جب ملوکیت نے ڈیرے ڈالے تو اس کے اتنے برے نتائج سامنے آئے کہ لوگ حق بات کہنے سے ڈرنے لگے جب کہ خلافت میں ایسا نہیں تھا۔ یہ ملوکیت کا ہی ثمرہ تھا کہ حجر بن عدی رضی اللہ تعالی عنہ جیسے صحابی کو چمڑے کی کھال کے اوپر زبح کردیا گیا۔ حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ تعالی عنہ جیسے صحابی کو حق بات کہنے کی پاداش میں شام سے مدینہ کی طرف جلا وطن کر دیا گیا۔ ان جیسے بیسیوں واقعات کو دیکھتے ہوئے کوئی بھی وقت کے فرعونوں کے خلاف اپنی زبان کھولنے کی جرات نہیں کرتا تھا۔
اس پوسٹ کی آڑ میں سیدنا عثمان بن عفان اور معاویہ بن ابی سفیان پر لعن وطعن اور ان کے خلاف خبث باطن اور بغض کا غلیظ مظاہرہ کیا گیا ہے۔
سیدنا ابو ذر کو سیدنا عثمان کے زمانے میں جلا وطن کیا گیا، جس کی پیش گوئی بھی نبی کریمﷺ نے فرمادی تھی، اس کے باوجود نبی کریمﷺ نے سیدنا عثمان کو جنت کی بشارت دی۔
درج بالا پوسٹ میں سيدنا عثمانِ غنی، ذو النّورین، خلیفۂ ثالث، کائنات کے با حیا ترین شخص، جنہیں زبانِ نبوت سے کئی بار جنّت کی بشارت ملی، اپنے دستِ مبارک کو نبی کریمﷺ نے جن کا ہاتھ قرار دیا جب ان کی طرف سے بیعت فرمائی، جن کا بدلہ لینے کیلئے بیعتِ رضوان ہوئی - رضی اللہ عنہ وارضاہ - کو در پردہ نعوذ باللہ ثم نعوذ باللہ وقت کا
فرعون کو قرار دیا گیا ہے۔
یعنی اسوقت موجود تمام تر صحابہ کرام اور تابعین عظام وتبع تابعین میں سے کوئی بھی "آپکے بقول سلطان جابر " کے سامنے کلمہ حق کہہ کر افضل جہاد کی سکت نہ رکھتا تھا ؟؟؟
یاد رہے اس "کوئی بھی " میں بہت سے اہل بیت بھی شامل ہیں !!!
حتى کہ اولاد علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ بھی !!!!
اولادِ علی ہی نہیں بلکہ سیدنا علی بن ابی طالب بھی بنفس نفیس شامل ہیں۔ ان تقیہ بردار حضرات کے نزدیک تمام صحابہ بشمول سیدنا علی بزدل یا منافق تھے جو علانیہ حق کی بات کہنے کی سکت نہیں رکھتے تھے۔