• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا شیخ الاسلام ابن تیمہ رحمہ اللہ کے مزاج میں شدت تھی ؟

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

ندوی

رکن
شمولیت
نومبر 20، 2011
پیغامات
152
ری ایکشن اسکور
328
پوائنٹ
57
اعتدال تحریر کا حسن ہواکرتاہے اوربداعتدالی اورشدت پسندی تحریر کا عیب ماناجاتاہے ۔ کسی موضوع پر بحث مناقشہ اورردوتردید اچھی بات ہے اس سے علم میں اضافہ ہوتاہے۔ بحث کے نئے گوشے سامنے آتے ہیں۔ اورخیالات کو جلاملتی ہے لیکن یہ سب اس وقت بہتر ہوتاہے جب بات معتدل انداز میں کہی جائے ۔ اورسخت بات کوبھی نرم انداز میں پیش کیاجائے۔ ورنہ مباحثہ مناظرہ میں بدل جاتے دیرنہیں لگتی اورفریقین ایک دوسرے کو سمجھنے کے بجائے ایک دوسرے کی تکفیر وتفسیق کرکے رخصت ہوجاتے ہیں۔
اس فورم پر آنے کے بعد میں نے اصولی طورپر مولانا ابوالحسن علی ندوی کے تعلق سے سرچ کیاتو کفایت اللہ صاحب کی مندرجہ ذیل تحریر سامنے آئی۔
علی میان ندوی کا نام محتاج تعارف نہیں ہے گرچہ ان کے بہت سارے کاموں پر پردہ پڑا ہوا ہے کیونکہ موصوف دو چہروں کے مالک تھے انڈیا میں ان کا چہرہ کچھ اورتھا اور عرب میں ان کا چہرہ کچھ اور ، شیخ صلاح الدین مقبول حفظہ اللہ نے اہل عرب کے سامنے ان کے دوسرے چہرے کو بھی بے نقاب کردیا ، اور ایک کتاب لکھ دی:’’الاستاذ ابو الحسن الندوي الوجه الاخر من كتاباته‘‘ جزاہ اللہ خیرا واحسن الجزاء۔عرب میں اس کتاب کے آنے کے بعد خواص کے ساتھ ساتھ عوام بھی موصوف کے مخفی چہرہ سے آگاہ ہوگئے ایک نمونہ یہاں دیکھیں۔
اولاتویہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ محض کسی کی تردید کردینے سے کسی شخصیت پر کوئی عیب نہیں لگتا ۔ حضرات صحابہ کرام کے تعلق سے خوارج کا کیاموقف تھا وہ ہرایک کومعلوم ہے لیکن اس سے حضرات صحابہ کرام کی شخصیت پر کوئی دھبہ اورعیب نہیں لگتا۔

شیخ صلاح الدین مقبول کی کتاب کاہمیں توکوئی بھی اثر عالم عرب میں نظرنہیں آیا ۔ حضرت مولانا علی میاں کی کی وفات پر اور اس سے قبل عرب کے اہل علم وقلم حضرات اورحرمین شریفین کے علماء نے جن قابل قدر الفاظ میں ان کی مدح سرائی کی ہے اس سے تویہی ظاہر ہوتاہے ۔ ہاں سلفی حضرات اس کتاب کو لکھ کر اورایک دوسرے کو دکھاکر خوش ہورہے ہوں تو دوسری بات ہے۔ اوراسی کی مصداق کفایت اللہ صاحب کی ذکرکردہ فورم پر تحریریں بھی ہیں۔

ویسے تعجب کی بات یہ ہے کہ مولانا علی میاں کی شخصیت کے وزن اورعلمی شہرت کو دیکھ کر کچھ اہل حدیث حضرات توان کو اہل حدیث میں شمار کرتے ہیں اورکچھ لوگوں کاحال یہ ہے کہ الوجہ الآخر کوڈھونڈتے ہیں۔

اگر بات کی جائے تصوف کی تو اہل حدیث حضرات کے اکابرین بھی تصوف کے قائل رہے ہیں۔ میاں نذیرحسین صاحب ابن عربی کو الشیخ الاکبر کہتے تھے۔ نواب صدیق حسن خان بھی تصوف کے قائل تھے اورانہوں نے بذات خود اپنے بیٹے نورالحسن کو حضرت مولانا فضل رحمن گنج مراد آبادی کے پاس بیعت ہونے کیلئے بھیجاتھا۔ خود حضرت شاہ ولی اللہ جن کی جانب غیرمقلدین بڑے فخر کے ساتھ انتساب کرتے ہیں اوران کوبھی زبردستی اہل حدیث میں شامل کرتے ہیں ان کی کتابیں تصوف سے بھری پڑی ہیں۔

تو شیخ صلاح الدین مقبول اس کو اہل عرب کے سامنے کیوں نہیں پیش کرتے اوراس الوجہ الآخر کو چھپانے کی کیاوجہ ہے۔ یاپھر کہیں ایساتونہیں کہ شیخ صلاح الدین حفظہ اللہ کاخود ہی الوجہ لآخر ہے اور وہ ڈبل اسٹینڈرڈ اوردوچہروں کے مالک ہیں۔

آنجناب نے امام ابوحنیفہ کے تعلق سے جوالفاظ استعمال کئے ہیں وہ نہایت بھونڈے اوراہل علم کی متفقہ صراحت کے خلاف ہیں۔ اورخود جن کی تائید اورحمایت میں آپ اپناوقت صرف کررہے ہیں یعنی حضرت شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے بھی بیان اورارشادات کے خلاف ہے۔ حضرت ابن تیمیہ نے متعدد مواقع پر امام ابوحنیفہ کوائمہ اسلام ومسلمین میں شمار کیاہے ۔ کبھی موقع ملے تو جہاں اتناوقت حضرت ابن تیمیہ کی حمایت میں صرف کیاہے امام ابوحنیفہ کے تعلق سے ان کا کیاموقف تھا وہ بھی پڑھ لیں۔

ویسے اگرصرف ہم اتناکریں کہ اس تحریر کا عربی ترجمہ کرکے ملتقی اہل الحدیث اوردیگر سلفی فورم پر شیئر کردیں تو شاید ہزار میں ایک دو سلفی آپ کی تائید کریں ورنہ سبھی اس تحریر سے برات کااظہار کریں گے۔
اگرکفایت اللہ صاحب چاہیں توہم اس تحریر کا عربی ترجمہ کرکے سلفی ویب سائٹس پر ڈال دیں اوران کی آراءطلب کریں۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,806
پوائنٹ
773
اعتدال تحریر کا حسن ہواکرتاہے اوربداعتدالی اورشدت پسندی تحریر کا عیب ماناجاتاہے ۔
یعنی جو بھی احناف کے خلاف کچھ بولے وہ شدت پسندہے۔
اوراحناف یہ بے ہودگی کریں:
’’خلفاء هذه الملة أربعة: ابن تيمية، وابن قيم، والشوکاني، فيقولون ثلاثة رابعهم کلبهم، وإذا انضم إليهم ابن حزم، وداؤد الظاهري بأن صاروا ستة، و يقولون خمسة سادسهم کلبهم رجما بالغيب، وخاتم المکلبين مثله کمثل الکلب إن تحمل عليه يلهث، و إن تترکه يلهث، يشنع علي أهل الحق في التنزيه ‘‘
[حاشیہ نظم الفوائد: ص ١٠٢ ، نیز ملاحظہ ہو تحریک آزادی فکر اور حضرت شاہ ولی اللہ کی تجدیدی مساعی: ص ١٧٤ از شیخ محمداسماعیل سلفی رحمہ اللہ ، اوراس کا عربی ترجمہ حرکۃ الانطلاق الفکری ص ١٩٥]۔

تو یہ کوثر کی زبان ہے۔

محترم اس تحریر میں یہی بتایاگیا ہے کہ ابن تیمہ رحمہ اللہ سے متعلق احناف کو جو بھی بے سروپاباتیں ملیں بیان کردیں۔
اورہم ابوحنفیہ سے متعلق کچھ نقل کردیں، تو شدت پسندی ہے۔

احناف کو جانیں دیں خود ابوحنیفہ کر دیکھ لیں یہ صاحب انبیاء ، صحابہ ، خلفاء سے متعق جس اسلوب میں چاہیں بات کریں ، یہ ساری باتیں کتابوں میں محفوظ ہیں ، یہ چیزیں احناف کو نظر نہیں آتیں؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
ابن تیمیہ رحمیہ اللہ سے متعلق بے سروپاباتیں ملتی ہیں تو بلاتحقیق آمنا صدقنا کہا جاتا ہے ، اس سے بھی زیادہ خطرناک باتیں اوروہ بھی مضبوط ذرائع سے متعلق ابوحنیفہ کے بارے میں ملتی ہیں ، وہ نظر کیوں نہیں آتیں؟؟؟؟؟؟؟؟

اولاتویہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ محض کسی کی تردید کردینے سے کسی شخصیت پر کوئی عیب نہیں لگتا ۔ حضرات صحابہ کرام کے تعلق سے خوارج کا کیاموقف تھا وہ ہرایک کومعلوم ہے لیکن اس سے حضرات صحابہ کرام کی شخصیت پر کوئی دھبہ اورعیب نہیں لگتا۔
ساتھ میں یہ بات بھی یادر رکھ لیں کہ کسی کی تعریف کردینے سے کوئی ولی اللہ نہیں بن جاتا ، کتنے زندیق اور بے ہودہ قسم کے لوگ ہیں جنہیں اولیاء اللہ کا مقام دے دیا گیا ہے لیکن کیا فی الحقیقت یہ اولیاء اللہ ہیں؟؟؟؟؟

