• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا یہ کہنا درست ہے کہ "میں اللہ کو حاضر ناضر جان کر قسم اٹھاتا ہوں" ؟

تلاش حق

مبتدی
شمولیت
اپریل 12، 2011
پیغامات
32
ری ایکشن اسکور
143
پوائنٹ
0
محترم !
یہاں آپ سے صرف " دلیل " مانگی ہے یہ کہہ کر کہ اللہ رب العالمین ہاں " وحی الہی " کے سوال اور کچھ بھی دلیل نہیں ہے ۔!!
میرے خیال میں اتنی بات تو مان لی گئی ہے کہ سلف صالحین صفت ِ معیت سے مراد معیت ِ علم اور معیت ِ نصرت لیتے تھے اور ان میں شیخ الاسلام ابنِ تیمیہ رحمہ اللہ بھی ہیں ، نیز یہ بات بھی ثابت نہیں کی جا سکی کہ سلف صالحین معیت سے علم و نصرت کے علاوہ کوئی الگ صفت مراد لیتے ہوں۔ ابو الحسن علوی صاحب کا خیال یہ تھا کہ سلف صالحین معیت کو ایک الگ صفت مانتے تھے۔
رہی بات وحی الٰہی سے دلیل کی تو اگر کوئی یہ کہہ دے کہ اللہ تعالیٰ کی صفت ِ معیت کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ مختلط ہے۔ یوں اللہ تعالیٰ عرش پر بھی ہے اور ہمارے ساتھ مختلط بھی ہے جیسے اس کی شان کو لائق ہے۔۔۔۔۔ تو اس کے خلاف آپ وحی الٰہی میں سے کون سی آیت یا حدیث پیش کریں گے ؟ یا تسلیم کر لیں گے ؟
ہم جو کہہ رہے ہیں کہ معیت ِ الٰہی کا مطلب معیت ِ علم اور معیت ِ نصرت ہے تو اس پر سلف صالحین کا اجماع ہے۔ کسی سلف سے اس کے خلاف کوئی بات ثابت نہیں۔ اگر ہے تو پیش کی جائے۔ اجماع کی حجیت پر سلف صالحین کا اجماع رہا ہے۔اس پر تو میرے خیال میں دلائل پیش کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔
اگر اب بھی بات سمجھ میں نہیں آئی تو برائے مہربانی یہ بتا دیں کہ نماز شروع کرتے وقت ہاتھوں کی ہتھیلیاں کس رُخ ہونی چاہئیں ؟ برائے مہربانی وحی الٰہی سے کوئی دلیل پیش کر دیں۔اِدھر اُدھر کی کوئی بات قبول نہیں ہو گی۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
1۔ویسے تاویل کا یہ لازمی تقاضا ہوتا ہے کہ تاویل کی صورت میں انسان تاویل در تاویل کے چکر میں الجھ جاتا ہے جبکہ حقیقت مراد لیتے ہوئے یہ مسئلہ نہیں ہوتا ہے ۔کلام میں اصل حقیقت ہے اور تاویل ومجاز کے لیے دلیل چاہیے۔پس جو لوگ صفت معیت میں تاویل کرتے ہیں، ان کے یہ ذمہ ہے کہ کتاب وسنت سے اس تاویل یا مجاز کی دلیل پیش کریں۔
2۔ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ سلف صالحین کی ’وھو معکم اینما کنتم‘سے مراد ’وھو علمکم اینما کنتم‘ ہے تو یہ سلف صالحین پر بہتان عظیم ہے اور عقل ومنطق میں اس تقدیر عبارت کی کوئی دلیل نہیں ہے بلکہ اس سے کفر وشرک لازم آتا ہے۔ ہاں! اگر کوئی شخص یہ کہے کہ سلف صالحین نے ’وھو معکم اینما کنتم‘ سے مراد ’وھو معکم بعلمہ اینما کنتم‘ لی ہے تو یہ بات درست ہے ۔ پس سلف صالحین صفت معیت کا انکار نہیں کرتے بلکہ معیت کی تشریح علم کے ساتھ کرتے ہیں یعنی سلف صالحین کے نزدیک’ معیت‘ سے مراد ’علم‘ نہیں بلکہ ’معیت علمی‘ ہے۔
3۔اس دوسرے نکتے کی روشنی میں ذرا تیسرا نکتہ ملاحظہ فرمائیں ۔ہمارے بھائی ذرا اس بات کی طرف توجہ دیں کہ کیا اللہ کی صفت علم کو اس کی ذات سے علیحدہ کیا جا سکتا ہے؟ یعنی بفرض محال مان لیا کہ اللہ کی معیت سے مراد اس کی’معیت علمی‘نہ کہ ’معیت ذاتی‘تو سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ کیا اللہ کا ’علم‘اس کی ذات سے علیحدہ ہوتے ہمارے ساتھ ہے یا اس کی ذات کے ساتھ ہوتے ہوئے ہمارے ساتھ ہے؟بس اس کا جواب دے دیں تو مسئلہ ان شاء اللہ بہت سوں پر واضح ہو جائے گا۔
پس کسی ذات کے علاوہ مجرد علم کی معیت کا کوئی تصور بھی عقل ومنطق میں ممکن ہے؟
4۔ علم ، صفات لازمہ میں ہے یعنی یہ ایک ایسی صفت ہے جو ذات کے لیے لازم ہے بغیر ذات کے علم کا کوئی تصور ہی ممکن نہیں ہے۔ پس علم کی معیت سے مراد بھی’علم مع ذات‘ کی معیت ہوسکتی ہے نہ کہ مجر د علم کی معیت ۔ فافھم وتدبر !
