• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا مختلف فیہ رفع الیدین منسوخ ہے۔؟

sahj

مشہور رکن
شمولیت
مئی 13، 2011
پیغامات
458
ری ایکشن اسکور
657
پوائنٹ
110
پوسٹ نمبر15​
محترم سہج صاحب دیکھنا دوکھنا نہیں ( کیونکہ دیکھنا لفظ مفہوم میں مشتابہ ہے بعض اوقات دھکمی پر بھی بولا جاتا ہے۔ کہیں آپ احادیث کی کتر بتر کرنے کی صورت میں دھکمی سے تو نہیں نواز رہے؟) بلکہ ماننے کی غرض سے دیکھنا ہے۔ اور غور وفکر کرنا ہے۔ اللہ توفیق بھی دے گا تب جب نیت میں فطور نہیں ہوگا۔ ان شاء اللہ
میں نے بخاری کی حدیث پیش کی۔ الحمد اللہ۔ جس میں صحابی نبی کریمﷺ کا عمل بتلا رہا ہے۔ (اور آپ اگر اصول حدیث کے ابجد سے بھی واقف ہیں تو آپ کو معلوم ہوگیا ہوگا کہ یہ حدیث حدیث کی کس قسم سے تعلق رکھتی ہے۔ اگر معلوم نہ ہو تو پوچھ لینا۔ بتانے میں کوئی بوجھ محسوس نہیں کرونگا ہاں آپ پوچھنے میں پلیز شرم مت کرنا۔ )
الحمدللہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی حدیث کا "انکار" آج تک نہیں کیا اور الحمدللہ آپ کی پیش کردہ روایت کا بھی انکار نہیں کیا ۔ تو پھر یہ بدگمانی کیوں بھئی ۔ جناب میں نے دیکھنے کی بات اسلئے کی تھی کہ شاید اس میں آپ دس تک کی گنتی دکھارہے ہیں ۔ لیکن اس میں تو صرف چار رفع یدین دکھائی ہیں آپ نے ۔اور میں نے جو روایات پیش کی ہیں وہ پہلی رفع کی تائید اور باقی تمام کی نفی کرتی ہیں ، الحمد للہ میرا اور تمام اہل سنت والجماعت احناف کا عمل ثابت ہوتا ہے۔۔ کیوں ٹھیک کہا ہے ناں میں نے؟
آپ کی پیش کردہ روایت
صحابی فرماتے ہیں کہ آپﷺ
’’ جب نماز کا آغاز فرماتے تو تکبیر کہتے اور رفع الیدین فرماتے، اور جب رکوع کرتے تو رفع الیدین کرتے اور جب سمع اللہ لمن حمدہ کہتے تو رفع الیدین کرتے، اور جب دو رکعتوں سے اُٹھتے تو پھر بھی رفع الیدین کرتے۔‘‘
اس حدیث کو پیش کرنے کے بعد آپ نے صرف چار رفع دکھائی ہیں اور باقی کو دو+دو=چار کرکے گنتی مکمل کی ہے ۔ کیوں ٹھیک کہا ناں میں نے ؟؟ جبکہ میں نے اہل سنت والجماعت احناف دیوبند کے عمل کے عین مطابق ابن عمر رضی اللہ عنہ کا عمل راویوں کی گواہی کے ساتھ پیش کردیا کہ ہم پہلی رفع یدین کے بعد کوئی رفع یدین نہیں کرتے رکوع سے لیکر سلام تک۔
ایک-ترجمہ :- حضرت مجاھد رحمۃ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے پیچھے نماز پڑھی تو انہوں نے رفع یدین نہیں کیا مگر نماز کی پہلی تکبیر میں۔
شرح معانی الآثار للطحاوی جلد،صفحہ ایک سو پچپن
دو-ترجمہ: حضرت مجاھد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کو ابتداء نماز کے علاوہ رفع یدین کرتے ہوئے کبھی نہیں دیکھا۔
مصنف ابن ابی شیبۃ جلد ایک،صفحہ دوسوسینتیس
تین-ترجمہ : عبدالعزیز بن حکیم رحمۃ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو دیکھا کہ وہ ابتداء نماز میں پہلی تکبیر کے وقت رفع یدین کرتے تھے کانوں کے برابر اسکے علاوہ رفع یدین نہیں کرتے تھے۔
موطاء امام محمد رحمۃ اللہ علیہ صفحہ نوے
چار-ترجمہ: حضرت مجاھد رحمۃ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو ابتداء نماز کے علاوہ رفع یدین کرتے ہوئے کبھی نہیں دیکھا۔
معرفۃ السنن و الآثار، جلد دو، صفحہ چارسواٹھائیس

چار رکعات نماز میں بقول صحابی آپﷺ چار مقام پر رفع کرتے تھے۔ کیا آپ بھی میاں سہج صاحب اس حدیث سے یہی سمجھے ناں ؟ جو میں نے سمجھا یا ہے۔ یا کچھ اور ؟
اور پھر میں نے مقام والی بات پہلی کئی پوسٹ میں کی کہ سہج صاحب جب مقام واضح ہوجائیں گے کہ ان ان مقامات پر رفع کرنا سنت ہے تو پھر گنتی کرنا کوئی مشکل نہیں رہ جائے گا۔ اور میں نے الحمد للہ حدیث سے وہ تمام مقامات پیش کردیئے ہیں۔ جن پر رفع کرتے ہوئے اگر گنتی کی جائے تو آپ کے مطالبہ کا پہلا حصہ پورا ہوتا ہے۔ یعنی دس کا اثبات۔
اگر آپ کے ہاں یہ حدیث صحیح نہیں ؟ یا جو میں نے ترجمہ کیا ہے وہ درست نہیں ؟ یا کوئی اور بات ہے تو پیش کریں۔ آپ کا حدیث پر کچھ نہ کہنا اس بات کا ثبوت ہے کہ آپ ان چار مقامات کو تسلیم کرچکے ہیں۔ تسلیم کرلیے ہیں یا نہیں ؟ ذرا تصدیق ہوجائے تو مزہ آجائے گا۔ ان شاء اللہ
اگر تصدیق نہیں کرسکتے تو پھر حدیث کی صحت پر بات کریں یا حدیث کے ترجمہ ومفہوم پر بات کریں یا کوئی تاویل وغیرہ کے ذریعے ان چار مقامات میں رفع کی نفی پیش کریں۔ کچھ تو کریں محترم سہج صاحب۔ اگر کچھ بھی نہیں کرسکتے تو پھر دو راستے ہیں ایک ماننے کا اور دوسرا سینہ تان کر اینڈ ڈٹ کر مقابلہ کرتے ہوئے نا ماننے کا ۔ مان کر عمل شروع کردیں گے تو آپ کا عمل عمل رسولﷺ کے موافق ہوجائے گا لیکن اگر نہیں مانیں گے تب بھی میرے پاس اس کا کوئی علاج نہیں۔ کیونکہ گھول کر تو میں آپ کو پلا نہیں سکتا۔
خلاصتاً دو باتیں ہیں
1۔ حدیث میں وہ مقامات جن پر ہم رفع کرتے ہیں وہ میں نے بادلیل پیش کیے یا نہیں ؟ اگر نہیں پیش کیے تو بتلایئے حدیث دوبارہ پیش کردونگا۔ اور اگر کردیئے ہیں تو
2۔آپ نے حدیث پر کوئی اعتراض کیا یا نہیں ؟ اگر کیا ہے تو میں نے آپ کی پوسٹ میں نہیں پڑھا دوبارہ پیش کردیں اور اگر نہیں کیا بلکہ کرنے کا ارادہ ہے تب بھی پیش کریں۔ مجھے آپ کے فرمان کا انتظار رہے گا لیکن اگر نہیں کرنا تب ماننے میں کیا حرج پیدا ہورہا ہے محترم سہج صاحب آپ کو ؟
گڈ مسلم صاحب اگر تو میں نے بخاری کی پیش کردہ روایت کو غلط کہا ہوتا یا اعتراض کیا ہوتا تو بات الگ تھی لیکن یہاں تو بات آپ کرتے ہیں کہ آپ کے صرف دو ہی اصول ہیں اطيعواالله و اطيعوا الرسول اور دو جمع دو چار آپ خود کرتے ہیں ؟ کیا یہ تضاد نہیں آپ کے قول و عمل میں ؟ اسی لئے تو میں بار بار آپسے مطالبہ کر چکا کہ بھئی اپنی دلیل سے دس کا اثبات پیش کریں ۔ یہ کیا بات ہوئی کہ تاویل اور قیاس فرمانا شروع کریا آپ نے ۔اسلئے بغیر قیاس کیئے یا دو جمع دو کئے دس کا اثبات پیش کیجئے ، پھر ان شاء اللہ نفی کی طرف بڑھیں گے ۔
﷯﷯﷯ ﷯﷯﷯
میاں سہج صاحب میں نے راوی کا وہ قول پیش کیا جو اس نے نبی کریمﷺ کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا۔ اور آپ نے اس کے مقابلے میں شرح معانی الآثار، مصنف ابن ابی شیبۃ اور موطاء امام محمد سے ابن مجاہد?کے ذریعے ابن عمر کا عمل پیش کیا۔ میری پیش کردہ بخاری کی حدیث میں ابن عمر خود نبی کریمﷺ کا عمل بتلارہے ہیں۔ اور یہاں پر مجاہد? ابن عمر کاعمل بتلار ہے ہیں۔ میں نے درست کہا ناں مسٹر سہج صاحب ؟ایک صحابی ہیں جو نبی کریمﷺ کا عمل بتلارہے ہیں اور وہ عمل ہے بھی ایسی کتاب میں جو اصح الکتب بعد کتاب اللہ ہے۔ اور دوسرے مجاہد? ہیں جو صحابی نہیں وہ ایک صحابی کا عمل بتلارہے ہیں۔اور وہ بھی ایسی کتب میں جن کو یہ لقب ’’ اصح الکتب بعد کتاب اللہ ‘‘ نہیں ملا۔ تو محترم سہج صاحب کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ ’’ ان دونوں اعمال کی حیثیت ماننے اور یقین کرنے کے اعتبار سے ایک جیسی ہے ؟ اگر ایک جیسی ہے تب بتائیں اور اگر ایک جیسی نہیں تو پھر کیا چیز مانع ہے کہ اصح ترین کتاب کی بات لینے کے بجائے باقی کتب پر یقین کررہے ہیں آپ ؟ ( میرا اس سے مقصود یہ نہیں کہ باقی کتب احادیث میں صحیح احادیث نہیں لیکن کتب کے درجات ہیں۔ اور افضل درجہ پر بخاری ومسلم ہیں۔ اور ان دو کتب کے بارے میں تمام فرقوں کے علماء کا اتفاق ہے کہ اس میں بیان سب باتیں حضورﷺ کی ہیں۔) تو بجائے اس کے آپ میری پیش کردہ حدیث کو مانتے یا اس کی مثل اسی کتاب سے میری پیش کردہ حدیث کے خلاف حدیث پیش کرتے۔ آپ نے دوسری کتب میں بیان ابن عمر کے عمل پر یقین کرلیا ۔ ( ابن عمر کا عمل اور حضرت مجاہد? کاعمل رفع الیدین کرنے کا تھا یا یہ دونوں مسنوخیت کے قائل تھے۔ یہ بھی آپ سے پوچھا جائے گا۔) ناں ناں سہج صاحب یہ ظلم نہ کریں۔ بلکہ آپ یوں کریں کہ
میری پیش کردہ حدیث میں جن جن مقامات پر رفع کرنے کا ثبوت ہے۔ آپ اس کے معارض اسی درجہ کی کوئی ایسی حدیث پیش کریں جس میں اول مقام کا اثبات اور باقی تین مقامات کی نفی ہو۔میں آپ سے یہ نہیں کہتا کہ آپ ایک رفع کا اثبات اور باقی ستائیس رفعوں کی نفی پیش کریں۔ نہیں نہیں سہج صاحب۔ آپ بس میری پیش کردہ حدیث کے مقابلے میں اسی درجہ کی ایک مقام پہ رفع کرنے والی حدیث اور تین مقامات پر رفع نہ کرنے والی حدیث پیش کریں۔
جی گڈ مسلم صاحب آپ نے درست کہا کہ آپ نے بخاری سے صحابی کا عمل پیش کیا اور میں نے دوسری کتابوں کی روایات سے ، تو بھائی صاحب اس میں جو نقص ہے وہ بھی آپ بتادیتے ؟ بخاری کو اصح آپ کس دلیل سے مانتے ہیں گڈ مسلم صاحب یہ بھی بتادیجئے گا ؟ کیونکہ یہ کوئی چھوٹا موٹا بول نہیں ۔ اسلئے دلیل ضروری ہے۔ دوسرے یہ کہ آپ اصح الکتب بعد کتاب اللہ پر اگر ایمان ہے تو پھر اس روایت کے بارے میں کیا فرمانا ہے آپ کا ؟


عن أنس بن مالك،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم ركب فرسا فصرع عنه،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فجحش شقه الأيمن،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فصلى صلاة من الصلوات وهو قاعد،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فصلينا وراءه قعودا،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فلما انصرف قال ‏"‏ إنما جعل الإمام ليؤتم به،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فإذا صلى قائما فصلوا قياما،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فإذا ركع فاركعوا،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وإذا رفع فارفعوا،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وإذا قال سمع الله لمن حمده‏.‏ فقولوا ربنا ولك الحمد‏.‏ وإذا صلى قائما فصلوا قياما،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وإذا صلى جالسا فصلوا جلوسا أجمعون ‏"‏‏.‏ قال أبو عبد الله قال الحميدي قوله ‏"‏ إذا صلى جالسا فصلوا جلوسا ‏"‏‏.‏ هو في مرضه القديم،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ثم صلى بعد ذلك النبي صلى الله عليه وسلم جالسا والناس خلفه قياما،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ لم يأمرهم بالقعود،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وإنما يؤخذ بالآخر فالآخر من فعل النبي صلى الله عليه وسلم‏.‏
انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک گھوڑے پر سوار ہوئے تو آپ اس پر سے گر پڑے۔ اس سے آپ کے دائیں پہلو پر زخم آئے۔ تو آپ نے کوئی نماز پڑھی۔ جسے آپ بیٹھ کر پڑھ رہے تھے۔ اس لیے ہم نے بھی آپ کے پیچھے بیٹھ کر نماز پڑھی۔ جب آپ فارغ ہوئے تو فرمایا کہ امام اس لیے مقرر کیا گیا ہے کہ اس کی اقتداء کی جائے۔ اس لیے جب وہ کھڑے ہو کر نماز پڑھے تو تم بھی کھڑے ہو کر پڑھو اور جب وہ رکوع کرے تو تم بھی رکوع کرو۔ جب وہ رکوع سے سر اٹھائے تو تم بھی اٹھاؤ اور جب وہ سمع اللہ لمن حمدہ کہے تو تم ربنا لک الحمد کہو اور جب وہ بیٹھ کر نماز پڑھے تو تم بھی بیٹھ کر پڑھو۔ ابوعبداللہ (امام بخاری رحمہ اللہ) نے کہا کہ حمیدی نے آپ کے اس قول ’’ جب امام بیٹھ کر نماز پڑھے تو تم بھی بیٹھ کر پڑھو۔ ‘‘ کے متعلق کہا ہے کہ یہ ابتداء میں آپ کی پرانی بیماری کا واقعہ ہے۔ اس کے بعد آخری بیماری میں آپ نے خود بیٹھ کر نماز پڑھی تھی اور لوگ آپ کے پیچھے کھڑے ہو کر اقتداء کر رہے تھے۔ آپ نے اس وقت لوگوں کو بیٹھنے کی ہدایت نہیں فرمائی اور اصل یہ ہے کہ جو فعل آپ کا آخری ہو اس کو لینا چاہئے اور پھر جو اس سے آخری ہو۔
صحیح بخاری،کتاب الاذان
جب وہ رکوع کرے تو تم بھی رکوع کرو۔ جب وہ رکوع سے سر اٹھائے تو تم بھی اٹھاؤ اور جب وہ سمع اللہ لمن حمدہ کہے تو تم ربنا لک الحمد کہو اس روایت کی اس بات کی آپ کے ہاں کیا حیثیت ہے ؟ کیا یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم نہیں؟ اور دیکھ لیجئے اس میں بھی پہلی رفع سمیت بعد کی رفع یدین کا بلکل زکر نہیں ، تو پھر بتائیے اس حکم پر آپ کیوں عمل نہیں کرتے ؟ یہ بھی "اصح الکتب " میں ہی موجود ہے ۔یا پھر اس کو آپ " عمل" میں نہیں لاتے یا پھر کوئی اور تاویل ؟
اگر میں نے دلیل نہیں دی تو آپ نے انکار بھی نہیں کیا ۔ کیا آپ اس بات سے انکار کرتے ہیں کہ چار رکعات نماز میں چار بار رکوع میں جانا نہیں ہوتا اور چار بار رکوع سے اٹھنا نہیں ہوتا۔ آپ اپنے انکار کو ثابت کردیں میں ان شاء اللہ اثبات کو ثابت کروونگا۔ کیا خیال ہے محترم سہج صاحب اینڈ حسین صاحب ؟
یہ تو اتنی سیمپل سی بات ہے کہ ہر آدمی کو پتہ ہوتا ہے ( جو مسلمان ہو) کہ چار رکعات نماز میں کتنے قیام ہوتے ہیں؟، کتنے رکوع ہوتے ہیں؟ چار رکعتوں میں کتنی بار رکوع میں جایا جاتا ہے؟، کتنی بار رکوع سے اٹھا جاتا ہے؟، کتنے سجود اور کتنے تشہد ہوتے ہیں۔ وغیرہ۔ پتا ہوتا ہے یا نہیں ؟ یا یہ اتنی مشکل لاجک ہے کہ کوئی آدمی نہ یاد کرسکتا ہے اور نہ یاد کرنے کی کوشش کرسکتا ہے اور نہ یہ لاجک کبھی اس کی سمجھ میں آسکتی ہے ؟
لاجک کی ضرورت ہے آپ کو کہ آپ اس کو پیش کریں ؟ بھئی آپ اطيعواالله و اطيعوا الرسول کو ہی ماننے والے ہیں اسلئے اسی سے بتانا ہے آپ نے ۔ ہر آدمی کو کون بتاتا ہے یا ہر آدمی کہاں سے یہ علم حاصل کرتا ہے کہ ار رکعات نماز میں کتنے قیام ہوتے ہیں؟، کتنے رکوع ہوتے ہیں؟ چار رکعتوں میں کتنی بار رکوع میں جایا جاتا ہے؟، کتنی بار رکوع سے اٹھا جاتا ہے؟، کتنے سجود اور کتنے تشہد ہوتے ہیں؟ کتاب اللہ سے یا حدیث سے ؟ بتانا ضرور ۔
آپ کو جب قیاس کا ہی نہیں پتہ تو آپ نے یہ ہی کہنا تھا کہ ’’ میری نظر میں یہ آپ نے قیاس کیا ہے ‘‘ بجائے اس کے کہ ایک نیا موضوع کھول کر آپ کو قیاس سمجھانے بیٹھ جاؤں اس سے بہتر ہے آسان طریقے سے آپ کو ذیل میں بات سمجھانا۔
دیکھیں محترم المقام سہج صاحب۔ میں نے دلیل سے یہ بات ثابت کردی ہے (اور آپ نے انکار بھی نہیں کیا) کہ آپﷺ رکوع جاتے ہوئے اور رکوع سے سر اٹھاتے ہوئے رفع الیدین کرتے تھے۔ اور نماز میں رکوع کس کو کہتے ہیں ؟ مجھے قوی امید ہے آپ کو معلوم ہی ہوگا۔( اگر نہیں معلوم ہوگا تو تفصیل سے بتا دیا جائے گا فکر کرنے کی ضرورت نہیں۔) اور حدیث میں لفظ رکوع کا اطلاق چار رکعتوں میں کسی خاص رکعت کے رکوع پر نہیں۔ بلکہ مطلق بولا گیا ہے۔(اگر کسی خاص رکعت کے رکوع پر ہے تو بتائیں؟) جس کا صاف مطلب ہے کہ جو بھی رکوع ہوگا چاہے فرض نماز میں ہو یا نوافل میں۔ چاہے پہلی رکعت کا رکوع ہو یا دوسری وآخری رکعت کا۔ تمام رکوعوں میں رکوع کو جاتے ہوئے اور رکوع سے سر اٹھاتے ہوئے رفع الیدین کی جائے گی۔ یہاں تک بات سمجھ آگئی ناں مسٹر سہج صاحب ؟ چلیں گڈ ....پھر آگے چلتے ہیں۔ سنیں
سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ میں تمہیں اس طرح ہاتھ اٹھاتے دیکھ رہا ہوں گویا وہ شریر گھوڑوں کی دمیں ہیں تم لوگ نماز میں سکون سے رہا کرو۔
صحیح مسلم جلد ایک

اس بارے میں بھی آگاہ کیجئے کہ یہ حکم مطلق کے ذمرہ میں آتا ہے کہ نہیں ۔ چلیں اب آگے چلتے ہیں ۔

قیاس تب ہوتا مسٹر سہج صاحب جب پہلی رکعت کے رکوع کا حکم حدیث میں ہوتا کہ پہلی رکعت کے قیام میں یہ کرنا ہے، اور رکوع میں رکوع جاتے ہوئے اور رکوع سے سر اٹھاتے ہوئے آپ نے رفع کرنا ہے۔ اور پھر میں کہتا کہ آپﷺ نے پہلی رکعت کے رکوع کے بارے میں یہ فرمایا ہے۔ اور دوسری رکعت کا بھی رکوع پہلی رکعت کے رکوع کی مثل ہے۔لیکن آپﷺ نے دوسری رکعت کے رکوع کے بارے میں کچھ نہیں فرمایا اس لیے آپﷺ کا پہلی رکعت کے رکوع پر بولا جانےوالا حکم دوسری رکعت کے رکوع پر بھی لاگو ہوگا۔ لیکن مسٹر سہج صاحب میں نے یہاں یہ بات نہیں کی۔بلکہ میں نے رکوع جاتے ہوئے اور رکوع سے سر اٹھاتے ہوئے رفع کو ثابت کیا ہے۔اس لیے جس عمل پر رکوع کا لفظ بولا جائے گا چاہے وہ جس بھی نماز کا جس میں رکعت کا ہوگا آپ کو رفع کرنا ہوگا رکوع جاتے ہوئے اور رکوع سے سر اٹھاتے ہوئے۔آئی سمجھ سہج صاحب ؟؟؟؟؟؟
اگر آپ کی باتوں پر آیا جائے تو پھر ایک رکعت، دو رکعات، تین رکعات، چار رکعات، پانچ رکعات، سات رکعات، نو رکعات، گیارہ رکعات، تیرہ رکعات وغیرہ ان سب میں رفع الیدین کی تعداد اٹھائیس سے بڑھتی اور کم ہوتی رہے گی۔
وإذا قام من الركعتين رفع يديه " (صحيح البخاری، ) تیسری رکعت کی تو بات ہے ناں ؟ تو پھر دوسری اور چوتھی رکعت کی نفی کا مطلب آپ نکالتے ہیں یا نہیں ؟کیا وہ قیاس ہے ؟
اس لیے جس عمل پر رکوع کا لفظ بولا جائے گا چاہے وہ جس بھی نماز کا جس میں رکعت کا ہوگا آپ کو رفع کرنا ہوگا رکوع جاتے ہوئے اور رکوع سے سر اٹھاتے ہوئے۔
عن عائشة،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ أنها قالت خسفت الشمس في عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم فصلى رسول الله صلى الله عليه وسلم بالناس،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فقام فأطال القيام،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ثم ركع فأطال الركوع،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ثم قام فأطال القيام وهو دون القيام الأول،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ثم ركع فأطال الركوع،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وهو دون الركوع الأول،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ثم سجد فأطال السجود،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ثم فعل في الركعة الثانية مثل ما فعل في الأولى،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ثم انصرف وقد انجلت الشمس،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فخطب الناس،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فحمد الله،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وأثنى عليه ثم قال ‏"‏ إن الشمس والقمر آيتان من آيات الله،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ لا ينخسفان لموت أحد ولا لحياته،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فإذا رأيتم ذلك فادعوا الله وكبروا،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وصلوا وتصدقوا ‏"‏‏.‏ ثم قال ‏"‏ يا أمة محمد،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ والله ما من أحد أغير من الله أن يزني عبده أو تزني أمته،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ يا أمة محمد،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ والله لو تعلمون ما أعلم لضحكتم قليلا ولبكيتم كثيرا ‏"‏‏.‏
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ قعنبی نے بیان کیا ، ان سے امام مالک نے بیان کیا ، ان سے ہشام بن عروہ نے بیان کیا ، ان سے ان کے باپ عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ، ان سے ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں سورج گرہن ہوا تو آپ نے لوگوں کو نماز پڑھائی۔ پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے تو بڑی دیر تک کھڑے رہے، قیام کے بعد رکوع کیا اور رکوع میں بہت دیر تک رہے۔ پھر رکوع سے اٹھنے کے بعد دیر تک دوبارہ کھڑے رہے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلے قیام سے کچھ کم، پھر رکوع کیا تو بڑی دیر تک رکوع میں رہے لیکن پہلے سے مختصر، پھر سجدہ میں گئے اور دیر تک سجدہ کی حالت میں رہے۔ دوسری رکعت میں بھی آپ نے اسی طرح کیا، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم فارغ ہوئے تو گرہن کھل چکا تھا۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ دیا اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا کہ سورج اور چاند دونوں اللہ کی نشانیاں ہیں اور کسی کی موت و حیات سے ان میں گرہن نہیں لگتا۔ جب تم گرہن لگا ہوا دیکھو تو اللہ سے دعا کرو تکبیر کہو اور نماز پڑھو اور صدقہ کرو۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے محمد کی امت کے لوگو! دیکھو اس بات پر اللہ تعالیٰ سے زیادہ غیرت اور کسی کو نہیں آتی کہ اس کا کوئی بندہ یا بندی زنا کرے، اے امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! واللہ جو کچھ میں جانتا ہوں اگر تمہیں بھی معلوم ہو جائے تو تم ہنستے کم اور روتے زیادہ۔
صحیح بخاری
امید ہے آپ کو بھی سمجھ آگئی ہوگی کیونکہ اوپر پیش کردہ روایت میں رکوع تو ہے لیکن رفع یدین کا زکر نہیں ، اور یہ روایت بھی بخاری کی ہی ہے ۔کیا آپ اس پر عامل ہیں ؟

اس لیے میں نے شروع میں بھی کہا اور اب بھی کہتا ہوں کہ دس کا اثبات اور وہ بھی گنتی کے ساتھ اسی طرح اٹھارہ کی نفی وہ بھی گنتی کے ساتھ یہ تمام آپ کی بچگانہ باتوں کے ساتھ بے تکے سوالات اور شریعت کا مذاق ہے۔ رکعت چاہے ایک ہو یا تیرہ ہم وہ مقامات ثابت کردیتے ہیں جن پر ہم رفع کرتے ہیں۔ باقی گنتی کے پیچھے آپ لگے ہوئے ہیں۔ آپ جانیں آپ کی گنتی۔
اور پھر آپ کے اس گنتی والے مطالبے کو پورا بھی کردیا ہے۔ جو کہ غور وفکر کرنے سے سمجھ آے گا۔
دس کا اثبات بھی نہیں دکھایا اور نفی کا باب تو ابھی کھلا ہی نہیں اسلئے گڈ مسلم صاحب دلیل پیش کیجئے صریح دو جمع دو برابر چار تو ہر عام آدمی کرلیتا ہے ، لیکن آپ کا دعوٰی ہے اطيعواالله و اطيعوا الرسول

پہلی بات:
کیوں مذاق کے موڈ میں ہیں آپ سہج صاحب ....صحابی کا عمل نہیں بلکہ نبی کریمﷺ کاعمل اور صحابی کا بیان۔
بے شک صحابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی عمل نقل کرتا ہے اور اسی نقل کو تابعی نقل کرے تو ؟
دوسری بات:
اس عمل کو بسند صحیح آپ سے ثابت بھی کروانا ہے۔ پہلی آپ کی فضول باتوں پر اچھی طرح گرفت کرلوں۔
اگر میں نے انکار کیا ہے ابن عمر رضی اللہ عنہ کی روایت کا تو پھر ضرور زور لگالیجئے گا ۔ اور فضول باتوں کی نشاندہی بھی کرتے جائیے۔

تیسری بات:
بقول آپ کے اگر روایات کا آپس میں ٹکراؤ ہے۔(حنفی اصول ٹکراؤ آجانے میں کیاکہتا ہے۔ اس بارے ایک مستقل پوسٹ کردی تھی) تو روایات کے درجہ ومقام میں بھی فرق ہے۔فرق ہے ناں ؟ ایک بات مولوی کرے اور دوسرا عام آدمی تو آپ کس کی بات کو تسلیم کریں گے؟ ایک بات قرآن میں ہو اور دوسری بات حدیث میں اور دونوں متضاد ہوں آپ کس کی بات کو تسلیم کریں گے ؟ ایک بات بخاری ومسلم کی کتب میں ہو اور دوسری باقی کتب احادیث میں اور دونوں متضاد ہوں آپ کس کی بات کو تسلیم کریں گے ؟ میں نے صحابی کے بیان میں آپﷺ کا عمل پیش کیا اور آپ نے تابعی کے بیان میں صحابی کاعمل پیش کیا ترجیح کس کو ہوگی ؟ ( فی الحال آپ کے بیان کی حقیقت کیا ہے اس پر بات نہیں ) غور کریں محترم المقام صاحب ۔
رسول الله صلى الله عليه وسلم سباطة قوم فبال قائما‏.‏
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی قوم کی کوڑی پر تشریف لائے اور آپ نے وہاں کھڑے ہو کر پیشاب کیا۔
بخاری

دیکھئیے مسٹر گڈ مسلم ، آپ خود بخاری کو اصح الکتب بعد کتاب اللہ مانتے ہیں اور خود ہی بخاری کو ترجیع بھی دیتے ہیں تو جناب سے سوال عرض کیا ہے کہ بخاری کی اس روایت پر کب عمل کرتے ہیں کبھی کبھی یا کبھی نہیں ؟ اور اگر بیٹھ کر پیشاب کرتے ہیں تو کیا سمجھ کر ؟ اگر "سنت" سمجھتے ہیں تو (یہ الگ بات ہے کہ اسے بھی "سنت" آپ اپنی دلیل سے ثابت نہیں کرسکتے)کیا بخاری کے مقابلہ میں کسی اور کتاب کو ترجیع دیتے ہیں ؟ایسے معاملہ میں بھی ترجیع بخاری کو ہی دیجئے ۔ اور ہاں اعلان ضرور کیجئے گا یہاں ایچ ون دباکر ۔
چوتھی بات:
آپ سے بھی گزارش ہے کہ آپ بھی پہلی رفع کے بارے میں نبی کریمﷺ کا فیصلہ سنائیں کہ آپ نے فرمایا ہو کہ پہلی رفع سنت ہے۔
یہ آپ پر لازم ہے مسٹر گڈ مسلم ، کیونکہ آپ صرف دوہی اصول رکھتے ہیں یعنی اطیعوا الله و اطیعوا الرسول بس ۔ اور ہم بحمدللہ چار دلائیل رکھتے ہیں ۔
پانچویں بات:
آپ کے دلائل کی وقعت پیش کرنے سے پہلے آپ سے کچھ پوچھا ہے۔
انتظار نہ کروائیے "وقعت" دبھی دکھا دیجئے ۔
چھٹی بات:
کبھی انکار کربھی نہیں سکتے ۔ ہاں ایک صورت میں جب اللہ تعالیٰ کسی آدمی سے ہدایت چھین لے۔تب وہ احادیث کا انکار کرنا شروع کردیتا ہے۔
جی بلکل درست کہا آپ نے ۔ ان شاء اللہ جلد نمونہ دیکھیں گے دیکھنے والے۔
ساتویں بات:
یہ بات تب کرنا جب آپ سے ابن عمر کے رفع الیدین کے بارے میں پوچھا جائے کہ ان کا اپنا عمل کیا تھا ؟ اور آپ بادلائل صحیحہ اس بات کو ثابت بھی کردیں۔
گڈ مسلم صاحب پیش تو کیا ہے ابن عمر رضٰ اللہ عنہ کا عمل ؟ گواہی سمیت ؟ اور الحمد للہ ثابت ہوا ہوا ہے ۔
کیا صحابی کو اختیار ہے کہ آپﷺ کے عمل کے خلاف کوئی عمل جاری کریں ؟ اگر اختیار نہیں تو پھر دو باتیں ہیں۔ پہلی بات آپﷺ نے خود رفع الیدین کومنسوخ قرار دیا ہوگا تب ہی صحابی نے رفع الیدین نہیں کیا۔ دوسری بات صحابی کی طرف منسوب وہ بات جو آپ نے پیش کی ضعیف ہو۔ اگر منسوخ ہوجانے سے صحابی نے رفع نہیں کیا تب آپ کو مسنوخیت کی دلیل پیش کرنا ہوگی اور اگر دوسری بات تسلیم کرلیں گے تب ہم بھی آپ کو دلیل کی تکلیف نہیں دیں گے۔ کیونکہ آپ خود ہی تسلیم کرلیں گے کہ میری پیش کردہ بات ہی اس قابل نہیں کہ حدیث کے مقابلے میں اس کو پیش کیا جائے۔
عن جابر بن سمرة قال خرج علينا رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم فقال مالی اراکم رفعی يديکم کانها اذناب خيل شمس اسکنوا فی الصلوٰة ۔۔الخ
سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ میں تمہیں اس طرح ہاتھ اٹھاتے دیکھ رہا ہوں گویا وہ شریر گھوڑوں کی دمیں ہیں تم لوگ نماز میں سکون سے رہا کرو۔
صحیح مسلم جلد ایک
آٹھویں بات:
آپ قبلہ اول کی طرح اس مسئلہ پر غور وفکر سے دلیل پیش کرنے پر جب بیٹھیں گے تو آپ کے سامنے بھی حقیقت کھلے گی کہ میں کہاں گھوم رہا ہوں۔
جی ہاں اندازہ ہوا ہوا ہے ، کہ کہاں گھوم رہا ہوں یعنی دیوار سے ٹکریں مارتا محسوس کر رہا ہوں ۔یا ہوا میں تیر چلارہا ہوں ، کیونکہ مخاطب کو اسکی دلیلیں بھی مجھے ہی بتانا پڑتی ہیں ، یاد کروانا پڑتا ہے کہ بھئی آپ اطیعوا الله و اطیعوا الرسول کی صدا لگاتے ہو اس سے نہ ہٹو ۔لیکن۔۔۔۔۔
مزاح نہیں محترم... پتہ نہیں آپ کو ابھی سے کیا ہوگیا ہے حقیقت کو بھی مزاح کہہ دیتے ہیں۔؟ دلیل پیش کی ہے۔ آپ خود دیکھ لیں۔ دس کا اثبات پیش کیا ہے۔ آپ خود دیکھ لیں۔ ایک بات کو پورا کردیا ہے۔ یہ بھی آپ خود دیکھ لیں محترم سہج صاحب۔
اگر آپ دو جمع دو برابر چار کو دلیل مانتے ہیں تو اطیعوا الله و اطیعوا الرسول کا نعرہ لگانا چھوڑ دیجئے ۔ پھر دو جمع دو برابر چار اور چار جمع چار برابر آٹھ کہیں گے تو تسلیم کیا جائے گا ، ایسے نہیں سر جی ۔
کردیا ہے۔ آپ جب سمجھیں گے۔سمجھ آجائے گی۔ لیکن اگر نہ بھی سمجھ آئے تو آسان ترین انداز میں آپ کو سمجھا بھی دیا جائے گا۔ پریشان نہ ہوں۔
آپ صرف دس کے اثبات اور اٹھارہ کے نفی والی "دلیل" پیش کیجئے ، تاکہ ہم پھر اگلی بات کی طرف بڑھیں ۔ یعنی سنت یا حدیث اور اگر سنت تو پھر فجر جیسی یا عصر جیسی ۔۔۔۔۔
واہ خوب سہج صاحب کیا اب آپ الزام لگانے پہ آگئے ہیں؟ اس کے علاوہ اب باقی کچھ نہیں بچا کہنے کو ؟ ’’بھئی قیاس آپ کے ہاں دلیل شرعی نہیں ۔‘‘ میں نے کہاں اور کس جگہ کہا ہے کہ میں قیاس کو نہیں مانتا۔ ثبوت ۔ثبوت۔ثبوت۔ ورنہ الزام قبول فرمائیں۔
سبحان اللہ ، خوشی ہوئی جان کر کہ آپ
اطیعوا الله و اطیعوا الرسول
کے علاوہ "قیاس" بھی مانتے ہیں ۔ کیا خیال ہے آپ کی اس بات پر اک نیا تھریڈ نا جاری کریں ؟
ابن عمر کی پیش دلیل کی حقیقت سامنے آنے سے پہلے تک آپ کو اس پر گزارہ کرنے کی اجازت بھی ہے اور آپ سے تب تک کوئی نہیں پوچھے گا۔کم از کم میں نہیں۔ لیکن جب اس پیش کردہ روایت کی حقیقت سامنے آجائے گی تب اس دلیل کے پاس بھی آپ کو پھٹکنے نہیں دیا جائے گا۔۔ سن لیا محترم سہج صاحب۔ فلحال آپ اسی عارضی گزارہ پر ہی گزارہ کریں۔
یہ ہے فرقہ اہل حدیث کا اصل انداز بیان ۔ فلحال اس سے زیادہ نہیں کہوں گا ۔۔۔۔۔ بس حقیقت کا انتظار کرتے ہیں ۔
آپ نے صحیح مسلم کی حدیث پیش کی... پہلی بات کیا آپ بتا سکتے ہیں اس میں کس رفع کے بارے میں کہا جارہا ہے؟ پہلی رفع کے بارے میں؟ یا باقی رفعوں کےبارے میں ؟ یا سب کے بارے میں ؟ دوسری بات آپ نے کن الفاظ سے پہلی رفع کا استثناء ثابت کرکے باقی رفعوں کو شریر گھوڑوں کی دموں کی مثل قرار دیا ہے ؟ تیسری بات کیا آپ کے علاقے میں گھوڑے اوپر نیچے دم ہلاتے ہیں یا دائیں بائیں ؟ یا ایک بار اوپر ایک بار دائیں ایک بار نیچے ایک بار بائیں ؟
ایک تانگہ چلانے والے سے تصدیق کروائی تھی کسی نے تو اس نے بتایا تھا کہ جب گھوڑا بدمعاشی کرتا ہے اس وقت وہ اوپر نیچے دم مارتا ہے ۔ باقی آپ "تحقیق" کرلیجئے گا ۔
جی جی بھائی جان جی......یہ تو آپ سے مطالبہ ہے اور رہے گا۔
صریح دلیلیں پیش کردی گئی ہیں ۔
یعنی جو مقلد ہو وہ کھل کھیلے۔۔ وہ کسی چیز کا پابند نہیں ؟ چلیں کم از کم آپ جو اعمال کرتے ہیں ہم انہیں کی دلائل تو صریح صحیح مانگ سکتے ہیں یا یہ بھی حق آپ کے مقلد ہونے سے ہم سے چھین لیا جاتا ہے۔ کیا مقلد جو مرضی کرے جس طرح شریعت میں من مانی کرے کوئی اس بات کے قابل نہیں کہ وہ مقلد سے صریح صحیح دلیل کامطالبہ کرسکے۔ ..... بھائی جان آخر قلد ہوکر آدمی ایسی کس خصوصیت کو پا لیتا ہے کہ اس کو شریعت کے اندر من مانی کرنے کی سرٹیفکیٹ مل جاتی ہے۔۔۔ ذرا ہمیں بتانا پسند فرمائیں گے ؟
آپ خود ہی بتائے جب آپ " مقلد" کو کہ جس کے گلے میں "پٹہ" ڈلا ہوا ہے وہ ایس کھل کرکھیلتا ہے اور اپنی مرضی چلاتا ہے تو پھر جو "غیر مقلد " پٹہ " توڑ چکے ان کا کیا حال ہوگا ؟ بتانا پسند کریں تو بتادیجئے۔
اگر یہ پابندی ہم پر ہے تو بالاولیٰ آپ پر بھی ہے۔
جی ہاں مجھ پر بھی ہے اور میں الحمدللہ دلائل پیش کرچکا ایک کا اثبات اور باقی کی نفی ۔ اور آپ نے دلیل پیش کرنی ہے دس کا اثبات اور اٹھارہ کی نفی ۔ ٹھیک ؟
سمجھ تو پہلے گیا تھا۔ اور سمجھ کر ثابت بھی کردیا تھا لیکن آپ کی سمجھ کو پتا نہیں کس کی سمجھ لگ گئی ہے۔ جو آپ کو آسان انداز میں لکھی اردو بھی سمجھ نہیں آرہی۔۔چلیں خیر کوئی بات نہیں۔
میرے اٹھائے گئے سوالات کے جواب اب پیش کرنے ہیں آپ نے صرف ۔یعنی
دس جگہ رفع یدین کرنے کا اثبات مکمل، اور اٹھارہ جگہ کی نفی مکمل
بغیر قیاس لگائے، اور اگر قیاس آپ کی تیسری دلیل بن چکی ہے تو اس کی دلیل فراہم کردیں پھر ان شاء اللہ آپ سے دو دلیلیں نہیں تین مانگیں گے اور ساتھ میں آپ کو اپنا نام بھی تبدیل کرنا ہوگا جیسے ہم چار دلیلیں مانتے ہیں تو ہم ہوئے اہل سنت والجماعت حنفی ویسے ہی آپ کو بھی نام رکھنا ہوگا جیسے کہ اہل حدیث والقیاس، کیا خیال ہے ۔
بغیر تاویلات
امید ہے سمجھ گئے ہوں گے آپ ؟ سوری بھول گیا تھا کہ آپ کہہ چکے
سمجھ تو پہلے گیا تھا۔
شکریہ
نوٹ : گڈ مسلم نے پوسٹ نمبرچھبیس اور اٹھائیس بھی پیش کی ہوئی ہے ۔ ان شاء اللہ اس پر بھی گزارشات پیش کرو گا ۔ وقت ملتے ہی
 

sahj

مشہور رکن
شمولیت
مئی 13، 2011
پیغامات
458
ری ایکشن اسکور
657
پوائنٹ
110
پوسٹ نمبر21​
محترم سہج صاحب رانگ کو جو میں نے سمجھا آپ کےالفاظ بھی اسی کوواضح کررہے تھے۔ آپ کے الفاظ کی مراد کیا تھی ؟ وہ تو آپ ہی جانتے تھے۔ مراد پیش کردی تو جزاک اللہ۔ لیکن جو پوسٹ کا مطالعہ کریں گے وہ خود سمجھ جائیں گے۔کہ محترم سہج صاحب کیسے بیان جاری کررہے ہیں۔ ماقبل پوسٹ میں کچھ اور بعد کی پوسٹ میں کچھ۔
اچھا جو مطالبہ آپ نے کیا اس پر مزید وضاحت میں نے پیش کی کہ آپ کو اس انداز میں دلیل چاہیے؟ آپ نے کہا رانگ۔ تو پھر آپ کا بار بار یوں مطالبہ کرنا دس کا اثبات اٹھارہ کی نفی کیا ثابت کرتا ہے؟۔ سہج صاحب میں سمجھنے سے قاصر ہوں۔ واضح تضاد نظر آنے پر بھی آپ کے اس پوسٹ میں بیان سے متفق ہوتا ہوں۔ کیا یاد کریں گے۔
میری جانب سے ادا کیئے گئے الفاظ
آپ صرف اٹھارہ جگہ کی نفی اور صرف دس جگہ کا اثبات دکھائی
ان میں کس قسم کا ابہام ہے جو آپ کی سمجھ میں کچھ اور آگیا ۔ آپ دعوے دار ہیں اطیعو اللہ و اطیعوالرسول کے اور آپ دو ہی دلیلیں بھی مانتے ہیں ۔یہی مانتے ہیں ناں آپ؟ تو پھر دو جمع دو برابر چار بیچ میں کیسے آگیا ؟ دیکھئیے گڈ مسلم صاحب میں پہلی بار کرنے کی اور باقی تمام کی تمام نہ کرنے کے دلائیل پیش کرچکا ۔ کیونکہ ہمارا عمل بھی یہی ہے ۔ اور آپ کا عمل مختلف آپ رفع یدین شروع ، رکوع جاتے ،اٹھتے،اور تیسری رکعت میں کرتے ہیں اور سجدوں وغیرہ میں چھوڑتے ہیں ۔ تو بھئی حدیث میں صراحت آپ کو دکھانا لازم ہے جس کا مطلب وہی بنے جو آپ کا عمل ہے ، اور یہ آپ نے دکھایا نہیں اور صرف دو+2=4 کیا ہے ۔ اسلئے آپ سے گزارش کی جاتی ہے کہ وہ دلیل پیش کیجئے جس سے آپ کا رفع یدین کرنے والا عمل بغیر 2+2=4 کئے نظر آئے ۔
ماشاء اللہ ....ماشاء اللہ.......ماشاء اللہ
آپ نے یہ تو تسلیم کرلیا کہ آپ نے چار جگہ رفع الیدین کی روایت پیش کی ہے۔ اور میں نے بھی یہی کہا تھا کہ سہج صاحب گنتی کی طرف نہ جائیں بلکہ مقام وجگہ کےاثبات کی طرف آئیں گنتی خود واضح ہوجائے گی۔ اور اب آپ نے تسلیم کرہی لیا۔چلیں شکر ہے۔ کچھ تو سمجھ آیا.....اب یہ نہ کہنا کہ گڈمسلم صاحب میں نے پیش کرنے کا اقرار کیا ہے۔اس کا ثبوت بھی حاضر ہے۔
٭ چھٹی بات یہ نہ سمجھئیے گا گڈ مسلم کہ میں آپ کی پیش کردہ روایت کا انکار کر رہا ہوں ....پوسٹ نمبر15
٭ صرف یہ بتانے کو کہ آپ نے صحابی کا عمل ہی پیش کیا ہے جسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچایا گیا ۔ اور اس کا میں نے انکار کیا ہی نہیں ، ...پوسٹ نمبر21
آپ کے یہ ثابت کررہے ہیں کہ آپ نے میری پیش حدیث کا انکار بھی نہیں کیا۔
دیکھیں سہج صاحب ایک تو آپ نے یہ تسلیم کرلیا کہ آپ نے چار جگہ رفع کی روایت پیش کی اور دوسرا آپ نے یہ بھی تسلیم کرلیا کہ میں نے آپ کی روایت کا انکار نہیں کیا۔۔دیکھیں بھائی دو باتی ہوتی ہیں ہمیشہ انکار یا اثبات..... اگر انکار نہیں کیا تو پھر ماننے سے کیوں ڈر رہے ہیں ؟ جبکہ اپنے الفاظ میں چار جگہ رفع کے اثبات اور پھر ان چار جگہ کے انکار کی نفی کی صورت میں اثبات کی طرف مائل بھی ہوچکے ہیں۔
اشارہ کردیا ہے۔ خود سمجھ جائیے گا۔
جناب اب دیکھ لیں خود تسلیم بھی کرلیا ۔۔اور تسلیم کرکے بھی نہیں مان رہے۔۔ یعنی میں نہ مانوں والی بات کو بھی آپ کراس کرچکے ہیں۔ چلو ہم تو کوشش کررہے ہیں۔ باقی ہدایت وتوفیق اللہ تعالیٰ ہی دےسکتا ہے۔
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی روایت کا الحمدللہ میں منکر نہیں ۔ یہ میں پہلے بھی بتاچکا ہوں آپ کو ۔ ہاں ابن عمر رضی اللہ عنہ اگر ہمیشہ یعنی دنیا سے رخصت ہوتے وقت تک وہی عمل کرتے رہے جو روایت سے پیش کیا گیا تو جناب آپ ایسی حدیث پیش کردیجئے ان شاء اللہ اسے بھی مان لوں گا ۔ لیکن یہ یاد رکھئے ابن عمر رضی اللہ عنہ کی روایت جس میں رفع یدین آپ نے دکھایا ہے اس میں یہ صراحت نہیں کہ ہر رکعت کے رکوع جاتے اور اٹھتے رفع یدین کرنا ہے ۔ اسی لئے آپ 2+2=4 کرتے ہیں ۔ جبکہ ہم ایسا نہیں کرتے بلکہ ایک کا اثبات اور 27 کی نفی صاف اور صراحت کے ساتھ تابعی کی گواہی کے ساتھ پیش کردی ہیں ۔ آپ کو اگر گواہون کی گواہی پر اعتراض ہے تو اعتراض بھی کیجئے اور اسے ثابت بھی کیجئے ۔