ہماری یہ تحریں جمشید صاحب کے رد میں میں ہیں اور جمشید صاحب زاہد کوثری جیسے کذاب و دجال کو شیخ الاسلام ، علامہ محقق اورنہ جانے کن کن القابات سے نوازتےہیں ، یاد رکھیں ایسا کرنے یہ کذاب و دجال مجدد دین نہیں بن جائے گا۔

شیخ صلاح الدین مقبول کی کتاب کاہمیں توکوئی بھی اثر عالم عرب میں نظرنہیں آیا ۔ حضرت مولانا علی میاں کی کی وفات پر اور اس سے قبل عرب کے اہل علم وقلم حضرات اورحرمین شریفین کے علماء نے جن قابل قدر الفاظ میں ان کی مدح سرائی کی ہے اس سے تویہی ظاہر ہوتاہے ۔ ہاں سلفی حضرات اس کتاب کو لکھ کر اورایک دوسرے کو دکھاکر خوش ہورہے ہوں تو دوسری بات ہے۔ اوراسی کی مصداق کفایت اللہ صاحب کی ذکرکردہ فورم پر تحریریں بھی ہیں۔

ویسے تعجب کی بات یہ ہے کہ مولانا علی میاں کی شخصیت کے وزن اورعلمی شہرت کو دیکھ کر کچھ اہل حدیث حضرات توان کو اہل حدیث میں شمار کرتے ہیں اورکچھ لوگوں کاحال یہ ہے کہ الوجہ الآخر کوڈھونڈتے ہیں۔

اگر بات کی جائے تصوف کی تو اہل حدیث حضرات کے اکابرین بھی تصوف کے قائل رہے ہیں۔ میاں نذیرحسین صاحب ابن عربی کو الشیخ الاکبر کہتے تھے۔ نواب صدیق حسن خان بھی تصوف کے قائل تھے اورانہوں نے بذات خود اپنے بیٹے نورالحسن کو حضرت مولانا فضل رحمن گنج مراد آبادی کے پاس بیعت ہونے کیلئے بھیجاتھا۔ خود حضرت شاہ ولی اللہ جن کی جانب غیرمقلدین بڑے فخر کے ساتھ انتساب کرتے ہیں اوران کوبھی زبردستی اہل حدیث میں شامل کرتے ہیں ان کی کتابیں تصوف سے بھری پڑی ہیں۔

تو شیخ صلاح الدین مقبول اس کو اہل عرب کے سامنے کیوں نہیں پیش کرتے اوراس الوجہ الآخر کو چھپانے کی کیاوجہ ہے۔ یاپھر کہیں ایساتونہیں کہ شیخ صلاح الدین حفظہ اللہ کاخود ہی الوجہ لآخر ہے اور وہ ڈبل اسٹینڈرڈ اوردوچہروں کے مالک ہیں۔
آپ کیا چاہتے ہیں کی علی میاں ندوی کا دوسرا چہرا بھی لوگوں کے سامنے رکھ دیا جائے ۔
جمشید صاحب سے بھی ہم نے یہی کہا تھا کہ بے سروپا باتوں کو لیکر ابن تیمیہ رحمہ اللہ کو مطعون کرنا چھوڑ دیں ورنہ ہم ابوحنیفہ سے متعلق محدثین کی گواہیاں بیان کرنا شروع کردیں گے تو بات مہنگی پڑ جائے گی ، لیکن موصوف نہیں مانے ، اب آپ آئیں علی میاں ندوی کاتعارف کروانے۔
آپ کو بھی یہی مشورہ ہے کہ ہمیں علی میاں ندوی کے بارے میں لکھنے پر مجبور نہ کریں۔

یہ حقیقت ہے کہ آج ابوحنیفہ کے خلاف جب اہل حدیث کی طرف سے کچھ لکھاجاتاہے تو اس کی وجہ خود احناف ہی ہوتے ہیں ۔

آنجناب نے امام ابوحنیفہ کے تعلق سے جوالفاظ استعمال کئے ہیں وہ نہایت بھونڈے اوراہل علم کی متفقہ صراحت کے خلاف ہیں۔
اچھا !!!
بھائی ہم نے ابوحنفیہ کو کیا کہہ دیا ؟؟؟؟ کیا اپنی طرف سے کچھ کہا ہے ؟؟؟؟
ارے بھائی ابھی کہنے کے لئے بہت باقی ہے !!!
احناف نے ابن تیمیہ کے خلاف ابن حجر رحمہ اللہ کی کتاب الدر اور لسان کے حوالے نقل کئے ہیں ہم درجنوں کتب کے حوالے نقل کرسکتے ہیں۔
یہ مت بھولئے گا کہ احناف نے ابن تیمیہ رحمہ اللہ کو متشدد بتلانے کے لئے آنکھ بند کرکے جو جہاں سے ملا نقل کردیا ، اگرہم بھی آنکھ بند کرکے ابوحنیفہ سے متعلق نقل کرنا شروع کردیں تو کیا ہوگا؟؟؟؟؟؟؟
ابھی غنیمت ہے کہ ہم نے ابوحنیفہ سے متعلق صرف چند ثابت شدہ روایات ہی پیش کی ہیں۔

اوراہل علم کی متفقہ صراحت کے خلاف ہیں۔
متفقہ صراحت پر مجھے اپنا ایک مطالبہ یاد آگیا جو تقریبا ایک سال سے تمام احناف سے کررہاہوں ، ممکن ہے آپ اس مطالبہ کو پورا کردیں۔
مطالبہ یہ ہے کہ :
کیا دنیا کے کسی ایک بھی ثقہ ناقد نے ابوحنیفہ کی صریح لفظوں میں توثیق کی ہے ؟؟
اگرہاں تو صرف ایک ثقہ ناقد امام کی اس کی کتاب سے یا بسند صحیح کوئی ایسی عبارت پیش کریں جس میں ابوحنیفہ کو صراحتا ثقہ کہا گیا ہو۔

صرف اورصرف ایک حوالہ !!!!!!!!!!


اورخود جن کی تائید اورحمایت میں آپ اپناوقت صرف کررہے ہیں یعنی حضرت شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے بھی بیان اورارشادات کے خلاف ہے۔ حضرت ابن تیمیہ نے متعدد مواقع پر امام ابوحنیفہ کوائمہ اسلام ومسلمین میں شمار کیاہے ۔ کبھی موقع ملے تو جہاں اتناوقت حضرت ابن تیمیہ کی حمایت میں صرف کیاہے امام ابوحنیفہ کے تعلق سے ان کا کیاموقف تھا وہ بھی پڑھ لیں۔
ہم نے یہ تو نہیں کہا کہ ہم ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے مقلد ہیں !!!
بلکہ اس تھریڈ کا پہلا مراسلہ ہی پڑھ لیں ہم نے ابن تیمیہ رحمہ اللہ ہی سے نقل کیا ہے کہ تقلید شخصی کا قائل واجب القتل ہے۔
ابن تیمیہ رحمہ اللہ کیا آج کی اکثریت نے ابوحنیفہ کے اصل حالات کامطالعہ نہیں کیا ہے ، خود ناچیز بھی ابوحنیفہ سے متعلق غلط فہمی کا شکار تھا لیکن احناف کی شرارتیں ذریعہ بنیں کہ ابو حنیفہ کے بارے میں کچھ پڑھوں ، اور پھر اب موصوف کی اصلی شخصیت سے آگاہی ہوئی۔


ویسے اگرصرف ہم اتناکریں کہ اس تحریر کا عربی ترجمہ کرکے ملتقی اہل الحدیث اوردیگر سلفی فورم پر شیئر کردیں تو شاید ہزار میں ایک دو سلفی آپ کی تائید کریں ورنہ سبھی اس تحریر سے برات کااظہار کریں گے۔
اگرکفایت اللہ صاحب چاہیں توہم اس تحریر کا عربی ترجمہ کرکے سلفی ویب سائٹس پر ڈال دیں اوران کی آراءطلب کریں۔
آپ کو مکمل اجازت ہے آپ اس موضوع کا ترجمہ کرکے کہیں بھی ڈال سکتے ہیں مگر شرط یہ ہے کہ از اول تا اخیر میرے اور جمشید صاحب کے تمام مراسلات کا ترجمہ کیا جائے اور بالترتیب ۔
نیز فارمیٹنگ بھی وہی رہے جو یہاں ہے ۔
ملتقی ، مجلس ، مجالس الطریق وغیرہ پر فارمیٹنگ کی ساری سہولیات میسر ہیں ، صرف HL ٹیگ تمام فورمز پر نہیں ہے آپ اس کی جگہ اسے ملون کردیں۔

اگران شرائط کے ساتھ آپ اسے عربی فورمز پڑ ڈالنا چاہئیں تو ضرور ڈال دیں۔ مجھے بے حد خوشی ہوگی فی الحال میرے اخراجات بہت ہیں ورنہ میں آپ کو ترجمہ کا معاوضہ بھی دے دیتا۔

