- شمولیت
- ستمبر 26، 2011
- پیغامات
- 2,767
- ری ایکشن اسکور
- 5,410
- پوائنٹ
- 562
بات کچھ سمجھ میں نہیں آئی۔ یا شاید آپ تاریخی حقائق کو خلط ملط کرگئےبات آپ کی بالکل ٹھیک ہے ۔ سوال تو یہی ہے کہ جب مسلمانوں کی حکمرانی کافر سے اچھی تو مسلمانوں کی آدھی سے زیادہ آبادی کو کافر کی حکمرانی میں چھوڑ گئے ۔ اس نصیحت کےساتھ کہ ان کافروں کی فرمانبرداری کرتے رہو۔
According to Indian Government the total percentage of Muslim in India is in between 11% to 12%. Since the independence of India in 1947 the percentage of Muslim in government census has remained same, i,e, 12% or less.
In an interview with a well circulated newspaper of India "The Hindu" (Friday, October 01, 1999) MR. Justice K. M. Yusuf, a retired Judge from Calcutta High Court and chairman of West Bengal Minority Commission, says that in his view
the total percentage of Muslims in India is at least 20 %.
To put it in broader perspective, Muslim population has steadily grown from 13% in 1800 to 16% in 1850 to 20% in 1900 to 25% in 1947 and anywhere between 30 to 33% today taking into account the geographical area of pre-partitioned India. These statistics are available from various sources.
- 1947 سے پہلے (نام نہاد) متحدہ ہندوستان پر انگریز کافروں کی حکومت تھی۔ انگریز نے یہ اقتدار مسلمانوں سے چھینی تھی۔ قبل ازیں مسلمان یہاں حکمران تھے۔ ہندو ان دونوں ادوار میں ”محکوم“ تھے۔
- انگریز بوجوہ ہندوستان سے واپس جارہا تھا اور یہ صاف صاف نظر آرہا تھا کہ انگریزوں کے جانے کے بعد ہندوستان میں ”ڈیموکریسی“ نظام حکومت قائم ہوگا۔ جس میں عددی اکثریت کی بنیاد پر حکمران چنے جاتے ہیں۔ 1947 میں ہندوستان میں مسلم آبادی 25٪ سے زائد نہ تھی۔
- گویا مسلمانوں کے پاس ایک آپشن تو یہ تھا کہ انگریزوں کے جانے کے بعد ”متحدہ ہندوستان“ میں ڈیمو کریسی نظام حکومت کے تحت عملاً ہندوؤں کے غلام بن کر رہتے۔ اور ہندو ہم سے ”اپنی سینکڑوں سالہ غلامی“ کا خوب خوب بدلہ لیتا۔ کیا غیر ملکی انگریزوں کی غلامی سے زیادہ بھیانک مقامی ہندوؤں کی غلامی نہ ہوتی؟
- مسلمانوں نے اس آپشن کی بجائے پاکستان بنانے کا آپشن استعمال کیا۔ تاکہ دنیا کی سب سے بڑی مسلم ریاست ہونے کے سبب پوری مسلم دنیا کی ”غیر اعلانیہ“ ہمدردی اور سپورٹ حاصل ہو۔ اور یہی مسلمان ریاست، بھارت میں رہ جانے والے مسلمانوں کی بقا کی ”ضامن“ بھی بنے۔ کیونکہ پاکستان بین الاقوامی فورمز میں بالعموم اور مسلم دنیا میں بالخصوص بھارت کے اقلیتی مسلمانوں کی جان و مال، عزت آبرو کو لاحق خطرات کو منظر عام پر لا سکتا ہے۔ پاکستان کی عدم موجودگی میں ہندوستان کے مسلمانوں کے ساتھ ہندو حاکموں کا کوئی بھی نامناسب رویہ اول تو بیرونی دنیا تک پہنچنے ہی نہیں دیا جانا۔ اور اگر کوئی بات باہر نکل بھی جائے تو ہندوستان اسے اپنا ”اندرونی معاملہ“ قرار دے سکتا ہے۔
