میں
@یوسف ثانی بھائی کی بات سے متفق ہوں اسے گستاخی نہیں کہا جا سکتا۔ زبان کے استعمال میں - غیر ارادی طور پر - احتیاط نہیں کی گئی، جو ایک نہایت غیر مناسب بات ہے۔ ایسی شخصیات کے معاملے میں تو بہت زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے جن کی براءت اور مغفرت کی گواہی اللہ رب العٰلمین عرشِ عظیم سے نازل فرماتے ہیں۔
یہ بات بھی سمجھ میں نہیں آئی کہ یہاں نبی پاکﷺ کی کیا گستاخی کی گئی ہے؟؟؟ جنید جمشید صاحب پر گستاخی کی ویڈیو بنانے والوں کا اپنا انداز بہت نامناسب اور فرقہ وارانہ ہے۔ ان لوگوں کا معاملہ یہ ہے کہ خود نبی کریمﷺ کے احکامات اور سنتوں کی کثرت سے مخالفت کرکے گستاخی کا ارتکاب کرتے ہیں لیکن مخالف مسالک والوں کو اپنی عددی کثرت کی بناء پر بلاوجہ گستاخِ رسول باور کراتے ہیں۔ (الا ما شاء ربی!) کیا امہات المؤمنین اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پر سب وشتم کرنے والے شیعہ حضرات کا سب سے بڑا حمایتی اور تائیدی یہی گروہ نہیں ہے؟؟؟
میں سمجھتا ہوں کہ ہمارا یہ نا مناسب انداز ہمیں فائدہ پہنچانے کی بجائے بہت نقصان پہنچا سکتا ہے۔ کسی بھی مختلف مسلک یا مذہب والے کو بلاوجہ گستاخ باور کراکر ہم اپنے پیارے نبی کریمﷺ سے محبت کا ثبوت نہیں دے رہے۔ بلکہ ممکن ہے ہمارے ان رویوں کی بنا پر ہمارے ہاں موجود قانون توہین رسالت ہی ختم کر دیا جائے۔ پورا مغرب اور سیکولر طبقہ اس قانون کا شدت سے مخالف ہے اور مجھے دھڑکا لگا رہتا ہے کہ اگر ہم نے ان معاملات میں احتیاط نہ کی تو اللہ نہ کرے کہ ہماری وجہ سے یہ قانون ختم کر دیا جائے۔
گستاخِ رسول کی سزا موت ہے۔ لیکن پہلے گستاخی صراحت سے ثابت ہونی چاہئے۔ اگر گستاخی ثابت نہ ہو تو پھر صرف مشتبہ باتوں سے بلاوجہ کسی کو گستاخ بنانے والے کیلئے بھی سزا ہونی چاہئے تاکہ لوگ صرف اپنی ذاتی دشمنیاں، مخالفتیں اور تعصّبات نکالنے کیلئے اسے استعمال نہ کر سکیں۔
جنید جمشید صاحب نے جس طرح شرمناک ماضی کو الوداع کہا اور نیکی کی راغب ہوئے یہ بات قابل صد تحسین ہے لیکن انہیں اور ہم سب داعی حضرات کو ایک چیز کی بہت احتیاط کرنا چاہئے اور وہ ہے کہ لا علمی میں کوئی بات کہنا، اپنی بات کی تائید میں ضعیف وموضوع روایات پیش کرنا۔ یہ بہت بڑا گناہ ہے اور اللہ ورسول پر افتراء کے مترداف ہے جو بہت بڑا ظلم ہے۔
اللہ تعالیٰ ہماری اصلاح فرمائیں!