- شمولیت
- نومبر 08، 2011
- پیغامات
- 3,416
- ری ایکشن اسکور
- 2,733
- پوائنٹ
- 556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
اس موقع پر مجھے ابن عبدالبر کی یہ بات یاد رہی ہے جو انہوں نے الاستغناء میں امام ابوحنیفہ کے ترجمہ میں لکھاہے کہ امام ابوحنیفہ پر اہل حدیث کی جروحات کو فقہاء لائق اعتبار واعتماد نہیں سمجھتے،واضح رہے کہ ابن عبدالبر نے مطلقافقہاء کہاہے،مطلب ہرمسلک اورفقہ کے فقہاء نہ کہ صرف فقہائے احناف،اس سے کیاواضح ہورہاہے،کیااسے بھی سمجھانے کی ضرورت ہے۔
واہل الفقہ لایلتفتون الی من طعن علیہ ولایصدقون بشی من السوء نسب الیہ(الاستغناء لابن عبدالبر 2/473)کچھ سمجھ شریف میں آیا۔
یاد مجھے بھی کچھ آیا ہے، اسے آگے بیان کروں گا!
امام ابن عبد البر کی یہ بات جو آپ نے بیان کی بلکل ہمیں سمجھ آگئی ہے؛
آپ نے امام ابن عبد البر کے حوالہ سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا امام ابو حنیفہ پر اہل حدیث کی جروحات کو فقہا لائق اعتبار و اعتماد نہیں سمجھتے، آپ نے امام عبد البر کے حوالہ سے عبارت پیش کی اور واضح کیا کہ امام ابن عبد البر نے مطلقا فقہاء کہا ہے، مطلب ہر مسلک اور فقہ کے فقہاء نہ کہ صرف فقہائے احناف بلکہ فقہائے مالکیہ، فقہائے شافعیہ، اور فقہائے حنابلہ بھی امام ابو حنیفہ پر اہل حدیث کی جروحات کو لائق اعتبار نہیں سمجھتے!
اور آپ نے امام ابن عبد البر کی کتاب ''الاستغناء'' سے اصل عبارت بھی پیش کی!
اور آپ کی یہ بات آپ کی پیش کردہ عبارت سے تو ثابت ہو تی ہے!
اور یہی بات ہمیں @اشماریہ بھائی بھی سمجھانے کی کوشش کرتے رہے، مگر انہوں نے اب تک ایسی کوئی عبارت پیش نہیں کی تھی!
اب جبکہ آپ نے ثبوت میں عبارت بھی پیش کردی ہے، تو آپ کا مدعا ثات ہوتا نظر آتا ہے!
میں آپ کے مؤقف کو درست تسلیم کر ہی لیتا، اور اپنے مؤقف سے رجوع کرہی لیتا!
مگر قرآن کی ایک آیت اس میں حائل ہو گئی:
يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُوا أَنْ تُصِيبُوا قَوْمًا بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوا عَلَى مَا فَعَلْتُمْ نَادِمِينَ (سورة الحجرات 06)
اے ایمان والو اگر کوئی فاسق تمہاے پاس کوئی سی خبر لائے تو اس کی تحقیق کیا کرو کہیں کسی قوم پر بے خبری سے نہ جا پڑو پھر اپنے کیے پر پشیمان ہونے لگو (ترجمہ احمد علی لاہوری)
اب جب ایک حنفی مقلد، اور وہ بھی دیوبندی، اور نہ صرف دیوبندی بلکہ دیوبندی عالم کوئی خبر دے، تو اس کی تحقیق ضرور کرنا چاہیئے!
تو جناب جب ہم نے آپ کی دی ہوئی اس خبر کی، یعنی عبارت کی تحقیق کی، تو معلوم ہوا کہ آپ نے جو عبارت اور اس عبارت پر جو مدعا کھڑا کیا ہے، وہ تو نرا دھوکہ وفریب اور دجل وفنکاری ہے!
نہ یہ کلام ابن عبد البر کا ہے، بلکہ ابن عبد البر تو اس کے ناقل ہیں، اور آپ نے یہاں وہ عبارت بھی قطع وبرید کر کے پیش کی، کہ کسی طرح آپ کا مدعا ثابت ہو سکے۔
ہم ابن عبد البر کی اس کتاب سے امام ابو حنیفہ کا مکمل ترجمہ پیش کرتے ہیں:
أبو حنيفة النعمان بن ثابت الكوفي الفقيه صاحب الرأي قيل: أنه رأی أنس بن مالك وسمع من عبد الله بن الحارث بن جزء الزبيدي، فیعد بذلك في التابعين، وكان خزازا بالكوفة. وكان أبوه مولی لبني تيم الله بن ثعلبة.