یہ پہلے زمانہ اور بعد کا زمانہ ؟ میں کچھ سمجھا نہیں مسٹر سہج صاحب؟
پہلا زمانہ نبی کریمﷺ کا ہے اور صحابی? نبی کریمﷺ کاعمل بتلا رہا ہے۔ اور دوسرا زمانہ صحابی? کا ہے اور تابعی صحابی? کا عمل بتلا رہا ہے۔ کیا نبی کریمﷺ کے عمل کو صحابی? کے عمل سے مقابلہ کرکے صحابی? کے عمل کو نبی کریمﷺ کے عمل پر فوقیت دے رہے ہیں.........؟؟؟؟؟؟
ہونا تو یہ چاھئے کہ آپ صاف اور صریح دلیل پیش کرتے کہ یہ دیکھو دس جگہ کا اثبات اور اٹھارہ جگہ کی نفی ، لیکن آپ نے 2+2=4 کا سہارا حاصل کیا ،کیا دو جمع دو کرنا آپ کی دلیل ہے ؟ تابعی نے صحابی کا عمل بتایا اور صحابی نے وہ عمل کیا جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا تھا ۔ آپ کا یہ کہنا کہ ہم تابعی یا صحابی کے عمل کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل پر فوقیت دیتے ہیں یہ آپ کی غلط بیانی ہے ۔ اصل میں صحابی نے جو دیکھا اسے اسی صورت میں بیان کردیا جیسے حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا کھڑے ہوکر پیشاب کرنا ۔اور سجدہ کی رفع یدین بھی روایات سے ثابت ہوتی ہے اور اس کا انکار بھی ۔ تو کیا وجہ ہے کہ آپ وہاں پہلے زمانے اور بعد کے زمانے کے قائل ہیں ؟ اور مجھ پر ہی الزام لگا رہے ہیں کہ میں
صحابی? کے عمل کو نبی کریمﷺ کے عمل پر فوقیت دے رہے ہیں.........؟؟؟؟؟؟
۔ گڈ مسلم صاحب صحابی کا عمل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی عمل ہوتا ہے کیونکہ صحابی اپنی منشاء سے نہیں کرتا بلکہ منشاء نبوت کے مطابق عمل کرتا ہے، چاھے پہلے زمانے کا ہو یا بعد کے زمانے کا ۔ ہاں ہم کون سے زمانے کے عمل کو اپنائیں تو سیدھی سی بات ہے اس عمل کو جو آخری ہو۔ جیسے قبلہ کا معاملہ ۔ اور رفع یدین کا معاملہ ۔

عجیب بات ہے۔ ایک شرعی حکم اور وہ حکم جس پر خود نبی کریمﷺ عمل بھی کرتے رہے کو صحابی? کے عمل کے مقابلہ میں لا کر عمل رسولﷺ کو عمل صحابی? کی وجہ سے چھوڑا جارہا ہے۔ یہ کیسا صحابی? تھا جس نے نبی کریمﷺ کے عمل کے خلاف عمل جاری کرلیا تھا ؟
یہ آپ اپنے دل سے پوچھئیے جناب گڈ مسلم ، کیونکہ یہ اک چھوٹا سا نمونا ہے جو آپ نے صحابی کی شان میں ادا کیا ہے ۔ یہی فرق ہے آپ میں اور مجھ میں کہ میں کہہ رہا ہوں کہ صحابی کی دونوں باتیں ٹھیک ہیں رفع کرنے کی اور رفع نہ کرنے کی ، رفع کرنے کی بات نبی صلی اللہ علیہ کا پہلے زمانے کا عمل بتاتی ہے اور رفع نہ کرنے کا عمل بتاتا ہے کہ رفع صرف پہلی رکعت کا ہی بچا تھا باقی کو چھوڑ دیا گیا ۔

آپ دو باتیں پیش کریں گے ؟

1۔ اگر آپ صحابی? کے عمل کو تسلیم کررہے ہیں تو آپ کو پہلے نبی کریمﷺ سے منسوخیت ثابت کرنا ہوگی۔

2۔ اگر منسوخیت ثابت نہیں کرسکتے تو پھر آپ کا صحابی پر بہتان ہوگا۔ اور آپ صحابی? پر یہ الزام لگا رہے ہونگے کہ نعوذ باللہ وفات کے بعد صحابیوں نے اعمال میں اپنی اپنی مرضی کے مطابق تبدیلیاں کرلی تھیں ؟
عن جابر بن سمرة قال خرج علينا رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم فقال مالی اراکم رفعی يديکم کانها اذناب خيل شمس اسکنوا فی الصلوٰة ۔۔الخ
سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ میں تمہیں اس طرح ہاتھ اٹھاتے دیکھ رہا ہوں گویا وہ شریر گھوڑوں کی دمیں ہیں تم لوگ نماز میں سکون سے رہا کرو۔
صحیح مسلم جلد ایک
دیکھ لیا آپ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ؟ اس سے نماز “ میں “ کی جانے والی رفع یدین منسوخ ۔
اور ہم اہل سنت والجماعت حنفی صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے اعمال و اقوال کو حجت مانتے ہیں اس بنیاد پر کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ کے گواہ ہیں۔ اور خصوصاً خلفہ راشدین رضوان اللہ علیہم اجمعین ۔

دوسری بات کا جواب اپنے آپ سے لیجئے یعنی فرقہ جماعت اہل حدیث سے کہ وہ خلفہ راشدین کے اعمال کو “حجت“ کیوںنہیں مانتے ؟ مثلاً تراوی بیس رکعت، تین طلاق کا مسئلہ وغیرہ ۔۔۔ اور ہاں رفع یدین بھی ۔ اسکا زکر ان شاء اللہ آگے چل کر ضرور کروں گا ۔

اس بارے میں آپ کو کہہ چکا ہوں اور یہ بات الگ پوسٹ میں بھی لکھتا ہوں۔ کہ ابن عمر? کا جو عمل آپ نے پیش کیا کیا وہ اسنادی اعتبار سے درست بھی ہے کہ نہیں ؟
آپ اگر نہیں مانتے تو یہ آپ کی ذمہ داری ہے کہ اسے اسنادی اعتبار سے غلط ثابت کریں ۔

مذاق بہت کرتے ہیں آپ ؟ ارے بابا صحابی کا عمل نہیں نبی کریمﷺ کاعمل صحابی بتا رہا ہے۔ اور آپ کی پیش کردہ روایت میں تابعی صحابی کا عمل بتلا رہا ہے۔ دونوں روایتوں میں فرق ہے یا نہیں ؟
صحابی کا عمل بتایا تابعی نے اور صحابی عمل بتاتا اور کرتا ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ۔ ٹھیک؟ تو پھر آپ کا اعتراض پہنچتا ہے صحابی تک کہ انہوں نے معاذ اللہ نبی کے طریقے کے خلاف کیا ؟ رائیٹ یا رانگ ؟ تفصیل کیجئے گا تاکہ مجھے معلوم ہوسکے کہ آپ صحابی کے عمل کو کیسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل تسلیم کرتے ہو ۔اور کرتے بھی ہو یا نہیں۔

یعنی اگر آپﷺ کا عمل ثابت کردیا جائے تو آپ تسلیم نہیں کریں گے۔ بلکہ نبی کریمﷺ کا فرمان آپ کو دکھانا پڑے گا۔؟ کیا میں صحیح سمجھا ہوں محترم المقام صاحب ؟
آپ نے جو روایت پیش کی اور اسمیں جتنا رفع یدین کا اثبات تھا اسے میں مان چکا یہ الگ بات ہے کہ وہ عمل “پہلے زمانے“ کا تھا ، لیکن چلو آپ نے کچھ دکھایا تو سہی ۔ باقی کی رفع یدین کی گنتی آپ نے اپنی رائے یا کسی علامہ صاحب کی رائے سے بتائی ہے یعنی 2+2=4 کرکے ۔ اگر اسے آپ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان سمجھتے ہیں تو برائے مہربانی بتادیجئے۔۔۔۔۔

اور فیصلہ دکھانا آپ کی ذمہ داری ہے کیونکہ آپ ناہی اجماع کو دلیل مانتے ہیں اور ناں ہی قیاس کو ۔ٹھیک؟
الزام ہے ؟ یا مذاق ؟
درخواست ہے جناب درخواست ۔ کیوں کہ آپ کا دعوٰی ہے اطیعوا الله و اطیعوا الرسول۔ امید ہے سمجھ گئے ہوں گے۔

باقی رہا پہلی تکبیر سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے ؟ تو جناب ٹکراؤ سے نقصان آپ کا ہے میرا نہیں ، کیونکہ میں تو کہتا ہوں کہ آپ کی پیش کردہ روایت پہلے زمانے کی ہے اور میری پیش کردہ روایات بعد کے زمانے کی ہے
تو پھر آپ ٹکراؤ والی بات ہی نہ کرتے۔۔۔ کہیں میں نے غلطی سے لکھ دیا ہے؟
کچھ تو آپ بھی بتادیجئے اگر ایسی روایت آجائے کہ جو مختلف اعمال کا پتہ دیتی ہیں تو جناب کا فرقہ اس بارے میں کیا اصول اپناتا ہے ؟دونوں کو چھوڑتا ہے یا کسی کا فیصلہ ڈحونڈتا ہے ؟ اگر فیصلہ تو پھر کس کا ؟ میں نے تو آپ کی دلیل کے لہاذ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ مانگا ہے ۔

ہا ہا ہا ہا ........... پہلے اور آخری زمانہ کی بات آپ کررہے ہیں میں نے اس کی کوئی بات ہی نہیں کی۔ میں مانتا ہوں یا نہیں برائے مہربانی اس بارے آپ کو کوئی بات نہیں کرنی چاہیے۔
ٹالئیے نہیں جناب رفع یدین اٹھارہ جگہ آپ نہیں کرتے لیکن ان کا زکر روایات میں موجود ہے ۔ وہاں جب پہنچیں گے تو آپ کو “زمانے“ کی بات نہیں کرنے دیں۔ کیا خیال ہے ؟ اور نماز میں باتیں بھی کسی “زمانے“ میں ہوتی تھیں ؟ بے فکر رہیں موضوع مجھے معلوم اور یاد ہے یہ مثال تو ویسے ہی پیش کردی ہے تاکہ آپ کو بھی “ زمانے “ یاد رہیں ۔

واہ کیا خوب....تضاد بیانی۔ دونوں روائیتوں کے بارے میں خود کہا کہ دونوں میں ٹکراؤ ہے۔کہاں یا نہیں ؟ میں نے پوچھا کہ اگر آپ ٹکراؤ کا کہتے ہیں تو حنفی اصول کی روشنی میں پہلی رفع سے بھی ہاتھ دھونا پڑے گا۔؟ آپ نے کہا کہ میں آپ کی پیش کردہ حدیث سے انکار بھی نہیں کررہا۔ اور اب خود کہہ رہے ہیں کہ جب حدیث میں ٹکراؤ ہوتو ہم مقلد امام کا قول مان لیتے ہیں۔
تو جناب نہ آپ میری روایت کا انکار کررہے ہیں؟ نہ آپ اپنی پیش کردہ روایت کا انکار کررہے ہیں؟ نہ اپنے حنفی اصول کا انکار کررہے ہیں؟ اور ساتھ دونوں روائیتوں میں ٹکراؤ والی بات بھی کررہے ہیں اور یہ سب کرنے کے بعد یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ ’’ اگر حدیث میں ٹکراؤ ہو تو ہم مقلد امام کا قول مان لیتے ہیں‘‘ تو ٹکراؤ کی صورت میں امام کا قول ماننے کا مطلب حدیث کا انکار ہوتا ہے یا کچھ اور؟ کیا جو حنفی اصول میں نے پیش کیا یہ اصول امام سے ثابت نہیں ؟ اگر ثابت ہے تو پھر اس کی روشنی میں آپ پہلی رفع کرسکتے ہیں یا نہیں ؟ حالانکہ آپ نہ پہلی رفع کرسکتے ہیں اور نہ بعد کی۔ چلیں آئینہ دکھا دیا ہے۔ سمجھنے والے خود سمجھ جائیں گے۔
ویسے مزے کی باتیں کرلیتے ہیں آپ ؟
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا “ فیصلہ “ پیش کردیجئے صرف ۔ بات صاف ہوجائے گی ، کیونکہ آپ اطیعو اللہ و اطیعوالرسول ہی ماننے کا دعوٰی کرتے ہیں۔

دیکھیں محترم پہلے رسولﷺ کا عمل تھا کیونکہ آپﷺ کا زمانہ پہلے تھا۔ بعد میں صحابی? کا زمانہ آیا۔ یہ ثابت کرنا تو آپ پہ ہے سہج صاحب کہ کیا کوئی صحابی آپﷺ کے عمل کے خلاف عمل کرسکتا ہے ؟ کیونکہ میں نے آپ کو رسولﷺ کا عمل دکھایا۔ آپ نے صحابی کا۔ ظاہر ہے اگر آپ میں مسلمانیت زندہ ہے تو رسولﷺ کے عمل کو صحابی? کے عمل پر فوقیت دیں گے۔دیں گے یا نہیں ؟ جب آپ فوقیت کو تسلیم کرلیں گے تو پھر یہ آپ کو ہی ثابت کرنا پڑے گا۔کیونکہ صحابی کا عمل آپ نے ہی آپﷺ کے خلاف پیش کیا ہے اور ساتھ یہ بھی بتانا پڑے گا کہ نعوذ باللہ رسولﷺ کے جانے کے بعد اصحاب رسولﷺ نے اعمال میں تبدیلیاں کرلیں تھیں ؟ یہ تو ثابت کرنا آپ پر ہے محترم سہج صاحب ۔ اور آپ ہیں جو مجھ سے پوچھے جارہے ہیں۔ ناں سہج صاحب ناں۔
ابن عمر? کا جو آپ نے عمل پیش کیا اس عمل کو درست ثابت کرنا ہوگا۔
عن علقمہ عن عبد اﷲ انہ قال الا اصلی بکم صلٰوة رسول اﷲﷺ فصلی فلم یرفع یدیہ الا مرة واحدة۔
(نسائی )
حضرت عبداﷲ بن مسعودؓ فرماتے ہیں کیا میں تم لوگوں کورسول اﷲﷺ کی نماز پڑھ کہ نہ دکھاؤں پھر انہوں نے نماز پڑھی اور صرف (شروع نماز میں) ایک مرتبہ رفع یدین کیا۔


1۔میں ہر صحیح حدیث کو صحیح مانتا ہوں چاہے وہ جس بھی کتاب میں ہو۔
2۔ مسلم کی حدیث کے بارے میں کچھ تو آپ سے پوچھا ہے۔ باقی اس پر مزید بھی باتیں ہوجائیں گی۔ جلد بازی کی کوئی ضرورت نہیں۔
بہت اچھی بات ہے کہ آپ ہر صحیح حدیث کو صحیح مانتے ہیں ۔باقی رہا مسلم کی حدیث کے بارے میں آپ کا سوال تو بھائی صاحب اگر اس حدیث سے آپ نماز کے شروع کی رفع یدین بھی “ جانے “ کے قائل ہیں تو پھر اس پر آپ کا پہلا حق ہے عمل کرنے کا کیونکہ آپ اطیعو اللہ و اطیعو الرسول کے دعوے دار ہیں ۔ اور ہم اگلی بات کو بھی مانتے ہیں
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ ۖ فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ إِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۚ ذَلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا
﴿ النساء،انسٹھ﴾‏
مومنو! خدا اور اس کے رسول کی کی فرمانبرداری کرو اور جو تم میں سے صاحب حکومت ہے ان کی بھی اور اگر کسی بات میں تم میں اختلاف واقع ہو تو اگر خدا اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہو تو اس میں خدا اور اسکے رسول کے حکم کی طرف رجوع کرو اور یہ بہت اچھی بات ہے اور اس کا مآل بھی اچھا ہے ‏

تو فیصلہ دکھائیے جناب ورنہ اقرار کیجئے کہ آپ رفع یدین بھی کسی کی تقلید میں کرتے ہیں ، یا ایسا کریں کہ مان لیں کہ آپ شافعیوں کی “دلیل“ سے رفع یدین کرتے ہیں جھگڑا ہی ختم کردیجئے ۔ پھر ان شاء اللہ آپ سے کبھی بھی کوئی حنفی دس کا اثبات اور اٹھارہ کی نفی کا مطالبہ نہیں کرسکے گا ۔

شکریہ
 

sahj

مشہور رکن
شمولیت
مئی 13، 2011
پیغامات
458
ری ایکشن اسکور
657
پوائنٹ
110
پوسٹ نمبر23​
[/H2]
اقتباس اصل پیغام ارسال کردہ از: sahj پیغام دیکھیے
گڈ مسلم صاحب یہ سوال آپ سے کیا جاچکا پوسٹ نمبر دو میں
اسلئے اغیرہ وغیرہ باتیں بند کردیجئے اور سیرئیز ہوکر بتادیجئے۔
سوال دوبارہ پیش ہے۔ کیونکہ میں اس بارے جاننے کی خواہش ہی نہیں رکھتا کہ یہ سنت ہے یا کچھ اور بس مجھے تو اتنا معلوم ہے کہ آپﷺ نے کیا مجھے کرنا ہے۔ یہ خواہش تو آپ رکھتے ہیں۔ اس لیے جو رفع آپ کرتے ہیں۔ بادلیل اس کو ’’ فرض ؟ سنت ؟ مستحب ؟ مکروہ ؟ جائز ؟ ناجائزہ ؟ اغیرہ ؟ وغیرہ ؟ ثابت کردیں۔ جو جواب آپ کا ایک رفع کے بارے میں ہوگا یہی جواب میرا دس رفعوں کے بارے میں سمجھ لیجیے گا۔ سمجھ لیں گے یا سمجھانا پڑے گا ؟
فما کان جوابکم فہو جوابنا
گڈمسلم صاحب ، آپ سے کتنی بار پوچھ چکا ہوں کہ بتادیجئے
١-رفع الیدین آپ کے ہاں سنت ہے یا حدیث؟
اگر سنت ہے تو دلیل پیش کردیں اور اگر حدیث ہے تو بھی دلیل پیش کریں اور ہماری جانب سے آپ کو یہ بتانے کی ضرورت تو ہے نہیں کہ آپ کی دو دلیلیں ہیں یعنی قرآن اور حدیث۔ اسلئے امتیوں کے اقوال بلکل پیش نہیں کرنے۔
لیکن آپ ہیں کہ الٹا مجھ ہی سے پوچھ رہے ہیں ؟ جناب آپ ہیں دعوے دار اطیعوا الله و اطیعوا الرسول کے ، اور تقلید میری یعنی اک حنفی مقلد کی کرنے کو تیار ہیں ؟ جناب اگر میں کہوں کے ہم قیاس کے زریعے شروع نماز کی رفع کو "سنت" مانتے ہیں تو کیا آپ بھی یہی دلیل مان لیں گے ؟ اور اطیعوا الله و اطیعوا الرسول دعوے کا انکار کردیں گے ؟ بھئی آپ صحابی کے عمل کو تو اپناتے نہیں جس پر گواہی بھی پیش کردی ہے اور مجھ غریب کو اپنا امام بنانے پر تیار ہیں ؟ مسٹر گڈ مسلم یہاں آپ مجھ جاھل مقلد کے ساتھ مناظرہ ٹائپ بحث میں مشغول ہیں ۔ اور دلیل پیش کرنے سے ناجانے کیوں ڈرتے ہیں یعنی دس جگہ رفع الیدین کرنے کی اور اٹھارہ جگہ نہ کرنے کی (یہ یاد رہے ابھی رفع یدین کو گنتی کے ساتھ ثابت کرنے کے بعد آپ نے اس کا حکم بھی بتانا ہے یعنی سنت ہے یا حدیث؟اگر سنت ثابت کرنے میں کامیاب ہوبھی جائیں تو پھر یہ بھی بتانا ہے کہ فجر جیسی ہے یا عصر جیسی؟)
کیونکہ میں اس بارے جاننے کی خواہش ہی نہیں رکھتا کہ یہ سنت ہے یا کچھ اور بس مجھے تو اتنا معلوم ہے کہ آپﷺ نے کیا مجھے کرنا ہے۔
پہلے بھی آپ کے اس اصول کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا اور مجھے بھی کرنا ہے کی بابت یہ پوچھ چکا ہوں کہ جناب کھڑے ہوکر پیشاب ہمیشہ کرتے ہیں ؟ بھئی حدیث میں آیا ہے اور وہ بھی اصح الکتب بعد کتاب اللہ میں ۔کیوں یہی کہا تھا ناں آپ نے اور ابھی تو اصح الکتب بعد کتاب اللہ کہنے کی بھی دلیل آپ پر باقی ہے جناب ۔ جلدی کیجئے اور یہ بھی ثابت کیجئے اپنے دعوے اطیعوا الله و اطیعوا الرسول کے مطابق ۔ یا پھر اعلان فرمادیں کہ آپ اہل سنت والجماعت حنفی دیوبندی بننے جارہے ہیں کیوں کہ آپ میری دلیل کو اپنے لئے اپنانے پر تیار ہوچکے ہیں ۔ اس بارے میں ضرور لکھئیے گا ۔

دلیل سے تو ثابت کیا ہے۔ تبھی تو آپ نے اس دلیل کا جواب ہی نہیں دیا۔ بلکہ اپنے الفاظ میں لکھ بھی دیا کہ میں اس کا انکار نہیں کرتا۔ دلیل دوبارہ پیش کیے دیتا ہوں
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ
" كان إذا دخل في الصلاة كبر ورفع يديه ، وإذا ركع رفع يديه ، وإذا قال : سمع الله لمن حمده ، رفع يديه ، وإذا قام من الركعتين رفع يديه " (صحيح البخاری، كتاب الأذان، باب رفع اليدين إذا قام من الركعتين، حديث:‏739)
’’ جب نماز کا آغاز فرماتے تو تکبیر کہتے اور رفع الیدین فرماتے، اور جب رکوع کرتے تو رفع الیدین کرتے اور جب سمع اللہ لمن حمدہ کہتے تو رفع الیدین کرتے، اور جب دو رکعتوں سے اُٹھتے تو پھر بھی رفع الیدین کرتے۔‘‘
غور سے پڑھ لینا محترم سہج صاحب۔
الحمدللہ غور سے پڑھا بھی ہے اور آپ کو جواب میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا اپنا عمل بھی بتادیا ہے گواہوں کی گواہی سمیت ۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ میں آپ کو ابن عمر رضی اللہ عنہ کی ویڈیو نہیں دکھاسکتا ۔ مجبوری ہے گواہوں کی گواہی کو ہی ماننا پڑے گا ۔ جیسے آپ کرتے ہیں امتیوں کی گواہی کو ہی تسلیم کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم صرف اللہ کی مانتے ہیں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ۔ یہ تو آپ ہی بتائیے جناب کہ جس روایت کو آپ نے اصح الکتب بعد کتاب اللہ یعنی بخاری شریف سے پیش فرمایا اس روایت کو اللہ نے صحیح قرار دیا یا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ؟ نہیں کہا ناں ؟ تو پھر آپ نے کیسے مانا اس روایت کو کہ اس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی فعل بیان ہوا ہے ؟ (یاد رہے یہ سوال تقلید کے منکر سے ہے)۔ مجھ سے پوچھیں تو آپ سوائے امتیوں کی ذاتی رائے ماننے کے اور کچھ نہیں کرتے ۔ اگر شک ہے اس بات میں تو پھر اللہ کی یا پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق پیش کردیجئے بخاری کی روایت کے لئے ۔ کرسکتے ہیں ایسا ؟ ہاں یا نہیں بس۔ (اگر ہاں تو تصدیق پیش کرنا ضروری ہے)۔

پوسٹ پڑھتے ہوئے ایک تو آپ کن خیالوں میں گم ہوتے ہیں۔؟ یہ آپ جانتے ہیں۔ اگر توجہ سے پوسٹ پڑھی ہوتی تو ضرور پتہ چل جاتا کہ شاہد بھائی نے میری مدد کی ہے یا میں نے ان کی پوسٹ سے اقتباس لیا ہے بشکریہ کہہ کر۔؟ چلیں خیر ہم تو تاکید ہی کرسکتے ہیں کہ سہج صاحب جب پوسٹ پڑھا کریں تو ہر طرح کےخیالات سے دور ہو کر پوری توجہ سے پڑھا کریں اور پوری توجہ سے جواب بھی دیا کریں۔کیونکہ تضاد ہوتا ہے آپ کی پوسٹ میں۔
بس ؟؟ اتنا ہی کہنا تھا آپ نے ؟ گڈ مسلم صاحب بات جیسی ہوئی ہو ویسا ہی جواب دیا جانا چاھئیے یا اپنی مرضی سے کاٹم پیٹی کرکے غلط رخ دکھانا چاھئیے ؟ آپ نے موصوف شاھد نزیر کے شکریہ کے ساتھ کچھ پیش کیا تھا ۔دیکھئیے
کبھی کہتے ہیں کہ رفع الیدین اور ترک رفع الیدین دونوں سنت ہیں۔
کبھی رفع الیدین کو متروک و منسوخ قرارد یتے ہیں۔
کبھی رفع الیدین کو ناپسندیدہ یعنی مکروہ اور خلاف اولیٰ کہتے ہیں۔
کبھی اس سنت کو بدعت بھی کہہ دیتے ہیں۔
کبھی رفع الیدین ایک اختلافی مسئلہ بن جاتا ہے۔
کبھی نماز میں رفع الیدین کرنا باعث فساد ہے۔
کبھی رفع الیدین کی سنت مبارکہ کو قابل نفرت قرار دیتے ہیں۔
کبھی کہتے ہیں کہ رفع الیدین شاذ ہے۔
کبھی جانوروں کا فعل کہتے ہیں۔
کبھی کبھی رفع الیدین کرنے والے کو کافر کہتے ہیں۔
اسکے جواب میں میں نے عرض کیا تھا
ان سب کا جواب دے کر میں اپنا وقت برباد نہیں کروں گا ، اگر تو یہ سب باتیں میں نے کی ہیں تو پھر آپ اور شاہد نذیر کو مبارک ہو اور اگر میں نے یہ سب نہیں کہا تو پھر بھی آپ دونوں کو مبارک۔ یہاں میں صرف ایک بات پر کچھ کہنا چاھوں گا ۔
کبھی جانوروں کا فعل کہتے ہیں۔
سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ میں تمہیں اس طرح ہاتھ اٹھاتے دیکھ رہا ہوں گویا وہ شریر گھوڑوں کی دمیں ہیں تم لوگ نماز میں سکون سے رہا کرو۔
صحیح مسلم جلد ایک
اسے کہتے ہیں ڈوب جانا ۔ امید ہے آپ سمجھ گئے ہوں گے؟

چھوڑتے تو آپ بھی ہیں ؟ یا نہیں چھوڑتے ؟ جب آپ سجدوں کی رفع کو چھوڑتے ہیں تو کیا سمجھ کر ؟ منسوخ سمجھ کر یا سنت سمجھ کر ؟ .... یہ بات میں نے اس وجہ سے کی کیونکہ سجدوں کی رفع نہ میں کرتا ہوں اور نہ شاید آپ۔ اس لیے یہاں ہم اس رفع پر بات کریں گے جس رفع پر ہمارا اختلاف ہے۔ اگر ہم سجدوں کی رفع کرتے ہوتے اور آپ نہ کرتے ہوئے یا آپ کرتے ہوتے اور ہم نہ کرتے ہوتے تب اس پر بات کرنے کا کوئی مقصد بھی ہوسکتا تھا۔ لیکن اب جب فریقین کے بیچ اختلاف ہی نہیں ہے۔ پھر اس پر رولا ڈالنے کا کیا فائدہ ؟ آگئی سمجھ محترم المقام میاں صاحب ؟
الحمدللہ مجھے سمجھ ہے اچھی طرح اور لگتا ہے کچھ کچھ آپ کو بھی آنے کو ہے ۔ ان شاء اللہ ، تو پھر میں امید رکھوں کہ آپ شروع نماز کی رفع یدین پر کوئی لفظ نہیں لکھیں گے ؟
دیکھئیے گڈ مسلم صاحب ہم چھوڑتے ہیں اور جو کرتے ہیں اس کی دلیل آپ کو دکھا چکا ہوں ، یعنی چار رکعت شروع نماز کی کرتے ہیں اور جو رفع یدین نماز میں ہے اسے نہیں کرتے ، یعنی رکوع ،سجود وغیرہ
دیکھئیے اور سمجھئیے
۔
عن جابر بن سمرة قال خرج علينا رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم فقال مالی اراکم رفعی يديکم کانها اذناب خيل شمس اسکنوا فی الصلوٰة ۔۔الخ
سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ میں تمہیں اس طرح ہاتھ اٹھاتے دیکھ رہا ہوں گویا وہ شریر گھوڑوں کی دمیں ہیں تم لوگ نماز میں سکون سے رہا کرو۔
صحیح مسلم جلد ایک
یہاں جس رفع یدین کو منع کیا گیا ہے وہ نماز کے اندر والی ہے اور آپ جو رفع یدین کرتے ہیں وہ نماز کے اندر ہی ہے ۔ ہے ناں ؟ اس روایت سے نماز کو شروع کرتے وقت کی نفی ہے ہی نہیں۔
اور آپ کی پیش کردہ روایت سے بھی یہی بات ثابت ہوتی ہے ۔۔۔ دیکھئیے
" كان إذا دخل في الصلاة كبر ورفع يديه ، وإذا ركع رفع يديه ، وإذا قال : سمع الله لمن حمده ، رفع يديه ، وإذا قام من الركعتين رفع يديه " (صحيح البخاری، كتاب الأذان، باب رفع اليدين إذا قام من الركعتين، حديث:‏739)
’’ جب نماز کا آغاز فرماتے تو تکبیر کہتے اور رفع الیدین فرماتے، اور جب رکوع کرتے تو رفع الیدین کرتے اور جب سمع اللہ لمن حمدہ کہتے تو رفع الیدین کرتے، اور جب دو رکعتوں سے اُٹھتے تو پھر بھی رفع الیدین کرتے۔‘‘
حاصل یہ کہ نماز میں داخل ہونے کے لئے تکبیر اور رفع یدین کرتے ہیں اور نماز میں داخل ہونے کے بعد کی تمام رفع یدین منع کردی گئیں کیوں کہ وہ فی الصلاۃ ہیں اور "سکون " کے خلاف ہیں۔(یاد رہے آپ اور ہم چار رکعت نماز کے بارے میں بات کر رہے ہیں )

آپ کی پہلی دو باتوں پر میرا جو سوال ہے۔ آپ اس کا جو دلیل کے ساتھ جواب دیں گے۔ وہی میرا جواب ہوگا۔باقی آپ کی تیسری بات ’’ کس کس رکن میں کرتے ہیں‘‘ تک درست ہے (اس کا جواب دے دیا ہے) اور آگے کی باتیں یا تو جہالت ہیں یا بچگانہ حرکتیں۔
پہلے آپ اعلان تو کریں گڈ مسلم صاحب حنفی مقلد ہونے کا پھر میں آپ کو بتادوں گا کہ میں بلکہ آپ کو خود بخود دلیلیں سمجھ آجائیں گی ۔ لیکن اگر آپ غیر مقلد رہتے ہوئے چاھتے ہیں کہ آپ ایک مقلد کی دلیل کو اپنا بنالیں تو یہ ممکن نہیں کیونکہ پھر آپ اپنے آپ کو مشرک مانیں گے اور جب بندہ خود اپنے شرک پر آگاہ ہوجائے اور اس پر قائم رہے تو بہت سخت برا معاملہ ہوجاتا ہے ۔ امید ہے سمجھ گئے ہوں گے ؟اسلئیے آپ یا تو حنفی ہونے کا اعلان کیجئے یا پھر دلیل پیش کردیجئے اپنے دعوے کے مطابق یعنی اطیعوا الله و اطیعوا الرسول کے عین مطابق ۔ سوال پھر سے دیکھ لیجئے

١
-رفع الیدین آپ کے ہاں سنت ہے یا حدیث؟
اگر سنت ہے تو دلیل پیش کردیں اور اگر حدیث ہے تو بھی دلیل پیش کریں اور ہماری جانب سے آپ کو یہ بتانے کی ضرورت تو ہے نہیں کہ آپ کی دو دلیلیں ہیں یعنی قرآن اور حدیث۔ اسلئے امتیوں کے اقوال بلکل پیش نہیں کرنے۔

جب آپ یہ ثابت کرچکیں "دلیل" سے ،کہ رفع الیدین سنت ہے یا حدیث تو پھر یہ بھی بتادیجئے گا کہ کون سی سنت ہے یعنی
٢-فجر کی سنتوں کے جیسی یا پھر عصر کی سنتوں جیسی؟ اور اگر حدیث ہے تو بھی دلیل فراہم کردیں ۔

اور آخر میں جناب رفع الیدین کی گنتی کرکے ثابت فرمادیں کہ
٣-رفع الیدین کس کس رکن نماز کے ساتھ کرنا ہے اور کہاں کہاں نہیں کرنا یہ بھی گنتی کے ساتھ ۔
1۔ پھر تو جناب جو رفع آپ کرتے ہیں وہ بھی اس قسم میں آتا ہے۔ تو آپ نبی کریمﷺ کی بات کو کیوں نہ مانتے ؟ اگر مقلد کرے تو شریعت اور اگر اہل حدیث کریں تو جانوروں والا فعل؟ آپ کی وہی پرانی بات یاد آگئی کہ شافعی، حنبلی اور مالکیوں سے جب اس مسئلہ پر بات کریں گے تو متروک پر اور جب اہل حدیثوں سے بات کریں گے تو منسوخ اور غیر منسوخ پر۔ کیا خوب جملے تھے۔ میں سوچ رہا تھا کہ آپ کا یہ مبارک فرمان کاغذ پہ لکھ کر اپنے دروازے کی چوکھٹ لٹکا دوں۔؟ اور پھر مزے کی بات شافعی بھی یہی رفع کرتے ہیں جو ہم کرتے ہیں۔ لیکن شافعی حق پہ اورہم حق سے دوووووور؟ .... ہا ہا ہا ہا .....
2۔دوسری بات اس حدیث سے جس رفع کے بارے میں آپ سمجھ رہے ہیں۔ یہ آپ کی علمی کمزوری ہے یا پھر تعصب۔ تعصب تو خیر گمان پہ نہیں کہتا لیکن علمی کمزوری ضرور کہوں گا۔ کیا یہ حدیث جس رفع کے بارے میں آپ پیش کررہے ہیں۔ اسی رفع بارے آپﷺ نے یہ فرمان جاری کیا تھا؟ اس بارے تحقیق پیش کرونگا۔ ان شاء اللہ
اوپر کچھ وضاحت کی تھی میں نے ، دوبارہ پیش کردیتا ہوں دیکھ لیجئے۔
دیکھئیے گڈ مسلم صاحب ہم چھوڑتے ہیں اور جو کرتے ہیں اس کی دلیل آپ کو دکھا چکا ہوں ، یعنی چار رکعت شروع نماز کی کرتے ہیں اور جو رفع یدین نماز میں ہے اسے نہیں کرتے ، یعنی رکوع ،سجود وغیرہ
دیکھئیے اور سمجھئیے
۔
عن جابر بن سمرة قال خرج علينا رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم فقال مالی اراکم رفعی يديکم کانها اذناب خيل شمس اسکنوا فی الصلوٰة ۔۔الخ
سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ میں تمہیں اس طرح ہاتھ اٹھاتے دیکھ رہا ہوں گویا وہ شریر گھوڑوں کی دمیں ہیں تم لوگ نماز میں سکون سے رہا کرو۔
صحیح مسلم جلد ایک
یہاں جس رفع یدین کو منع کیا گیا ہے وہ نماز کے اندر والی ہے اور آپ جو رفع یدین کرتے ہیں وہ نماز کے اندر ہی ہے ۔ ہے ناں ؟ اس روایت سے نماز کو شروع کرتے وقت کی نفی ہے ہی نہیں۔
اور آپ کی پیش کردہ روایت سے بھی یہی بات ثابت ہوتی ہے ۔۔۔ دیکھئیے
" كان إذا دخل في الصلاة كبر ورفع يديه ، وإذا ركع رفع يديه ، وإذا قال : سمع الله لمن حمده ، رفع يديه ، وإذا قام من الركعتين رفع يديه " (صحيح البخاری، كتاب الأذان، باب رفع اليدين إذا قام من الركعتين، حديث:‏739)
’’ جب نماز کا آغاز فرماتے تو تکبیر کہتے اور رفع الیدین فرماتے، اور جب رکوع کرتے تو رفع الیدین کرتے اور جب سمع اللہ لمن حمدہ کہتے تو رفع الیدین کرتے، اور جب دو رکعتوں سے اُٹھتے تو پھر بھی رفع الیدین کرتے۔‘‘
حاصل یہ کہ نماز میں داخل ہونے کے لئے تکبیر اور رفع یدین کرتے ہیں اور نماز میں داخل ہونے کے بعد کی تمام رفع یدین منع کردی گئیں کیوں کہ وہ فی الصلاۃ ہیں اور "سکون " کے خلاف ہیں۔(یاد رہے آپ اور ہم چار رکعت نماز کے بارے میں بات کر رہے ہیں )
شافعی، حنبلی اور مالکیوں سے نہیں صرف حنبلی اور شافعی کہیں ۔ کیوں ؟ اس کی بھی تحقیق کرلیجئے گا ۔ شافعی کی رفع یدین اور حنبلیوں کی بھی اور مالکی جو عمل کرتے ہیں اس پر بھی الحمدللہ اہل سنت والجماعت کی دلیل موجود ہے جیسے احناف کے پاس بھی دلیل موجود ہے ۔ لمحہ فکریہ غیر مقلدوں یعنی تقلید کے منکرین یعنی تقلید کو شرک اور گمراہی کہنے والوں یعنی فرقہ جماعت اہلحدیث کے افراد کےلئے ہے ۔ کہ گڈ مسلم صاحب محتاج نظر آتے ہیں اہل سنت والجماعت شافعی و حنبلیوں کی دلیل کے ۔حضور آپ اپنی دلیل پیش کریں دس جگہ رفع الیدین کا اثبات اور اٹھارہ جگہ نفی کی ۔
٭ حضور سہج صاحب میرا دعویٰ جاننے کی کوئی ضرورت ہی نہیں۔ کیونکہ ہر حنفی کو پتہ ہے کہ اہل حدیث کا رفع الیدین بارے کیا موقف ہے۔ میرا دو لفظی دعویٰ ہے کہ میں اختلافی رفع الیدین کی منسوخیت کا قائل نہیں
اس دعوے پر کوئی دلیل صریح؟ جس میں ہو کہ اختلافی رفع یدین منسوخ نہیں ۔اور یہ اسی صورت ممکن ہے کہ جب آپ دس جگہ رفع یدین کا اثبات اور اٹھارہ جگہ کے نفی کی دلیل صریح پیش کردیں ،اب بات ختم کریں اور مبارک وصول کریں ۔

