• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ابوحنیفه نعمان بن ثابت, امام ایوب سختیانی کی نظر میں.

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
اس موقع پر مجھے ابن عبدالبر کی یہ بات یاد رہی ہے جو انہوں نے الاستغناء میں امام ابوحنیفہ کے ترجمہ میں لکھاہے کہ امام ابوحنیفہ پر اہل حدیث کی جروحات کو فقہاء لائق اعتبار واعتماد نہیں سمجھتے،واضح رہے کہ ابن عبدالبر نے مطلقافقہاء کہاہے،مطلب ہرمسلک اورفقہ کے فقہاء نہ کہ صرف فقہائے احناف،اس سے کیاواضح ہورہاہے،کیااسے بھی سمجھانے کی ضرورت ہے۔
واہل الفقہ لایلتفتون الی من طعن علیہ ولایصدقون بشی من السوء نسب الیہ(الاستغناء لابن عبدالبر 2/473)
کچھ سمجھ شریف میں آیا۔

یاد مجھے بھی کچھ آیا ہے، اسے آگے بیان کروں گا!
امام ابن عبد البر کی یہ بات جو آپ نے بیان کی بلکل ہمیں سمجھ آگئی ہے؛
آپ نے امام ابن عبد البر کے حوالہ سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا امام ابو حنیفہ پر اہل حدیث کی جروحات کو فقہا لائق اعتبار و اعتماد نہیں سمجھتے، آپ نے امام عبد البر کے حوالہ سے عبارت پیش کی اور واضح کیا کہ امام ابن عبد البر نے مطلقا فقہاء کہا ہے، مطلب ہر مسلک اور فقہ کے فقہاء نہ کہ صرف فقہائے احناف بلکہ فقہائے مالکیہ، فقہائے شافعیہ، اور فقہائے حنابلہ بھی امام ابو حنیفہ پر اہل حدیث کی جروحات کو لائق اعتبار نہیں سمجھتے!
اور آپ نے امام ابن عبد البر کی کتاب ''الاستغناء'' سے اصل عبارت بھی پیش کی!
اور آپ کی یہ بات آپ کی پیش کردہ عبارت سے تو ثابت ہو تی ہے!
اور یہی بات ہمیں @اشماریہ بھائی بھی سمجھانے کی کوشش کرتے رہے، مگر انہوں نے اب تک ایسی کوئی عبارت پیش نہیں کی تھی!
اب جبکہ آپ نے ثبوت میں عبارت بھی پیش کردی ہے، تو آپ کا مدعا ثات ہوتا نظر آتا ہے!
میں آپ کے مؤقف کو درست تسلیم کر ہی لیتا، اور اپنے مؤقف سے رجوع کرہی لیتا!
مگر قرآن کی ایک آیت اس میں حائل ہو گئی:

يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُوا أَنْ تُصِيبُوا قَوْمًا بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوا عَلَى مَا فَعَلْتُمْ نَادِمِينَ (سورة الحجرات 06)
اے ایمان والو اگر کوئی فاسق تمہاے پاس کوئی سی خبر لائے تو اس کی تحقیق کیا کرو کہیں کسی قوم پر بے خبری سے نہ جا پڑو پھر اپنے کیے پر پشیمان ہونے لگو (ترجمہ احمد علی لاہوری)
اب جب ایک حنفی مقلد، اور وہ بھی دیوبندی، اور نہ صرف دیوبندی بلکہ دیوبندی عالم کوئی خبر دے، تو اس کی تحقیق ضرور کرنا چاہیئے!
تو جناب جب ہم نے آپ کی دی ہوئی اس خبر کی، یعنی عبارت کی تحقیق کی، تو معلوم ہوا کہ آپ نے جو عبارت اور اس عبارت پر جو مدعا کھڑا کیا ہے، وہ تو نرا دھوکہ وفریب اور دجل وفنکاری ہے!
نہ یہ کلام ابن عبد البر کا ہے، بلکہ ابن عبد البر تو اس کے ناقل ہیں، اور آپ نے یہاں وہ عبارت بھی قطع وبرید کر کے پیش کی، کہ کسی طرح آپ کا مدعا ثابت ہو سکے۔
ہم ابن عبد البر کی اس کتاب سے امام ابو حنیفہ کا مکمل ترجمہ پیش کرتے ہیں:

أبو حنيفة النعمان بن ثابت الكوفي الفقيه صاحب الرأي قيل: أنه رأی أنس بن مالك وسمع من عبد الله بن الحارث بن جزء الزبيدي، فیعد بذلك في التابعين، وكان خزازا بالكوفة. وكان أبوه مولی لبني تيم الله بن ثعلبة.
كان في الفقه إماماً حسن الرأی والقياس، لطيف الاستخراج جيد الذهن حاضر الفهم، ذكياً ورعاً عاقلاً إلا أنه كان مذهبه في أخبار الآحاد العدول أن لايقبل منها ما خالف الأصول المجتمع عليها، فأنكر عليه أهل الحديث ذلك وذمّوه فأفرطوا، وحسده من أهل وقته من بغی عليه استحل الغيبة فيه. وعظمه آخرون روفعوا من ذكره، واتخذوه إماماً، وأفرطوا أيضاً في مدحه، وألف الناس في فضائله وفي مثالبه، والطعن عليه وأكثر أهل الحديث يذمونه. وعامة الحنبلية اليوم علی ذمه، وكان أحمد رحمه الله ممن يسیء القول فيه وفي أصحابه.
قال يحيي بن معين: أصحابنا يفرطون في أبي حنيفة وأهل الفقه لا يلتفتون إلی من طعن عليه ولا يصدقون بشيء من السوء نسب إلیه. روی عن جعفر بن محمد وحماد بن أبي سليمان، وعطاء ونافع، وسماك.
روی عنه وكيع وابن المبارك، وعبد الرزاق، وأبو نعيم وأبو يوسف، وزفر بن الهذيل، ومحمد بن الحسن وجماعة يطول ذكرهم قد جمعتهم غير واحد.

