• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

’’خارجیت، سبائیت اورشیعیت‘‘ بجواب ’’رافضیت ، ناصبیت اوریزیدیت‘‘ (نقد وتبصرے)۔

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
760
پوائنٹ
290
اقبال مرحوم نے تو کافی کہا هے ۔ مثلا:
باپ کا علم نا بیٹے کو اگر ازبر هو
پہر پسر قابل میراث پدر کیوں کر هو !

تو نا مٹ جائیگا ایران کے مٹ جانے سے

اللہ کی مرضی کے بغیر کسی درخت کا پتہ بهی نہیں هلتا ۔ ماضی پر رونا خود رویا ۔ کوسنے خود دیئے جا رہے ہو ۔ ہم کو کہیں پلٹنا هے ہی نہیں بلکہ ثابت قدم رهنا هے آزمائشوں میں اور فی الحال حتی الامکان فتنوں سے بچنا بهی هے ۔ آپ روتے رہیں اور ماضی کو کوستے رہیں هم حالات حاضرہ اور ماضئ قریب کا مشاهدہ کر رہے ہیں ۔
ایک سوال :
مستقبل کی تخطیط اسلاف کو مورد الزام ٹهہرا کر کرنے کا مشورہ آپکو کس نے دیا؟
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
قال الدارقطني له صحبة ولم يكن له استقامة بعد النبي صلى الله عليه وسلم
ترجمہ: امام دارقطنی فرماتے ہیں کہ اگرچہ انہوں نےصحبت اٹھائی ہے مگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد استقامۃ پر نہیں رہے۔
اس کا صاف مطلب یہ کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں ایک سیدنا الامام معاویہ ؓ ہی نہیں ، دیگر اصحاب گرامی بھی اس مجہول شخص کے ہدف طعن ہیں ،
اور اگر جرح و تعدیل کے کسی مصدر سے صحابہ کرام ؓ پر نقد و جرح ہوسکتی ہے اور ان کی عدالت کے خلاف مضمون نگاری کا دروازہ کھلا ہے
تو لیجئے صاحب پہلے اوپر سے شروع کرتے ہیں ، پھر درجہ بدرجہ نیچے آئیں گے ،

اور پاکستان کے مخفی رافضیوں کی نقاب کشائی تک یہ سلسلہ ۔۔ ان شاء اللہ ۔۔ جاری رہے گا،

یہ بات تمام قارئین کو واضح رہے کہ میری پوسٹ کے جواب میں صرف ( 786 )نامی ناقد صحابہ کو لکھنے کی اجازت ہے ،
واللہ الموفق و المستعان؛
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سیدنا الامام عثمان بن عفان ذوالنورین
کی شہادت تاریخ اسلامی کی سب سے المناک شہادت ہے ،
اس خلیفہ راشد ،داماد رسول ﷺ کو بغیر کسی قصور و خطا کے مدینہ منورہ میں کئی روز محاصرے کی
اذیت سے دوچار کرکے بے دردی سے مظلومانہ شہید کردیا گیا ،
محاصرے کرنے والے باغی مختلف علاقوں سے منگوائے تھے ، تاکہ ثابت کیا جاسکے کہ پورا عالم اسلام خلیفہ راشد سے منحرف ہے ،انہی شرپسندوں میں کوفی لوگ بھی تھے ، جن کا سرغنہ مالک بن حارث اشتر نخعی بھی تھا ، امت اسلامیہ میں سب سے مظلومانہ قتل ، قتلِ عثمان سے کچھ دیر قبل سیدنا عثمان نے اسی اشتر نخعی کو مذاکرات کیلئے طلب فرمایا تھا :
امام ابن سعد نے شہادت عثمان کے ضمن میں ایک تفصیلی روایت بسندہ نقل فرمائی ہے ، جس سے ایک اقتباس کہ :
’’ قال: " بعثني عثمان فدعوت له الأشتر فجاء، قال ابن عون: أظنه قال: فطرحت لأمير المؤمنين وسادة، وله وسادة، قال: " يا أشتر، ما يريد الناس مني؟ قال: ثلاث، ليس لك من إحداهن بد، قال: ما هن؟ قال: يخيرونك بين أن تخلع لهم أمرهم فتقول: هذا أمركم فاختاروا له من شئتم، وبين أن تقص من نفسك , فإن أبيت هاتين فإن القوم قاتلوك , قال: أما من إحداهن بد؟ قال: لا , ما من إحداهن بد، قال: أما أن أخلع لهم أمرهم فما كنت لأخلع سربالا سربلنيه الله، قال: وقال غيره: والله لأن أقدم فتضرب عنقي أحب إلي من أن أخلع أمة محمد بعضها على بعض، قالوا: هذا أشبه بكلام عثمان , " وأما أن أقص من نفسي، فوالله لقد علمت أن صاحبي بين يدي قد كانا يعاقبان وما يقوم بد في القصاص , وأما أن تقتلوني، فوالله لئن قتلتموني لا تتحابون بعدي أبدا، ولا تصلون بعدي جميعا أبدا، ولا تقاتلون بعدي عدوا جميعا أبدا , ثم قام فانطلق، فمكثنا، فقلنا: لعل الناس , فجاء رويجل كأنه ذئب فاطلع من باب ثم رجع , فجاء محمد بن أبي بكر في ثلاثة عشر رجلا حتى انتهى إلى عثمان فأخذ بلحيته، فقال بها حتى سمع وقع أضراسه،،
(الطبقات الکبری ج ۳)
سیدنا الامام عثمان بن عفان کا ایک خادم نقل کرتا ہے کہ جناب عثمان ؓ نے مجھے اشتر نخعی کو بلانے بھیجا ، میں اشتر نخعی کو بلا لایا ، تو ایک تکیہ سیدنا عثمان کیلئے اور ایک اشتر کیلئے لگایا گیا ،
سیدنا الامام عثمان نے اس سے پوچھا کہ یہ باغی مجھ سے کیا چاہتے ہیں ،
مالک اشتر نے کہا کہ : تین باتیں ، جن میں سے آپ کو کوئی ایک مانے بغیر چارہ نہیں ،
سیدنا عثمان نے پوچھا : وہ تین باتیں کیا ہیں ؟
اس نے کہا : ایک تو یہ کہ آپ ان کے حق میں خلافت سے دست بردار ہوجائیں ، اور کہہ دیں تمہیں اختیار ہے جسے چاہو اپنا امیر مقرر کرلو ؛
اور (دوسری بات یہ کہ ) آپ انہیں اپنے سے قصاص لینے دیں ،
اور (تیسری یہ کہ ) اگر آپ کو یہ دونوں باتیں قبول نہ ہوں تو وہ آپ سے جنگ کریں گے ،
آپ نے فرمایا : کیا ان میں سے کسی ایک کے بغیر چارہ نہیں ؟
اس نے کہا نہیں ،
آپ نے فرمایا : یہ تو ممکن نہیں کہ میں خلافت سے دست بردار ہوجاؤں ،
میں (خلافت کے ) اس کرتے کو اتارنے والا نہیں ، جو مجھے اللہ نے پہنایا ہے ،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پھر مالک اشتر اٹھ کر چلا گیا ،
ہم دیکھنے لگے کہ کیا (رد عمل ہوتا ہے ) شاید وہ لوگ مان جائیں ؛
اتنے میں ایک شخص جو بھیڑئے کی مانند تھا آیا ،
وہ دروازے سے جھانک کے پلٹ گیا ،
پھر محمد بن ابی بکر تیرہ آدمیوں کے ساتھ آیا ، وہ اندر سیدھا سیدنا عثمان کے پاس پہنچا ،اور آپ کی داڑھی مبارک پکڑ لی اور اسے کھینچا ،اس کے داڑھیں گرنے کی آواز آئی ، ((اس سے آگے کی صورتحال نہ میں لکھ سکتا ہوں ، نہ ایمان والے پڑھ سکتے ہیں))‘‘ ( طبقات ابن سعد )
اس روایت سے پتا چلتا ہے کہ مالک بن حارث الاشتر کا شرپسندوں میں اہم مقام تھا، جس کی بناء آخری وقت اسی سے گفتگو کی گئی ،اس نے شہادت عثمانؓ کے بعدسیاسی اور جنگی میدان میں بہت اہم رول ادا کیا ،