- بھارت پاکستان سے بہت بڑا سہی لیکن نیپال کے بعد یہ دنیا کا واحد ”ہندو ملک“ ہے جبکہ پاکستان کے ساتھ ایسا نہیں ہے۔ درجنوں مسلم ملک پہلے سے موجود تھے، جن میں پاکستان سب سے بڑا ملک تھا۔ اس لئے ورلڈ کمیونیٹی بھارت اور پاکستان کو ”دو ملک“ ہی سمجھتی۔ 1965 کی پاک بھارت جنگ میں پاکستان نے اپنا پلہ بھاری ثابت کرکے دنیا کو دکھلا دیا کہ پاکستان چھوٹا سہی، لیکن بھارت سے کسی صورت کم نہیں۔
- پاکستان کے دو لخت ہونے کے باوجود پاکستان بھارت کے ”ہم پلہ فوجی قوت“ کا حامل ہے کہ دونوں ایٹمی ملک ہیں۔ اگر دونوں ملکوں میں باقاعدہ کوئی جنگ ہوئی تو یہ ایٹمی جنگ ہوگی۔ جس میں نہ صرف یہ کہ پورا پاکستان بلکہ پورا بھارت تباہ ہوجائے گا اور اس ایٹمی جنگ کے اثرات پوری دنیا پر پڑیں گے۔ اور دنیا کبھی بھی ایسا نہیں ہونے دے گی۔ بالخصوص بھارت سے ہر اعتبار سے بڑا جوہری ملک چین کبھی بھی ایسا نہیں ہونے دے گا کہ اس ایٹمی جنگ کے سائیڈ ایفیکٹس سب سے زیادہ چین پر ہی پڑیں گے۔
- آج بھارتی مسلمانوں پر جو ”مزید مظالم“ نہیں ہورہے، اس کا واحد سبب پاکستان بلکہ جوہری پاکستان ہے۔ بھارت کے تجارتی مراسم مسلم عرب ورلڈ سے بہت زیادہ ہیں۔ بھارتی باشندوں بشمول ہندوؤں کی کثیر تعداد ان ممالک میں روزگار حاصل کر رہی ہے۔ بھارت میں کوئی بھی” اینٹی مسلم ایکشن“ ان عرب ممالک میں بھارت کے مفادات کو نقصان پہنچا سکتا ہے، جس سے بھارت بخوبی واقف ہے۔
- صرف ایک مثال۔ جب بھارت میں بابری مسجد کو شہید کیا گیا تو ہم نے اس کی ویڈیو کو سعودی عرب کے مختلف شہروں وسیع پیمانے پر پھیلایا۔ پاکستانی کمیونٹی میں ان ڈور احتجاجی جلسے کئے۔ حتی کہ مساجد کے باہر پوسٹر بھی لگوائے۔ سعودی عرب میں رہنے والے پاکستانی اور بھارتی یہ بخوبی جانتے ہیں کہ وہاں ایسی سرگرمیوں کے کیا معنی ہیں۔ لیکن یہ ایشو ایسا تھا کہ ہمیں مقامی آبادی سے غیر اعلانیہ ”حمایت“ ملتی رہی۔ انہی دنوں ہمیں خبر ملی کہ بھارت سے آٹھ دس (صحیح تعداد یاد نہیں، مگر دس سے کم تھے) ہندو پروفیسرز کنگ فہد یونیورسٹی کے لئے منتخب ہوچکے ہیں اور وہ کسی بھی وقت جواننگ کے لئے سعودیہ آ سکتے ہیں۔ ہم پاکستانیوں نے بابری مسجد کے احتجاجی پروگرام ہی کے دوران مقامی سعودیوں کے تعاون سے ہندوؤں کی اس تازہ ریکروٹمنٹ کے خلاف مہم چلائی اور اسے منسوخ کروایا۔ کیا بھارتی حکومت کو اس سے کوئی ”پیغام“ نہیں ملا ہوگا؟