5۔برائے مہربانی ،اس مسئلہ میں اجماع کے دعووں میں ذرا بریکوں پر پاوں رکھیں۔ اس اجماع کی حقیقت اس اجماع سے مختلف نہیں ہے ، جو حنفیہ طلاق ثلاثہ میں ثابت کرتے ہیں۔ہمارے ہاں سلف صالحین اجماع کا لفظ ’اتفاق‘ کے معنی میں بھی نقل کر دیتے ہیں۔ امام ابن حزم رحمہ اللہ جیسے جلیل القدر امام نے ’الاجماع‘ کے نام سے کتاب لکھی اور بہت سے مسائل میں اجماع کا دعوی کیا تو امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے بیسیوں مسائل میں کہ جن میں امام ابن حزم رحمہ اللہ نے اجما ع کا دعوی کیا تھا، اسے غلط ثابت کیا ۔سلف صالحین کی اکثر عبارتوں میں اجماع سے مراد اجماع اصولی نہیں ہوتا بلکہ لغوی اجماع بمعنی اتفاق مراد ہوتا ہے ۔
6۔ اجماع اصولی کی تعریف وشرائط بیان کر کےکوئی بھائی اس مسئلہ میں ذرا اجماع ثابت کریں ۔کیا کسی صاحب علم کے لکھ دینے کہ فلاں مسئلہ میں اجماع ہے، اجماع ہوجاتا ہے؟اجماع کا وقوع اتنا آسان نہیں ہے کہ جتنی آسانی سے اس کا دعوی کر دیا جاتا ہے ۔ اس لیے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا یہ قول معروف ہو گیا کہ ’ من ادعی الاجماع فھو کاذب‘
امر واقعہ یہ ہے کہ لوگوں نے اجماع کو مذاق بنا لیا ہے۔ کوئی بھائی اس مسئلہ میں ہر صحابی ، تابعی، تبع تابعی ،عالم دین ، محدث اور فقیہ کی صریح رائے نکال کر دکھائیں۔ اگر نہیں تو یہ اجماع نہیں ہے۔ اور یہ تو اہل علم پر واضح ہی ہے کہ اجماع سکوتی کوئی اجماع نہیں ہوتا بلکہ اجماع ، اجماع صریح ہی ہے۔
رہی بات وحی الٰہی سے دلیل کی تو اگر کوئی یہ کہہ دے کہ اللہ تعالیٰ کی صفت ِ معیت کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ مختلط ہے۔ یوں اللہ تعالیٰ عرش پر بھی ہے اور ہمارے ساتھ مختلط بھی ہے جیسے اس کی شان کو لائق ہے۔۔۔۔۔ تو اس کے خلاف آپ وحی الٰہی میں سے کون سی آیت یا حدیث پیش کریں گے ؟ یا تسلیم کر لیں گے ؟
انتہائی سادہ سوال ہے، بھئی ایسے شخص کو ہم صفت فوقیت والے سارے دلائل بیان کریں گے۔صفت فوقیت اللہ کے اختلاط میں مانع ہے۔ جو دائیں ، بائیں، آگے، پیچھے یا نیچے ہواسے اوپر نہیں کہتے اور جو اوپر ہوتا ہے ، وہ دائیں، بائیں، آگے، پیچھے اور نیچے نہیں ہوتا ہے۔ فافھموا تدبروا۔
8- ہمارے نزدیک صفت فوقیت اور صفیت معیت میں تضاد نہیں ہے۔ یعنی صفت معیت مع فوقیت ہے یا دوسرے الفاظ میں یہ معیت اوپر سے ہے۔ہم صفت معیت اور فوقیت دونوں میں سے کسی میں بھی تاویل کے قائل نہیں ہیں اور دونوں کو حقیقت پر محمول کرتے ہیں اور اختلاط والی معیت کا انکارعقل کی روشنی میں نہیں بلکہ صفت فوقیت کی نصوص کی وجہ سے کرتے ہیں۔
9۔محترم سلف صالحین خود اصول بنا کر خود ہی اس کی مخالفت کر رہے ہیں !!
یہ بات انتہائی عجیب و غریب ہے کہ اصول خود بنا کر خود ہی اس کی مخالفت شروع کردیں ۔ہم یہ کہنے کی جرات نہیں کرتے
اس کے جواب میں ہم یہی کہیں گے کہ ہمارا اپنے ائمہ سلف صالحین کے بارے وہ عقیدہ نہیں ہے جو اثنا عشریہ کا اپنے ائمہ کے بارے ہے۔ باقی ہم اپنے ائمہ پر طعن وتشنیع کے قائل نہیں ہیں لیکن اپنے سلف صالحین سے ایک طالب علمانہ سوال کے ضرور قائل ہیں اور یہی سوال ہم نے کیا تھا کہ سلف صالحین نے یہاں کیوں اپنا اصول توڑا؟ اگر سلف صالحین کے کسی موقف پر طالب علمانہ سوال کرنا یا اٹھانا گستاخی ہے تو واقعتا ہم اس گستاخی کے قائل ہیں۔
ہاں! اگر آپ اس سوال کو اعتراض کا نام دیں ، تو کوئی حرج نہیں ہے۔ اور آپ اصل میں اس سوال کا جواب دیں کہ یہاں اصول کی مخالفت ہوئی ہے یا نہیں؟ اگر نہیں ہوئی تو اسے ثابت کریں۔ سلف صالحین کی عصمت وتقدس کے یقینا آپ بھی قائل نہیں ہیں۔
9۔ میں تو سلف صالحین کے قول کی ایسی تاویل کرتا ہوں کہ جس سے یہ ثابت ہو کہ انہوں نے اس مسئلہ میں اپنا اصول نہیں توڑا ہے اور وہ تاویل میں اوپر بیان کر چکا ہوں۔یعنی سلف صالحین معیت مع فوقیت کے قائل ہیں اور انہوں نے اس معیت کی نفی کی ہے جو اختلاط والی ہے کیونکہ اختلاف والی معیت صفیت فوقیت کے منافی ہے۔اور عوام الناس کو سمجھانے کے لیے انہوں نے آسان فہم انداز میں معیت مع فوقیت کو ’معیت علمی‘ سے تعبیر کر دیا کیونکہ عوام الناس میں معیت کا معنی اختلاط والی معیت کا معروف ہے ۔ واللہ اعلم بالصواب
10- آپ حضرات نصوص کی تاویل کرنے کے قائل ہیں جبکہ میں سلف صالحین کے قول کی تاویل کا قائل ہوں۔ دونوں تاویلوں میں سے کون سی تاویل بہتر ہے؟؟؟ نصوص کی تاویل کر کے سلف صالحین کے قول کی موافقت اختیار کرنا یا سلف صالحین کے قول کی تاویل کرتے ہوئے نصوص کی موافقت اختیار کرنا۔ یہ واضح رہے : ’الاصل فی الکلام الحقیقۃ‘۔
 