اس کے متعلق درج ذیل حقیقت پیش ہے ،
جن دنوں ظالم باغیوں نے ان کے گھر کا محاصرہ کیا ہوا تھا ، اس دوران ام المومنین سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا اپنے گھر سے سیدنا الامام عثمان ؓ کیلئے کھانا پینا بھیجنے کی کوشش کرتی رہتیں تھیں ،
ایک روز وہ خود سیدنا عثمان کی خبرگیری و مدد کیلئے نکلیں ،امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ تاریخ کبیر میں روایت کرتے ہیں کہ :
وقَالَ أَحْمَد بْن يُونُس: حدَّثنا زُهَير، قال: حدَّثنا كِنانةَ، مَولَى صَفيَّة، قَالَ: كنتُ أقود بصَفيَّة لِتَرُدَّ عَنْ عُثمان، فلقيها الأَشتر، فضرب وجه بغلتها، حتى قَالَت: ردوني، ولا يفضحني هذا الكلب
(التاریخ الکبیر للبخاری )
یعنی سیدہ صفیہ ؓ کے غلام سیدنا کنانہؒ فرماتے ہیں کہ : امام عثمان ؓ کے دفاع میں
سیدہ صفیہ ؓ ایک خچر پر سوار ہوکر نکلیں ، میں انکے خچر کو ہانک رہا تھا ، راستہ میں مالک بن حارث اشتر ملا ،
اس نے سیدہ کو روکا اور خچر کے منہ پر مارنے لگا ، اس پر سیدہ صفیہ نے فرمایا : مجھے واپس لے چلو تاکہ یہ کْتا مجھے رسوا نہ کرے ‘‘(امام ابن حجر عسقلانی نے اس روایت کو حسن کہا ہے )
یہی روایت امام ابن حجر نے ( الاصابہ ) میں ان الفاظ سے نقل کی ہے :
وأخرج ابن سعد أيضا بسند حسن عن كنانة مولى صفية، قال: قدمت بصفية بغلة لتردّ عن عثمان، فلقينا الأشتر فضرب وجه البغلة، فقالت: ردّوني لا يفضحني ( الإصابة في تمييز الصحابة جلد ۸ ص۲۱۲ )
بعد میں ان لوگوں نے سیدنا عثمانؓ کو بڑی بے دردی سے قتل کردیا ،

اب منظر بدلتا ہے ، یہی مالک بن حارث اشتر جناب علی کی بیعت کیلئے سرگرم ہوتا ہے ،
اور یہی سب سے پہلا شخص ہے جس نے جناب علیؓ کے ہاتھ پر بیعت کی ،
طبری اپنی سند سے بیعت علی کی ابتدائی صورت حال تفصیل سے نقل کرتے ہیں کہ :
وحدثني عمر بن شبة، قال: حدثنا أبو الحسن المدائني، قال: أخبرنا مسلمة بن محارب، عن داود بن أبي هند، عن الشعبي، قال: لما قتل عثمان رضي الله عنه أتى الناس عليا وهو في سوق المدينة، وقالوا له: ابسط يدك نبايعك، ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فعادوا إلى علي، فأخذ الأشتر بيده فقبضها علي، فقال:
أبعد ثلاثة! أما والله لئن تركتها لتقصرن عنيتك عليها حينا، فبايعته العامة وأهل الكوفة يقولون: إن أول من بايعه الأشتر ‘‘

