• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا یہ کہنا درست ہے کہ "میں اللہ کو حاضر ناضر جان کر قسم اٹھاتا ہوں" ؟

اہل الحدیث

مبتدی
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
89
ری ایکشن اسکور
544
پوائنٹ
0
جواب نمبر 1 ہنوز مکمل معلوم نہیں ہوتا کہ اگر علم و نصرت مراد نہیں تو کیا اس کے علاوہ ہے یا اس معیت میں علم و نصرت بھی شامل ہو سکتی ہے اگرچہ ہم اس کا ادراک نہ رکھتے ہوں؟
 

رفیق طاھر

رکن مجلس شوریٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 04، 2011
پیغامات
790
ری ایکشن اسکور
3,982
پوائنٹ
323
علم ونصرت علیحدہ ہے اور معیت علیحدہ ہے ۔
ایک ذات ایک سے زائد صفات سے متصف ہو سکتی ہے مثلا ذات باری تعالى بیک وقت سمیع بھی ہے بصیر بھی ہے ۔
اسی طرح ذات باری تعالى کی صفات معیت ، نصرت ، علم ، علیحدہ علیحدہ ہونے کے باوجود ایک جگہ جمع ہو سکتی ہیں ۔
جیسے کہ آپ جسکے جلیس بنیں گے اسکے بارہ میں آپکو علم بھی ہو گا اور بوقت ضرورت اسکے ساتھ رہ کر آپ اسکی مدد بھی کر سکیں گے اور کریں گے ۔ وللہ المثل الاعلى
یاد رہے کہ اللہ کی معیت کو " جلیس " کی معیت کے ساتھ تشبیہ نہیں دی گئی بلکہ ایک مثال بیان کی گئی ہے ۔!!!
یعنی معیت " میں " علم و نصرت جمع نہیں ہوتے البتہ معیت کے " ساتھ " علم و نصرت کے اوصاف جمع ہو سکتے ہیں ۔
خوب سمجھ لیں ۔
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
اللہ تعالیٰ کی صفاتِ معیت وقرب کی تفصیل کیلئے آیاتِ کریمہ، احادیثِ مبارکہ اور اقوال سلف ﷭ اس لنک میں (Doc File) ملاحظہ فرمائیں!
اور یہ لنک بھی ملاحظہ کریں!
اس سے مجھے خوب فائدہ ہوا، اور اہل وسنت والجماعت کی مجمعہ علیہ رائے پر ذہن کا اطمینان بھی ہوا۔
واللہ تعالیٰ اعلم
اللهم أرنا الحق حقا وارزقنا اتباعه وأرنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابه ولا تجعله ملتبسا علينا فنضل واجعلنا للمتقين إماما
 

تلاش حق

مبتدی
شمولیت
اپریل 12، 2011
پیغامات
32
ری ایکشن اسکور
143
پوائنٹ
0
جیسے چاند ہمارے ساتھ ہونے کے باوجود ہم سے جدا ہوتا ہے اور جیسے دو ساتھ بیٹھے ہوئے بندے ساتھ ہونے کے باوجود ایک دوسرے سے جدا۔۔۔۔ ۔
محترم بھائی ! اسی بات پر اگر غور کر لیا جائے تو مسئلہ حل ہو سکتا ہے ۔ جیسے چاند اوپر ہوتے ہوئے ہمارے ساتھ ہوتا ہے تو اس کی معیت ہمارے ساتھ روشنی کے ذریعے ہوتی ہے کہ اس کی روشنی ہمارے ساتھ ہے ۔ اگر کوئی معتبر شخص کسی کو کہہ دے کہ تم پریشان ہونا چھوڑو ، میں تمہارے ساتھ ہوں تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس کی نصرت و حمایت آپ کے ساتھ ہوتی ہے ۔ یہی معنیٰ ہیں اللہ تعالیٰ کی معیت کے اور اسی معنیٰ کو شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اور دیگر ائمہ دین نے معیت ِ علم و نصرت قرار دیا ہے ۔ یہ کوئی تاویل نہیں ۔
اگر محترم رفیق طاہر بھائی مجھے یہ بتا دیں تو شاید بہت سے اشکال ختم ہو جائیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غار میں سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کو جو فرمایا تھا : ان اللہ معنا (اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے) اس معیت سے مراد کون سی معیت تھی ؟ اگر یہ معیت تھی جسے آپ معیت ِ حقیقی کہتے ہیں ، تو پھر یہ معیت تو ہر کافر اور ہر مومن کو حاصل ہے ۔ یہاں پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے اور ابو بکر رضی اللہ عنہ کے لیے اس معیت کو خاص کرنے کا کیا مطلب تھا ؟
مہربانی فرما کر اس حوالے سے مکمل وضاحت فرمائیں ۔ امید ہے کہ اس نقطے سے اس مسئلے کا اونٹ کسی کروٹ بیٹھ سکتا ہے ۔
 

