• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا پاکستان کو سعودی عرب کے ساتھ تعاون کرنا چاھیے؟

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
حوثی ملیشیا نے وارننگ مسترد کر دی تھی: شاہ سلمان
29 مارچ 2015

ریاض (قدرت نیوز) سعودی عرب کے فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے کہا ہے کہ بعض عرب ممالک میں اٹھنے والی شورش اور بدنظمی دہشت گردی اور انتہا پسندی کےدرمیان اتحاد کا نتیجہ ہے۔ انتہا پسندی اور دہشت گردی کے گٹھ جوڑ نے بے گناہوں کا قتل عام کیا، ان کا خون بہایا اور ہمارے پڑوسی ملکوں کی سلامتی، امن اور خود مختاری کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی۔ العربیہ ڈاٹ نیٹ کے مطابق مصر کے پُر فضاء مقام شرم الشیخ میں ہفتے کے روز منعقدہ عرب سربراہ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے کہا کہ ’’ہمارے پڑوسی ملک یمن میں بیرونی مداخلت نتیجے میں حوثی ملیشیا کےمٹھی بھر گروہ کو پورے ملک پر مسلط کیا گیا۔ اس محدود گروپ نے پورے ملک کو یرغمال بنا کر ریاست کی آئینی حکومت کو بھی ختم کر دیا۔ دارالحکومت صنعاء، ملک کے تمام ریاستی اداروں اور فوج پر قبضے کے بعد حوثیوں نے مزید پیش قدمی شروع کی اور ملک میں قیام امن کے حوالے سے خلیجی ممالک کا امن فارمولہ مسترد کر دیا گیا۔ اس ساری صورت حال میں یمن کے صدر عبد ربہ منصورھادی کی درخواست پر خلیجی ممالک اور سعودی عرب نے یمن کو ایک مخصوص انتہا پسند گروپ سے نجات دلانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس سلسلے میں ہم نے ریاض کی میزبانی میں مفاہمتی مذاکرات کا دروازہ شروع سے کھلا رکھا ہے۔ یمن میں قیام امن کے حوالے سے خلیجی ممالک کے امن فارمولے کو عالمی برادری کی معاونت حاصل ہے۔ آپریشن’’فیصلہ کن طوفان‘‘ جاری رکھنے کا عزم شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے کہا کہ بعض علاقائی قوتوں کی معاونت سے یمن کے اقتدار پر قابض حوثی گروپ کے عزائم نہایت خطرناک ہیں۔ وہ یمن کو اُپنے توسیع پسندانہ عزائم کی تکمیل کے لیے ایک اڈے کے طور پر استعمال کرنا چاہتے ہیں لیکن انہیں اس کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ ہماری تمام تر امن مساعی کے باوجود حوثیوں نے ہماری وارننگ پر کوئی توجہ نہیں دی، جس کے بعد ہمیں مجبورا فوجی آپریشن’’فیصلہ کن طوفان‘‘شروع کرنا پڑا ہے۔ یہ آپریشن منطقی انجام تک پہنچایا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ یمن میں قیام امن، برطرف کی گئی آئینی حکومت کی بحالی اور خطے کو حوثی بغاوت سے درپیش خطرات کے ازالے تک ہماری جنگ جاری رہے گی۔ سعودی فرمانروا کاکہنا تھا کہ یمن میں حوثی باغیوں کے خلاف آپریشن صدر عبد ربہ منصورھادی کی درخواست پر شروع کیا گیا ہے۔ اس لیے اسے سعودی عرب کی جانب سے بے جا مداخلت نہیں قرار دیا جا سکتا۔ انہوں نے کہا کہ فوجی آپریشن کے ساتھ ساتھ ہم نے یمن کی تمام سیاسی قوتوں کے لیے ریاض میں بات چیت کے دروازے کھلے رکھے ہیں۔ ہم سب کا مطمع نظر یمن میں ایک مستحکم حکومت کا قیام ہے۔ فلسطینی ریاست کی حمایت خادم الحرمین الشریفین نے عرب سربراہ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے خطے کو درپیش دیگر مسائل اور تنازعات کے فوری حل کی ضرورت پر بھی زور دیا۔ انہوں نے فلسطینی عوام کی جدو جہد آزادی کی حمایت کی اور کہا کہ مشرق وسطیٰ میں دیر پا قیام امن کے لیے فلسطینی تنازع کا حل ناگزیر ہے۔اب وقت آگیا ہے کہ عالمی برادری مسئلہ فلسطین کے حل کے حوالے سے اپنی ذمہ داریاں پوری کرے۔ انہوں نے کہا کہ فلسطینیوں کوبھی دیگراقوام کی طرح آزادی کی فضاء میں زندہ رہنے کا حق حاصل ہے۔ ہم ایم ایسی فلسطینی ریاست چاہتے ہیں جس میں بیت المقدس کو اس کے دارالحکومت کا درجہ حاصل ہو۔ ہمارا یہ مطالبہ بے جا نہیں بلکہ عالمی برادری اسے تسلیم کرچکی ہے۔ سنہ 2002ء میں عرب ممالک کی جانب سے فراہم کردہ روڈ میپ میں بھی اس کی وضاحت کی جا چکی ہے۔ انہوں نے سلامتی کونسل سے مطالبہ کیا کہ وہ عرب روڈ میپ کی روشنی میں فلسطینی عوام کی آزادی کے مطالبے کو تسلیم کرے اور فلسطینیوں کے حقوق کے حوالے سے آج تک منظور کی گئی تمام قراردادوں پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے۔ جوہری اسلحے سے پاک مشرق وسطیٰ شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے اپنی تقریرمیں مشرق وسطیٰ میں جوہر ہتھیاروں کے حصول کی کوششوں کی کھل کرمخالفت کرتے ہوئے کہا کہ جوہری اسلحے سے پاک مشرق وسطیٰ کی خطے کی تعمیرو ترقی کا ضامن بن سکتا ہے۔ انہوں نے شام میں صدر بشارالاسد کی فوج کی جانب سے مبینہ طورپر کلورین گیس، کلسٹر اور بیرل بموں کے استعمال کی شدید مذمت کی اور شام کے تنازع کو جنیوا میں ہونے والے پہلے اجلاس کے ایجنڈے کے تحت حل کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ شاہ سلمان نے کہا کہ شام میں بشارالاسد جیسے خون خوار کا کوئی مستقبل نہیں۔ عالمی برادری کو چاہیے کہ وہ شامی عوام کو بشارالاسد کے وحشیانہ مظالم سے نجات دلائیں۔ عرب لیگ کی تشکیل نو کی ضرورت پرزور سعودی فرمانروا نے عرب ممالک کو درپیش چیلنجز کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے دیگر مسائل میں اقتصادی اور معاشی بحران بھی اہم ترین مسئلے ہیں۔ ان مسائل کا حل ہمارے ایجنڈے میں سر فہرست ہونا چاہیے۔ عرب ممالک میں آزاد تجارت کے لیے دی گئی تجاویز پرعمل درآمد کے لیے موثر اقدامات کی ضرورت ہے۔ عرب ممالک کا متحدہ کسٹم کا شعبہ ہونا چاہیے اور اقتصادی شعبے میں ہونے والی ترقی کا سالانہ بنیادوں پر جائزہ لینا جا چاہیے تاکہ ہم مرحلہ وار آگے بڑھ سکیں۔ عرب ممالک کو درپیش سیکیورٹی چیلنجز سے نمٹنے کے لیے متحدہ عرب فوج کی تشکیل سے متعلق دی گئی تجویز سے اتفاق کرتے ہوئے شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے کہاکہ عرب ممالک کے دکھ سکھ سانجے ہیں۔ ہم سب کی منزل ایک ہی ہے۔ بیرونی اشاروں پر کام کرنے کے بجائے ہم اپنی صفوں میں اتحاد پیداکریں اور مل کرآگے بڑھیں۔ انہوں نے عرب لیگ کے ڈھانچے میں تبدیلی کی ضرورت پر بھی زور دیا۔ خیال رہے کہ شاہ سلمان بن عبدالعزیز ہفتے کو علی الصباح عرب لیگ کے سربراہ اجلاس میں شرکت کرنے مصر پہنچے تھے، جہاں مصر کے سابق فوجی سربراہ فیلڈ مارشل عبدالفتاح السیسی نے ان کا استقبال کیا۔ اجلاس میں یمن کے صدر عبد ربہ منصور ھادی سمیت تمام عرب ممالک کے سربراہان اور نمائندہ وفود نے شرکت کی۔