(تاریخ طبری باب خلافة أمير المؤمنين علي بن أبي طالب )
اب ہمیں اس پر تبصرہ کی ضرورت نہیں کہ :
سیدنا الامام عثمان ؓ جو نبی مکرم کی دو صاحبزادیوں کے شوہر تھے ، اور صحابہ کرام کے متفقہ خلیفہ راشد تھے اور زبان نبوت سے جنت کے مستحق ہونے کا اعزاز رکھتے تھے ،ان کی خلافت کا باغی اور قاتلین کا سردار
اشتر نخعی جناب علیؓ کی بیعت کیلئے کوشاں ہے اور سب سے پہلے ان کے ہاتھ پر بیعت کرنے کا شرف پاتا ہے
تو بنو امیہ اور سیدنا الامام معاویہؓ کو اس خلافت کی بیعت نہ کرنے پر مطعون کرنا کہاں کا انصاف اور کہاں کی دانشمندی ہے ، ؟؟؟؟
 
Last edited:

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
کس طرح ان بنو مروان اور بنو امیہ میں سے کچھ حکمرانوں نے دین کو برباد کیا خلافت کو برباد کیا ہے اس کے لئے میں نے کسی تاریخ کی کتب کا حوالہ نہیں دیا ہے میں پھر عرض کر رہا ہوں میں نے کتب احادیث سے سب بیان کیا ہے۔
بنو مروان اور بنو امیہ تو بعد میں آئے ، اس لئے ان پر لگائے گئے الزامات کا بعد میں پوسٹ مارٹم کریں گے ،
فی الحال جناب علی رضی اللہ عنہ کی خلافت اور ان کے مقربین خاص کا تذکرہ و تعارف کروانا لازم ہے ، تاکہ پتا چلے کہ
خلافت و حکومت کیلئے کس نے کیا کیا راستہ اپنایا ۔۔۔۔
یہ رافضیوں اور مودودیوں کا پھیلایا ہوا مسموم پروپیگنڈا ہے کہ : بنو امیہ نے خلافت سے ہاتھ جھاڑ کر ملوکیت اپنالی تھی
مالک بن حارث اشتر نخعی جناب علی ؓ کے مقرب خاص ہیں ، اور جیسا کہ پہلی پوسٹ میں گزرا کہ حضرت علی کے ہاتھ سب سے پہلے بیعت کرنے
والے صاحب اشتر نخعی ہی ہیں ، جو سیدنا الامام عثمان رضی اللہ عنہ کے قاتلین میں سے کوفیوں کے سرغنہ تھے ،
امام ابن ابی شیبہ نے مصنف میں ’’ کتاب الجمل و صفین ‘‘ میں ایک مفصل روایت بیان کی ہے ، جس میں جنگ کے ضمن میں کے کچھ مناظر کے ضمن میں یہ بھی ہے کہ وہاں الاشتر نخعی کو بتایا گیا کہ جناب علی ؓ نے اپنے چچا زاد جناب ابن عباسؓ کو بصرہ کا امیر بنادیا ہے تو قاتل عثمان اشتر کا رد عمل ملاحظہ فرمائیں :
’’هذا أمير مؤمنيكم قد استولى ابن عمه على البصرة , وزعم أنه سائر إلى الشام يوم كذا وكذا , قال:
قال له الأشتر: أنت سمعته يا أعور؟ قال: إي والله يا أشتر لأنا سمعته بأذني هاتين ,
فتبسم تبسما فيه كشور , قال: فقال: فلا ندري إذا علام قتلنا الشيخ بالمدينة؟

کہ جناب علی ؓ نے
اپنے چچا زاد جناب ابن عباسؓ کو بصرہ کا امیر مقرر فرمایا ہے ، اشتر یہ سن کر خبر دینے والے سے کہنے لگا ،
اے کانے ! تو نے یہ خبر خود اپنے کانوں سے سنی ہے ؟
اس نے کہا : اللہ کی قسم میں خود اپنے کانوں سے یہ خبر سنی ہے ، تو اشتر نے ہنستے ہوئے کہا :
(اچھا یہ بات ہے ) تو پھر ہم نے اس بوڑھے (سیدنا عثمانؓ ) کو مدینہ میں کس لئے قتل کیا ؟
(مصنف ابن ابی شیبہ )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مطلب صاف ہے کہ :
قتل عثمان میں شریک اشتر نخعی جو بعد میں حضرت علی کی طرف سے جنگ جمل میں اہم منصب پر قائم ہو کر لڑا
اسے بڑی توقع رہی ہوگی کہ قتل امام کے صلہ کوئی اہم منصب مجھے بھی ضرور ملے ، سو بصرہ کی امارت کی سیٹ سامنے تھی وہی
اسکی خوابوں کا محل بن گئی ، لیکن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سیدنا ابن عباس ؓ کی وہاں تقرری نے یہ خواب چکنا چور کردیا ،
اور اس کے منہ کڑوی بات نکل گئی ، کہ امام عثمان کو قتل تو ہم کریں ،اور اس کے بعد اہم مناصب دوسروں کو مل جائیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
بانی جماعت اسلامی مودودی صاحب بھی یہ بات تسلیم کرتے ہیں، کہ سیدنا الامام عثمان ؓ کے قاتلین نے جناب علی ؓ کی حکومت کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا ۔مولانا موصوف لکھتے ہیں:

’’حضرت علیؓ کو خلیفہ بنانے میں وہ لوگ شریک تھے جو حضرت عثمانؓ کے خلاف شورش برپا کرنے کے لیے باہر سے آئے ہوئے تھے۔ ان میں وہ لوگ بھی شامل تھے جنہوں نے بالفعل جرم قتل کا ارتکاب کیا اور وہ بھی جو قتل کے محرک اور اس میں اعانت کے مرتکب ہوئے۔ اور ویسے مجموعی طور پر اس فساد کی ذمہ داری ان سب پر عائد ہوتی تھی، خلافت کے کام میں ان کی شرکت ایک بہت بڑے فتنے کا موجب بن گئی‘‘
(خلافت و ملوکیت ص ۱۲۳)
 

abdullah786

رکن
شمولیت
نومبر 24، 2015
پیغامات
428
ری ایکشن اسکور
25
پوائنٹ
46
ا
بانی جماعت اسلامی مودودی صاحب بھی یہ بات تسلیم کرتے ہیں، کہ سیدنا الامام عثمان ؓ کے قاتلین نے جناب علی ؓ کی حکومت کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا ۔مولانا موصوف لکھتے ہیں:

’’حضرت علیؓ کو خلیفہ بنانے میں وہ لوگ شریک تھے جو حضرت عثمانؓ کے خلاف شورش برپا کرنے کے لیے باہر سے آئے ہوئے تھے۔ ان میں وہ لوگ بھی شامل تھے جنہوں نے بالفعل جرم قتل کا ارتکاب کیا اور وہ بھی جو قتل کے محرک اور اس میں اعانت کے مرتکب ہوئے۔ اور ویسے مجموعی طور پر اس فساد کی ذمہ داری ان سب پر عائد ہوتی تھی، خلافت کے کام میں ان کی شرکت ایک بہت بڑے فتنے کا موجب بن گئی‘‘
(خلافت و ملوکیت ص ۱۲۳)
محترم،
اگر اپ مکمل کر چکے ہیں تو میں کچھ عرض کروں وگرنہ اپ اس میں کچھ اور اضافہ کرنا چاہتے ہیں تو پھر میں اپ کی بات مکمل ہونے کا انتظار کروں۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
ا

محترم،
اگر اپ مکمل کر چکے ہیں تو میں کچھ عرض کروں وگرنہ اپ اس میں کچھ اور اضافہ کرنا چاہتے ہیں تو پھر میں اپ کی بات مکمل ہونے کا انتظار کروں۔
انتظار کی ضرورت نہیں ، آپ اپنا جواب لکھیں ،
 

abdullah786

رکن
شمولیت
نومبر 24، 2015
پیغامات
428
ری ایکشن اسکور
25
پوائنٹ
46
اقبال مرحوم نے تو کافی کہا هے ۔ مثلا:
باپ کا علم نا بیٹے کو اگر ازبر هو
پہر پسر قابل میراث پدر کیوں کر هو !

تو نا مٹ جائیگا ایران کے مٹ جانے سے

اللہ کی مرضی کے بغیر کسی درخت کا پتہ بهی نہیں هلتا ۔ ماضی پر رونا خود رویا ۔ کوسنے خود دیئے جا رہے ہو ۔ ہم کو کہیں پلٹنا هے ہی نہیں بلکہ ثابت قدم رهنا هے آزمائشوں میں اور فی الحال حتی الامکان فتنوں سے بچنا بهی هے ۔ آپ روتے رہیں اور ماضی کو کوستے رہیں هم حالات حاضرہ اور ماضئ قریب کا مشاهدہ کر رہے ہیں ۔
ایک سوال :
مستقبل کی تخطیط اسلاف کو مورد الزام ٹهہرا کر کرنے کا مشورہ آپکو کس نے دیا؟
محترم،
اپ نے لکھ تو دیا کہ"
اللہ کی مرضی کے بغیر کسی درخت کا پتہ بهی نہیں هلتا"
اس سے اپ تقدیر پر ایک نئی بحث شروع کر دیں گے جس کا یہاں کوئی جواز نہیں ہے
اس کے لئے یہی سمجھنا کافی ہے اگر اللہ کی مرضی کے بغیر پتہ نہیں ہلتا تو پھر کسی کے بھی جرم پر کوئی مواخذہ نہیں ہونا چاہیے تھا کیوں کہ اس نے جو کیا سب اللہ کی مرضی سے تھا۔
بارحال میں اس پر کوئی اور بحث نہیں کروں گا اس سے ہم اصل موضوع سے دور ہو جائیں گےاس لئے اس تھریڈ کا جو موضوع ہے اس کی طرف چلتے ہیں اپ نے پوچھا کہ"مستقبل کی تخطیط اسلاف کو مورد الزام ٹهہرا کر کرنے کا مشورہ آپکو کس نے دیا"
اگر اپ کے اسلاف ابن زیاد مروان حجاج اور ان جیسے دین کو برباد کرنے والے لوگ تھے تو یہ اسلاف اپ کو ہی مبارک ہوں اس معاملہ میں میں کبھی پہل نہیں کرتاجب اپ جیسے کرم فرما ان جیسے دین کو برباد کرنے والوں کو دین کا خیر خواہ نیک صالح اور دین کی ترقی کا ضامن کہتے ہیں اس وقت میں جوابا کہتا ہوں کہ یہ دین برباد کرنے والے لوگ تھے اور انہوں نے دین کو کوئی فائدہ نہیں دیا ہے صرف دین میں تبدیلیاں کی ہیں۔ اور مسلمانوں کو اس خلافت سے ہٹا کر ملوکیت کی راہ پر دھکیل دیا ہے کہ آج تک واپسی کا راستہ نہیں ملا اور میرا رونے سے مراد یہ نہیں کہ میں کوئی راوفض کی طرح ماتم کندہ ہوں میں اس کے احیاء کے لیے کوشش کرتا ہوں اور جب یہ بات آتی ہے کہ یہ برباد کیسے اور کس نے کی اس وقت ضرور بتاتا ہوں کہ یہ کس طرح برباد ہوئی اور کن کی وجہ سے ہوئی۔
خود طلسم قیصر و کسریٰ شکست
خود سر تخت ملوکیت نشست
اللہ سب کو یہ سمجھنے کی توفیق عطا کرے کہ خلافت کے بغیر مسلمان کا ایک دن بھی رہنا عذاب سے کم نہ ہو جب تک اس کے لیے کوشش نہ کرے چاہے ہاتھ سے زبان سے یا دل میں ھی اس ملوکیت کو برا جانے۔اللہ سب کو ہدایت دے
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
760
پوائنٹ
290
المختصر۔۔۔
آپ محترم استاذ اسحاق سلفی ، اللہ انہیں آزمائشوں میں ثابت قدمی عطاء کرے ، کے سوالات کے جوابات دیں ۔ ہم سب منتظر ہیں ۔ جوابات بالدلیل ہوں ۔
ہم منتظر ہیں ۔
 

