعد سوائے چند شاذ لوگوں کے جیسے زبیر علی زئی اورمقبل الوادعی کے اوراسی قبیل وقماش کے کے کچھ لوگوں بقیہ تمام علماء کے اقوال آپ کی نگاہ میں نجس اورپلید لید سے بھی بدتر ہیں۔اعاذنااللہ منہ

آپ اپنے اصول کو دیکھئے اوران علماء اعلام کی تصریحات کو دیکھئے اورپھرخو د سے سوال کیجئے کہ میراایسالکھناکہناکس حد تک درست ہے۔ کبھی ایسابھی ہوتاہے کہ انسان مناظرہ اورمکالمہ کی شدت میں ایسی باتیں کہہ دیتاہے جس پر اگروہ خود تنہائی میں سنجیدگی سے غورکرے تو وہ اس سے رجوع کرلے گا۔ ہماری خواہش اورنیک امید ہے کہ خدا آپ کو اس موقف پر سنجیدگی سے غورکرنے کی توفیق دے اوردعاہے کہ اپنے اس موقف سے جس کی علماء کرام سے تائید نہیں ہوتی رجوع کرنے کاحوصلہ بخشے۔
 

ندوی

رکن
شمولیت
نومبر 20، 2011
پیغامات
152
ری ایکشن اسکور
328
پوائنٹ
57
کفایت اللہ صاحب جوش کی حالت میں ہوش پر قابونہیں رکھ پاتے۔بات کچھ اورہوتی ہے
وہ دلیل کچھ اورلاتے ہیں۔ویسے بھی کاپی پیسٹ کرناکافی آسان ہواکرتاہے۔
اسی بحث کے ماقبل میں وہ لکھتے ہیں۔

ذیل میں عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے کچھ فتاوے و اعمال دئے درج کئے جاتے ہیں اس بارے وضاحت کریں کہ احناف نظر میں یہ درست ہیں یا نہیں ؟؟؟اگر درست ہیں تو احناف کے یہاں یہ قابل قبول کیوں نہیں اوردرست نہیں ہیں ؟؟ تو احناف کو یہ حق کہاں سےملا کہ وہ فاروق رضی اللہ عنہ کی تغلیط کریں:
اس اقتباس میں دیکھاجاسکتاہے کہ یہاں پر وہ سوال کررہے ہیں اوردریافت کررہے ہیں کہ ان مسائل میں احناف کی رائے کیاہے۔پھرحضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ سے منسوب اورمنقول یہ مسائل لکھتے لکھتے نہ جانے انہیں کیاہوگیاکہ آخر میں حکم بھی فرمادیاکہ احناف ان مسائل میں حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے مخالف ہیں۔

عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے ان اقوال یا اعمال کو تمام احناف یا جمہور احناف نہیں مانتے اس کی وجہ کیا ہے ؟؟؟؟ بتانے کی زحمت کریں !!
اگروہ اسی طرح کا طرفہ تماشاکرتے رہیں گے کہ شروع موضوع میں سوال کریں اورآخر میں خود جواب دے دیں تواس طرح کی دورنگی اورہفت رنگی تحریر کا کیاجواب دیاجاسکتاہے سوائے اس کے کہ ہم کفایت اللہ صاحب سے گزارش کریں کہ
دورنگی چھوڑدے یک رنگ ہوجا
سراپاسنگ ہویاموم ہوجا​

چونکہ انہوں نے آخر میں یہ فیصلہ صادر کردیاہے کہ احناف یاجمہوراحناف ان مسائل کو نہیں مانتے اوراعتبار آخری کلام کا ہوتاہے اس لحاظ سے کچھ عرض ومعروض کرتاہوں۔لیکن اس سے پہلے ذرا احناف اورجمہوراحناف پر کچھ باتیں کرلیتاہوں۔

کہتے ہیں ہرحرف اپنے اندر ایک معنی رکھتاہے۔ہرلفظ جومعنی رکھتاہے اس کو اسی اعتبار سے استعمال کرناچاہئے نہ کہ اپنے معنی پیداکرنے چاہئیں ویسے آج کل کے متجددین فی الاجتہاد سے یہ کچھ بعید بھی نہیں کہ وہ لغت میں بھی اجتہاد کریں۔

کفایت اللہ صاحب کہتے ہیں

احناف اورجمہوراحناف ان مسائل کو نہیں مانتے ۔
احناف عام ہے اورجمہور احناف خاص ہے۔اگرآپ نے کسی ایک عمومی چیز کی نفی کردی تواس کے اندر اس خصوصی چیز کی بھی نفی ہوگئی۔الگ سے اس کو کلام میں ذکر کرنا "سخن فہمی"کی اچھی دلیل ہے۔

صحابہ کرام سے مختلف مروی آراء میں سے کسی ایک کو اختیار توہردو رمیں علماء وفقہاء نے کیاہے لیکن کیابھی ایساہواہے کہ جس نے کسی صحابی کی رائے اختیار نہ کی ہو اس کی تغلیط کی ہو؟
یہ ہے زیر بحث موضوع ۔لیکن کفایت اللہ صاحب اس موضوع کوچھوڑ کر اپنی آسانی اورقارئین کو مغالطہ میں ڈالنے کیلئے لے آئے ہیں یہ موضوع کہ صحابہ کرام میں سے حضرت عمر کی ان آراء کو احناف نے اختیار نہیں کیا۔جب صحابہ کرام کسی مسئلہ میں مختلف الرائے ہوتے ہیں توہرایک کسی نہ کسی کی رائے کو اپنے فکر ونظرکے لحاظ سے اختیار کرتاہے لیکن دوسری رائے کے قائلین صحابہ کرام کی تغلیط نہیں کرتا۔