تلاش حق

مبتدی
شمولیت
اپریل 12، 2011
پیغامات
32
ری ایکشن اسکور
143
پوائنٹ
0
جیسے چاند ہمارے ساتھ ہونے کے باوجود ہم سے جدا ہوتا ہے اور جیسے دو ساتھ بیٹھے ہوئے بندے ساتھ ہونے کے باوجود ایک دوسرے سے جدا ۔۔۔ ۔
محترم رفیق طاہر بھائی بالکل یہی بات سلف صالحین کہتے ہیں کہ جس طرح چاند اوپر ہونے کے باوجود ہمارے ساتھ ہوتا ہے اور اس کے ساتھ ہونے سے مراد اس کی روشنی کا ہم تک پہنچتے رہنا ہے ۔ اسی طرح اگر کوئی معتبر شخص کسی پریشان حال شخص سے کہہ دے کہ فکر نہ کرو ، میں تمہارے ساتھ ہوں تو اس کے ساتھ سے مراد اس کی مدد و اعانت کا ساتھ ہونا ہے ۔ یہی معاملہ اللہ تعالیٰ کی معیت کا ہے کہ وہ عرش پر رہتے ہوئے اپنے علم اور اپنی نصرت کے اعتبار سے ہمارے ساتھ ہے ۔ اس میں کوئی تاویل والی بات نہیں ۔
ہاں ! ایک اور طرح سے اس بات کو سمجھا جا سکتا ہے ۔ وہ یوں کہ جس معیت کو معیت ِ حقیقی کے نام سے آپ موسوم کرتے ہیں ، کیا وہ کسی بندے کے ساتھ خاص ہے یا ہر مومن و کافر کے ساتھ عام ہے ؟ یعنی آپ کے نزدیک اللہ تعالیٰ فوقیت کے ساتھ معیت خاص خاص لوگوں کے سے رکھتا ہے یا سب کے ساتھ ؟
اگر یہ معیتِ حقیقی سب کے ساتھ ہے تو پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو غار میں ان اللہ معنا (اللہ ہمارے ساتھ ہے) سے کیا مراد ہے ؟ واضح ہے کہ یہاں معیت خاص مراد ہے جو کہ کافروں کے مقابلے میں اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو حاصل تھی اور وہ کیا تھی ؟؟؟ ہر شخص جانتا ہے کہ وہ معیت ِ نصرت تھی جو کہ کافروں کو حاصل نہیں تھی ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے رفیق غار کو حاصل تھی ۔
پھر کافروں کے ساتھ بھی اللہ تعالیٰ کی معیت تھی جیسا کہ فرمان باری تعالیٰ : وَهُوَ مَعَكُمْ أَيْنَ مَا كُنْتُمْ کا تقاضا ہے ۔ معلوم ہوا کہ ایک ہی وقت میں معیت ِ باری تعالیٰ مؤمنوں کو بھی حاصل ہوتی ہے اور کافروں کو بھی ، لیکن مؤمنوں کے ساتھ معیت ِ علم و نصرت دونوں ہوتی ہیں جبکہ کافروں کے ساتھ صرف معیت ِ علم ہوتی ہے معیت ِ نصرت ان کو حاصل نہیں ہوتی ۔
اگر اللہ تعالیٰ کے دیگر فرامین مثلا ان اللہ مع الصابرین ۔۔۔۔ وغیرہ پر بھی غور کیا جائے تو مسئلہ اور بھی نکھر جاتا ہے ۔ اگر معیت ِ الٰہی کی تشریح وہ ہے جو آپ فرماتے ہیں تو پھر وہ تو صابر اور غیر صابر لوگوں سب کے ساتھ یکساں ہے ۔ اس میں فرق کا کوئی پہلو ہے ہی نہیں ۔ اگر فرق ہے تو ماننا پڑے گا کہ معیت سے وہی مراد ہے جو سلف صالحین نے قرآن وسنت کی نصوص سے اجماعی طور پر سمجھ لیا ہے ۔
مسلمانوں خصوصا سلف صالحین کا قرآن و سنت کی کسی نص کے فہم پر اتفاق کر لینا بھی تو اجماع ہے جو کہ شریعت کی ایک دلیل ہے ۔
اللہ تعالیٰ ہمیں حق پر عمل کی توفیق عطا فرمائے
 