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 572 – 573 الاستغناء في معرفة المشهورين من حملة العلم بالكنى - أبو عمر يوسف بن عبد الله بن محمد بن عبد البر بن عاصم النمري القرطبي (المتوفى: 463هـ) - دار ابن تيمية، الرياض
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 472 – 473 الاستغناء في معرفة المشهورين من حملة العلم بالكنى - أبو عمر يوسف بن عبد الله بن محمد بن عبد البر بن عاصم النمري القرطبي (المتوفى: 463هـ) - جامعة أم القرى، مكة المكرمة
یہاں چند اہم باتیں ہیں؛
امام ابن عبد البر نے امام ابو حنفیہ کو اہل الرائے ، اور فقیہ کہا، امام عبد البر نے صیغہ تمریض سے ذکر کیا ہے کہ کہا جاتا ہے کہ امام ابو حنیفہ نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ کو دیکھا، اور عبد الله بن الحارث بن جزء الزبیدی سے سماع ہے، ا س بنا پر امام ابو حنیفہ کو تایعین میں شمار کیا گیا ہے،پھر امام ابو حنفیہ کی فہم و فقہ میں تعریف کی اور مختلف اوصاف بیان کیئے، اور ان اوصاف کے بیان کے بعد ''الا'' کہہ کر امام ابو حنیفہ کی فقہ میں ایک اصولی و بنیادی نقص بیان کیا!( کوئی یہ کہے کہ امام ابن عبد البر نے تو اسے نقص نہیں کہا، تو وہ اس کی غلط فہمی ہے، کہ امام ابو حنیفہ کی فہم و فقہ کی تعریف کے بعد ''الا'' کہنا ہی اس بات کو واضح کرتا ہےکہ یہاں امام عبد البر اسے قدح کے طور پر بیان کر رہے ہیں!) اور وہ یہ ہے کہ،امام ابو حنیفہ مجتمع علیہ اصول کے خلاف صحیح اخبار الآحاد کو قبول نہیں کرتے تھے، یعنی کہ صحیح احادیث کو رد کر دیا کرتے تھے۔ اس وجہ سے اہل الحدیث نے ابو حنفیہ کا رد اور انکار کیا اور ان کی مذمت کی، اور اس مذمت میں افراط سے کام لیا، امام ابو حنیفہ کی غیبت کو بھی حلال قرار دیا۔ دوسروں نے امام ابو حنیفہ کی تعظیم کی اور امام ابو حنیفہ کے ذکر کو بڑھایا، اور امام بنایا اور انہوں نے بھی امام ابو حنیفہ کی مدح میں افراط سے کام لیا! لوگوں نے امام ابو حنیفہ کی مدح پر بھی لکھا، اور امام ابو حنیفہ کے مثالیب اور ان پر طعن پر بھی لکھا۔ اکثر اہل الحدیث امام ابو حنیفہ کی مذمت کرتے ہیں، اورآج عام حنابلہ امام ابو حنیفہ کی مذمت کے مؤقف پر ہیں۔ امام احمد بن حنبل ان میں ہیں جن کے امام ابو حنیفہ کے متعلق بُرائی کے اقوال یعنی کہ جرح کے اقوال ہیں۔ پھر امام ابن عبد البر دونوں جانب سے اس افرط کے پیش نظر یحیی بن معین کا ایک قول نقل کرتے ہیں:

قال يحيي بن معين: أصحابنا يفطرون في أبي حنيفة وأهل الفقيه لا يلتفتون إلی من طعن عليه ولا يصدقون بشيء من السوء نسب إلیه.
یحیی بن معین نے کہا:ہمارے اصحاب ابو حنیفہ کے معاملہ میں افراط سے کام لیتے، اور اہل فقہ امام ابو حنیفہ پر طعن کرنے والے طرف اتفات ہی نہیں کرتے، اور امام ابو حنیفہ کی طرف منسوب کسی برائی وخامی کی تصدیق نہیں کرتے۔
اب آپ دیکھیں کہ یہاں يحیی بن معین کوئی قاعدہ و اصول اور فقہاء کا اچھا کام نہیں بتلا رہے ہیں، بلکہ وہ یہاں اپنے اصحاب اور ان فقہاء (فقہائے اہل الرائے) دونوں پر نقد کر رہے ہیں کہ ہمارے اصحاب امام ابو حنیفہ پر مذمت میں افراط کام لیتے ہیں، اور وہ فقہاء (فقہائے اہل الرائے) امام ابو حنیفہ پر کسی جرح کی طرف التفات ہی نہیں کرتے!
مگر کمال ہے! رحمانی صاحب آدھی ادھوری عبارت پیش کر کرے یہ باور کروانے کی کوشش کی کہ تمام فقہاء امام ابو حنیفہ پر کسی جرح کا اعتبار ہی نہیں کرتے!
اب کوئی منچلا یہ کہے کہ یہاں ''فقہاء'' کے لفظ ہیں ''اہل الرائے فقہاء'' کے الفاظ تو نہیں، تو جناب یحیی بن معن نے اپنے اصحاب کہا ہے، اور اپنے اصحاب یحیی بن معین کے فقہاء اصحاب بھی شامل ہیں! اور امام ابو حنیفہ پر ان فقہاء کی جرح بھی موجود ہے، کہ جن کا فقیہ ہونا مسلم ہے!
اب امام ابو حنیفہ پر جرح کرے والے بھی فقہاء اور پھر بھی یہ کہنا کہ لفظ ''فقہاء'' کا ہے، لہٰذا تمام فقہاء مطلب ہر مسلک ومسلک اور فقہ کے فقہاء نہ کہ صرف فقہائے احناف، بیوقوفی وجہالت قرار پائے گی!
ہاں اس مطلب کو ثابت کرنے کے لئے اگر کوئی بے شرم وبے حیا آدھی ادھوری عبارت پیش کرکے دجل وفریب اور دھوکہ وفراڈ کرتے ہوئے آدھی ادھوری عبارت پیش کرے، تو الگ بات ہے!

نوٹ: یہ ممکن ہے کہ رحمانی صاحب نے دانستہ آدھی ادھوری عبارت پیش نہ کی ہو، کیونکہ یہ احتمال بھی ہے کہ رحمانی صاحب کو یہ قطع وبرید شدہ عبارت ملی ہو، اور انہوں نے اسی پر اپنا مدعا قائم کردیا!
خیر ایسا معاملہ تو کبھی غلطی میں ہو جاتا ہے!
ایسی صورت میں اس دجل وفریب اور دھوکہ وفراڈ کا ذمہ اس کے سر جائے گا، جس کی یہ کارستانی ہے! اور یہ کہا جائے کہ کہ رحمانی صاحب کسی دجال فریبی کے دجل وفریب کا شکار ہو گئے!
اللہ ہمیں ایسے دجالوں اور فریب کاروں کے دجل وفریب سے محفوظ رکھے!

