idhar udhar mat bhagiye ahadis ko maniye ya inkar-e-hadis bn jaiye.
اگر ہم رواہ الحدیث پر لکھی گئی کتابوں کی اوراق گردانی کریں تو ان کتابوں میں ہمیں عراقی راویوں کا جم غفیر ملے گا جنہوں نے اپنی طرف سے روایات بنانے اور پھر ان کو لوگوں میں پھیلانے میں مؤثر کردار ادا کیا ہے ثبوت دعوٰی کے لئے قارئیں کرام کے سامنے ان کذابین کی ہلکی سی فہرست پیش خدمت ہے جنہیں عراقی ہونے کا شرف حاصل ہے۔۔۔
واؤد بن زبرقان، بن سفیان، داؤد بن یزید، جابر کعفی، کلبی، سدی، داؤد بصری، ابوسمع، براء بن سفیان، سعد بن عمر، حسن بن زیادلولوی، اباہ بن جعفر، ابراہیم بن اسماعیل، ابراہیم بن عبدالواحد، زیاد بن میمون، زیاد بن ابی زیاد، احمد بن عبداللہ الکندی، ابوعمر وزیاد، ابو داؤد نخعی، اسحاق بن تجیح، وہب بن وہب، محمد بن القاسم، اور محمد بن زیادہ وغیرھم۔۔۔(میزان الاعتدال ولسان المیزان)۔۔۔
شیعہ اور روافض۔۔۔
اسلام میں وضع حدیث کی ابتدائ سبائیوں نے کی تھی بعد میں یہ ہی لوگ شیعہ کے نام سے مستقل مذہبی طائفہ کی صورت اختیار کرگئے اب انہوں نے جو کچھ کیا وہ سیاست کی بجائے مذہب کے نام سے کیا حب آل بیت کا نعرہ پہلے ہی لگارہے تھے اب اس کے ساتھ خلافت، امامت، اور وارثت کا بھی اضافہ کرلیا عام مسلمانوں کی مخالفت سے بچنے کے لئے تقیہ جیسے مفروضہ کو مذہب کا حصہ بنایا جس کے ذریعے ہر قسم کے جھوٹ کو جائز قرار دیا پس پھر کیا تھا!۔ انہوں نے مطلب براری اور مشن کی تکمیل کے لئے موضوع روایات کے انبار لگادیئے جو اسلام اور مسلمانوں کے لئے نہایت خطرناک ثابت ہوئیں مگر جلد ہی محدثین کرام اور آئمہ عظام ان کی ایسی حرکات سے واقف ہوگئے انہوں نے کمال جرآت کے ساتھ شیعوں کے اس گھناؤنے اور اسلام شکن کردار سے پردہ اٹھایا اور واضح ح کیا کے اس طائفہ سے تعلق رکھے والے اکثر روای قابل اعتماد نہیں ہیں اور ان میں جو غلو پسند ہیں وہ ہر اعتبار سے اسلام دشمن ناقابل حجت ہیں اور ان کی روایت کردہ احادیث، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث نہیں بلکہ جھوٹ کا پلندا ہیں جو قابل تسلیم کی بجائے نامقبول اور ردی کی ٹوکری میں پھینکے کے لائق ہیں
امام مالک نے ان کے بارے میں بڑا جامع تجزیہ یہ کیا ہے فرماتے ہیں۔۔۔
لاتکلمھم ولا تروعنھم یکذبون
تم اس سے نہ کلام کرو اور نہ ان سے روایت لو بلاشبہ یہ جھوٹ بولتے ہیں (میزان الاعتدال صفحہ ١٥ جلد ١)۔۔۔
امام شافعی عراق کئی دفعہ تشریف لے گئے جس وجہ سے انہوں نے اس طائفہ کا قریب سے مطالعہ کیا اور وہ اس نتیجے پر پہنچے جیسا کے فرماتے ہیں۔۔۔
مارایت فی اھل الاھواء قوما اشد بالزور من الرافضہ
میں نے رافضیوں سے زیادہ جھوٹا کسی کو نہیں دیکھا۔۔۔(الباعث الحثیت صفحہ ٨٤)۔۔۔
امام شریک رحمہ علیہ جن کی تمام تر زندگی عراق میں گزری وہیں پروان چڑھے اور بالآکر مسند قضا پر براجمان ہوئے قاضی ہونے کے ناطے سے تحقیق وتفتیش ان کی ذمہ داری تھی انہوں نے پوری تحقیق سے یہ معلوم کیا تھا کے یہ لوگ قابل اعتماد نہیں ہیں چنانچہ فرماتے ہیں
احمل العلم عن کل من لقیتہ الا الرافضہ فانھم یضعون الحدیث ویتخذونہ دینا
ہر شخص سے علم حاصل کرو مگر رافضیوں سے نہیں کیونکہ یہ لوگ حدیث وضّ کرکے پھر اس کو دین بنا لیتے ہیں۔۔۔(منہاج السنہ صفحہ ١٦ جلد ١)۔۔۔
بلاشبہ قاضی شریک رحمہ اللہ کا تجزیہ سوفیصد درست ہے ان مذہب کی بنیادی روایات اکثر وضع کے قبیل سے ہیں جو ان کی مذہبی کتابوں کے معالعہ سے معلوم کی جاسکتی ہیں۔۔۔
معروف محدث امام یزید بن ہاروں رحمہ اللہ فرماتے ہیں
یکتب عن کل صاحب بدعہ اذا لم یکن داعیہ الی رافضہ فانھم یکذبون
ہر اسی بدعتی کی روایت لکھ لیا کرو جو بدعت کی طرف دعوت نہ دیتا ہو مگر رافضیوں سے روایت نہ لکھا کرو کیونکہ یہ جھوٹ بولتے ہیں (میزان الاعتدال صفحہ ٢٨ جلد ١)۔۔۔
الامام المحقق العلامہ حافظ ابن القیم تو ان کے بارہ میں اس نتیجہ پر پہنچے تھے جیسا کہ وہ فرماتے ہیں۔۔۔
انھم اکذب خلق اللہ۔
اللہ تعالٰی کی مخلوق میں سے یہ (رافضی) سب سے زیادہ جھوٹ بولتے ہیں (المنار المنیف صفحہ ٥٦)۔۔۔
ان محدثین عظام نے شیعہ اور رافضیوں کے بارہ میں مذکورہ خیالات کا اظہار تعصب اور عناد کی بناء پر نہیں کیا بلکہ انہوں نے ایک چزم دیدگواہ کی طرح ان کے کذب کا مشاہدہ کیا تھا جس کا اعتراف خود ارباب شیعہ نے بھی کیا ہے۔۔۔
امام حماد بن سلمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں مجھے رافضیوں کے ایک شیخ نے بتایا کہ۔۔۔
کانوا یجتمعون علی وضع الاحادیث
وہ حدیث کے وضع پر جمع ہوتے تھے (تدریب الرادی صفحہ ٢٤١ جلد ١)۔۔۔
یعنی یہ ایک یا دو کا معاملہ نہیں تھا بلکہ وضع حدیث کے بارہ میں ان کی سوچ اور کردار اجتماعی ہے۔۔
ابن ابی الحدید کا شمار معتدل اور محقیقین شیعہ میں سے ہے وہ بھی وضع حدیث کا اعتراف کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔۔۔
ان اصل الکذب فی حدیث الفضائل جاء من من جھہ الشعہ
بلاشبہ فضائل کی حدیث میں اصل جھوٹ شیعہ کی طرف سے آیا ہے (تدریب الراوی صفحہ٢٤١)۔۔۔
ویسے تو شیعہ حضرات نے ہر پہلو سے روایات وضع کی ہیں مگر ان کے وضع کا ایک نہایت خطرناک انداز ہے وہ یہ کے یہ کسی ایسے واقعہ کو لیتے ہیں جو لوگوں میں پہلے ہی مشہور ہوتا ہے پھر اس کے ساتھ ایسے کمال طریقہ سے جھوٹ کی آمیزش کرتے ہیں جس سے گمان ہوتا کے واقعہ بالکل درست ہے چنانچہ دور قریب کے معروف محقق علامہ محب الدین الخطیب ان کی اس تلبیسانہ چال کو طشت ازبام کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔۔۔
انھم کانوا یعمدون الی حادثہ وقعت بالفعل فیور دون منھا ما کان یعرفہ الناس ثم یلصقون بھا الصیقا من الکذاب والافک یوھمون انہ اصل الخبر ومن جملہ عناصرہ
رافضی ایک ایسے واقعہ کو لیتے ہیں جو لوگوں میں پہلے سے مشہور ہوتا ہے پھر اس واقعہ کے ساتھ جھوٹ ملا دیتے ہیں جس سے وہم ہوتا ہے کے انہوں نے جو اپنی طرف سے آمیزش کی ہے وہ بھی اصل واقعہ میں سے ہے۔۔۔(حملہ رسالہ الاسلام صفحہ ٣٤)۔۔۔
موصوف کا ان کے بارہ میں تبصرہ بڑا پرمغز ہے جس سے رافضیون کی وضع حدیث کی انداز پر بخوبی روشنی پڑتی ہے
اس کی مثالیں دیکھنی ہوں تو ایسے واقعات جو حدیث کی معروف کتابون میں صحیح سند کے ساتھ موجود ہیں ان کی کتابوں میں سے ملاحظہ کریں تو آپ ان میں بعد المشرقین پائیں گے غدیرخم کا واقعہ ہی لیجئے جس کو انہوں نے ایک لمبی چوڑی داستان بنادیا ہے اسی طرح حضرت حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ کی شہادت کا واقعہ دیکھ لیں اس پر داستان کا رنگ اتنا غالب ہے کے اصل حقیقت پرائی ہو کر رہ گئی ہے۔۔۔
واللہ اعلم۔۔۔