http://qudrat.com.pk/world/29-Mar-2015/55367
 

ابن حلبی

مبتدی
شمولیت
نومبر 23، 2013
پیغامات
38
ری ایکشن اسکور
23
پوائنٹ
19
شرم الشیخ (مانیٹرنگ ڈیسک) سعودی فرمانرواشاہ سلمان بن عبدالعزیز نے مسئلہ فلسطین کے تنازع کے فوری حل کا مطالبہ کردیااور کہاکہ فلسطینیوں کوبھی دیگراقوام کی طرح آزادی کی فضاءمیں زندہ رہنے کا حق حاصل ہے، ایسی فلسطینی ریاست چاہتے ہیں جس میں بیت المقدس کو اس کے دارالحکومت کا درجہ حاصل ہو اورہمارا یہ مطالبہ بے جا نہیں بلکہ عالمی برادری اسے تسلیم کرچکی ہے۔

عرب سربراہ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے خادم الحرمین الشریفین نے کہاکہ خطے کو درپیش دیگر مسائل اور تنازعات کے فوری حل کی ضرورت ہے ،مشرق وسطیٰ میں دیر پا قیام امن کے لیے فلسطینی تنازع کا حل ناگزیر ہے،اب وقت آگیا ہے کہ عالمی برادری مسئلہ فلسطین کے حل کے حوالے سے اپنی ذمہ داریاں پوری کرے،2002ءمیں عرب ممالک کی جانب سے فراہم کردہ روڈ میپ میں بھی اس کی وضاحت کی جا چکی ہے۔

انہوں نے سلامتی کونسل سے مطالبہ کیا کہ وہ عرب روڈ میپ کی روشنی میں فلسطینی عوام کی آزادی کے مطالبے کو تسلیم کرے اور فلسطینیوں کے حقوق کے حوالے سے آج تک منظور کی گئی تمام قراردادوں پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے۔


فلسطین کے لیے محض زبانی جمع خرچ جو یہ حکمران پچھلی کئی دہائیوں سے کر رہے ہیں
یہی وجہ ہے کہ اب اسرائیل ان بیانات کو اتنی ہی اہمیت دیتا ہے جتنا ایک شخص ناک پر بیٹھی مکھی کو دیتا ہے
اور جب خطے میں کفار کے مفادات کا تحفظ کرنا ہو تو اس کے لیے میزائل، طیارے، ہیلی کاپڑ، تیل کی دولت سب حاضر ہے
 