اوراگر آپ یہ چاہتے ہیں کہ اس مضمون سے صرف میری ہی کچھ باتیں سیاق و سباق سے کاٹ کر پیش کریں تو اس کی اجازت قطعا نہیں ہے۔
زاہد کوثری کذاب نے تانیب نامی رسالہ لکھا جس کے جواب میں متعدد رسالے لکھے گئے ، اگر کوئی جوابی رسالے کو مکمل پڑھے گا تو اسے کوئی شکایات نہیں ہوگی ۔ لیکن اگران جوابی رسالوں میں سے سیاق وسباق سے کاٹ کر چند اقتباسات پیش کئے جائیں تو ہر چہار جانب سے اس کی مذمت ہوگی۔

یہ بات یاد رکھیں، اورمذکورہ شرائط کے مطابق پوری تحریر پیش کریں ہم بھی دیکھتے ہیں کہ علامہ ابن تیمہ، علامہ ابن قیم ، علامہ شوکانی وغیرہم، کو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کہنے والوں کی کتنی آو بھگت ہوتی ہے ، زہد کوثری جیسے کذاب و دجال کو شیخ الاسلام ، علامہ ، محقق کہنے والوں کی کتنی قدر ہوتی ہے۔
 

ندوی

رکن
شمولیت
نومبر 20، 2011
پیغامات
152
ری ایکشن اسکور
328
پوائنٹ
57
محترم کفایت اللہ صاحب!
یعنی جو بھی احناف کے خلاف کچھ بولے وہ شدت پسندہے۔
کچھ بولنے اورآپ کے مذکورہ فرمان گمراہ اورگمراہ کن میں بہت فرق ہے ۔ علماء ہمیشہ سے ایک دوسرے پر رد کرتے آئے ہیں لیکن رد جب اس سطح پر پہنچ جائے کہ ابوحنیفہ کی جگہ ابوجیفہ اورضال ومضل کے فرمان صادر کئے جانے لگیں تواس کو علمی رد نہیں بلکہ دشمنی نکالنے سے تعبیر کیاجائے گا۔ خواہ جذبہ اورنیت کچھ بھی ہو اورقائل کوئی بھی ہو۔ کیونکہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا واضح فرمان ہے کہ مومن لعان طعن کرنے والانہیں ہوتا۔

اوراحناف یہ بے ہودگی کریں:
’’خلفاء هذه الملة أربعة: ابن تيمية، وابن قيم، والشوکاني، فيقولون ثلاثة رابعهم کلبهم، وإذا انضم إليهم ابن حزم، وداؤد الظاهري بأن صاروا ستة، و يقولون خمسة سادسهم کلبهم رجما بالغيب، وخاتم المکلبين مثله کمثل الکلب إن تحمل عليه يلهث، و إن تترکه يلهث، يشنع علي أهل الحق في التنزيه ‘‘
[حاشیہ نظم الفوائد: ص ١٠٢ ، نیز ملاحظہ ہو تحریک آزادی فکر اور حضرت شاہ ولی اللہ کی تجدیدی مساعی: ص ١٧٤ از شیخ محمداسماعیل سلفی رحمہ اللہ ، اوراس کا عربی ترجمہ حرکۃ الانطلاق الفکری ص ١٩٥]۔
تو یہ کوثر کی زبان ہے۔
محترم بے ہودگی بے ہودگی ہی ہوتی ہے۔ اس کو من اورشمامیں تقسیم کرناہی غلط ہے۔ اگر محمد حسن سنبھلی نے ایک غلط بات کہی تو کیااس کے مخالفین کیلئے وہی بات کہنی جائز ہوجائے گی۔ پھراگرایک غلط بات سنبھلی نے کہی ہے تواس میں امام ابوحنیفہ کا کیاقصور ہے ؟ آپ کی تردید اگر سنبھلی تک محدود رہتی تو نہایت صحیح بات تھی لیکن آپ بلاوجہ امام ابوحنیفہ کو درمیان میں لے آئے۔
میرے نزدیک توسنبھلی اورکفایت اللہ صاحبان دونوں کی باتیں ٍغلط اور بے بنیاد اورکفایت اللہ صاحب کے الفاظ استعمال کئے جائیں تو بے ہودگی کے زمرے میں آتی ہیں۔

مولانا علی میاں رحمہ اللہ کا جہاں تک تعلق ہے توان کیلئے ہمیں کسی شیخ صلاح الدین اورکسی سلفی عالم کی تائید کی ضرورت نہیں ہے۔ اللہ نے ان کو جومقام دیاہے وہ کسی تزکیہ اورشہادت کا محتاج نہیں ہے۔ ویسے میں نے ماسبق میں جوکچھ لکھاتھا۔ اس کا کفایت اللہ صاحب نے کوئی جواب نہیں دیا کہ الوجہ الآخر کے مصنف نے اپنی جماعت کے الوجہ الآخر پر قلم کیوں نہیں اٹھایا۔

آپ کیا چاہتے ہیں کی علی میاں ندوی کا دوسرا چہرا بھی لوگوں کے سامنے رکھ دیا جائے ۔جمشید صاحب سے بھی ہم نے یہی کہا تھا کہ بے سروپا باتوں کو لیکر ابن تیمیہ رحمہ اللہ کو مطعون کرنا چھوڑ دیں ورنہ ہم ابوحنیفہ سے متعلق محدثین کی گواہیاں بیان کرنا شروع کردیں گے تو بات مہنگی پڑ جائے گی ، لیکن موصوف نہیں مانے ، اب آپ آئیں علی میاں ندوی کاتعارف کروانے۔آپ کو بھی یہی مشورہ ہے کہ ہمیں علی میاں ندوی کے بارے میں لکھنے پر مجبور نہ کریں۔
آپ کی بات پڑھ کر جاہلی شاعر عمرو بن کلثوم کا شعر یاد آگیا
الالایجھلن احد علینا
فنجھل فوق جھل الجاھلینا​

میں امام ابوحنیفہ کے تعلق سے زیادہ بحث نہیں کرناچاہتا۔ اصولی طورپر بالفرض یہ ثابت ہوجائے کہ امام ابوحنیفہ روایت حدیث کے بیان کرنے میں ضعیف ہیں توبھی اس سے امام ابوحنیفہ کے عالی مقام فقیہہ ہونے پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ اورنہ ہی اس سے ان کی مجہتدانہ کاوشیں خاک میں مل جائیں گی۔ لیکن آنجناب نے ضال ومضل کی جوبات کی ہے اس کی کوئی بھی شخص بشرط ہوش وحواس تائید نہیں کرے گاکہ امت کا دوتہائی حصہ ہزار سے زائد صدیوں سے ایک گمراہ شخص کی پیروی اوراقتداء کررہاہے اس سے بری اوربیکار بات کیاہوسکتی ہے۔ ویسے امام ابوحنیفہ کے تعلق سے علامہ ابن باز ،ابن عثیمین اوردیگر سعودی علماء کا کیاموقف ہے؟آنجناب کوتومعلوم ہی ہوگا۔

اگران شرائط کے ساتھ آپ اسے عربی فورمز پڑ ڈالنا چاہئیں تو ضرور ڈال دیں۔ مجھے بے حد خوشی ہوگی فی الحال میرے اخراجات بہت ہیں ورنہ میں آپ کو ترجمہ کا معاوضہ بھی دے دیتا۔
یعنی آمدنی کم ہے؟(الابتسامہ)
ویسے میراخیال ہے کہ آنجناب کے اسم گرامی کے ساتھ امام ابوحنیفہ کے تعلق سے آپ کا فرمان فورم پر نقل کردوں بقیہ ترجمانی اپنی آپ خود ہی وہاں کرلیں ۔کیایہ بہترنہیں ہوگا؟۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,806
پوائنٹ
773
کچھ بولنے اورآپ کے مذکورہ فرمان گمراہ اورگمراہ کن میں بہت فرق ہے ۔
رد جب اس سطح پر پہنچ جائے کہ ابوحنیفہ کی جگہ ابوجیفہ اورضال ومضل کے فرمان صادر کئے جانے لگیں تواس کو علمی رد نہیں بلکہ دشمنی نکالنے سے تعبیر کیاجائے گا۔
یہ ضال اور مضل (گمراہ اور گمراہ گر) کہنے والے کوئی اور نہیں بلکہ امام ابوحنیفہ کے دورکے ایک زبردست امام سفیان ثوری رحمہ اللہ ہیں ، ملاحظہ ہو:
امام ابونعیم رحمہ اللہ (المتوفى: 369) نے کہا:
حَدَّثَنَا سَلْمُ بْنُ عِصَامٍ , قَالَ: ثنا رُسْتَهْ , عَنْ مُوسَى بْنِ الْمُسَاوِرِ , قَالَ: سَمِعْتُ جَبْرًا , يَقُولُ: سَمِعْتُ سُفْيَانَ , يَقُولُ: «أَبُو حَنِيفَةَ ضَالٌّ مُضِلٌّ» [طبقات المحدث:2/ 110واسنادہ حسن]۔
امام سفیان ثوری رحمہ اللہ(المتوفى:161) فرماتے ہیں کہ ابوحنیفہ گمراہ اور گمراہ گر تھے۔
اب آپ سوچ لیں کہ امام سفیان ثوری رحمہ اللہ کون تھے۔


کیونکہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا واضح فرمان ہے کہ مومن لعان طعن کرنے والانہیں ہوتا۔
اچھا !!
مؤمن لعان طعن کرنے ولا نہیں ہوتا !!
تو کیا انبیاء بلکہ امام الانبیاء علیہم السلام لعن طعن کرسکتے ہیں؟؟؟؟؟؟؟؟؟
اگر نہیں تو :
ابوحنیفہ سراج ملت اور امام شافعی رحمہ اللہ ابلیس سے بھی بد تر اسے فرمان رسول کس نے تسلیم کیا ہے ؟؟؟؟
زاہد کوثری اس من گھڑت حدیث کو حسن کہتا ہے اور جمشید صاحب زاہد کوثری کو شیخ الاسلام کہتے ہیں اس بارے میں آپ کیا کہیں گے۔

عجیب تضاد ہے ۔
ابوحنیفہ پر لعن طعن ایمان کے خلاف بات ہے اور امام شافعی رحمہ اللہ پر لعن طعن نہ صرف عام مؤمن بلکہ امام الانبیاء علیہ السلام کے بھی شایان شان ہے ۔
لاحول و لاقوۃ الا باللہ۔

یاد رہے ناقدین کی جرح کو لعن طعن سے تعبیرکرنا کسی بھی صورت میں درست نہیں ہے۔

محترم بے ہودگی بے ہودگی ہی ہوتی ہے۔ اس کو من اورشمامیں تقسیم کرناہی غلط ہے۔ اگر محمد حسن سنبھلی نے ایک غلط بات کہی تو کیااس کے مخالفین کیلئے وہی بات کہنی جائز ہوجائے گی۔ پھراگرایک غلط بات سنبھلی نے کہی ہے تواس میں امام ابوحنیفہ کا کیاقصور ہے ؟ آپ کی تردید اگر سنبھلی تک محدود رہتی تو نہایت صحیح بات تھی لیکن آپ بلاوجہ امام ابوحنیفہ کو درمیان میں لے آئے۔
سنبھلی وغیرہ کے حوالے جمشید صاحب کے مطالبہ پر دئے گئے ہیں ، اور امام ابوحنیفہ کو بیچ میں کیوں لایا گیا اس کی وضاحت بھی متعدد بار کرچکا ہوں ، ایک مقام کے الفاظ پھر سے ذکر کردیتاہوں۔
میں نے امام ابوحنیفہ کا تذکرہ کیوں کیا؟؟؟؟؟


قارئیں میں بہت ہی اہم بات کہنے جارہا ہوں پوری توجہ دیں ، جمشیدصاحب کو ابن تیمہ رحمہ اللہ کے حالات میں صرف یہ ملاکہ دوران بحث ان کے مزاج میں حدت آجاتی تھی ۔

قارئین غورکریں کہ محض حدت کی بات ہے اوروہ بھی بہت ہی محدود یعنی ’’دوران بحث‘‘ مطلب عام حالات میں نہیں۔

جمشیدصاحب کو صرف اتنی سی بات ملی اوراس کا حوالہ کہاں دے رہے ہیں؟؟؟؟؟؟؟ شیخ الاسلام کے ایک سنجیدہ فتوی پیش کئے جانےپر جس کا صدور کسی بھی بحث کے دوران قطعا نہیں ہوا۔

جمشیدصاحب کے اس حوالہ کا مقصود بالکل واضح ہے کہ وہ یہ حوالہ دے کرشیخ الاسلام کے فتوی کو بے وقت ثابت کرناچاہتے ہیں۔

اب قارئین انصاف کریں !!!!!
کہ ابن تیمہ کے حالات میں صرف ایک بات اوروہ بھی بہت ہی محدود ملی ، اس کے باوجود بھی جمشید صاحب ابن تیمہ کا فتوی سامنے آنے پر اس کاحوالہ دینا ضروی سمجھتے ہیں ۔

توبتلائیے کہ ابوحنیفہ کے حالات میں ابوحنیفہ سے متعلق تو اس سے کئی گنا بڑی بات اوروہ بھی سیکڑوں اوراس سے بھی زائدحوالوں کے ساتھ ملتی ہیں تو ابوحنیفہ کا کوئی فتوی آنے پر ہمیں کیا کرنا چاہئے؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟

کیا ہمیں ابوحنیفہ پر کی گئی جروح کا حوالہ نہیں دیناچاہے؟

نیزغورکریں کہ جب جمشید صاحب جیسے لوگ ابن تیمیہ کے خلاف ایک معمولی بات پاگئے اوراسی کو لیکراتنا ہنگامہ کررہے ہیں ، دریں صورت اگر ان کے پاس ابن تیمہ کے خلاف اس طرح کے حوالہ جات ہوتے جو ابوحنیفہ کے خلاف ہمارے پاس ہیں تو یہ کیا کرتے ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟

میرے نزدیک توسنبھلی اورکفایت اللہ صاحبان دونوں کی باتیں ٍغلط اور بے بنیاد
سنبھلی اورکفایت اللہ کی باتوں میں ایک بنیادی فرق آپ بھول رہے ہیں ، سنبھلی صاحب نے جو کچھ کہا ہے اس سلسلے میں ان کا کوئی سلف نہیں ہے اور ناچیز کفایت اللہ امام ابوحنیفہ سے متعلق ایسی کوئی بات نہیں کہ سکتا جو جلیل القدر محدثین سے ثابت نہ ہو۔

اورکفایت اللہ صاحب کے الفاظ استعمال کئے جائیں تو بے ہودگی کے زمرے میں آتی ہیں۔
کسی کے خلاف بدزبانی کی جائے تو یہ بے ہودگی ہے لیکن کسی گمراہ کو گمراہ کہا جائے تو میں نہیں سمجھتا کہ اس میں کوئی بے ہودگی ہے۔
اوراگر یہ بے ہودگی ہے تو امام سفیان ثوری رحمہ اللہ سے متعلق آپ کیا فرمائیں گے یہ بات انہوں نے ہی کہی ہے۔

لیکن آنجناب نے ضال ومضل کی جوبات کی ہے اس کی کوئی بھی شخص بشرط ہوش وحواس تائید نہیں کرے گا
ٍضال و مضل کی بات امام سفیان ثوری رحمہ اللہ کی ہے جو امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے معاصر اور زبردست ثقہ امام ہیں ، آپ پہلے اس بات کو امام سفیان ثوری رحمہ اللہ کی طرف منسوب کریں پھر میری طرف۔

امت کا دوتہائی حصہ ہزار سے زائد صدیوں سے ایک گمراہ شخص کی پیروی اوراقتداء کررہاہے اس سے بری اوربیکار بات کیاہوسکتی ہے۔
یقینا یہ بہت بری اور بے کار بات ہے ، اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ کر ایک یتیم امام کی پیروی اور اقتداء کرنا بری بات نہیں تو اور کیا ہے ، اسی بری بات سے تو ہم لوگوں کو باز رکھتنے کی کوشش کررہے ہیں ، والحمدللہ۔

ویسے امام ابوحنیفہ کے تعلق سے علامہ ابن باز ،ابن عثیمین اوردیگر سعودی علماء کا کیاموقف ہے؟آنجناب کوتومعلوم ہی ہوگا۔
یہ علماء ، ناقدین کی فہرست میں نہیں آتے ، اورنہ ہی ناقدین کی فہرست میں آپ اور ہم آتے ہیں ، لہٰذا امام ابوحنیفہ سے متعلق انہیں علماء کی بات قابل قبول ہوسکتی ہے جو ناقدین میں شمار ہوتے ہیں۔

یعنی آمدنی کم ہے؟(الابتسامہ)
جی درست فرمایا آپ نے ، بارک اللہ فیک۔

ویسے میراخیال ہے کہ آنجناب کے اسم گرامی کے ساتھ امام ابوحنیفہ کے تعلق سے آپ کا فرمان فورم پر نقل کردوں
آپ کا یہ خیال مناسب نہیں ہے آپ کو نقل کرنا ہے تو پورا موضوع نقل کریں اور اگر صرف مذکورہ بات نقل کرنی ہے تو یہ بات میری نہیں بلکہ امام سفیان ثوری رحمہ اللہ کی ہے اسے نقل کریں ، بارک اللہ فیک۔

ایک بار پھر امام سفیان ثوری رحمہ اللہ کی بات یہاں ذکر کردیتاہوں۔

امام ابونعیم رحمہ اللہ (المتوفى: 369) نے کہا:
حَدَّثَنَا سَلْمُ بْنُ عِصَامٍ , قَالَ: ثنا رُسْتَهْ , عَنْ مُوسَى بْنِ الْمُسَاوِرِ , قَالَ: سَمِعْتُ جَبْرًا , يَقُولُ: سَمِعْتُ سُفْيَانَ , يَقُولُ: «أَبُو حَنِيفَةَ ضَالٌّ مُضِلٌّ» [طبقات المحدث:2/ 110واسنادہ حسن]۔
امام سفیان ثوری رحمہ اللہ(المتوفى:161) فرماتے ہیں کہ ابوحنیفہ گمراہ اور گمراہ گر تھے۔

اورہاں امام سفیان ثوری رحمہ اللہ کی اس بات کی تائید موجود دور کے لوگ کریں یا نہ کریں اس سے کوئی فرق پڑنے ولا نہیں ہے کیونکہ اس بات کی تائید تو جلیل القدر ائمہ و محدثین نے بہت پہلے ہی کردی ہے ، ملاحظہ ہو:

خطيب بغدادي رحمه الله (المتوفى:463)نے کہا:
حَدَّثَنَا مُحَمَّد بن علي بن مخلد الوراق لفظا، قال: في كتابي عن أبي بكر مُحَمَّد بن عبد الله بن صالح الأبهري الفقيه المالكي، قال: سمعت أبا بكر بن أبي داود السجستاني، يوما وهو يقول لأصحابه: ما تقولون في مسألة اتفق عليها مالك وأصحابه، والشافعي وأصحابه، والأوزاعي وأصحابه، والحسن بن صالح وأصحابه، وسفيان الثوري وأصحابه، وأحمد بن حنبل وأصحابه؟ فقالوا له: يا أبا بكر، لا تكون مسألة أصح من هذه، فقال: هؤلاء كلهم اتفقوا على تضليل أبي حنيفة. [تاريخ بغداد ت بشار 15/ 527 واسنادہ حسن]۔
ابو بکر بن أبي داود السجستاني رحمہ اللہ نے ايک دن اپنے شاگردوں سے کہا کہ تمہارا اس مسئلہ کے بارہ ميں کيا خيال ہے جس پر مالک اور ان کے اصحاب شافعي اوران کے اصحاب اوزاعي اور ا ن کے اصحاب حسن بن صالح اور ان کے اصحاب سفيان ثوري اور ان کے اصحاب احمد بن حنبل اور ان کے اصحاب سب متفق ہوں ؟؟تو وہ کہنے لگے اس سے زيادہ صحيح مسئلہ اور کوئي نہيں ہو سکتا ،تو انہوں نے فرمايا: يہ سب ابو حنيفہ کو گمراہ قرار دينے پر متفق تھے -

نیز یہ روایت بھی ملاحظہ ہو:
امام ابن عدي رحمه الله (المتوفى:365) نے کہا:
سمعتُ ابْن أبي دَاوُد يَقُول الوقيعة فِي أبي حنيفة اجماع من العلماء لأَن إمام البصرة أيوب السختياني وقد تكلم فيه وإمام الكوفة الثَّوْريّ وقد تكلم فيه وإمام الحجاز مَالِك وقد تكلم فيه وإمام مصر اللَّيْث بْن سعد وقد تكلم فيه وإمام الشام الأَوْزاعِيّ وقد تكلم فيه وإمام خراسان عَبد اللَّه بْن المُبَارك وقد تكلم فيه فالوقيعة فيه إجماع من العلماء فِي جميع الأفاق أو كما قَالَ.[الكامل في ضعفاء الرجال 8/ 241]۔
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,013
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
سبحان اللہ! کفایت اللہ بھائی کی پوسٹ پڑھ کر بے اختیار دل سے دعا نکل رہی ہے۔ اللہ آپ کو باطل کے لاجواب بطلان پر بہترین جزا عطا فرمائے۔آمین
 

ابن قاسم

مشہور رکن
شمولیت
اگست 07، 2011
پیغامات
253
ری ایکشن اسکور
1,081
پوائنٹ
120
بہت قیمتی علمی سرمایہ مطالعہ کرنے کو ملا
جزاکم اللہ خیرا یا شیخ الکریم۔
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
بسم اللہ الرحمن الرحیم​
اس موضوع کے جواب میں کافی تاخیر ہوگئی لیکن اس کی مناسب وجوہات بھی ہیں
ہوئی تاخیر توکچھ باعث تاخیر بھی تھا
ایک توریاست کرناٹک کے غیرمستحکم سیاسی حالات، دن رات کی بھاگ دوڑ، اورکچھ دیگر ذاتی عوارض نے اس سے روکے رکھا۔ سب سے زیادہ مشکل یہ ہوتی ہے کہ اگردینی خدمت سے انسان جڑارہے یعنی کسی مدرسہ یااسلامک انسٹی ٹیوٹ وغیرہ سے تواس کیلئے یہ کام اآسان ہوجاتاہے لیکن دومختلف مشاغل کو ایک وقت میں نبھانا بہت مشکل ہے۔ ابوالکلام آزاد کی زبان میں کہیں تویہ پنبہ وآتش کی یکجائی ہے ۔
بہرحال دیرآید درست آید ہوسکتاہے کہ اس میں اللہ کی کوئی مصلحت ہو۔


آپ جیسے لوگوں (جوڈنکے کی چوٹ پراپنی جہالت کا اقرار کرتے ہیں اوراسے تقلیدکاسبب قراردیتے ہیں ان) میں یہ شعور کہاں سے آگیا کہ وہ امام مالک ، امام شافعی ، امام احمدبن حنبل ، شیخ الاسلام ابن تیمہ رحمہم اللہ اوردیگر اہل حدیث ائمہ مجتہدین کے خلاف عقل و شعور کا دعوی کرتے پھرے۔
میری پوری تحریر سامنے ہے دکھایاجائے کہ ناچیز نے کہاں ائمہ ثلاثہ امام مالک ،امام شافعی اورامام احمد بن حنبل پر نقد کیاہے یاکوئی ایسی بات جو ان کی شان کے خلاف ہو ۔جب کہ اس کے بالمقابل ایسی پچاسوں تحریریں صرف کتاب وسنت فورم پر دکھائی جاسکتی ہیں جس کو غیرجانبدار اہل علم ائمہ احناف کے استخفاف اورتوہین سے تعبیر کریں گے۔
دوسروں کاذکر جانے دیجئے خود آنجناب نے بڑے طمطراق اورطنطنے سے لکھاتھاکہ
اس دور کی سب سے بڑی خدمت یہ ہے کہ آمام ابوحنیفہ کی گمراہ کن شخصیت سے لوگوں کو واقف کرایاجائے۔
اوربیسیوں مراسلات کفایت اللہ صاحب کے اس تھریڈ شروع کرنے سے قبل کے بھی موجود ہیں موجود ہیں جس میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی واضح تنقیص ہے لیکن اس کے باوجود دعوی پارسائی اپنی اوراپنی جماعت کی جانب سے یہ ہے کہ
قارئیں میں بہت ہی اہم بات کہنے جارہا ہوں پوری توجہ دیں ، جمشیدصاحب کو ابن تیمہ رحمہ اللہ کے حالات میں صرف یہ ملاکہ دوران بحث ان کے مزاج میں حدت آجاتی تھی ۔

قارئین غورکریں کہ محض حدت کی بات ہے اوروہ بھی بہت ہی محدود یعنی ’’دوران بحث‘‘ مطلب عام حالات میں نہیں۔

جمشیدصاحب کو صرف اتنی سی بات ملی اوراس کا حوالہ کہاں دے رہے ہیں؟؟؟؟؟؟؟ شیخ الاسلام کے ایک سنجیدہ فتوی پیش کئے جانےپر جس کا صدور کسی بھی بحث کے دوران قطعا نہیں ہوا۔

جمشیدصاحب کے اس حوالہ کا مقصود بالکل واضح ہے کہ وہ یہ حوالہ دے کرشیخ الاسلام کے فتوی کو بے وقت ثابت کرناچاہتے ہیں۔

اب قارئین انصاف کریں !!!!!
کہ ابن تیمہ کے حالات میں صرف ایک بات اوروہ بھی بہت ہی محدود ملی ، اس کے باوجود بھی جمشید صاحب ابن تیمہ کا فتوی سامنے آنے پر اس کاحوالہ دینا ضروی سمجھتے ہیں ۔

توبتلائیے کہ ابوحنیفہ کے حالات میں ابوحنیفہ سے متعلق تو اس سے کئی گنا بڑی بات اوروہ بھی سیکڑوں اوراس سے بھی زائدحوالوں کے ساتھ ملتی ہیں تو ابوحنیفہ کا کوئی فتوی آنے پر ہمیں کیا کرنا چاہئے؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟

کیا ہمیں ابوحنیفہ پر کی گئی جروح کا حوالہ نہیں دیناچاہے؟

نیزغورکریں کہ جب جمشید صاحب جیسے لوگ ابن تیمیہ کے خلاف ایک معمولی بات پاگئے اوراسی کو لیکراتنا ہنگامہ کررہے ہیں ، دریں صورت اگر ان کے پاس ابن تیمہ کے خلاف اس طرح کے حوالہ جات ہوتے جو ابوحنیفہ کے خلاف ہمارے پاس ہیں تو یہ کیا کرتے ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
اس دعوی پارسائی کی وہ غالب کے اس اعتذار سے زیادہ نہیں ہے جو اس نے سہرہ لکھتے وقت استادہ شاہ ذوق پر طنز کیاکہ
دیکھئے اس سہرے سے بڑھ کر کوئی کہہ دے سہرا
اورجب استاد ذوق نے واقعتاغالب سے بہتر سہرہ لکھ کر پیش کردیاتو ناچار غالب کو بھی معذرت لکھنی پڑی اوراس میں بھی ڈھٹائی کا یہ عالم تھاکہ
روئے سخن کسی کی طرف ہوتوروسیاہ
اوریہ کہ
مقطع میں آگئی ہے سخن گسترانہ بات
منظور اس سے قطع محبت نہیں مجھے
اوریہ کہ
استاد شہہ سے ہو مجھے پرخاش کاخیال
یہ بات یہ مجال یہ طاقت نہیں مجھے
کچھ غالب کے ہی اعتذار کی کیفیت اس اقتباس میں موجود ہے۔