كان في الفقه إماماً حسن الرأی والقياس، لطيف الاستخراج جيد الذهن حاضر الفهم، ذكياً ورعاً عاقلاً إلا أنه كان مذهبه في أخبار الآحاد العدول أن لايقبل منها ما خالف الأصول المجتمع عليها، فأنكر عليه أهل الحديث ذلك وذمّوه فأفرطوا، وحسده من أهل وقته من بغی عليه استحل الغيبة فيه. وعظمه آخرون روفعوا من ذكره، واتخذوه إماماً، وأفرطوا أيضاً في مدحه، وألف الناس في فضائله وفي مثالبه، والطعن عليه وأكثر أهل الحديث يذمونه. وعامة الحنبلية اليوم علی ذمه، وكان أحمد رحمه الله ممن يسیء القول فيه وفي أصحابه.
قال يحيي بن معين: أصحابنا يفرطون في أبي حنيفة وأهل الفقه لا يلتفتون إلی من طعن عليه ولا يصدقون بشيء من السوء نسب إلیه. روی عن جعفر بن محمد وحماد بن أبي سليمان، وعطاء ونافع، وسماك.
روی عنه وكيع وابن المبارك، وعبد الرزاق، وأبو نعيم وأبو يوسف، وزفر بن الهذيل، ومحمد بن الحسن وجماعة يطول ذكرهم قد جمعتهم غير واحد.
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 572 – 573 الاستغناء في معرفة المشهورين من حملة العلم بالكنى - أبو عمر يوسف بن عبد الله بن محمد بن عبد البر بن عاصم النمري القرطبي (المتوفى: 463هـ) - دار ابن تيمية، الرياض
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 472 – 473 الاستغناء في معرفة المشهورين من حملة العلم بالكنى - أبو عمر يوسف بن عبد الله بن محمد بن عبد البر بن عاصم النمري القرطبي (المتوفى: 463هـ) - جامعة أم القرى، مكة المكرمة
یہاں چند اہم باتیں ہیں؛
امام ابن عبد البر نے امام ابو حنفیہ کو اہل الرائے ، اور فقیہ کہا، امام عبد البر نے صیغہ تمریض سے ذکر کیا ہے کہ کہا جاتا ہے کہ امام ابو حنیفہ نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ کو دیکھا، اور عبد الله بن الحارث بن جزء الزبیدی سے سماع ہے، ا س بنا پر امام ابو حنیفہ کو تایعین میں شمار کیا گیا ہے،پھر امام ابو حنفیہ کی فہم و فقہ میں تعریف کی اور مختلف اوصاف بیان کیئے، اور ان اوصاف کے بیان کے بعد ''الا'' کہہ کر امام ابو حنیفہ کی فقہ میں ایک اصولی و بنیادی نقص بیان کیا!( کوئی یہ کہے کہ امام ابن عبد البر نے تو اسے نقص نہیں کہا، تو وہ اس کی غلط فہمی ہے، کہ امام ابو حنیفہ کی فہم و فقہ کی تعریف کے بعد ''الا'' کہنا ہی اس بات کو واضح کرتا ہےکہ یہاں امام عبد البر اسے قدح کے طور پر بیان کر رہے ہیں!) اور وہ یہ ہے کہ،امام ابو حنیفہ مجتمع علیہ اصول کے خلاف صحیح اخبار الآحاد کو قبول نہیں کرتے تھے، یعنی کہ صحیح احادیث کو رد کر دیا کرتے تھے۔ اس وجہ سے اہل الحدیث نے ابو حنفیہ کا رد اور انکار کیا اور ان کی مذمت کی، اور اس مذمت میں افراط سے کام لیا، امام ابو حنیفہ کی غیبت کو بھی حلال قرار دیا۔ دوسروں نے امام ابو حنیفہ کی تعظیم کی اور امام ابو حنیفہ کے ذکر کو بڑھایا، اور امام بنایا اور انہوں نے بھی امام ابو حنیفہ کی مدح میں افراط سے کام لیا! لوگوں نے امام ابو حنیفہ کی مدح پر بھی لکھا، اور امام ابو حنیفہ کے مثالیب اور ان پر طعن پر بھی لکھا۔ اکثر اہل الحدیث امام ابو حنیفہ کی مذمت کرتے ہیں، اورآج عام حنابلہ امام ابو حنیفہ کی مذمت کے مؤقف پر ہیں۔ امام احمد بن حنبل ان میں ہیں جن کے امام ابو حنیفہ کے متعلق بُرائی کے اقوال یعنی کہ جرح کے اقوال ہیں۔ پھر امام ابن عبد البر دونوں جانب سے اس افرط کے پیش نظر یحیی بن معین کا ایک قول نقل کرتے ہیں:
قال يحيي بن معين: أصحابنا يفطرون في أبي حنيفة وأهل الفقيه لا يلتفتون إلی من طعن عليه ولا يصدقون بشيء من السوء نسب إلیه.