Dua

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 30، 2013
پیغامات
2,579
ری ایکشن اسکور
4,440
پوائنٹ
463
و علیکم السلام و رحمۃ اللہ وبرکاتہ !
جی یہ جنگ حرمین شریفین کی حفاظت میں موثر کردار ادا کرے گی ، اور اگر یہ جنگ کسی کے ذاتی یا سیاسی مفاد کی ہوتی تو ایک دو ملک تو متحد ہوسکتے تھے ، لیکن اکثر نمایاں اسلامی ممالک کا اس میں اتحاد اسی بنیاد پر ہے کہ اس میں ’’ اسلام اور اہل اسلام ‘‘ کا فائدہ ہے ۔
اور پھر یہ بھی سوچنا ہے کہ ’’ حرمین شریفین ‘‘ کی حفاظت سے ہماری کیا مراد ہے ۔؟ کیا جب کوئی مکہ مکرمہ یا مدینہ منورہ پر چڑھائی شروع کردے گا ، اسی وقت ہم دفاع کے لیے اٹھیں گے ۔؟ کیا ایسے ملک کی حفاظت و حمایت کرنا ،حرمین شریفین جس کا حصہ ہے ، حرمین کی حفاظت نہیں سمجھنا چاہیے ۔؟
پھر آپ دوسری طرف بات کرلیں : مان لیا یہ حکمرانوں کے ذاتی اور سیاسی مفاد ہیں ، لیکن وہ ذاتی مفاد کیا ہے ۔؟ آل سعود کا ذاتی مفاد کہ ان کا تختہ حکومت برقرار ہے ۔ یہی نا ۔؟
تو اس میں غلط چیز تو کچھ بھی نہیں ، حرمین کے اندر جو امن و سکون ، سہولتیں اور احتیں تمام عالم اسلام جن سے مستفید ہورہا ہے ، یہ اللہ کے بعد انہیں آل سعود کی اسلام دوستی کا نتیجہ ہے ۔
پھر تمام چیزوں کو ایک طرف کردیں ، پاکستان جب بھی مشکل میں ہوتا ہے ، سعودی عرب بڑھ چڑھ کر اس کا ساتھ دیتا ہے ، آج اگر سعودی عرب کو پاکستان کی ضرورت پڑی ہے تو ’’ احسان کا بدلہ احسان ‘‘ ہونا چاہیے ۔
آپ کی رائے احترام کرتی ہوں۔اللہ تعالی اپنے گھر کی حفاظت کرنے والا ہے، ہم تو کچھ بھی نہیں اس کی مدد کے آگے۔ کیا اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ے نہیں فرمایا کہ دجال ان دو شہروں میں نہیں آ سکے گا اور ان کی حفاظت پر فرشتے مقرر ہیں ، حالانکہ دجال سے بڑا فتنہ (الا شرک خفی ) کے کوئی نہیں !!!پاکستان کی مشکلات میں سعودی عرب کی مدد عوام الناس تک پہنچتی ہی نہیں ، حکومتیں ہی انھیں استعمال کر لیتی ہیں ، اور سعودی گورنمنٹ بھی یہی چاہتی ہے ، ورنہ جب پاکستان میں سیلاب آیا تھا ، تب سعودی عرب نے امداد فوجیوں کو دی تھی ، حکومت وقت تو دیکھتی رہ گئی تھی۔ان کے پاس کمانڈ ہی ایسی ہے کہ حرمین شریفین کے نام پر دنیا کے آخری کونے کا مسلمان بھی جان دینے کو تیار ہو جائے گا۔لیکن ہم نہیں جانتے کہ ان کی پالیسیز کیا ہیں۔لوگ تو ڈر رہے ہیں کہ ایران بھی سختی میں آیا تو جلد از جلد پاکستانیوں کو یمن کی طرح وہاں سے بھی خروج کرنا ہو گا ، اور ہمسایہ ملک پاکستان ہونے کے سبب خدشات ہیں کہ حالات پاکستان میں بھی بگاڑ دئیے جائیں۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
آپ کی رائے احترام کرتی ہوں۔اللہ تعالی اپنے گھر کی حفاظت کرنے والا ہے، ہم تو کچھ بھی نہیں اس کی مدد کے آگے۔ کیا اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ے نہیں فرمایا کہ دجال ان دو شہروں میں نہیں آ سکے گا اور ان کی حفاظت پر فرشتے مقرر ہیں ، حالانکہ دجال سے بڑا فتنہ (الا شرک خفی ) کے کوئی نہیں !!!پاکستان کی مشکلات میں سعودی عرب کی مدد عوام الناس تک پہنچتی ہی نہیں ، حکومتیں ہی انھیں استعمال کر لیتی ہیں ، اور سعودی گورنمنٹ بھی یہی چاہتی ہے ، ورنہ جب پاکستان میں سیلاب آیا تھا ، تب سعودی عرب نے امداد فوجیوں کو دی تھی ، حکومت وقت تو دیکھتی رہ گئی تھی۔ان کے پاس کمانڈ ہی ایسی ہے کہ حرمین شریفین کے نام پر دنیا کے آخری کونے کا مسلمان بھی جان دینے کو تیار ہو جائے گا۔لیکن ہم نہیں جانتے کہ ان کی پالیسیز کیا ہیں۔لوگ تو ڈر رہے ہیں کہ ایران بھی سختی میں آیا تو جلد از جلد پاکستانیوں کو یمن کی طرح وہاں سے بھی خروج کرنا ہو گا ، اور ہمسایہ ملک پاکستان ہونے کے سبب خدشات ہیں کہ حالات پاکستان میں بھی بگاڑ دئیے جائیں۔
دجال کے بارے پیشین گوئی موجود ہے ، اور یہ بھی مذکور ہے کہ یمن کا ایک چھوٹی پنڈلیوں والا شخص کعبے کی اینٹ سے اینٹ بجادے گا ۔ لیکن یہاں ان باتوں کا ذکر کرنے کا کوئی محل نہیں ۔
سعودی عرب کی مدد عوام الناس تک پہنچتی نہیں ، تو نہ پہنچے ، اس کا جوابدہ اس کرپشن کے ذمہ دار ہیں ، لیکن سعودیہ سے ہمارا بلکہ ہر سچے مسلمان کا تعلق صرف ’’ دنیاوی مال و اسباب ‘‘ کی بنیاد پر نہیں ۔
آپ کو اگر کوئی سیکیورٹی مسائل نہیں ہیں ،تو کھل کر بیان کردیں کہ کن مفادات کو پورا کرنے کے لیے حرمین شریفین کی عزت و حرمت کا لیبل لگا کر ، مسلمانوں کو دھوکہ دیا جارہا ہے ۔
باقی پاکستان کے حالات بگڑنے کی بات آج کل وہ لوگ کر رہے ہیں جو سات سمندر پار سے غیروں کو بلا کر پاکستان میں تخریب کاری یا کرواتے ہیں یا اس پر تالیا ں بجانے والے ہیں ، یا کچھ معصوم ذہنیت رکھنے والے لوگ ہیں ، جو ان باتوں کو ان کی تقلید میں دہرا رہے ہیں ۔
 