تلاش حق

مبتدی
شمولیت
اپریل 12، 2011
پیغامات
32
ری ایکشن اسکور
143
پوائنٹ
0
جزاکم اللہ خیرا محترم انس بھائی !
آپ نے بہت مفید لنک دئیے ہیں ۔ البتہ آپ نے یہ وضاحت نہیں کی کہ اہل سنت والجماعت کا متفقہ مؤقف ہے کیا جس پر آپ کا دل مطمئن ہوا ہے ۔ یہ ضروری بات تھی کیونکہ ہر فریق اپنے آپ کو اہل سنت والجماعت کے متفقہ مؤقف پر قائم بتاتا ہے ۔ الحمد للہ آپ کے اشارہ کردہ لنکس سے یہی ثابت ہوا ہے جس کی طرف میں نے اپنی حالیہ پوسٹس میں اشارہ کیا تھا ۔ مجھے اس آپ کی یہ پوسٹ فورم پر نظر نہیں آ رہی تھی۔ یقینا اس کی وجہ میری انٹر نیٹ کی دنیا میں نئی آمد ہے ۔ بہر حال میری گذارشات کا حاصل بھی یہی تھا کہ اہل سنت والجماعت معیت کی دو قسمیں بناتے ہیں : ایک معیت ِ عامہ اور دوسری خاصہ ۔ معیت ِ عامہ سے مراد علم و احاطہ ہے اور معیت ِ خاصہ سے مراد تائید و نصرت ہے ۔ یہ کوئی تاویل نہیں بلکہ معیت کا حقیقی معنیٰ ہے جو ائمہ دین نے قرآن و سنت کی نصوص سے ہی سمجھا ہے اور یہی اہل سنت والجماعت کا مؤقف ہے۔
اللہ تعالیٰ سب کو حق کا حامی بنائے۔
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
جزاکم اللہ خیرا محترم انس بھائی !
آپ نے بہت مفید لنک دئیے ہیں ۔ البتہ آپ نے یہ وضاحت نہیں کی کہ اہل سنت والجماعت کا متفقہ مؤقف ہے کیا جس پر آپ کا دل مطمئن ہوا ہے۔
در اصل میرا موقف یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ کی معیت ہمارے ساتھ ذاتی ہے (جیسے ان کی شان کو لائق، لیکن اس سے وحدۃ الوجود اور حلول ثابت نہیں ہوتا) کیونکہ
  • معیت کا معنیٰ علم کرنے پر ذہن مطمئن نہ ہوتا تھا۔
  • اور پھر اگر ’معیت‘ کا معنی ’علم‘ کرلیں گے تو ’قرب‘ کا معنیٰ کیا کریں گے؟؟
  • علاوہ ازیں جب ہم اللہ تعالیٰ کے عرش پر مستوی ہونے کے ساتھ ساتھ صفت ِنزول « ينزل ربنا تبارك وتعالى كل ليلة إلى السماء الدنيا ، حين يبقى ثلث الليل الآخر » کو بھی تسلیم کرتے ہیں جیسے اللہ کی شان کو لائق ہے تو پھر یہ بات صفت معیت اور قرب میں کہنے میں کیا مانع ہے؟؟ وغیرہ وغیرہ
لیکن پھر ان لنکس وغیرہ کو دیکھ کر واضح ہوا کہ
  1. معیت کا معنیٰ ’معیت علم واحاطہ‘ یا ’معیت تائید نصرت‘ لینا تاویل نہیں کیونکہ انہیں میت والی آیات کریمہ کے اول وآخر علم اور استویٰ علی العرش کا ذکر ہے اور سیاقِ کلام شد ومد سے تقاضا کرتا ہے کہ یہاں مراد معیت علم واحاطہ ﴿ لِتَعْلَمُوا أَنَّ اللهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ وَأَنَّ اللهَ قَدْ أَحَاطَ بِكُلِّ شَيْءٍ عِلْمًا ﴾ لی جائے۔ مثال کے طور پر فرمان باری تعالیٰ: ﴿ أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللهَ يَعْلَمُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ ۖ مَا يَكُونُ مِن نَّجْوَىٰ ثَلَاثَةٍ إِلَّا هُوَ رَابِعُهُمْ وَلَا خَمْسَةٍ إِلَّا هُوَ سَادِسُهُمْ وَلَا أَدْنَىٰ مِن ذَٰلِكَ وَلَا أَكْثَرَ إِلَّا هُوَ مَعَهُمْ أَيْنَ مَا كَانُوا ۖ ثُمَّ يُنَبِّئُهُم بِمَا عَمِلُوا يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۚ إِنَّ اللهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ ﴾ کے اول وآخر علم کا ذکر ہے، اسی طرح آیت کریمہ: ﴿ هُوَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَىٰ عَلَى الْعَرْشِ ۚ يَعْلَمُ مَا يَلِجُ فِي الْأَرْضِ وَمَا يَخْرُجُ مِنْهَا وَمَا يَنزِلُ مِنَ السَّمَاءِ وَمَا يَعْرُجُ فِيهَا ۖ وَهُوَ مَعَكُمْ أَيْنَ مَا كُنتُمْ ۚ وَاللهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ ﴾میں بھی اول وآخر علم وبصارت اور استویٰ علی العرش کا ذکر ہے، اور آیت کریمہ ﴿ يَسْتَخْفُونَ مِنَ النَّاسِ وَلَا يَسْتَخْفُونَ مِنَ اللهِ وَهُوَ مَعَهُمْ إِذْ يُبَيِّتُونَ مَا لَا يَرْضَىٰ مِنَ الْقَوْلِ وَكَانَ اللهُ بِمَا يَعْمَلُونَ مُحِيطًا ﴾ کے اول وآخر بھی علم واحاطہ کی بات ہو رہی ہے۔ جس سے واضح ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ذاتی طور پر عرش پر مستوی ہیں، اور ان کی معیت ہمارے (مسلمانوں اور کافروں کے) ساتھ معیت علم واحاطہ ہے، جسے معیت عامہ کہتے ہیں، اس کی دلیل یہ حدیث بھی ہے: « والله فوق العرش وهو يعلم ما أنتم عليه » اس سے واضح ہوتا ہے اللہ تعالیٰ ذاتی طور پر عرش پر مستوی ہیں، اپنی مخلوق سے الگ ہیں، لیکن ان کے علم نے ہر شے کو گھیر رکھا ہے۔
  2. قرب کے مراد یا تو اپنا قرب علمی یا فرشتوں کا قرب ہے۔ فرمان باری: ﴿ وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ وَنَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِهِ نَفْسُهُ ۖ وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيد إِذْ يَتَلَقَّى الْمُتَلَقِّيَانِ عَنِ الْيَمِينِ وَعَنِ الشِّمَالِ قَعِيدٌ ﴾ کیونکہ شروع میں علم ﴿ونعلم ما توسوس به نفسه ﴾ اور آخر میں فرشتوں ﴿ إِذْ يَتَلَقَّى الْمُتَلَقِّيَانِ ﴾ کا ذکر ہے۔ جیسے فرمان باری ہے: ﴿ أَمْ يَحْسَبُونَ أَنَّا لَا نَسْمَعُ سِرَّهُمْ وَنَجْوَاهُم ۚ بَلَىٰ وَرُسُلُنَا لَدَيْهِمْ يَكْتُبُونَ ﴾
http://tanzil.net/#43:80 تمام مفسرین اور سلف صالحین ﷭ نے بھی ان نصوص کریمہ کا یہی معنیٰ کیا ہے۔
تو گویا معیت سے مراد اللہ کی معیت علمی یا تائیدی اور قرب سے ساتھ اللہ کا قرب علمی یا فرشتوں کے ساتھ قرب مراد ہے۔ لیکن اس سب سے اللہ تعالیٰ کی حقیقی معیت اور قرب کا انکار نہیں، جیسے ان کی شان کو لائق ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
 