کیوں مغالطہ اور چکر دینے کے ماہر ہیں سہج صاحب۔؟ کیا فائدہ ملے گا آپ کو ؟
محترم المقام میاں صاحب جہاں ہم کرتے ہیں اس کا وجود تو حدیث پیش کرکے ثابت کردیا ہے۔ اور پھر آپ خود بھی کہہ رہے ہیں کہ جہاں آپ کرتے ہیں اسی کے وجود کی بات کی تھی یہ یعنی یوعنی لگا کر کیوں مجھے سابقہ پوسٹ کی طرف اشارہ کرنے پر مجبور کررہے ہو کہ میں نے شروع میں مقام وجگہ کی بات کی تھی۔ اور وہ چار مقامات ہیں جہاں ہم رفع کرتے ہیں۔ اور وہ الحمدللہ بادلیل ثابت بھی کردیا ہے۔
یہ آپ کا کتنا کھلا تضاد ہے کہ ایک طرف کہہ رہے ہیں کہ جہاں آپ کرتے ہیں اسی کے وجود کی اور دوسری طرف یعنی یوعنی لگا کر دس جگہ کو بھی بیچ میں لے آئے ... کیا وجود اور جگہ ایک چیز کے دو نام ہیں ؟
کوئی مغالطہ اور چکر وکر نہیں صاف اور سیدھا سوال کیا تھا جس کو دلیل کے ساتھ دکھانے میں آپ ناکام ہیں ۔ اور کبھی شافعیوں اور کبھی حنبلیوں کا در جھانکتے ہیں ۔ جناب آپ دعوے دار ہیں اطیعوا الله و اطیعوا الرسول کے ۔ اور دعوٰی آپ نے پیش کیا ہے میں اختلافی رفع الیدین کی منسوخیت کا قائل نہیں اور دلیل میں جو عمل پیش کیا جس صحابی سے، وہی صحابی رضی اللہ عنہ رفع یدین نہیں کرتے بعد کے زمانے میں ۔ تو پھر آپ ہی بتائیے کہ ہمیں بعد کے زمانے کا عمل اپنانا چاھئے کہ جو جاری ہوا یا پھر پہلے زمانے کے اعمال پر عمل کریں جو بعد میں تکمیل پاچکے؟ خود صحابہ کے طریقے ثابت کرتے ہیں۔ کہ نماز میں پہلے ہر ہر اونچ نیچ پر اور ہر ہر تکبیر پر رفع یدین کیا جاتا تھا ، دوران نماز باتیں بھی کرلی جاتی تھیں ، خود ایک روایت میں نمازی کو دوران نماز اپنے پیر کے نیچے تھوک پھینکنے کا ارشاد فرمایا ، وغیرہ ۔۔۔ کیونکہ موضوع ہے رفع یدین تو اسی مناسبت سے آپ کو ایک اور روایت دکھاتا ہوں جس میں ہر ہر تکبیر و اونچ نیچ پر رفع یدین کرنے کا زکر ہے ۔
اول

۔
عن ابن عمر رضی اللہ عنہ مرفوعاً کان يرفع يديہ فی کل خفض ورفع ورکوع وسجود وقیام وقعود بين السجدتين .... الخ
(شرح مشکل الاثار لطحاوی ج ۲ ص ۰۲ رقم الحديث ۴۲، وسندہ صحيح علی شرط البخاری و مسلم، بیان الوہم لابن القطان ج۵ ص ۳۱۶ وقال صحيح، طرح التثريب للعراقی ج۱ ص۱۶۲)
حضرت سىدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً مروی ہے کہ آپ ﷺ ہر اونچ نىچ اور رکوع و سجود، قیام وقعود بىن السجدتىن رفع الىدىن کرتے تھے۔
۔
اور آپ نے پیش کی تھی جو روایت اسے بھی دیکھ لیجئے
دوم

،
" كان إذا دخل في الصلاة كبر ورفع يديه ، وإذا ركع رفع يديه ، وإذا قال : سمع الله لمن حمده ، رفع يديه ، وإذا قام من الركعتين رفع يديه " (صحيح البخاری، كتاب الأذان، باب رفع اليدين إذا قام من الركعتين، حديث:‏739)
’’ جب نماز کا آغاز فرماتے تو تکبیر کہتے اور رفع الیدین فرماتے، اور جب رکوع کرتے تو رفع الیدین کرتے اور جب سمع اللہ لمن حمدہ کہتے تو رفع الیدین کرتے، اور جب دو رکعتوں سے اُٹھتے تو پھر بھی رفع الیدین کرتے۔‘‘
اب بتادیجئے کہ پہلے زمانے کی کون سی روایت ہے ؟اور بعد کی کون سی ؟ اگر اول روایت کو دیکھیں تو اسمیں ہر اونچ نىچ اور رکوع و سجود، قیام وقعود بىن السجدتىن رفع الىدىن کرنے کا معلوم ہوتا ہے اور دوم روایت کو دیکھیں تو نماز شروع اور رکوع جاتے ،اٹھتے،اور تیسری رکعت کا پتا چلتا ہے کہ یہاں یہاں رفع یدین کیا جاتا تھا۔ٹھیک؟
اب یہ روایات بھی دیکھ لیں


سوئم


عن جابر بن سمرة قال خرج علينا رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم فقال مالی اراکم رفعی يديکم کانها اذناب خيل شمس اسکنوا فی الصلوٰة ۔۔الخ
سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ میں تمہیں اس طرح ہاتھ اٹھاتے دیکھ رہا ہوں گویا وہ شریر گھوڑوں کی دمیں ہیں تم لوگ نماز میں سکون سے رہا کرو۔
صحیح مسلم جلد ایک
نماز میں سکون کاحکم دیا گیا اور یہ میں بتاچکا کہ رکوع جانا اٹھنا اور تیسری رکعت اٹھنا یہ سب نماز میں ہی ہوتا ہے ،شروع میں نہیں ۔
اب چند روایات اور دیکھیں

چہارم

عن مجاھد قال صلیت خلف ابن عمر فلم یکن یرفع یدیہ الا فی التکبیر الاولٰی من الصلوٰۃ ۔
شرح معانی الآثار للطحاوی جلد،صفحہ ایک سو پچپن
ترجمہ :- حضرت مجاھد رحمۃ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے پیچھے نماز پڑھی تو انہوں نے رفع یدین نہیں کیا مگر نماز کی پہلی تکبیر میں۔

عن مجاھد قال مارائیت ابن عمر یرفع یدیہ الافی اول مایفتتح
مصنف ابن ابی شیبۃ جلد ایک،صفحہ دوسوسینتیس
ترجمہ: حضرت مجاھد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کو ابتداء نماز کے علاوہ رفع یدین کرتے ہوئے کبھی نہیں دیکھا۔

عن عبدالعزیز بن حکیم قال رائیت ابن عمر یرفع یدیہ حزار اذنیہ فی اول تکبیرۃ افتتاح الصلوٰۃ ولم یرفعھا فیما سوٰی ذالک
موطاء امام محمد رحمۃ اللہ علیہ صفحہ نوے
ترجمہ : عبدالعزیز بن حکیم رحمۃ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو دیکھا کہ وہ ابتداء نماز میں پہلی تکبیر کے وقت رفع یدین کرتے تھے کانوں کے برابر اسکے علاوہ رفع یدین نہیں کرتے تھے۔

عن مجاھد قال مارائیت ابن عمر یرفع یدیہ الا فی اول ما یفتتح الصلوٰۃ
معرفۃ السنن و الآثار، جلد دو، صفحہ چارسواٹھائیس
ترجمہ: حضرت مجاھد رحمۃ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو ابتداء نماز کے علاوہ رفع یدین کرتے ہوئے کبھی نہیں دیکھا۔
۔
یعنی عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اول زمانے میں ہر تکبیر اور اونچ نیچ پر رفع یدین کرتے تھے ،دوم زمانے میں صرف رکوع اور تیسری رکعت ،سوئم زمانے میں نماز کے اندر کی رفع یدین کو منع کیا گیا اور چہارم زمانے میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ہی کا عمل بتاتا ہے کہ وہ صرف نماز کو شروع کرتے ہوئے رفع یدین کرتے تھے ۔
مجھے معلوم ہے،اب آپ نے زمانے پر اعتراض کرنا ہے تو اسے بھی ایک روایت سے ہی سمجھ لیجئے

حدثنا عبد الله بن يوسف،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ قال أخبرنا مالك،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن ابن شهاب،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن أنس بن مالك،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم ركب فرسا فصرع عنه،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فجحش شقه الأيمن،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فصلى صلاة من الصلوات وهو قاعد،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فصلينا وراءه قعودا،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فلما انصرف قال ‏"‏ إنما جعل الإمام ليؤتم به،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فإذا صلى قائما فصلوا قياما،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فإذا ركع فاركعوا،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وإذا رفع فارفعوا،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وإذا قال سمع الله لمن حمده‏.‏ فقولوا ربنا ولك الحمد‏.‏ وإذا صلى قائما فصلوا قياما،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وإذا صلى جالسا فصلوا جلوسا أجمعون ‏"‏‏.‏ قال أبو عبد الله قال الحميدي قوله ‏"‏ إذا صلى جالسا فصلوا جلوسا ‏"‏‏.‏ هو في مرضه القديم،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ثم صلى بعد ذلك النبي صلى الله عليه وسلم جالسا والناس خلفه قياما،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ لم يأمرهم بالقعود،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وإنما يؤخذ بالآخر فالآخر من فعل النبي صلى الله عليه وسلم‏.‏
انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک گھوڑے پر سوار ہوئے تو آپ اس پر سے گر پڑے۔ اس سے آپ کے دائیں پہلو پر زخم آئے۔ تو آپ نے کوئی نماز پڑھی۔ جسے آپ بیٹھ کر پڑھ رہے تھے۔ اس لیے ہم نے بھی آپ کے پیچھے بیٹھ کر نماز پڑھی۔ جب آپ فارغ ہوئے تو فرمایا کہ امام اس لیے مقرر کیا گیا ہے کہ اس کی اقتداء کی جائے۔ اس لیے جب وہ کھڑے ہو کر نماز پڑھے تو تم بھی کھڑے ہو کر پڑھو اور جب وہ رکوع کرے تو تم بھی رکوع کرو۔ جب وہ رکوع سے سر اٹھائے تو تم بھی اٹھاؤ اور جب وہ سمع اللہ لمن حمدہ کہے تو تم ربنا لک الحمد کہو اور جب وہ بیٹھ کر نماز پڑھے تو تم بھی بیٹھ کر پڑھو۔ ابوعبداللہ (امام بخاری رحمہ اللہ) نے کہا کہ حمیدی نے آپ کے اس قول ’’ جب امام بیٹھ کر نماز پڑھے تو تم بھی بیٹھ کر پڑھو۔ ‘‘ کے متعلق کہا ہے کہ یہ ابتداء میں آپ کی پرانی بیماری کا واقعہ ہے۔ اس کے بعد آخری بیماری میں آپ نے خود بیٹھ کر نماز پڑھی تھی اور لوگ آپ کے پیچھے کھڑے ہو کر اقتداء کر رہے تھے۔ آپ نے اس وقت لوگوں کو بیٹھنے کی ہدایت نہیں فرمائی اور اصل یہ ہے کہ جو فعل آپ کا آخری ہو اس کو لینا چاہئے اور پھر جو اس سے آخری ہو۔
صحیح بخاری،کتاب الاذان،باب: امام اس لیے مقرر کیا جاتا ہے کہ لوگ اس کی پیروی کریں
زمانے کا فرق آپ کو یقینا سمجھ آگیا ھوگا ۔ اسلئے الحمد للہ ہم اہل سنت والجماعت حنفی طریقہ نبوت کے عین مطابق نماز ادا کرتے ہیں جن پر آثار صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین اور تابعین رحمہ اللہ کی گواہی موجود ہے ۔ اوپر والی بخاری کی ہی روایت ہے اور آپ کے ہاں اصح الکتب بعد کتاب اللہ کا درجہ رکھتی ہے تو کم از کم پہلے زمانے اور بعد کے زمانے کے فرق کو تو تسلیم کرنے کا اعلان کرہی دیجئے ۔
گنتی کو تو یاد کرنے کے چکر میں آپ ہیں۔ اور پھر گنتی کرکے بتا بھی دیا ہے۔ لیکن کیا آپ اس طرح کی دلیل چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپﷺ نے فرمایا ہو کہ
1۔ نماز شروع کرتےہوئے ایک رفع کرنی ہے۔
2۔ پہلی رکعت کے رکوع جاتے ہوئے ایک رفع کرنی ہے۔
3۔ اسی رکوع سے سر اٹھاتے ہوئے ایک رفع کرنی ہے۔
4۔ پھر دوسری رکعت کے رکوع جاتے ہوئے ایک رفع کرنی ہے۔
5۔ اسی رکوع سے سر اٹھاتے ہوئے ایک رفع کرنی ہے۔
6۔ دو رکعتوں سے کھڑے ہوتے ہوئے ایک رفع کرنی ہے۔
7۔ تیسری رکعت کے رکوع جاتے ہوئے ایک رفع کرنی ہے۔
8۔ اسی رکوع سے سر اٹھاتے ہوئے ایک رفع کرنی ہے۔
9۔ چوتھی رکعت کے رکوع جاتے ہوئے ایک رفع کرنی ہے۔
10۔ اسی رکوع سے سر اٹھاتے ہوئے ایک رفع کرنی ہے۔
آخر میں اللہ تعالیٰ نے یا آپﷺ نے فرمایا ہو کہ چار رکعتوں میں یہ کل دس بار رفع الیدین کرنا ہوگی.......آپ ذرا تصدیق فرمادیں کہ آپ کو اس قبیل کی حدیث مطلوب ہے۔ جس میں اس طرح بیان ہو؟ یا پھر آپ ہی تفصیل سے وضاحت فرمادیں کہ آپ کو کس طرح کی دلیل چاہیے۔ ؟
آپ کی دلیل کیا ہے ؟ اللہ کا فرمان اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان مبارک ۔ ٹھیک؟ بھئی آپ کہتے ہیں ناں کہ اہل حدیث کے دو اصول اطیعوا الله و اطیعوا الرسول ، تو آپ کو مجھ سے پوچھنے کی ضرورت کیا ہے ؟ گڈ مسلم صاحب آپ نے دس جگہ رفع یدین کرنے کی اور اٹھارہ جگہ نہ کرنے کی دلیل دکھانی ہے ۔ صریح دلیل۔ دو جمع دو برابر چار کرکے نہیں ۔ اب یہ آپ کی مرضی ہے کہ آپ اوپر بنائی گئی ترتیب سے دکھائیں یا پھر مقامات کی نشاندھی دکھادیں چاروں رکعت میں ۔ یہ اس لئے ضروری ہے کہ آپ تین نمبر تک رفع یدین کرتے ہیں پھر چار پانچ چھ سات نمبر کو چھوڑتے ہیں پھر آٹھ اور نو کرتے ہیں پھر دس گیارہ بارہ تیرا کو چھوڑتے ہیں ، پھر چودہ نمبر رفع یدین کرکے ،پندرہ سولہ کرتے ہیں اور پھر سترہ اٹھارہ انیس اور بیس نہیں کرتے ، اکیس بائیس کرتے ہیں اور پھر تئیس نمبر رفع یدین سے لیکر اٹھائیس نمبر تک نہیں کرتے ۔ کیوں ایسا ہی ہے یا نہیں ؟ تو بھئی ایسے عمل کی دلیل بھی تو ہونی چاھئیے کہ نہیں ۔ ہم احناف چار رکعت نماز کے شروع میں رفع یدین کرتے ہیں اور پھر اٹھائیس نمبر تک نہیں کرتے ۔ ایک کا اثبات اور ستائیس کی نفی ۔ٹھیک؟ اب اک اور دلیل دیکھ لیجئے ۔

حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ۔
قال الا اصلی بکم صلوٰة رسول اللہ ﷺ فصلی ولم یرفع یدیہ الا فی اول مرة
صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایاکے میں تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز پڑھ کر نہ دکھاوں پھر آپ نے نماز پڑھی اور صرف پہلی مرتبہ (تکبیر تحریمہ کے وقت ) رفع یدین فرمائی
صرف پہلی رفع یدین کا اثبات اور باقی سب کی نفی ثابت ہوئی یا نہیں ؟
آپ کو یہ یاد رکھنا چاھئیے کہ آپ رفع یدین کرتے چھوڑتے کرتے چھوڑتے کرتے چھوڑتے ہیں اسلئے مقام اور گنتی دونوں کی صریح روایت پیش کرنا ضروری ہے ، دو جمع دو چار نہیں کرنا پڑے ۔ جیسے ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت میں اور ابن عمر رضی اللہ عنہ کے عمل والی روایات میں صاف صاف نظر آتا ہے کہ احناف بھی ویسا ہی کرتے ہیں جو صحابہ کا عمل ہے ۔

ہا ہا ہا ہا ....... کیا خوب ہیں آپ کے افسانے....محترم ہم تو پہلی رفع بھی کرتے ہیں ؟ اور آپ نے جو دلیل پیش کی اس میں پہلی رفع کا استثناء بھی نہیں تو پھر کیسے آپ اس پیش کردہ دلیل کی روشنی میں کہہ سکتے ہیں کہ بعد میں چھوڑ دی گئی ؟
اوپر کچھ سمجھانے کی کوشش کی تھی ، اسے دیکھ لیجئے ۔ کیونکہ اگر یہاں ہی پیش کردو دوبارہ تو پوسٹ اور زیادہ لمبی ہوجائے گی۔

باقی آپ کے پیش کردہ تمام دلائل پر الگ پوسٹ میں وضاحت کرونگا۔ اور ان شاء اللہ یہ سب باتیں وہاں پیش ہوجائیں گی۔
جیسے آپ کو اچھا لگے ۔

1۔ پھر آپ نے صحابی کا عمل پیش کردیا ؟ کیا آپ کے پاس نبی کریمﷺ کا عمل نہیں ہے ؟
آپ کیا سمجھتے ہیں صحابی کا عمل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلہ پر ہوتا ہے ؟
2۔ حدیث کی وضاحت پر بات بعد میں پہلے میری اس بات کا جواب دے دینا کہ دوسری بار آپ صحابی کا ہی عمل پیش کررہے ہیں۔ حالانکہ میں نبی کریمﷺ کا عمل پیش کرچکا ہوں۔ کیا نبی کریمﷺ کے عمل کے مقابلے میں صحابی﷜ کا عمل پیش کرنا کس کی توہین کرتا ہے نعوذبا للہ ثم نعوذ با اللہ نبی کریمﷺ کی یا صحابی﷜ کی ؟ کس کا نام لیں گے آپ ؟
یہی تو فرق ہے جناب اہل سنت والجماعت اور غیر مقلدین یعنی اپنے آپ کو اہلحدیث کہنے والوں میں ۔ کہ ہم صحابی کا عمل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سمجھ کر لیتے ہیں کیونکہ صحابہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کو پہنچانے والے ہیں اور آپ غیر مقلدین صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا سہی عمل دکھانے کو توہین قرار دے رہے ہیں ؟ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اک اور صحابی کی روایت بھی دیکھ لیجئے اور مجھے گنتی کرکے بتائیے کہ کتنی رفع یدین کی گئیں ؟

رأى مالك بن الحويرث إذا صلى كبر ورفع يديه،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وإذا أراد أن يركع رفع يديه،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وإذا رفع رأسه من الركوع رفع يديه،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وحدث أن رسول الله صلى الله عليه وسلم صنع هكذا‏.
ہم سے اسحاق بن شاہین واسطی نے بیان کیا ، کہا کہ ہم سے خالد بن عبداللہ طحان نے بیان کیا خالد حذاء سے ، انہوں نے ابوقلابہ سے کہ انہوں نے مالک بن حویرث صحابی کو دیکھا کہ جب وہ نماز شروع کرتے تو تکبیر تحریمہ کے ساتھ رفع یدین کرتے، پھر جب رکوع میں جاتے اس وقت بھی رفع یدین کرتے اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تب بھی کرتے اور انھوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اسی طرح کیا کرتے تھے۔
صحیح بخاری،صفۃ الصلوٰۃ،باب: رفع یدین تکبیر تحریمہ کے وقت، رکوع میں جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت کرنا (سنت ہے)
اب آپ گڈ مسلم صاحب سے التماس ہے کہ بتائیے کبھی اس حدیث پر بھی عمل کیا آپ نے ؟ اگر نہیں تو کیوں ؟ کیا یہاں بھی زمانے کا مسئلہ پیش ہے یا پھر یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کے خلاف ہے ؟
اس میں جو میں نے لکھا آپ کو سمجھ آیا تھا ؟ یا بغیر سوچے سمجھے تکلیف کردی ؟ محترم المقام میاں صاحب میرے ان پیش الفاظ کو ذرا غور سے پڑھنے پر اپنے آپ کو تکلیف دیں اور پھر جو پوچھا گیا ہے۔ جواب بھی وہی دیں۔ مغالطہ دینے کی کوشش ناٹ ٹ ٹ ٹ ؟ سمجھ آ گئی ناں محترم صاحب ؟
الحمدللہ سب کو نظر آرہا ہوگا کہ دلائل کے ساتھ کون بات کررہا ہے اور خالی باتیں کون ۔ اپنی اسی مغالطہ والی بات کو اوپر دی گئی روایت جو کہ آپ کے بقول اصح الکتب بعد کتاب اللہ کی ہی ھے ، کو حل کرلیجئے ان شاء اللہ قبلہ اول والی مثال کے ساتھ ساتھ پہلے زمانے اور بعد والے زمانے کی بھی سمجھ آجائے گی۔

٭ اگلی دلیلیں یعنی بہشتی زیور اور تعلیم لاسلام ؟ .......... ویسے جوک بہت کرلیتے ہیں آپ
اگر ایسی بات ہے تو نیا تھریڈ شروع کیجئے اور اسمیں نماز کی شرائط،ارکان، فرائض،واجبات،سنن،ومستحبات و مکروہ و حرام اور نماز فاسد ہوجانے وغیرہ کے دلائل قرآن اور حدیث کے حوالوں کے ساتھ پیش کیجئے ۔
اور ساتھ میں اک سوال ایڈوانس لے لیجئے جواب وہیں دے دیجئے گا "دلیل" کے ساتھ ۔
سوال:-اگر نمازی دوران رکوع سبحان ربی العظیم کی بجائے سبحان ربی العلی کا زکر کرلے تو کیسا ہے ؟ درست ہے تو دلیل ؟ غلط ہے تو دلیل؟

٭ جی جی مقلد کو راستہ تلاش کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہوتی۔ کیونکہ اس کے گلے میں راستہ دکھانے والا پہلے ہی پڑ چکا ہوتا ہے۔ اور یہ بے چارہ مجبور ہوتا ہے۔ چاہے وہ منعمین کے پہ چلائے یا منعمین کی ضد کے راستے پہ .... یہ بے چارہ مقلد کچھ نہیں کرسکتا ہوتا ...
جی بلکل ضرورت نہیں ہوتی کیوں کہ راستہ دکھانے والے کے پیچھے جو چلتے ہیں ۔

٭ مزے کی بات یہ ہے کہ یہ بے چارہ مقلد اتنا معصوم ہوتا ہے کہ اتنا بھی نہیں پوچھ سکتا کہ آپ مجھ سے یہ کام کیوں کروا رہے ہیں
اسے کہتے ہیں اعتماد

٭ ہا ہا ہا ... آپ عالم سے کیوں پوچھیں گے ؟ کیونکہ اگر آپ عالم سے پوچھیں گے تو عالم کے مقلد ہوجائیں گے ؟ مقلد ابی حنیفہ سے مقلد قریشی وغیرہ اپنے نام کے ساتھ لگانا پسند کرلیں گے ؟ اس لیے میرا تو مشورہ ہے کہ اگر آپ تقلید ابی حنیفہ کا صحیح حق اداء کرنا چاہتے ہیں تو پھر ڈائریکٹ انہیں سے ہی پوچھ کر آیا کریں۔ ویسے آپ قبروں سے فیوض کے بھی قائل ہونگے۔ اس لیے آپ کے لیے ایسا کرنا کوئی مشکل بھی نہیں ہے۔
نہیں گڈ مسلم صاحب عالم کے مقلد نہیں ہوں گے کیونکہ عالم ابوحنیفہ رحمہ اللہ اور ائمہ احناف کی تشریحات کے مطابق ہی بتاتے ہیں ۔اسلئے مقلد تو ہم امام اعظم ابوحنیفہ کے ہی رہیں گے ۔

٭ دلیل کی یہ حالت ہوتی ہے کہ جب پوچھا جائے کہ اس فرمان عالی کی کیا دلیل ہے آپ کے پاس یا آپ کے بڑوں کے پاس تو کہا جاتا ہے ’’ دلیل ہوگی ‘‘ ہم پوچھتے ہیں ارے دلیل لاؤ تو جواب ملتا ہے ’’ کوئی اور دلیل ہوگی ‘‘ کیا خوب کہاوتیں ہیں میرے یاروں کے باغیچوں میں ... اس ہوگی ہوگی کے چکر نے بہت کام خراب کیا ہے۔
گڈ مسلم پھر ایسا کریں کہ آپ دس جگہ رفع یدین کرنے کی اور اٹھارہ جگہ نفی کی دلیل پیش کردیں ، تاکہ ہم آپ میں اور اپنے میں فرق جانچ سکیں ۔ کیا خیال ہے ؟
مقلدین کا الزام اور اس کا جواب تھریڈ کا مطالعہ کرنے سے آپ کومعلوم ہوجائے گا کہ آپ سچ بول رہے ہیں یا پھر ..............؟؟؟؟؟
آپ یہاں سے فارغ ہوجائیں پر ان شاء اللہ وہاں جو آپ نے فرقہ اہل حدیث کی کھوکھلی جڑوں کو اکھاڑا ہے اس پر بھی کچھ پیش پوش کردیں گے ۔ بے فکر رہئیے۔

اس صاف جھوٹ کا جواب بتائے گئے تھریڈ سے مل جائے گا۔
کہ اصل جھوٹا کون ؟ یہی مطلب ہے آپ کا ؟
دلیل نہیں دی ۔۔ چکر دیا ہے سہج صاحب۔۔دلیل دیں دلیل
أَخْبَرَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ قَالَ أَنْبَأَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَسْوَدِ عَنْ عَلْقَمَةَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ أَلَا أُخْبِرُكُمْ بِصَلَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فَقَامَ فَرَفَعَ يَدَيْهِ أَوَّلَ مَرَّةٍ ثُمَّ لَمْ يُعِدْ
سنن النسائي
ترجمہ:ابن مسعود رضی اللہ عنہ جلیل القدر صحابی اور تمام صحابہ سے فقہی ہیں، وہ فرماتے ہیں کہ لوگوں کیا میں تمہیں وہ نماز پڑھاؤں جو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نماز ہے؟ تو نماز پڑھائی اور رفع یدین نہیں کیا سوائے پہلی مرتبہ کے۔
یعنی آپ اب نسائی سے روایت پیش کرنے کو چکر جانتے ہیں ؟ آپ کی نظر میں ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت دلیل ہی نہیں ؟؟ گڈ مسلم صاحب آپ کی اور میری ایک مسئلہ میں یہاں بحث جاری ہے لیکن اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ آپ صحابہ کی روایات کی توہین کرتے رہیں ؟ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا مقام جاننے کے لئے تحقیق فرمالیں اور کچھ الفاظ کا چناؤ کرنا بھی ۔

آپ کے مسٹر مسٹر کے الفاظ سے تعصب ، ذاتی دشمنی، بغض، غیر اخلاقیت کی بو آرہی تھی۔ اس لیے کہہ دیا۔ اگر میں غلط سمجھا تو معذرت.. باقی رہی آپ کی یہ بات ’’ دس کا اثبات اور اٹھارہ کی نفی ‘‘ فکر نہ کریں آپ اپنی اسی بات ہی میں پھنسیں گے۔ ان شاء اللہ بلکہ بری طرح پھنس چکے ہیں۔
مسٹر مسٹر کہنا بداخلاقی ہے تو پھر ہر اس دعوت نامے کو پھاڑ دینا جس پر آپ کے نام کے ساتھ مسٹر لکھا ھو ۔ اور ہر اس بندے کو کھری کھری سنادینا جو آپ کو مخاطب کرے مسٹر کہہ کر ، بلکہ اک کام کرو گڈ مسلم کہ اس فورم پر مسٹر کہنے پر بین لگوادو اور ہاں یاد آیا میں نے تو آپ کو صاحب صاحب بھی کہا ھے ۔ چلو اس پر بھی بین لگوادیتے ہیں ۔ ارے بھئی یہ تو کباڑا ہی ہو گیا ۔ کیونکہ میں تو آپ کو گڈ مسلم گڈ مسلم بھی کہتا ہوں ، تو کیوں نہ اس گڈ مسلم پر بھی بین لگوالیں ؟ اگر ایسا ہوجائے تو پھر کتنا اچھا لگے گا کہ آپ کو گڈ کی بجائے کچھ اور کہہ کر مخاطب کرے گا ۔ یہ مزاک نہیں ہے گڈ مسلم صاحب ، افسوس کا مقام ہے کہ آپ میری طرف سے پیش کئے گئے ہر ہر لفظ پر اعتراض ہی کر رہے ہیں ۔ اور ایسے جھوٹے الزامات لگارہے ہیں جن کا وجود ہی نہیں ۔ کیا مسٹر کہنے سے آپ کی تزلیل ہوتی ہے ؟ گڈ مسلم آپ کا نک نیم آپ نے خود ہی رکھا ہے یا کسی مقلد نے ، جو آپ کو مسٹر کہنے پر اعتراض ہے ؟
باقی رہی بات دس کا اثبات اور اٹھارہ کی نفی کی دلیل دکھانا تو جناب آپ مجھے اور زیادہ پھنسادیجئے دلیل دکھا کر ، بغیر دو جمع دو برابر چار کئے ۔ جلدی کیجئے اور بری طرح پھنسا دیجئے ۔ آئی ایم ریڈی فور پھنسنگ۔

آپ مجھے بتائیں کہ جن چیزوں کو آپ فرض، سنت، مستحب وغیرہ وغیرہ کہتے پھرتے ہو ان کو کس نے یہ درجہ ومقام دیا ہے ؟ نبی کریمﷺ نے یا کسی اور نے ؟ اگر نبی کریمﷺ نے دیا ہے تو پھر آپ بھی ثابت کریں گے۔ لیکن اگر کسی اور نے دیا ہے تو کیا نبی کریمﷺ ان بارے تعلیم نہیں دےسکتے تھے جو کسی اور کو دینا پڑ گئی ؟ کیا آپ کو ان کا علم نہیں تھا یا اللہ تعالیٰ نے آپ کو روک دیا تھا؟ کیا بعد میں جس نے بھی یہ تعلیم دی اس صاحب کا علم نبی کریمﷺ کے علم سے زیادہ ہوگیا تھا۔نعوذباللہ؟
دلیل پیش کیجئے جناب دلیل ، لیکن پہلے دس کا اثبات اور اٹھارہ کی نفی ۔ اوکے۔ پھر بتائیے کہ رفع یدین سنت ہے یا حدیث ؟ اسکے بعد باقی بات

اصول حدیث سے آپ اگر واقف نہیں تو پڑھ لیجیے۔ اشارہ کررہا ہوں
يأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا إِن جاءَكُم فاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنوا أَن تُصيبوا قَومًا بِجَهلَةٍ فَتُصبِحوا عَلىٰ ما فَعَلتُم ندِمينَ (الحجرات:6)
ترجمہ:اے ایمان والو اگر آئے تمہارے پاس کوئی گنہگار(فاسق) خبر لے کر تو تحقیق کر لو کہیں جا نہ پڑو کسی قوم پر نادانی سے پھر کل کو اپنے کئے پر لگو پچتانے
اچھا تو جناب اسلئے "تحقیق " کرنے کا فرمارہے تھے ۔ کیونکہ آپ کے فرقے اہلحدیث کی نظر میں مقلد فاسق ہیں شاید ؟ تو کیجئے تحقیق ، لیکن مجھے یہ بتادیجئے کہ آپ کسی دلیل سے "تحقیق" کریں گے ؟ یا خود جاکر چودا سو سال پیچھے ، تحقیق کی تصدیق کروائیں گے ؟ کیونکہ امتیوں کی تصدیقات کو شاید آپ مانتے ہی نہیں۔

جن مقامات پر میں نے رفع کو ثابت کیا ہے وہ حدیث صریح صحیح ہے یا نہیں ؟ اگر نہیں تو جرح کریں اور اگر ہے تو پھر آپ انہی مقامات پہ رفع شروع فرمائیں۔ کیا خیال ہے حدیث پر عمل شروع کررہےہو یا نہیں ؟
میں پہلے زمانے کی عمل نہیں کرتا جناب بعد کے آخری زمانے کے عمل پرعمل کرتا ہوں ، پہلے کا عمل آپ کو ہی مبارک ۔
ولا یرفعون ایدیہم کا معنی آپ نے کیا ہے کہ ’’ اور نہ ہی نماز میں رفع یدین کرتے ہیں‘‘ پہلی تو بات یہ ہے کہ آپ نے ترجمہ میں گڑ بڑ کی ہے۔ دوسری بات اگر آپ کا ہی ترجمہ درست لے لیا جائے تو پھر ابن عباس﷜ کی اس تفسیر کی روشنی میں آپ کو پہلی رفع سے بھی ہاتھ دھونا ہوگا۔ پہلے آپ تضاد والی بات کرکے ایک بار جو رفع آپ کرتے ہیں اس سے ہاتھ دھو چکے ہیں اور اب ابن عباس﷜ کی مطلق رفع کے بارے میں تفسیر پیش کرکے بھی اسی رفع سے ہاتھ دھو چکے ہیں۔ ماشاء اللہ.. آگے آگے دیکھیئے ہوتا ہے کیا.....
یہ آپ کا جھوٹا الزام ہے مجھ پر ، اب اسے ثابت کیجئے ۔ دوسری بات یہ کہ پیچھے کسی جگہ میں نے شروع نماز اور نماز میں کا فرق بتایا ہے اسے ڈھونڈ کر دیکھ لیجئے ۔
جس طرح آپ پہلی رفع کا تواتر ہونا احادیث سے تسلیم کررہے ہیں اسی طرح باقی رفعیں بھی ہیں محترم سہج صاحب۔ اگر آپ پہلے کےعلاوہ باقی کسی کونہیں مانتے تو کم از کم جو مانتے ہیں اس کا ہی بتا دیں کہ وہ سنت ہے یاحدیث ہے یا فرض ہے یا مستحب ہے یا مکروہ ہے اغیرہ وغیرہ
آپ کسی ایک روایت میں نماز کے شروع کی رفع یدین کا "انکار" دکھا سکتے ہیں ؟جب آپ انکار دکھائیں گے تب ان شاء اللہ میں آپ کو آپ کے سوال کہ سنت یا حدیث؟ کا جواب پیش کردوں گا ۔ فلحال تو آپ متحقق رہئیے کہ آپ جو رفع یدین کرتے ہیں وہ سنت ہے یا حدیث ، میرا مطلب ہے دلیل ڈھونڈئیے دلیل ۔
ہمیں اس مسئلہ پر بات کرنی چاہیے جس مسئلہ پر ہماری بحث ہے۔ تو کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ اس آیت کے نزول کے بعد رفع الیدین آپﷺ کرنا شروع کیا اور پھر بعد میں شریر گھوڑوں کی دموں سے تشبیہ بھی دے دی ؟
آیت پیش کس نے کی تھی ؟؟؟؟اور میں نے سوال کیا پوچھا تھا وہ سب گول مول ہوگیا ؟ دیکھئے آپ کا فرمانا کیا تھا
یعنی آپ نے یہ تسلیم کرلیا کہ اہل حدیث جو قرآن وحدیث کی تعلیمات کی روشنی میں عمل بھی کرتے ہیں اور دعوت بھی دیتے ہیں وہ نماز وغیرہ کے تمام احکامات دلائل سے ثابت نہیں کرسکتے لیکن احناف نے ایسے اصول بنا رکھے ہیں کہ ان اصول کی روشنی میں تمام مسائل ثابت ہوجاتے ہیں۔ یعنی جن مسائل کو قرآن اور حدیث سے ثابت نہیں کیا جاسکتا وہ احناف کے گھر سے ثابت ہوجاتے ہیں ؟ رائٹ ؟ اس کا مطلب ہے کہ حنفی مذہب کامل ہے اور اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ’’ الیوم اکملت لکم دینکم ‘‘ ناقص ہے ؟ نعوذبا للہ ثم نعوذ بااللہ
کیا آپ یہ کہنا چاہ رہے ہیں دبے الفاظ میں ؟ وضاحت ہوجائے ذرا۔ کیا خیال ہے وضاحت بہتر رہے گی ناں
اسکے جواب میں میں نے گزارش کی تھی
الحمدللہ اہل سنت والجماعت حنفی دیوبندی پورے دین پر عمل کرتے ہیں اور یہ اور ’’ الیوم اکملت لکم دینکم ‘‘ کی بات کی ہے آپ نے تو جناب اسے آپ کن معنوں میں لیتے ہیں یہ بھی بتادیتے ؟ کیا اس آیت کے آنے کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی اعمال نہیں کئے ؟ اگر کئے تو ان کو آپ کیا کہیں گے ؟ کیا مقام دیں گے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کو جو اس آیت کے بعد کیا گیا ۔ ؟ کیا وہ دین نہیں ؟ اہل سنت والجماعت اس آیت کے بعد بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قول فعل کو دین مانتے ہیں آپ اپنی فکر کیجئے ۔
یہ تھی اصل بات اور آپ نے جواب دئیے بغیر کچھ اور ہی رنگ دینے کی کوشش کی ۔ اللہ تعالٰی مجھے جھوٹ سے محفوظ رکھے ۔ آمین
آپ برائے مہربانی بتادیجئے کہ آیت الیوم اکملت لکم دینکم کے نزول کے بعد کے اعمال رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کو کیا سمجھتے ہو ؟
باقی یہ بات کہ اس آیت کے بعد شریر گھوڑو کی دموں سے رفع یدین کو تشبیع دی گئی تو اس بارے میں میری معلومات صفر ہیں آپ ہی کچھ پیش کیجئے ۔
اور یہی سمجھ آپ کو بھی نہیں آتی کہ جس رفع کو آپ کرتے ہیں وہ فجر کی سنتوں کی طرح ہے یا عصر کی سنتوں کی طرح۔ اور میں نے دریا دلی سے کہہ بھی دیا کہ جو آپ کا جواب وہی میرا جواب۔
جب آپ بتادیں گے کہ دس کا اثبات اور اٹھارہ کی نفی کی یہ دلیل ہے اور رفع یدین سنت یا حدیث ہے اس دلیل سے اور فجر جیسی یا عصر جیسی تو پھر میرا وعدہ ہے کہ میں بھی آپ کو تحریمہ والی رفع یدین کے سنت ہونے کی دلیل دے دوں گا ۔
ہ
میں خوشی ہے کہ اپنے تو اپنے غیر بھی جانتے ہیں کہ اہل حدیث صرف قرآن وحدیث کی مانتے ہیں۔ اور پھر ساتھ ساتھ اس بات کو بھی تسلیم کرتے ہیں کہ ہم لوگ تعلیم الاسلام اور بہشتی زیور جیسی کتابوں کو سینے سے لگائے ہوئے ہیں۔ قرآن وحدیث کے بجائے۔
بات موضوع سے باہر نکل جائے گی۔ ورنہ آپ سے پوچھتا کہ جس کتاب کو آپ قرآن یا حدیث کے مقابلے میں پیش کررہےہیں اس میں کیا کیا خرافات ہیں۔ کیا یہ سب قرآن وحدیث ہے آپ کا ؟
اسی لئے آپ دس کا اثبات اور اٹھارہ کی نفی اپنی دلیل سے دکھارہے ہیں یعنی اثبات کے لئے دو جمع دو برابر چار اور جب اٹھارہ کی نفی دکھانے کا وقت آئے گا تو پھر ناجانے کیا کیا پاپڑ بیلنے پڑیں گے ۔
یعنی شافعی حق پر ہیں ۔۔ کیونکہ ان کے پاس رفع الیدین کرنے کے دلائل ہیں۔۔ کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ شافعیوں کے پاس ہمارے پیش کردہ دلائل کے علاوہ کوئی اور دلائل ہیں یا یہی ہیں جو ہم پیش کرتے ہیں ؟ اگر یہی ہیں تو پھر وہ کیسے حق پہ ہم کیسے گمراہ ؟ اور اگر کوئی اور ہیں تو پھر آپ ان کو حق پہ سمجھتے ہوئے بھی ان کے دلائل کیوں نہیں قبول کرلیتے۔؟
آپ نے کہا کہ شافعی چار دلیلیں مانتے ہیں۔ ہم باقی مسائل کے بارے میں نہیں پس آپ مجھے رفع کے بارے میں بتا دیں کہ شافعی رفع الیدین کے اثبات کےلیے اجماع سے دلیل پیش کرتے ہیں یا قیاس سے ؟ یا دونوں سے ؟ قرآن وحدیث کی بات نہیں کرنی۔ کیونکہ قرآن وحدیث سے تو دلائل ہم بھی پیش کرتے ہیں۔
پہلی بات یہ کہ آپ قرآن اور حدیث کا صرف دعوٰی کرتے ہیں اس سے دلیل پیش کرتے ہی نہیں بس دو جمع دو برابر چار کرتے ہیں ،دوسرے یہ کہ شافعی الحمدللہ اہل سنت والجماعت ہیں اور چاروں دلیلیں مانتے ہیں ۔ اور سیدھی سی بات ہے وہ امام کا قیاس مانتے ہیں ،جو امام شافعی نے قرآن و سنت اور اجماع کی تحقیق کر کے کیا ۔اور اس کا انہیں حق حاصل تھا کیونکہ امام شافعی مجتہد تھے ۔
محترم میں کسی مذہب کو نہیں بلکہ ہر اس آدمی کو حق پہ سمجھتا ہوں جو انہی تعلیمات کی روشنی میں زندگی گزار رہا ہے جو تعلیم نبی کریمﷺ نےصحابہ﷢ کو دی تھی۔چاہے وہ اپنے آپ کو جس بھی نام سے پکارے۔ ناموں سےمجھے کوئی واسطہ نہیں .... آگئی ناں سمجھ سہج صاحب میرے موقف کی ؟
یعنی آپ مانتے ہیں کہ آپ امام شافعی کے مقلدین کو حق پر سمجھتے ہیں ؟ ہاں یا ناں ؟

1۔ مجھے ابن عمر﷜ کے عمل پر اعتراض ہے اور پھر جس راوی کے تھرو آپ نے ابن عمر﷜ کا عمل پیش کیا ہے اس کے اپنے عمل پر بھی اعتراض ہے۔
2۔ مجھے آپ کی پیش کردہ روایت کی سند پر بھی اعتراض ہے۔ اس لیے سند یاد دلادی۔
3۔ آپ میری پیش کردہ روایت پر اعتراض کریں میں سند پیش کرونگا۔جب آپ نے اعتراض ہی نہیں کیا تو پھر آپ یہ بات کہنے کے بھی حق دار نہیں۔ لیکن مجھے اعتراض ہے اس لیے میں نے پیش کردیا۔
یاد رکھئے مجھے آپ کی پیش کردہ روایت پر کوئی اعتراض نہیں ، بلکہ اس پر آپ نے جو قیاس فرمایا ہے یعنی دو + دو=4اور 4+4=8 اس کی دلیل مانگی ہے ، مہربانی فرمائیے