Last edited:

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
فلسطین کے لیے محض زبانی جمع خرچ جو یہ حکمران پچھلی کئی دہائیوں سے کر رہے ہیں
چلیں حکمران تو زبانی جمع خرچ کر رہے ہیں ، کچھ ایسے لوگون کے بھی نام بتائیں ، جنہوں نے مسجد اقصی کے اردگر یہودیوں کا حصار توڑ کر نعرہ تکبیر بلند کیا ہے ؟
یہی وجہ ہے کہ اب اسرائیل ان بیانات کو اتنی ہی اہمیت دیتا ہے جتنا ایک شخص ناک پر بیٹھی مکھی کو دیتا ہے
ہر آدمی کی اپنی سوچ ، حکمت عملی ، اور ترجیحات ہوتی ہیں ، سعودیہ کی حکومت سنبھالے ، شاہ سلمان کو ابھی دو مہینے کی قلیل مدت ہوئی ہے کہ اسلام دشمن طاقتوں پر دھاوا بولا جا چکا ہے ، ایسے حالات میں مایوسی پھیلانے کی بجائے ، پرامید رہنا چاہیے کہ جلد ہمیں ایسی خبریں سننے اور حالات دیکھنے کو ملیں گے ، جن سے اہل اسلام کی روح کو مزید ٹھنڈک پہنچے گی ۔ واللہ اعلم ۔
اور جب خطے میں کفار کے مفادات کا تحفظ کرنا ہو تو اس کے لیے میزائل، طیارے، ہیلی کاپڑ، تیل کی دولت سب حاضر ہے
مثلا اب یمن پر حالیہ حملے میں کن کن کافروں کے کون کون سے مفادات ہیں ۔؟
 
شمولیت
دسمبر 10، 2013
پیغامات
386
ری ایکشن اسکور
136
پوائنٹ
91
السلام علیکم
سعودی عرب کی اتنا جلدی کاروائی کے پیچھے بہت ہی لمبی داستان ہے میں کوشش کرکہ مختصر عرض کرتا ہوں ، 1948میں جب اسرائیل بنا تب سے ہی اسرائیل اور عرب ممالک کے درمیان کشمکش شروع ہوگئی ، عرب ممالک نے سمجھ لیا کہ بہت جہاز اور فوج بھیجنے سے اسرائیل کو شکست دے دیں گے اور روس کی مدد کا بھی انتظار رہا لیکن دو بڑی جنگیں لڑنے کے باوجود کامیاب نہیں ہوئے 1971 سے 1978 تک اسلامی دنیا اور اسرائیل کی کشمکش جاری رہی اور یہی وہ دور تھا جب امریکی اور اسرائیلی تھنکرز نے معاملات کو بدلنے کا فیصلہ کیا ، شاہ فیصل کو ختم کرنا ، جمال ناصر کا خاتمہ ، بھٹو کا پاکستان سے خاتمہ اور کرنل قذافی پر مسلسل بمباری کرنا یہ سب اس پلان کا حصہ تھا لیکن پھر حالات کچھ نہیں بدلے تو ایک نیا تجربہ کیا گیا اور اس دفعہ ایران کے یہود کو میدان میں اتارا گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ ایران جو سعودی کا اسرائیل کے خلاف اتحادی تھا دشمن بن گیا ۔ خمینی کو فرانس سے امپورٹ کیا گیا ، اور اس کی بھرپور مدد کی گئی اور ایران میں ایک خالص شیعہ حکومت قائم کی گئی خمینی نے آتے ہی سعودیہ اور پاکستان کو چھڑنا شروع کردیا ، سر عام خمینی نے کہا اب حرمین میں جنگ ہوگی ۔اس کا جوب پاکستان میں سپاہ صحابہ کے نام سے دیا گیا جب کہ 1980 کی دہائی میں ایرانی حاجیوں کی حرمین میں شرانگیزیاں اور عوام کی ہلاکتوں کے بعد سعودیہ بلکہ پوری موجودہ عرب اتحاد نے اپنا دہیان اسرائیل کے بجائے ایران کی طرف پھیر دیا اب عرب اتحاد کے مملک دونوں اطراف سے گھیرے میں تھے۔ فلسطینی مجاہدین کو امریکا اور دوسری دنیا اسانی سے دہشتگرد کہ دیتے ہے جبکہ حزب اللہ اور ایرانی تنطیموں کو دہشت گرد نہیں کہا جاتا یہ سب اس پلان کا حصہ ہے اس ساری صورتحال میں سعودیہ کے حکمرانوں نے پاکستان کی بھرپور مالی مدد کی اس کا سبب یہی تھا پاکستان کو ایک طاقت بننے میں مدد کی جائے سعودیہ والے پاکستان کے بم کو اپنا بم سمجھتے ہیں او رپاکستانیوں کو اپنا بھائی سمجھتے ہیں ، اس ساری کھیل میں سعودیہ سے دو بڑی غلطیان ہوئیں ایک صدام کی مخالفت اور اس کا خاتمہ آسانی سے کرنے دینا اور دوسری قذافی کی مخالفت و خاتمے مین حصہ دار بننا ، صدام جیسا بھی تھا لیکن عراق مین سعودیہ کے لئے ہی مضبوط دیوار اور یہی معاملہ قذافی کا تھا ۔۔۔ اب اس سب کا انجام سعودیہ کے حکمران دیکھ چکے کہ ایران اتنا بے لغام ہوگیا ہے کہ ہر عرب ملک میں مداخلت کر رہا ہے اس ساری صورتحال میں عرب ممالک خاطر خواہ مدد نہین کرسکتے بس ایک ہی ملک ہے جس پر سعودیہ والوں کو یقین ہے وہ ہے پاکستان ، اب کیا پاکستان کو اس صورتحال میں خود کو الگ رکھنا چاہئے ۔۔۔
ہر گز نہیں ورنہ سعودیہ جیسے بھائی کو گوانے سے پاکستان تو پھر اور آسان شکار ہے۔۔
 

مون لائیٹ آفریدی

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 30، 2011
پیغامات
640
ری ایکشن اسکور
409
پوائنٹ
127
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ إِنَّمَا الْمُشْرِكُونَ نَجَسٌ فَلاَ يَقْرَبُواْ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِهِمْ ھذَا. ( التوبہ:28 ) ’اے ایمان والو ! مشرک نرے ناپاک ہیں، تو اس سال (سن 9 ھ) کے بعد وہ مسجد حرام کے پاس نہ آنے پائیں‘‘۔
 
Top