تلاش حق

مبتدی
شمولیت
اپریل 12، 2011
پیغامات
32
ری ایکشن اسکور
143
پوائنٹ
0
بہت خوب علوی بھائی ! اب تو سب سے پہلے اجماع پر ہی ذرا بات ہو جائے ، کیونکہ ہمیں بار بار اس سے واسطہ پڑے گا۔
آپ نے فرمایا کہ '' ہمارے ہاں سلف صالحین اجماع کا لفظ ’اتفاق‘ کے معنی میں بھی نقل کر دیتے ہیں۔ امام ابن حزم رحمہ اللہ جیسے جلیل القدر امام نے ’الاجماع‘ کے نام سے کتاب لکھی اور بہت سے مسائل میں اجماع کا دعوی کیا تو امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے بیسیوں مسائل میں کہ جن میں امام ابن حزم رحمہ اللہ نے اجما ع کا دعوی کیا تھا، اسے غلط ثابت کیا۔سلف صالحین کی اکثر عبارتوں میں اجماع سے مراد اجماع اصولی نہیں ہوتا بلکہ لغوی اجماع بمعنی اتفاق مراد ہوتا ہے ۔
6۔ اجماع اصولی کی تعریف وشرائط بیان کر کےکوئی بھائی اس مسئلہ میں ذرا اجماع ثابت کریں ۔کیا کسی صاحب علم کے لکھ دینے کہ فلاں مسئلہ میں اجماع ہے، اجماع ہوجاتا ہے؟اجماع کا وقوع اتنا آسان نہیں ہے کہ جتنی آسانی سے اس کا دعوی کر دیا جاتا ہے ۔ اس لیے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا یہ قول معروف ہو گیا کہ ’ من ادعی الاجماع فھو کاذب‘
امر واقعہ یہ ہے کہ لوگوں نے اجماع کو مذاق بنا لیا ہے۔ کوئی بھائی اس مسئلہ میں ہر صحابی ، تابعی، تبع تابعی ،عالم دین ، محدث اور فقیہ کی صریح رائے نکال کر دکھائیں۔ اگر نہیں تو یہ اجماع نہیں ہے۔ اور یہ تو اہل علم پر واضح ہی ہے کہ اجماع سکوتی کوئی اجماع نہیں ہوتا بلکہ اجماع ، اجماع صریح ہی ہے۔''