رفیق طاھر

رکن مجلس شوریٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 04، 2011
پیغامات
790
ری ایکشن اسکور
3,982
پوائنٹ
323
یہاں پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے اور ابو بکر رضی اللہ عنہ کے لیے اس معیت کو خاص کرنے کا کیا مطلب تھا ؟
مہربانی فرما کر اس حوالے سے مکمل وضاحت فرمائیں ۔ امید ہے کہ اس نقطے سے اس مسئلے کا اونٹ کسی کروٹ بیٹھ سکتا ہے ۔
یہاں پر بھی رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کے ان اللہ معنا کہنے سے معیت حقیقی ہی مراد تھی !
یہ تو صرف آپ کا دعوى ہے کہ رسول اللہ صلى اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے معیت کو اپنے اور ابو بکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ خاص کیا تھا !!!
کیونکہ یہاں پر حصر وقصر کی کوئی دلیل موجود نہیں ہے ۔
پہلے اس کلام میں معیت الہی کو ان دونوں کے ساتھ خاص ہونے کی دلیل پیش فرمائیں اور باقیوں سے معیت کی نفی کی دلیل بھی دیں تاکہ کلام میں حصر ثابت ہو اور وہ بنیاد جس پر آپکا سوال استوار ہے صحیح ثابت ہو۔
جب بناء ہی غلط ہے تو سوال ہی غلط !!!
 

رفیق طاھر

رکن مجلس شوریٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 04، 2011
پیغامات
790
ری ایکشن اسکور
3,982
پوائنٹ
323
بالکل یہی بات سلف صالحین کہتے ہیں کہ جس طرح چاند اوپر ہونے کے باوجود ہمارے ساتھ ہوتا ہے اور اس کے ساتھ ہونے سے مراد اس کی روشنی کا ہم تک پہنچتے رہنا ہے ۔ اسی طرح اگر کوئی معتبر شخص کسی پریشان حال شخص سے کہہ دے کہ فکر نہ کرو ، میں تمہارے ساتھ ہوں تو اس کے ساتھ سے مراد اس کی مدد و اعانت کا ساتھ ہونا ہے ۔ یہی معاملہ اللہ تعالیٰ کی معیت کا ہے کہ وہ عرش پر رہتے ہوئے اپنے علم اور اپنی نصرت کے اعتبار سے ہمارے ساتھ ہے ۔ اس میں کوئی تاویل والی بات نہیں ۔
میں نے یہاں ایک دوسری مثال بھی دی تھی اور وہ صرف اسی لیے کہ آپ سے پہلے مثال کے جواب میں اسی تحریر کا یقین تھا
کہ
قاصد کے آتے آتے اک خط اور لکھ رکھوں
میں جانتا ہوں جو وہ لکھیں گے جواب میں
اس لیے ساتھ ہی دوسری مثال بھی دے دی تھی جسکا آپ نے تذکرہ تک کرنا مناسب نہیں سمجھا
 