یحیی بن معین نے کہا:ہمارے اصحاب ابو حنیفہ کے معاملہ میں افراط سے کام لیتے، اور اہل فقہ امام ابو حنیفہ پر طعن کرنے والے طرف اتفات ہی نہیں کرتے، اور امام ابو حنیفہ کی طرف منسوب کسی برائی وخامی کی تصدیق نہیں کرتے۔
اب آپ دیکھیں کہ یہاں يحیی بن معین کوئی قاعدہ و اصول اور فقہاء کا اچھا کام نہیں بتلا رہے ہیں، بلکہ وہ یہاں اپنے اصحاب اور ان فقہاء (فقہائے اہل الرائے) دونوں پر نقد کر رہے ہیں کہ ہمارے اصحاب امام ابو حنیفہ پر مذمت میں افراط کام لیتے ہیں، اور وہ فقہاء (فقہائے اہل الرائے) امام ابو حنیفہ پر کسی جرح کی طرف التفات ہی نہیں کرتے!
مگر کمال ہے! رحمانی صاحب آدھی ادھوری عبارت پیش کر کرے یہ باور کروانے کی کوشش کی کہ تمام فقہاء امام ابو حنیفہ پر کسی جرح کا اعتبار ہی نہیں کرتے!
اب کوئی منچلا یہ کہے کہ یہاں ''فقہاء'' کے لفظ ہیں ''اہل الرائے فقہاء'' کے الفاظ تو نہیں، تو جناب یحیی بن معن نے اپنے اصحاب کہا ہے، اور اپنے اصحاب یحیی بن معین کے فقہاء اصحاب بھی شامل ہیں! اور امام ابو حنیفہ پر ان فقہاء کی جرح بھی موجود ہے، کہ جن کا فقیہ ہونا مسلم ہے!
اب امام ابو حنیفہ پر جرح کرے والے بھی فقہاء اور پھر بھی یہ کہنا کہ لفظ ''فقہاء'' کا ہے، لہٰذا تمام فقہاء مطلب ہر مسلک ومسلک اور فقہ کے فقہاء نہ کہ صرف فقہائے احناف، بیوقوفی وجہالت قرار پائے گی!
ہاں اس مطلب کو ثابت کرنے کے لئے اگر کوئی بے شرم وبے حیا آدھی ادھوری عبارت پیش کرکے دجل وفریب اور دھوکہ وفراڈ کرتے ہوئے آدھی ادھوری عبارت پیش کرے، تو الگ بات ہے!
نوٹ: یہ ممکن ہے کہ رحمانی صاحب نے دانستہ آدھی ادھوری عبارت پیش نہ کی ہو، کیونکہ یہ احتمال بھی ہے کہ رحمانی صاحب کو یہ قطع وبرید شدہ عبارت ملی ہو، اور انہوں نے اسی پر اپنا مدعا قائم کردیا!
خیر ایسا معاملہ تو کبھی غلطی میں ہو جاتا ہے!
ایسی صورت میں اس دجل وفریب اور دھوکہ وفراڈ کا ذمہ اس کے سر جائے گا، جس کی یہ کارستانی ہے! اور یہ کہا جائے کہ کہ رحمانی صاحب کسی دجال فریبی کے دجل وفریب کا شکار ہو گئے!
اللہ ہمیں ایسے دجالوں اور فریب کاروں کے دجل وفریب سے محفوظ رکھے!
ابن عبد البر کے کلام سے یہاں چند باتیں اور ثابت ہوتی ہیں!
اول: اہل الحدیث فقہ پر بھی کلام کرتے تھے، اور امام ابو حنیفہ کی فقہ اور فقہی اصول پر اہل الحدیث کلام کرتے تھے، امام عبد البر نے ان کے کلام کرنے کو درست قرار دیا، لیکن اس میں افراط سے کام لینے کی مذمت کی!
دوم: امام ابن عبد البر اخبار الآحاد کے حوالہ سے امام ابو حنیفہ واہل الرائے کے مؤقف کو مذموم سمجھتے ہیں!