اس تھریڈ کی یہ بات قابل غور ہے

قارئین غورکریں کہ محض حدت کی بات ہے اوروہ بھی بہت ہی محدود یعنی ’’دوران بحث‘‘ مطلب عام حالات میں نہیں۔
جمشیدصاحب کو صرف اتنی سی بات ملی اوراس کا حوالہ کہاں دے رہے ہیں؟؟؟؟؟؟؟ شیخ الاسلام کے ایک سنجیدہ فتوی پیش کئے جانےپر جس کا صدور کسی بھی بحث کے دوران قطعا نہیں ہوا۔
ایک اورتھریڈ میں کفایت اللہ صاحب کہتے ہیں۔

یہ سطور لکھتے وقت بھی آپ آئینہ کے سامنے تھے ، ابن تیمیہ والے تھریڈ میں جاکر کوئی بھی دیکھ سکتا ہے کہ جمشیدصاحب کوابن تیمیہ کے خلاف جو بھی کچا پکا ملا سب ہضم ہوگیا۔
اگرہم کفایت اللہ صاحب کی طرح کچاپکا ہضم کرنے کے عادی ہوتے توابن تیمیہ کے ضمن میں ابن حجر مکی کی یہ بات نقل کرتے

ابْن تَيْمِية عبد خذله الله وأضلَّه وأعماه وأصمه وأذلَّه، وَبِذَلِك صرح الْأَئِمَّة الَّذين بينوا فَسَاد أَحْوَاله وَكذب أَقْوَاله وَمن
أَرَادَ ذَلِك فَعَلَيهِ بمطالعة كَلَام الإِمَام الْمُجْتَهد الْمُتَّفق على إِمَامَته وجلالته وبلوغه مرتبَة الِاجْتِهَاد أبي الْحسن السُّبْكِيّ وَولده التَّاج وَالشَّيْخ الإِمَام الْعِزّ بن جمَاعَة وَأهل عصرهم، وَغَيرهم من الشَّافِعِيَّة والمالكية وَالْحَنَفِيَّة، وَلم يقصر اعتراضه على متأخري الصُّوفِيَّة بل اعْترض على مثل عمر بن الْخطاب وَعلي بن أبي طَالب رَضِي الله عَنْهُمَا كَمَا يَأْتِي. وَالْحَاصِل أنْ لَا يُقَام لكَلَامه وزن بل يَرْمِي فِي كلّ وَعْر وحَزَن، ويعتقد فِيهِ أَنه مُبْتَدع ضالّ ومُضِّلّ جَاهِل غال عَامله الله بعدله، وأجازنا من مثل طَرِيقَته وعقيدته وَفعله آمين

الفتاوی الحدیثیۃ1/83

اسی طرح ہم شیخ علاء الدین کی تحریر نقل کرتے کہ جوابن تیمیہ کو شیخ الاسلام کہے وہ کافر ہے۔اوراس پر بس نہیں ہے ۔زاہد الکوثری رحمہ اللہ نے جوکچھ ابن تیمیہ کے بارے میں لکھاہے سبھی اس سے واقف ہیں اس کے علاوہ بلامبالغہ ابن تیمیہ کے حق میں دیگر علماٗ نے جوکچھ کہاہے اس کو نقل کرنے سے نہ ہم قاصر ہیں اورنہ عاجز۔لیکن اس کے نقل نہ کرنے کی وجہ صرف ایک یہ ہے کہ ان میں سے کچھ باتوں سے راقم الحروف کو اتفاق نہیں اوردوسری یہ کہ بحث کا سمت اوررخ مڑجائے گا۔ ہم نے اپنی بات جس دائرے میں گفتگو ہورہی تھی اسی حد تک محدود رکھی۔

یہ کفایت اللہ صاحب کا طرز ہے کہ بات کسی بھی موضوع پر ہو وہ موضوع کے اندر محدود رہنانہیں جانتے ایک سے دوسری شاخ دوسری سے تیسری شاخ کی جانب نکل جاتے ہیں۔ اورنتیجہ یہ نکلتاہے کہ جس پر بات شروع ہوئی تھی وہ دونوں ہی فریقین بھول جاتے ہیں۔دوران مناظرہ صفی الدین ہندی نے حضرت ابن تیمیہ سے اسی بات کی شکایت کی تھی کہ وہ بحث میں ایک پہلو پر مرتکز نہیں رہتے۔

گفتگو کا اصل موضوع حضرت ابن تیمیہ کے اندر حدت وشدت کا ہوناہے۔ اوریہ ہے کہ جیساکہ علامہ انورشاہ کشمیری نے لکھاہے کہ وہ دوران بحث جس موضوع کو اختیار کرتے ہیں سارازور اسی کے پلڑے میں ڈال دیتے ہیں اورفریق مخالف کی دلیل سے پوراانصاف نہیں کرتے۔
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
موضوع تویہی ہے لیکن کچھ غیرمتعلقہ باتیں انہوں نے ذکرکردی ہیں توجواب دیئے بغیر چارہ کار نہیں ۔مثلا کفایت اللہ صاحب کا منتہائے کمال یہ ہوتاہے کہ وہ امام ابوحنیفہ کے مثالب میں چند روایات ذکر کرتے ہیں اوراس پر سندہ حسن اورصحیح کا ٹھپہ دیکھ کر خوش ہوجاتے ہیں کہ میدان سرکرلیالیکن صرف اتنے سے بات نہیں بننے والی۔یہ بات اصول حدیث میں مشہور ہے کہ سند کی صحت سے متن کا صحیح ہونا لازم نہیں آتا۔ جس کی وضاحت ابن صلاح اوردیگر اصول حدیث پر لکھنے والے کرچکے ہیں۔

امام ابوحنیفہ کے مثالب کی روایات کے تعلق سے کچھ تبصرہ میں امام ذہبی اورامام ابوحنیفہ والے تھریڈ میں بھی کرچکاہوں۔

امام ابوحنیفہ کے مثالب میں جوروایتیں منقول ہیں ان پر محض سندہ حسن وصحیح دیکھ کر تکیہ اوراعتماد نہیں کرناچاہئے بلکہ مجموعی تناظر میں اس کو دیکھناچاہئے۔

میں کسی حنفی عالم کا حوالہ دوں توشاید آنجناب چیں بجبیں ہوں اورخاطراقدس پر گراں گزرے

لہذا عبدالرحمن المعلمی الیمانی کی ہی ایک تحریر پیش کردیتاہوں۔جس میں انہوں نے اسی پر بات کی ہے کہ محض سند کے رجال ثقات ہونے اورسند حسن وصحیح سے بات نہیں بننے والی بلکہ اس کیلئے دیگر امور کی بھی ضرورت پڑتی ہے۔
فإن المقالة المسندة، إذا كان ظاهرها الذم أو ما يقتضيه لا يثبت الذم إلا باجتماع عشرة أمور:
الأول: أن يكون الرجل المعين الذي وقع في الإسناد ووقعت فيه المناقشة ثقة.
الثاني: أن يكون بقية رجال الإسناد كلهم ثقات.
الثالث: ظهور اتصال السند تقوم به الحجة.
الرابع: ظهور أنه ليس هناك علة خفية يتبين بها انقطاع أو خطأ أو نحو ذلك مما يوهن الرواية.
الخامس: ظهور أنه لم يقع في المتن تصحيف أو تحريف أو تغيير قد توقع فيه الرواية بالمعنى.
السادس: ظهور أن المراد في الكلام ظاهره.
السابع: ظهور أن الذامّ بنى ذمه على حجة لا نحو أن يبلغه إنسان أن فلاناً قال كذا أو فعل كذا فيحسبه صادقاً وهو كاذب أو غالط.
الثامن: ظهور أن الذام بنى ذمه على حجة لا على أمر حمله على وجه مذموم وإنما وقع على وجه سائغ.
التاسع: ظهور أنه لم يكن للمتكلم فيه عذر أو تأويل فيما أنكره الذام.
العاشر: ظهور أن ذلك المقتضي للذم لم يرجع عنه صاحبه. والمقصود بالظهور في هذه المواضع الظهور الذي تقوم به الحجة.
وقد يزاد على هذه العشرة، وفيها كفاية. هذه الأمور إذا اختل واحد منها لم يثبت الذم، وهيهات أن تجتمع على باطل.