abdullah786

رکن
شمولیت
نومبر 24، 2015
پیغامات
428
ری ایکشن اسکور
25
پوائنٹ
46
اس کا صاف مطلب یہ کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں ایک سیدنا الامام معاویہ ؓ ہی نہیں ، دیگر اصحاب گرامی بھی اس مجہول شخص کے ہدف طعن ہیں ،
اور اگر جرح و تعدیل کے کسی مصدر سے صحابہ کرام ؓ پر نقد و جرح ہوسکتی ہے اور ان کی عدالت کے خلاف مضمون نگاری کا دروازہ کھلا ہے
تو لیجئے صاحب پہلے اوپر سے شروع کرتے ہیں ، پھر درجہ بدرجہ نیچے آئیں گے ،

اور پاکستان کے مخفی رافضیوں کی نقاب کشائی تک یہ سلسلہ ۔۔ ان شاء اللہ ۔۔ جاری رہے گا،

یہ بات تمام قارئین کو واضح رہے کہ میری پوسٹ کے جواب میں صرف ( 786 )نامی ناقد صحابہ کو لکھنے کی اجازت ہے ،
واللہ الموفق و المستعان؛
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سیدنا الامام عثمان بن عفان ذوالنورین
کی شہادت تاریخ اسلامی کی سب سے المناک شہادت ہے ،
اس خلیفہ راشد ،داماد رسول ﷺ کو بغیر کسی قصور و خطا کے مدینہ منورہ میں کئی روز محاصرے کی
اذیت سے دوچار کرکے بے دردی سے مظلومانہ شہید کردیا گیا ،
محاصرے کرنے والے باغی مختلف علاقوں سے منگوائے تھے ، تاکہ ثابت کیا جاسکے کہ پورا عالم اسلام خلیفہ راشد سے منحرف ہے ،انہی شرپسندوں میں کوفی لوگ بھی تھے ، جن کا سرغنہ مالک بن حارث اشتر نخعی بھی تھا ، امت اسلامیہ میں سب سے مظلومانہ قتل ، قتلِ عثمان سے کچھ دیر قبل سیدنا عثمان نے اسی اشتر نخعی کو مذاکرات کیلئے طلب فرمایا تھا :
امام ابن سعد نے شہادت عثمان کے ضمن میں ایک تفصیلی روایت بسندہ نقل فرمائی ہے ، جس سے ایک اقتباس کہ :
’’ قال: " بعثني عثمان فدعوت له الأشتر فجاء، قال ابن عون: أظنه قال: فطرحت لأمير المؤمنين وسادة، وله وسادة، قال: " يا أشتر، ما يريد الناس مني؟ قال: ثلاث، ليس لك من إحداهن بد، قال: ما هن؟ قال: يخيرونك بين أن تخلع لهم أمرهم فتقول: هذا أمركم فاختاروا له من شئتم، وبين أن تقص من نفسك , فإن أبيت هاتين فإن القوم قاتلوك , قال: أما من إحداهن بد؟ قال: لا , ما من إحداهن بد، قال: أما أن أخلع لهم أمرهم فما كنت لأخلع سربالا سربلنيه الله، قال: وقال غيره: والله لأن أقدم فتضرب عنقي أحب إلي من أن أخلع أمة محمد بعضها على بعض، قالوا: هذا أشبه بكلام عثمان , " وأما أن أقص من نفسي، فوالله لقد علمت أن صاحبي بين يدي قد كانا يعاقبان وما يقوم بد في القصاص , وأما أن تقتلوني، فوالله لئن قتلتموني لا تتحابون بعدي أبدا، ولا تصلون بعدي جميعا أبدا، ولا تقاتلون بعدي عدوا جميعا أبدا , ثم قام فانطلق، فمكثنا، فقلنا: لعل الناس , فجاء رويجل كأنه ذئب فاطلع من باب ثم رجع , فجاء محمد بن أبي بكر في ثلاثة عشر رجلا حتى انتهى إلى عثمان فأخذ بلحيته، فقال بها حتى سمع وقع أضراسه،،
(الطبقات الکبری ج ۳)
سیدنا الامام عثمان بن عفان کا ایک خادم نقل کرتا ہے کہ جناب عثمان ؓ نے مجھے اشتر نخعی کو بلانے بھیجا ، میں اشتر نخعی کو بلا لایا ، تو ایک تکیہ سیدنا عثمان کیلئے اور ایک اشتر کیلئے لگایا گیا ،
سیدنا الامام عثمان نے اس سے پوچھا کہ یہ باغی مجھ سے کیا چاہتے ہیں ،
مالک اشتر نے کہا کہ : تین باتیں ، جن میں سے آپ کو کوئی ایک مانے بغیر چارہ نہیں ،
سیدنا عثمان نے پوچھا : وہ تین باتیں کیا ہیں ؟
اس نے کہا : ایک تو یہ کہ آپ ان کے حق میں خلافت سے دست بردار ہوجائیں ، اور کہہ دیں تمہیں اختیار ہے جسے چاہو اپنا امیر مقرر کرلو ؛
اور (دوسری بات یہ کہ ) آپ انہیں اپنے سے قصاص لینے دیں ،
اور (تیسری یہ کہ ) اگر آپ کو یہ دونوں باتیں قبول نہ ہوں تو وہ آپ سے جنگ کریں گے ،
آپ نے فرمایا : کیا ان میں سے کسی ایک کے بغیر چارہ نہیں ؟
اس نے کہا نہیں ،
آپ نے فرمایا : یہ تو ممکن نہیں کہ میں خلافت سے دست بردار ہوجاؤں ،
میں (خلافت کے ) اس کرتے کو اتارنے والا نہیں ، جو مجھے اللہ نے پہنایا ہے ،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پھر مالک اشتر اٹھ کر چلا گیا ،
ہم دیکھنے لگے کہ کیا (رد عمل ہوتا ہے ) شاید وہ لوگ مان جائیں ؛
اتنے میں ایک شخص جو بھیڑئے کی مانند تھا آیا ،
وہ دروازے سے جھانک کے پلٹ گیا ،
پھر محمد بن ابی بکر تیرہ آدمیوں کے ساتھ آیا ، وہ اندر سیدھا سیدنا عثمان کے پاس پہنچا ،اور آپ کی داڑھی مبارک پکڑ لی اور اسے کھینچا ،اس کے داڑھیں گرنے کی آواز آئی ، ((اس سے آگے کی صورتحال نہ میں لکھ سکتا ہوں ، نہ ایمان والے پڑھ سکتے ہیں))‘‘ ( طبقات ابن سعد )
اس روایت سے پتا چلتا ہے کہ مالک بن حارث الاشتر کا شرپسندوں میں اہم مقام تھا، جس کی بناء آخری وقت اسی سے گفتگو کی گئی ،اس نے شہادت عثمانؓ کے بعدسیاسی اور جنگی میدان میں بہت اہم رول ادا کیا ،