اگر یہی بات ہے تو پھر آپ کی اسی ہی بات سے نعوذ باللہ رسولﷺ کی یا صحابی﷜ کی توہین ثابت ہورہی ہے ؟
1۔ میں نے نبی کریمﷺ کا عمل پیش کیا آپ نے اس کے مقابلے میں صحابی﷜ کا
2۔ میں نے اسی ہی صحابی﷜ سے آپﷺ کا عمل ثابت کیا آپ نے اسی ہی صحابی﷜ کا عمل نبی کریمﷺ کے خلاف ثابت کردیا۔ یعنی صحابی﷜ نے آپﷺ کا عمل دیکھ کر اور پھر اس کو آگے بیان کرکے بھی مخالفت کرتے رہے؟ نعوذ باللہ
3۔ صحابی﷜ کے پاس یہ اختیار کہاں سے آگیا تھا کہ وہ﷜ نبی کریمﷺ کے عمل کےخلاف عمل کرکے نبی کریمﷺ کے عمل کو منسوخ قرار دے دیں۔
مسٹر گڈ مسلم ، کچھ تو خیال کیجئے کیا کر رہے ہیں آپ ؟ جناب میں نے نبی کے مقابلے میں صحابی کا فعل پیش نہیں کیا ، یہ آپ کی غلط بیانی ہے ۔اللہ آپ کو گڈ مسلم بنائے ۔ بولیں آمین ۔ زمانے کے بارے میں موجودہ پوسٹ میں پڑھ لیجئے گا جناب اور روایات کو جو ترتیب سے پیش کیا ہے اسے بھی اور ایسے ہی غلط سلط کسی پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یا صحابی کی توہین کا الزام لگانا نہیں چاھئے ۔

محترم کیوں بے تکی اور بچگانہ حرکتیں وباتیں کرتے جارہے ہیں آپ ؟ یہ توالگ بات ہے کہ آپ نے جو صحابی﷜ کا عمل پیش کیا وہ صحیح اسناد سے ثابت ہی نہیں۔ لیکن عقلی طور پر بھی اس میں اتنی باتیں ہیں کہ زندہ دل مسلمان کبھی یہ تسلیم ہی نہیں کرے گا۔ چاہے صحیح سند سے ثابت بھی ہوجائے۔
اب بتائیے گڈ مسلم صاحب ، کیا میں بھی کہہ دوں کہ آپ اتنے ضدی ہوچکے ہیں کہ خود لکھ رہے ہیں کہ "چاھے سہی سند سے ثابت ہوجائے" پھر بھی تسلیم ہی نہیں ؟ کیا اسے بھی گستاخی قرار دے دیا جائے ؟ ہوش کیجئے کچھ بھائی صاحب ۔

محترم میں نے آپ سے ہی مجاہد﷫ اور ابن عمر﷜ کا عمل پوچھنا ہے۔ کیونکہ پیش آپ نے کیا ہے۔ اس لیے آپ کو پیش پوش کرنا ہوگا۔ گھبرانے کی ضرورت نہیں۔
پوچھنا ؟ سرجی روایات پیش خدمت کرچکا ہوں میں آپکی ؟ اعتراض ہے تو کیجئے اور جھوٹ ثابت کیجئے ان روایات کو بھی اور موجودہ پوسٹو میں بھی چند روایات ہیں اصح الکتب بعد کتاب اللہ سے بھی انہیں غور سے پڑھ لیجئے گا اور پھر دوبارہ سے تحقیق کیجئے گا ۔
بھاگنے کی کوشش نہیں کریں جناب سہج صاحب۔ سوال دوبارہ پیش ہے
چار رکعات میں چار بار رکوع میں جانا اور چار بار رکوع سے اٹھنا ہوتا ہے یا نہیں ؟ ہاں یا ناں میں اس کا بھی جواب دینا ہوگا۔
بے فکر رہئیے گڈ مسلم صاحب بھاگنے والا نہیں اللہ کے فضل سے ۔ باقی اگر ویسے ہی پوچھ رہے ہیں تو جی ہاں چار رکعت میں چار بار رکوع ہوتا ہےاور اٹھنا بھی ۔۔۔۔ارے ارے ٹھہرو مسٹر گڈ مسلم ،،کہیں پھر سے دو جمع دو برابر چار نہیں شروع کردینا ۔ قیاس نہیں دلیل فرقہ جماعت اہل حدیث والی ۔

1۔ ابن عمر﷜ کی حدیث پر میں یہ قانون کیوں لاگوں کروں سہج صاحب۔ وہ صریح اور صحیح ہے۔ چار مقامات پہ رفع کرنا ثابت ہے۔ اس حدیث سے۔ اورالحمد للہ میں اس پر عامل بھی ہوں
2۔ گنتی کے پیچھے تو آپ پڑے ہیں۔ آپ کو گنتی کے پیچھے پڑ جانا چاہیے یا نہیں اس بارے میری گزارشات ماقبل پوسٹ میں دیکھ لیں۔
3۔ میں جس کامحتاج تھا وہ ثابت کردیا اور پھر بچوں کی طرح آپ کو سمجھایا بھی۔ لیکن اب اگر آپ مجھ سے اپنے الٹے خواہشات پر مبنی سوالات کے جوابات قرآن وحدیث سے طلب کرنے بیٹھ جائیں تو پھر شریعت کا اللہ ہی حافظ ہوگا۔
دو اور تین نمبر کو چھوڑ دیتا ہوں اور صرف نمبر ایک پر کچھ کہوں گا ۔موجودہ پوسٹ بقول آپ کے اصح الکتب بعد کتاب اللہ یعنی بخاری شریف سے کچھ روایات پیش کی ہیں انہیں دیکھ کر اپنی اس بات کی تحقیق کیجئے گا اور پھر مجھے بتائیے گا ۔لگے ہاتھوں ایک اور روایت اصح الکتب سے پیش خدمت ہے ۔

عن أبي هريرة،‏‏‏‏ أن النبي صلى الله عليه وسلم دخل المسجد فدخل رجل فصلى ثم جاء فسلم على النبي صلى الله عليه وسلم فرد النبي صلى الله عليه وسلم عليه السلام فقال ‏"‏ ارجع فصل فإنك لم تصل ‏"‏ فصلى،‏‏‏‏ ثم جاء فسلم على النبي صلى الله عليه وسلم فقال ‏"‏ ارجع فصل فإنك لم تصل ‏"‏‏.‏ ثلاثا‏.‏ فقال والذي بعثك بالحق فما أحسن غيره فعلمني‏.‏ قال ‏"‏ إذا قمت إلى الصلاة فكبر،‏‏‏‏ ثم اقرأ ما تيسر معك من القرآن،‏‏‏‏ ثم اركع حتى تطمئن راكعا،‏‏‏‏ ثم ارفع حتى تعتدل قائما،‏‏‏‏ ثم اسجد حتى تطمئن ساجدا،‏‏‏‏ ثم ارفع حتى تطمئن جالسا،‏‏‏‏ ثم اسجد حتى تطمئن ساجدا،‏‏‏‏ ثم افعل ذلك في صلاتك كلها ‏"‏‏.‏
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تشریف لے گئے۔ اتنے میں ایک شخص آیا اور نماز پڑھنے لگا۔ نماز کے بعد اس نے آ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام کا جواب دے کر فرمایا کہ واپس جا کر دوبارہ نماز پڑھ، کیونکہ تو نے نماز نہیں پڑھی۔ چنانچہ اس نے دوبارہ نماز پڑھی اور واپس آ کر پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا، آپ نے اس مرتبہ بھی یہی فرمایا کہ دوبارہ جا کر نماز پڑھ، کیونکہ تو نے نماز نہیں پڑھی۔ تین بار اسی طرح ہوا۔ آخر اس شخص نے کہا کہ اس ذات کی قسم! جس نے آپ کو مبعوث کیا۔ میں تو اس سے اچھی نماز نہیں پڑھ سکتا۔ اس لیے آپ مجھے سکھلائیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تو نماز کے لیے کھڑا ہو تو (پہلے) تکبیر کہہ پھر قرآن مجید سے جو کچھ تجھ سے ہو سکے پڑھ، اس کے بعد رکوع کر اور پوری طرح رکوع میں چلا جا۔ پھر سر اٹھا اور پوری طرح کھڑا ہو جا۔ پھر جب تو سجدہ کرے تو پوری طرح سجدہ میں چلا جا۔ پھر (سجدہ سے) سر اٹھا کر اچھی طرح بیٹھ جا۔ دوبارہ بھی اسی طرح سجدہ کر۔ یہی طریقہ نماز کے تمام (رکعتوں میں) اختیار کر۔
صحیح بخاری،صفۃ الصلوٰۃ،باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اس شخص کو نماز دوبارہ پڑھنے کا حکم دینا جس نے رکوع پوری طرح نہیں کیا تھا
گڈ مسلم صاحب مجھے بتائیے گا ضرور کہ اس روایت کو بھی آپ تسلیم نہیں کرتے ؟

اچھا جب آپ کو صحیح صریح حدیث سے وہ مقامات دکھلا دیئے گئے ہیں جن مقامات پہ ہم لوگ رفع کرتے ہیں تو اس صریح صحیح حدیث کو آپ کیوں نہیں تسلیم کررہے ؟ اور پھر جن الفاظ کو آپ نے پکڑا ہوا ہے وہ میرے دعویٰ میں ہیں ہی نہیں ؟ اس لیے گزارش ہے کہ آپ فی الحال انہیں مقامات پہ رفع شروع کریں۔ باقی رہی دس رفعوں کی دلیل یا ساتھ اٹھارہ کی نفی کی دلیل وہ بھ اس وقت آپ کو سمجھ آجائے گی جب آپ ان مقامات پہ رفع شروع کردیں گے۔ ان شاء اللہ
آپ اوپر پیش کردہ بخاری کی روایت پر عمل کا اعلان کیجئے ، ان شاء اللہ رفع یدین کو چھوڑئیے اور پھر مجھ سے پہلی رفع کی دلیل مانگئے میں آپ کو احادیث سے دکھاؤں گا ان شاء اللہ ، پھر آپ بھی کہہ سکیں گے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جیسے نماز سکھائی تھی ویسی ہی گڈ مسلم ادا کرتا ھے ۔
نوٹ:
ٹائم بہت تھوڑا ہوتا ہے۔ اس لیے اب آپ کی بے تکی باتوں کے جوابات نہیں دیے جائیں گے۔ اب تک اس وجہ سے دیتا آیا تھا تاکہ آپ کی ان بے تکی باتوں کی حقیقت واضح ہوجائے۔ قوی امید ہے کہ اب تک جو اس پر میں نے لکھا قارئین آپ کی بے تکی باتوں اینڈ بے تکے سوالوں کی حقیقت جان چکے ہونگے۔ ان شاء اللہ
اب بات صرف اور صرف آپ جو دلیل پیش کریں گے۔ اس پر کرونگا۔ اور آپ سے بھی گزارش ہے کہ آپ بھی میری دلیل تک ہی بات کریں۔
دیکھنے پڑھنے والے خود فیصلہ کریں کہ بے تکی باتیں کہاں سے آرہی ہیں ۔ اور بادلیل باتیں کہاں سے ۔ اور اب صرف دو جمع دو برابر چار ہی نہیں ہونا چاھئے ۔

اگلی پوسٹ آپ کے ابھی تک دیئے جانے والے دلائل کی حقیقت پر ہوگی۔ان شاء اللہ
دو جمع دو چار کے علاوہ جو دلائیل آپ نے دئیے ہیں ان کو گنتی کے ساتھ پیش کیجئے گا ، اسکے بعد ان شاء اللہ میں بھی جو دلائیل پیش کرچکا ان گنتی کے ساتھ پیش کروں گا ۔ دس جگہ رفع یدین کرنے کی دلیل آپ نے خاص طور پر پیش کرنی ہے تاکہ سب کو معلوم ہو کہ کون سی دلیل تھی۔
شکریہ
 
شمولیت
فروری 01، 2012
پیغامات
34
ری ایکشن اسکور
85
پوائنٹ
54
جبکہ میں نے اہل سنت والجماعت احناف دیوبند کے عمل کے عین مطابق ابن عمر رضی اللہ عنہ کا عمل راویوں کی گواہی کے ساتھ پیش کردیا کہ ہم پہلی رفع یدین کے بعد کوئی رفع یدین نہیں کرتے رکوع سے لیکر سلام تک۔
ایک-ترجمہ :- حضرت مجاھد رحمۃ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے پیچھے نماز پڑھی تو انہوں نے رفع یدین نہیں کیا مگر نماز کی پہلی تکبیر میں۔
شرح معانی الآثار للطحاوی جلد،صفحہ ایک سو پچپن
دو-ترجمہ: حضرت مجاھد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کو ابتداء نماز کے علاوہ رفع یدین کرتے ہوئے کبھی نہیں دیکھا۔
مصنف ابن ابی شیبۃ جلد ایک،صفحہ دوسوسینتیس
چار-ترجمہ: حضرت مجاھد رحمۃ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو ابتداء نماز کے علاوہ رفع یدین کرتے ہوئے کبھی نہیں دیکھا۔
معرفۃ السنن و الآثار، جلد دو، صفحہ چارسواٹھائیس
حدثنا أبو بكر بن عياش عن حصين عن مجاهد قال ما رأيت بن عمر يرفع يديه إلا في أول ما يفتتح
مصنف ابن أبي شيبة

حدثنا بن أبي داود قال ثنا أحمد بن يونس قال ثنا أبو بكر بن عياش عن حصين عن مجاهد قال : صليت خلف بن عمر رضي الله عنهما فلم يكن يرفع يديه إلا في التكبيرة الأولى من الصلاة
شرح معاني الآثار


ﺍﻣﺎﻡ ﺑﺨﺎﺭﯼ ﻛﮩﺘﮯ ﮨﻴﮟ

قال يحيى بن معين حديث أبي بكر عن حصين إنما هو توهم لا أصل له
يحيى بن معين ﻧﮯ ﻛﮩﺎ أبي بكر ﻛﯽ حصين ﺳﮯ ﻳﮫ ﺭﻭﺍﻳﺖ ﺳﺮﺍﺳﺮ ﻭﮬﻢ ﮬﮯ ﺟﺲ ﻛﯽ ﻛﻮﺋﯽ ﺑﻨﻴﺎﺩ ﻧﮭﻴﮟ (قرة العينين)


امام احمد ﻛﮩﺘﮯ ﮨﻴﮟ "وهو باطل" (مسائل الإمام أحمد بن حنبل رواية ابن هانئ)


أخبرنا أبو عبد الله الحافظ قال: أخبرنا محمد بن أحمد بن موسى البخاري قال: حدثنا محمود بن إسحاق قال: حدثنا محمد بن إسماعيل البخاري قال: والذي قال أبو بكر بن عياش، عن حصين، عن مجاهد، عن ابن عمر في ذلك قد خولف فيه عن مجاهد. قال وكيع، عن الربيع بن صبيح: «رأيت مجاهدا يرفع يديه» وقال عبد الرحمن بن مهدي، عن الربيع: «رأيت مجاهدا يرفع يديه إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الركوع» وقال جرير، عن ليث، عن مجاهد، أنه: «كان يرفع يديه» هذا أحفظ عند أهل العلم. قال: وقال صدقة: إن الذي روى حديث مجاهد أنه لم يرفع يديه إلا في أول التكبيرة، كان صاحبه قد تغير بأخرة يريد أبا بكر بن عياش قال البخاري: والذي رواه الربيع، وليث أولى مع رواية طاوس، وسالم، ونافع، وأبي الزبير، ومحارب بن دثار، وغيرهم، قالوا: «رأينا ابن عمر يرفع يديه إذا كبر، وإذا ركع، وإذا رفع» قال الشيخ أحمد، وهذا الحديث في القديم كان يرويه أبو بكر بن عياش، عن حصين، عن إبراهيم، عن ابن مسعود مرسلا. موقوفا، ثم اختلط عليه حين ساء حفظه، فروى ما قد خولف فيه، (معرفة السنن والآثار)

تین-ترجمہ : عبدالعزیز بن حکیم رحمۃ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو دیکھا کہ وہ ابتداء نماز میں پہلی تکبیر کے وقت رفع یدین کرتے تھے کانوں کے برابر اسکے علاوہ رفع یدین نہیں کرتے تھے۔
موطاء امام محمد رحمۃ اللہ علیہ صفحہ نوے
قال محمد أخبرنا محمد بن أبان بن صالح عن عبد العزيز بن حكيمقال : رأيت ابن عمريرفع يديه حذاء أذنيه في أول تكبيرة افتتاح الصلاة ولم يرفعهما فيما سوى ذلك (موطاء امام محمد)

محمد بن أبان بن صالح القرشي , ويقال له: الجعفي الكوفي.
ضعفه أبو داود، وَابن مَعِين.
وَقال البُخاري: ليس بالقوي , وقيل: كان مرجئا. انتهى.
وقال النسائي: محمد بن أبان بن صالح كوفي ليس بثقة.
وقال ابن حبان: ضعيف.
وقال أحمد: أما إنه لم يكن ممن يكذب.
وقال ابن أَبِي حاتم: سألت أبي عنه فقال: ليس هو بقوي في الحديث يكتب حديثه على المجاز، وَلا يحتج به , بَابَة حماد بن شعيب.
وقال السَّاجِي: كان من دعاة المرجئة.
وَقال البُخاري في التاريخ: يتكلمون في حفظه لا يعتمد عليه. (لسان الميزان)
 
شمولیت
فروری 01، 2012
پیغامات
34
ری ایکشن اسکور
85
پوائنٹ
54
عن جابر بن سمرة قال خرج علينا رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم فقال مالی اراکم رفعی يديکم کانها اذناب خيل شمس اسکنوا فی الصلوٰة ۔۔الخ
سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ میں تمہیں اس طرح ہاتھ اٹھاتے دیکھ رہا ہوں گویا وہ شریر گھوڑوں کی دمیں ہیں تم لوگ نماز میں سکون سے رہا کرو۔
قال البخاري فأما احتجاج بعض من لا يعلم بحديث وكيع عن الأعمش عن المسيب بن رافع عن تميم بن طرفة عن جابر بن سمرة رضي الله عنه قال : دخل علينا النبي صلى الله عليه وسلم ونحن رافعوا أيدينا في الصلاة فقال ما لي رافعي أيديكم كأنها أذناب خيل شمس اسكنوا في الصلاة فإنما كان هذا في التشهد لا في القيام كان يسلم بعضهم على بعض فنهى النبي صلى الله عليه وسلم عن رفع الأيدي في التشهد ولا يحتج بهذا من له حظ من العلم هذا معروف مشهور لا اختلاف فيه ولو كان كما ذهب إليه لكان رفع الأيدي في أول التكبيرة وأيضا تكبيرات صلاة العيد منهيا عنها لأنه لم يستثن رفعا دون رفع (قرة العينين)
 

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
السلام علیکم۔۔۔
مجاہدرحمۃ اللہ کی اس روایت کا آخری روای کون ہے؟؟؟۔۔۔
والسلام علیکم۔۔۔
 

گڈمسلم

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 10، 2011
پیغامات
1,407
ری ایکشن اسکور
4,912
پوائنٹ
292
پوسٹ نمبر25 میں آپ سے کیا کیا پوچھا گیا تھا۔ اس کی لسٹ پیش کیے دیتا ہوں۔
1۔ میری پیش کردہ حدیث حدیث کی کس قسم سے تعلق رکھتی ہے ؟
2۔ میری پیش کردہ حدیث میں چار مقاموں کاتذکرہ ہے یا چار رفعوں کا ؟
3۔ آپ کے ہاں یہ حدیث صحیح نہیں ؟ یا جو میں نے ترجمہ کیا ہے وہ درست نہیں ؟ یا کوئی اور بات ہے تو پیش کریں۔
4۔ حدیث میں وہ مقامات جن پر ہم رفع کرتے ہیں وہ میں نے بادلیل پیش کیے یا نہیں ؟
5۔میری پیش کردہ حدیث میں صحابی﷜ کا عمل ہے یا نبی کریمﷺ کا ؟
6۔ایک طرف صحابی﷜ کاعمل ہو اور ایک طرف نبی کریمﷺ کا تو کس کا عمل لیا جائے گا ؟
7۔آپ نے میری پیش کردہ صریح دلیل کے درجہ کی دلیل کیوں نہیں پیش کی ؟ کیا آپ کے پاس اس طرح کی کوئی دلیل نہیں ہے ؟
8۔ چار رکعات نماز میں چار بار رکوع میں جانا اور چار بار رکوع سے سر اٹھانا ہوتا ہے یا نہیں ؟
9۔ چار رکعات نماز میں کتنے قیام، کتنی بار رکوع میں جانا، کتنی بار رکوع سے اٹھنا، کتنے سجود اور کتنے تشہد ہوا کرتے ہیں ؟
10۔آپ نے کہا کہ میں نے باقی رفعوں کو بالقیاس ثابت کیا ہے۔ آپ کی اس بات کا جواب میں بالتفصیل دیا لیکن آپ کاجواب ؟
11۔ روایات کے ٹکراؤ میں حنفی اصول کی روشنی میں کچھ پوچھا ہے آپ سے ؟
12۔میں قیاس کو مانتا ہوں یا نہیں اس الزام کی حقیقت پیش کی لیکن آپ نے الزام واپس لیا ؟
13۔پیش کردہ صحیح مسلم کی حدیث میں کس رفع کی بات ہے؟ پہلی رفع کی ؟ یا باقی رفعوں کی ؟ یا سب رفعوں کی ؟
مختصر ان تیرہ باتوں میں سے آپ نے پوسٹ نمبر31 میں کن کن باتوں کاجواب دیا اور کن کو ہضم کرگئے وہ بتانے کی ضرورت نہیں۔
الحمدللہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی حدیث کا "انکار" آج تک نہیں کیا اور الحمدللہ آپ کی پیش کردہ روایت کا بھی انکار نہیں کیا ۔
صاف اور واضح انکار تو کبھی کسی مسلمان نے کیا ہی نہیں۔۔ حیلوں وبہانوں سے انکار حدیث کرتے آئے ہیں اور کرتے رہیں گے۔ آپ کیا حِیَل مِیَل چلا رہے ہیں۔۔ آپ خود ہی سمجھ لیں۔
تو پھر یہ بدگمانی کیوں بھئی ۔
آپ کے ہی الفاظ نے مجھے اس بدگمانی پر مجبور کردیا تھا۔۔’’ اب دیکھتے ہیں کہ آپ نے کون سی دلیل پیش کی ہے۔‘‘....چلیں اب آپ نے وضاحت کردی، اپنی بات واپس لیتا ہوں۔
جناب میں نے دیکھنے کی بات اسلئے کی تھی کہ شاید اس میں آپ دس تک کی گنتی دکھارہے ہیں ۔
الفاظ کامعنی ومفہوم موقع ومحل طے کرتا ہے۔۔ چلیں خیر آپ کی وضاحت ہی کافی ہے۔ مزید کچھ نہیں کہتا۔
لیکن اس میں تو صرف چار رفع یدین دکھائی ہیں آپ نے ۔
ارے سہج بھائی کیا خوب گپیاں لگا رہے ہو۔محترم مزے کی بات تو یہ ہے کہ میں نے جو حدیث پیش کی اس کو ابھی تک آپ نے توجہ اورسمجھ کر پڑھا ہی نہیں ۔اور میرا یقین ہے کہ جب تک میں نہ وضاحت کرتا آپ کبھی پڑھتے ہی ناں۔چلیں خیر۔ دوبارہ وضاحت کے ساتھ حدیث پیش کیے دیتا ہوں۔
" كان إذا دخل في الصلاة كبر ورفع يديه ، وإذا ركع رفع يديه ، وإذا قال : سمع الله لمن حمده ، رفع يديه ، وإذا قام من الركعتين رفع يديه " (صحيح البخاری، كتاب الأذان، باب رفع اليدين إذا قام من الركعتين، حديث:‏739)
’’ جب نماز کا آغاز فرماتے تو تکبیر کہتے اور رفع الیدین فرماتے، اور جب رکوع کرتے تو رفع الیدین کرتے اور جب سمع اللہ لمن حمدہ کہتے تو رفع الیدین کرتے، اور جب دو رکعتوں سے اُٹھتے تو پھر بھی رفع الیدین کرتے۔‘‘
سہج صاحب: آپ نے کہا کہ آپ نے چار رفع یدین دکھائی ہیں۔حالانکہ اس حدیث میں کہاں گنتی کے ساتھ میں نے چار رفع دکھائی ہیں ؟ ذرا وضاحت کرنا پیش فرمائیں گے ؟ میں نے تو چار مقام واضح کیے ہیں۔
1۔ نماز شروع کرتے وقت رفع الیدین کرنا
2۔ رکوع جاتے ہوئے رفع الیدین کرنا
3۔ رکوع سے سر اٹھاتے ہوئےر فع الیدین کرنا
3۔ دو رکعتوں سے کھڑے ہوتے ہوئے رفع الیدین کرنا

توجہ کیجیے اور بتائیے کہ میں نے چار رفعوں کو ثابت کیا ہے یا چار مقاموں کو ؟ کیونکہ آپ چکر دینے کے ساتھ خود بھی چکر میں پھنسے جارہے ہیں۔ اس لیے متضاد باتیں کرنے سے بہتر ہے کہ آپ صحیح حدیث کو تسلیم کرلیں۔ جو واضح، صریح اور صحیح ہے۔
اور میں نے جو روایات پیش کی ہیں وہ پہلی رفع کی تائید اور باقی تمام کی نفی کرتی ہیں ، الحمد للہ میرا اور تمام اہل سنت والجماعت احناف کا عمل ثابت ہوتا ہے۔۔ کیوں ٹھیک کہا ہے ناں میں نے؟
آپ نے جو روایات پیش کی ہیں۔ ان تمام کی حقیقت یا تو ضعیف کی ہے یا بغیر صراحت کے جس میں اختلافی رفع کا کوئی وجود ہی نہیں۔یا ابہام کی یا عدم ذکر سے گزارہ کرنے کی جس بھی روایت کی جو بھی حقیقت ہے وہ تفصیلاً پیش ہوگی۔ان شاء اللہ ( ٹائم کی قلت ہے ) لیکن پہلے آپ کی تضاد بیانیاں اور آپ کے الفاظوں کی حقیقت آپ کی ہی زبانی واضح ہوتی جائے۔ تو اچھا رہے گا تاکہ تمام مقلدین جو انہی اعتراضات کو لیے پھر رہے ہیں شرمندہ ہوجائیں۔
آپ کی پیش کردہ روایت
’’ جب نماز کا آغاز فرماتے تو تکبیر کہتے اور رفع الیدین فرماتے، اور جب رکوع کرتے تو رفع الیدین کرتے اور جب سمع اللہ لمن حمدہ کہتے تو رفع الیدین کرتے، اور جب دو رکعتوں سے اُٹھتے تو پھر بھی رفع الیدین کرتے۔‘‘
اس حدیث کو پیش کرنے کے بعد آپ نے صرف چار رفع دکھائی ہیں اور باقی کو دو+دو=چار کرکے گنتی مکمل کی ہے ۔ کیوں ٹھیک کہا ناں میں نے ؟؟
میں نے چار رفع دکھائی ہیں یا چار مقام واضح کیے ہیں۔؟۔ اس بارے جو سوال کیا ہے اس کا جواب مطلوب ہے۔ کیونکہ اگر میں نے چار رفعوں کی گنتی دکھائی ہوتی تو پھر یوں ہوتا کہ نماز کے آغاز میں ایک رفع کرنی ہے۔ پہلی رکعت کے رکوع جاتے ہوئے دوسری رفع کرنی ہے۔ پہلی رکعت کے رکوع سے سر اٹھاتے ہوئے تیسری رفع کرنی ہے اور دو رکعتوں سے کھڑے ہوتے ہوئے چوتھی رفع کرنی ہے۔ جب کہ میری پیش کردہ روایت میں نہ یہ الفاظ ہیں اور نہ میں نے ترجمہ میں یہ پیش کیا ہے۔۔ تو آپ نے یہ مطلب
لیکن اس میں تو صرف چار رفع یدین دکھائی ہیں آپ نے ۔
کہاں سے اخذ کرلیا میرے محترم المقام سہج صاحب ۔؟ کیا بتانا پسند کریں گے یا بہت ساری باقی باتوں کی طرح اس بات کو بھی الفاظوں کے بیچم بیچ ہضم کردیں گے ؟
جبکہ میں نے اہل سنت والجماعت احناف دیوبند کے عمل کے عین مطابق ابن عمر رضی اللہ عنہ کا عمل راویوں کی گواہی کے ساتھ پیش کردیا کہ ہم پہلی رفع یدین کے بعد کوئی رفع یدین نہیں کرتے رکوع سے لیکر سلام تک۔
میں کہتا ہوں کہ آپ کی ابن عمر﷜ پر رفع الیدین نہ کرنے کی بات درست نہیں اور میں اس بات کا انکاری ہوں کہ ابن عمر﷜ نماز کے آغاز کے علاوہ باقی مقامات پہ رفع نہیں کرتے تھے۔ اور آپ کو شاید معلوم ہی ہوگا کہ منکر پر قسم اور مدعی پر دلیل ہوا کرتی ہے۔ دلیل تو چلیں آپ نے اپنے تائیں پیش کردی لیکن کیا دلیل صحیح بھی ہے یا نہیں ؟ اس پیش کردہ روایت پر آپ اپنی تحقیق بھی پیش کردیجیے۔ تاکہ آپ کی تحقیق ہمارے سامنے آجائے۔ اس کے بعد ان شاء اللہ ہم اپنی بات رکھیں گے۔ اور ساتھ اس بات کا بھی اضافہ کردینا کہ حضرت مجاہد﷫ کا رفع الیدین بارے کیا عمل تھا ؟
اسی لئے تو میں بار بار آپسے مطالبہ کر چکا کہ بھئی اپنی دلیل سے دس کا اثبات پیش کریں ۔ یہ کیا بات ہوئی کہ تاویل اور قیاس فرمانا شروع کریا آپ نے ۔اسلئے بغیر قیاس کیئے یا دو جمع دو کئے دس کا اثبات پیش کیجئے ، پھر ان شاء اللہ نفی کی طرف بڑھیں گے ۔
آپ اپنی زبانی فرمادیں کہ میں چار مقام والی رفع کو مانتا ہوں، کیونکہ بقول آپ کے میں نے ابھی چار مقام والی رفع ثابت کی ہے۔ فی الحال آپ اس کو تو تسلیم کریں ناں۔ کہ میں اس بات کو تسلیم کرتا ہوں کہ گڈمسلم صاحب نے چار رکعات میں چار مقام پہ رفع کو بادلیل صحیح صریح ثابت کردیا ہے۔۔ کیونکہ اسی حدیث میں آپ کے سوال کا جواب اتم موجود ہے۔ لیکن آپ سمجھ نہیں رہے۔ کوئی بات نہیں سہج صاحب آپ کو سمجھ آجائے گا۔ پر کچھ وقت لگے گا۔
جی گڈ مسلم صاحب آپ نے درست کہا کہ آپ نے بخاری سے صحابی کا عمل پیش کیا اور میں نے دوسری کتابوں کی روایات سے ، تو بھائی صاحب اس میں جو نقص ہے وہ بھی آپ بتادیتے؟ بخاری کو اصح آپ کس دلیل سے مانتے ہیں گڈ مسلم صاحب یہ بھی بتادیجئے گا ؟ کیونکہ یہ کوئی چھوٹا موٹا بول نہیں ۔ اسلئے دلیل ضروری ہے۔ دوسرے یہ کہ آپ اصح الکتب بعد کتاب اللہ پر اگر ایمان ہے تو پھر اس روایت کے بارے میں کیا فرمانا ہے آپ کا ؟
بلا تبصرہ :

عن أنس بن مالك،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم ركب فرسا فصرع عنه،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فجحش شقه الأيمن،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فصلى صلاة من الصلوات وهو قاعد،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فصلينا وراءه قعودا،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فلما انصرف قال ‏"‏ إنما جعل الإمام ليؤتم به،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فإذا صلى قائما فصلوا قياما،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فإذا ركع فاركعوا،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وإذا رفع فارفعوا،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وإذا قال سمع الله لمن حمده‏.‏ فقولوا ربنا ولك الحمد‏.‏ وإذا صلى قائما فصلوا قياما،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وإذا صلى جالسا فصلوا جلوسا أجمعون ‏"‏‏.‏ قال أبو عبد الله قال الحميدي قوله ‏"‏ إذا صلى جالسا فصلوا جلوسا ‏"‏‏.‏ هو في مرضه القديم،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ثم صلى بعد ذلك النبي صلى الله عليه وسلم جالسا والناس خلفه قياما،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ لم يأمرهم بالقعود،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وإنما يؤخذ بالآخر فالآخر من فعل النبي صلى الله عليه وسلم‏.‏
انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک گھوڑے پر سوار ہوئے تو آپ اس پر سے گر پڑے۔ اس سے آپ کے دائیں پہلو پر زخم آئے۔ تو آپ نے کوئی نماز پڑھی۔ جسے آپ بیٹھ کر پڑھ رہے تھے۔ اس لیے ہم نے بھی آپ کے پیچھے بیٹھ کر نماز پڑھی۔ جب آپ فارغ ہوئے تو فرمایا کہ امام اس لیے مقرر کیا گیا ہے کہ اس کی اقتداء کی جائے۔ اس لیے جب وہ کھڑے ہو کر نماز پڑھے تو تم بھی کھڑے ہو کر پڑھو اور جب وہ رکوع کرے تو تم بھی رکوع کرو۔ جب وہ رکوع سے سر اٹھائے تو تم بھی اٹھاؤ اور جب وہ سمع اللہ لمن حمدہ کہے تو تم ربنا لک الحمد کہو اور جب وہ بیٹھ کر نماز پڑھے تو تم بھی بیٹھ کر پڑھو۔ ابوعبداللہ (امام بخاری رحمہ اللہ) نے کہا کہ حمیدی نے آپ کے اس قول ’’ جب امام بیٹھ کر نماز پڑھے تو تم بھی بیٹھ کر پڑھو۔ ‘‘ کے متعلق کہا ہے کہ یہ ابتداء میں آپ کی پرانی بیماری کا واقعہ ہے۔ اس کے بعد آخری بیماری میں آپ نے خود بیٹھ کر نماز پڑھی تھی اور لوگ آپ کے پیچھے کھڑے ہو کر اقتداء کر رہے تھے۔ آپ نے اس وقت لوگوں کو بیٹھنے کی ہدایت نہیں فرمائی اور اصل یہ ہے کہ جو فعل آپ کا آخری ہو اس کو لینا چاہئے اور پھر جو اس سے آخری ہو۔
صحیح بخاری،کتاب الاذان
جب وہ رکوع کرے تو تم بھی رکوع کرو۔ جب وہ رکوع سے سر اٹھائے تو تم بھی اٹھاؤ اور جب وہ سمع اللہ لمن حمدہ کہے تو تم ربنا لک الحمد کہو اس روایت کی اس بات کی آپ کے ہاں کیا حیثیت ہے ؟
ہا ہا ہا ہا ۔۔۔ کیا حیثیت ہے کا کیا مطلب ؟؟ محترم جناب رکوع میں گئے، رکوع سے اٹھے، میں مانتا ہوں۔ کیا آپ اس سے یہ ثابت تو نہیں کرنا چاہتے کہ یہاں نبی کریمﷺ نے رفع الیدین کاکوئی ذکر نہیں کیا لہذا رفع منسوخ ہے۔ کیونکہ اگر رفع منسوخ نہ ہوتی تو آپﷺ ضرور تذکرہ کرتے۔ رائٹ ؟؟ لوگ کہتے ہیں نقل بھی اگر لگانی پڑ جائے تو سوچ کر لگانی چاہیے۔ تو یہ لوگ سو فیصد سچ کہتے ہیں۔
اگر آپ اس حدیث کو پیش کرکے رفع الیدین کے عدم ذکر سے رفع کو منسوخ ثابت کرنا چاہتے ہیں تو پھر سنیں محترم المقام سہج صاحب !
1۔ نماز کےلیے وضو کا کیا مقام ہے۔؟ شاید معلوم ہوگا کیا اس حدیث میں وضوء کا ذکر ہے ؟
2۔ پوری نماز میں کسی بھی جگہ قراءت کا ذکر ہے ؟
3۔ سجود کا ذکر ہے ؟
4۔ تشہد کا ذکر ہے ؟
اگر ان عملوں کا ذکر ہے تو پھر پیش کردیجیے کہ گڈمسلم صاحب یہ یہ حدیث کے الفاظ اس اس چیز کو ثابت کررہے ہیں۔ کیونکہ مجھے تو نظر نہیں آرہے شاید آپ کو نظر آرہے ہوں۔ لیکن اگر ان چار کاموں کو آپ اسی حدیث سے ثابت نہ کرسکے تو پھر اس حدیث میں رفع الیدین کے عدم ذکر کو جب آپ منسوخ کے ساتھ مستلزم کررہے ہیں تو پھر ان چار افعال کو بھی منسوخ کے ساتھ مستلزم کرتے ہوئے ہاتھوں کو صاف کرلیں۔ کیونکہ پہلی رفع سے تو آپ پہلے ہی ہاتھ دھو چکے تھے۔ اب ساتھ ساتھ وضوء، قراءت، سجود اور تشہد سے بھی ہاتھ دھو چکے ہیں۔ ماشا ءاللہ
کیا یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم نہیں؟
بالکل حکم ہے جناب سہج صاحب۔ اور نبی کریمﷺ کاحکم کے آگے اگر جان بھی قربان کرنی پڑی تو پیچھے نہیں ہٹوں گا ان شاء اللہ
اور دیکھ لیجئے اس میں بھی پہلی رفع سمیت بعد کی رفع یدین کا بلکل زکر نہیں ،
آپ کے یہ الفاظ پڑھ کر ماقبل پیش بیان جو پہلے گمان کی صورت میں لکھا وہ حقیقت میں بدل گیا ۔ کیسی دلیل لائے ہیں آپ محترم سہج صاحب۔بہت خوب۔ چلیں پھر اگر آپ اس حدیث میں رفع الیدین کے عدم ذکر کو اپنے موقف کی مضبوطی کےلیے ایز اے دلیل پیش کررہے ہیں۔ تو جن اعمال کا تذکرہ گڈمسلم صاحب نے کیا ہے۔ ان کا ذکر بھی اس حدیث میں نہیں ہے۔ کیا خیال ہے ان اعمال سے بھی چھٹی نہ کرلیں ؟
تو پھر بتائیے اس حکم پر آپ کیوں عمل نہیں کرتے ؟
ہم عمل کرتے ہیں محترم جناب صاحب۔ آپ اس حدیث کو غلط مفہوم پہنا رہے ہیں۔ اور اس پر جو پوچھا ہے۔ جب آپ اس کا جواب دیں گے تب معلوم ہوجائے گا کہ ہم اس حدیث پر عمل کرتے ہیں یا نہیں ؟
یہ بھی "اصح الکتب " میں ہی موجود ہے ۔یا پھر اس کو آپ " عمل" میں نہیں لاتے یا پھر کوئی اور تاویل ؟
عمل بھی کرتے ہیں اور تاویل بھی نہیں کرتے مسٹر سہج صاحب۔ کیونکہ تاویل بلکہ تاویلات بلکہ تاویلات در تاویلات جس کا نہ سر ہوتا ہے اور نہ پیر۔ وہ مقلدین ہی کیا کرتے ہیں۔ الحمد للہ ہم اہل حدیث ہیں۔ شریعت کا وہی مفہوم لیتے ہیں جو مراد رب جلیل اور وضاحت نبی کریمﷺ کے ساتھ سلف صالحین کے منہج پر ہوا کرتا ہے۔ لیکن آپ اس حدیث سے جو ثابت کرنا چاہتے ہیں اگر پیش کرنے سے پہلے خود غور کرلیا ہوتا تو دلیل کے طور پر یہاں پیش کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہ کرتے۔ امید ہے کہ آئندہ جو بھی پیش کروگے غور وفکر کے بعد پیش کروگے۔ ان شاء اللہ
لاجک کی ضرورت ہے آپ کو کہ آپ اس کو پیش کریں ؟ بھئی آپ اطيعواالله و اطيعوا الرسول کو ہی ماننے والے ہیں اسلئے اسی سے بتانا ہے آپ نے ۔ ہر آدمی کو کون بتاتا ہے یا ہر آدمی کہاں سے یہ علم حاصل کرتا ہے کہ ار رکعات نماز میں کتنے قیام ہوتے ہیں؟، کتنے رکوع ہوتے ہیں؟ چار رکعتوں میں کتنی بار رکوع میں جایا جاتا ہے؟، کتنی بار رکوع سے اٹھا جاتا ہے؟، کتنے سجود اور کتنے تشہد ہوتے ہیں؟ کتاب اللہ سے یا حدیث سے ؟ بتانا ضرور ۔
لگتا ہے جو پوچھا گیا تھا وہی سمجھ ہی نہیں آیا۔ محترم المقام صاحب جو ماقبل پوچھا تھا وہی دوبارہ پیش کیے دیتا ہوں
کیا آپ اس بات سے انکار کرتے ہیں کہ چار رکعات نماز میں چار بار رکوع میں جانا نہیں ہوتا اور چار بار رکوع سے اٹھنا نہیں ہوتا۔ آپ اپنے انکار کو ثابت کردیں میں ان شاء اللہ اثبات کو ثابت کروونگا۔ کیا خیال ہے محترم سہج صاحب اینڈ حسین صاحب ؟
قوی امید ہے کہ اب ضرور جواب مل جائے گا۔ آپ جیسوں کو راستے پہ لانے کےلیے کئی طرح کے لاجک استعمال کیے جاتے ہیں۔ کیونکہ واضح اور صریح دلائل کو تو آپ ماننے والے ہی نہیں ہوتے۔ اس لیے جو پوچھا اپنی زبانی اس کا جواب دے دیں ۔ پھر لاجک کیوں استعمال کیا گیا تھا؟ سب سمجھ آجائے گا۔ فکر کرنے اور گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ شکریہ
سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ میں تمہیں اس طرح ہاتھ اٹھاتے دیکھ رہا ہوں گویا وہ شریر گھوڑوں کی دمیں ہیں تم لوگ نماز میں سکون سے رہا کرو۔
صحیح مسلم جلد ایک