1۔ بھائی عرض یہ ہے کہ آپ کے نزدیک آج تک کسی مسئلے پر اجماع ہوا بھی ہے؟ اگر ہوا ہے تو ذرا مہربانی فرما کر اس کی صرف ایک مثال پیش کر دیں اور ہاں اپنی لگائی ہوئی شرط پوری کرنا ہرگز نہ بھولیں کہ ''اس مسئلہ میں ہر صحابی ، تابعی، تبع تابعی ،عالم دین ، محدث اور فقیہ کی صریح رائے نکال کر دکھائیں۔ اگر نہیں تو یہ اجماع نہیں ہے۔'' اور اگر آپ کے نزدیک آج تک اجماع کسی مسئلہ پر ہوا ہی نہیں تو پھر اس کی شروط و قیود کا کیا معنیٰ ؟
رہی اجماع سکوتی کی بات تو وہ آپ کے نزدیک اہل علم پر واضح ہے لیکن جو آپ سمجھے ہیں وہ اہل علم پر واضح نہیں ہو سکا۔ چلیں اس پر تو بعد میں بات ہو گی ، پہلے ذرا صرف اجماع پر تو بات کر لیں۔
2۔ آپ کا یہ کہنا کہ سلف صالحین اجماع کا لفظ اتفاق پر بول دیتے تھے بھی بہت عجیب ہے۔ بھلا اجماع اتفاق کے علاوہ کوئی اور چیز ہے؟ ہم تو یہی سمجھتے ہیں کہ اگر سلف صالحین کسی بات پر متفق ہیں تو یہی اجماع ہے۔اگر اس کے خلاف کوئی بات ہے تو وہ بھی بتائیں۔
3۔ آپ نے فرمایا کہ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے امام ابن حزم رحمہ اللہ کے بیسیوں اجماع غلط ثابت کر دئیے ۔۔۔ ہم پوچھتے ہیں کہ وہ غلط ثابت کیسے ہوئے ؟ اگر اتنی بات پر ہی غور کر لیا جائے تو بات بن جائے گی۔ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اس بات میں اختلاف ثابت کر دیا تھا جس پر اجماع کا دعویٰ ابن حزم نے کیا تھا تو اجماع کا دعویٰ غلط ثابت ہو گیا ۔ آپ بھی ہمت کریں اور سلف صالحین سے صفت ِ معیت کو معیت ِ علم قرار دینے کو تاویل جو کہ انکار صفات ہے ، ثابت کر دیں تو ہمارا دعویٰ بھی غلط ثابت ہو جائے گا۔
4۔ آپ نے فرمایا کہ کیا کسی صاحب ِ علم کے لکھ دینے سے اجماع ثابت ہو جائے گا؟ جواب یہ ہے کہ اگر کوئی معتبر اور باخبر امام اجماع کا دعویٰ کرے تو اس کی بات کا اعتبار کیا جائے گا الا یہ کہ اس بارے میں کوئی اختلاف ثابت ہو جائے۔ اگر آپ اس بات کو نہیں مانتے تو بتائیں کہ آپ کے نزدیک اجماع کیسے ثابت ہو گا؟ ایک مثال دے کر اپنے نظریے کاعملی انطباق بھی کریں۔
5۔ یقینا آپ کے نزدیک بھی امام احمد رحمہ اللہ اجماع کے منکر نہیں ہوں گے ۔ اگر وہ اجماع کو مانتے تھے تو آپ ہی وضاحت فرما دیں کہ وہ کس اجماع کو مانتے تھے اور اس سلسلے میں ایک مثال بھی پیش فرما دیں۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
اجماع کی حجیت کے مسئلہ میں میر اموقف جاننے کے لیے میرے پی۔ ایچ۔ ڈی کے مقالہ کے باب ششم کی فصل چہارم کا مطالعہ کریں۔ وہاں! آپ کے سوالات کا تفصیلی جواب موجود ہے۔ یہ مقالہ اپنی ویب سائیٹ پر ’عصر حاضر میں اجتماعی اجتہاد: ایک تجزیاتی مطالعہ‘ کے نام سے موجود ہے۔
 