ابن عبد البر کے کلام سے یہاں چند باتیں اور ثابت ہوتی ہیں!
اول: اہل الحدیث فقہ پر بھی کلام کرتے تھے، اور امام ابو حنیفہ کی فقہ اور فقہی اصول پر اہل الحدیث کلام کرتے تھے، امام عبد البر نے ان کے کلام کرنے کو درست قرار دیا، لیکن اس میں افراط سے کام لینے کی مذمت کی!
دوم: امام ابن عبد البر اخبار الآحاد کے حوالہ سے امام ابو حنیفہ واہل الرائے کے مؤقف کو مذموم سمجھتے ہیں!
سوم: امام ابن عبد البر نے بھی اس کی گواہی دیتے ہیں کہ اکثر اہل الحدیث امام ابو حنیفہ کی مذمت کرتے ہیں
چہارم: امام ابن عبد البر کے زمانے میں بھی عام حنابلہ (اب کوئی منچلا یہاں عام حنابلہ کا مطلب عامی حنابلہ نہ کہہ دے) امام ابو حنیفہ کی مذمت کے مؤقف پر ہیں۔
پنجم: امام احمد بن حنبل امام ابو حنیفہ اور اصحاب ابو حنیفہ کی مذمت کرنے والوں میں سے ہیں!
کیوں رحمانی صاحب! کچھ سمجھ آئی؟
ارے ہاں! یاد آیا، کہ مجھے کیا یاد آیا تھا:

ذكر أَبُو بكر بن مُحَمَّد بن اللَّبَّادُ قَالَ نَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ أَبِي دَاوُدَ البرلسى عَن مُحَمَّد بن عبد الله بن عبد الحكم قَالَ سَمِعْتُ الشَّافِعِيَّ يَقُولُ قَالَ أَبُو يُوسُفَ لأَرُوحَنَّ اللَّيْلَةَ إِلَى أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ يَعْنِي الرَّشِيدَ بِقَاصِمَةِ الظَّهْرِ عَلَى الْمَدَنِيِّينَ فِي الْيَمِينِ مَعَ الشَّاهِدِ فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ فَتَقُولُ مَاذَا قَالَ إِنَّهُ لَا يُقْضَى إِلا بِشَاهِدَيْنِ لأَنَّ اللَّهَ قَدْ أَبَى إِلا الشَّاهِدَيْنِ وَتَلا الآيَةَ فِي الدَّيْنِ قَالَ فَإِنْ قَالُوا لَكَ فَمَنِ الشَّاهِدَانِ اللَّذَان يقبلان وَلَا يُحْكَمُ إِلا بِهِمَا قَالَ أَقُولُ حُرَّانِ مُسْلِمَانِ عَدْلانِ قَالَ فَقُلْتُ يُقَالُ لَكَ فَلِمَ أَجَزْتَ شَهَادَةَ النَّصَارَى فِي الْحُقُوقِ وَقَدْ قَالَ اللَّهُ تبَارك وَتَعَالَى {من رجالكم} وَقَالَ {مِمَّن ترْضونَ من الشُّهَدَاء} قَالَ فَتَفَكَّرَ سَاعَةً ثُمَّ قَالَ هَذَا خَفِيٌّ مِنْ أَيْنَ أَنْ يَهْتَدُوا لِهَذَا قَالَ قُلْتُ وانما يحْتَج بِقَوْلِكَ عَلَى ضُعَفَاءِ النَّاسِ
''امام شافعیؒ نے کہا کہ قاضی ابو یوسف نے کہا: آج رات میں امیر المومنین ہارون الرشید کے پاس ایک گواہ اور قسم کے ساتھ فیصلہ کرنے کے مسئلہ میں اہل مدینہ کی کمر توڑ دلیل لے کر جاؤں گا، اس سے ایک شخص نے کہا کہ آپ کیا کہیں گے؟ قاضی ابو یوسفؒ نے کہا: میں یہ کہوں گا کہ قرآن مجید نے دو عادل مسلمانوں کی گواہی لے کر مدعی کے حق میں فیصلہ کرنے کا حکم دیا ہے، جس کے خلاف اہل مدینہ مدعی کے پاس ایک ہی گواہ کی موجودگی میں مدعی سے قسم لے کر فیصلہ کرنے کے قائل ہیں، اس شخص نے کہا کہ وہ دونوں گواہ کیسے ہونے چاہئے؟ امام یوسفؒ نے کہا کہ دو آزاد عادل مسلمان ہونے چاہئے، اس شخص نے کہا کہ تم سے اہل مدینہ کی طرف سے کہا جائے گا کہ تم حقوق میں دو عادل مسلمانوں کے بجائے عیسائیوں کی گواہی پر بھی فیصلہ کرنے کے قائل ہو، پھر تمہاری یہ قرآنی دلیل تمہارے مؤقف کو باطل کردے گی، ابو یوسفؒ اس پر کچھ دیر سوچتے رہے، پھر بولے کہ یہ بہت مخفی قسم کی بات ہے، اہل مدینہ اس کا پتہ کہاں سے پائیں گے؟ اس شخص نے کہا کہ تمہارے طریقہ استدلال کو ضعیف العقل لوگوں کے ہی خلاف استعمال کیا جا سکے گا۔''
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 139 – 140 جلد 01 الانتقاء في فضائل الثلاثة الأئمة الفقهاء - أبو عمر يوسف بن عبد الله بن محمد بن عبد البر بن عاصم النمري القرطبي (المتوفى: 463هـ) - مكتب المطبوعات الإسلامية بحلب
(جاری ہے)
 
Last edited:

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!