اس بارے میں بھی آگاہ کیجئے کہ یہ حکم مطلق کے ذمرہ میں آتا ہے کہ نہیں ۔ چلیں اب آگے چلتے ہیں ۔
محترم المقام صاحب اس حدیث کو آپ بار بار کوٹ کرتے جارہے ہیں۔میں نے کئی بار آپ سے پوچھا ۔ پھر پوچھتا ہوں کہ
1۔ آپ مسلم سے حدیث پیش کررہے ہیں یہ حدیث امام مسلم﷫ کس باب کے تحت لائے ہیں ذرا اس بات کا نام نقل فرمانا یا یہاں پیش پوش کرنا پسند کریں گے ؟
2۔اگر اس حدیث کو ہم رفع الیدین کے منسوخ ہونے کی دلیل بنائیں تو پھر پہلی رفع بھی ہاتھ سے جاتی نظر آتی ہے۔ کیا خیال ہے باقی رفعوں سے تو پہلے خلاصی برتی ہوئی ہے یہ پہلی رفع کب چھوڑنے کا موڈ ہے ؟
3۔ آپ کا فرمان ’’ اسکنوا فی الصلاۃ ‘‘ کیا جس رفع کو آپ نہیں کرتے اسی رفع کے بارے میں ہی تھا ؟ آپ کے پاس اس کی کیا دلیل ہے ؟ ذرا پیش پوش کرنا پسند فرمائیں گے ؟ یا پہلے کی کئی باتوں کی طرح ہضم ہی کرتے چلے جائیں گے ؟
4۔ اس حدیث میں ہاتھ اٹھانے کے موقع محل کا بھی تذکرہ نہیں ہے۔ تو پھر آپ اس سے وہی چار مقام جن پہ ہم رفع کرتے ہیں کیسے مراد لے سکتے ہیں ؟
5۔ ہاتھ اٹھانے کی کیفیت کا معلوم نہیں۔کہ آپﷺ نے صحابہ کرام﷢ کو کس طرح ہاتھ اٹھانے سے منع کیا ہے ؟ کیا آپ کے پاس کوئی صریح حدیث ہے جس میں رفع الیدین میں جو ہاتھ اٹھائے جاتے ہیں ان سے منع کرنے کی طرف نبی کریمﷺ کا اشارہ ہو ؟
6۔ آپ اس بات کو تسلیم کرچکے ہیں کہ اختلافی رفع الیدین نبی کریمﷺ نے بھی کی ۔ بقول آپ کے پہلے زمانے میں۔ تواچھا محترم المقام کیا آپ مجھے یہ بتلا سکتے ہیں کہ ایک ایسا کام جس کو آپﷺ ایک دور میں خود کرتے رہے (جب کرتے رہے تو ظاہر ہے شریعت تھا تب ہی کرتے رہے تھے ناں) اسی کام کو اتنی بری مثال سے تشبیہ دے سکتے ہیں؟ آخر اچانک کیا قباحت آگئی تھی اس فعل میں جس پر نبی کریمﷺ کو اتنی بری مثال دینا پڑی؟ (نعوذباللہ) ہوسکتا ہے صحابہ﷢ جو کررہے تھے ان کو منسوخیت معلوم ہی نہ ہو تو کیا شارع ایسے آدمیوں پر سختی، سزا، ڈانٹ ڈپٹ کرسکتا ہے جن کو نازل ہونے والے حکم کا علم تک نہ ہو ؟
اور پھر آپ نے جو مسلم سے حدیث پیش کی۔
عن جابر بن سمرة قال خرج علينا رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم فقال مالی اراکم رفعی يديکم کانها اذناب خيل شمس اسکنوا فی الصلوٰة ۔۔الخ
سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ میں تمہیں اس طرح ہاتھ اٹھاتے دیکھ رہا ہوں گویا وہ شریر گھوڑوں کی دمیں ہیں تم لوگ نماز میں سکون سے رہا کرو۔
صحیح مسلم جلد ایک
پوری حدیث میں پیش کیے دیتا ہوں۔
حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة وأبو كريب قالا حدثنا أبو معاوية عن الأعمش عن المسيب بن رافع عن تميم بن طرفة عن جابر بن سمرة قال : خرج علينا رسول الله صلى الله عليه و سلم فقال مالي أراكم رافعي أيديكم كأنها أذناب خيل شمس ؟ اسكنوا في الصلاة قال ثم خرج علينا فرآنا حلقا فقال ما لي أراكم عزين ؟ قال ثم خرج علينا فقال ألا تصفون كما تصف الملائكة عند ربها ؟ فقلنا يا رسول الله وكيف تصف الملائكة عند ربها ؟ قال يتمون الصفوف الأول ويتراصون في الصف ۔۔( صحیح مسلم، جزء ایک، ص322)
یہ تو وہ روایت تھی جو آپ نے پیش کی تھی۔ اب اسی معنی میں صحیح مسلم سے ہی ایک حدیث کچھ الفاظ کی تبدیلی کے ساتھ میں پیش کرنے لگا ہوں۔
حدّثنا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ. قَالَ: حَدّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ مِسعَرٍ. ح وَحَدّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ (وَاللّفْظُ لَهُ) قَالَ: أَخْبَرَنَا ابْنُ أَبِي زَائِدَةَ عَنْ مِسْعَرٍ. حَدّثَنِي عُبَيْدُ اللّهِ بْنُ الْقْبطّيةِ عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ قَالَ: كُنّا إِذَا صَلّيْنَا مَعَ رَسُولِ اللّهِ صلى الله عليه وسلم، قُلْنَا: السّلاَمُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ الله السّلاَمُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ الله . وَأَشَارَ بِيَدِهِ إِلَى الْجَانِبَيْنِ . فَقَالَ رَسُولُ اللّهِ صلى الله عليه وسلم: "عَلاَمَ تُومِئُونَ بِأَيْدِيكُمْ كَأَنّهَا أَذْنَابُ خَيْلٍ شُمُسٍ؟ إِنّمَا يَكْفِي أَحَدَكُمْ أَنْ يَضَعَ يَدَهُ عَلَى فَخِذِهِ، ثُمّ يُسَلّمُ عَلَى أَخِيهِ مَنْ عَلَىَ يَمِينِهِ وَشِمَالِهِ"...( صحیح مسلم، کتاب الصلاۃ، جزء14، ص116)
مفہوم حدیث یہ ہے کہ جابر بن سمرہ﷜ فرماتے ہیں کہ ہم نے نبی کریمﷺ کے ساتھ نماز پڑھی جب سلام پھیرا گیا تو ہم نے دو طرف سلام پھیرتےہوئے ہاتھوں سے اشارہ بھی کیا۔اس پر نبی کریمﷺ نے فرمایا "عَلاَمَ تُومِئُونَ بِأَيْدِيكُمْ كَأَنّهَا أَذْنَابُ خَيْلٍ شُمُسٍ؟ إِنّمَا يَكْفِي أَحَدَكُمْ أَنْ يَضَعَ يَدَهُ عَلَى فَخِذِهِ، ثُمّ يُسَلّمُ عَلَى أَخِيهِ مَنْ عَلَىَ يَمِينِهِ وَشِمَالِهِ" یعنی اس روایت میں جابرہ بن سمرہ﷜ نے سلام کی وضاحت کردی کہ ہم نے اشارہ سلام پھیرتے وقت کیا۔۔ سمجھ گئے ناں مسٹر سہج صاحب۔ہاں ہاں ہوسکتا ہے کہ میں نا مانوں کی وجہ سے آپ میری پیش کردہ حدیث پر کوئی اعتراض کریں۔اس اعتراض کو کلی طور بند کرنے کےلیے ایک اورحدیث بالکل آپ کی پیش کردہ حدیث میں جو الفاظ ذکر کیے گئے ہیں انہیں الفاظ میں پیش کررہا ہوں لیکن لیکن جناب لیکن لیکن اس میں یہ صراحت ہے کہ نبی کریمﷺ نے یہ الفاظ کس رفع کے بارے میں فرمائے تھے ؟
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ، ثنا أَبُو نُعَيْمٍ، ثنا مِسْعَرٌ، عَنْ عُبَيْدِ اللهِ بْنِ الْقِبْطِيَّةِ، قَالَ: سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ سَمُرَةَ، يَقُولُ: كُنَّا إِذَا صَلَّيْنَا خَلْفَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُلْنَا: السَّلَامُ عَلَيْكُمِ السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَأَشَارَ مِسْعَرٌ بِيَدِهِ عَنْ يَمِينِهِ وَعَنْ شِمَالِهِ، فَقَالَ: «مَا بَالُ هَؤُلَاءِ يَرْفَعُونَ أَيْدِيَهُمْ كَأَنَّهَا أَذْنَابُ الْخَيْلِ الشُّمُسِ، أَمَا يَكْفِي أَحَدَكُمْ، أَوْ أَحَدَهُمْ، أَنْ يَضَعَ يَدَهُ عَلَى فَخِذِهِ، ثُمَّ يُسَلِّمُ عَلَى أَخِيهِ مِنْ عَنْ يَمِينِهِ وَشِمَالِهِ» (المعجم الكبير للطبراني :2/ 205 رقم 1836 )
دیکھ لیں مسٹر سہج صاحب اس حدیث کو بھی اور غور کے ساتھ فکر بھی کرلیں۔ اور ساتھ ساتھ اپنے آپ کو یہ احساس بھی دلا دیں کہ میں اس حدیث کو کس معنیٰ میں لے رہا تھا لیکن یہ تو کچھ اور ہی نکل آیا۔
محترم المقام صاحب شاید ان تین احادیث پر اگر غور کریں تو تینوں کے راوی ایک ہی صحابی یعنی حضرت جابر بن سمرۃ﷜ ملیں گے۔ اور جب ہم ان تینوں احادیث کو ملا کر دیکھیں گے تو معلوم ہوگا کہ حضرت جابر بن سمرۃ﷜ نبی کریمﷺ کے اس فرمان کو ’’ كَأَنَّهَا أَذْنَابُ الْخَيْلِ الشُّمُسِ ‘‘ کس رفع سے رک جانے کے بارے میں کہہ رہے ہیں۔ سمجھ آگیا ناں سہج صاحب۔
آپ کی ایک دلیل کی حقیقت کیا تھی؟ کیا وہ اس قابل تھی کہ آپ اس کو اپنے موقف پر پیش کرسکیں اس کو تو پیش کردیا ہے۔ قوی امید ہے کہ اب دوبارہ یہ حدیث پوری زندگی کبھی بھی کسی کے ساتھ بھی کسی جگہ بھی اس مسئلہ پر بات کرتے ہوئے پیش نہیں کرو گے۔ ان شاء اللہ ۔۔ اگر نبی کریمﷺ کے سچے حب دار ہو تو ....؟؟؟؟
وإذا قام من الركعتين رفع يديه " (صحيح البخاری، ) تیسری رکعت کی تو بات ہے ناں ؟ تو پھر دوسری اور چوتھی رکعت کی نفی کا مطلب آپ نکالتے ہیں یا نہیں ؟کیا وہ قیاس ہے ؟
دیکھیں سہج صاحب جو بات پوچھی جائے اگر جواب دینا ہو تو پورا جواب دیا کریں۔ ورنہ اس کی طرف ہاتھ بھی نہ بڑھایا کریں۔ میں نے کیا کیا پوچھا تھا ؟ اور آپ نے کس کاجواب دیا یا کس پر لب کشائی کی۔ میں نے پوچھا تھا کہ
1۔ جب آپ نے کہا کہ آپ نے دس رفعوں کا اثبات قیاس سے کیا ہے۔ میں نے وضاحت پیش کرکے کہا کہ یہ قیاس نہیں۔ کیا آپ کاحق نہیں بنتا تھا کہ آپ اس کو قیاس ثابت کرتے یا پھر کہتے کہ میں نےغلطی سے کہہ دیا تھا۔اقتباس دوبارہ پیش کیے دیتا ہوں شاید سمجھ آجائے
قیاس تب ہوتا مسٹر سہج صاحب جب پہلی رکعت کے رکوع کا حکم حدیث میں ہوتا کہ پہلی رکعت کے قیام میں یہ کرنا ہے، اور رکوع میں رکوع جاتے ہوئے اور رکوع سے سر اٹھاتے ہوئے آپ نے رفع کرنا ہے۔ اور پھر میں کہتا کہ آپﷺ نے پہلی رکعت کے رکوع کے بارے میں یہ فرمایا ہے۔ اور دوسری رکعت کا بھی رکوع پہلی رکعت کے رکوع کی مثل ہے۔لیکن آپﷺ نے دوسری رکعت کے رکوع کے بارے میں کچھ نہیں فرمایا اس لیے آپﷺ کا پہلی رکعت کے رکوع پر بولا جانےوالا حکم دوسری رکعت کے رکوع پر بھی لاگو ہوگا۔ لیکن مسٹر سہج صاحب میں نے یہاں یہ بات نہیں کی۔بلکہ میں نے رکوع جاتے ہوئے اور رکوع سے سر اٹھاتے ہوئے رفع کو ثابت کیا ہے۔اس لیے جس عمل پر رکوع کا لفظ بولا جائے گا چاہے وہ جس بھی نماز کا جس میں رکعت کا ہوگا آپ کو رفع کرنا ہوگا رکوع جاتے ہوئے اور رکوع سے سر اٹھاتے ہوئے۔آئی سمجھ سہج صاحب ؟؟؟؟؟؟
اگر آپ کی باتوں پر آیا جائے تو پھر ایک رکعت، دو رکعات، تین رکعات، چار رکعات، پانچ رکعات، سات رکعات، نو رکعات، گیارہ رکعات، تیرہ رکعات وغیرہ ان سب میں رفع الیدین کی تعداد اٹھائیس سے بڑھتی اور کم ہوتی رہے گی۔
کیا خیال ہے پھر تمام رکعتوں کے الگ الگ آپ کے مطالبہ کے مطابق دلائل دینے ہونگے ؟ کیوں بچگانہ حرکتیں وباتیں کرتے ہیں سہج صاحب (اضافہ)
2۔ آپ نے کہا کہ ’’ دوسری اور چوتھی رکعت کی نفی کا مطلب آپ نکالتے ہیں یا نہیں ؟کیا وہ قیاس ہے ؟ ‘‘ دیکھیں سہج صاحب
آپ نے حدیث کے اس جملے کا معنی ومفہوم وتشریح سمجھی ہی نہیں کہ یہ کیوں بولا گیا ہے۔ میں سمجھاتا ہوں
نماز مختلف رکعات پر مشتمل ہوتی ہے یا نہیں ؟ ہوتی ہے ناں ؟ ایک رکعت بھی، دو بھی، تین بھی، چار بھی۔ پانچ، سات، نو، گیارہ الخ ہوتی ہے ناں ؟ اگر نماز ایک یا دو رکعتوں والی ہو تو پھر حدیث میں یہ الفاظ ’’وإذا قام من الركعتين‘‘ بے معنی، بے مقصد ہونے کے ساتھ کوئی مطلب ہی نہیں ہے یہاں ان کے بیان کا۔ تو پھر آپ کیا کہیں گے کہ ان الفاظ کا اضافہ صحابی﷜ نے نعوذباللہ جان بوجھ کر کردیا ہے؟ محترم جناب ان الفاظ میں ایک اصول اور ضابطہ بیان کیا گیا ہے۔کہ ہر وہ نماز میں جس میں تشہد کرنے کے بعد آپ دوسری رکعت کےلیے کھڑے ہونگے تو آپ کو رفع الیدین کرنا ہوگی۔ رکعات کو بیچ میں لا کر قیاس میاس کی بات مت کیجیے۔ آ گئی ناں سمجھ محترم المقام صاحب۔؟
عن عائشة،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ أنها قالت خسفت الشمس في عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم فصلى رسول الله صلى الله عليه وسلم بالناس،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فقام فأطال القيام،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ثم ركع فأطال الركوع،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ثم قام فأطال القيام وهو دون القيام الأول،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ثم ركع فأطال الركوع،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وهو دون الركوع الأول،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ثم سجد فأطال السجود،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ثم فعل في الركعة الثانية مثل ما فعل في الأولى،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ثم انصرف وقد انجلت الشمس،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فخطب الناس،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فحمد الله،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وأثنى عليه ثم قال ‏"‏ إن الشمس والقمر آيتان من آيات الله،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ لا ينخسفان لموت أحد ولا لحياته،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فإذا رأيتم ذلك فادعوا الله وكبروا،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وصلوا وتصدقوا ‏"‏‏.‏ ثم قال ‏"‏ يا أمة محمد،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ والله ما من أحد أغير من الله أن يزني عبده أو تزني أمته،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ يا أمة محمد،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ والله لو تعلمون ما أعلم لضحكتم قليلا ولبكيتم كثيرا ‏"‏‏.‏
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ قعنبی نے بیان کیا ، ان سے امام مالک نے بیان کیا ، ان سے ہشام بن عروہ نے بیان کیا ، ان سے ان کے باپ عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ، ان سے ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں سورج گرہن ہوا تو آپ نے لوگوں کو نماز پڑھائی۔ پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے تو بڑی دیر تک کھڑے رہے، قیام کے بعد رکوع کیا اور رکوع میں بہت دیر تک رہے۔ پھر رکوع سے اٹھنے کے بعد دیر تک دوبارہ کھڑے رہے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلے قیام سے کچھ کم، پھر رکوع کیا تو بڑی دیر تک رکوع میں رہے لیکن پہلے سے مختصر، پھر سجدہ میں گئے اور دیر تک سجدہ کی حالت میں رہے۔ دوسری رکعت میں بھی آپ نے اسی طرح کیا، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم فارغ ہوئے تو گرہن کھل چکا تھا۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ دیا اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا کہ سورج اور چاند دونوں اللہ کی نشانیاں ہیں اور کسی کی موت و حیات سے ان میں گرہن نہیں لگتا۔ جب تم گرہن لگا ہوا دیکھو تو اللہ سے دعا کرو تکبیر کہو اور نماز پڑھو اور صدقہ کرو۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے محمد کی امت کے لوگو! دیکھو اس بات پر اللہ تعالیٰ سے زیادہ غیرت اور کسی کو نہیں آتی کہ اس کا کوئی بندہ یا بندی زنا کرے، اے امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! واللہ جو کچھ میں جانتا ہوں اگر تمہیں بھی معلوم ہو جائے تو تم ہنستے کم اور روتے زیادہ۔
صحیح بخاری
امید ہے آپ کو بھی سمجھ آگئی ہوگی کیونکہ اوپر پیش کردہ روایت میں رکوع تو ہے لیکن رفع یدین کا زکر نہیں ، اور یہ روایت بھی بخاری کی ہی ہے ۔کیا آپ اس پر عامل ہیں ؟
جی الحمد للہ میں عامل ہو اس حدیث سے ثابت شدہ اس حکم پر جس کی تعلیم نبی کریمﷺ ہمیں دینا چاہتے تھے۔ لیکن آپ کی طرح مارے گھٹنہ پھوٹے سر، اورکہاں کی اینٹ کہاں کا روڑا، بھان متی کا کنبہ جوڑا والی باتیں نہیں کرتا۔ اچھا آپ ماقبل حدیث کی طرح اس میں بھی رفع کے عدم ذکر کو منسوخ پر دلیل مان رہے ہیں تو پھر بتائیے
1۔ حدیث میں وضوء کا ذکرنہیں ؟ کہ اس نماز کےلیے وضوء بھی کیا گیا تھا ؟ یا نہیں ؟
2۔ یہ نماز کس وقت پڑھی گئی تھی؟ وقت کا بھی تذکرہ نہیں کیونکہ اگر کوئی کہے کہ یہ نماز تین مکروہ اوقات سورج نکلتے ہوئے، سورج سر پہ ہوتے ہوئے اور سورج غروب ہوتے ہوئے پڑھی گئی تو مسٹر سہج صاحب اس کو کیا جواب دیں گے ؟
3۔ قیام میں قراءت کا بھی ذکر نہیں؟ کیا قراءت کی گئی تھی یا نہیں ؟
4۔ رکوع میں تسبیح کا بھی ذکر نہیں؟
5۔ سجدہ میں بھی تسبیح کا کوئی ذکر نہیں ؟
6۔ تشہد کا بھی ذکر نہیں ؟
6۔ سلام پھیرنے کا بھی تذکر نہیں کہ آپﷺ نے سلام پھیرا تھا یا نہیں ؟
رفع کے عدم ذکر سے اگر آپ نے رفع کو چھوڑ دیا ہے تو پھر اسی حدیث میں ہی ان تمام باتوں کا تذکر نہیں۔ جناب سہج صاحب پھر ان سب اعمال سے کب خلاصی برت رہے ہو ؟ جس دن برتنی ہو بتا دینا کہ گڈمسلم صاحب وضوء، قراءت، رکوع وسجود کی تسبیحات، تشہد، سلام وغیرہ سے رفع الیدین کی طرح ہاتھ دھو بیٹھا ہوں اورہاں یاد آیا پہلی رفع سے تو آپ کب کے ہاتھ صاف کرچکے ہیں۔ ماشاء اللہ
دس کا اثبات بھی نہیں دکھایا اور نفی کا باب تو ابھی کھلا ہی نہیں اسلئے گڈ مسلم صاحب دلیل پیش کیجئے صریح دو جمع دو برابر چار تو ہر عام آدمی کرلیتا ہے ، لیکن آپ کا دعوٰی ہے اطيعواالله و اطيعوا الرسول
محترم جناب ابھی تو آپ نماز کے ایک ایک عمل سے آہستہ آہستہ خلاصی برتتے جارہے ہیں۔ آپ کو مزید کیا دکھاؤں ؟ دوسرا جو حدیث پیش کی ہے اسی میں ہی آپ کے مطالبے کا پورا پورا جواب ہے۔ جان بوجھ کر کوے کو سفید کہے جارہے ہیں۔
شاید آپ کو اتنی تو تعلیم ہوگی کہ معاملات میں اصل اباحت ہے الا کہ حرمت کی دلیل آجائے اور عبادات میں اصل حرمت ہے الا کہ حلت کی دلیل آجائے۔یہ بات سمجھ لینے کے بعد اگر غور وفکر کو تکلیف دینے کا سوچ لیں تو پھر آپ کو معلوم ہوجانا چاہیے کہ نماز بھی ایک عبادت ہے اور نماز میں جن جگہوں پر جو عمل کرنا تھا آپﷺ نے اس کا بتا دیا۔جن کا نہیں بتایا وہ نہیں کرنے۔اسی بات کو جب آپ سمجھ لیں گے تو پھر گنتے کرتے ہوئے خود جان لینا کہ چار رکعات میں کل کتنی جگہیں ہیں جہاں آپﷺ نے رفع الیدین کیا اور ان جگہوں پر اگر چار رکعات میں رفع کی جائے تو یہ تعداد کہاں تک پہنچتی ہے۔ اور پھر چار رکعات نماز میں کتنی جگہیں ہیں کہ جہاں پر آپﷺ نے رفع الیدین نہیں کیا اور اگر ان کی گنتی کی جائے تو گنتی کہاں تک پہنچتی ہے۔
میں توکب سے کہہ رہا تھا کہ اسی حدیث میں ہی آپ کا مطالبہ پورا پورا پیش کیا گیا ہے۔ لیکن آپ سمجھ ہی نہیں رہے تھے ؟ اب سمجھ گئے ناں مسٹر سہج صاحب ؟
بے شک صحابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی عمل نقل کرتا ہے اور اسی نقل کو تابعی نقل کرے تو ؟
مزاحیہ باتیں۔
چاہے نبی کریمﷺ کا عمل صحابی﷜ نقل کرے، تابعی﷫ نقل کرے، یا اسناد کو بیان کیے بغیر گڈمسلم صاحب نقل کریں ہوگا نبی کریمﷺ کاعمل۔ کسی اور کاعمل نہیں ہوجائے گا۔ محترم المقام صاحب۔
بجائے اس کے کہ آپ میری بات مان لیتے اور کہہ لیتے سوری گڈمسلم صاحب لکھنے میں مجھے غلطی لگ گئی ایک اور مزاح چھوڑ دیا۔ محترم صاحب آپ نے کہا کہ میں نے صحابی﷜ کا عمل پیش کیا جس پر میں نے کہا نہیں نہیں سہج صاحب ’’ صحابی کا عمل نہیں بلکہ نبی کریمﷺ کاعمل اور صحابی کا بیان۔ ‘‘
اگر میں نے انکار کیا ہے ابن عمر رضی اللہ عنہ کی روایت کا تو پھر ضرور زور لگالیجئے گا ۔ اور فضول باتوں کی نشاندہی بھی کرتے جائیے۔
ہم م م م میں نے کیا بات کی جناب نے کیا بات کردی۔ حضور آپ نے جو ابن عمر﷜ کا عمل پیش کیا اس بارے میں نے بات کی۔ میری پیش کردہ حدیث پر آپ کے انکار واقرار کی بات نہیں کی۔ کیوں آپ گھوم گئے ہیں ؟
کئی بار کہہ چکا ہوں کہ آپ انکار کر ہی نہیں سکتے اور نہ آپ میں اتنی جراءت ہے۔ کیوں بار بار شرمندہ کیے جارہے ہیں۔ بات تو یہ ہے کہ آپ نے جو ابن عمر﷜ کا عمل بذریعہ راوی مجاہد﷫ پیش کیا اس کی کیا حقیقت ہے۔؟ یہ آپ سے پوچھنا ہے۔
رسول الله صلى الله عليه وسلم سباطة قوم فبال قائما‏.‏
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی قوم کی کوڑی پر تشریف لائے اور آپ نے وہاں کھڑے ہو کر پیشاب کیا۔
بخاری

دیکھئیے مسٹر گڈ مسلم ، آپ خود بخاری کو اصح الکتب بعد کتاب اللہ مانتے ہیں اور خود ہی بخاری کو ترجیع بھی دیتے ہیں تو جناب سے سوال عرض کیا ہے کہ بخاری کی اس روایت پر کب عمل کرتے ہیں کبھی کبھی یا کبھی نہیں ؟ اور اگر بیٹھ کر پیشاب کرتے ہیں تو کیا سمجھ کر ؟ اگر "سنت" سمجھتے ہیں تو (یہ الگ بات ہے کہ اسے بھی "سنت" آپ اپنی دلیل سے ثابت نہیں کرسکتے)کیا بخاری کے مقابلہ میں کسی اور کتاب کو ترجیع دیتے ہیں ؟ایسے معاملہ میں بھی ترجیع بخاری کو ہی دیجئے ۔ اور ہاں اعلان ضرور کیجئے گا یہاں ایچ ون دباکر ۔
پہلی بات: آپ کی یہ بات خارج از موضوع ہے اورمجھے یقین ہے کہ اب آپ بہت شور ڈالیں گے۔ لیکن ناں ناں سہج صاحب آپ کوشور نہیں ڈالنے دیا جائے گا۔ آگئی ناں سمجھ ؟ اور آپ کی اس طرح کی باتوں پر بھی کچھ نہیں لکھا جائے گا۔
دوسری بات: میں نے کیا بات پوچھی جناب نے کیا بات کردی میری بات دوبارہ پیش ہے۔( مزے کی بات یہ ہے کہ جناب نے اقتباس میں بھی کوٹ کردی، لیکن یہ نہ جان سکے کہ اس میں پوچھا کیا گیا ہے۔)
تیسری بات:
بقول آپ کے اگر روایات کا آپس میں ٹکراؤ ہے۔(حنفی اصول ٹکراؤ آجانے میں کیاکہتا ہے۔ اس بارے ایک مستقل پوسٹ کردی تھی) تو روایات کے درجہ ومقام میں بھی فرق ہے۔فرق ہے ناں ؟ ایک بات مولوی کرے اور دوسرا عام آدمی تو آپ کس کی بات کو تسلیم کریں گے؟ ایک بات قرآن میں ہو اور دوسری بات حدیث میں اور دونوں متضاد ہوں آپ کس کی بات کو تسلیم کریں گے ؟ ایک بات بخاری ومسلم کی کتب میں ہو اور دوسری باقی کتب احادیث میں اور دونوں متضاد ہوں آپ کس کی بات کو تسلیم کریں گے ؟ میں نے صحابی کے بیان میں آپﷺ کا عمل پیش کیا اور آپ نے تابعی کے بیان میں صحابی کاعمل پیش کیا ترجیح کس کو ہوگی ؟ ( فی الحال آپ کے بیان کی حقیقت کیا ہے اس پر بات نہیں ) غور کریں محترم المقام صاحب ۔
بات دوبارہ پیش کردی ہے۔ شاید سمجھ آجائے کہ کیا پوچھا گیا تھا؟
یہ آپ پر لازم ہے مسٹر گڈ مسلم ، کیونکہ آپ صرف دوہی اصول رکھتے ہیں یعنی اطیعوا الله و اطیعوا الرسول بس ۔ اور ہم بحمدللہ چار دلائیل رکھتے ہیں ۔
چلیں چار دلائل سے ہی ثابت کردیں کہ پہلی رفع کے بارے نبی کریمﷺ نے کیاحکم دیا ہے فرض کا ؟ سنت کا ؟ حدیث کا ؟ مستحب کا ؟ مکروہ کا ؟ کیونکہ میں نے تو کہہ دیا کہ فمان کان جوابکم فہوا جوابنا۔
انتظار نہ کروائیے "وقعت" دبھی دکھا دیجئے ۔
جلدی نہ کیجیے مسٹر سہج صاحب۔
جی بلکل درست کہا آپ نے ۔ ان شاء اللہ جلد نمونہ دیکھیں گے دیکھنے والے۔
جی جی دیکھنے والے دیکھ ہی رہے ہیں۔
گڈ مسلم صاحب پیش تو کیا ہے ابن عمر رضٰ اللہ عنہ کا عمل ؟ گواہی سمیت ؟ اور الحمد للہ ثابت ہوا ہوا ہے ۔
ناں ناں سہج صاحب ایسے نہیں پیش پوش کرنا ہوگا گواہیوں کے ساتھ۔اور نہ ثابت ہوا ہے۔ آپ کو کرنا کیا ہوگا۔ میں بتاتا ہوں
1۔ صحیح سند سے اس کو بیان کرنا ہوگا کیونکہ میں ابن عمر﷜ کے رفع الیدین نہ کرنے کے عمل سے انکاری ہوں۔ کیونکہ یہ کبھی ہو ہی نہیں سکتا کہ صحابی نبی کریمﷺ کا عمل نقل کچھ کرے اور خود کچھ عمل کرے۔( ہاں معلوم نہ ہو تب یہ ممکن ہے معلوم ہوتے ہوئے جان بوجھ کر خلاف نبیﷺ عمل کرنا۔صحابی کےلیے میں اس بات کو تسلیم کر ہی نہیں سکتا پتہ نہیں آپ کیسے تسلیم کیے جارہے ہیں۔)
2۔جس راوی سے آپ نے نقل کیا اس کا اپنا عمل بھی بیان کرنا ہوگا۔
عن جابر بن سمرة قال خرج علينا رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم فقال مالی اراکم رفعی يديکم کانها اذناب خيل شمس اسکنوا فی الصلوٰة ۔۔الخ
سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ میں تمہیں اس طرح ہاتھ اٹھاتے دیکھ رہا ہوں گویا وہ شریر گھوڑوں کی دمیں ہیں تم لوگ نماز میں سکون سے رہا کرو۔
صحیح مسلم جلد ایک

جی ہاں اندازہ ہوا ہوا ہے ، کہ کہاں گھوم رہا ہوں یعنی دیوار سے ٹکریں مارتا محسوس کر رہا ہوں ۔یا ہوا میں تیر چلارہا ہوں ، کیونکہ مخاطب کو اسکی دلیلیں بھی مجھے ہی بتانا پڑتی ہیں ، یاد کروانا پڑتا ہے کہ بھئی آپ اطیعوا الله و اطیعوا الرسول کی صدا لگاتے ہو اس سے نہ ہٹو ۔لیکن۔۔۔۔۔
پہلی بات محترم میں نے کیا پوچھا اور آپ نے اقتباس لے کر کیانقل کردیا۔
کیا صحابی﷜ کو اختیار ہے کہ آپﷺ کے عمل کے خلاف کوئی عمل جاری کریں ؟ اگر اختیار نہیں تو پھر دو باتیں ہیں۔ پہلی بات آپﷺ نے خود رفع الیدین کومنسوخ قرار دیا ہوگا تب ہی صحابی﷜ نے رفع الیدین نہیں کیا۔ دوسری بات صحابی کی طرف منسوب وہ بات جو آپ نے پیش کی ضعیف ہو۔ اگر منسوخ ہوجانے سے صحابی نے رفع نہیں کیا تب آپ کو مسنوخیت کی دلیل پیش کرنا ہوگی اور اگر دوسری بات تسلیم کرلیں گے تب ہم بھی آپ کو دلیل کی تکلیف نہیں دیں گے۔ کیونکہ آپ خود ہی تسلیم کرلیں گے کہ میری پیش کردہ بات ہی اس قابل نہیں کہ حدیث کے مقابلے میں اس کو پیش کیا جائے۔ [/QUOTE]
اگر آپ دو جمع دو برابر چار کو دلیل مانتے ہیں تو اطیعوا الله و اطیعوا الرسول کا نعرہ لگانا چھوڑ دیجئے ۔ پھر دو جمع دو برابر چار اور چار جمع چار برابر آٹھ کہیں گے تو تسلیم کیا جائے گا ، ایسے نہیں سر جی ۔
دوسرا آپ اس حدیث کو اس مسئلہ میں ایز اے دلیل پیش کرسکتے ہیں ؟ یا یہ دلیل آپ کی بن سکتی ہے ؟ اس کے بارے میں بھی وضاحت کردی گئی ہے۔ الحمد للہ
آپ صرف دس کے اثبات اور اٹھارہ کے نفی والی "دلیل" پیش کیجئے ، تاکہ ہم پھر اگلی بات کی طرف بڑھیں ۔ یعنی سنت یا حدیث اور اگر سنت تو پھر فجر جیسی یا عصر جیسی ۔۔۔۔۔
ابن عمر﷜ والی حدیث کئی بار پیش کرچکا ہوں۔اسی حدیث میں ہی آپ کے مطالبے کا اتم جواب ہے۔ باقی رہی بات رفع الیدین سنت ہے یا حدیث ؟ اگر سنت ہے تو فجر جیسی سنتوں کی طرح یا عصر جیسی سنتوں کی طرح ؟ اس بارے کہہ چکا ہوں کہ پہلی رفع کو آپ اگر سنت مانتے ہیں تو میں بھی باقی رفعوں کوسنت کہوں گا۔ اگر آپ حدیث، یا فجر کی سنت کی طرح یا عصر کی سنت کی طرح تسلیم کرتے ہیں میں بھی یہی تسلیم کرونگا۔۔ لیکن لیکن جواب آپ کا بادلائل تسلیم کیا جائے گا۔۔یہ یا نہیں مانی جائے گی۔ آئی گئی ناں سمجھ محترم المقام صاحب۔؟
سبحان اللہ ، خوشی ہوئی جان کر کہ آپ
اطیعوا الله و اطیعوا الرسول
کے علاوہ "قیاس" بھی مانتے ہیں ۔ کیا خیال ہے آپ کی اس بات پر اک نیا تھریڈ نا جاری کریں ؟
نیا تھریڈ لگانے کی ضرورت نہیں مسٹر سہج صاحب۔ تھریڈ پہلے پیش کیا ہوا ہے ’’ مقلدین کا الزام اور اس کا جواب ‘‘
یہ ہے فرقہ اہل حدیث کا اصل انداز بیان ۔ فلحال اس سے زیادہ نہیں کہوں گا ۔۔۔۔۔ بس حقیقت کا انتظار کرتے ہیں ۔
موضوع سے خارج مت جائیے ورنہ آپ صوفیوں نے دین کا کیسے بیڑا غرق کیا ؟ اور چاٹنے ماٹنے سے انگلیوں کو پاک کرنے کی کیسے کیسے داستانیں وضع کیں، سب جمع کردونگا۔ اس لیے گزارش ہے کہ بحث کو خراب مت کریں۔میری طرف سے کوئی زیادتی نہیں ہوگی گزارش ہے کہ آپ بھی سنبھال کر بات کریں۔ شکریہ
ایک تانگہ چلانے والے سے تصدیق کروائی تھی کسی نے تو اس نے بتایا تھا کہ جب گھوڑا بدمعاشی کرتا ہے اس وقت وہ اوپر نیچے دم مارتا ہے ۔ باقی آپ "تحقیق" کرلیجئے گا ۔
ہا ہا ہا ہا ... اچھا کیا آپ نے اس سے یہ پوچھا تھا کہ جب وہ بدمعاشی نہیں کرتا تو ؟ دوسرا کسی نے تصدیق کروائی تھی آپ نے نہیں کی ؟ تیسرا اگر کسی گھوڑے کو آپ خود دیکھ کر یہاں بیان جاری کردیں اورہوسکے تو اس کی ویڈیو بنا کر کہ کیسے دم ہلا رہا ہے یہاں پیش کردینا۔ یا آپ کی آسانی کےلیے جس سے تصدیق کروائی تھی۔اسی سے ویڈیو بنوا لاؤ تاکہ ہمیں بھی تو پتہ چلے کہ یہ کس عجیب نسل کا گھوڑا ہے جو اوپر نیچے دم ہلاتا ہے؟
باقی میرے پاس ویڈیوز تھیں، کوشش کرونگا کہ تلاش کرکے یہاں پیش کردوں۔
صریح دلیلیں پیش کردی گئی ہیں ۔
نہیں نہیں سہج صاحب صریح نہیں ہیں۔ اور نہ پیش کردہ دلیلیں آپ کے موقف کو ثابت کرسکتی ہیں۔ کیوں مغالطہ دینے میں لگے ہوئے ہیں۔ جناب جی۔ رفع الیدین کے منسوخ ہونے کی صریح، صحیح، حدیث پیش کریں۔
آپ خود ہی بتائے جب آپ " مقلد" کو کہ جس کے گلے میں "پٹہ" ڈلا ہوا ہے وہ ایس کھل کرکھیلتا ہے اور اپنی مرضی چلاتا ہے تو پھر جو "غیر مقلد " پٹہ " توڑ چکے ان کا کیا حال ہوگا ؟ بتانا پسند کریں تو بتادیجئے۔
ہم مم مم ... اچھا اچھا اگر آپ مقلد ہیں تو پھر آپ کو دلائل پر نظر ہی نہیں کرنی چاہیے۔اور نہ آپ مقلد ہوکر کسی سے کسی مسئلہ پر بات چیت کرسکتے ہیں۔اگر کوئی بات کرنا بھی چاہیے تو آپ کو بس یہ جواب دینا چاہیے کہ میں فلاں کا مقلد ہوں، میں اس بارے کوئی بات نہیں کرسکتا۔ اگر بات کرنی ہے تومیرے امام سے بات کرو۔ اللہ اللہ تیں خیر صلا۔ ۔ ایک بات
دوسری بات جب آپ نے کہہ دیا کہ میں مقلد ہوں اور مقلد اپنی مرضی کبھی نہیں کرسکتا تو پھر جو دلائل آپ نے پیش کیے ہیں کیا آپ کے امام نے کسی سے مناظرہ کرتے ہوئے یہ دلائل پیش کیے تھے ؟ ذرا اپنے امام کا وہ مناظرہ تو پیش کردیجیے۔ تاکہ ہمیں پتہ تو چلے کہ آپ تقلید کا پورا پورا بھرم رکھنے والےخوش قسمت انسان ہیں۔۔۔ اگلی پوسٹ میں پیش کردو گے ناں مسٹر سہج صاحب ؟
جب آپ مقلد ہو کر پٹہ توڑنےمیں ماہر ہیں( یعنی چوری بھی کرو اور شور بھی مچاؤ ) تو پھر آپ کو ان لوگوں کے حالات جاننے کی ضرورت ہی نہیں جو اپنے آپ کو کسی کا مقلد نہیں کہتے۔
جی ہاں مجھ پر بھی ہے اور میں الحمدللہ دلائل پیش کرچکا ایک کا اثبات اور باقی کی نفی ۔ اور آپ نے دلیل پیش کرنی ہے دس کا اثبات اور اٹھارہ کی نفی ۔ ٹھیک ؟
صریح صحیح اورواضح حدیث تو میں نے پیش کردی ہے۔ جناب من۔ آپ نے اپنے موقف میں احتمالات اور ضعیف روایات کے علاوہ کیا پیش کیا ہے ؟
میرے اٹھائے گئے سوالات کے جواب اب پیش کرنے ہیں آپ نے صرف ۔یعنی
دس جگہ رفع یدین کرنے کا اثبات مکمل، اور اٹھارہ جگہ کی نفی مکمل
بغیر قیاس لگائے، اور اگر قیاس آپ کی تیسری دلیل بن چکی ہے تو اس کی دلیل فراہم کردیں پھر ان شاء اللہ آپ سے دو دلیلیں نہیں تین مانگیں گے اور ساتھ میں آپ کو اپنا نام بھی تبدیل کرنا ہوگا جیسے ہم چار دلیلیں مانتے ہیں تو ہم ہوئے اہل سنت والجماعت حنفی ویسے ہی آپ کو بھی نام رکھنا ہوگا جیسے کہ اہل حدیث والقیاس، کیا خیال ہے ۔
1۔ پیش کردیا اور وہ بھی بادلیل صحیح، صریح، واضح۔
2۔ قیاس میرے نزدیک کیا ہے تھریڈ کا لنک دے دیا ہے۔
3۔ ناموں کو تبدیل کرنے کی ان کو ضرورت ہوتی ہے جو شریعت محمدیﷺ کو کھلونا بنا کر عوام کے سامنے پیش کرنے کا عمل کرتے ہیں۔

نوٹ:
جب تک آپ کی باقی دو پوسٹ پوسٹ نمبر32 اور پوسٹ نمبر33 پہ گزارشات پیش نہ کردوں،( کیونکہ مصروف آدمی ہوں ناں سہج صاحب) امید ہے تب تک میری اس پوسٹ پر آپ کچھ نہیں لکھیں گے۔ کیونکہ ہو سکتا ہے آپ اس پوسٹ کو سامنے رکھ کر جو لکھیں وہ میری اگلی جوابی پوسٹوں میں بیان ہوجائے۔ باقی مجبور تو آپ کو کر ہی نہیں سکتے ... سچ ہے ناں مسٹر سہج صاحب۔
 

sahj

مشہور رکن
شمولیت
مئی 13، 2011
پیغامات
458
ری ایکشن اسکور
657
پوائنٹ
110
حدثنا أبو بكر بن عياش عن حصين عن مجاهد قال ما رأيت بن عمر يرفع يديه إلا في أول ما يفتتح
مصنف ابن أبي شيبة

حدثنا بن أبي داود قال ثنا أحمد بن يونس قال ثنا أبو بكر بن عياش عن حصين عن مجاهد قال : صليت خلف بن عمر رضي الله عنهما فلم يكن يرفع يديه إلا في التكبيرة الأولى من الصلاة
شرح معاني الآثار


ﺍﻣﺎﻡ ﺑﺨﺎﺭﯼ ﻛﮩﺘﮯ ﮨﻴﮟ

قال يحيى بن معين حديث أبي بكر عن حصين إنما هو توهم لا أصل له
يحيى بن معين ﻧﮯ ﻛﮩﺎ أبي بكر ﻛﯽ حصين ﺳﮯ ﻳﮫ ﺭﻭﺍﻳﺖ ﺳﺮﺍﺳﺮ ﻭﮬﻢ ﮬﮯ ﺟﺲ ﻛﯽ ﻛﻮﺋﯽ ﺑﻨﻴﺎﺩ ﻧﮭﻴﮟ (قرة العينين)


امام احمد ﻛﮩﺘﮯ ﮨﻴﮟ "وهو باطل" (مسائل الإمام أحمد بن حنبل رواية ابن هانئ)


أخبرنا أبو عبد الله الحافظ قال: أخبرنا محمد بن أحمد بن موسى البخاري قال: حدثنا محمود بن إسحاق قال: حدثنا محمد بن إسماعيل البخاري قال: والذي قال أبو بكر بن عياش، عن حصين، عن مجاهد، عن ابن عمر في ذلك قد خولف فيه عن مجاهد. قال وكيع، عن الربيع بن صبيح: «رأيت مجاهدا يرفع يديه» وقال عبد الرحمن بن مهدي، عن الربيع: «رأيت مجاهدا يرفع يديه إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الركوع» وقال جرير، عن ليث، عن مجاهد، أنه: «كان يرفع يديه» هذا أحفظ عند أهل العلم. قال: وقال صدقة: إن الذي روى حديث مجاهد أنه لم يرفع يديه إلا في أول التكبيرة، كان صاحبه قد تغير بأخرة يريد أبا بكر بن عياش قال البخاري: والذي رواه الربيع، وليث أولى مع رواية طاوس، وسالم، ونافع، وأبي الزبير، ومحارب بن دثار، وغيرهم، قالوا: «رأينا ابن عمر يرفع يديه إذا كبر، وإذا ركع، وإذا رفع» قال الشيخ أحمد، وهذا الحديث في القديم كان يرويه أبو بكر بن عياش، عن حصين، عن إبراهيم، عن ابن مسعود مرسلا. موقوفا، ثم اختلط عليه حين ساء حفظه، فروى ما قد خولف فيه، (معرفة السنن والآثار)