اس کے متعلق درج ذیل حقیقت پیش ہے ،
جن دنوں ظالم باغیوں نے ان کے گھر کا محاصرہ کیا ہوا تھا ، اس دوران ام المومنین سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا اپنے گھر سے سیدنا الامام عثمان ؓ کیلئے کھانا پینا بھیجنے کی کوشش کرتی رہتیں تھیں ،
ایک روز وہ خود سیدنا عثمان کی خبرگیری و مدد کیلئے نکلیں ،امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ تاریخ کبیر میں روایت کرتے ہیں کہ :
وقَالَ أَحْمَد بْن يُونُس: حدَّثنا زُهَير، قال: حدَّثنا كِنانةَ، مَولَى صَفيَّة، قَالَ: كنتُ أقود بصَفيَّة لِتَرُدَّ عَنْ عُثمان، فلقيها الأَشتر، فضرب وجه بغلتها، حتى قَالَت: ردوني، ولا يفضحني هذا الكلب
(التاریخ الکبیر للبخاری )
یعنی سیدہ صفیہ ؓ کے غلام سیدنا کنانہؒ فرماتے ہیں کہ : امام عثمان ؓ کے دفاع میں
سیدہ صفیہ ؓ ایک خچر پر سوار ہوکر نکلیں ، میں انکے خچر کو ہانک رہا تھا ، راستہ میں مالک بن حارث اشتر ملا ،
اس نے سیدہ کو روکا اور خچر کے منہ پر مارنے لگا ، اس پر سیدہ صفیہ نے فرمایا : مجھے واپس لے چلو تاکہ یہ کْتا مجھے رسوا نہ کرے ‘‘(امام ابن حجر عسقلانی نے اس روایت کو حسن کہا ہے )
یہی روایت امام ابن حجر نے ( الاصابہ ) میں ان الفاظ سے نقل کی ہے :
وأخرج ابن سعد أيضا بسند حسن عن كنانة مولى صفية، قال: قدمت بصفية بغلة لتردّ عن عثمان، فلقينا الأشتر فضرب وجه البغلة، فقالت: ردّوني لا يفضحني ( الإصابة في تمييز الصحابة جلد ۸ ص۲۱۲ )
بعد میں ان لوگوں نے سیدنا عثمانؓ کو بڑی بے دردی سے قتل کردیا ،

اب منظر بدلتا ہے ، یہی مالک بن حارث اشتر جناب علی کی بیعت کیلئے سرگرم ہوتا ہے ،
اور یہی سب سے پہلا شخص ہے جس نے جناب علیؓ کے ہاتھ پر بیعت کی ،
طبری اپنی سند سے بیعت علی کی ابتدائی صورت حال تفصیل سے نقل کرتے ہیں کہ :
وحدثني عمر بن شبة، قال: حدثنا أبو الحسن المدائني، قال: أخبرنا مسلمة بن محارب، عن داود بن أبي هند، عن الشعبي، قال: لما قتل عثمان رضي الله عنه أتى الناس عليا وهو في سوق المدينة، وقالوا له: ابسط يدك نبايعك، ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فعادوا إلى علي، فأخذ الأشتر بيده فقبضها علي، فقال:
أبعد ثلاثة! أما والله لئن تركتها لتقصرن عنيتك عليها حينا، فبايعته العامة وأهل الكوفة يقولون: إن أول من بايعه الأشتر ‘‘