جب کہ زیر بحث موضوع میں امام ابن تیمیہ نے ایک موقع پر حضرت عمرفاروق اوردوسرے موقع پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کی تغلیط کی ہے ۔

ویسے کفایت اللہ صاحب کیلئے بہترہوتاکہ وہ حضرت عمرفاروق کا قول پیش کرنے کے ساتھ ساتھ فقہ حنفی کی کسی معتبر کتاب سے وہ مسئلہ بھی نقل کردیتے ۔جس کاان کے خیال میں احناف یاجمہور احناف قائل ہیں۔ ۔یہ نہ ہونے کی وجہ سے بعض مسائل کوانہوں نے احناف یاجمہور احناف کی طرف منسوب کرنے میں صراحتاغلطی کی ہے اوراس غلطی کا منشاء کسی کی تقلید ہے ؟اب کس کی تقلید ہے یہ وہ جانیں۔

(1) ٧: عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے ام ولد لونڈی کی خرید وفروخت سے منع کیا۔
امام أبوداؤد رحمه الله (المتوفى:275)نے کہا:
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ قَيْسٍ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: «بِعْنَا أُمَّهَاتِ الْأَوْلَادِ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبِي بَكْرٍ، فَلَمَّا كَانَ عُمَرُ نَهَانَا فَانْتَهَيْنَا»[سنن أبي داود: 2/ 421]۔
احناف بھی اسی کے قائل ہیں۔کسی بھی معتبر فقہ حنفی کتاب میں دیکھ لیں یہی مسئلہ مذکور ملے گا۔
رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ - بَيْعُ أُمِّ الْوَلَدِ بَاطِلٌ فِي قَوْلِ جُمْهُورِ الْفُقَهَاءِ وَكَانَ بِشْرٌ الْمَرِيسِيُّ وَدَاوُد وَمَنْ تَبِعَهُ مِنْ أَصْحَابِ الظَّوَاهِرِ - رِضْوَانُ اللَّهِ عَلَيْهِمْ أَجْمَعِينَ - يُجَوِّزُونَ بَيْعَهَا(المبسوط للسرخسی7/149)
إذا ولدت الأمة من مولاها فقد صارت أم ولد لا يجوز بيعها(البنایہ شرح الھدایہ6/93)
آپ کو ہرفقہ حنفی کی کتاب میں یہی بات ملے گی کہ ام ولد کی بیع ناجائز ہے اوراگراس کی بیع کسی نے کی تویہ فاسد ہے۔

اس سلسلے میں مشہور حنفی امام ابوسعید البردعی کا تو مشہور ظاہری محدث وفقیہہ داؤد ظاہری سے مناظرہ بھی منقول ہے جس میں انہوں نے داؤد ظاہری کو خاموش کردیا۔