قال محمد أخبرنا محمد بن أبان بن صالح عن عبد العزيز بن حكيمقال : رأيت ابن عمريرفع يديه حذاء أذنيه في أول تكبيرة افتتاح الصلاة ولم يرفعهما فيما سوى ذلك (موطاء امام محمد)

محمد بن أبان بن صالح القرشي , ويقال له: الجعفي الكوفي.
ضعفه أبو داود، وَابن مَعِين.
وَقال البُخاري: ليس بالقوي , وقيل: كان مرجئا. انتهى.
وقال النسائي: محمد بن أبان بن صالح كوفي ليس بثقة.
وقال ابن حبان: ضعيف.
وقال أحمد: أما إنه لم يكن ممن يكذب.
وقال ابن أَبِي حاتم: سألت أبي عنه فقال: ليس هو بقوي في الحديث يكتب حديثه على المجاز، وَلا يحتج به , بَابَة حماد بن شعيب.
وقال السَّاجِي: كان من دعاة المرجئة.
وَقال البُخاري في التاريخ: يتكلمون في حفظه لا يعتمد عليه. (لسان الميزان)

قال البخاري فأما احتجاج بعض من لا يعلم بحديث وكيع عن الأعمش عن المسيب بن رافع عن تميم بن طرفة عن جابر بن سمرة رضي الله عنه قال : دخل علينا النبي صلى الله عليه وسلم ونحن رافعوا أيدينا في الصلاة فقال ما لي رافعي أيديكم كأنها أذناب خيل شمس اسكنوا في الصلاة فإنما كان هذا في التشهد لا في القيام كان يسلم بعضهم على بعض فنهى النبي صلى الله عليه وسلم عن رفع الأيدي في التشهد ولا يحتج بهذا من له حظ من العلم هذا معروف مشهور لا اختلاف فيه ولو كان كما ذهب إليه لكان رفع الأيدي في أول التكبيرة وأيضا تكبيرات صلاة العيد منهيا عنها لأنه لم يستثن رفعا دون رفع (قرة العينين)
برائے مہر بانی عربی عبارت کا اردو ترجمہ کر کے دوبارہ پیش کیجئے
اور جو نتیجہ آپ نے پیش کیا ھے اسے اردو میں لکھ دیجئے تاکہ مجھے سمجھنے میں بھی آسانی ہو اور جواب دینے میں بھی ۔اور اک سوال بھی ہے آپ سے اسکا جواب بھی دیجئے
سوال:- اتنا تو میں سمجھ گیا ہوں آپ کی پیش کردہ عبارات کو دیکھ کر کہ وہ ناہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے اور ناں ہی اللہ تعالٰی کا فرمان ۔ امتیوں کے اقوال ہیں ، بتانا آپ نے یہ ہے کہ امتیوں کے اقوال آپ کے ہاں ایسا درجہ رکھتے ہیں جیسا اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کا ؟کیونکہ اعلان یہاں کیا جاتا ہے کہ اہل حدیث کے دو اصول اطیعو اللہ و اطیعو الرسول۔اور دیکھا یہ جارہا ہے کہ روایات کو امتیوں کی رائے پر ہی مانا اور رد کیا جاتا ہے آپ کے ہاں ؟

شکریہ
 

گڈمسلم

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 10، 2011
پیغامات
1,407
ری ایکشن اسکور
4,912
پوائنٹ
292
محترم سہج صاحب آپ کی پوسٹ نمبر32 میری پوسٹ نمبر26 کا جواب ہے۔ پہلے تو اس بات کا جائزہ پیش کیے جاؤں کہ میں نے اپنی اس پوسٹ میں آپ سے کیا کیا پوچھا تھا ؟
1۔ گنتی کا ذکر دلیل میں ہونے کے مطالبے کو جب میں نے وضاحتی انداز میں پوچھا تب آپ نے رانگ رانگ کہا لیکن اس رانگ رانگ کے ساتھ دس کا اثبات اور اٹھارہ کی نفی، گنتی کے ساتھ کہتے جانا کیا ثابت کرتا ہے۔ ؟
2۔ آپ بار بار کہہ رہے ہیں کہ نبی کریمﷺ کاعمل پہلے کا تھا اور صحابی﷜ کا عمل بعد کا ہے ؟ کیا نبی کریمﷺ کے عمل کو صحابی﷜ کا عمل منسوخ کرسکتا ہے ؟
3۔ صحابی﷜ کے فعل کو ماننے سے پہلے نبی کریمﷺ سے رفع الیدین کا مسنوخ ہونا ثابت کرنا ہوگا۔واضح، صریح، صحیح دلائل سے۔
4۔ نبی کریمﷺ سے منسوخیت ثابت کریں یا صحابی﷜ پر لگائے گئے الزام کے مجرم بنیں
5۔ ابن عمر﷜ کے عمل پر آپ کی پیش کردہ روایت کی اسنادی حالت
6۔ اگر نبی کریمﷺ کاعمل ثابت کردیا جائے اور حکم ثابت نہ کیا جائے تو کیا آپ مانیں گے یا نہیں ؟
7۔ اجماع اور قیاس کو میں دلیل مانتا ہوں یا نہیں ؟
یہ تو وہ باتیں تھیں جو آپ سے پوچھی گئی تھیں،اشارۃً یہاں پیش بھی کردیا ہے تاکہ آپ کو پتہ چلتا رہے کہ مجھ سے کیا کیا پوچھا گیا تھا اور میں نے کس کس کا جواب دینے کی سعی کی۔
میری جانب سے ادا کیئے گئے الفاظ
آپ صرف اٹھارہ
جگہ
کی نفی اور صرف دس
جگہ
کا اثبات دکھائی
ان میں کس قسم کا ابہام ہے جو آپ کی سمجھ میں کچھ اور آگیا ۔
مجھے تو لگتا ہے کہ آپ کو بھولنے کی بیماری کےساتھ ساتھ نظر کی کمزوری کا بھی لاحقہ ہے۔ اللہ ہر طرح کی رحمت کرے سب پر۔ محترم جناب مولانا سہج صاحب پہلے آپ نے گنتی، گنتی، گنتی کی گردان لگائی ہوئی تھی اور جگہ، جگہ، جگہ کی گردان شروع کرنے لگے ہیں ۔ کیا بات ہے سہج صاحب یہ آہستہ آہستہ الفاظ میں تبدیلیاں آنا کیوں شروع ہوگئی ہیں ؟ کیا کوئی مسئلہ تو نہیں؟ میرے لائق کوئی خدمت ہوتو بتا دینا۔ وسعت کے مطابق ضرور ہیلپ کرونگا۔ ان شاء اللہ
شروع سے اگر آپ کی پوسٹس پر نظر گھمائی جائے تو ہر پوسٹ میں گنتی گنتی کا مطالبہ نظر آتا ہے۔ ہاں اگر کسی جگہ آپ نے لکھ بھی دیا کہ دس جگہ کا اثبات اور اور اٹھارہ جگہ کی نفی تو سابقہ یا لاحقہ میں گنتی گنتی کی گردان ضرور پڑھی ہوتی ہے۔جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ دس جگہ کا اثبات اور اٹھارہ جگہ کی نفی وہ بھی گنتی کے ساتھ۔ مثلاَ
پوسٹ نمبر:2
٭ رفع الیدین کس کس رکن نماز کے ساتھ کرنا ہے اور کہاں کہاں نہیں کرنا یہ بھی گنتی کے ساتھ ۔
٭ نوٹ:گنتی کے ساتھ رفع الیدین کی دلیل ضرور فراہم کیجئے
پوسٹ نمبر4:
٭ گنتی ضرور کرنی ہے یعنی ١ ٢ ٣ ٤ ٥ ٦ ٧ ٨ ٩ اور ١٠ تک رفع الیدین کرنا ہے اور پھر جہاں جہاں آپ رفع الیدین نہیں کرتے وہاں بھی گنتی کے ساتھ رفع الیدین چھوڑنا ثابت کریں کہ ١ ٢ ٣ ٤ ٥ ٦ ٧ ٨ ٩ ١٠ ١١ ١٢ ١٣ ١٤ ١٥ ١٦ ١٧ اور ١٨ تک رفع الیدین نہیں کرنا
پوسٹ نمبر6
٭ رفع الیدین کس کس رکن نماز کے ساتھ کرنا ہے اور کہاں کہاں نہیں کرنا یہ بھی گنتی کے ساتھ ۔
٭ چلو اب آپ مہربانی کردیجئے اور اپنا عمل ثابت کریں سوالات سے آپ واقف ہی ہو ۔ ۔۔۔ گنتی گنتی۔ اوکے ؟
مزید بھی پوسٹیں آپ خود دیکھ لینا، آپ کومعلوم ہوجائے گا۔ ان شاء اللہ اب آپ نے کہہ دیا کہ
میری جانب سے ادا کیئے گئے الفاظ
آپ صرف اٹھارہ
جگہ
کی نفی اور صرف دس
جگہ
کا اثبات دکھائی
ان میں کس قسم کا ابہام ہے جو آپ کی سمجھ میں کچھ اور آگیا ۔
مسٹر سہج صاحب اِدھر اُدھر گھم گھما کر آپ پھر اسی جگہ آجاتے ہیں۔ جہاں سے آپ نے شروع کیا ہوتا ہے۔ جب میں آپ سے وضاحتی بیان لینے کی غرض سے کہ

کیا آپ اس طرح کی دلیل چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپﷺ نے فرمایا ہو کہ
1۔ نماز شروع کرتےہوئے ایک رفع کرنی ہے۔
2۔ پہلی رکعت کے رکوع جاتے ہوئے ایک رفع کرنی ہے۔
3۔ اسی رکوع سے سر اٹھاتے ہوئے ایک رفع کرنی ہے۔
4۔ پھر دوسری رکعت کے رکوع جاتے ہوئے ایک رفع کرنی ہے۔
5۔ اسی رکوع سے سر اٹھاتے ہوئے ایک رفع کرنی ہے۔
6۔ دو رکعتوں سے کھڑے ہوتے ہوئے ایک رفع کرنی ہے۔
7۔ تیسری رکعت کے رکوع جاتے ہوئے ایک رفع کرنی ہے۔
8۔ اسی رکوع سے سر اٹھاتے ہوئے ایک رفع کرنی ہے۔
9۔ چوتھی رکعت کے رکوع جاتے ہوئے ایک رفع کرنی ہے۔
10۔ اسی رکوع سے سر اٹھاتے ہوئے ایک رفع کرنی ہے۔
تو آپ جواب میں رانگ رانگ لکھتے جارہے تھے۔ اور جب میں نے پوچھ لیا کہ جناب رانگ رانگ کے ساتھ دس کا اثبات اور اٹھارہ کی نفی گنتی کے ساتھ کیا رنگی ہے؟ تو اس رنگی کے آجانے سے ابہام مجھ سے پوچھا جارہا ہے۔؟ یہ کیا بات ہے سہج صاحب۔
آپ صاف کیوں نہیں کہہ دیتے کہ ہاں مجھے اس طرح کی حدیث چاہیے۔ تو پھر ان شاء اللہ میں کئی ایسے مسائل پیش کرونگا اور ان کا جواب قرآن وحدیث سے نہیں بلکہ فقہ حنفی سے طلب کرونگا کہ جناب اس اس مسئلہ میں اس اس طرح کی دلیل مطلوب ہے۔ پھر دیکھوں گا کہ آپ میرے پیش کردہ کتنے مسائل کو آپ جیسے مطالبہ کے تحت پیش کرپاتے ہیں۔ غور کرلینا ایک بار۔
آپ دعوے دار ہیں اطیعو اللہ و اطیعوالرسول کے اور آپ دو ہی دلیلیں بھی مانتے ہیں ۔یہی مانتے ہیں ناں آپ؟ تو پھر دو جمع دو برابر چار بیچ میں کیسے آگیا ؟
میں کتنی دلیلیں مانتا ہوں، اس کےلیے پورے ایک تھریڈ کا لنک پیش کردیا تھا۔
دیکھئیے گڈ مسلم صاحب میں پہلی بار کرنے کی اور باقی تمام کی تمام نہ کرنے کے دلائیل پیش کرچکا ۔ کیونکہ ہمارا عمل بھی یہی ہے ۔ اور آپ کا عمل مختلف آپ رفع یدین شروع ، رکوع جاتے ،اٹھتے،اور تیسری رکعت میں کرتے ہیں اور سجدوں وغیرہ میں چھوڑتے ہیں ۔ تو بھئی حدیث میں صراحت آپ کو دکھانا لازم ہے جس کا مطلب وہی بنے جو آپ کا عمل ہے ، اور یہ آپ نے دکھایا نہیں اور صرف دو+2=4 کیا ہے ۔ اسلئے آپ سے گزارش کی جاتی ہے کہ وہ دلیل پیش کیجئے جس سے آپ کا رفع یدین کرنے والا عمل بغیر 2+2=4 کئے نظر آئے ۔
پہلی بات میں نے جو دعویٰ کیا تھا کہ ہم جن جن مقام پہ رفع الیدین کرتے ہیں وہ بادلائل صحیحہ، صریحہ واضحہ ثابت کرونگا ؟ وہ تو میں نے ثابت کردیا اور آپ کی طرف سے جوابی بیان بھی مل چکا کہ مجھے اس دلیل سے کوئی انکار نہیں۔ اور پھر آپ کا یہ جواب ایک بار نہیں کئی بار مل چکا ہے۔
دوسری بات دس کا اثبات اٹھارہ کی نفی گنتی کے ساتھ یہ میرا دعویٰ نہیں بلکہ آپ کا اپنا گھڑا ہوا بلکہ چوری کیا ہوا دعویٰ ہے، ہاں میں نے یہ کہا کہ جن مقامات پہ رفع کو میں نے ثابت کردیا ہے اگر آپ گنتی کرنا چاہتے ہیں تو دس کااثبات بھی اسی حدیث میں ہے اور اٹھارہ کی نفی بھی اسی حدیث میں ہے۔لیکن آپ ہیں جو سمجھ کو تکلیف ہی نہیں دے رہے۔
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی روایت کا الحمدللہ میں منکر نہیں ۔ یہ میں پہلے بھی بتاچکا ہوں آپ کو ۔
میں بھی پہلے کئی بار کہہ چکا ہوں کہ آپ واضح انکار کر بھی نہیں سکتے ( کیونکہ کسی مسلمان میں اتنی جراءت ہی نہیں کہ وہ صاف انکار کرسکے) ہاں قیل وقال سے منکرین حدیث یا تقیہ باز لوگوں کی طرح انکار کرتے بھی جارہے ہیں۔
ہاں ابن عمر رضی اللہ عنہ اگر ہمیشہ یعنی دنیا سے رخصت ہوتے وقت تک وہی عمل کرتے رہے جو روایت سے پیش کیا گیا تو جناب آپ ایسی حدیث پیش کردیجئے ان شاء اللہ اسے بھی مان لوں گا

٭ محترم سہج صاحب آپ کو بحث ومباحثہ کرنے کا تو بہت شوق ہے لیکن بات کیسے کرنا ہوتی ہے ؟ یا مخالف کو دلیل کیا، کیسی اور کس ٹائم دینی ہوتی ہے اس بات کی ہوا تک بھی آپ کو معلوم نہیں۔ جب میں نے ابن عمر﷜ کے بیان میں نبی کریمﷺ کا عمل پیش کیا تو بجائے اس کے کہ آپ ابن عمر﷜ کا نبی کریمﷺ کے مقابلے میں عمل پیش کرتے آپ کو ’’اسکنوا فی الصلاۃ‘‘ والی حدیث پیش کرنی چاہیے تھی، کیونکہ میں نے نبی کریمﷺ کا عمل پیش کیا آپ کو بھی نبی کریمﷺ کا عمل یا امر پیش کرنا چاہیے تھا۔ نہ کہ نبیﷺ کے عمل کے مقابلے میں صحابی﷜ کا عمل پیش کرنا۔آپ کی اس حرکت سے بہت سارے ابہام پیدا ہوگئے۔۔ چلیں میرے ساتھ بات کرتے کرتے آپ کو بات کرنے کا ڈھنگ بھی آجائے گا۔ ان شاء اللہ
٭ آپ نے پوچھا کہ
ہاں ابن عمر رضی اللہ عنہ اگر ہمیشہ یعنی دنیا سے رخصت ہوتے وقت تک وہی عمل کرتے رہے جو روایت سے پیش کیا گیا تو جناب آپ ایسی حدیث پیش کردیجئے ان شاء اللہ اسے بھی مان لوں گا

آپ نے جو ابن عمر﷜ کا رفع الیدین نہ کرنے کی روایت پیش کی ۔ کیا آپ ایسی روایت پیش کرسکتے ہیں ابن عمر﷜ کے بارے میں کہ وہ﷜ دنیا سے رخصت ہوتے تک یہی عمل کرتے رہے تھے۔ یعنی رفع الیدین نہ کرنے کا۔ ان شاء اللہ میں بھی مان لونگا۔
لیکن میں آپ کو صحابی﷜ کے ذریعے نبی کریمﷺ کے بارے میں یہ الفاظ دکھا دیتا ہوں
عن ابن عمر - رضي اللّه عنهما - قال: كان النبي صلى الله عليه وسلم إذا قام إلى الصلاة، رفع يديه، حتى يكونا حذو منكبيه، ثم يكبر، فإذا أراد أن يركع، رفعهما مثل ذلك، وإذا رفع رأسه من الركوع، رفعهما كذلك، وقال: سمع اللّه لمن حمده، ربنا ولك الحمد. رواه البخاري، ومسلم، والبيهقي، وللبخاري: ولا يفعل ذلك حين يسجد، ولا حين يرفع رأسه من السجود. ولمسلم: ولا يفعله، حين يرفع رأسه من السجود. وله أيضاً: ولا يرفعهما بين السجدتين. وزاد البيهقي: فما زالت تلك صلاته، حتى لقي اللّه تعالى.
کچھ سمجھ آیا جناب من ؟
اگر آپ نے مجھ سے یہ مطالبہ کیا کہ میں ابن عمر﷜ کے بیان کے مطابق تاحیات ان کا عمل بھی صراحت کے ساتھ پیش کروں کہ ابن عمر﷜ بھی رفع الیدین کرتے تھے۔ تو پھر اس مطالبے کو پورا کرنے سے پہلے آپ میرا یہ مطالبہ پورا کریں۔کیونکہ آپ ابن عمر﷜ نے حوالے سے بات پوچھ رہے ہیں میں نے نبی کریمﷺ سے ثابت کردیا ہے۔ الحمد للہ
’’ آپ نے جو ابن عمر﷜ کا عمل پیش کیا ۔ کیا آپ ابن عمر﷜ کا اس عمل پر تاحیات دوام ثابت کرسکتے ہیں ؟
ہاں نبی کریمﷺ کے حوالے سے دوام میں نے ثابت کردیا ہے۔ الحمد للہ
۔ لیکن یہ یاد رکھئے ابن عمر رضی اللہ عنہ کی روایت جس میں رفع یدین آپ نے دکھایا ہے اس میں یہ صراحت نہیں کہ ہر رکعت کے رکوع جاتے اور اٹھتے رفع یدین کرنا ہے ۔ اسی لئے آپ 2+2=4 کرتے ہیں ۔ جبکہ ہم ایسا نہیں کرتے بلکہ ایک کا اثبات اور 27 کی نفی صاف اور صراحت کے ساتھ تابعی کی گواہی کے ساتھ پیش کردی ہیں ۔ آپ کو اگر گواہون کی گواہی پر اعتراض ہے تو اعتراض بھی کیجئے اور اسے ثابت بھی کیجئے ۔
٭ پھر وہی پرانی باتیں کرنا شروع ہوگئے ہیں آپ ؟ اپنی زبانی اس طرح کی دلیل پیش کرنے کو غلط بھی کہتے ہیں اور پھر اسی طرح کی دلیل کا مطالبہ بھی کرتے جاتے ہیں ؟ اگر ہر رکعت میں رکوع جانے اور رکوع سے اٹھنے کی صراحت نہیں تو پھر کیا آپ صراحت کے ساتھ یہ بات پیش کرسکتے ہیں بادلائل صحیحہ کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا ہو کہ ہر ہر رکعت میں دو سجدے کرنے ہیں اور چار رکعتوں میں آٹھ سجدے ہوجائیں گے ؟ ویسے کمال کے آدمی لگتے ہو ؟
٭ محترم جناب مولانا سہج صاحب اگر ہر ہر رکعت پر آپ والا اصول یا سوال ایپلائی کیا جائے تو کوئی بھی رکعت آپ کامل بادلائل صحیحہ صریحہ ثابت نہیں کرسکیں گے۔۔ اس لیے شریعت ایک قاعدہ واصول فراہم کیا کرتی ہے۔ اسی اصول کی روشنی میں جزئیات کو حل کیا جاتا ہے۔
٭ واہ بہت یعنی چوری کوئی کرے اور سزا کوئی بھرے۔۔ گواہی آپ نے پیش کی ہے مجھے اعتراض ہے آپ کی گواہی پہ تو پھر ثابت کس کو کرنا ہوگا ؟ مجھے ؟ واہ جناب واہ
ہونا تو یہ چاھئے کہ آپ صاف اور صریح دلیل پیش کرتے کہ یہ دیکھو دس جگہ کا اثبات اور اٹھارہ جگہ کی نفی ، لیکن آپ نے 2+2=4 کا سہارا حاصل کیا ،کیا دو جمع دو کرنا آپ کی دلیل ہے ؟

محترم جناب میں نے مقام ثابت کردیئے ہیں۔ اور کئی بار آپ کو کہہ بھی چکا ہوں کہ کیوں گنتی کے پیچھے پڑے ہو ؟ اگر جن جن مقام پہ رفع کی جاتی ہے وہ بادلائل صحیحہ ثابت ہوجائے لیکن گنتی کا اس میں ذکر نہ ہو تو کیا آپ ان دلائل کو گنتی کا ذکر نہ ہونے کی وجہ سے ٹھکرا دیں گے ؟ اور پھر اگر اس گنتی کو ہی اعتراض بنایا جائے تو ایک، دو، تین، چار، پانچ، سات، نو وغیرہ رکعات کی نمازوں کےلیے الگ الگ دلائل چاہیے ہونگے کیونکہ جتنی رکعات بڑھتی جائیں گی اتنی تعداد میں رفع الیدین کی تعداد بڑھتی جائے گی۔ اس لیے شریعت نے ہمیں مقام بتائے ہیں کہ آپ نے ان ان مقام پہ رفع کرنا ہے۔ چاہیے وہ مقام کسی بھی نماز میں جہاں جہاں بھی آئیں ۔ سمجھ گئے ناں محترم المقام صاحب ؟
تابعی نے صحابی کا عمل بتایا اور صحابی نے وہ عمل کیا جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا تھا ۔ آپ کا یہ کہنا کہ ہم تابعی یا صحابی کے عمل کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل پر فوقیت دیتے ہیں یہ آپ کی غلط بیانی ہے ۔ اصل میں صحابی نے جو دیکھا اسے اسی صورت میں بیان کردیا جیسے حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا کھڑے ہوکر پیشاب کرنا ۔اور سجدہ کی رفع یدین بھی روایات سے ثابت ہوتی ہے اور اس کا انکار بھی ۔ تو کیا وجہ ہے کہ آپ وہاں پہلے زمانے اور بعد کے زمانے کے قائل ہیں ؟ اور مجھ پر ہی الزام لگا رہے ہیں کہ میں ۔
صحابی? کے عمل کو نبی کریمﷺ کے عمل پر فوقیت دے رہے ہیں.........؟؟؟؟؟؟
٭ پہلے تو آپ اس بات کا اقرار کریں کہ میں نے صحابی﷜ کا عمل پیش کیا تھا یا نبی کریمﷺ کا ؟
٭ میری غلط بیانی نہیں محترم جناب۔ درست کہہ رہا ہوں کیونکہ آپ حقیقت میں ایسا ہی کررہے ہیں لیکن ساتھ ساتھ میاں مٹھو بھی بنے جارہے ہیں۔ خدارا تعصب وتنگ نظری سے دور کہیں سوچیں۔
٭ آپ کا مطلب کہ صحابی﷜ کو غلط فہمی ہوئی تھی ؟ نبی کریمﷺ کچھ اور عمل کررہے تھے۔ صحابی﷜ نے کچھ اور سمجھ لیا تھا ؟ آپ کے ان الفاظ میں رافضیت کی بُو آرہی ہے۔ کیا آپ یہ کہنا چاہتے کہ صحابہ کرام﷢ بغیر تسلی وتحقیق کیے اور اچھی طرح جان لینے کے بغیر سرسری نظر سے دیکھ کر آگے بیان کردیا کرتے تھے ؟ کیا آپ یہ الفاظ بول کر دین پر سے اعتبار واعتماد اٹھانا چاہتے ہیں ؟ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
٭ نبی کریمﷺ کا کھڑے ہوکر پیشاب کرنا کسی وجہ سے تھا۔ اب بھی اگر وہی وجہ کسی کو لاحق ہوجائے تو وہ کھڑے ہوکر پیشاب کرسکتا ہے کوئی قباحت نہیں۔ کیونکہ شریعت بہت آسان ہے لیکن پیٹ کے پجاری ملّاؤں نے عوام کےلیے مشکل سے مشکل تر بنا دیا ہے۔
٭ سجدوں میں رفع نہ کرنے کی ممانعت اسی پوسٹ میں صریحاً بیان کردی ہے۔ جس کے الفاظ ہیں ’’ ولا يرفعهما بين السجدتين ‘‘
٭ محترم وہاں ہم دلائل کی رو سے فیصلہ کرتے ہیں لیکن یہاں آپ کا کشکول دلائل کی رو سے بالکل زیرو ہے۔ اس لیے ہم آپ کے فیصلے کو ایسے کیسے مان لیں کہ ایک عمل پہلےزمانے کا اور ایک عمل آخری زمانے کا۔ آپ کو اپنے دعویٰ نسخ پہ واضح دلیل پیش کرنا ہوگی۔ کہ آپﷺ نے فرمایا ہو کہ اس کام کو پہلےجاری کیا گیا تھا لیکن اب میں محمدﷺ اس کام کے بحکم رب جلیل منع کرتا ہوں۔ جس طرح کہ عورتوں کےلیے قبروں کی زیارت کامسئلہ۔ وغیرہ
گڈ مسلم صاحب صحابی کا عمل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی عمل ہوتا ہے کیونکہ صحابی اپنی منشاء سے نہیں کرتا بلکہ منشاء نبوت کے مطابق عمل کرتا ہے، چاھے پہلے زمانے کا ہو یا بعد کے زمانے کا ۔

یہی بات تو میں آپ کو سمجھانا چاہ رہا ہوں سہج صاحب۔ اور اس لیے کہا بھی کہ آپ نے ابن عمر﷜ کا عمل پیش کیا ذرا اس پر نظر کرلیں، امید ہے فائدہ ہوجائے گا۔۔ اور یہ پہلے اینڈ آخری زمانے کا جو آپ نے چکر چلایا ہوا ہے یہ بھی بغیر دلیل کےہونے کی وجہ سے مردود ہے۔۔ اس لیے یا تو واضح اور صریح دلیل پیش کریں یا پھر مان لیں کہ جو روایت آپ نے ابن عمر﷜ کے عمل کےحوالے سے پیش کی اس میں کچھ گڑ بڑ ہے۔
ہاں ہم کون سے زمانے کے عمل کو اپنائیں تو سیدھی سی بات ہے اس عمل کو جو آخری ہو۔ جیسے قبلہ کا معاملہ ۔ اور رفع یدین کا معاملہ ۔
قبلہ کامعاملہ صریح دلائل سے ثابت ہے۔ اس لیے ہم تسلیم کرتے ہیں، لیکن آپ تو بغیر دلیل کے صرف حیلوں بہانوں سے ایک کو پہلے زمانے کا اور دوسرے کو آخری زمانے کا عمل بتلا کر اصول وضع کررہےہیں کہ ہمیں تو آخری زمانے کا عمل لینا چاہیے ؟
کیا آپ مجھے بتا سکتے ہیں کہ صحابی﷜ نے نبی کریمﷺ کی موجودگی میں آخری عمل کیا تھا ؟ کیا اس صحابی﷜ کےعمل پر نبی کریمﷺ کی تصدیق ہے آپ کے پاس ؟ اگر کچھ بھی نہیں تو پھر یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ صحابی﷜ نبی کریمﷺ کے خلاف عمل کرلے۔ کیا صحابی﷜ کے پاس اس بات کا اختیار ہے کہ نبی کریمﷺ کے فعل کومنسوخ کردے ؟ آپ تین کام کریں
1۔ نبی کریمﷺ سے رفع کی منسوخیت کی واضح اور صریح دلیل پیش کریں
2۔ نبی کریمﷺ کی موجودگی میں صحابہ کرام﷢ نے رفع نہ کیا اور آپﷺ نےخاموشی کرلی
3۔ یا پھر مان جائیں کہ رفع سنت نبویﷺ ہے اور میں نےجو ابن عمر﷜ کاعمل پیش کیا وہ اسنادی اعتبار سے اس قابل نہیں کہ اس کو تسلیم کیا جائے۔

یہ آپ اپنے دل سے پوچھئیے جناب گڈ مسلم ، کیونکہ یہ اک چھوٹا سا نمونا ہے جو آپ نے صحابی کی شان میں ادا کیا ہے ۔ یہی فرق ہے آپ میں اور مجھ میں کہ میں کہہ رہا ہوں کہ صحابی کی دونوں باتیں ٹھیک ہیں رفع کرنے کی اور رفع نہ کرنے کی ، رفع کرنے کی بات نبی صلی اللہ علیہ کا پہلے زمانے کا عمل بتاتی ہے اور رفع نہ کرنے کا عمل بتاتا ہے کہ رفع صرف پہلی رکعت کا ہی بچا تھا باقی کو چھوڑ دیا گیا ۔
باقی باتیں بلا تبصرہ آپ مجھے یہ بتائیں کہ جو آپ نے کہا ’’ رفع صرف پہلی رکعت کا ہی بچا تھا باقی کو چھوڑ دیا گیا ‘‘ آپ کے اس فرمان عالی شان پر کوئی دلیل ہے ؟
دیکھ لیا آپ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ؟ اس سے نماز “ میں “ کی جانے والی رفع یدین منسوخ ۔
آپ جوبار بار اسکنوا فی الصلاۃوالی حدیث اپنے موقف کی مضبوطی کےلیے پیش کررہے ہیں۔۔ اس کی وضاحت میں نے پیش کر دی ہے۔۔ قوی امید ہے تسلی ہوجائے گی۔۔ لیکن اگر کوئی کسر باقی بھی رہ گئی تو اچھی طرح پوری کردی جائے گی۔ ان شاء اللہ
اور ہم اہل سنت والجماعت حنفی صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے اعمال و اقوال کو حجت مانتے ہیں اس بنیاد پر کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ کے گواہ ہیں۔ اور خصوصاً خلفہ راشدین رضوان اللہ علیہم اجمعین ۔
جی محترم جی ہم جانتے کہ آپ کےنزدیک صحابہ کرام﷢ کا کیا مقام ہے اور آپ لوگ صحابہ﷢ کی باتوں کو کس حد تک مانتے ہیں ۔۔۔ ذرا اس تھریڈ کا مطالعہ کرلیں۔ بہت فرق پڑ جائے گا۔ ان شاء اللہ

دوسری بات کا جواب اپنے آپ سے لیجئے یعنی فرقہ جماعت اہل حدیث سے کہ وہ خلفہ راشدین کے اعمال کو “حجت“ کیوں نہیں مانتے ؟ مثلاً تراوی بیس رکعت، تین طلاق کا مسئلہ وغیرہ ۔۔۔ اور ہاں رفع یدین بھی ۔ اسکا زکر ان شاء اللہ آگے چل کر ضرور کروں گا ۔
تراویح کتنی رکعات سنت ہے۔ اور اسی طرح طلاق کے بارے میں حقیقت کیا ہے؟ اگر شوق ہو تو بات کرلیں گے۔ ان شاء اللہ
آپ اگر نہیں مانتے تو یہ آپ کی ذمہ داری ہے کہ اسے اسنادی اعتبار سے غلط ثابت کریں ۔
پیش آپ نے کیا ہے ثابت بھی آپ کو کرنا ہوگا۔۔ اپنا بوجھ کسی اور پہ ڈالنے کی ضرورت نہیں ۔
صحابی کا عمل بتایا تابعی نے اور صحابی عمل بتاتا اور کرتا ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ۔ ٹھیک؟ تو پھر آپ کا اعتراض پہنچتا ہے صحابی تک کہ انہوں نے معاذ اللہ نبی کے طریقے کے خلاف کیا ؟ رائیٹ یا رانگ ؟ تفصیل کیجئے گا تاکہ مجھے معلوم ہوسکے کہ آپ صحابی کے عمل کو کیسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل تسلیم کرتے ہو ۔اور کرتے بھی ہو یا نہیں۔
جو صحابی﷜ کا عمل آپ نے پیش کیا میں اس کو صحیح مانتا ہی نہیں تو پھر اعتراض والی بات کیوں کروں ؟ جب آپ صحیح ثابت کردیں گے تو پھر میرے پہ الزام آئے گا کہ میں نے صحابی﷜ پر نعوذباللہ غلط بات کی ہے۔ آپ پہلے ثابت توکریں جناب صاحب۔
شرعی معاملات میں صحابہ کرام﷢ کا عمل دلیل محمدیﷺ کی روشنی میں لیتا ہوں۔ امید ہے یہ ایک جملہ آپ کی تسلی کےلیے کافی ہوگا۔
آپ نے جو روایت پیش کی اور اسمیں جتنا رفع یدین کا اثبات تھا اسے میں مان چکا یہ الگ بات ہے کہ وہ عمل “پہلے زمانے“ کا تھا ، لیکن چلو آپ نے کچھ دکھایا تو سہی ۔ باقی کی رفع یدین کی گنتی آپ نے اپنی رائے یا کسی علامہ صاحب کی رائے سے بتائی ہے یعنی 2+2=4 کرکے ۔ اگر اسے آپ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان سمجھتے ہیں تو برائے مہربانی بتادیجئے۔۔۔۔۔
یار سہج صاحب کتنی بار آپ کہہ چکے ہیں کہ گڈمسلم صاحب میں آپ کی پیش کردہ حدیث کاانکاری نہیں تو پھر جب انکاری نہیں ماننے میں کیاحرج ہے ؟ اگر میری حدیث پہلے زمانے کی ہے تو پھر ثابت کریں؟ کیا آپ کے کہنے سے یہ حدیث پہلے زمانے کی ہوجائے گی ؟ اگر میری حدیث پہلےوالے زمانے سے تعلق رکھتی ہے تو پھر سہج صاحب آپ کو چاہیے کہ آپﷺ کے فرامین سے بعد والا عمل پیش کریں۔ کیونکہ نبی کریمﷺ کے مقابلے میں صحابی﷜ کا بعد والا عمل مجھے بہت دکھ دے رہا ہے کہ آپ کو اتنی بھی سوچ نہیں کہ نبیﷺ کےمقابلے میں کسی اور کو کھڑا کررہے ہیں ؟
نبی کریمﷺ کا جو فرمان میں مانتا تھا وہ پیش کردیا ۔ اور شریعت کا ضابطہ بھی یہی ہے۔ اور فطرت انسانی بھی اس چیز کو صحیح نظر سےدیکھتی ہے لیکن جن لوگوں کی فطرت ہی مردہ ہوچکی ہو ان کا اللہ ہی حافظ
کچھ تو آپ بھی بتادیجئے اگر ایسی روایت آجائے کہ جو مختلف اعمال کا پتہ دیتی ہیں تو جناب کا فرقہ اس بارے میں کیا اصول اپناتا ہے ؟دونوں کو چھوڑتا ہے یا کسی کا فیصلہ ڈحونڈتا ہے ؟ اگر فیصلہ تو پھر کس کا ؟ میں نے تو آپ کی دلیل کے لہاذ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ مانگا ہے ۔
پہلے بات جناب من شریعت میں کوئی ایسا امر ہے ہی نہیں جو ایک درجہ کے دلائل سے ثابت ہو اور ہو بھی متضاد۔۔۔کیونکہ فرمان رب جلیل ہے۔
وَلَو كانَ مِن عِندِ غَيرِ‌ اللَّهِ لَوَجَدوا فيهِ اختِلـٰفًا كَثيرً‌ا
اگر یہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو یقیناً اس میں بہت کچھ اختلاف پاتے
اس لیے میں کہنا چاہونگا کہ جو آپ نے اگر مگر لگا کر مفروضہ قائم کیا ہے وہ دلائل کی روشنی میں صحیح ثابت شدہ امور پر قائم کیا ہی نہیں جاسکتا۔ لیکن اگر آپ کے مفروضے کو مان بھی لیا جائے تو پھر تطبیق کی جاتی ہے۔ جناب سہج صاحب ؟ کیا آپ نے کبھی تطبیق کا لفظ سنا ہے ؟ اگر نہ معلوم ہو تو بتا دیا جائے گا۔ فکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ اللہ بھلا کرے
اور پھر آپ کتنی بڑی جسارت کررہے ہیں کہ نبی کریمﷺ کے مقابلے میں صحابی﷜ کا عمل پیش کرکے دونوں کو متضاد دکھا رہے ہیں ؟
ٹالئیے نہیں جناب رفع یدین اٹھارہ جگہ آپ نہیں کرتے لیکن ان کا زکر روایات میں موجود ہے ۔ وہاں جب پہنچیں گے تو آپ کو “زمانے“ کی بات نہیں کرنے دیں۔ کیا خیال ہے ؟ اور نماز میں باتیں بھی کسی “زمانے“ میں ہوتی تھیں ؟ بے فکر رہیں موضوع مجھے معلوم اور یاد ہے یہ مثال تو ویسے ہی پیش کردی ہے تاکہ آپ کو بھی “ زمانے “ یاد رہیں ۔
جناب غصہ کرنے کی ضرورت نہیں، میری پیش کردہ حدیث جس میں نبی کریمﷺ کاعمل ہے کو آپ پہلے زمانے کی اور اپنے پیش کردہ صحابی﷜ کے عمل کو دوسرے زمانے کا بتلا کر اور بھی بغیر دلیل کے صحابی﷜ کے عمل سے نبی کریمﷺ کاعمل منسوخ کررہے ہیں ؟
اس لیے میں نے کہا کہ زمانے کی بات آپ نے کی ہے اور اس کا ثبوت بھی آپ کو دینا ہوگا۔ میں زمانے زمونے کو نہیں دیکھتا بلکہ دلائل صحیحہ کو دیکھتا ہوں۔ ہاں جس امر بارے صراحت ملتی ہے اسی کو لیتے بھی ہے۔ الحمد للہ
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا “ فیصلہ “ پیش کردیجئے صرف ۔ بات صاف ہوجائے گی ، کیونکہ آپ اطیعو اللہ و اطیعوالرسول ہی ماننے کا دعوٰی کرتے ہیں۔
شرعی معاملات میں کلمہ گو کے سامنے چاہے اس کےنبیﷺ کا عمل پیش کیا جائے، یا حکم پیش کیاجائے یا اس عمل پر نبی کریمﷺ کا سکوت پیش کیا جائے وہ اس کےلیے حجت ہوجاتا ہے۔ اور میں نے آپ کے سامنے جن مقامات پہ رفع نہیں کرتے وہ بھی ثابت کردیا ہے اور جن مقام پہ رفع کرتے ہیں وہ بھی ثابت کردیا ہے۔ الحمدللہ ۔۔ میری باتوں کو سمجھ کر پڑھیں گے تو سب سمجھ آجائے گا۔ ان شاء اللہ
عن علقمہ عن عبد اﷲ انہ قال الا اصلی بکم صلٰوة رسول اﷲﷺ فصلی فلم یرفع یدیہ الا مرة واحدة۔
(نسائی )
حضرت عبداﷲ بن مسعودؓ فرماتے ہیں کیا میں تم لوگوں کورسول اﷲﷺ کی نماز پڑھ کہ نہ دکھاؤں پھر انہوں نے نماز پڑھی اور صرف (شروع نماز میں) ایک مرتبہ رفع یدین کیا۔
1۔ پہلی بات آئینہ دکھانے کےلیے یہی حدیث ’’ مسند الصحابۃ فی کتب الستعہ باب مسند عبداللہ بن مسعود، جزء26، ص43 ‘‘ پر بھی پیش ہے۔یہاں نقل کیے دیتا ہوں
حدثنا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ الْمَرْوَزِيُّ قَالَ حدثنا وَكِيعٌ قَالَ حدثنا سُفْيَانُ عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَسْوَدِ عَنْ عَلْقَمَةَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ أَنَّهُ قَالَ أَلَا أُصَلِّي بِكُمْ صَلَاةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَصَلَّى فَلَمْ يَرْفَعْ يَدَيْهِ إِلَّا مَرَّةً وَاحِدَةً
اور پھر اس حدیث کے متصل اگلی حدیث کچھ یوں ہے۔
حدثنا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حدثنا وَكِيعٌ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ عَاصِمٍ يَعْنِي ابْنَ كُلَيْبٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَسْوَدِ عَنْ عَلْقَمَةَ قَالَ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ أَلَا أُصَلِّي بِكُمْ صَلَاةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فَصَلَّى فَلَمْ يَرْفَعْ يَدَيْهِ إِلَّا مَرَّةً قَالَ أَبُو دَاوُد هَذَا حَدِيثٌ مُخْتَصَرٌ مِنْ حَدِيثٍ طَوِيلٍ وَلَيْسَ هُوَ بِصَحِيحٍ عَلَى هَذَا اللَّفْظِ
امام ابو داؤد﷫ کیا فرما رہے ہیں سہج صاحب ذرا پڑھ کر بتا دینا
2۔ دوسری بات محترم المقام سہج کہ اس حدیث میں میں تو صرف یہ ہے کہ عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ نے ایک بار رفع الیدین والی نماز پڑھ کربتلائی ہے، اس سے بقیہ رفع الیدین کا ترک کہاں لازم آیا ؟ کیا آپ بتانا پسند کریں گے ؟
3۔ تیسری بات کیا آپ کو یقین ہے کہ یہ روایت بالکل صحیح ہے ؟
جب آپ ان باتوں کا جواب دیں لیں گے۔ تو پھر ان شاء اللہ جواب میں کچھ لکھنے کی کوشش کریں گے۔
بہت اچھی بات ہے کہ آپ ہر صحیح حدیث کو صحیح مانتے ہیں ۔باقی رہا مسلم کی حدیث کے بارے میں آپ کا سوال تو بھائی صاحب اگر اس حدیث سے آپ نماز کے شروع کی رفع یدین بھی “ جانے “ کے قائل ہیں تو پھر اس پر آپ کا پہلا حق ہے عمل کرنے کا کیونکہ آپ اطیعو اللہ و اطیعو الرسول کے دعوے دار ہیں ۔ اور ہم اگلی بات کو بھی مانتے ہیں۔
پہلی بات یہ حدیث رفع الیدین کےموضوع پر ہے ہی نہیں ؟ لیکن جب آپ اس حدیث سے ہی رفع الیدین کی منسوخیت ثابت کرنا چاہ رہے تھے تو پھر اس حدیث سے پہلی رفع کی بھی منسوخیت ثابت ہوتی ہے۔ میں نے تو یہ واضح کیا ہے۔
دوسری بات میں اس حدیث کو نہ پہلی رفع کے منسوخ ہونے کی دلیل مانتا ہوں اور نہ باقی ان مقامات پر رفع کے منسوخ ہونے کی دلیل مانتا ہوں جو میں نے ثابت کردیئے۔ اور آپ نے تسلیم بھی کرلیے،(اب تسلیم کے بعد بھی عمل شروع نہیں کیا اور بحث پہ بحث کیے جارہے ہیں میں سمجھنے سے قاصر ہوں۔) دلیل آپ اس حدیث سے پکڑ رہے ہیں تو اس سے ثابت مسئلہ پر آپ کو ہی عمل کرنا چاہیے۔۔ اس لیے جناب دیر مت کیجیے اور عمل کرنا شروع کردیجیے ۔۔ ادھر ادھر کی باتیں ناٹ
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ ۖ فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ إِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۚ ذَلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا
﴿ النساء،انسٹھ﴾‏
مومنو! خدا اور اس کے رسول کی کی فرمانبرداری کرو اور جو تم میں سے صاحب حکومت ہے ان کی بھی اور اگر کسی بات میں تم میں اختلاف واقع ہو تو اگر خدا اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہو تو اس میں خدا اور اسکے رسول کے حکم کی طرف رجوع کرو اور یہ بہت اچھی بات ہے اور اس کا مآل بھی اچھا ہے ‏
میں بھی مانتا ہوں اس آیت کو۔ اور جو اس آیات سے احکامات واضح ہورہے ہیں ان کو اسی طرح ہی مانتا ہوں جس طرح خالق حقیقی اپنے بندوں سے تقاضا کررہے ہیں۔ اگر غور کیا جائے تو پھر اس آیت سے ہی آپ کی وہ تمام روایات جن میں صحابیوں﷢ کے اقوال واعمال پیش کیے گئے ہیں سب رد ہوجاتی ہیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ایک میتھڈ دیا ہے کہ اختلاف کی صورت میں اللہ اور اس کے رسولﷺ کی طرف لوٹنا ہے۔ کسی اور کی طرف نہیں۔
ہمارا بھی رفع الیدین پر اختلاف ہے اس لیے اب سوائے اللہ تعالیٰ یا نبی کریمﷺ کے فرامین کےعلاوہ باقی کسی کی بات پیش مت کرنا۔ آگئی ناں سمجھ محترم المقام صاحب ؟
تو فیصلہ دکھائیے جناب ورنہ اقرار کیجئے کہ آپ رفع یدین بھی کسی کی تقلید میں کرتے ہیں،
کیا آپ رفع الیدین کسی کی تقلید میں کرتے ہیں ؟ ہاں یا نہیں۔ اگر کرتے ہیں تو کس کی تقلید میں اور اگر نہیں کرتے تو کیوں