تلاش حق

مبتدی
شمولیت
اپریل 12، 2011
پیغامات
32
ری ایکشن اسکور
143
پوائنٹ
0
ذرا ابھی آپ میرے سوالوں کے جوابات دے دیں تو بہت اچھا رہے گا کیونکہ مل کر بات کرنے کا اور مزا ہے اور صرف کسی کی کتاب پڑھ لینا اور بات ۔ کتنی ہی بار صاحب کتاب کی کوئی بات سمجھ میں آنا مشکل ہو جاتا ہے پھر صاحب کتاب کو وضاحت کرنا پڑتی ہے۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
1۔یہاں اجماع کا مسئلہ زیر بحث نہیں ہے، اس لیے یہاں اس بحث کو کرنے کا مطلب اصل مسئلہ کو الجھانے کے سوا کچھ نہیں ہے۔
2۔ اس موضوع کے لیے ایک علیحدہ پوسٹ بنائیں۔اور وہاں اجماع کی تعریف کریں جس تعریف کو آپ صحیح سمجھتے ہیں۔
3۔ میں ان شاء اللہ!اس تعریف پر اپنی گزارشات پیش کر دوں گااور اجماع کا وہ صحیح تصور بھی واضح کر دوں گاجسے میں نے سلف صالحین سے سمجھا ہے۔
 