(تاریخ طبری باب خلافة أمير المؤمنين علي بن أبي طالب )
اب ہمیں اس پر تبصرہ کی ضرورت نہیں کہ :
سیدنا الامام عثمان ؓ جو نبی مکرم کی دو صاحبزادیوں کے شوہر تھے ، اور صحابہ کرام کے متفقہ خلیفہ راشد تھے اور زبان نبوت سے جنت کے مستحق ہونے کا اعزاز رکھتے تھے ،ان کی خلافت کا باغی اور قاتلین کا سردار
اشتر نخعی جناب علیؓ کی بیعت کیلئے کوشاں ہے اور سب سے پہلے ان کے ہاتھ پر بیعت کرنے کا شرف پاتا ہے
تو بنو امیہ اور سیدنا الامام معاویہؓ کو اس خلافت کی بیعت نہ کرنے پر مطعون کرنا کہاں کا انصاف اور کہاں کی دانشمندی ہے ، ؟؟؟؟
محترم،
میں شروع سے عرض کر رہا ہوں کہ میں آئمہ کے قول نقل کر رہا ہوں مگر مجھے مورود الزام ٹھرایا جا رہا ہے یہاں میں اپ نے یہی روش اختیار کی ہے قول امام علل دارقطنی کا ہے اور الزم مجھے پر کہ میں بقول اپ کے طعن کر رہا ہوں
برحال اپ نے عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت سے ان حالات کو شروع کی ہے تو میں یہی سے مان لیتا ہوں مگر میری مطابق یہ حالات عمر رضی اللہ عنہ کے وفات سے قبل ہی خراب ہونا شروع ہو گئے تھے جس کا اشارہ ان کے اخری خطبات ہیں جو انہوں نے اپنی وفات سے قبل بیان کیے تھے فلحال اس کا موقع نہیں ہے۔
اپ نے جو عثمان رضی اللہ عنہ کے شہادت کہ حوالےسے یہ روایت نقل کی ہےکہ "
بعثني عثمان فدعوت له الأشتر فجاء، قال ابن عون ۔۔۔۔۔آخر
ہم اہل حدیث کا منھج اور مسلک ہے صحیح حدیث اپ نے اس کو بسند لکھا ہے اس کی سند بھی نقل کر دیں تاکہ اس پر بات ہو سکے کہ صحیح ہے یا نہیں۔
دوسری روایت جو اپ نے امام بخاری کی تاریخ کے حوالے سے نقل کی جس کو حافظ بن حجر نے حسن نقل کیا ہے تو یہ ابن حجر رحمہ اللہ کے نذدیک حسن ہو سکتی ہے مگر جمہور نے اس کے ایک راوی "كِنانةَ، مَولَى صَفيَّة" پر جرح کی ہے اور یہ راوی ضعیف ہے چنانچہ اس کے دلائل ذیل میں ہیں۔