سوم: امام ابن عبد البر نے بھی اس کی گواہی دیتے ہیں کہ اکثر اہل الحدیث امام ابو حنیفہ کی مذمت کرتے ہیں
چہارم: امام ابن عبد البر کے زمانے میں بھی عام حنابلہ (اب کوئی منچلا یہاں عام حنابلہ کا مطلب عامی حنابلہ نہ کہہ دے) امام ابو حنیفہ کی مذمت کے مؤقف پر ہیں۔
پنجم: امام احمد بن حنبل امام ابو حنیفہ اور اصحاب ابو حنیفہ کی مذمت کرنے والوں میں سے ہیں!
کیوں رحمانی صاحب! کچھ سمجھ آئی؟
ارے ہاں! یاد آیا، کہ مجھے کیا یاد آیا تھا:
ذكر أَبُو بكر بن مُحَمَّد بن اللَّبَّادُ قَالَ نَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ أَبِي دَاوُدَ البرلسى عَن مُحَمَّد بن عبد الله بن عبد الحكم قَالَ سَمِعْتُ الشَّافِعِيَّ يَقُولُ قَالَ أَبُو يُوسُفَ لأَرُوحَنَّ اللَّيْلَةَ إِلَى أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ يَعْنِي الرَّشِيدَ بِقَاصِمَةِ الظَّهْرِ عَلَى الْمَدَنِيِّينَ فِي الْيَمِينِ مَعَ الشَّاهِدِ فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ فَتَقُولُ مَاذَا قَالَ إِنَّهُ لَا يُقْضَى إِلا بِشَاهِدَيْنِ لأَنَّ اللَّهَ قَدْ أَبَى إِلا الشَّاهِدَيْنِ وَتَلا الآيَةَ فِي الدَّيْنِ قَالَ فَإِنْ قَالُوا لَكَ فَمَنِ الشَّاهِدَانِ اللَّذَان يقبلان وَلَا يُحْكَمُ إِلا بِهِمَا قَالَ أَقُولُ حُرَّانِ مُسْلِمَانِ عَدْلانِ قَالَ فَقُلْتُ يُقَالُ لَكَ فَلِمَ أَجَزْتَ شَهَادَةَ النَّصَارَى فِي الْحُقُوقِ وَقَدْ قَالَ اللَّهُ تبَارك وَتَعَالَى {من رجالكم} وَقَالَ {مِمَّن ترْضونَ من الشُّهَدَاء} قَالَ فَتَفَكَّرَ سَاعَةً ثُمَّ قَالَ هَذَا خَفِيٌّ مِنْ أَيْنَ أَنْ يَهْتَدُوا لِهَذَا قَالَ قُلْتُ وانما يحْتَج بِقَوْلِكَ عَلَى ضُعَفَاءِ النَّاسِ
''امام شافعیؒ نے کہا کہ قاضی ابو یوسف نے کہا: آج رات میں امیر المومنین ہارون الرشید کے پاس ایک گواہ اور قسم کے ساتھ فیصلہ کرنے کے مسئلہ میں اہل مدینہ کی کمر توڑ دلیل لے کر جاؤں گا، اس سے ایک شخص نے کہا کہ آپ کیا کہیں گے؟ قاضی ابو یوسفؒ نے کہا: میں یہ کہوں گا کہ قرآن مجید نے دو عادل مسلمانوں کی گواہی لے کر مدعی کے حق میں فیصلہ کرنے کا حکم دیا ہے، جس کے خلاف اہل مدینہ مدعی کے پاس ایک ہی گواہ کی موجودگی میں مدعی سے قسم لے کر فیصلہ کرنے کے قائل ہیں، اس شخص نے کہا کہ وہ دونوں گواہ کیسے ہونے چاہئے؟ امام یوسفؒ نے کہا کہ دو آزاد عادل مسلمان ہونے چاہئے، اس شخص نے کہا کہ تم سے اہل مدینہ کی طرف سے کہا جائے گا کہ تم حقوق میں دو عادل مسلمانوں کے بجائے عیسائیوں کی گواہی پر بھی فیصلہ کرنے کے قائل ہو، پھر تمہاری یہ قرآنی دلیل تمہارے مؤقف کو باطل کردے گی، ابو یوسفؒ اس پر کچھ دیر سوچتے رہے، پھر بولے کہ یہ بہت مخفی قسم کی بات ہے، اہل مدینہ اس کا پتہ کہاں سے پائیں گے؟ اس شخص نے کہا کہ تمہارے طریقہ استدلال کو ضعیف العقل لوگوں کے ہی خلاف استعمال کیا جا سکے گا۔''
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 139 – 140 جلد 01 الانتقاء في فضائل الثلاثة الأئمة الفقهاء - أبو عمر يوسف بن عبد الله بن محمد بن عبد البر بن عاصم النمري القرطبي (المتوفى: 463هـ) - مكتب المطبوعات الإسلامية بحلب
Last edited: