محمد علی جواد
سینئر رکن
- شمولیت
- جولائی 18، 2012
- پیغامات
- 1,986
- ری ایکشن اسکور
- 1,553
- پوائنٹ
- 304
السلام علیکم -پہلی بات حضرت حسن رضی اللہ تعالی عنہ کے حضرت معاویہ سے صلح کر لینے سے یہ بات ثابت نہیں ہو جاتی کہ اہل شام باغی نہیں تھے کیونکہ اگر تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے صلح خوشی سے نہیں کی تھی بلکہ حالات اس طرح کے پیدا کر دیئے گئے تھے کہ یا تو وہ مسلمانوں کو خونریزی کی آگ میں ڈال دیتے ہیں یا اپنی خلافت کی قربانی دے دیتے اور ان کی طبعیت میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا عفو و درگزر موجود تھا جس کی بنا پر انہوں نے صلح کی تھی۔
اس کا مطلب یہ کہ آپ یہ قانون بنانا چاہ رہے ہیں کہ اگر کوئی صحابی غلط کام کرے اور اس کے حمایتیوں میں صحابی رسول موجود ہوں تو اس کا وہ غلط کام ٹھیک ہو جائے گا اس کے لئے تو آپ کو شریعت سے کوئی ثبوت پیش کرنا پڑھے گا ۔۔۔
تیسری بات جو حضرت علی
رضی اللہ تعالی عنہ کے جنگ سے ہاتھ روکنے کے بارے میں کی ہے پہلے تو آپ اس بات کو ثابت کریں کیونکہ تاریخی روایات تو یہ بتاتی ہیں کہ جب شامیوں کی شکست قریب تھی تو انہوں نے شکست سے بچنے کے لئے یہ ڈرامہ کیا کہ قران کو تلواروں پر اٹھا لیا کہ اب ہمارے اور آپ کے درمیان یہ قران حکم ہے تو اس وقت بھی حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنہ فوج کو متنبہ کیا تھا کہ ان کی چالوں میں نہ آو۔
حضرت عثمان رضی الله عنہ کے قاتلوں کو سزا دینے کی ذمہ داری خلیفہ وقت حضرت علی رضی الله عنہ پر تھی یہ درست ہے لیکن کیا ان لوگوں نے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کو خلیفہ وقت مانا تھا ۔ پہلے ان کی بیعت کرتے پھر مطالبہ بھی کر لیتے لیکن ان کا مطمع نظر تو کچھ اور ہی تھا جو کہ بعد میں تاریخ نے ثابت بھی کر دیا۔
کیا آپ کو خلافت کی تعریف آتی ہے کیا سب نے حضرت معاویہ کی بیعت خوشی سے کی تھی یا تلوار سے سر قلم ہونے کے ڈر سے ۔ ویسے بھی خود حضرت معاویہ نے اپنے آپ کو بادشاہ کہا۔
ویسے بھی اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ حضرت معاویہ خلیفہ تھے تو وہ صحیح اور صریح روایات کی نفی کرتا ہے جو خلافت کو 30 سال بعد ختم ہونا بتاتی ہیں ۔
جواب مدلل دیں
آپ کی پہلی بات کا جواب تو محترم یزید حسین صاحب نے دے دیا کہ:الله ان کو جزا خیر دے (آمین)
"ابوبکرہؓ کو بیان کرتے ہوئے سنا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو منبر پر دیکھا اور حضرت حسن بن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ کے پہلو میں تھے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کبھی لوگوں کی طرف متوجہ ہوتے اور کبھی ان کی طرف رخ کرتے اور کہتے کہ میرا یہ بیٹا سردار ہے اور شاید اللہ اس کے ذریعہ مسلمانوں کی دو بڑی جماعتوں کے درمیان صلح کرا دے گا،
اس حدیث مبارکہ سے ثابت ہوا کہ جس طرح سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی جماعت عظیم تھی اس طرح سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی جماعت عظیم تھی اور مسلمانوں کی ان دو عظیم جماعتوں میں سیدنا حسن صلح کو سبب بنے اور رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم کی یہ پیش گوئی پوری ہوگئی
اگر بقول جناب کے حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے یہ صلح خوشی سے نہیں کی تھی تو وہ اس عظیم الشان پیش گوئی کا مصداق نہیں بنتے ؟ لگتا ہے کہ جناب ان دونوں باتوں کے منکر ہیں ؟
جہاں تک صحابہ کرام بشمول حضرت عقیل بن ابی طالب رضی الله عنہ کا حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ کا ساتھ دینے کا تعلق ہے - تو ایک آدھ صحابہ کے بارے میں تو ہم که سکتے ہیں کہ ان سے غلطی ہو گئی -لیکن کیا صحابہ کرام کا ایک جم غفیر حق واضح ہونے اور حضرت امیر معاویہ کے باغی ثابت ہونے کے با وجود حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ کا ساتھ چھوڑنے پر آمادہ نہ ہوا - کیا تمام صحابہ حدیث یاسر رضی الله عنہ کی بارے میں نا بلد تھے ؟؟؟
محترم اگر حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ اور حضرت عائشہ رضی الله عنہ اور اہل شام نے قاتلین حسین کی سزا مطالبہ حضرت علی رضی الله عنہ سے کیا تھا تو اس کا طلب واضح تھا کہ وہ حضرت علی رضی الله انہ کو خلیفہ وقت مانتے تھے - ورنہ وہ خود قاتلین عثمان کو سزا نہ دلوا دیتے؟؟-
کیا صحابہ کرام رضوان الله اجمعین الله سے زیادہ حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ کی تلوار سے ڈرتے تھے کہ موت کے خوف سے ان کی خلافت کی بیت کرلی- یہ تو صحابہ پر ایک بڑا بہتان ہے -
اگر خلافت صرف ٣٠ سال کے لئے تھی -تو حضرت عمر بن عبدلعزیز کی خلافت اور آنے والے امام مہدی رح کی خلافت کے بارے میں اپ کیا کہیں گے ؟؟؟-