صورت واقعہ یہ ہے کہ امام ابوسعید البردعی حج کے ارادے سے نکلے۔ بغداد وہاں پہنچے۔وہاں وہ ایک دن داؤد ظاہری کی مجلس میں پہنچے۔ داؤد ظاہری اس وقت کسی حنفی سے گفتگو کررہے تھے اوربحث میں اس پر غالب آرہے تھے۔ امام ابوسعید البردعی داؤد ظاہری کے سامنے بیٹھے اوران سے پوچھابیع ام الولد کے بارے میں آپ کا کیانقطہ نظرہے۔انہوں نے کہاجائز ہے۔ابوسعید البردعی نے پوچھااس کی کیادلیل ہے؟داؤد ظاہری نے کہاکہ لونڈی کی بیع اس کے ام الولد ہونے سے قبل بالاتفاق جائز ہے۔اب ام الولد ہونے کے بعد اس کے بیع میں اختلاف ہوگیاچونکہ قبل ازیں بالاجماع اس کی بیع جائز تھی لہذا اس کی بیع باطل قراردینے کیلئے اس طرح کے اجماع کی ضرورت ہوگی۔
امام ابوسعید البردعی نے کہاکہ مسئلہ صورت دوسری ہے۔باندی کے حاملہ ہونے کے بعد اس کی بیع بالاجماع ناجائز ہے لہذاوضع حمل کے بعد اس کی بیع جائز قراردینے کیلئے اسی طرح کے اجماع کی ضرورت ہوگی۔یہ سن کر داؤد ظاہری خاموش ہوگئےاورکہاکہ ہم اس پر غورکریں گے۔
امام ابوسعید البردعی یہ دیکھ کر کہ بغداد میں ظاہریوں کاغلبہ ہے۔وہاں کے باشندوں کو فقہ کی تعلیم دینے کیلئے وہاں ٹھہرگئےاورایک مدت تک وہاں فقہ کی تعلیم دیتے رہے۔ ایک مرتبہ خواب میں دیکھاکہ کوئی قرآن کی آیت پڑھ رہاہے وفاماالزبد فیذھب جفاء واماماینفع الناس فیمکث فی الارض ۔اسی اثناء میں کسی نے دروازہ کھٹکھٹایا۔دورازہ کھولاتوخبرملی کہ داؤد ظاہری کا انتقال ہوگیاہے۔رحمہ اللہ۔
اس کے بعد وہ حج کیلئے مکہ مکرمہ تشریف لے گئے اورقرامطہ کے ہاتھوں شہید ہوئے۔رحمہ اللہ ۔
وَكَانَ قدم بغداد حاجا فدخل الجامع ووقف على دَاوُد بْن عَلِيّ صاحب الظاهر وهو يكلم رجلا من أصحاب أَبِي حنيفة، وقد ضعف في يده الحنفي، فجلس فسأله عَنْ بيع أمهات الأولاد فَقَالَ يجوز. فَقَالَ لَهُ لم قلت؟ قَالَ: لأنا أجمعنا على جواز بيعهن قَبْلَ العلوق، فلا نزول عن هذا الإجماع إلا إجماع مثله، فَقَالَ لَهُ: أجمعنا بعد العلوق قَبْلَ وضع الحمل أنه لا يجوز بيعها، فيجب أن نتمسك بهذا الإجماع ولا نزول عَنْهُ إلا بإجماع مثله فأنقطع دَاوُد. قَالَ ننظر فِي هَذَا. وقام أَبُو سَعِيد فعزم على القعود بِبَغْدَادَ والتدريس لما رأى من غلبة أصحاب الظاهر، فلما كَانَ بعد مديدة رأى فِي المنام كَانَ قائلا يَقُولُ لَهُ: فَأَمَّا الزَّبَدُ فَيَذْهَبُ جُفاءً وَأَمَّا مَا يَنْفَعُ النَّاسَ فَيَمْكُثُ فِي الْأَرْضِ
[الرعد 17] فانتبه بدق الباب، وإذا قائل يَقُولُ لَهُ: قد مات دَاوُد بْن عَلِيّ صاحب المذهب، فإن أردت أن تصلى عَلَيْهِ فاحضر. وأقام أَبُو سَعِيد بِبَغْدَادَ سنين كثيرة يدرس، ثم خرج إِلَى الحج فقتل فِي وقعة القرامطة مع الحاج.
(تاریخ بغداد/4/321۔العبر فی خبر من غبر1/474۔الوافی بالوفیات6/207۔الجواہر المضیئۃ فی طبقات الحنفیہ1/66)
(2)عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے نزدیک مزارعہ (بٹائی پر کھیت دینا) جائزہے۔
امام ابن أبي شيبة رحمه الله (المتوفى: 235) نے کہا:
حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، وَوَكِيعٌ، عَنْ عَمْرِو بْنِ عُثْمَانَ، عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ، قَالَ: سَأَلْتُهُ عَنِ الْمُزَارَعَةِ بِالثُّلُثِ وَالرُّبُعِ، فَقَالَ: «إِنْ نَظَرْتَ فِي آلِ أَبِي بَكْرٍ، وَآلِ عُمَرَ، وَآلِ عَلِيٍّ وَجَدْتُهُمْ يَفْعَلُونَ ذَلِكَ»
[مصنف ابن أبي شيبة: 4/ 377]۔
صاحبین کا یہی مسلک ہے اوراسی پر فتویٰ ہے۔
كتاب الْمُزَارعَة
وَهَذَا ثَلَاثَة اشياء،الْمُزَارعَة وَالْمُخَابَرَة وقفيز الطَّحَّان۔أما المخابرة فجائزة بِلَا اخْتِلَاف،وقفيز الطَّحَّان فَاسد بِلَا اخْتِلَاف لما جاءفي الْخَبَر ان رَسُول الله
صلى الله عَلَيْهِ وَسلم نهى عَن قفيز الطَّحَّان وَعَن عسب التيس،وَأما الْمُزَارعَة فَفِيهَا اخْتِلَاف،قَالَ أَبُو حنيفَة وَالشَّافِعِيّ وَمَالك هِيَ فَاسِدَة وَلَا تجوز،وَجَازَت فِي قَول ابي يُوسُف وَمُحَمّد وابي عبد الله
(النتف فی الفتاوی للسغدی2/547)

لَمْ يَجُزْ فِي قَوْلِ أَبِي حَنِيفَةَ - رَحِمَهُ اللَّهُ - لِأَنَّهُ لَا يَرَى جَوَازَ الْمُزَارَعَةِ أَصْلًا،وَتَجُوزُ عِنْدَهُمَا
(المبسوط للسرخسی19/134)

(3) عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے نزدیک ضب حلال ہے۔
امام ابن أبي شيبة رحمه الله (المتوفى: 235)نے کہا:
حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، قَالَ: قَالَ عُمَرُ: «ضَبٌّ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ دَجَاجَةٍ»[مصنف ابن أبي شيبة: 5/ 125]۔
ضب احناف کے نزدیک بھی حرام نہیں ہے بلکہ انہوں نے اس کے مختلف حلت وحرمت کے آثار کو نظر میں رکھتے ہوئے اوردونوں طرح کی روایتوں میں تطبیق دیتے ہوئے اسے مکروہ قراردیاہے۔
قال: "ويكره أكل الضبع والضب والسلحفاة والزنبور والحشرات كلها" أما الضبع فلما ذكرنا، وأما الضب فلأن النبي عليه الصلاة والسلام "نهى عائشة رضي الله عنها حين سألته عن أكله". وهي حجة على الشافعي في إباحته، والزنبور من المؤذيات. والسلحفاة من خبائث الحشرات ولهذا لا يجب على المحرم بقتله شيء، وإنما تكره الحشرات كلها استدلالا بالضب لأنه منها.
(الھدایہ فی شرح بدایۃ المبتدی4/352)
(بَاب يكره (أكل) لحم الضَّب)
مُحَمَّد بن الْحسن: عَن الْأسود، عَن عَائِشَة رَضِي الله عَنْهَا: " أَن النَّبِي [صلى الله عَلَيْهِ وَسلم] أهدي لَهُ ضَب فَلم يَأْكُلهُ فَقَامَ عَلَيْهِم سَائل، فَأَرَادَتْ عَائِشَة أَن تعطيه، فَقَالَ رَسُول الله [صلى الله عَلَيْهِ وَسلم] : تعطيه مَا لَا تأكلين ".قَالَ مُحَمَّد: " فَدلَّ ذَلِك على أَن رَسُول الله [صلى الله عَلَيْهِ وَسلم] كرهه لنَفسِهِ وَلغيره ".قَالَ: " فبذلك نَأْخُذ ".