ہم رفع الیدین کسی کی تقلید میں نہیں کرتے۔ کیونکہ یہ عمل صحیح احادیث سے ثابت ہے۔
تقلید کے بیان سے ایک سوال یاد آگیا کہ کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ رفع الیدین جو آپ نہیں کرتے یہ تقلید کرنے کی وجہ سے نہیں کرتے یا اپنے زعم میں دلائل ہونے کی وجہ سے ؟
یا ایسا کریں کہ مان لیں کہ آپ شافعیوں کی “دلیل“ سے رفع یدین کرتے ہیں جھگڑا ہی ختم کردیجئے ۔ پھر ان شاء اللہ آپ سے کبھی بھی کوئی حنفی دس کا اثبات اور اٹھارہ کی نفی کا مطالبہ نہیں کرسکے گا ۔
کیا شافعیوں نےکوئی اپنی شریعت بنائی ہوئی ہے ؟ ہم نہ شافعیوں کی دلیل سے رفع کرتے ہیں اور نہ کسی اور کی دلیل سے بلکہ ہم تو محمد عربیﷺ کے فرامین کی روشنی میں رفع کرتے ہیں۔ اب اگر کسی کو آپﷺ کے فرامین ماننے کی توفیق ہی نہ ہو اس کےلیے ہدایت کی دعا ہی کی جاسکتی ہے۔
شکریہ
شکریہ

نوٹ:
آپ نے مطالبہ کیا تھا کہ دس جگہ کا اثبات اور اٹھارہ کی نفی گنتی کے ساتھ۔ اس پر میں نے کہا تھا کہ نہیں بھائی بے تکے سوالوں سے بہتر یہ ہے کہ ہم جن جن جگہوں، مقامات پہ رفع کرتے ہیں میں آپ کو بادلائل وہ جگہیں ثابت کردیتا ہوں۔ گنتی آپ خود کرتے رہنا۔ دلیل کو گنتی کے ساتھ مشروط کرکے شریعت کو مذاق مت بنائیں۔لیکن آپ ابھی تک مذاق بناتے آرہے ہیں۔ آپ کے مطالبے میں دو باتیں ہیں
1۔ دس کا اثبات+ گنتی
2۔ اٹھارہ کی نفی+گنتی

دس کا اثبات+ گنتی میں نے ثابت کردیا ہے۔ ہاں یہ الگ بات ہے کہ ایک، دو، تین، چار، کی طرح حدیث میں گنتی وارد نہیں ہوئی بلکہ جن جن مقام پہ رفع کی جاتی ہے اگر چار رکعات میں ان رفعوں کی گنتی کی جائے تو تعداد دس کو پہنچتی ہے۔ اور اس گنتی کو پورا کرنے کےلیے کئی طرح کی مثالیں آپ کو دے چکا ہوں لیکن آپ ہیں جو ایک ہی ضد لگائے ہوئے کہ دلیل میں گنتی کی صراحت ہو ؟۔
دوسرا مطالبہ تھا کہ اٹھارہ کی نفی
آپ نے جو دلیل اسکنوا فی الصلاۃ والی پیش کی ہے۔ بقول آپ کے اس حدیث کی رو سے پہلی رفع کے علاوہ باقی تمام رفعیں منسوخ ہوگئی۔
رائٹ ؟
یعنی اس رفع کے علاوہ نو وہ رفعیں جو ہم اہل حدیث کرتے ہیں اور اٹھارہ وہ رفعیں جو ہمارے ساتھ آپ بھی نہیں کرتے۔ یعنی اٹھارہ کی نفی کی دلیل آپ نےخود ہی پیش کردی، اگر آپ نو کے اثبات کی نفی میں یہ دلیل مانتے ہیں تو اٹھارہ کی نفی میں کیوں نہیں مانتے ؟ اس لیے جناب آپ کی اس حدیث سے ہی واضح ہوگیا کہ اٹھارہ کی نفی کا مطالبہ آپ نے خود پورا کردیا۔ آپ اس مطالبے کی دلیل کے مجھ سے حق دار ہی نہیں۔کیونکہ اگر آپ مجھ سے پھر مطالبہ کریں گے تو میں پھر یہی حدیث پیش کردونگا آپ کی ہی زبانی یا پھر جو روایت ابن عمر﷜ کےحوالے سے پیش کی ہے کیونکہ اس حدیث میں بھی ان اٹھارہ جگہوں کا ذکر نہیں اور یہ آپ کا ہی بنا بنایا اصول ہے کہ کسی چیز کا ذکر نہ ہونا اس کے منسوخ ہونے پر دال ہوتا ہے۔اٹھارہ کی نفی میں میری طرف سے وہ تمام دلائل قبول فرمائیں جن میں ان اٹھارہ رفعوں کا ذکر نہیں۔۔ اوروہ بھی اپنے بیان اصول کی روشنی میں۔۔سمجھ گئے ناں سہج صاحب؟
اب ہمارا اختلاف رہ گیا ان دس رفعوں کے بارے میں جو ہم کرتے ہیں اور آپ ان میں سے ایک کرتے ہو باقی نہیں ۔
اس اختلاف پر بھی ابن عمر کےحوالے سےدلیل پیش کرچکا ہوں۔۔ الحمد للہ آپ کے ہی مطالبے کے مطابق دس جگہ کااثبات اور اٹھارہ کی نفی ثابت کردی ہے۔ اب آپ میرا مطالبہ پورا کریں گے۔۔
رفع کے مسنوخ ہونے کی صحیح صریح حدیث پیش کرتے ہوئے میرے ساتھ ان سب لوگوں پر احسان کریں گے جو رفع الیدین کو نبی کریمﷺ کا فعل سمجھ کر کررہے ہیں۔جب آپ یہ ثابت کردیں گے تو پھر باتیں ہونگی کہ جو رفع کرتے ہیں یا کرتے آئے ہیں ان کی نمازوں کے بارے میں آپ جن جن دلائل کو مانتے ہیں وہ کیا کہتے ہیں۔ اس پر بعد میں باتیں ہونگی۔ ان شاء اللہ

نوٹ:
نیکسٹ پوسٹ آپ کی پوسٹ نمبر33 کا جواب ہوگی۔ ان شاء اللہ
 

sahj

مشہور رکن
شمولیت
مئی 13، 2011
پیغامات
458
ری ایکشن اسکور
657
پوائنٹ
110
پوسٹ نمبر25 میں آپ سے کیا کیا پوچھا گیا تھا۔ اس کی لسٹ پیش کیے دیتا ہوں۔

مختصر ان تیرہ باتوں میں سے آپ نے پوسٹ نمبر31 میں کن کن باتوں کاجواب دیا اور کن کو ہضم کرگئے وہ بتانے کی ضرورت نہیں۔
1۔ میری پیش کردہ حدیث حدیث کی کس قسم سے تعلق رکھتی ہے ؟
پہلے آپ حدیث کی جتنی قسمیں مانتے ہیں انکی گنتی پیش کریں ودھ "دلیل"۔ یعنی مجھے معلوم تو ہو کہ آپ ماشاء اللہ احادیث کی "قسمیں" بھی مانتے ہیں ، یعنی قسم پر پوری اترے گی تو حدیث ماننی ہے ورنہ انکار ۔
2۔ میری پیش کردہ حدیث میں چار مقاموں کاتذکرہ ہے یا چار رفعوں کا ؟
آپ کو معلوم نہیں کہ آپ نے کیا پیش کیا ؟ چلیں میں بتاتا ہوں ۔ آپ نے چار تک کی گنتی فرمائی ہے صرف ۔
3۔ آپ کے ہاں یہ حدیث صحیح نہیں ؟ یا جو میں نے ترجمہ کیا ہے وہ درست نہیں ؟ یا کوئی اور بات ہے تو پیش کریں۔
زمانہ جناب "زمانے کا فرق " ہے ۔
4۔ حدیث میں وہ مقامات جن پر ہم رفع کرتے ہیں وہ میں نے بادلیل پیش کیے یا نہیں ؟
ابھی تک "ثابت" فرمانے میں سخت ناکام رہے ہیں ۔ ہاں دو جمع دو برابر چار ضرور کیا ہے اور اسکی دلیل بھی پیش نہیں کرسکے ۔
5۔میری پیش کردہ حدیث میں صحابی﷜ کا عمل ہے یا نبی کریمﷺ کا ؟
صحابی کا عمل ہے۔
6۔ایک طرف صحابی﷜ کاعمل ہو اور ایک طرف نبی کریمﷺ کا تو کس کا عمل لیا جائے گا ؟
یہ سوال تو خود آپ کے لئے لمحہ فکریہ ہے گڈ مسلم صاحب ، کیونکہ آپ اپنی دلیل کے مطابق کوئی بھی روایت ثابت نہیں کرسکتے ۔ ہاں امتیوں کی تقلید کریں تو الگ بات ہے ۔ اب آپ ہی بتادیجئے کہ آپ کی پیش کردہ روایت میں کس نے لکھا ہے یا کہا ہے کہ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فعل ہے یا رہا ؟ پھر اسے اپنی دلیل سے ہی ثابت فرمائیے گا ۔
حدثنا عياش،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ قال حدثنا عبد الأعلى،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ قال حدثنا عبيد الله،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن نافع،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ أن ابن عمر،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ كان إذا دخل في الصلاة كبر ورفع يديه،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وإذا ركع رفع يديه،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وإذا قال سمع الله لمن حمده‏.‏ رفع يديه،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وإذا قام من الركعتين رفع يديه‏.‏ ورفع ذلك ابن عمر إلى نبي الله صلى الله عليه وسلم‏.‏
ہم سے عیاش بن ولید نے بیان کیا ، کہا کہ ہم سے عبدالاعلیٰ بن عبدالاعلی نے بیان کیا ، کہا کہ ہم سے عبیداللہ عمری نے نافع سے بیان کیا کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما جب نماز میں داخل ہوتے تو پہلے تکبیر تحریمہ کہتے اور ساتھ ہی رفع یدین کرتے۔ اسی طرح جب وہ رکوع کرتے تب اور جب سمع اللہ لمن حمدہ کہتے تب بھی (رفع یدین) دونوں ہاتھوں کو اٹھاتے اور جب قعدہ اولیٰ سے اٹھتے تب بھی رفع یدین کرتے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے اس فعل کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچایا۔
صحیح بخاری،صفۃ الصلوٰۃ،باب: (چار رکعت نماز میں) قعدہ اولٰی سے اٹھنے کے بعد رفع یدین کرنا
7۔آپ نے میری پیش کردہ صریح دلیل کے درجہ کی دلیل کیوں نہیں پیش کی ؟ کیا آپ کے پاس اس طرح کی کوئی دلیل نہیں ہے ؟
"صریح" کہنے کی دلیل بھی پیش کردیجئے، اور "درجہ" کی بھی دلیل "صریح" ٹھیک ۔ پھر اگلی بات کریں گے۔
8۔ چار رکعات نماز میں چار بار رکوع میں جانا اور چار بار رکوع سے سر اٹھانا ہوتا ہے یا نہیں ؟
جی ہاں ہوتا ہے ۔ تو اس سے آپ کیا ثابت کرنا چاھتے ہیں ؟ رفع یدین؟ گڈ مسلم صاحب جیسے آپ نے چار تک گنتی دکھائی ہے ویسے ہی آگے کی گنتی بھی دکھادیجئے۔دو جمع دو برابر چار کئیے بغیر ۔ تب کہئیے گا "صریح"۔
9۔ چار رکعات نماز میں کتنے قیام، کتنی بار رکوع میں جانا، کتنی بار رکوع سے اٹھنا، کتنے سجود اور کتنے تشہد ہوا کرتے ہیں ؟
اس بارے میں آپ "تعلیم" الاسلام " کا مطالعہ کیجئے ۔ ان شاء اللہ فائدہ ہوگا۔
10۔آپ نے کہا کہ میں نے باقی رفعوں کو بالقیاس ثابت کیا ہے۔ آپ کی اس بات کا جواب میں بالتفصیل دیا لیکن آپ کاجواب ؟
یعنی آپ دو جمع دو برابر چار کو "قیاس " نہیں مانتے ؟ اور جو جواب آپ نے دیا تھا اسے سوال کے ساتھ ، اور میرے جواب کے ساتھ پیش کیجئے۔
11۔ روایات کے ٹکراؤ میں حنفی اصول کی روشنی میں کچھ پوچھا ہے آپ سے ؟
بتاچکا ہوں جناب کو کہ پھر اہل سنت والجماعت اجماع کی جانب اور اگر ضرورت ہو تو پھر امام کے قیاس کی جانب جاتے ہیں ۔
12۔میں قیاس کو مانتا ہوں یا نہیں اس الزام کی حقیقت پیش کی لیکن آپ نے الزام واپس لیا ؟
آپ نے ناہی اپنے قیاس کو ماننے کا انکار کیا ہے اور ناہی واضح اقرار ، رہی دوسرے تھریڈ کی بات جس کا لنک آپ نے دیا ، اسکے بارے میں ان شاء اللہ وہیں بات ہوگی ۔ یہاں اگر قیاس کا اثبات کرنا ہو تو کریں ۔ تاکہ میرا الزام آپ خود ثابت کریں اپنے بارے میں اور پھر دو جمع دو چار کے بارے میں بھی واضح طور پر خود ہی اقرار کرلیجئے گا کہ وہ آپ کی " دلیل قیاس " ہے جس کا نمبر تیسرا ہے ۔
13۔پیش کردہ صحیح مسلم کی حدیث میں کس رفع کی بات ہے؟ پہلی رفع کی ؟ یا باقی رفعوں کی ؟ یا سب رفعوں کی ؟
اسكنوا في الصلاة
اسکا ترجمہ خود کروا لیجئے ۔سمجھ آجائے گا ۔ اور میں بتا چکا کہ یہ حکم نماز میں سکون کے بارے میں ھے ۔

اور یہ آپ کی غلط بیانی ہے کہ آپ کی باتوں کو "ھضم " کرگیا ہوں ، چلیں جن باتوں کو ھضم کیا ہے ان کی نشاندھی کردیجئے ۔

صاف اور واضح انکار تو کبھی کسی مسلمان نے کیا ہی نہیں۔۔ حیلوں وبہانوں سے انکار حدیث کرتے آئے ہیں اور کرتے رہیں گے۔ آپ کیا حِیَل مِیَل چلا رہے ہیں۔۔ آپ خود ہی سمجھ لیں۔
حیل میل جہاں کیا ہے آپ کی پیش کردہ روایت کے بارے میں اسے پیش کیجئے ۔ اور اپنے بارے میں بھی بتادیجئے کہ آپ اب تک پیش کردہ روایات کے بارے میں کیا کہتے ہیں ؟ دلیل کے ساتھ بتائیے گا ۔
آپ کے ہی الفاظ نے مجھے اس بدگمانی پر مجبور کردیا تھا۔۔’’ اب دیکھتے ہیں کہ آپ نے کون سی دلیل پیش کی ہے۔‘‘....چلیں اب آپ نے وضاحت کردی، اپنی بات واپس لیتا ہوں۔
اپنی بدگمانی ماننے پر شکریہ ۔
الفاظ کامعنی ومفہوم موقع ومحل طے کرتا ہے۔۔ چلیں خیر آپ کی وضاحت ہی کافی ہے۔ مزید کچھ نہیں کہتا۔
تو پھر پیش کردیجئے دس کا اثبات اور اٹھارہ کی نفی ۔
ارے سہج بھائی کیا خوب گپیاں لگا رہے ہو۔محترم مزے کی بات تو یہ ہے کہ میں نے جو حدیث پیش کی اس کو ابھی تک آپ نے توجہ اورسمجھ کر پڑھا ہی نہیں ۔اور میرا یقین ہے کہ جب تک میں نہ وضاحت کرتا آپ کبھی پڑھتے ہی ناں۔چلیں خیر۔ دوبارہ وضاحت کے ساتھ حدیث پیش کیے دیتا ہوں۔

" كان إذا دخل في الصلاة كبر ورفع يديه ، وإذا ركع رفع يديه ، وإذا قال : سمع الله لمن حمده ، رفع يديه ، وإذا قام من الركعتين رفع يديه " (صحيح البخاری، كتاب الأذان، باب رفع اليدين إذا قام من الركعتين، حديث:‏739)
’’ جب نماز کا آغاز فرماتے تو تکبیر کہتے اور رفع الیدین فرماتے، اور جب رکوع کرتے تو رفع الیدین کرتے اور جب سمع اللہ لمن حمدہ کہتے تو رفع الیدین کرتے، اور جب دو رکعتوں سے اُٹھتے تو پھر بھی رفع الیدین کرتے۔‘‘
سہج صاحب: آپ نے کہا کہ آپ نے چار رفع یدین دکھائی ہیں۔حالانکہ اس حدیث میں کہاں گنتی کے ساتھ میں نے چار رفع دکھائی ہیں ؟ ذرا وضاحت کرنا پیش فرمائیں گے ؟ میں نے تو چار مقام واضح کیے ہیں۔
1۔ نماز شروع کرتے وقت رفع الیدین کرنا
2۔ رکوع جاتے ہوئے رفع الیدین کرنا
3۔ رکوع سے سر اٹھاتے ہوئےر فع الیدین کرنا
3۔ دو رکعتوں سے کھڑے ہوتے ہوئے رفع الیدین کرنا
توجہ کیجیے اور بتائیے کہ میں نے چار رفعوں کو ثابت کیا ہے یا چار مقاموں کو ؟ کیونکہ آپ چکر دینے کے ساتھ خود بھی چکر میں پھنسے جارہے ہیں۔ اس لیے متضاد باتیں کرنے سے بہتر ہے کہ آپ صحیح حدیث کو تسلیم کرلیں۔ جو واضح، صریح اور صحیح ہے۔
دیکھ لیجئے کہ کہاں آپ نے گنتی دکھانے کی بات کی تھی
چار رکعات نماز میں بقول صحابی﷜ آپﷺ چار مقام پر رفع کرتے تھے۔ کیا آپ بھی میاں سہج صاحب اس حدیث سے یہی سمجھے ناں ؟ جو میں نے سمجھا یا ہے۔ یا کچھ اور ؟
اور پھر میں نے مقام والی بات پہلی کئی پوسٹ میں کی کہ سہج صاحب جب مقام واضح ہوجائیں گے کہ ان ان مقامات پر رفع کرنا سنت ہے تو پھر گنتی کرنا کوئی مشکل نہیں رہ جائے گا۔ اور میں نے الحمد للہ حدیث سے وہ تمام مقامات پیش کردیئے ہیں۔ جن پر رفع کرتے ہوئے اگر گنتی کی جائے تو آپ کے مطالبہ کا پہلا حصہ پورا ہوتا ہے۔ یعنی دس کا اثبات۔
پوسٹ نمبر پچیس
آپ کا یہ فرمان شاہد ہے "" میں نے الحمد للہ حدیث سے وہ تمام مقامات پیش کردیئے ہیں۔ جن پر رفع کرتے ہوئے اگر گنتی کی جائے تو آپ کے مطالبہ کا پہلا حصہ پورا ہوتا ہے۔"" آپ کی غلط بیانی کا ثبوت
پیش کردیا ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ آپ کیا "حیل و حجت " کرتے ہیں۔اسی شہادت کو آپ کی اگلی باتوں پر بھی لاگوں کرلیتے ہیں
میں نے چار رفع دکھائی ہیں یا چار مقام واضح کیے ہیں۔؟۔ اس بارے جو سوال کیا ہے اس کا جواب مطلوب ہے۔ کیونکہ اگر میں نے چار رفعوں کی گنتی دکھائی ہوتی تو پھر یوں ہوتا کہ نماز کے آغاز میں ایک رفع کرنی ہے۔ پہلی رکعت کے رکوع جاتے ہوئے دوسری رفع کرنی ہے۔ پہلی رکعت کے رکوع سے سر اٹھاتے ہوئے تیسری رفع کرنی ہے اور دو رکعتوں سے کھڑے ہوتے ہوئے چوتھی رفع کرنی ہے۔ جب کہ میری پیش کردہ روایت میں نہ یہ الفاظ ہیں اور نہ میں نے ترجمہ میں یہ پیش کیا ہے۔۔ تو آپ نے یہ مطلب
کہاں سے اخذ کرلیا میرے محترم المقام سہج صاحب ۔؟ کیا بتانا پسند کریں گے یا بہت ساری باقی باتوں کی طرح اس بات کو بھی الفاظوں کے بیچم بیچ ہضم کردیں گے ؟
اور واضح، صریح اور صحیح دلیل کے بارے میں اوپر آپ سے سوال کیا ہے اس کا جواب بھی "دلیل" کے ساتھ عنایت کردیجئے ۔رہی بات روایت کو تسلیم کرنے کی تو میں نے اس کا انکار ہی کب کیا ہے جناب ؟ ہاں زمانے کا فرق آپ کو بتایا ہے ۔ اسے آپ سمجھنے سے ابھی تک قاصر ہیں ۔
میں کہتا ہوں کہ آپ کی ابن عمر﷜ پر رفع الیدین نہ کرنے کی بات درست نہیں اور میں اس بات کا انکاری ہوں کہ ابن عمر﷜ نماز کے آغاز کے علاوہ باقی مقامات پہ رفع نہیں کرتے تھے۔ اور آپ کو شاید معلوم ہی ہوگا کہ منکر پر قسم اور مدعی پر دلیل ہوا کرتی ہے۔ دلیل تو چلیں آپ نے اپنے تائیں پیش کردی لیکن کیا دلیل صحیح بھی ہے یا نہیں ؟ اس پیش کردہ روایت پر آپ اپنی تحقیق بھی پیش کردیجیے۔ تاکہ آپ کی تحقیق ہمارے سامنے آجائے۔ اس کے بعد ان شاء اللہ ہم اپنی بات رکھیں گے۔ اور ساتھ اس بات کا بھی اضافہ کردینا کہ حضرت مجاہد﷫ کا رفع الیدین بارے کیا عمل تھا ؟
حضرت مجاھد رحمۃ اللہ کا عمل کیا تھا ؟ یہ آپ کی دلیل بن سکتا ہے تو آپ ہی ضرور ضرور ضرور پیش کیجئے ۔ لیکن پہلے اعلان کیجئے گا کہ آپ امتیوں کے عمل کو بھی اپنی "دلیل" مانتے ہو اور اس "دلیل کا نام " بھی بتادیجئے گا ۔ اور آپ نے کہا کہ آپ میری پیش کردہ روایات کا انکار کرتے ہیں انہیں درست نہیں مانتے ۔ تو گڈ مسلم صاحب آپ نے مزکورہ روایات کی نشاندہی کے ساتھ ساتھ ان پر اعتراض کرنا ہے اور اسے اپنی دلیلوں سے ہی ثابت بھی کرنا ہے کیونکہ آپ ناہی نبی ہو اور ناہی خدا ۔ امید ہے سمجھ گئے ہوں گے آپ؟ اور اس فرمان پر دلیل پیش کردیجئے منکر پر قسم اور مدعی پر دلیل ہوا کرتی ہے باحوالہ ۔ تاکہ پھر آپ کو یہ بھی سمجھ آجائے کہ آپ نماز کے اندر کی رفع یدین کرنے کی وجہ سے مدعی بنے اور میں اس کا انکار کرنے کی وجہ سے منکر ہوا کہ نہیں ؟ یہ عجیب اصول ہے آپ کا وہ بھی بے دلیل کہ جہاں جی چاہا وہاں مدعی بن گئے اور جہاں جی چاہا وہاں منکر ۔
آپ اپنی زبانی فرمادیں کہ میں چار مقام والی رفع کو مانتا ہوں، کیونکہ بقول آپ کے میں نے ابھی چار مقام والی رفع ثابت کی ہے۔ فی الحال آپ اس کو تو تسلیم کریں ناں۔ کہ میں اس بات کو تسلیم کرتا ہوں کہ گڈمسلم صاحب نے چار رکعات میں چار مقام پہ رفع کو بادلیل صحیح صریح ثابت کردیا ہے۔۔ کیونکہ اسی حدیث میں آپ کے سوال کا جواب اتم موجود ہے۔ لیکن آپ سمجھ نہیں رہے۔ کوئی بات نہیں سہج صاحب آپ کو سمجھ آجائے گا۔ پر کچھ وقت لگے گا۔
گڈ مسلم صاحب دس کا اثبات اور اٹھارہ کی نفی والی آپ نے ابھی تک کوئی دلیل صریح پیش نہیں کی اور ناہی گنتی پوری کی ہے ،رہی بات ابن عمر رضی اللہ عنہ کی اس روایت کی جو آپ نے پیش کی ہے ، تو بھئی میں نے اس کا انکار تو شروع سے ابھی تک کیا ہی نہیں۔ ہاں اگر" زمانے " کے فرق کو آپ نہیں مانتے تو کوئی صریح دلیل پیش فرمادیجئے ۔
اقتباس اصل پیغام ارسال کردہ از: sahj پیغام دیکھیے
جی گڈ مسلم صاحب آپ نے درست کہا کہ آپ نے بخاری سے صحابی کا عمل پیش کیا اور میں نے دوسری کتابوں کی روایات سے ، تو بھائی صاحب اس میں جو نقص ہے وہ بھی آپ بتادیتے؟ بخاری کو اصح آپ کس دلیل سے مانتے ہیں گڈ مسلم صاحب یہ بھی بتادیجئے گا ؟ کیونکہ یہ کوئی چھوٹا موٹا بول نہیں ۔ اسلئے دلیل ضروری ہے۔ دوسرے یہ کہ آپ اصح الکتب بعد کتاب اللہ پر اگر ایمان ہے تو پھر اس روایت کے بارے میں کیا فرمانا ہے آپ کا ؟
بلا تبصرہ :
ماشاء اللہ اصح الکتب بعد کتاب اللہ کی دلیل مانگی تو فرمادیا " بلا تبصرہ "؟ صاف صاف کہہ دیتے بھئی کہ امتی کا قول ہے ۔

ہا ہا ہا ہا ۔۔۔ کیا حیثیت ہے کا کیا مطلب ؟؟ محترم جناب رکوع میں گئے، رکوع سے اٹھے، میں مانتا ہوں۔ کیا آپ اس سے یہ ثابت تو نہیں کرنا چاہتے کہ یہاں نبی کریمﷺ نے رفع الیدین کاکوئی ذکر نہیں کیا لہذا رفع منسوخ ہے۔ کیونکہ اگر رفع منسوخ نہ ہوتی تو آپﷺ ضرور تذکرہ کرتے۔ رائٹ ؟؟ لوگ کہتے ہیں نقل بھی اگر لگانی پڑ جائے تو سوچ کر لگانی چاہیے۔ تو یہ لوگ سو فیصد سچ کہتے ہیں۔
اگر آپ اس حدیث کو پیش کرکے رفع الیدین کے عدم ذکر سے رفع کو منسوخ ثابت کرنا چاہتے ہیں تو پھر سنیں محترم المقام سہج صاحب !
1۔ نماز کےلیے وضو کا کیا مقام ہے۔؟ شاید معلوم ہوگا کیا اس حدیث میں وضوء کا ذکر ہے ؟
2۔ پوری نماز میں کسی بھی جگہ قراءت کا ذکر ہے ؟
3۔ سجود کا ذکر ہے ؟
4۔ تشہد کا ذکر ہے ؟
اگر ان عملوں کا ذکر ہے تو پھر پیش کردیجیے کہ گڈمسلم صاحب یہ یہ حدیث کے الفاظ اس اس چیز کو ثابت کررہے ہیں۔ کیونکہ مجھے تو نظر نہیں آرہے شاید آپ کو نظر آرہے ہوں۔ لیکن اگر ان چار کاموں کو آپ اسی حدیث سے ثابت نہ کرسکے تو پھر اس حدیث میں رفع الیدین کے عدم ذکر کو جب آپ منسوخ کے ساتھ مستلزم کررہے ہیں تو پھر ان چار افعال کو بھی منسوخ کے ساتھ مستلزم کرتے ہوئے ہاتھوں کو صاف کرلیں۔ کیونکہ پہلی رفع سے تو آپ پہلے ہی ہاتھ دھو چکے تھے۔ اب ساتھ ساتھ وضوء، قراءت، سجود اور تشہد سے بھی ہاتھ دھو چکے ہیں۔ ماشا ءاللہ
آپ سے پوچھا تھا
جب وہ رکوع کرے تو تم بھی رکوع کرو۔ جب وہ رکوع سے سر اٹھائے تو تم بھی اٹھاؤ اور جب وہ سمع اللہ لمن حمدہ کہے تو تم ربنا لک الحمد کہو (بخاری )اس روایت کی اس بات کی آپ کے ہاں کیا حیثیت ہے ؟ کیا یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم نہیں؟ اور دیکھ لیجئے اس میں بھی پہلی رفع سمیت بعد کی رفع یدین کا بلکل زکر نہیں ، تو پھر بتائیے اس حکم پر آپ کیوں عمل نہیں کرتے ؟ یہ بھی "اصح الکتب " میں ہی موجود ہے ۔یا پھر اس کو آپ " عمل" میں نہیں لاتے یا پھر کوئی اور تاویل ؟
اور آپ نے تاویل بھی کی تو ایسے کہ
1۔ نماز کےلیے وضو کا کیا مقام ہے۔؟ شاید معلوم ہوگا کیا اس حدیث میں وضوء کا ذکر ہے ؟
2۔ پوری نماز میں کسی بھی جگہ قراءت کا ذکر ہے ؟
3۔ سجود کا ذکر ہے ؟
4۔ تشہد کا ذکر ہے ؟
تو مسٹر گڈ مسلم آپ ہی بتائیے کہ آپ نے جو روایت پیش کی تھی " كان إذا دخل في الصلاة كبر ورفع يديه ، وإذا ركع رفع يديه ، وإذا قال : سمع الله لمن حمده ، رفع يديه ، وإذا قام من الركعتين رفع يديه " اس میں بھی ان باتوں کا کوئی ذکر نہیں جو آپ نے ایک دو تین اور چار نمبر لگا کر سوالوں کی شکل میں پوچھی ہیں ۔ تو جناب کا اسبارے میں کیا کہنا ہے ؟ اگر تو آپ یہ کہیں گے کہ آپ نے صرف رفع یدین کے اثبات میں وہ دلیل دکھائی تھی تو مسٹر گڈ مسلم میری پیش کردہ روایت کو بھی ان ہی معنوں میں لیجئے اور بتائیے کہ
ایک-آپ اصح الکتب بعد کتاب اللہ کی روایت پر یہ باطل تاویلات کیوں فرمارہے ہیں ؟
دو-آپ کی پیش کردہ روایت میں بھی وضوء،قرائت،سجود،اور تشہد کا بلکل بھی زکر نہیں ۔ تو اسے اپنی دلیل کے طور پر کیوں پیش کیا ؟یعنی لینے کے باٹ الگ اور دینے کے الگ۔
تین-کیا میری پیش کردہ روایت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کو ظاہر نہیں کرتی ؟
چار- یہ جو آپ نے تمسخر فرمایا"ہا ہا ہا" ہے یہ کس کا تھا میرا یا اصح الکتب بعد کتاب اللہ کی پیش کردہ روایت کا ؟
پانچ- کیا آپ خود اپنی پیش کردہ روایت سے بھی وضوء،قرائت،سجود،اور تشہد سے ہاتھ دھونے کے قائل ہیں یا نہیں ؟
گڈ مسلم صاحب یاد رکھئیے ہمارا موضوع "رفع یدین " ہے اور صرف ان جگہوں کا جہاں آپ کرتے چھوڑتے ہیں ۔ اسی مناسبت سے دلائیل اور گفتگو کا سلسلہ چالو ہے ۔ٹھیک۔ دوسرے اعمال کی مربوط مثال تو دی جاسکتی ہے لیکن اصل نشانہ وہی عمل رہے گا جس پر ہماری بات چل رہی ہے ۔ امید ہے سمجھ گئے ہوں گے ۔
بالکل حکم ہے جناب سہج صاحب۔ اور نبی کریمﷺ کاحکم کے آگے اگر جان بھی قربان کرنی پڑی تو پیچھے نہیں ہٹوں گا ان شاء اللہ
اصح الکتب بعد کتاب اللہ کی روایت کے جواب میں پہلے فرمایا "ہا ہا ہا" اور اب جان بھی قربان ۔ ماشا ء اللہ
آپ کے یہ الفاظ پڑھ کر ماقبل پیش بیان جو پہلے گمان کی صورت میں لکھا وہ حقیقت میں بدل گیا ۔ کیسی دلیل لائے ہیں آپ محترم سہج صاحب۔بہت خوب۔ چلیں پھر اگر آپ اس حدیث میں رفع الیدین کے عدم ذکر کو اپنے موقف کی مضبوطی کےلیے ایز اے دلیل پیش کررہے ہیں۔ تو جن اعمال کا تذکرہ گڈمسلم صاحب نے کیا ہے۔ ان کا ذکر بھی اس حدیث میں نہیں ہے۔ کیا خیال ہے ان اعمال سے بھی چھٹی نہ کرلیں ؟
مسٹر گڈ مسلم یہ کیسی دلیل سے جناب نے تمسخر اڑایا ہے ناں اصح الکتب کی روایت کا ؟ کہہ دیجئے کہ یہ جھوٹ ہے ، میں مان لوں گا ۔اور جو اعمال اس روایت سے چھوٹنے کا ڈر ہے آپ کو وہی ڈر وہاں کیوں نہ لگا جہاں آپ نے ابن عمر رضی اللہ عنہ کا عمل دکھا کر دس جگہ کی رفع یدین کی گنتی کا اثبات دو جمع دو چار کرکے دکھائی تھی؟
ہم عمل کرتے ہیں محترم جناب صاحب۔ آپ اس حدیث کو غلط مفہوم پہنا رہے ہیں۔ اور اس پر جو پوچھا ہے۔ جب آپ اس کا جواب دیں گے تب معلوم ہوجائے گا کہ ہم اس حدیث پر عمل کرتے ہیں یا نہیں ؟
عمل بھی کرتے ہیں اور تاویل بھی نہیں کرتے مسٹر سہج صاحب۔ کیونکہ تاویل بلکہ تاویلات بلکہ تاویلات در تاویلات جس کا نہ سر ہوتا ہے اور نہ پیر۔ وہ مقلدین ہی کیا کرتے ہیں۔ الحمد للہ ہم اہل حدیث ہیں۔ شریعت کا وہی مفہوم لیتے ہیں جو مراد رب جلیل اور وضاحت نبی کریمﷺ کے ساتھ سلف صالحین کے منہج پر ہوا کرتا ہے۔ لیکن آپ اس حدیث سے جو ثابت کرنا چاہتے ہیں اگر پیش کرنے سے پہلے خود غور کرلیا ہوتا تو دلیل کے طور پر یہاں پیش کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہ کرتے۔ امید ہے کہ آئندہ جو بھی پیش کروگے غور وفکر کے بعد پیش کروگے۔ ان شاء اللہ
وضاحت کردیجئے کہ آپ مزکورہ روایت سے کیا مطلب لیتے ہیں ؟ اور میرا موقف اس روایت سے کیوں ثابت نہیں ہوتا ؟اور ایسی روایت جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم خود فرماتے ہیں فإذا صلى قائما فصلوا قياما،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فإذا ركع فاركعوا،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وإذا رفع فارفعوا،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وإذا قال سمع الله لمن حمده‏.‏ فقولوا ربنا ولك الحمد‏.‏(بخاری) اور ان جگہوں پر رفع یدین کرنے کا زکر تک نہیں فرمایا جس کے بغیر آپ نماز پڑھنے پر تیار ہی نہیں ؟ ایسا کیوں ہے مسٹر گڈ مسلم ؟
لگتا ہے جو پوچھا گیا تھا وہی سمجھ ہی نہیں آیا۔ محترم المقام صاحب جو ماقبل پوچھا تھا وہی دوبارہ پیش کیے دیتا ہوں
کیا آپ اس بات سے انکار کرتے ہیں کہ چار رکعات نماز میں چار بار رکوع میں جانا نہیں ہوتا اور چار بار رکوع سے اٹھنا نہیں ہوتا۔ آپ اپنے انکار کو ثابت کردیں میں ان شاء اللہ اثبات کو ثابت کروونگا۔ کیا خیال ہے محترم سہج صاحب اینڈ حسین صاحب ؟
قوی امید ہے کہ اب ضرور جواب مل جائے گا۔ آپ جیسوں کو راستے پہ لانے کےلیے کئی طرح کے لاجک استعمال کیے جاتے ہیں۔ کیونکہ واضح اور صریح دلائل کو تو آپ ماننے والے ہی نہیں ہوتے۔ اس لیے جو پوچھا اپنی زبانی اس کا جواب دے دیں ۔ پھر لاجک کیوں استعمال کیا گیا تھا؟ سب سمجھ آجائے گا۔ فکر کرنے اور گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ شکریہ
مسٹر گڈ مسلم ، ہم یہاں رفع یدین کے معاملہ پر ہی گفتگو کر رہے ہیں ناں ؟ اور کون سی ؟ یہ بھی آپ کو یاد ہے یا بھول بھال گئے؟ جناب آپ نے دس جگہ رفع یدین کرنے کا اثبات دکھانا ہے گنتی کے ساتھ اور جب اثبات ثابت کرچکیں تو پھر سنت ثابت کرنا ہے اور اسکے بعد فجر اور عصر والی بات ؟؟؟؟سمجھ میں آیا جناب کو یا پہلی بھی گئی ؟ دو جمع دو چار کے لئے آپ سے باتیں نہیں کی جارہیں ۔ دلیل دکھائیے دلیل جس میں دس جگہ کا اثبات ہو ،صاف اور صریح دلیل ۔

محترم المقام صاحب اس حدیث کو آپ بار بار کوٹ کرتے جارہے ہیں۔میں نے کئی بار آپ سے پوچھا ۔ پھر پوچھتا ہوں کہ
جناب کا یہ فرمان جاری ہوا یہ پوچھنے پر کہ
اس بارے میں بھی آگاہ کیجئے کہ یہ حکم مطلق کے ذمرہ میں آتا ہے کہ نہیں ۔ چلیں اب آگے چلتے ہیں ۔
اس کا جواب دینے کا کوئی ارادہ تک آپ نے نہیں ظاہر کیا اور سوالات کی بھرمار کردی
1۔ آپ مسلم سے حدیث پیش کررہے ہیں یہ حدیث امام مسلم﷫ کس باب کے تحت لائے ہیں ذرا اس بات کا نام نقل فرمانا یا یہاں پیش پوش کرنا پسند کریں گے ؟
کیا یہ آپ کا اصول ہے ؟ یعنی باب کے عنوان سے فیصلہ کرنا ہے ؟ اگر ایسا ہے تو بتادیجئے پھر ان شاء اللہ ایسے ہی فیصلہ کرلیں گے ۔ باب کا نام ہے باب : نماز میں سکون کا حکم۔
2۔اگر اس حدیث کو ہم رفع الیدین کے منسوخ ہونے کی دلیل بنائیں تو پھر پہلی رفع بھی ہاتھ سے جاتی نظر آتی ہے۔ کیا خیال ہے باقی رفعوں سے تو پہلے خلاصی برتی ہوئی ہے یہ پہلی رفع کب چھوڑنے کا موڈ ہے ؟
جناب پہلے اثبات کو ثابت کریں رفع یدین وہاں وہاں جہاں جہاں آپ کرتے ہیں اور ہم نہیں کرتے پھر یہ بات کیجئے گا ۔
3۔ آپ کا فرمان ’’ اسکنوا فی الصلاۃ ‘‘ کیا جس رفع کو آپ نہیں کرتے اسی رفع کے بارے میں ہی تھا ؟ آپ کے پاس اس کی کیا دلیل ہے ؟ ذرا پیش پوش کرنا پسند فرمائیں گے ؟ یا پہلے کی کئی باتوں کی طرح ہضم ہی کرتے چلے جائیں گے ؟
’’ اسکنوا فی الصلاۃ ‘‘ ہی دلیل ہے یعنی "نماز میں سکون" اور یہ تو آپ بھی مانتے ہوں گے کہ ہاتھ اٹھانا بار بار سکون کے خلاف ہے ؟
4۔ اس حدیث میں ہاتھ اٹھانے کے موقع محل کا بھی تذکرہ نہیں ہے۔ تو پھر آپ اس سے وہی چار مقام جن پہ ہم رفع کرتے ہیں کیسے مراد لے سکتے ہیں ؟
سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ میں تمہیں اس طرح ہاتھ اٹھاتے دیکھ رہا ہوں گویا وہ شریر گھوڑوں کی دمیں ہیں تم لوگ نماز میں سکون سے رہا کرو۔
صحیح مسلم جلد ایک
اور عن علقمة،‏‏‏‏ قال قال عبد الله بن مسعود الا اصلي بكم صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم قال فصلى فلم يرفع يديه إلا مرة (ابوداؤد) اس روایت سے۔
5۔ ہاتھ اٹھانے کی کیفیت کا معلوم نہیں۔کہ آپﷺ نے صحابہ کرام﷢ کو کس طرح ہاتھ اٹھانے سے منع کیا ہے ؟ کیا آپ کے پاس کوئی صریح حدیث ہے جس میں رفع الیدین میں جو ہاتھ اٹھائے جاتے ہیں ان سے منع کرنے کی طرف نبی کریمﷺ کا اشارہ ہو ؟
سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ میں تمہیں اس طرح ہاتھ اٹھاتے دیکھ رہا ہوں گویا وہ شریر گھوڑوں کی دمیں ہیں تم لوگ نماز میں سکون سے رہا کرو۔
صحیح مسلم جلد ایک