حافظ ابن حجر نے اس کو تقریب میں مقبول کہا ہے
كنانة مولى صفية يقال اسم أبيه نبيه مقبول ضعفه الأزدي بلا حجة من الثالثة (تقریب التھذیب )
اور مقبول کا اصول تو اپ جانتے ہی ہوں گے
من ليس له من الحديث إلا القليل، ولم يثبت فيه ما يترك حديثه من أجله، وإليه الاشارة بلفظ " مقبول " حيث يتابع، وإلا فلين الحديث
لین الحدیث کی روایت حسن ہوتی ہے اس لیے امام نے شاید اس کو حسن کہا ہے مگر دیگر محدثین سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ ضعیف ہے چنانچہ تحریر تقریب کے مولفین نے اس کو ضعیف کہا ہے۔(تحریر تقریب تھذیب)
امام ذہبی نے الکاشف میں وثق کہا ہے
كنانة عن مولاته صفية وعثمان وعنه زهير بن معاوية ومحمد بن طلحة وجماعة وثق(الکاشف)
اور امام ذہبی کا کسی راوی کو وثق کہنا اس کی توثیق نہیں ہوتی ہے چنانچہ البانی صاحب نے نقل کیا کہ
ولذلک اشار الذھبی فی الکاشف الی ان التوثیق المذکور غیر موثوق بہ فقال وثق۔(الضعیفہ 3 388)
علامہ البانی نے اس کو ضعیف الادب المفرد میں ضعیف قرار دیا ہے(ضعیف الادب المفرد رقم 1015)
ارواءالغلیل میں اس کو مجہول قرار دیا ہے
چنانچہ رقم 1857 کے تحت فرماتے ہیں
أخرجه الطبراني في " الأوسط " ( 1 / 166 / 1 ) عن شاذ بن فياض نا هاشم بن سعيد حدثني كنانة عن صفية به . وقال : " لا يروى عن صفية إلا بهذا الاسناد " . قلت : وهو ضعيف مسلسل بالعلل : الأولى : كنانة هذا مجهول الحال ولم يوثقه غبر ابن حبان
تو اپ کی اس روایت میں یہ راوی ضعیف ہے اس لیے یہ روایت قبل حجت نہیں ہے۔
دوسری روایت اپ نے پیش کی جس میں مالک بن اشتر نے سب سے پہلے بیعت کی ہے اس حوالے سے اتنا ہی کافی ہے کہ تاریخ طبری کے محقق نے اس کو ضعیف قرار دیا ہے اور اس کے مقابلے پر صحیح تاریخ طبری میں ایک روایت نقل کی ہے جس کا باب ہی یہ قائم ہے کہ سنت کے مطابق بیعت کا انقاد ہونا اس اس کے تحت علی رضی اللہ عنہ کی بیعت کا واقعہ بیان کیا ہے۔
دوسری بات عامر الشعبی نے کبائر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ان کی مرویات مرسل ہیں
عامر بن شراحيل الشعبي أحد الأئمة روى عن علي رضي الله عنه وذلك في صحيح البخاري وهو لا يكتفي بمجرد إمكان اللقاء كما تقدم وعن طائفة كثيرة من الصحابة لقيهم وأرسل عن عمر وطلحة بن عبيد الله وابن مسعود وعائشة وعبادة بن الصامت رضي الله عنهم قال أبو زرعة الشعبي عن عمر مرسل وعن معاذ بن جبل كذلك وقال بن معين ما روى عن الشعبي عن عائشة مرسل وكذلك قال أبو حاتم وقال أيضا لم يسمع الشعبي من عبد الله بن مسعود ولا من بن عمر ولم يدرك عاصم بن عدي وما يمكن أن يكون سمع من عوف بن مالك الأشجعي ولا أعلم سمع الشعبي بالشام إلا من المقدام أبي كريمة ولا أدري سمع من سمرة أم لا لأنه أدخل بينه وبينه رجلا هذا كله كلام أبي حاتم وقال إسحاق بن منصور قلت ليحيى بن معين الشعبي إن الفضل يعني بن عباس حدثه وأن أسامة يعني بن زيد حدثه قال لا شيء وكذلك قال أحمد بن حنبل وعلي بن المديني وقال أبو حاتم لا يمكن أن يكون أدركهما وقال بن معين الشعبي عن عمرو بن العاص مرسل وقال بن المديني وقد ذكر أصحاب بن مسعود الستة الذين تقدم ذكرهم سمع الشعبي منهم إلا الحارث وقال أيضا لم يسمع الشعبي من زيد بن الخريت
یہی وجہ ہے کہ تاریخ طبری کے محقق نے اس کو ضعیف میں نقل کیا ہے۔
اپ کی پیش کردہ روایات کی یا سند نہیں ہے یا اپ نے ضعیف سند سے نقل کی ہیں۔
چنانچہ اپ کا یہ دعوی
تو بنو امیہ اور سیدنا الامام معاویہؓ کو اس خلافت کی بیعت نہ کرنے پر مطعون کرنا کہاں کا انصاف اور کہاں کی دانشمندی ہے
فلحال یہ ثابت نہیں ہے اور میں اپ کو آئمہ کے اقوال سے ثابت کروں گا کہ عثمان رضی اللہ عنہ کی شھادت میں سب سے بڑا ہاتھ اس مروان کا تھا۔ اللہ سب کو ہدایت دے۔
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
محترم،
اپ نے لکھ تو دیا کہ"
اللہ کی مرضی کے بغیر کسی درخت کا پتہ بهی نہیں هلتا"
اس سے اپ تقدیر پر ایک نئی بحث شروع کر دیں گے جس کا یہاں کوئی جواز نہیں ہے
اس کے لئے یہی سمجھنا کافی ہے اگر اللہ کی مرضی کے بغیر پتہ نہیں ہلتا تو پھر کسی کے بھی جرم پر کوئی مواخذہ نہیں ہونا چاہیے تھا کیوں کہ اس نے جو کیا سب اللہ کی مرضی سے تھا۔
بارحال میں اس پر کوئی اور بحث نہیں کروں گا اس سے ہم اصل موضوع سے دور ہو جائیں گےاس لئے اس تھریڈ کا جو موضوع ہے اس کی طرف چلتے ہیں اپ نے پوچھا کہ"مستقبل کی تخطیط اسلاف کو مورد الزام ٹهہرا کر کرنے کا مشورہ آپکو کس نے دیا"
اگر اپ کے اسلاف ابن زیاد مروان حجاج اور ان جیسے دین کو برباد کرنے والے لوگ تھے تو یہ اسلاف اپ کو ہی مبارک ہوں اس معاملہ میں میں کبھی پہل نہیں کرتاجب اپ جیسے کرم فرما ان جیسے دین کو برباد کرنے والوں کو دین کا خیر خواہ نیک صالح اور دین کی ترقی کا ضامن کہتے ہیں اس وقت میں جوابا کہتا ہوں کہ یہ دین برباد کرنے والے لوگ تھے اور انہوں نے دین کو کوئی فائدہ نہیں دیا ہے صرف دین میں تبدیلیاں کی ہیں۔ اور مسلمانوں کو اس خلافت سے ہٹا کر ملوکیت کی راہ پر دھکیل دیا ہے کہ آج تک واپسی کا راستہ نہیں ملا اور میرا رونے سے مراد یہ نہیں کہ میں کوئی راوفض کی طرح ماتم کندہ ہوں میں اس کے احیاء کے لیے کوشش کرتا ہوں اور جب یہ بات آتی ہے کہ یہ برباد کیسے اور کس نے کی اس وقت ضرور بتاتا ہوں کہ یہ کس طرح برباد ہوئی اور کن کی وجہ سے ہوئی۔
خود طلسم قیصر و کسریٰ شکست
خود سر تخت ملوکیت نشست
اللہ سب کو یہ سمجھنے کی توفیق عطا کرے کہ خلافت کے بغیر مسلمان کا ایک دن بھی رہنا عذاب سے کم نہ ہو جب تک اس کے لیے کوشش نہ کرے چاہے ہاتھ سے زبان سے یا دل میں ھی اس ملوکیت کو برا جانے۔اللہ سب کو ہدایت دے
واہ کیا بات ہے آپ کی- یعنی خلافت کا درد صرف آپ کے دل میں موجود ہے- باقی وہ صحابہ کرام رضوان الله اجمعین جنہوں نے ٢٢ سال حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ کی سکردگی میں گزرے آپ کی خلافت کی (جس کو آپ "ملک عضوض" ثابت کرنے کی سعی میں لگے ہوے ہی) ہاتھ پر بخوشی بیعت کی ان کی سکردگی میں بیسیوں مرتبہ کفار سے جہاد کیا جن معرکوں میں حضرت حسن و حسین رضی الله عنہ بنفس نفیس آپ کے ساتھ رہے انہوں نے تو اس :ملک عضوض کی خلاف کوئی بڑا قدم اٹھانا تو دور کی بات- ایک بار اس کے خلاف سوچا بھی نہیں - وہ ابو ہریرہ رضی الله عنہ جنھیں آپ کے مطابق سن ساٹھ ہجری کے چوکھروں کی حکومت سے پہلے اپنی موت کی تمنا کا خیال تو آیا لیکن امیر معاویہ رضی الله عنہ کی ظلم و ستم سے بھرپور ملک عضوض سے چھٹکارے کی دعا پھر بھی نہیں مانگی - لیکن کیا کہنے آپ کے کہ خلافت کے درد کی دہائی دے کر امیر معاویہ رضی الله عنہ اور خاندان بنو امیہ پر کیچڑ اچھالنے کا حوصلہ صرف آپ جسے رافضیت پسند لوگوں میں دیکھا ہے -
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top