تلاش حق

مبتدی
شمولیت
اپریل 12، 2011
پیغامات
32
ری ایکشن اسکور
143
پوائنٹ
0
1۔میں ان شاء اللہ!اس تعریف پر اپنی گزارشات پیش کر دوں گااور اجماع کا وہ صحیح تصور بھی واضح کر دوں گاجسے میں نے سلف صالحین سے سمجھا ہے۔
جناب بہت حیرانی ہوئی آپ سلف صالحین سے اجماع کی تعریف سمجھتے ہیں ۔ کیا قرآن و سنت کی نصوص اس مسئلے میں آپ کو کفایت نہیں کرتیں ؟
باقی رہی اجماع کے لیے نئی پوسٹ تو ہم بسر و چشم حاضر ہیں ۔ آپ نے جو کچھ قرآن و سنت سے سمجھا ہے وہ پیش کریں ۔ رہے سلف صالحین تو ان کا ذکر بعد میں آئے گا کیونکہ آپ تو قرآن و سنت سے ہر چیز ثابت کرنے کے دعویدار ہیں ۔پہلے آپ نے سلف صالحین کے ذمے یہ بات لگائی کہ وہ معیتِ علم و نصرت کے بجائے کسی اور معیت کے قائل ہیں ۔ جب ہم نے شیخ الاسلام ابن تیمیہ اور دوسرے ائمہ کرام کی آراء پیش کر دیں تو آپ نے فورا کلابازی لگائی اور قرآن و سنت کی طرف آ گئے ۔
حقیقت یہ ہے کہ جس طرح آپ قرآن و سنت کی نصوص سے معیت ِ اختلاط کا رد کرتے ہیں اسی طرح نصوصِ قرآن و سنت سے ائمہ دین نے آپ کے ذہن میں بس جانے والی معیت کا رد کر کے معیت سے مراد معیت ِ علم و نصرت لی ہے ۔ آپ دوبارہ شیخ الاسلام اور دوسرے ائمہ کی عبارات پڑھ لیں ۔ ہم نے اس وقت بھی عرض کیا تھا کہ یہ ان ائمہ کی اپنی بات نہیں بلکہ انہوں نے قرآن وسنت کی نصوص سے یہ بات ثابت کی ہے ۔
شیخ الاسلام رحمہ اللہ سے یہ بات بھی ہم گذشتہ پوسٹوں میں نقل کر چکے ہیں کہ انہوں نے معیت ِ علم و نصرت کو تاویل قرار دینے کا رد کیا ہے اور فرمایا ہے کہ یہ حقیقی معنیٰ ہے مجازی نہیں ۔
اگر آپ معیت ِ اختلاط کو نصوص کے پیش نظر رد کر دیں تو تاویل نہیں ہوتی لیکن ائمہ دین اگر نصوص کی روشنی میں معیت ِ علم و نصرت مراد لیں اور اسے قرآن وسنت سے ثابت بھی کریں تو وہ آپ کے نزدیک تاویل ہوتی ہے !!!
یا للعجب !
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
1۔جناب بہت حیرانی ہوئی آپ سلف صالحین سے اجماع کی تعریف سمجھتے ہیں ۔ کیا قرآن و سنت کی نصوص اس مسئلے میں آپ کو کفایت نہیں کرتیں ؟
بالکل کتاب وسنت کفایت کرتا ہے لیکن سلف صالحین کے منہج فہم کے مطابق۔ اہل الحدیث اور متجددین دونوں عدم تقلید کے قائل ہیں لیکن دونوں میں بنیادی فرق ہے اور وہ یہ کہ متجددین نصوص فہمی میں سلف صالحین کی آراء کو ذرا برابر بھی اہمیت نہیں دیتے جبکہ اہل الحدیث نصوص کے فہم میں سلف صالحین کی آراء سے رہنمائی حاصل کرتے ہیں۔جبکہ مقلدین ایک دوسری انتہا پر ہیں جو نصوص کے فہم میں سلف صالحین کی رائے کو حجت قرار دیتے ہیں۔یعنی ایک انتہا متجددین ہیں کہ نصوص کے فہم میں سلف صالحین کی کوئی اہمیت نہیں ہے اور دوسری مقلدین ہیں کہ نصوص کے فہم میں سلف صالحین حجت ہیں اور تیسرا اہل الحدیث کا مسلک معتدل ہے ۔اس مسئلہ پر میں نے اپنے ایک مضمون’کیا ائمہ اربعہ صفات الہیہ میں مفوضہ ہیں؟‘ میں بحث کی ہے۔ یہ مضمون اپنی ویب سائیٹ پر ماہنامہ محدث کے مارچ کے شمارہ میں ملاحظہ فرمائیں۔
2۔باقی رہی اجماع کے لیے نئی پوسٹ تو ہم بسر و چشم حاضر ہیں ۔ آپ نے جو کچھ قرآن و سنت سے سمجھا ہے وہ پیش کریں ۔ رہے سلف صالحین تو ان کا ذکر بعد میں آئے گا کیونکہ آپ تو قرآن و سنت سے ہر چیز ثابت کرنے کے دعویدار ہیں
یہ آپ کی عنایت ہے کہ موقف میرا ہے اور تشریح آپ فرما رہے ہیں۔لیکن اگر آپ کی اجازت ہو تو عرض کروں گا کہ بندہ ناچیز ہر چیز میں قرآن وسنت کی حاکمیت کا دعویدار ہے جبکہ قرآن وسنت کےفہم میں سلف صالحین کی آراء سے رہنمائی کا قائل ہے لیکن ان آراء کو بائنڈنگ نہیں سمجھتا اور یہی اہل الحدیث کا مسلک بھی سمجھتاہے۔
3۔۔پہلے آپ نے سلف صالحین کے ذمے یہ بات لگائی کہ وہ معیتِ علم و نصرت کے بجائے کسی اور معیت کے قائل ہیں ۔ جب ہم نے شیخ الاسلام ابن تیمیہ اور دوسرے ائمہ کرام کی آراء پیش کر دیں تو آپ نے فورا کلابازی لگائی اور قرآن و سنت کی طرف آ گئے ۔
میں تو اب بھی یہی کہتا ہوں کہ سلف صالحین نے ’معیت علمی‘کی تشریح اس لیے کی ہے کہ وہ معیت اختلاط کا انکار چاہتے ہیں اور سلف صالحین سے معیت فوقیت کاانکار ثابت نہیں ہے۔ اگر ہے تو براہ کرم ہمارے رہنمائی فرماتے ہوئے حوالہ جات پیش کریں۔پس سلف صالحین نے معیت اختلاط کا انکار کیا ہے اور یہی بات سلف صالحین کے بارے میں میری آخری پوسٹ میں بھی موجود ہے۔
