مجھے در اصل پہلی پوسٹ میں دئیے لنک میں موجود ویڈیو پر شدید اعتراض ہے:
جس کا انداز بہت جذباتی، فرقہ وارانہ اور عوام کو ورغلانے والا ہے کہ لوگ معاملے کی گہرائی میں جائے بغیر، غور کیے بغیر آؤ دیکھا نہ تاؤ اگلے شخص کو گستاخ سمجھ کر اس کی تکا بوٹی کر ڈالیں ۔۔۔ ایسے معاملات کو جذباتی انداز سے تحقیق وتجزیہ کیے بغیر حل کرنا نقصان کا باعث ہوتا ہے۔ فرمانِ باری ہے:
﴿ وَإِذا جاءَهُم أَمرٌ مِنَ الأَمنِ أَوِ الخَوفِ أَذاعوا بِهِ ۖ وَلَو رَدّوهُ إِلَى الرَّسولِ وَإِلىٰ أُولِى الأَمرِ مِنهُم لَعَلِمَهُ الَّذينَ يَستَنبِطونَهُ مِنهُم ۗوَلَولا فَضلُ اللَّـهِ عَلَيكُم وَرَحمَتُهُ لَاتَّبَعتُمُ الشَّيطـٰنَ إِلّا قَليلًا ٨٣ ﴾
جہاں انہیں کوئی خبر امن کی یا خوف کی ملی انہوں نے اسے مشہور کرنا شروع کر دیا، حالانکہ اگر یہ لوگ اسے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کے اور اپنے میں سے ایسی باتوں کی تہہ تک پہنچنے والوں کے حوالے کر دیتے، تو اس کی حقیقت وه لوگ معلوم کر لیتے جو نتیجہ اخذ کرتے ہیں اور اگر اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی رحمت تم پر نہ ہوتی تو معدودے چند کے علاوه تم سب شیطان کے پیروکار بن جاتے (
83)
﴿ يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا إِن جاءَكُم فاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنوا أَن تُصيبوا قَومًا بِجَهـٰلَةٍ فَتُصبِحوا عَلىٰ ما فَعَلتُم نـٰدِمينَ ٦ ﴾
اے مسلمانو! اگر تمہیں کوئی فاسق خبر دے تو تم اس کی اچھی طرح تحقیق کر لیا کرو ایسا نہ ہو کہ نادانی میں کسی قوم کو ایذا پہنچا دو پھر اپنے کیے پر پشیمانی اٹھاؤ (
6)
جس حدیث مبارکہ کو بیان کرتے ہوئے جنید جمشید صاحب کا انداز غیر محتاط ہوا اور ان پر گستاخی کا الزام لگایا جا رہا ہے اور غور کیا جائے تو اسی حدیث مبارکہ، اسی فرمانِ نبوی ﷺ کو یہی گستاخی کا الزام لگانے والے لوگ نہیں مانتے۔ حدیث مبارکہ کے الفاظ یہ ہیں:
عن عائشةَ رَضِيَ اللهُ عنها، قالت : رجع إليَّ رسولُ اللهِ - صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّم - ذاتَ يومٍ من جَنازةٍ من البَقِيعِ، فوجدني وأنا أَجِدُ صُدَاعًا، وأن أقولَ : وارَأْساهُ ! قال : بل أنا يا عائشةُ ! وارَأْساهُ، قال : وما ضَرَّكِ لو مِتِّ قَبْلِي، فغَسَّلْتُكِ وكَفَّنْتُكِ، وصَلَّيْتُ عليكِ ودَفَنْتُكِ ؟ !، قلتُ : لكأني بكَ - واللهِ - لو فَعَلْتَ ذلك ؛ لَرَجَعْتَ إلى بيتي فعَرَّسْتَ فيه ببعضِ نسائِك ! فتبسم رسولُ اللهِ - صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّم -، ثم بُدِئَ في وجَعِهِ الذي مات فيه .
سیدنا عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی کریمﷺ ایک دن بقیع سے جنازہ سے واپس آئے تو مجھے اس حال میں پایا کہ میرے سر میں درد ہو رہا تھا اور میں کہہ رہی تھی: ہائے میرا سر! نبی کریمﷺ نے فرمایا: بلکہ اے عائشہ میں! (مجھے بھی درد ہو رہی ہے) ہائے میرا سر! پھر فرمایا: (اے عائشہ!) تمہیں کیا نقصان ہے؟ اگر تم مجھ سے پہلے مر گئی
تو میں خود تمہیں غسل دوں گا، کفن پہناؤں گا اور تمہاری نماز (جنازہ) پڑھوں گا (جس کی برکت سے تمہاری بخشش ہو جائے گی) ۔۔۔ الحدیث
اس صحیح حدیث مبارکہ سے صراحت سے ثابت ہوتا ہے کہ شوہر بیوی کو غسل دے سکتا ہے، کفن پہنا سکتا ہے۔ مرنے کے ساتھ ہی میاں بیوی ایک دوسرے کیلئے اجنبی نہیں ہو جاتے۔
لیکن ان اعتراض کرنے والوں، گستاخی کا الزام لگانے والوں کے نزدیک شوہر بیوی کو غسل نہیں دے سکتا، کفن نہیں پہنا سکتا۔ کیا اس بات کو بنیاد بنا کر ان لوگوں پر بھی گستاخی کا الزام لگا دیا جائے اور کیس کر دیا جائے۔ نہیں! بلکہ ہم یہی کہیں گے کہ یہ تاویل کا اجتہادی اختلاف ہے جس کا فیصلہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ فرمائیں گے۔
کتنی عجیب بات ہے کہ کسی کے انداز وگفتگو میں ذرا سی بے احتیاطی تو گستاخی بن جائے لیکن اگر خود پوری حدیث مبارکہ کو ہی نہ مانیں پھر بھی سب سے بڑے ’عاشق رسول‘ یہی ہیں!!!
سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی طرف منسوب ہے کہ انہوں نے بنی اسرائیل کے متعلق فرمایا تھا: تم اونٹ سموچا نگل جاتے ہو مگرمچھر پر دلیلیں تلاش کرتے ہو۔
اللہ تعالیٰ ہماری اصلاح فرمائیں!