ابن بشیر الحسینوی

رکن مجلس شوریٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
1,118
ری ایکشن اسکور
4,480
پوائنٹ
376

الآثار المروية في صفة المعية

تأليف: د. محمد بن خليفة التميمي



الخاتمة:
بعد هذا العرض للآثار الواردة في صفة المعية ولبعض المسائل المتعلقة بها أعرض أهم النتائج التي توصلت إليها من خلال هذا البحث فأقول:
أولاً: اتضح جلياً من خلال استقراء النصوص أن المعية تنقسم إلى قسمين هما:1- المعية العامة: والمراد بها معية العلم والاطلاع، وسميت عامة لأنها تعم الخلق جميعاً مؤمنهم وكافرهم، وبرهم وفاجرهم.
2- المعية الخاصة: والمراد بها معية النصرة والتأييد وسميت خاصة لأنها خاصة بأهل الإيمان.
ثانياً: تبين للقاريء الكريم إجماع السلف على تفسير آيات المعية العامة بأن المراد بها أن الله مع جميع الخلق بعلمه فهو مطلع على خلقه شهيد عليهم وعالم بهم، وقد نقل غير واحد من أهل العلم إجماع علماء السلف على تفسيرهم لآيات المعية العامة بذلك كما تقدم ذكره في المطلب الثاني.
ثالثاً: بإجماع السلف على تفسير المعية العامة بمعية العلم، لايبقى حجة لمدع بوجود تعارض بين آيات المعية وآيات العلو، وقد خصصت مطلباً أوردت فيه عدداً من النقول عن علماء السلف جاء فيها الجمع بين إثبات العلو وإثبات المعية موافقة لما نصت عليه إحدى آيات المعية، وهي الآية الرابعة من سورة الحديد
رابعاً: إن القول بمعية الذات لم يقم عليه دليل من كتاب ولا سنة ولم يقل به أحد من السلف، وأول من عرف عنه القول بذلك هم الجهمية والمعتزلة، وعنهم أخذ المتأخرون من الأشاعرة هذا القول، ومن أراد أن يعرف مصداق هذا فعليه بمطالعة كتاب الرد على بشر المريسي للدارمي المتوفى سنة ثمانين ومأتين، الذي ذكر هذا القول عن بشر وشيوخه،حيث قال: "وزعمت أنت والمضلون من زعمائك أنه في كل مكان..." ـ انظر الرد على بشر المريسي ـ ضمن عقائد السلف ـ ص (454) وقد كان ذلك قبل أن تظهر الأشعرية والماتريدية.
خامساً: إن ماينادي به متأخرو الأشاعرة من القول بأن الله في كل مكان واحتجاجهم على ذلك بآيات المعية، يناقض ما كان عليه أوائل الأشاعرة، والذين تقدم ذكر بعض أقوالهم وإقرارهم بعلو الله وتفسيرهم لنصوص المعية بما عليه قول أهل السنة، وردهم لزعم من قال بأن الله في كل مكان .
سادساً: إن استدلال هؤلاء المعطلة بنصوص المعية على زعمهم الباطل، لا يتفق مع أصلهم الذي أصلوه في هذا الباب وهو عدم احتجاجهم بنصوص القرآن والسنة، واعتمادهم على عقولهم، وصنيعهم هنا يصدق عليه قول شيخ الإسلام ابن تيمية حيث قال: "وكثير ممن يكون قد وضع دينه برأيه وذوقه يحتج من القرآن بما يتأوله على غير تأويله، ويجعل ذلك حجة لاعمدة، وعمدته في الباطن على رأيه كالجهمية والمعتزلة في الصفات والأفعال.." النبوات ص [129]
وفي الختام فهذا جهدي أقدمه لإخواني القراء، فما كان فيه من صواب فمن الله وحده، وما كان فيه من خطأ فمني وأستغفر الله، وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين، وصلى الله على نبينا محمد وعلى آله وصحبه وسلم.
 
Top