یعنی میرا کہنے کا مفہوم یہ ہے کہ سلف صالحین نے معیت فوقیت کا انکار نہیں کیا ہے اور نہ ہی ان کے اقوال سے معیت فوقیت کا انکار ثابت ہوتا ہے لیکن اگر فریق مخالف کے مطابق ثابت ہو بھی جائے تو پھر بھی اصل حجت قرآن وسنت ہیں۔
4۔اگر آپ معیت ِ اختلاط کو نصوص کے پیش نظر رد کر دیں تو تاویل نہیں ہوتی لیکن ائمہ دین اگر نصوص کی روشنی میں معیت ِ علم و نصرت مراد لیں اور اسے قرآن وسنت سے ثابت بھی کریں تو وہ آپ کے نزدیک تاویل ہوتی ہے !!!
اللہ آپ کا بھلاکرے ۔ ابھی اس موضوع پر کلام مکمل نہیں ہوا اور آپ نے اعتراضات کی بوچھاڑ کر دی ۔ میرے نزدیک متقدمین سلفیہ اور سلف صالحین کی تشریح تاویل نہیں ہے جبکہ متاخرین اور معاصر سلفیہ صفت معیت میں تاویل کرتے ہیں۔
کیونکہ متقدمین سلفیہ نے معیت فوقیت کا انکار نہیں کیا ہے جو کہ معیت کا حقیقی معنی ہے جبکہ متاخرین سلفیہ معیت فوقیت کا انکار کرتے ہیں۔
آپ کہیں گے کہ متقدمین سلفیہ نے اگر معیت فوقیت کا انکار نہیں کیا ہے تو اثبات کہاں کیا ہے؟ میں کہتا ہوں انہوں نے اثبات بھی ہے کیونکہ جب سلٍف صالحین ’معیت علمی‘ مراد لیتے ہیں تو یہ ایسے علم کی معیت ہے جو اللہ کی ذات کے ساتھ قائم ہے ۔ پس سلف صالحین معیت ذاتیہ فوقیہ کے قائل ہیں۔ اسی لیے ان کے کلام میں اس معیت فوقیہ ذاتیہ کا انکار نہیں ہے جبکہ معیت اختلاط کا انکار ہے۔
متاخرین نے معیت علمی کا اثبات تو کر دیا لیکن اس شیئ کا بھی انکار کر دیا جس کا انکار سلف صالحین سے منقول نہیں تھا یعنی معیت فوقیہ ذاتیہ۔ اس سے سلف صالحین کا موقف صحیح پیش نہ ہو سکا کیونکہ اس موقف میں متاخرین کی تشریح بھی شامل ہو گئی تھی۔
باقی رہا یہ اسلو ب کہ سلف صالحین تاویل کے قائل ہیں تو متاخرین کے قول کے مطابق تھانہ کہ میری اس وضاحت کے مطابق جو میں سلف صالحین کے قول کی کرتا ہوں۔ واللہ اعلم بالصواب
5۔آپ یہ اعتراض کرسکتے ہیں میں نے ’معیت علمی‘کی تشریح اپنی کی ہے۔اس کے لیے میں پھر وہی سوال دہراوں گا جسے آپ اب تک نظر انداز کرنے کی وجہ سے حق تک نہیں پہنچ رہے یا مجھے نہیں پہنچا رہے ۔ حق تک آپ کے پہنچنے کے لیے یا مجھے پہنچانے کے لیے آپ کو یہ سوال انٹر ٹین کرنا ہوگا کہ ’معیت علمی‘ ذات کے بغیر ممکن ہے؟ یعنی کیا مجرد علم الہی، اللہ کی ذات سے علیحدہ ہوتے ہوئے ہمارے ساتھ ہے یا اللہ کی ذات کے ساتھ قائم علم الہی ہمارے ساتھ ہے؟اگر تو دوسری بات ہے تو میرا اور آپ کا اختلاف لفظی ہے۔ہم ایک ہی شیئ کو دو مختلف پہلووں سے دیکھ رہے ہیں۔اور اگر پہلی بات ہے تو یہ اختلاف حقیقی ہے ۔
6۔میں پھر یہ گزارش کروں گا کہ آپ اگر میرے اس سوال کا جواب دے دیں تو کم ازکم مجھے حق تک پہنچنے میں آسانی ہو جائے گی اور میری الجھن دور ہو جائے گا۔ میں آپ کا بہت احسان مند اور ممنون بھی رہوں گا کہ اللہ کی ’معیت علمی‘ کیا ایسے علم کی معیت ہے جو ذات کے ساتھ قائم ہے یا ذات سے علیحدہ علم کی معیت ہے؟۔ اس سوا ل کے جواب سے یا تو ہمارا اختلاف لفظی ثابت ہو جائے تو مسئلہ حل ہو جائے گا یا حقیقی بن جائے گا اور آپ کا موقف کھل کر سامنے آ جائے گاکیونکہ مجھے ابھی تک آپ کے معیت علمی والے موقف میں اس پہلو کی وضاحت نہیں ہو رہی ہے ۔اگر یہ وضاحت فرما دیں تو بات کرنے میں زیادہ آسانی رہے گی۔
7۔تو آپ نے فورا کلابازی لگائی
تلاش حق کے لیے مارشل آرٹ یا جمناسٹک کی بھی ضرورت پڑتی ہے؟محترم میں اس کا قائل نہیں ہوں۔ ویسے اگر آپ بھی یہ کلاباذیاں مجھ سے نہ ہی مراوئیں تو اچھا ہے۔ باقی آپ بہتر سمجھتے ہیں۔
8۔ میری کوئی بات بری لگی ہو تواس کے لیے پیشگی طور پر معذرت خواہ ہوں۔ ہم سب ایک دوسرے کی علمی واخلاقی اصلاح کے لیے یہاں جمع ہوتے ہیں جس میں اسلوب بیان میں کبھی کبھار سختی ، گرمی آ جاتی ہے۔
میرے بھائی میرے نزدیک آپ کا موقف اور متاخرین سلفیہ کا موقف بہت ہی محتر م ہے لیکن مجھ سے اگر یہ مطالبہ کیا جائے کہ مجھے اعتقادی مسائل میں بعض علماء کی کچھ نصوص کی تشریح سمجھ نہ آتی ہو اور میں اخلاص سے سمجھنے کے باوجود علماء کی کسی تفسیر سے متفق نہ ہو سکا ہوں تو پھر بھی ان کی لازماپیروی کروں تو میں اپنے آپ کو اس سے معذور سمجھتا ہوں۔
10۔ اگر تو اختلاف حقیقی ہے تو اسے ختم کرنا مشکل ہوتاہے لہذا اس میں دوسرے کے موقف کو برداشت کیا جائے اور اپنے موقف پر انسان نظر ثانی کرتا رہے اور اللہ سے اپنی اصلاح کی دعا مانگتا رہے ۔ آپ بھی میرے لیے خصوصی دعافرمائیں کہ اللہ ہم سب کی اصلاح فرما دے۔
 