(اللباب فی الجمع بین السنۃ والکتاب2/619)
ویسے فقہاء احناف کی ایک رائے اس کی حرمت کی بھی ہے ۔

(4)عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے نزدیک اپنی بیوی کو’’ أَنْتِ عَلَيَّ حَرَامٌ‘‘ کہنے سے تین طلاقیں پڑجائیں گی۔
امام عبد الرزاق رحمه الله (المتوفى:211)نے کہا:
عَنِ الثَّوْرِيِّ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ قَالَ: رُفِعَ إِلَى عُمَرَ رَجُلٌ فَارَقَ امْرَأَتَهُ بِتَطْلِيقَتَيْنِ، ثُمَّ قَالَ: أَنْتِ عَلَيَّ حَرَامٌ قَالَ: «مَا كُنْتُ لِأَرُدُّهَا عَلَيْهِ أَبَدًا»[مصنف عبد الرزاق: 6/ 405]۔
یہ احناف کابھی قول ہے لیکن اس کو انہوں نے نیت پر معلق کیاہے۔دیکھئے۔

(قَالَ) - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ -، وَإِذَا قَالَ الرَّجُلُ لِامْرَأَتِهِ أَنْتِ عَلَيَّ حَرَامٌ فَإِنَّهُ يُسْأَلُ عَنْ نِيَّتِهِ لِأَنَّهُ تَكَلَّمَ بِكَلَامٍ مُبْهَمٍ مُحْتَمِلٍ لِمَعَانٍ وَكَلَامُ الْمُتَكَلِّمِ مَحْمُولٌ عَلَى مُرَادِهِ وَمُرَادُهُ إنَّمَا يُعْرَفُ مِنْ جِهَتِهِ فَيُسْأَلُ عَنْ نِيَّتِهِ فَإِنْ نَوَى الطَّلَاقَ فَهُوَ طَلَاقٌ لِأَنَّهُ نَوَى مَا يَحْتَمِلُهُ كَلَامُهُ فَإِنَّهُ وَصَفَهَا بِالْحُرْمَةِ عَلَيْهِ وَحُرْمَتُهَا عَلَيْهِ مِنْ مُوجِبَاتِ الطَّلَاقِ ثُمَّ إنْ نَوَى ثَلَاثًا فَهُوَ ثَلَاثٌ لِأَنَّ حُرْمَتَهَا عَلَيْهِ عِنْدَ وُقُوعِ الثَّلَاثِ فَقَدْ نَوَى نَوْعًا مِنْ أَنْوَاعِ الْحُرْمَةِ وَإِنْ نَوَى وَاحِدَةً بَائِنَةً فَهِيَ وَاحِدَةٌ بَائِنَةٌ لِأَنَّهُ نَوَى الْحُرْمَةَ بِزَوَالِ الْمِلْكِ وَلَا يَحْصُلُ ذَلِكَ إلَّا بِالتَّطْلِيقَةِ الْبَائِنَةِ
(المبسوط للسرخسی6/70)
وَلَا خلاف فِي الْكِنَايَات المنبئة عَن الْبَيْنُونَة وَالْحُرْمَة نَحْو قَوْلك أَنْت بَائِن أَنْت عَليّ حرَام وَنوى الثَّلَاث فَإِنَّهُ يَقع الثَّلَاث وَالْمَسْأَلَة مَعْرُوفَة
(تحفۃ الفقہاء کتاب الطلاق2/176)

وَلَوْ نَوَى فِي شَيْءٍ مِنْ الْكِنَايَاتِ الَّتِي هِيَ بَوَائِنُ أَنْ يَكُونَ ثَلَاثًا مِثْلُ قَوْلِهِ: أَنْتِ بَائِنٌ أَوْ أَنْتِ عَلَيَّ حَرَامٌ أَوْ غَيْرِ ذَلِكَ يَكُونُ ثَلَاثًا
وَكَذَا قَوْلُهُ: أَنْتِ عَلَيَّ حَرَامٌ يَحْتَمِلُ الْحُرْمَةَ الْغَلِيظَةَ وَالْخَفِيفَةَ فَإِذَا نَوَى الثَّلَاثَ فَقَدْ نَوَى إحْدَى نَوْعَيْ الْحُرْمَةِ فَتَصِحُّ نِيَّتُهُ

(بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع3/108)
"وإ ذا قال لامرأته أنت علي حرام سئل عن نيته فإن قال أردت الكذب فهو كما قال " لأنه نوى حقيقة كلامه وقيل لا يصدق في القضاء لأنه يمين ظاهرا " وإن قال أردت الطلاق فهي تطليقة بائنة إلا أن ينوي الثلاث
(الھدایہ فی شرح بدایۃ المبتدی2/260)