التنکیل لمافی تانیب الکوثری من الاباطیل1/188

بعض لوگوں کے اس شبہ کو دور کرنے کیلئے کہ انہوں نے اپنی کتاب تنکیل میں جن راویون پر کلام کرکے انہیں ثقہ قراردینے کی کوشش کی ہے اس سے کسی کو غلطی فہمی ہو کہ ان کی امام ابوحنیفہ کی مذمت میں روایات بھی صحیح ہوں۔ اس تعلق سے معلمی لکھتےہیں۔
والذي تصديت لمناقشة الأستاذ فيه إنما يتعلق بالأمر الأول، ولا يلزم من تثبيته تثبيت الثاني فضلاً عن الجميع وقد يلزم من صنيعي في بعض المواضع تثبيت الثاني لكن لا يلزم من ذلك تثبيت الثالث فضلاً عن الجميع، وما قد يتفق في بعض المواضع من مناقشتي للأستاذ في دعوى الانقطاع أو التصحيف فالمقصود من ذلك كشف مغالطته ولا يلزم من ذلك تثبيت الأمور كلها، وقد يتهم الأستاذ رجلاً في رواية مع علمه بأنه قد توبع متابعة تبين صدقه في تلك الرواية فيضطرني إلى التنبيه على تلك المتابعة. وقد يشنع على الخطيب بإيراده رواية من فيه كلام في صدد ما زعم أنه المحفوظ عنده، ويتبين لي من سقوط الشناعة من هذه الناحية أما لأنه إنما ذكر رواية ذلك الراوي في المتابعات وأما لأن الراوي إنما غمز بأنه يخطئ أو يهم وليس تلك الرواية مما يخشى فيه الخطأ أو الوهم فاحتاج إلى بيان ذلك. وكل هذا لا يلزم منه تثبيت الأمور كلها(المصدرالسابق)
پھراسکے بعد معلمی نے ایک مثال بھی بیان کی ہے۔اس مثال کے ذکر سے بات طویل ہوجائے گی اس لئے اس کے ذکر سے ہم گریز کرتے ہیں جس کاجی چاہے وتنکیل اٹھاکر دیکھ لے۔
معلمی کے کلام کا یہ مطلب نہ سمجھنے کی وجہ سے مقبل الوادعی کو پریشانی ہوئی ہے اوراس نے نشرالصحیفہ میں اس کا رونارویاہے کہ معلمی نے تنکیل میں توبہت اچھاکلام کیا لیکن نہ جانے ان کو کیاہوگاکہ انہوں نے تاریخ الکبیر للبخاری میں امام ابوحنیفہ کا دفاع کیاہے۔اگر مقبل الوادعی معلمی کے مقصد اورکتاب کے باعث کو جان لیتے تو سمجھ جاتے کہ معلمی کی یہ پریشان خیالی نہیں بلکہ ایک ہی طرز عمل ہے۔
ویسے چونکہ موضوع یہ امام ابوحنیفہ کا نہیں بلکہ حضرت ابن تیمیہ ہے کا اس لئے اسی قدر پر ہم اکتفاء کرتے ہیں ورنہ باتیں بہت ہیں
سفینہ چاہئے اس بحربیکراں کیلئے۔

کفایت اللہ صاحب لکھتے ہیں۔
اہل الرائے کے امام اعظم کے علم کا حدود اربعہ کیا ہے ، لیکن یا درہے ہم صرف نقل کرنے والے ہیں اور ان کے علم کا حدود اربعہ ناپنے والے تو چوٹی کے محدثین ہیں جن کے بالمقابل مقلدین کیا خود امام صاحب کی بھی کوئی حیثیت نہیں ہے ، ہم یہاں صرف ائمہ ثلاثہ امام مالک ، امام شافعی ، امام احمدبن حنبل رحمہ اللہ ہی کے اقوال پیش کرنے پراکتفاکرتے ہیں
کفایت اللہ صاحب نے اس قسم کے جتنے اقوال نقل کئے ہیں۔اس قسم کے اقوال نقل کرنے کے بعد جامع بیان العلم وفضلہ کے مولف لکھتے ہیں۔
فَمَنْ أَرَادَ أَنْ يَقْبَلَ قَوْلَ الْعُلَمَاءِ الثِّقَاتِ الْأَئِمَّةِ الْأَثْبَاتِ بَعْضِهِمْ فِي بَعْضٍ فَلْيَقْبَلْ قَوْلَ مَنْ ذَكَرْنَا قَوْلَهُ مِنَ الصَّحَابَةِ رِضْوَانُ اللَّهِ عَلَيْهِمْ أَجْمَعِينَ بَعْضِهِمْ فِي بَعْضٍ، فَإِنْ فَعَلَ ذَلِكَ ضَلَّ ضَلَالًا بَعِيدًا وَخَسِرَ خُسْرَانًا، وَكَذَلِكَ إِنْ قَبِلَ فِي سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ قَوْلَ عِكْرِمَةَ، وَفِي الشَّعْبِيِّ وَأَهْلِ الْحِجَازِ وَأَهْلِ مَكَّةَ وَأَهْلِ الْكُوفَةِ وَأَهْلِ الشَّامِ عَلَى الْجُمْلَةِ وَفِي مَالِكٍ وَالشَّافِعِيِّ وَسَائِرِ مَنْ ذَكَرْنَاهُ فِي هَذَا الْبَابِ مَا ذَكَرْنَا عَنْ بَعْضِهِمْ فِي بَعْضٍ فَإِنْ لَمْ يَفْعَلْ وَلَنْ يَفْعَلَ إِنْ هَدَاهُ اللَّهُ وَأَلْهَمَهُ رُشْدَهُ فَلْيَقِفْ عِنْدَ مَا شَرَطْنَا فِي أَنْ لَا يَقْبَلَ فِيمَنْ صَحَّتْ عَدَالَتُهُ وَعَلِمْتَ بِالْعِلْمِ عِنَايَتَهُ، وَسَلِمَ مِنَ الْكَبَائِرِ وَلَزِمَ الْمُرُوءَةَ وَالتَّصَاوُنَ وَكَانَ خَيْرُهُ غَالِبًا وَشَرُّهُ أَقَلُّ عَمَلِهِ فَهَذَا لَا يُقْبَلُ فِيهِ قَوْلُ قَائِلٍ لَا بُرْهَانَ لَهُ بِهِ، وَهَذَا هُوَ الْحَقُّ الَّذِي لَا يَصِحُّ غَيْرُهُ إِنْ شَاءَ اللَّهُ۔
جامع بیان العلم وفضلہ باب حکم قول العلماء بعضھم فی بعض2/1113

پھر آگے چل کر ابن عبدالبر کہتے ہیں۔
وَالَّذِينَ أَثْنَوْا عَلَى سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ وَعَلَى سَائِرِ مَنْ ذَكَرْنَا مِنَ التَّابِعِينَ وَأَئِمَّةِ الْمُسْلِمِينَ أَكْثَرُ مِنْ أَنْ يُحْصَوْا وَقَدْ جَمَعَ النَّاسُ فَضَائِلَهُمْ وَعُنُوا بِسِيَرِهِمْ وَأَخَبَارِهِمْ، فَمَنْ قَرَأَ فَضَائِلَهُمْ وَفَضَائِلَ مَالِكٍ وَفَضَائِلَ الشَّافِعِيِّ وَفَضَائِلَ أَبِي حَنِيفَةَ بَعْدَ فَضَائِلِ الصَّحَابَةِ [ص:1118] وَالتَّابِعِينَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَعُنِيَ بِهَا، وَوَقَفَ عَلَى كَرِيمِ سِيَرِهِمْ وَسَعَى فِي الْإِقْتِدَاءِ بِهِمْ، وَسَلَكَ سَبِيلِهِمْ فِي عِلْمِهِمْ وَفِي سَمْتِهِمْ وَهْدَيْهِمْ كَانَ ذَلِكَ لَهُ عَمَلًا زَاكِيًا نَفَعَنَا اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ بِحُبِّهِمْ جَمِيعِهِمْ(جامع بیان العلم وفضلہ )

آگے چل کر ابن عبدالبر نے جوبات لکھی ہے وہ کفایت اللہ صاحب اوران کے ہم خیال افراد کیلئے بہت غور سے پڑھنے سمجھنے کی ہے اوراسی لئے اس کا اردو ترجمہ بھی کردیتاہوں۔تاکہ عربی سے نابلد مجتہدین بھی سمجھ سکیں۔

وَمَنْ لَمْ يَحْفَظْ مِنْ أَخْبَارِهِمْ إِلَّا مَا نَذَرَ مِنْ بَعْضِهِمْ فِي بَعْضٍ عَلَى الْحَسَدِ وَالْهَفَوَاتِ وَالْغَضَبِ وَالشَّهَوَاتِ دُونَ أَنْ يَعْنِيَ بِفَضَائِلِهِمْ وَيَرْوِي مَنَاقِبَهُمْ حُرِمَ التَّوْفِيقَ وَدَخَلَ فِي الْغِيبَةِ وَحَادَ عَنِ الطَّرِيقِ جَعَلَنَا اللَّهُ وَإِيَّاكَ مِمَّنْ يَسْمَعُ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُ أَحْسَنَهُ
اورجس نے ان کے حالات وسوانح سے صرف وہ باتیں اخذ کی جس کا تعلق حسد، ہفوات غضب اورشہوات سے ہے اوران کے فضائل اورمناقب کو نظرانداز کردیا تو ایساشخص توفیق سے محروم اوراس کا یہ طرز عمل غیبت میں داخل ہے اور وہ راہ راست سے پرےہے۔اللہ ہمیں اورتمہیں ان لوگوں میں سے بنائے جو بات کو سنتے ہیں پھر اچھی بات کی اتباع کرتے ہیں۔ والسلام
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
جناب آپ حضرات تقلید کے دعویدارہیں اورعصرحاٍضر کے بعض لوگ تقلید کی یہ تشریح کرتے ہیں کہ تقلید میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ ہی کے اقوال نہیں بلکہ کبھی کبھی دیگر اقوال پر بھی فتوی دیا جاتاہے، اب ظاہر ہے کہ کسی کا بھی قول مفتی بہ ہو، ان پر سب احناف کا اتفاق ہوتا ہے، بہرحال احناف یہ باور کراتے ہیں کہ ہمارے یہاں آپس میں اختلاف نہیں ہے کیونکہ ہم مقلد ہیں ، ایسی صورت میں جب کسی مستند حنفی کی طرف سے کوئی بات پیش کی جائے تو ظاہر ہے کہ اس پر سب کا اتفاق ہی ہوگا۔
حکیم الامت کے اقوال تو اس قدر اہم ہیں کہ صرف ان کی تحریریں ہی نہیں بلکہ شرم وحیا سے عاری ان کے ملفوظات بھی محفوظ بھی یاد رکھنے کے قابل سمجھے جاتے ہیں، ایسے میں تو یہی کہا جائے گا ، کہ حکیم الامت کی یہ پڑیا حنفی امت کو قبول ہے ۔
سبحان اللہ کیاخوبصورت کلام ہے۔اس پر کبیرداس کے دوہوں کوبھی قربان کیاجاسکتاہے۔
کبیرداس کے الٹے وانی
آنگن سوکھاگھر میں پانی
رات دن وہ لوگ جو احناف کویہ کہتے پھریں کہ آپ امام ابوحنیفہ کی صحیح تقلید نہیں کرتے ہو کیونکہ عقائد میں ان کی بات کو نہیں مانتے ہو اوراشعری وماتریدی کی باتیں تسلیم کرتے ہو،اب وہ ہمیں یہ پٹی پڑھانے لگیں کہ نہیں جناب آپ توہرچیز میں امام ابوحنیفہ کے مقلد ہیں۔