یاد مجھے بھی کچھ آیا ہے، اسے آگے بیان کروں گا!
امام ابن عبد البر کی یہ بات جو آپ نے بیان کی بلکل ہمیں سمجھ آگئی ہے؛
آپ نے امام ابن عبد البر کے حوالہ سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا امام ابو حنیفہ پر اہل حدیث کی جروحات کو فقہا لائق اعتبار و اعتماد نہیں سمجھتے، آپ نے امام عبد البر کے حوالہ سے عبارت پیش کی اور واضح کیا کہ امام ابن عبد البر نے مطلقا فقہاء کہا ہے، مطلب ہر مسلک اور فقہ کے فقہاء نہ کہ صرف فقہائے احناف بلکہ فقہائے مالکیہ، فقہائے شافعیہ، اور فقہائے حنابلہ بھی امام ابو حنیفہ پر اہل حدیث کی جروحات کو لائق اعتبار نہیں سمجھتے!
اور آپ نے امام ابن عبد البر کی کتاب ''الاستغناء'' سے اصل عبارت بھی پیش کی!
اور آپ کی یہ بات آپ کی پیش کردہ عبارت سے تو ثابت ہو تی ہے!
اور یہی بات ہمیں @اشماریہ بھائی بھی سمجھانے کی کوشش کرتے رہے، مگر انہوں نے اب تک ایسی کوئی عبارت پیش نہیں کی تھی!
اب جبکہ آپ نے ثبوت میں عبارت بھی پیش کردی ہے، تو آپ کا مدعا ثات ہوتا نظر آتا ہے!
میں آپ کے مؤقف کو درست تسلیم کر ہی لیتا، اور اپنے مؤقف سے رجوع کرہی لیتا!
مگر قرآن کی ایک آیت اس میں حائل ہو گئی:

يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُوا أَنْ تُصِيبُوا قَوْمًا بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوا عَلَى مَا فَعَلْتُمْ نَادِمِينَ (سورة الحجرات 06)
اے ایمان والو اگر کوئی فاسق تمہاے پاس کوئی سی خبر لائے تو اس کی تحقیق کیا کرو کہیں کسی قوم پر بے خبری سے نہ جا پڑو پھر اپنے کیے پر پشیمان ہونے لگو (ترجمہ احمد علی لاہوری)
اب جب ایک حنفی مقلد، اور وہ بھی دیوبندی، اور نہ صرف دیوبندی بلکہ دیوبندی عالم کوئی خبر دے، تو اس کی تحقیق ضرور کرنا چاہیئے!
تو جناب جب ہم نے آپ کی دی ہوئی اس خبر کی، یعنی عبارت کی تحقیق کی، تو معلوم ہوا کہ آپ نے جو عبارت اور اس عبارت پر جو مدعا کھڑا کیا ہے، وہ تو نرا دھوکہ وفریب اور دجل وفنکاری ہے!
نہ یہ کلام ابن عبد البر کا ہے، بلکہ ابن عبد البر تو اس کے ناقل ہیں، اور آپ نے یہاں وہ عبارت بھی قطع وبرید کر کے پیش کی، کہ کسی طرح آپ کا مدعا ثابت ہو سکے۔
ہم ابن عبد البر کی اس کتاب سے امام ابو حنیفہ کا مکمل ترجمہ پیش کرتے ہیں:

أبو حنيفة النعمان بن ثابت الكوفي الفقيه صاحب الرأي قيل: أنه رأی أنس بن مالك وسمع من عبد الله بن الحارث بن جزء الزبيدي، فیعد بذلك في التابعين، وكان خزازا بالكوفة. وكان أبوه مولی لبني تيم الله بن ثعلبة.
كان في الفقه إماماً حسن الرأی والقياس، لطيف الاستخراج جيد الذهن حاضر الفهم، ذكياً ورعاً عاقلاً إلا أنه كان مذهبه في أخبار الآحاد العدول أن لايقبل منها ما خالف الأصول المجتمع عليها، فأنكر عليه أهل الحديث ذلك وذمّوه فأفرطوا، وحسده من أهل وقته من بغی عليه استحل الغيبة فيه. وعظمه آخرون روفعوا من ذكره، واتخذوه إماماً، وأفرطوا أيضاً في مدحه، وألف الناس في فضائله وفي مثالبه، والطعن عليه وأكثر أهل الحديث يذمونه. وعامة الحنبلية اليوم علی ذمه، وكان أحمد رحمه الله ممن يسیء القول فيه وفي أصحابه.
قال يحيي بن معين: أصحابنا يفرطون في أبي حنيفة وأهل الفقه لا يلتفتون إلی من طعن عليه ولا يصدقون بشيء من السوء نسب إلیه. روی عن جعفر بن محمد وحماد بن أبي سليمان، وعطاء ونافع، وسماك.
روی عنه وكيع وابن المبارك، وعبد الرزاق، وأبو نعيم وأبو يوسف، وزفر بن الهذيل، ومحمد بن الحسن وجماعة يطول ذكرهم قد جمعتهم غير واحد.

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 572 – 573 الاستغناء في معرفة المشهورين من حملة العلم بالكنى - أبو عمر يوسف بن عبد الله بن محمد بن عبد البر بن عاصم النمري القرطبي (المتوفى: 463هـ) - دار ابن تيمية، الرياض
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 472 – 473 الاستغناء في معرفة المشهورين من حملة العلم بالكنى - أبو عمر يوسف بن عبد الله بن محمد بن عبد البر بن عاصم النمري القرطبي (المتوفى: 463هـ) - جامعة أم القرى، مكة المكرمة
یہاں چند اہم باتیں ہیں؛
امام ابن عبد البر نے امام ابو حنفیہ کو اہل الرائے ، اور فقیہ کہا، امام عبد البر نے صیغہ تمریض سے ذکر کیا ہے کہ کہا جاتا ہے کہ امام ابو حنیفہ نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ کو دیکھا، اور عبد الله بن الحارث بن جزء الزبیدی سے سماع ہے، ا س بنا پر امام ابو حنیفہ کو تایعین میں شمار کیا گیا ہے،پھر امام ابو حنفیہ کی فہم و فقہ میں تعریف کی اور مختلف اوصاف بیان کیئے، اور ان اوصاف کے بیان کے بعد ''الا'' کہہ کر امام ابو حنیفہ کی فقہ میں ایک اصولی و بنیادی نقص بیان کیا!( کوئی یہ کہے کہ امام ابن عبد البر نے تو اسے نقص نہیں کہا، تو وہ اس کی غلط فہمی ہے، کہ امام ابو حنیفہ کی فہم و فقہ کی تعریف کے بعد ''الا'' کہنا ہی اس بات کو واضح کرتا ہےکہ یہاں امام عبد البر اسے قدح کے طور پر بیان کر رہے ہیں!) اور وہ یہ ہے کہ،امام ابو حنیفہ مجتمع علیہ اصول کے خلاف صحیح اخبار الآحاد کو قبول نہیں کرتے تھے، یعنی کہ صحیح احادیث کو رد کر دیا کرتے تھے۔ اس وجہ سے اہل الحدیث نے ابو حنفیہ کا رد اور انکار کیا اور ان کی مذمت کی، اور اس مذمت میں افراط سے کام لیا، امام ابو حنیفہ کی غیبت کو بھی حلال قرار دیا۔ دوسروں نے امام ابو حنیفہ کی تعظیم کی اور امام ابو حنیفہ کے ذکر کو بڑھایا، اور امام بنایا اور انہوں نے بھی امام ابو حنیفہ کی مدح میں افراط سے کام لیا! لوگوں نے امام ابو حنیفہ کی مدح پر بھی لکھا، اور امام ابو حنیفہ کے مثالیب اور ان پر طعن پر بھی لکھا۔ اکثر اہل الحدیث امام ابو حنیفہ کی مذمت کرتے ہیں، اورآج عام حنابلہ امام ابو حنیفہ کی مذمت کے مؤقف پر ہیں۔ امام احمد بن حنبل ان میں ہیں جن کے امام ابو حنیفہ کے متعلق بُرائی کے اقوال یعنی کہ جرح کے اقوال ہیں۔ پھر امام ابن عبد البر دونوں جانب سے اس افرط کے پیش نظر یحیی بن معین کا ایک قول نقل کرتے ہیں:

قال يحيي بن معين: أصحابنا يفطرون في أبي حنيفة وأهل الفقيه لا يلتفتون إلی من طعن عليه ولا يصدقون بشيء من السوء نسب إلیه.
یحیی بن معین نے کہا:ہمارے اصحاب ابو حنیفہ کے معاملہ میں افراط سے کام لیتے، اور اہل فقہ امام ابو حنیفہ پر طعن کرنے والے طرف اتفات ہی نہیں کرتے، اور امام ابو حنیفہ کی طرف منسوب کسی برائی وخامی کی تصدیق نہیں کرتے۔
اب آپ دیکھیں کہ یہاں يحیی بن معین کوئی قاعدہ و اصول اور فقہاء کا اچھا کام نہیں بتلا رہے ہیں، بلکہ وہ یہاں اپنے اصحاب اور ان فقہاء (فقہائے اہل الرائے) دونوں پر نقد کر رہے ہیں کہ ہمارے اصحاب امام ابو حنیفہ پر مذمت میں افراط کام لیتے ہیں، اور وہ فقہاء (فقہائے اہل الرائے) امام ابو حنیفہ پر کسی جرح کی طرف التفات ہی نہیں کرتے!
مگر کمال ہے! رحمانی صاحب آدھی ادھوری عبارت پیش کر کرے یہ باور کروانے کی کوشش کی کہ تمام فقہاء امام ابو حنیفہ پر کسی جرح کا اعتبار ہی نہیں کرتے!
اب کوئی منچلا یہ کہے کہ یہاں ''فقہاء'' کے لفظ ہیں ''اہل الرائے فقہاء'' کے الفاظ تو نہیں، تو جناب یحیی بن معن نے اپنے اصحاب کہا ہے، اور اپنے اصحاب یحیی بن معین کے فقہاء اصحاب بھی شامل ہیں! اور امام ابو حنیفہ پر ان فقہاء کی جرح بھی موجود ہے، کہ جن کا فقیہ ہونا مسلم ہے!
اب امام ابو حنیفہ پر جرح کرے والے بھی فقہاء اور پھر بھی یہ کہنا کہ لفظ ''فقہاء'' کا ہے، لہٰذا تمام فقہاء مطلب ہر مسلک ومسلک اور فقہ کے فقہاء نہ کہ صرف فقہائے احناف، بیوقوفی وجہالت قرار پائے گی!
ہاں اس مطلب کو ثابت کرنے کے لئے اگر کوئی بے شرم وبے حیا آدھی ادھوری عبارت پیش کرکے دجل وفریب اور دھوکہ وفراڈ کرتے ہوئے آدھی ادھوری عبارت پیش کرے، تو الگ بات ہے!

نوٹ: یہ ممکن ہے کہ رحمانی صاحب نے دانستہ آدھی ادھوری عبارت پیش نہ کی ہو، کیونکہ یہ احتمال بھی ہے کہ رحمانی صاحب کو یہ قطع وبرید شدہ عبارت ملی ہو، اور انہوں نے اسی پار اپنا مدعا قائم کردیا!
خیر ایسا معاملہ تو کبھی غلطی میں ہو جاتا ہے!
ایسی صورت میں اس دجل وفریب اور دھوکہ وفراڈ کا ذمہ اس کے سر جائے گا، جس کی یہ کارستانی ہے! اور یہ کہا جائے کہ کہ رحمانی صاحب کسی دجال فریبی کے دجل وفریب کا شکار ہو گئے!
اللہ ہمیں ایسے دجالوں اور فریب کاروں کے دجل وفریب سے محفوظ رکھے!

ابن عبد البر کے کلام سے یہاں چند باتیں اور ثابت ہوتی ہیں!
اول: اہل الحدیث فقہ پر بھی کلام کرتے تھے، اور امام ابو حنیفہ کی فقہ اور فقہی اصول پر اہل الحدیث کلام کرتے تھے، امام عبد البر نے ان کے کلام کرنے کو درست قرار دیا، لیکن اس میں افراط سے کام لینے کی مذمت کی!
دوم: امام ابن عبد البر اخبار الآحاد کے حوالہ سے امام ابو حنیفہ واہل الرائے کے مؤقف کو مذموم سمجھتے ہیں!
سوم: امام ابن عبد البر نے بھی اس کی گواہی دیتے ہیں کہ اکثر اہل الحدیث امام ابو حنیفہ کی مذمت کرتے ہیں
چہارم: امام ابن عبد البر کے زمانے میں بھی عام حنابلہ (اب کوئی منچلا یہاں عام حنابلہ کا مطلب عامی حنابلہ نہ کہہ دے) امام ابو حنیفہ کی مذمت کے مؤقف پر ہیں۔
پنجم: امام احمد بن حنبل امام ابو حنیفہ اور اصحاب ابو حنیفہ کی مذمت کرنے والوں میں سے ہیں!
کیوں رحمانی صاحب! کچھ سمجھ آئی؟
ارے ہاں! یاد آیا، کہ مجھے کیا یاد آیا تھا:

ذكر أَبُو بكر بن مُحَمَّد بن اللَّبَّادُ قَالَ نَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ أَبِي دَاوُدَ البرلسى عَن مُحَمَّد بن عبد الله بن عبد الحكم قَالَ سَمِعْتُ الشَّافِعِيَّ يَقُولُ قَالَ أَبُو يُوسُفَ لأَرُوحَنَّ اللَّيْلَةَ إِلَى أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ يَعْنِي الرَّشِيدَ بِقَاصِمَةِ الظَّهْرِ عَلَى الْمَدَنِيِّينَ فِي الْيَمِينِ مَعَ الشَّاهِدِ فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ فَتَقُولُ مَاذَا قَالَ إِنَّهُ لَا يُقْضَى إِلا بِشَاهِدَيْنِ لأَنَّ اللَّهَ قَدْ أَبَى إِلا الشَّاهِدَيْنِ وَتَلا الآيَةَ فِي الدَّيْنِ قَالَ فَإِنْ قَالُوا لَكَ فَمَنِ الشَّاهِدَانِ اللَّذَان يقبلان وَلَا يُحْكَمُ إِلا بِهِمَا قَالَ أَقُولُ حُرَّانِ مُسْلِمَانِ عَدْلانِ قَالَ فَقُلْتُ يُقَالُ لَكَ فَلِمَ أَجَزْتَ شَهَادَةَ النَّصَارَى فِي الْحُقُوقِ وَقَدْ قَالَ اللَّهُ تبَارك وَتَعَالَى {من رجالكم} وَقَالَ {مِمَّن ترْضونَ من الشُّهَدَاء} قَالَ فَتَفَكَّرَ سَاعَةً ثُمَّ قَالَ هَذَا خَفِيٌّ مِنْ أَيْنَ أَنْ يَهْتَدُوا لِهَذَا قَالَ قُلْتُ وانما يحْتَج بِقَوْلِكَ عَلَى ضُعَفَاءِ النَّاسِ
''امام شافعیؒ نے کہا کہ قاضی ابو یوسف نے کہا: آج رات میں امیر المومنین ہارون الرشید کے پاس ایک گواہ اور قسم کے ساتھ فیصلہ کرنے کے مسئلہ میں اہل مدینہ کی کمر توڑ دلیل لے کر جاؤں گا، اس سے ایک شخص نے کہا کہ آپ کیا کہیں گے؟ قاضی ابو یوسفؒ نے کہا: میں یہ کہوں گا کہ قرآن مجید نے دو عادل مسلمانوں کی گواہی لے کر مدعی کے حق میں فیصلہ کرنے کا حکم دیا ہے، جس کے خلاف اہل مدینہ مدعی کے پاس ایک ہی گواہ کی موجودگی میں مدعی سے قسم لے کر فیصلہ کرنے کے قائل ہیں، اس شخص نے کہا کہ وہ دونوں گواہ کیسے ہونے چاہئے؟ امام یوسفؒ نے کہا کہ دو آزاد عادل مسلمان ہونے چاہئے، اس شخص نے کہا کہ تم سے اہل مدینہ کی طرف سے کہا جائے گا کہ تم حقوق میں دو عادل مسلمانوں کے بجائے عیسائیوں کی گواہی پر بھی فیصلہ کرنے کے قائل ہو، پھر تمہاری یہ قرآنی دلیل تمہارے مؤقف کو باطل کردے گی، ابو یوسفؒ اس پر کچھ دیر سوچتے رہے، پھر بولے کہ یہ بہت مخفی قسم کی بات ہے، اہل مدینہ اس کا پتہ کہاں سے پائیں گے؟ اس شخص نے کہا کہ تمہارے طریقہ استدلال کو ضعیف العقل لوگوں کے ہی خلاف استعمال کیا جا سکے گا۔''
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 139 – 140 جلد 01 الانتقاء في فضائل الثلاثة الأئمة الفقهاء - أبو عمر يوسف بن عبد الله بن محمد بن عبد البر بن عاصم النمري القرطبي (المتوفى: 463هـ) - مكتب المطبوعات الإسلامية بحلب
(جاری ہے)
ایک ریٹنگ قہقہے والی بھی ہونی چاہیے جو آپ کی دور از کار تاویلات پر لگایا جائے۔ بہرحال فی الحال "غیر متعلق" کی ریٹنگ کو قہقہہ سمجھ لیجیے۔
میں ایک تحقیق اور کچھ گھریلو مسائل میں سخت مصروف ہوں۔ ان شاء اللہ رحمانی بھائی ہی آپ سے بات کریں گے۔
@رحمانی بھائی ان سے آخر میں پیش کردہ روایت میں امام شافعیؒ اور امام ابو یوسفؒ کا درمیانی واسطہ بھی پوچھ لیجیے گا تاکہ تحقیق تام ہو جائے۔
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
ایوب سختیانی کے امام ابو حنیفہ سے متعلق زیر بحث مؤقف کے حوالہ سے ایک اہم نکتہ یہ بھی ہے کہ رحمانی صاحب نے عبد البر کے حوالہ سے جو بات بیان کی،
بالفرض محال اسے درست مان بھی لیا جائے، تب بھی امام سختیانی تو خود فقیہ ہیں، لہٰذا امام ایوب سختیانی کی جرح کسی غیر فقیہ کی جرح نہیں، بلکہ ایک فقیہ کی جرح ہے؛
امام ایوب سختیانی کے فقیہ ہونے پر کوئی اشکال تو نہ ہونا چاہیئے، لیکن پھر بھی کچھ ائمہ سے امام ایوب سختیانی کے فقیہ ہونے پر چند حوالے پیش کیئے دیتا ہوں:
امام ابن عبد البر نے بھی امام ایوب سختیانی کو فقہاء میں شمار کیا ہے، انہوں نے
امام شعبة کا قول بھی نقل کیا ہے کہ امام شعبة نے امام ایوب سختیانی کو ''سید الفقہاء'' کہا:
وَقَالَ شُعْبَةُ فِي حَدِيثٍ ذَكَرَهُ حَدَّثَنَا بِهِ سَيِّدُ الْفُقَهَاءِ
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 340 جلد 01 التمهيد لما في الموطأ من المعاني والأسانيد - أبو عمر يوسف بن عبد الله بن محمد بن عبد البر بن عاصم النمري القرطبي (المتوفى: 463هـ) - وزارة عموم الأوقاف والشؤون الإسلامية، المغرب