یہ کچھ مثالیں میں نے پیش کی ہیں کہ بعض مسائل کواحناف کی جانب منسوب کرنے میں کفایت اللہ صاحب سے غلطی ہوئی ہے۔

اب کچھ مثالیں سند پر زوردینے والے کفایت اللہ صاحب کی کہ اپنے مطلب برآری کیلئے سند کی ان کے نزدیک کوئی ضرورت اوراہمیت نہیں رہ جاتی۔

اعمش مدلس ہیں اورمدلسین میں تیسرے طبقہ کے ہیں۔اس پر ان کا بڑازور رہاہے اس سلسلے میں کچھ ان کے فرمودات ملاحظہ کیجئے۔
پہلی علت:
امام اعمش رحمہ اللہ مدلس ہیں اور روایت عن سے ہیں۔نبیہ:
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے طبقات میں انہیں دوسرے طبقہ میں رکھا ہے لیکن یاد رہے کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس سے رجوع کرلیا ہے کوقنکہ النکت میں آپ نے امام اعمش رحمہ اللہ کو تیسرے طبقہ میں ذکر کا ہے اور تلخیص میں ان کے عنعنہ کی وجہ سے ایک روایت کو ضعیف بھی کہا ہے۔
دکتور عواد الخلف نے صحیحین کے مدلسین پر دو الگ الگ کتاب میں لکھی ہے ان میں دکتور رموصوف نے امام اعمش کے بارے میں یہ تحقیق پیش کی ہے وہ طبقہ ثالثہ کے مدلس ہیں ، دکتور موصوف نے یہ بھی کہا ہے حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے طبقات میں انہیں دوسرے طبقہ میں رکھا ہے تو یہ ان کا سہہو ہے اور نکت میں انہوں نے درست بات لکھی ہے اوروہی معتبر ہے کوکنکہ نکت کو حافظ ابن حجر نے طبقات کے بعد تصنیف کاہ ہے۔
دکتور مسفر الدمینی نے بھی مدلسین پر ایک مستقل کتاب لکھ رکھی ہے انہوں نے بھی اعمش کو تیسرے طبقہ میں رکھا ہے اور طبقات میں حافظ ابن حجر کی تقسیم کو غلط قرار دیا ہے۔
یہ کفایت اللہ صاحب کی سلیمان بن المہران الاعمش کی تدلیس پر چند تحریریں تھیں جس میں پورے زوروشور سے یہ دعویٰ کیاگیاتھاکہ وہ تیسرے درجہ کے مدلس ہیں اورتیسرے درجہ کے مدلس کی تدلیس قابل قبول نہیں۔
یہ افسوس کی بات ہے کہ اسی تیسرے درجہ کے مدلس کی بات انہوں نے یہاں پربغیر کسی اعتراض اورردوکد کے پیش کردی ہے "گویامستند ہے میرافرمایاہوا"دیکھئے۔
عَنِ الثَّوْرِيِّ، وَمَعْمَرٍ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنِ الْمُسَيِّبِ بْنِ رَافِعٍ، عَنْ قَبِيصَةَ بْنِ جَابِرٍ الْأَسْدِيِّ قَالَ: قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ: «لَا أُوتَى بِمُحَلِّلٍ وَلَا بِمُحَلَّلَةٍ إِلَّا رَجَمْتُهُمَا»[مصنف عبد الرزاق: 6/ 265]۔

امام سعيد بن منصور رحمه الله (المتوفى: 227)نے کہا:
أَخْبَرَنَا سَعِيدٌ، نا جَرِيرُ بْنُ عَبْدِ الْحَمِيدِ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنِ الْمُسَيِّبِ بْنِ رَافِعٍ، عَنْ قَبِيصَةَ بْنِ جَابِرٍ الْأَسَدِيِّ، قَالَ: قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: «لَا أَجِدُ مُحِلًّا وَلَا مُحَلَّلًا لَهُ إِلَّا رَجَمْتُهُ»[سنن سعيد بن منصور: 2/ 75]۔
ان دونوں مقامات پر شاید اعمش کی تدلیس قابل قبول ہے کیونکہ اپنے موقف میں ہے۔اس سلسلے کی کفایت اللہ صاحب نے تیسری روایت جو پیش کی ہے۔

امام ابن أبي شيبة رحمه الله (المتوفى: 235) نے کہا:

حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ، عَنْ مُجَالِدٍ، عَنْ عَامِرٍ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: قَالَ عُمَرُ: «لَا أُوتِيَ بِمُحَلِّلٍ وَلَا مُحَلَّلٍ لَهُ إِلَّا رَجَمْتُهُمَا»[مصنف ابن أبي شيبة: 7/ 292]۔
کفایت اللہ صاحب نے اس تیسری روایت میں غورکرلیاہوتااورمجالد کے سلسلے میں جو ائمہ کے اقوال مذکور ہیں۔ انہی کو ایک نگاہ دیکھ لیاہوتاتوشاید وہ اس روایت کو پیش نہ کرتے۔
اسی طرح کفایت اللہ صاحب نے قتادہ کے واسطے سے بھی ایک روایت پیش کی ہے جب کہ یہ بات معروف ہے کہ قتادہ مدلس ہیں۔
١٧: عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے نزدیک دس دینار سے کم یعنی ربع دینار یا اس سے زائد کی چوری پرہاتھ کاٹنا درست ہے۔
امام ابن أبي شيبة رحمه الله (المتوفى: 235) نے کہا:
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ قَالَ: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ، عَنْ عَمْرَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: «تُقْطَعُ فِي رُبْعِ دِينَارٍ» وَقَالَتْ عَمْرَةُ: قَطَعَ عُمَرُ فِي أُتْرُجَّةٍ "[مصنف ابن أبي شيبة: 5/ 475]۔

امام بيهقي رحمه الله (المتوفى:458)نے کہا:
أَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ الْحَارِثِ الْفَقِيهُ، أنبأ أَبُو مُحَمَّدِ بْنُ حَيَّانَ، ثنا أَبُو يَعْلَى، وَإِبْرَاهِيمُ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَا: ثنا شَيْبَانُ، ثنا أَبُو هِلَالٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: قَطَعَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا فِي مِجَنٍّ، قُلْتُ: كَمْ كَانَ يُسَاوِي؟ قَالَ: خَمْسَةَ دَرَاهِمَ " [السنن الكبرى للبيهقي: 8/ 260]۔
اس میں بھی کفایت اللہ صاحب نے جوکچھ فرمایاہے وہ مدعاعنقاء ہے اپنے عالم تقریر کا۔
عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے نزدیک دس دینار سے کم یعنی ربع دینار یا اس سے زائد کی چوری پرہاتھ کاٹنا درست ہے۔
دس دینار سے کم کا مطلب ربع دینارپہلی مرتبہ دیکھاہےاورشاید اہل عرب کے نزدیک بھی یہ انکشاف ہواکہ ربع دیناردس دینار ہواکرتاہے۔اگربات دوسری ہے یعنی دس دینار غلطی سے لکھاگیااصل لفظ دس درہم ہوناچاہئے تھاویسے اگرکفایت اللہ صاحب دس درہم لکھناچاہتے تھے تویہ بھی غلط تھا کیونکہ دس درہم کبھی ربع دینار نہیں رہاہے۔ ایک دینار کی قیمت دس درہم کے برابر تورہی ہے لیکن ربع دینار کی قیمت دس درہم کے برابر ہو یہ اس دور میں معروف نہیں تھا۔بہرحال انہوں نے کچھ بھی سمجھ کرلکھاہواحناف کے نزدیک مسئلہ یہ ہے کہ دس درہم سے کم پر ہاتھ نہیں کاٹاجاتا۔
اس کیلئے دیکھئے۔
ثُمَّ اخْتَلَفُوا فِي مِقْدَارِ النِّصَابِ فَقَالَ عُلَمَاؤُنَا رَحِمَهُمْ اللَّهُ تَعَالَى: عَشَرَةُ دَرَاهِمَ أَوْ دِينَارٌ
(المبسوط للسرخسی9/137)
وَمِنْهَا أَن يكون المَال الْمَسْرُوق مُقَدرا عندنَا بِعشْرَة دَرَاهِم
(تحفۃ الفقہاء3/149)
وَلَنَا) مَا رَوَى مُحَمَّدٌ فِي الْكِتَابِ بِإِسْنَادِهِ عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ عَنْهُ - عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ - «أَنَّهُ كَانَ لَا يَقْطَعُ إلَّا فِي ثَمَنِ مِجَنٍّ» ، وَهُوَ يَوْمَئِذٍ يُسَاوِي عَشَرَةَ دَرَاهِمَ، وَفِي رِوَايَةٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -: «لَا قَطْعَ فِيمَا دُونَ عَشَرَةِ دَرَاهِمَ» .
وَعَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ - عَنْ النَّبِيِّ - عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ - أَنَّهُ قَالَ: «لَا تُقْطَعُ الْيَدُ إلَّا فِي دِينَارٍ، أَوْ فِي عَشَرَةِ دَرَاهِمَ» ، وَعَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ - عَنْ رَسُولِ اللَّهِ - عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ - أَنَّهُ قَالَ: «لَا يُقْطَعُ السَّارِقُ إلَّا فِي ثَمَنِ الْمِجَنِّ» ، وَكَانَ يُقَوَّمُ يَوْمَئِذٍ بِعَشَرَةِ دَرَاهِمَ، وَعَنْ ابْنِ أُمِّ أَيْمَنَ أَنَّهُ قَالَ «مَا قُطِعَتْ يَدٌ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - إلَّا فِي ثَمَنِ الْمِجَنِّ:» ، وَكَانَ يُسَاوِي يَوْمَئِذٍ عَشَرَةَ دَرَاهِمَ، وَذَكَرَ مُحَمَّدٌ فِي الْأَصْلِ أَنَّ - سَيِّدَنَا - عُمَرَ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ - أَمَرَ بِقَطْعِ يَدِ سَارِقِ ثَوْبٍ بَلَغَتْ قِيمَتُهُ عَشَرَةَ دَرَاهِمَ فَمَرَّ بِهِ - سَيِّدُنَا - عُثْمَانُ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ - فَقَالَ: إنَّ هَذَا لَا يُسَاوِي إلَّا ثَمَانِيَةً فَدَرَأَ - سَيِّدُنَا - عُمَرُ الْقَطْعَ عَنْهُ، وَعَنْ - سَيِّدِنَا - عُمَرَ، وَسَيِّدِنَا عُثْمَانَ، وَسَيِّدِنَا عَلِيٍّ، وَابْنِ مَسْعُودٍ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ - مِثْلُ مَذْهَبِنَا، وَالْأَصْلُ أَنَّ الْإِجْمَاعَ انْعَقَدَ عَلَى وُجُوبِ الْقَطْعِ فِي الْعَشَرَةِ.
(بدائع الصنائع7/77)
یہ کچھ مثالیں پیش کی ہیں میں نے کہ کفایت اللہ صاحب نے کس عجلت میں یہ تحریر تریب دی ہے۔انسان کو چاہئے کہ جوکچھ لکھے اس میں سنجیدگی کوملحوظ رکھے ۔کتابت کی غلطیاں الگ چیز ہیں۔ وہ ہوتی رہتی ہیں لیکن معنی اورمفہوم کی ایسی غلطیاں اورغلط نسبتیں تونہیں ہونی چاہئین۔جس کے تعلق سے لکھ رہے ہیں۔پہلے اس کا موقف اورمذہب تومعلوم کرلین اوریہ کوئی مشکل کام بھی نہیں ۔ماشاء اللہ کفایت اللہ صاحب مکتبہ الشاملہ کے استعمال سے بھی واقف ہیں اوراس واقفیت کو کام میں لاتے بھی رہتے ہیں جس پر ان کی تحریریں شاہد عدل ہیں۔

اب آخر میں پھر وہی بات دوہراناچاہوں گاکہ صحابہ کرام کے درمیان جب کسی امر اورمسئلہ میں اختلاف ہوتواس کاحق ہرایک کوہے کہ اپنے علم اورفکر ونظرکے اعتبار سے جو پسند ہے اس کو اختیار کرے لیکن یہ قطعامناسب نہیں ہے کہ وہ کسی کی تغلیط کرے۔کیونکہ بہرحال یہ ادب کے خلاف ہے۔دیکھئے اس سلسلے میں امام شافعی رحمہ اللہ کا قول ۔
نا أَبُو مُحَمَّدٍ، ثنا أَبُو مُحَمَّدٍ الْبُسْتِيُّ، عَنْ أَبِي ثَوْرٍ، قَالَ: وَسَمِعْتُ الشَّافِعِيَّ يَقُولُ: قُلْتُ لِبِشْرٍ الْمَرِيسِيِّ: " مَا تَقُولُ فِي رَجُلٍ قُتِلَ، وَلَهُ أَوْلِيَاءٌ صِغَارٌ وَكِبَارٌ، هَلْ لِلأَكَابِرِ أَنْ يَقْتُلُوا دُونَ الأَصَاغِرِ؟ فَقَالَ: لا ".فَقُلْتُ لَهُ: فَقَدْ قَتَلَ الْحَسَنُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ ابْنَ مُلْجَمٍ، وَلِعَلِيٍّ أَوْلادٌ صِغَارٌ؟ فَقَالَ: أَخْطَأَ الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ.فَقُلْتُ لَهُ: أَمَا كَانَ جَوَابٌ أَحْسَنُ مِنْ هَذَا اللَّفِظِ؟ ! قَالَ: وَهَجَرْتُهُ مِنْ يَوْمِئِذٍ ۔
اس کا ترجمہ کردینابہترہے۔
ابوثور کہتے ہیں کہ میں نے امام شافعی کو فرماتے سنا۔میں(امام شافعی رضی اللہ عنہ)نے بشرالمریسی سے کہا۔اس مسئلہ کے بارے میں تم کیاکہتے ہو کہ ایک شخص قتل ہوگیااوراس کے اولیاء میں بڑے اورچھوٹے سبھی ہیں کیابڑوں کو اجازت ہے کہ وہ چھوٹوں سے پوچھے بغیر قاتل کو قتل کردیں۔بشرالمریسی نے کہانہیں!میں نے کہاکہ حسن بن علی بن ابی طالب نے ابن ملجم کو قتل کرادیا جب کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے چھوٹے چھوٹے بچے بھی موجود تھے۔اس پر بشرالمریسی نے کہاکہ حسن بن علی نے غلطی کی۔میں نے اس سے کہاکہ کیااس سے بہتر الفاظ میں جواب نہیں دیاجاسکتاتھا۔اوراس دن میں سےمیں نے اس کو چھوڑدیا۔

امام شافعی نے ایک شخص کواس بناء پر چھوڑدیاکہ اس نے حضرت حسن بن علی کے بارے میں کہاتھاکہ اخطاء اس نے اس بارے میں غلطی کی۔
صرف کسی بات کا درست اورصواب ہوناہی کافی نہیں ہوتابلکہ انداز کلام اورطرزتخاطب اورالفاظ کے انتخاب میں بھی حسن سلیقہ چاہئے ہوتاہے ورنہ غالب کو تو شعروں کوانتخاب نے رسواکیاتھااوربہت سے لوگوں کو "لفظوں کاانتخاب رسوا"کردیتاہے۔اوراندازکلام اگراچھاہوتوغلط بات بھی بسااوقات مخاطب پر گراں نہیں گزرتا۔
کلیم عاجز کہہ گئے ہیں
بات گرچہ بے سلیقہ ہوکلیم
بات کہنے کا سلیقہ چاہئے​
ہمیں بھی یہ کہنے میں تامل نہیں ہے کہ اگرچہ ابن تیمیہ کے نزدیک اس مسئلہ میں حضرت عمر سے اجتہادی غلطی واقع ہوئی ہوگی لیکن جن الفاظ میں انہوں نے اظہار خیال کیاوہ مناسب نہیں تھا جس کی بناء پر اس دور کے مشہور حنبلی صوفی نے بھی ان کو تنبیہ کی اورانہوں نے اس پر معذرت کردی ۔بات ختم
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,806
پوائنٹ
773
کفایت اللہ صاحب جوش کی حالت میں ہوش پر قابونہیں رکھ پاتے۔بات کچھ اورہوتی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

محترم ندوی صاحب !
مذکورہ مکالمہ ہمارے اورجمشیدصاحب کے بیچ جاری ہے۔
آپ کے لئے قطعامناسب نہیں کہ اس میں دخل اندازی کریں ۔
ذرا جمشیدصاحب سے بھی رجوع کرلیں مجھے امید ہے کہ وہ بھی اسے مناسب نہیں سمجھیں گے۔

اگر آپ کو بات کرنی ہے تو جمشید صاحب کا جواب مکمل ہونے دیں پھر آخر میں آپ بھی اپنی معروضات پیش کردیں یا پھر کسی الگ تھریڈ میں اپنی بات رکھیں ۔
والسلام۔
 

رفیق طاھر

رکن مجلس شوریٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 04، 2011
پیغامات
790
ری ایکشن اسکور
3,982
پوائنٹ
323
محترم ندوی صاحب !
مذکورہ مکالمہ ہمارے اورجمشیدصاحب کے بیچ جاری ہے۔
آپ کے لئے قطعامناسب نہیں کہ اس میں دخل اندازی کریں ۔
ذرا جمشیدصاحب سے بھی رجوع کرلیں مجھے امید ہے کہ وہ بھی اسے مناسب نہیں سمجھیں گے۔

اگر آپ کو بات کرنی ہے تو جمشید صاحب کا جواب مکمل ہونے دیں پھر آخر میں آپ بھی اپنی معروضات پیش کردیں یا پھر کسی الگ تھریڈ میں اپنی بات رکھیں ۔
والسلام۔
کفایت اللہ بھائی آپ بھی کمال کرتے ہیں ۔ یہ مولانا ندوی صاحب تو ہمارے جمیشد صاحب دامت برکاتہم العالیہ ہی تو ہیں ۔ وہ کبھی جمشید کی آئی ڈی میں حلول فرماتے ہیں تو کبھی ندوی کی آئی ڈی میں ۔ بس ہوا یہ کہ وجد میں آکر بھول گئے کہ یہاں کس میں حلول فرمانا تھا ۔
لہذا یہ جواب بھی انہی کا سمجھیں اور اگر جرأت ہے تو جمشید طحاوی ندوی صاحب کی باتوں کا جواب دیں ۔ ہم تو خاموشی سے تماشائے اہل کرم دیکھتے ہیں !!!!
اور یہ معرفت کی باتیں اگر آپکو سمجھ نہ آئیں تو ناچیز کو یاد فرما لیا کریں ۔ کیونکہ میں بھی طحاوی عصر رواں کی صحبت مکالمہ سے فیض یاب ہوا ہوں ۔ اب مجھے بھی کچھ کچھ معرفت آنے لگی ہے ۔
کیوں جمشید طحاوی ندوی العزالی صاحب ! سچ کہا ناں میں نے ؟؟؟؟
 

ندوی

رکن
شمولیت
نومبر 20، 2011
پیغامات
152
ری ایکشن اسکور
328
پوائنٹ
57
کفایت اللہ صاحب اوردیگر تمام لوگوں سے معذرت کہ ان کو اصل صورت حال تمہید میں بتانے سے قاصر رہا۔اب جب کہ کفایت اللہ صاحب نے اعتراض کیااوران کایہ اعتراض کافی معقول ہے تومناسب ہے کہ اس کی توجیہہ بیان کردی جائے۔
جمشید صاحب ایک مدت سے فورمز پر زیادہ وقت نہیں دے پارہے ہیں۔ابھی حال میں ۲۰اپریل کو ان کی شادی ہوئی ہے۔اس کے ساتھ ساتھ وہ ایک دوسرے تعلیمی فاؤنڈیشن سے جڑگئے ہیں جس کی بناء پر فورمزپرزیادہ وقت دیناان کیلئے مشکل ہے۔ایک دوسرے فورم کے وہ ماڈریٹر ہیں لیکن وہاں بھی وہ زیادہ وقت نہیں دے پاتے۔
انہوں نے اس تھریڈ کے تعلق سے کچھ مضامین مجھے ارسال کئے تھے کہ اسے مذکورہ تھریڈ میں پوسٹ کردوں ۔ اسی "حکم کی تعمیل"میں یہ گستاخی سرزد ہوئی ہے۔میری کوتاہی یہ ہوئی کہ مضمون کے آخر میں جمشید لکھنابھول گیا۔
امید ہے کہ اس وضاحت کے بعد کفایت اللہ صاحب ناراض نہیں ہوں گے۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,806
پوائنٹ
773
اگرایسی بات ہے تو آپ ان کی نیابت میں اس موضوع کو آگے بڑھا سکتے ہیں۔
ہماری طرف سے جمشیدصاحب کو شادی کی مبارکباد پہنچائیں بارک اللہ لھما وجمع بینھما فی خیر۔
لیکن دیگرتمام اراکین سے میری یہی گذارش ہوگی اس مکالمہ میں حصہ نہ لیں ، شکرگذارہوں گا۔
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top