ویسے آنجناب کایہ جملہ بھی کم غضب نہیں ڈھارہاہے
کبھی کبھی دیگر اقوال پر بھی فتوی دیا جاتاہے، اب ظاہر ہے کہ کسی کا بھی قول مفتی بہ ہو، ان پر سب احناف کا اتفاق ہوتا ہے،
مفتی بہ قول پر سبھی کا اتفاق ہوتاہے تو متفق علیہ قول کیاہوتاہے اس کی وضاحت کفایت اللہ صاحب کریں۔ویسے اس قسم کی تحریریں دیکھ کر لگتاہے کہ ان فقہ حنفی کے تعلق سے معلومات نہایت محدود ہیں۔ان کی معلومات کی محدودیت پر مزید بات کئے بغیر یہ پوچھنے کا حق توبنتاہی ہے کہ مفتی بہ قول اورامام ابوحنیفہ کے علاوہ دوسرے کے قول کابھی تعلق جہاں تک ہے تواس کا تعلق فقہیات سے ہی ہے یادنیا کے دیگر تمام علوم وفنون تک اس کا دائرہ وسیع ہے؟۔

کسی مستند حنفی کی طرف سے کوئی بات پیش کی جائے تو ظاہر ہے کہ اس پر سب کا اتفاق ہی ہوگا۔
یادش بخیر اردومجلس فورم پر تقلید کی بحث میں جب راقم الحروف نے مولانا اشرف علی تھانوی کا حوالہ دیاتو یارلوگوں نے شور مچاناشروع کردیاکہ متقدمین حنفی کے مقابلہ میں ان کی بات معتبر نہیں ہوگی وغیرہ وغیرہ ۔اوراب آنجناب یہ فرمارہے ہیں کہ سب کااس پر اتفاق ہوگا۔

مشہور معروف کذاب اور اہل بدعت کے امام زاہد کوثری نے شیخ الاسلام کے حق میں جوکچھ کہا ہے شاید آن جناب اس سے بھی لاعلم ہوں ، اس طرح ایک اورتھانوی نے شیخ الاسلام کی شان میں ایسی گستاخی کی کہ اس پر زاہد کوثری کا شاگرد خاص اورمقلد ابوزاہد کوثری (ابوٍغدہ) بھی تڑپ اٹھا ، شاید ان چیزوں سے بھی آپ ناوقف ہوں۔لیکن میرے خیال سے ایسانہیں ہے بلکہ درحقیقت تھانوی اور کوثری گروپ ہی کی کرم فرمائیاں ہیں جن پر جمشید صاحب پھولے نہیں سمارہے ہیں۔
بعینہ انہی اوصاف سے بلکہ اس سے زیادہ سے مقبل الوادعی کو یاد کیاجاسکتاہے۔مقبل الوادعی کی (متنازعہ لفظ حذف ۔۔۔ انتظامیہ) کا عالم یہ تھاکہ مصطفے السباعی نے السنۃ ومکانتہا فی التشریع الاسلامی جیسی لاجواب کتاب میں امام ابوحنیفہ کے تعلق سے الزامات کا جودفاع کیاہے اسکو وہ ہدم السنۃ سے تعبیر کرتاہے۔اس کے علاوہ ایک دیگر فورم پر بھی اس کی کتابوں کے اقتباسات کے ذریعہ اس کے دوسروں پر فتاوی جات اورکلام ذکر کیاگیاجس کاربط میں نے اردومجلس پر دیاتھا۔اسکو پڑھ کرتوایسالگتاہے کہ اس کے نزدیک پوری دنیا میں صرف دوچارہی مسلمان جواسی کے جیسے خیالات کے حامل ہیں بس درست ہیں ورنہ کوئی منافق ہے۔کوئی شریعت سے خارج ہے کوئی کچھ ہے اورکوئی کچھ اور ہے۔
ناوک نے تیرے صید نہ چھوڑازمانے میں

باقی جہاں تک مولاناظفراحمد تھانوی کی بات ہے توآپ نے جس تلبیس سے یہاں پر کام لیاہے اس کی وضاحت آگے کی جائے گی جہاں دوبارہ آپ نے ان پر کلام کیاہے۔وہیں شیخ عبدالفتاح کی وضاحت اورمولانا ظفراحمد تھانوی کی تشریح نقل کردی جائے گی جس سے واضح ہوجائے گاکہ اس نام نہادگستاخی کی کیاحقیقت ہے۔

ایسا بالکل نہیں ہے اہل حدیث حضرات امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی گمراہیاں واضح کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی جو خوبیاں ہیں اسے بھی بیان کرتے ہیں
ویسے اس دعویٰ کی تصدیق کیلئے ہم دوسروں کے پاس کیوں جائیں ۔خود کتاب وسنت اوردیگر فورم پر امام ابوحنیفہ کے تعلق سے آپ کاجوکچھ ""کلام بے نظام""موجود ہے وہ اس دعوی کے برعکس ہونے پر شاہد عدل ہے۔
البتہ حنفی حضرات ضرور امام ابوحنفہ رحمہ اللہ کے جنون میں انہیں معصوم عن الخطا مانتے ہیں ۔ ورنہ آپ احناف کے چند ایسے اقوال پیش کریں جن میں انہوں نے امام صاحب کی غلطی کو تسلیم کیا ہے۔
جہاں تک اس اقتباس کی بات ہے تویہ اصول اگر صحیح ہے کہ جس کی غلطیاں نہ نکالی جائیں اس کو معصوم عن الخطاماناجاتاہے توآپ حضرت ابن تیمیہ البانی اوردیگر اپنے اجلہ علماء میاں نذیر حسین صاحب کے ارشادات وفرمودات کی غلطیاں واضح کردیں۔ورنہ ہم بھی یہ سمجھنے میں درست ہوں گے کہ اہل حدیث حضرات ان کومعصوم عن الخطائ مانتے ہیں۔
خداکاشکرہے کہ احناف اتباع کے نام پر تقلید نہیں کرتے تقلید کے نام پر ہی تقلید کرتے ہیں۔جہاں تک امام صاحب کے اقوال کی غلطیاں پیش کرنے کی بات ہے تواس کیلئے کسی بھی کتب فقہ حنفی کا مطالعہ کافی رہے گا۔ بطور خاص وہ مسائل جہاں پرفتوی امام صاحب کے قول پر نہیں بلکہ صاحبین اورامام زفر یابعد کے کسی حنفی فقیہہ کے قول پر ہے۔

شیخ الاسلام کی بات کے انکار یا تسلیم کا مسئلہ نہیں ہے ، بلکہ بات ان کے اسلوب کی ہے اگر شیخ الاسلام تقلید کے خلاف بات کریں تو آپ کو ان کے اسلوب میں شدت نظر آئے ، اور اگر آپ کے من پسند کی بات کریں تو وہاں شدت نظر نہ آئے ، اسی دوغلی نظر پر حیرت ہے۔[/QUOTE
آٓپ نے ہمارے مطالبہ کا صاف سیدھاجواب نہیں دیابلکہ بات کوگھماکر اسلوب کی شدت کی جانب لے گئے ۔حالانکہ بات گھوم پھر کر پھر وہی ہوگئی ہےکہ اگرکسی جگہ کسی کی بات تسلیم نہ کی جائے اورکسی جگہ تسلیم کی جائے توکیایہ دوغلی نظر ہے؟اگرایساہے تواس کے ثبوت شیخ الاسلام ابن تیمیہ کی بھی کتابوں میں بافراط موجود ہیں اوراگرنہیں جوکہ صحیح ہے توپھر اسکا الزام مجھ پر دیناکیامعنی رکھتاہے؟اورجہاں تک من پسند بات کی بات ہے توہمیں واضح طورپر صرف اتناکہہ دیں کہ
کیاآپ شیخ الاسلام بن تیمیہ کی تمام باتوں کو تسلیم کرتے ہیں ہاں یاناں
اگرہاں میں جواب ہے توپھر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اوراگرناں میں جواب میں توپھر وہی من پسند ہونے کا الزام آنجناب پر کیوں نہیں عائد کیاجاسکتاکہ ان کی جوباتیں موافق مزاج ملیں اسے لے لیااورجوخاطراقداس پر گراں گزرے تواسے چھوڑدیا۔
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top