6۔ آپ اس بات کو تسلیم کرچکے ہیں کہ اختلافی رفع الیدین نبی کریمﷺ نے بھی کی ۔ بقول آپ کے پہلے زمانے میں۔ تواچھا محترم المقام کیا آپ مجھے یہ بتلا سکتے ہیں کہ ایک ایسا کام جس کو آپﷺ ایک دور میں خود کرتے رہے (جب کرتے رہے تو ظاہر ہے شریعت تھا تب ہی کرتے رہے تھے ناں) اسی کام کو اتنی بری مثال سے تشبیہ دے سکتے ہیں؟ آخر اچانک کیا قباحت آگئی تھی اس فعل میں جس پر نبی کریمﷺ کو اتنی بری مثال دینا پڑی؟ (نعوذباللہ) ہوسکتا ہے صحابہ﷢ جو کررہے تھے ان کو منسوخیت معلوم ہی نہ ہو تو کیا شارع ایسے آدمیوں پر سختی، سزا، ڈانٹ ڈپٹ کرسکتا ہے جن کو نازل ہونے والے حکم کا علم تک نہ ہو ؟
سلام کے وقت اشارہ کرنے کو بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے ہی الفاظ سے منع فرمایا تھا دیکھئیے۔
سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھتے تو نماز کے اختتام پر دائیں بائیں السلام علیکم ورحمتہ اللہ کہتے ہوئے ہاتھ سے اشارہ بھی کرتے تھے۔ تو (یہ دیکھ کر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم لوگ اپنے ہاتھ سے اس طرح اشارہ کرتے ہو جیسے شریر گھوڑوں کی دمیں ہلتی ہیں، تمہیں یہی کافی ہے کہ تم قعدہ میں اپنی رانوں پر ہاتھ رکھے ہوئے دائیں اور بائیں منہ موڑ کر السلام علیکم ورحمۃ اللہ کہا کرو۔
صحیح مسلم،باب: نماز سے سلام پھیرے تو ہاتھ سے اشارہ کرنا مکروہ ہے۔
اب یہ ناں کہنا گڈ مسلم صاحب کہ دونوں روایات ایک ہی واقع کے بارے میں ہیں ۔ اگر ایس اکہنا ہو تو پھر دلیل صریح پیش کیجئے گا کہ دونوں روایات ایک ہی واقعہ کی ہیں ۔
اور پھر آپ نے جو مسلم سے حدیث پیش کی۔
پوری حدیث میں پیش کیے دیتا ہوں۔
حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة وأبو كريب قالا حدثنا أبو معاوية عن الأعمش عن المسيب بن رافع عن تميم بن طرفة عن جابر بن سمرة قال : خرج علينا رسول الله صلى الله عليه و سلم فقال مالي أراكم رافعي أيديكم كأنها أذناب خيل شمس ؟ اسكنوا في الصلاة قال ثم خرج علينا فرآنا حلقا فقال ما لي أراكم عزين ؟ قال ثم خرج علينا فقال ألا تصفون كما تصف الملائكة عند ربها ؟ فقلنا يا رسول الله وكيف تصف الملائكة عند ربها ؟ قال يتمون الصفوف الأول ويتراصون في الصف ۔۔( صحیح مسلم، جزء ایک، ص322)
یہ تو وہ روایت تھی جو آپ نے پیش کی تھی۔ اب اسی معنی میں صحیح مسلم سے ہی ایک حدیث کچھ الفاظ کی تبدیلی کے ساتھ میں پیش کرنے لگا ہوں۔
حدّثنا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ. قَالَ: حَدّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ مِسعَرٍ. ح وَحَدّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ (وَاللّفْظُ لَهُ) قَالَ: أَخْبَرَنَا ابْنُ أَبِي زَائِدَةَ عَنْ مِسْعَرٍ. حَدّثَنِي عُبَيْدُ اللّهِ بْنُ الْقْبطّيةِ عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ قَالَ: كُنّا إِذَا صَلّيْنَا مَعَ رَسُولِ اللّهِ صلى الله عليه وسلم، قُلْنَا: السّلاَمُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ الله السّلاَمُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ الله . وَأَشَارَ بِيَدِهِ إِلَى الْجَانِبَيْنِ . فَقَالَ رَسُولُ اللّهِ صلى الله عليه وسلم: "عَلاَمَ تُومِئُونَ بِأَيْدِيكُمْ كَأَنّهَا أَذْنَابُ خَيْلٍ شُمُسٍ؟ إِنّمَا يَكْفِي أَحَدَكُمْ أَنْ يَضَعَ يَدَهُ عَلَى فَخِذِهِ، ثُمّ يُسَلّمُ عَلَى أَخِيهِ مَنْ عَلَىَ يَمِينِهِ وَشِمَالِهِ"...( صحیح مسلم، کتاب الصلاۃ، جزء14، ص116)
مفہوم حدیث یہ ہے کہ جابر بن سمرہ﷜ فرماتے ہیں کہ ہم نے نبی کریمﷺ کے ساتھ نماز پڑھی جب سلام پھیرا گیا تو ہم نے دو طرف سلام پھیرتےہوئے ہاتھوں سے اشارہ بھی کیا۔اس پر نبی کریمﷺ نے فرمایا "عَلاَمَ تُومِئُونَ بِأَيْدِيكُمْ كَأَنّهَا أَذْنَابُ خَيْلٍ شُمُسٍ؟ إِنّمَا يَكْفِي أَحَدَكُمْ أَنْ يَضَعَ يَدَهُ عَلَى فَخِذِهِ، ثُمّ يُسَلّمُ عَلَى أَخِيهِ مَنْ عَلَىَ يَمِينِهِ وَشِمَالِهِ" یعنی اس روایت میں جابرہ بن سمرہ﷜ نے سلام کی وضاحت کردی کہ ہم نے اشارہ سلام پھیرتے وقت کیا۔۔ سمجھ گئے ناں مسٹر سہج صاحب۔ہاں ہاں ہوسکتا ہے کہ میں نا مانوں کی وجہ سے آپ میری پیش کردہ حدیث پر کوئی اعتراض کریں۔اس اعتراض کو کلی طور بند کرنے کےلیے ایک اورحدیث بالکل آپ کی پیش کردہ حدیث میں جو الفاظ ذکر کیے گئے ہیں انہیں الفاظ میں پیش کررہا ہوں لیکن لیکن جناب لیکن لیکن اس میں یہ صراحت ہے کہ نبی کریمﷺ نے یہ الفاظ کس رفع کے بارے میں فرمائے تھے ؟
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ، ثنا أَبُو نُعَيْمٍ، ثنا مِسْعَرٌ، عَنْ عُبَيْدِ اللهِ بْنِ الْقِبْطِيَّةِ، قَالَ: سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ سَمُرَةَ، يَقُولُ: كُنَّا إِذَا صَلَّيْنَا خَلْفَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُلْنَا: السَّلَامُ عَلَيْكُمِ السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَأَشَارَ مِسْعَرٌ بِيَدِهِ عَنْ يَمِينِهِ وَعَنْ شِمَالِهِ، فَقَالَ: «مَا بَالُ هَؤُلَاءِ يَرْفَعُونَ أَيْدِيَهُمْ كَأَنَّهَا أَذْنَابُ الْخَيْلِ الشُّمُسِ، أَمَا يَكْفِي أَحَدَكُمْ، أَوْ أَحَدَهُمْ، أَنْ يَضَعَ يَدَهُ عَلَى فَخِذِهِ، ثُمَّ يُسَلِّمُ عَلَى أَخِيهِ مِنْ عَنْ يَمِينِهِ وَشِمَالِهِ» (المعجم الكبير للطبراني :2/ 205 رقم 1836 )
دیکھ لیں مسٹر سہج صاحب اس حدیث کو بھی اور غور کے ساتھ فکر بھی کرلیں۔ اور ساتھ ساتھ اپنے آپ کو یہ احساس بھی دلا دیں کہ میں اس حدیث کو کس معنیٰ میں لے رہا تھا لیکن یہ تو کچھ اور ہی نکل آیا۔
محترم المقام صاحب شاید ان تین احادیث پر اگر غور کریں تو تینوں کے راوی ایک ہی صحابی یعنی حضرت جابر بن سمرۃ﷜ ملیں گے۔ اور جب ہم ان تینوں احادیث کو ملا کر دیکھیں گے تو معلوم ہوگا کہ حضرت جابر بن سمرۃ﷜ نبی کریمﷺ کے اس فرمان کو ’’ كَأَنَّهَا أَذْنَابُ الْخَيْلِ الشُّمُسِ ‘‘ کس رفع سے رک جانے کے بارے میں کہہ رہے ہیں۔ سمجھ آگیا ناں سہج صاحب۔
آپ کی ایک دلیل کی حقیقت کیا تھی؟ کیا وہ اس قابل تھی کہ آپ اس کو اپنے موقف پر پیش کرسکیں اس کو تو پیش کردیا ہے۔ قوی امید ہے کہ اب دوبارہ یہ حدیث پوری زندگی کبھی بھی کسی کے ساتھ بھی کسی جگہ بھی اس مسئلہ پر بات کرتے ہوئے پیش نہیں کرو گے۔ ان شاء اللہ ۔۔ اگر نبی کریمﷺ کے سچے حب دار ہو تو ....؟؟؟؟
ان تین احادیث پر اگر غور کریں تو تینوں کے راوی ایک ہی صحابی یعنی حضرت جابر بن سمرۃ﷜ ملیں گے۔
پہلی بات اس قول پر کوئی دلیل ؟
دوسری بات
میری پیش کردہ روایت کی سند آپ نے پیش کی جس پر شکریہ اب آپ اس روایت کی سند کو غور سے دیکھئیے
پہلی روایت حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة وأبو كريب قالا حدثنا أبو معاوية عن الأعمش عن المسيب بن رافع عن تميم بن طرفة عن جابر بن سمرة
دوسری روایت حدّثنا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ. قَالَ: حَدّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ مِسعَرٍ. ح وَحَدّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ (وَاللّفْظُ لَهُ) قَالَ: أَخْبَرَنَا ابْنُ أَبِي زَائِدَةَ عَنْ مِسْعَرٍ. حَدّثَنِي عُبَيْدُ اللّهِ بْنُ الْقْبطّيةِ عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ
تیسری روایتحَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ، ثنا أَبُو نُعَيْمٍ، ثنا مِسْعَرٌ، عَنْ عُبَيْدِ اللهِ بْنِ الْقِبْطِيَّةِ، قَالَ: سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ سَمُرَةَ،

پہلی روایت وضاحت اس روایت میں نماز میں سکون کے الفاظ اسكنوا في الصلاة آئے ہیں ۔ٹھیک؟اور اس کی سند دوسری سے مختلف ہے۔
دوسری روایت کی وضاحت سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھتے تو نماز کے اختتام پر دائیں بائیں السلام علیکم ورحمتہ اللہ کہتے ہوئے ہاتھ سے اشارہ بھی کرتے تھے۔ تو (یہ دیکھ کر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم لوگ اپنے ہاتھ سے اس طرح اشارہ کرتے ہو جیسے شریر گھوڑوں کی دمیں ہلتی ہیں، تمہیں یہی کافی ہے کہ تم قعدہ میں اپنی رانوں پر ہاتھ رکھے ہوئے دائیں اور بائیں منہ موڑ کر السلام علیکم ورحمۃ اللہ کہا کرو۔
صحیح مسلم،المساجد،باب: نماز سے سلام پھیرے تو ہاتھ سے اشارہ کرنا مکروہ ہے۔ اس روایت کی سند پہلی سے مختلف ہے۔
تیسری روایت کی وضاحت یہ بھی سلام کے وقت اشارہ سے منع کے بارے میں ہے ۔ اور اس کی سند پہلی دونوں سے مختلف ہے کہ نہیں؟
حاصل یہ کہ دو مختلف حرکتوں کی ممانعت آئی ہے جس میں ایک جیسے الفاظ سے انہیں منع کیا گیا ۔ یعنی ’ كَأَنَّهَا أَذْنَابُ الْخَيْلِ الشُّمُسِ ‘‘ ۔دوسری اور تیسری روایت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھ کر فارغ ہونے کا زکر ہے اور پہلی روایت میں "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے" کے الفاظ ہیں یعنی یہ واقعہ ایک ساتھ نماز پڑھنے کا نہیں بلکہ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نماز پڑھ رہے تھے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم "تشریف لائے" ۔۔۔ امید ہے آپ سمجھنے کی کوشش کم ازکم ضرور کریں گے ۔ اور اگر تینوں روایات کا حکم سلام کے بارے میں ہی مانتے ہیں تو کوئی دلیل صریح پیش کردیجئے جس سے ثابت ہوجائے کہ پہلی روایت میں بھی سلام کے وقت اشارہ سے منع کیا گیا ہے ورنہ ابھی تک تو یہی ثابت ہے کہ مالي أراكم رافعي أيديكم كأنها أذناب خيل شمس ؟ اسكنوا في الصلاة یعنی نماز میں سکون ۔

دیکھیں سہج صاحب جو بات پوچھی جائے اگر جواب دینا ہو تو پورا جواب دیا کریں۔ ورنہ اس کی طرف ہاتھ بھی نہ بڑھایا کریں۔ میں نے کیا کیا پوچھا تھا ؟ اور آپ نے کس کاجواب دیا یا کس پر لب کشائی کی۔ میں نے پوچھا تھا کہ
1۔ جب آپ نے کہا کہ آپ نے دس رفعوں کا اثبات قیاس سے کیا ہے۔ میں نے وضاحت پیش کرکے کہا کہ یہ قیاس نہیں۔ کیا آپ کاحق نہیں بنتا تھا کہ آپ اس کو قیاس ثابت کرتے یا پھر کہتے کہ میں نےغلطی سے کہہ دیا تھا۔اقتباس دوبارہ پیش کیے دیتا ہوں شاید سمجھ آجائے
آپ صریح دلیل پیش کردیجئے جناب دس جگہ کے اثبات کی ۔ اور یہ "لاگوں" اور "دوجمع دو چار " کے بغیر کوئی دلیل ہے تو پیش کردیں ۔ شکریہ

2۔ آپ نے کہا کہ ’’ دوسری اور چوتھی رکعت کی نفی کا مطلب آپ نکالتے ہیں یا نہیں ؟کیا وہ قیاس ہے ؟ ‘‘ دیکھیں سہج صاحب
دلیل دکھائیے صرف صریح دلیل ۔

آپ نے حدیث کے اس جملے کا معنی ومفہوم وتشریح سمجھی ہی نہیں کہ یہ کیوں بولا گیا ہے۔ میں سمجھاتا ہوں
چلو جی دمجھتے ہیں آپ کیا سمجھانا چاھتے ہیں
نماز مختلف رکعات پر مشتمل ہوتی ہے یا نہیں ؟ ہوتی ہے ناں ؟ ایک رکعت بھی، دو بھی، تین بھی، چار بھی۔ پانچ، سات، نو، گیارہ الخ ہوتی ہے ناں ؟ اگر نماز ایک یا دو رکعتوں والی ہو تو پھر حدیث میں یہ الفاظ ’’وإذا قام من الركعتين‘‘ بے معنی، بے مقصد ہونے کے ساتھ کوئی مطلب ہی نہیں ہے یہاں ان کے بیان کا۔ تو پھر آپ کیا کہیں گے کہ ان الفاظ کا اضافہ صحابی﷜ نے نعوذباللہ جان بوجھ کر کردیا ہے؟ محترم جناب ان الفاظ میں ایک اصول اور ضابطہ بیان کیا گیا ہے۔کہ ہر وہ نماز میں جس میں تشہد کرنے کے بعد آپ دوسری رکعت کےلیے کھڑے ہونگے تو آپ کو رفع الیدین کرنا ہوگی۔ رکعات کو بیچ میں لا کر قیاس میاس کی بات مت کیجیے۔ آ گئی ناں سمجھ محترم المقام صاحب۔؟
یہ تو سمجھ آگیا کہ قیاس میاس کئے بغیر آپ رفع یدین کی دس جگہ کی گنتی کبھی نہیں دکھاسکتے اور تیسری رکعت کی رفع یدین کے زکر میں دوسری اور چوتھی رکعت کے شروع کی رفع یدین نہ کرنے کے لئے پھر قیاس میاس فرماتے ہیں ۔کیوں جناب یہی سمجھانا تھا یا کچھ اور ؟
جی الحمد للہ میں عامل ہو اس حدیث سے ثابت شدہ اس حکم پر جس کی تعلیم نبی کریمﷺ ہمیں دینا چاہتے تھے۔ لیکن آپ کی طرح مارے گھٹنہ پھوٹے سر، اورکہاں کی اینٹ کہاں کا روڑا، بھان متی کا کنبہ جوڑا والی باتیں نہیں کرتا۔ اچھا آپ ماقبل حدیث کی طرح اس میں بھی رفع کے عدم ذکر کو منسوخ پر دلیل مان رہے ہیں تو پھر بتائیے
یعنی کہ آپ بغیر رفع یدین کئے بھی نماز پڑھ لیتے ہیں ؟ پہلی بات کا یہی مطلب نکلتا ہے کیوں ؟ مگر آگے آپ نے پھر چکر بازی کی ہے یہ کہہ کر کہ اس حدیث سے ثابت شدہ اس حکم پر ۔۔۔ ماشاء اللہ جناب یہاں بھی قیاس فرماتے ہیں اور دعوٰی ہے اطیعو اللہ و اطیعو الرسول جناب یہ مسئلہ کون سا ہے جو آپ کو دینا چاھتے تھے صلی اللہ علیہ وسلم ؟؟؟؟ اس کی خبر آپ کو کہاں سے ہوئی ؟کس دلیل سے ہوئی؟ کچھ تو بتائیے اس بارے میں ۔

1۔ حدیث میں وضوء کا ذکرنہیں ؟ کہ اس نماز کےلیے وضوء بھی کیا گیا تھا ؟ یا نہیں ؟
2۔ یہ نماز کس وقت پڑھی گئی تھی؟ وقت کا بھی تذکرہ نہیں کیونکہ اگر کوئی کہے کہ یہ نماز تین مکروہ اوقات سورج نکلتے ہوئے، سورج سر پہ ہوتے ہوئے اور سورج غروب ہوتے ہوئے پڑھی گئی تو مسٹر سہج صاحب اس کو کیا جواب دیں گے ؟
3۔ قیام میں قراءت کا بھی ذکر نہیں؟ کیا قراءت کی گئی تھی یا نہیں ؟
4۔ رکوع میں تسبیح کا بھی ذکر نہیں؟
5۔ سجدہ میں بھی تسبیح کا کوئی ذکر نہیں ؟
6۔ تشہد کا بھی ذکر نہیں ؟
6۔ سلام پھیرنے کا بھی تذکر نہیں کہ آپﷺ نے سلام پھیرا تھا یا نہیں ؟
پہلے بھی ایسے ہی سوالات کے جوابات دئیے تھے اب ان ہی سوالوں کے جواب میں آپ سے عرض کیا ہے۔
رفع یدین کی دس جگہ گنتی ثابت کرنے کے واسطہ آپ نے یہ روایت پیش فرمائی تھی۔
(صحيح البخاری، كتاب الأذان، باب رفع اليدين إذا قام من الركعتين، حديث:‏739)
’’ جب نماز کا آغاز فرماتے تو تکبیر کہتے اور رفع الیدین فرماتے، اور جب رکوع کرتے تو رفع الیدین کرتے اور جب سمع اللہ لمن حمدہ کہتے تو رفع الیدین کرتے، اور جب دو رکعتوں سے اُٹھتے تو پھر بھی رفع الیدین کرتے۔‘‘
اب آپ مسٹر گڈ مسلم ، وہی سوالات جو میرے سے پوچھے تھے آپ نے ان کے جوابات پیش کردیں ۔
1۔ حدیث میں وضوء کا ذکرنہیں ؟ کہ اس نماز کےلیے وضوء بھی کیا گیا تھا ؟ یا نہیں ؟
2۔ یہ نماز کس وقت پڑھی گئی تھی؟ وقت کا بھی تذکرہ نہیں کیونکہ اگر کوئی کہے کہ یہ نماز تین مکروہ اوقات سورج نکلتے ہوئے، سورج سر پہ ہوتے ہوئے اور سورج غروب ہوتے ہوئے پڑھی گئی تو مسٹر سہج صاحب اس کو کیا جواب دیں گے ؟
3۔ قیام میں قراءت کا بھی ذکر نہیں؟ کیا قراءت کی گئی تھی یا نہیں ؟
4۔ رکوع میں تسبیح کا بھی ذکر نہیں؟
5۔ سجدہ میں بھی تسبیح کا کوئی ذکر نہیں ؟
6۔ تشہد کا بھی ذکر نہیں ؟
6۔ سلام پھیرنے کا بھی تذکر نہیں کہ آپﷺ نے سلام پھیرا تھا یا نہیں ؟
امید ہے مسٹر گڈ مسلم سمجھ گئے ہوں گے ؟

محترم جناب ابھی تو آپ نماز کے ایک ایک عمل سے آہستہ آہستہ خلاصی برتتے جارہے ہیں۔ آپ کو مزید کیا دکھاؤں ؟ دوسرا جو حدیث پیش کی ہے اسی میں ہی آپ کے مطالبے کا پورا پورا جواب ہے۔ جان بوجھ کر کوے کو سفید کہے جارہے ہیں۔
شاید آپ کو اتنی تو تعلیم ہوگی کہ معاملات میں اصل اباحت ہے الا کہ حرمت کی دلیل آجائے اور عبادات میں اصل حرمت ہے الا کہ حلت کی دلیل آجائے۔یہ بات سمجھ لینے کے بعد اگر غور وفکر کو تکلیف دینے کا سوچ لیں تو پھر آپ کو معلوم ہوجانا چاہیے کہ نماز بھی ایک عبادت ہے اور نماز میں جن جگہوں پر جو عمل کرنا تھا آپﷺ نے اس کا بتا دیا۔جن کا نہیں بتایا وہ نہیں کرنے۔اسی بات کو جب آپ سمجھ لیں گے تو پھر گنتے کرتے ہوئے خود جان لینا کہ چار رکعات میں کل کتنی جگہیں ہیں جہاں آپﷺ نے رفع الیدین کیا اور ان جگہوں پر اگر چار رکعات میں رفع کی جائے تو یہ تعداد کہاں تک پہنچتی ہے۔ اور پھر چار رکعات نماز میں کتنی جگہیں ہیں کہ جہاں پر آپﷺ نے رفع الیدین نہیں کیا اور اگر ان کی گنتی کی جائے تو گنتی کہاں تک پہنچتی ہے۔
میں توکب سے کہہ رہا تھا کہ اسی حدیث میں ہی آپ کا مطالبہ پورا پورا پیش کیا گیا ہے۔ لیکن آپ سمجھ ہی نہیں رہے تھے ؟ اب سمجھ گئے ناں مسٹر سہج صاحب ؟
گڈ مسلم صاحب کیا آپ کی یا میری گنتی "صریح دلیل" بن جائے گی؟ کیوں غلط بیانیاں فرمارہے ہیں ۔ چار رکعت میں کتنی جگہیں ہیں؟گنتی کی جائےتو؟ گنتی کہاں تک پہنچتی ہے؟؟؟؟؟ بھئی قیاس کی کوئی ضرورت نہیں خاص طور پر ایک عدد غیر مقلد سے جس کا دعوٰی ہے کہ وہ فرقہ اہل حدیث سے بلانگ کرتا ہے ۔ اور صرف قرآن اور حدیث پر عمل کرتا ہے ۔ پھر یہ دو جمع دو چار بیچ میں کہاں سے لے آتے ہیں آپ؟؟؟
مزاحیہ باتیں۔
چاہے نبی کریمﷺ کا عمل صحابی﷜ نقل کرے، تابعی﷫ نقل کرے، یا اسناد کو بیان کیے بغیر گڈمسلم صاحب نقل کریں ہوگا نبی کریمﷺ کاعمل۔ کسی اور کاعمل نہیں ہوجائے گا۔ محترم المقام صاحب۔
بجائے اس کے کہ آپ میری بات مان لیتے اور کہہ لیتے سوری گڈمسلم صاحب لکھنے میں مجھے غلطی لگ گئی ایک اور مزاح چھوڑ دیا۔ محترم صاحب آپ نے کہا کہ میں نے صحابی﷜ کا عمل پیش کیا جس پر میں نے کہا نہیں نہیں سہج صاحب ’’ صحابی کا عمل نہیں بلکہ نبی کریمﷺ کاعمل اور صحابی کا بیان۔ ‘
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما جب نماز میں داخل ہوتے تو پہلے تکبیر تحریمہ کہتے اور ساتھ ہی رفع یدین کرتے۔ اسی طرح جب وہ رکوع کرتے تب اور جب سمع اللہ لمن حمدہ کہتے تب بھی (رفع یدین) دونوں ہاتھوں کو اٹھاتے اور جب قعدہ اولیٰ سے اٹھتے تب بھی رفع یدین کرتے۔ آپ نے اس فعل کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچایا۔(بخاری)
جناب یہ جو عبارت ہے ایچ ٹو کے ساتھ اسے دیکھئیے اور پوچھ پچھا کر بتائیے کہ یہ کس کا ارشاد گرامی ہے ؟ کیا یہ ایک غیر مقلد کی دلیل ہے ؟؟ آپ شاید اسی قول کی وجہ سے اس روایت کے عمل کو نبی کا عمل فرمارہے ہیں ؟ جناب ابن عمر رضی اللہ عنہ کا عمل آپ نے پیش کیا ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچانے کا قول کس کا ہے یہ آپ نے بتانا ہے ۔ اور ہاں صحابی کا عمل آپ کے ہاں حجت ہے یا نہیں یہ بھی بتادیجئے گا ۔
ہم م م م میں نے کیا بات کی جناب نے کیا بات کردی۔ حضور آپ نے جو ابن عمر﷜ کا عمل پیش کیا اس بارے میں نے بات کی۔ میری پیش کردہ حدیث پر آپ کے انکار واقرار کی بات نہیں کی۔ کیوں آپ گھوم گئے ہیں ؟
کئی بار کہہ چکا ہوں کہ آپ انکار کر ہی نہیں سکتے اور نہ آپ میں اتنی جراءت ہے۔ کیوں بار بار شرمندہ کیے جارہے ہیں۔ بات تو یہ ہے کہ آپ نے جو ابن عمر﷜ کا عمل بذریعہ راوی مجاہد﷫ پیش کیا اس کی کیا حقیقت ہے۔؟ یہ آپ سے پوچھنا ہے۔
حقیقت اب بتابھی دیجئے مسٹر گڈ مسلم ۔ شکریہ
پہلی بات: آپ کی یہ بات خارج از موضوع ہے اورمجھے یقین ہے کہ اب آپ بہت شور ڈالیں گے۔ لیکن ناں ناں سہج صاحب آپ کوشور نہیں ڈالنے دیا جائے گا۔ آگئی ناں سمجھ ؟ اور آپ کی اس طرح کی باتوں پر بھی کچھ نہیں لکھا جائے گا۔
دوسری بات: میں نے کیا بات پوچھی جناب نے کیا بات کردی میری بات دوبارہ پیش ہے۔( مزے کی بات یہ ہے کہ جناب نے اقتباس میں بھی کوٹ کردی، لیکن یہ نہ جان سکے کہ اس میں پوچھا کیا گیا ہے۔)
تیسری بات:
بقول آپ کے اگر روایات کا آپس میں ٹکراؤ ہے۔(حنفی اصول ٹکراؤ آجانے میں کیاکہتا ہے۔ اس بارے ایک مستقل پوسٹ کردی تھی) تو روایات کے درجہ ومقام میں بھی فرق ہے۔فرق ہے ناں ؟ ایک بات مولوی کرے اور دوسرا عام آدمی تو آپ کس کی بات کو تسلیم کریں گے؟ ایک بات قرآن میں ہو اور دوسری بات حدیث میں اور دونوں متضاد ہوں آپ کس کی بات کو تسلیم کریں گے ؟ ایک بات بخاری ومسلم کی کتب میں ہو اور دوسری باقی کتب احادیث میں اور دونوں متضاد ہوں آپ کس کی بات کو تسلیم کریں گے ؟ میں نے صحابی کے بیان میں آپﷺ کا عمل پیش کیا اور آپ نے تابعی کے بیان میں صحابی کاعمل پیش کیا ترجیح کس کو ہوگی ؟ ( فی الحال آپ کے بیان کی حقیقت کیا ہے اس پر بات نہیں ) غور کریں محترم المقام صاحب ۔
بات دوبارہ پیش کردی ہے۔ شاید سمجھ آجائے کہ کیا پوچھا گیا تھا؟
میں بھی اپنی بات دوبارہ پیش کردیتا ہوں شاید کہ سمجھ میں تشریف لے آئے ۔
رسول الله صلى الله عليه وسلم سباطة قوم فبال قائما‏.‏
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی قوم کی کوڑی پر تشریف لائے اور آپ نے وہاں کھڑے ہو کر پیشاب کیا۔
بخاری
دیکھئیے مسٹر گڈ مسلم ، آپ خود بخاری کو اصح الکتب بعد کتاب اللہ مانتے ہیں اور خود ہی بخاری کو ترجیع بھی دیتے ہیں تو جناب سے سوال عرض کیا ہے کہ بخاری کی اس روایت پر کب عمل کرتے ہیں کبھی کبھی یا کبھی نہیں ؟ اور اگر بیٹھ کر پیشاب کرتے ہیں تو کیا سمجھ کر ؟ اگر "سنت" سمجھتے ہیں تو (یہ الگ بات ہے کہ اسے بھی "سنت" آپ اپنی دلیل سے ثابت نہیں کرسکتے)کیا بخاری کے مقابلہ میں کسی اور کتاب کو ترجیع دیتے ہیں ؟ایسے معاملہ میں بھی ترجیع بخاری کو ہی دیجئے ۔ اور ہاں اعلان ضرور کیجئے گا یہاں ایچ ون دباکر ۔
لیکن آپ نے ایچ ون نہیں دبایا اپنے جواب میں اور یہ بھی نہیں بتایا کہ آپ کھڑے ہوکر پیشاب کرنے کے مقابلہ میں بیٹھ کر پیشاب کرنے کی روایت جو کہ بخاری اصح الکتب بعد کتاب اللہ میں بلکل بھی نہیں ہے ، کو ترجیع کیوں دیتے ہیں ؟ کیوں کیوں کیوں ؟؟؟ اور ہاں مجھے بھی معلوم ہے کھڑے ہوکر پیشاب موضوع نہیں لیکن یہ ایک مثال ہے آپ کے لئے اور دیکھنے پڑھنے والوں کے لئے کہ اگر آپ بخاری سے کچھ روایت پیش کریں تو اس کی تعریف میں تعریف کے ریکارڈ توڑنے کی فکر میں گامزن نظر آتے ہیں اور جب کوئی اور پوچھ لے اسی بخاری کی روایت کو پیش کرکے تو جناب کو "موضوع" یاد آجاتا ہے ؟ اسے کہتے ہیں لینے کے باٹ الگ اور دینے کے الگ۔

چلیں چار دلائل سے ہی ثابت کردیں کہ پہلی رفع کے بارے نبی کریمﷺ نے کیاحکم دیا ہے فرض کا ؟ سنت کا ؟ حدیث کا ؟ مستحب کا ؟ مکروہ کا ؟ کیونکہ میں نے تو کہہ دیا کہ فمان کان جوابکم فہوا جوابنا۔
مسٹر گڈ مسلم ، اک اور ثبوت لینے کے اور دینے کے اور کا ، جناب یہ موضوع نہیں ، موضوع کے مطابق یہ ہے کہ آپ دس جگہ رفع یدین کا اثبات دکھائیں گنتی کے ساتھ ۔ نماز کے شروع کی رفع یدین سنت سمجھتے ہیں یا حدیث یہ موضوع نہیں ۔
ناں ناں سہج صاحب ایسے نہیں پیش پوش کرنا ہوگا گواہیوں کے ساتھ۔اور نہ ثابت ہوا ہے۔ آپ کو کرنا کیا ہوگا۔ میں بتاتا ہوں
1۔ صحیح سند سے اس کو بیان کرنا ہوگا کیونکہ میں ابن عمر﷜ کے رفع الیدین نہ کرنے کے عمل سے انکاری ہوں۔ کیونکہ یہ کبھی ہو ہی نہیں سکتا کہ صحابی نبی کریمﷺ کا عمل نقل کچھ کرے اور خود کچھ عمل کرے۔( ہاں معلوم نہ ہو تب یہ ممکن ہے معلوم ہوتے ہوئے جان بوجھ کر خلاف نبیﷺ عمل کرنا۔صحابی کےلیے میں اس بات کو تسلیم کر ہی نہیں سکتا پتہ نہیں آپ کیسے تسلیم کیے جارہے ہیں۔)
2۔جس راوی سے آپ نے نقل کیا اس کا اپنا عمل بھی بیان کرنا ہوگا۔
خالی خولی روایت کا انکار ؟ مسٹر گڈ مسلم ایسے نہیں آپ روایت کا انکار کرتے ہیں اور میں الحمد للہ اقرار ۔ اور آپ پھر بھی اہل حدیث ہی رہیں ، کمال ہے بھئی ۔
مسٹر گڈ مسلم ، دیکھئیے
حدثنا أبو بكر بن عياش عن حصين عن مجاهد قال ما رأيت ابن عمر يرفع يديه إلا في أول ما يفتتح .
مصنف ابن ابی شیبۃ جلد ایک،صفحہ دوسوسینتیس
پہلے آپ اس روایت کا انکار ثابت کردیں "دلیل " کے ساتھ پھر ان شاء اللہ اگلی روایت بھی پیش کردیں گے ۔
پہلی بات محترم میں نے کیا پوچھا اور آپ نے اقتباس لے کر کیانقل کردیا۔
کیا صحابی﷜ کو اختیار ہے کہ آپﷺ کے عمل کے خلاف کوئی عمل جاری کریں ؟ اگر اختیار نہیں تو پھر دو باتیں ہیں۔ پہلی بات آپﷺ نے خود رفع الیدین کومنسوخ قرار دیا ہوگا تب ہی صحابی﷜ نے رفع الیدین نہیں کیا۔ دوسری بات صحابی کی طرف منسوب وہ بات جو آپ نے پیش کی ضعیف ہو۔ اگر منسوخ ہوجانے سے صحابی نے رفع نہیں کیا تب آپ کو مسنوخیت کی دلیل پیش کرنا ہوگی اور اگر دوسری بات تسلیم کرلیں گے تب ہم بھی آپ کو دلیل کی تکلیف نہیں دیں گے۔ کیونکہ آپ خود ہی تسلیم کرلیں گے کہ میری پیش کردہ بات ہی اس قابل نہیں کہ حدیث کے مقابلے میں اس کو پیش کیا جائے۔
گڈ مسلم صاحب روایت پیش اسلئے کی تھی کہ آپ دیکھ لیں کہ نماز میں سکون کا حکم کس نے دیا ؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یا صحابی نے ؟ پھر دیکھئیے
رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم فقال مالی اراکم رفعی يديکم کانها اذناب خيل شمس اسکنوا فی الصلوٰة اب اس کو آپ دلیل ہی نہیں مانتے یا تاویل کرتے ہیں کہ یہ سلام کے بارے میں ہے تو پھر آپ ہی "صراحت والی دلیل " دکھائیے جس میں ہو کہ کانها اذناب خيل شمس والی تمام روایات سلام کے بارے میں ہیں ۔
ابن عمر﷜ والی حدیث کئی بار پیش کرچکا ہوں۔اسی حدیث میں ہی آپ کے مطالبے کا اتم جواب ہے۔ باقی رہی بات رفع الیدین سنت ہے یا حدیث ؟ اگر سنت ہے تو فجر جیسی سنتوں کی طرح یا عصر جیسی سنتوں کی طرح ؟ اس بارے کہہ چکا ہوں کہ پہلی رفع کو آپ اگر سنت مانتے ہیں تو میں بھی باقی رفعوں کوسنت کہوں گا۔ اگر آپ حدیث، یا فجر کی سنت کی طرح یا عصر کی سنت کی طرح تسلیم کرتے ہیں میں بھی یہی تسلیم کرونگا۔۔ لیکن لیکن جواب آپ کا بادلائل تسلیم کیا جائے گا۔۔یہ یا نہیں مانی جائے گی۔ آئی گئی ناں سمجھ محترم المقام صاحب۔؟
غلط !! جناب ناہی دس تک گنتی کی ہے آپ نے رفع یدین کی اور نا ہی اثبات دکھایا ہے دلیل سے ، ہا ں ہاں ہاں دو جمع دو چار کیا ہے آپ نے ۔ اسکے علاوہ کچھ نہیں کیا ابھی تک ۔ فجر اور عصر جیسی یا سنت یا حدیث یہ سب بعد کی باتیں ہیں سرجی ۔ اور دلیل ہی تو آپ سے مانگ رہا ہوں اور دلیل ہی تو دکھائی ہیں ابھی تک ۔ جس کا آپ نے انکار کیا اور میں نے الحمد للہ روایت کا انکار نہیں کیا -

موضوع سے خارج مت جائیے ورنہ آپ صوفیوں نے دین کا کیسے بیڑا غرق کیا ؟ اور چاٹنے ماٹنے سے انگلیوں کو پاک کرنے کی کیسے کیسے داستانیں وضع کیں، سب جمع کردونگا۔ اس لیے گزارش ہے کہ بحث کو خراب مت کریں۔میری طرف سے کوئی زیادتی نہیں ہوگی گزارش ہے کہ آپ بھی سنبھال کر بات کریں۔ شکریہ
میں صوفی نہیں جناب ، اور جہاں چاٹنے ماٹنے کی بات لکھی ہے ناں وہاں سے صرف چاٹنا ماٹنا ہی نہیں پڑھ لینا اسی صفحہ پر کچھ اور بھی لکھا ہے۔۔۔۔۔ اسکے بارے میں ہے یعنی چاٹنے ماٹنے والی بات اور پاک کرنے والی بات۔اور اگر ہمت ہے ہے آپ میں تو اصل کتابی اسکین کے ساتھ تھریڈ بنادو ۔ پھر دیکھ لیں گے اسے بھی ۔
ہا ہا ہا ہا ... اچھا کیا آپ نے اس سے یہ پوچھا تھا کہ جب وہ بدمعاشی نہیں کرتا تو ؟ دوسرا کسی نے تصدیق کروائی تھی آپ نے نہیں کی ؟ تیسرا اگر کسی گھوڑے کو آپ خود دیکھ کر یہاں بیان جاری کردیں اورہوسکے تو اس کی ویڈیو بنا کر کہ کیسے دم ہلا رہا ہے یہاں پیش کردینا۔ یا آپ کی آسانی کےلیے جس سے تصدیق کروائی تھی۔اسی سے ویڈیو بنوا لاؤ تاکہ ہمیں بھی تو پتہ چلے کہ یہ کس عجیب نسل کا گھوڑا ہے جو اوپر نیچے دم ہلاتا ہے؟
باقی میرے پاس ویڈیوز تھیں، کوشش کرونگا کہ تلاش کرکے یہاں پیش کردوں۔
ہا ہا ہا نہ کیجئے مسٹر ، اور تحقیق کیجئے تحقیق ۔ اور اپنی تحقیق کی تصاویر یہاں بھی شئیر کرتے رہیں تاکہ سب کو علم ہو کہ گھوڑا بدمعاشی کس طرح کرتا ہے۔

نہیں نہیں سہج صاحب صریح نہیں ہیں۔ اور نہ پیش کردہ دلیلیں آپ کے موقف کو ثابت کرسکتی ہیں۔ کیوں مغالطہ دینے میں لگے ہوئے ہیں۔ جناب جی۔ رفع الیدین کے منسوخ ہونے کی صریح، صحیح، حدیث پیش کریں۔
پیش کردی ہے
ہم مم مم ... اچھا اچھا اگر آپ مقلد ہیں تو پھر آپ کو دلائل پر نظر ہی نہیں کرنی چاہیے۔اور نہ آپ مقلد ہوکر کسی سے کسی مسئلہ پر بات چیت کرسکتے ہیں۔اگر کوئی بات کرنا بھی چاہیے تو آپ کو بس یہ جواب دینا چاہیے کہ میں فلاں کا مقلد ہوں، میں اس بارے کوئی بات نہیں کرسکتا۔ اگر بات کرنی ہے تومیرے امام سے بات کرو۔ اللہ اللہ تیں خیر صلا۔ ۔ ایک بات
دوسری بات جب آپ نے کہہ دیا کہ میں مقلد ہوں اور مقلد اپنی مرضی کبھی نہیں کرسکتا تو پھر جو دلائل آپ نے پیش کیے ہیں کیا آپ کے امام نے کسی سے مناظرہ کرتے ہوئے یہ دلائل پیش کیے تھے ؟ ذرا اپنے امام کا وہ مناظرہ تو پیش کردیجیے۔ تاکہ ہمیں پتہ تو چلے کہ آپ تقلید کا پورا پورا بھرم رکھنے والےخوش قسمت انسان ہیں۔۔۔ اگلی پوسٹ میں پیش کردو گے ناں مسٹر سہج صاحب ؟
جب آپ مقلد ہو کر پٹہ توڑنےمیں ماہر ہیں( یعنی چوری بھی کرو اور شور بھی مچاؤ ) تو پھر آپ کو ان لوگوں کے حالات جاننے کی ضرورت ہی نہیں جو اپنے آپ کو کسی کا مقلد نہیں کہتے۔
فضول باتیں ، اسلئے کوئی جواب بھی نہیں ۔
صریح صحیح اورواضح حدیث تو میں نے پیش کردی ہے۔ جناب من۔ آپ نے اپنے موقف میں احتمالات اور ضعیف روایات کے علاوہ کیا پیش کیا ہے ؟
ضعیف ثابت کئیے بغیر ہی جناب نے روایات کو ضعیف کہہ کر دھوکہ دہی شروع کردی ؟ مسٹر گڈ مسلم پہلے روایات کو ضعیف ثابت کیجئے پھر صریح روایت پیش کریں جس میں دس کا اثبات ہو اور جس کی گنتی آپ بھی کرسکیں ۔ سمجھے سرجی ۔ یہ اک اور نشانی غیر مقلدوں کی کہ آپ لوگ اپنے آپ کو کہتے اہلحدیث ہیں اور مخالف کی طرف سے پیش کردہ بخاری کی حدیث بھی نہیں مانتے ۔ اگر مانتے ہو تو بتاؤ کھڑے ہوکر پیشاب کرنے کی بجائے پیٹھ کرکیوں کرتے ہو ؟ اور بخاری کی ہی وہ روایات جن میں رکوع جاتے ،اٹھتے اور تیسری رکعت کی رفع یدین نہیں ان پر کیوں عمل نہیں کرتے ؟ وغیرہ وضیرہ
1۔ پیش کردیا اور وہ بھی بادلیل صحیح، صریح، واضح۔
نا تو واضح ہے اور نا ہی صریح بادلائیل بھی نہیں ۔ ہاں دو جمع دو چار ضرور پیش کیا ہے۔
2۔ قیاس میرے نزدیک کیا ہے تھریڈ کا لنک دے دیا ہے۔
تھریڈ میں جب دیکھیں گے وہ تو تب کی بات ہے جناب ایک دو لفظوں میں کچھ بتاسکیں تو پیش پوش کردیجئے ورنہ مجھے معلوم تو ہے ہی کہ قیاس کے بغیر آپ کا گزارہ ممکن ہی نہیں۔
3۔ ناموں کو تبدیل کرنے کی ان کو ضرورت ہوتی ہے جو شریعت محمدیﷺ کو کھلونا بنا کر عوام کے سامنے پیش کرنے کا عمل کرتے ہیں۔
جی واقعی ، تب ہی ملکہ برطانیہ کو عرضی لکھی گئی تھی ؟ ان لوگوں نے کھلونا بنایا تھا یا نہیں ؟

شکریہ
 
Top