اہل الحدیث

مبتدی
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
89
ری ایکشن اسکور
544
پوائنٹ
0
ابھی تک قارئین تک اس بحث کا نتیجہ سامنے نہیں آیا۔ میرا خیال ہے کہ اگر تین سوالات کے جوابات دے دئیے جائیں تو اختلاف واضح ہو جائے۔

1- اگر اللہ کی معیت سے مراد علم و نصرت ہے تو کیا صرف علم و نصرت ہی مراد ہے یا اس کے علاوہ بھی معیت ہو سکتی ہے جیسے اللہ کی شان کے لائق ہے؟
2- اگر اللہ کی معیت سے علم و نصرت خارج ہے تو یہ معیت ذات کے اعتبار سے ہے یا طاقت و قوت کے اعتبار سے؟
3- اگر صرف ذات کے اعتبار سے ہے تو کیا اللہ بلحاظ ذات ہر جگہ موجود ہے؟ کیونکہ انسان تو زمین پر ہے اور اللہ عرش پر، تو معیت ذاتی کیسے انسانوں کے ساتھ آ سکتی ہے۔ اور اس سے حلول و وحدت الوجود کا ابطال کیسے کیا جائے گا؟

براہ کرم علماء ان تین سوالات کا کتاب و سنت کی روشنی میں مختصرا" جواب عنایت فرما دیں۔ ہو سکتا ہے کہ گلاس میں کچھ لوگ آدھا پانی دیکھ رہے ہوں اور کچھ گلاس کو آدھا خالی دیکھ رہے ہوں۔

جزاکم اللہ خیرا
 

رفیق طاھر

رکن مجلس شوریٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 04، 2011
پیغامات
790
ری ایکشن اسکور
3,982
پوائنٹ
323
۱۔ معیت سے علم وقدرت مراد نہیں ہے ۔
۲۔ معیت سے مراد حقیقی معیت ہے ۔ اسکی کیفیت ہم نہیں جانتے ، اور نہ ہم اسے مخلوق کی معیت کے مشابہہ سمجھتے ہیں ۔ نہ اس میں تأویل کرتے ہیں ۔۔۔۔الخ ۔
۳۔ ہر جگہ موجود نہیں ہے !
جہاں جہاں اسے نے اپنے وجود ثابت کیا صرف وہاں وہاں ہے !!!!
جیسے چاند ہمارے ساتھ ہونے کے باوجود ہم سے جدا ہوتا ہے اور جیسے دو ساتھ بیٹھے ہوئے بندے ساتھ ہونے کے باوجود ایک دوسرے سے جدا یعنی ایک کا جسم دوسرے میں حلول نہیں کیے ہوتا ایسے ہی اللہ تعالى ساتھ ہونے کے باوجو افراد کے اندر داخل نہیں ہے وللہ المثل الأعلى لہذا وصف معیت کو حقیقت پر محمول کرنے سے حلول ثابت نہیں ہوتا ۔
 
Top