امام شعبة
کے اس قول کو کئی ائمہ نے اپنی کتب میں لکھا ہے، چند کتب کے حوالہ پیش خدمت ہیں:
حَدثنَا الْعَبَّاس حَدثنَا أَبُو الْوَلِيد هِشَام بن عبد الْملك قَالَ سَمِعت شُعْبَة يَقُول حَدثنَا أَيُّوب سيد الْفُقَهَاء
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 262 جلد 04 تاريخ ابن معين (رواية الدوري) - أبو زكريا يحيى بن معين بن عون بن زياد بن بسطام بن عبد الرحمن المري بالولاء، البغدادي (المتوفى: 233هـ) - مركز البحث العلمي وإحياء التراث الإسلامي، مكة المكرمة

حَدَّثَنَا بُنْدَارٌ عَنْ أَبِي الْوَلِيدِ
حَدَّثَنَا شُعْبَةُ حَدَّثَنَا أَيُّوبُ سَيِّدُ الْفُقَهَاءِ.

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 109 جلد 02 المعرفة والتاريخ - يعقوب بن سفيان بن جوان الفارسي الفسوي، أبو يوسف (المتوفى: 277هـ) - مكتبة الدار بالمدينة المنورة
أيوب بن أبي تميمة السختياني.
حدثنا عبد الرحمن نا أبي نا أبو الوليد قال
سمعت شعبة يقول: حدثنا أيوب سيد الفقهاء.

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 133 جلد 01 الجرح والتعديل - أبو محمد عبد الرحمن بن محمد بن إدريس بن المنذر التميمي، الحنظلي، الرازي ابن أبي حاتم (المتوفى: 327هـ) - طبعة مجلس دائرة المعارف العثمانية، بحيدر آباد الدكن، الهند - تصوير دار الكتب العلمية

ايوب السختياني وهو ابن أبي تميمة واسم أبي تميمة كيسان يكنى أبا بكر روى عن أنس بن مالك و [عن] الحسن ومحمد روى عنه الثوري وشعبة وحماد بن زيد، يعد في البصريين سمعت أبي وأبا زرعة يقولان ذلك، قال أبو محمد وروى عن أبيه كيسان.
حدثنا عبد الرحمن نا محمد بن مسلم الرازي قال سمعت أبا الوليد الطيالسي نا
شعبة نا أيوب السختياني وكان سيد الفقهاء.

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 255 جلد 02 الجرح والتعديل - أبو محمد عبد الرحمن بن محمد بن إدريس بن المنذر التميمي، الحنظلي، الرازي ابن أبي حاتم (المتوفى: 327هـ) - طبعة مجلس دائرة المعارف العثمانية، بحيدر آباد الدكن، الهند - تصوير دار الكتب العلمية

حَدَّثَنَا زَكَرِيَّا السَّاجِيُّ، أَخْبَرنا بُنْدَار، أَخْبَرنا أَبُو الْوَلِيدِ قَالَ شُعْبَة: أَخْبَرنا أَيُّوبُ سَيِّدُ الْفُقَهَاءِ.
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 144 جلد 01 الكامل في ضعفاء الرجال - أبو أحمد بن عدي الجرجاني (المتوفى: 365هـ) - الكتب العلمية، بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 190 جلد 01 الكامل في ضعفاء الرجال - أبو أحمد بن عدي الجرجاني (المتوفى: 365هـ) - مكتبة الرشد
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 74 جلد 01 الكامل في ضعفاء الرجال - أبو أحمد بن عدي الجرجاني (المتوفى: 365هـ) - دار الفكر للطباعة والنشر والتوزيع

حَدَّثَنَا مُحَمد بْنُ جَعْفَرٍ الْمَطِيرِيُّ، أَخْبَرنا مُحَمد بْنُ عَبد الْمَلِكِ، سَمِعْتُ أَبَا الْوَلِيدِ الطَّيَالِسِيُّ يَقُولُ، وَذَكَرَ شُعْبَة أَوْ ذُكِر عِنْدَهُ، فَقَالَ: شُعْبَة يَقُولُ: حَدَّثَنا مُزَاحِمُ بْنُ زُفَرَ، وَكَانَ كَخَيْرِ الرِّجَالِ، سَمِعْتُهُ يَقُولُ: أَخْبَرنا أَيُّوبُ، وَكَانَ سَيِّدَ الْفُقَهَاءِ.

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 161 جلد 01 الكامل في ضعفاء الرجال - أبو أحمد بن عدي الجرجاني (المتوفى: 365هـ) - الكتب العلمية، بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 220 جلد 01 الكامل في ضعفاء الرجال - أبو أحمد بن عدي الجرجاني (المتوفى: 365هـ) - مكتبة الرشد
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 90 جلد 01 الكامل في ضعفاء الرجال - أبو أحمد بن عدي الجرجاني (المتوفى: 365هـ) - دار الفكر للطباعة والنشر والتوزيع

أيوب بن أبي تميمة السختياني:
مولى، مات سنة إحدى وثلاثين ومائة. قال الحسن: أيوب سيد شباب أهل البصرة. وقال هشام بن عروة: ما رأيت بالبصرة مثل ذاك السختياني.
وقال شعبة: أيوب سيد الفقهاء. وخذ عنه مالك وسفيان الثوري وغيرهما

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 89 جلد 01 - طبقات الفقهاء - أبو اسحاق إبراهيم بن علي الشيرازي (المتوفى: 476هـ) - دار الرائد العربي، بيروت

ابن حجر العسقلانی نے امام سختیانی کو کبار فقہاء میں شمار کیا:

أيوب ابن أبي تميمة كيسان السختياني بفتح المهملة بعدها معجمة ثم مثناة ثم تحتانية وبعد الألف نون أبو بكر البصري ثقة ثبت حجة من كبار الفقهاء العباد من الخامسة مات سنة إحدى وثلاثين ومائة وله خمس وستون ع
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 117 تقريب التهذيب - أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) - دار الرشيد، سوريا
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 158 تقريب التهذيب - أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) - دار العاصمة
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 90 تقريب التهذيب - أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) - بيت الأفكار الدولية

وقال أبو الوليد عن شعبة
حدثني أيوب وكان سيد الفقهاء

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 374 جلد 01 تهذيب التهذيب - أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) - وزارة الأوقاف السعودية
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 200 جلد 01 تهذيب التهذيب - أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) - مؤسسة الرسالة
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 398 جلد 01 تهذيب التهذيب - أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) - مطبعة دائرة المعارف النظامية، الهند

امام الذہبی نے بھی ایوب سختیانی کا سید الفقہاء ہونا نقل کیا ہے:
أيوب بن أبي تميمة أبو بكر السختياني الامام عن عمرو بن سلمة الجرمي ومعاذة ومحمد وعنه شعبة وابن علية قال بن علية كنا نقول عنده ألفا حديث وقال شعبة ما رأيت مثله كان سيد الفقهاء مات 131 وله ثلاث وستون سنة ع
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 260 - 261 جلد 01 الكاشف في معرفة من له رواية في الكتب الستة - شمس الدين أبو عبد الله محمد بن أحمد بن عثمان بن قَايْماز الذهبي (المتوفى: 748هـ) - دار القبلة للثقافة الإسلامية - مؤسسة علوم القرآن، جدة

امام ابن حبان نے بھی ایوب سختیانی کو فقہاء میں شمار کیا ہے:

أيوب السختياني وهو أيوب بن أبى تميمة واسم أبى تميمة كيسان مولى العنزة كنيته أبو بكر ليس يصح له عن أنس بن مالك سماع كان مولده سنة ثمان وستين وكان من سادات أهل البصرة وعباد أتباع التابعين وفقهائهم ممن اشتهر بالفضل والعلم والنسك والصلابة في السنة والقمع لاهل البدع مات يوم الجمعة في شهر رمضان سنة إحدى وثلاثين ومائة سنة الطاعون وله ثلاث وستون سنة
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 180 مشاهير علماء الأمصار وأعلام فقهاء الأقطار - محمد بن حبان بن أحمد بن حبان بن معاذ بن مَعْبدَ، التميمي، أبو حاتم، الدارمي، البُستي (المتوفى: 354هـ) - دار الكتب العلمية، بيروت

خیرالدین زرکلی نے اپنی کتاب اعلام میں ایوب سختیانی کو سید الفقہاء لکھا ہے:

أيوب بن أبي تميمة كيسان السختياني البصري، أبو بكر: سيد فقهاء عصره. تابعي، من النساك الزهاد، من حفاظ الحديث. كان ثابتا ثقة رُوي عنه نحو 800 حديث
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 38 جلد 02 الأعلام - خير الدين بن محمود بن محمد بن علي بن فارس، الزركلي الدمشقي (المتوفى: 1396هـ) - دار العلم للملايين

مصطفی بن عبد اللہ المعروف کاتب چلپی وحاجی خلیفہ نے بھی ایوب سختیانی کو سیدالفقہاء لکھا ہے:

الإمام الزاهد أبو بكر أيوب بن كَيْسَان السّخْتِيَانيّ البصري، المتوفى بها سنة إحدى وثلاثين ومائة، وله ثلاث وستون سنة.
كان أحد الأعلام وسَيّد الفُقَهَاء، من صغار التابعين، له نحو ثمانمائة حديث وكان إذا ذكر حديثاً بكى. وحجَّ أربعين حَجَّة، يُحيي الليل كله فيخفي ذلك.
وكان إماماً ثقة، سمع الحديث من أنس وروى عنه الثوري وشعبة ومالك بن أنس. ذكره ابن الأثير وغيره.

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 361 جلد 01 سلم الوصول إلى طبقات الفحول - مصطفى بن عبد الله القسطنطيني العثماني المعروف بـ «كاتب جلبي» وبـ «حاجي خليفة» (المتوفى 1067 هـ) - مكتبة إرسيكا، إستانبول


بدر الدین عینی حنفی نے بھی ایوب سختیانی کا سیداالفقہاء ہونا نقل کیا ہے:

وقال أبو الوليد، عن شعبة: حدثنى أيوب، وكان سيد الفقهاء.
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 86 جلد 01 مغاني الأخيار في شرح أسامي رجال معاني الآثار - أبو محمد محمود بن أحمد بن موسى بن أحمد بن حسين الغيتابى الحنفى بدر الدين العينى (المتوفى: 855هـ) - دار الكتب العلمية، بيروت

ملا علی قاری حنفی نے بھی ایوب سختیانی کا سید الفقہاء ہونا نقل کیا ہے:
وقال شعبة ما رأيت مثله كان سيد الفقهاء
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 73 جلد 02 شرح الشفا - علي بن (سلطان) محمد، أبو الحسن نور الدين الملا الهروي القاري (المتوفى: 1014هـ) - دار الكتب العلمية، بيروت
(جاری ہے)
 
Last edited:

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
اس تھریڈ پر کئی اشکال ہیں، اولاًتویہ کہ ایوب سختیانی کتنے بھی ذی علم ہوں، ہیں بہرحال ایک امتی ہی، ان کاقول ان کا اپنا تاثر توبتاسکتاہے لیکن قول دلیل نہیں بن سکتا،آپ حضرات یوں تو ہرموقعہ اورمحل سے یہ رٹ لگاتے پھرتے ہیں کہ امتی کا قول دلیل نہیں بن سکتا،لیکن ائمہ احناف کے خلاف ہرامتی کا قول دلیل بن جاتاہے،
یتیم ومسکین فی الحدیث کے مقلدین سے علم جرح وتعدیل میں ایسی جاہلانہ بات کا کیا جانا کوئی اچھنبے کی بات نہیں!
یہاں کسی شرعی حکم کا اثبات نہیں، بلکہ کسی شخص کے احوال کے بارے میں جاننا ہے، اور قرآن وحدیث میں تمام تمام واقعات اور انسانوں کے احوال کا بیان نہیں، واقعات اور انسانوں کے احوال انسانوں کے واسطے ہی معلوم ہوتے ہیں، اور ان واقعات اور احوال کی بناء پر قرآن وحدیث کی دلیل سے حکم صادر کیا جاتا ہے۔
اس کی دلیل دیکھیں:

حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ صَالِحٍ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ قَالَ أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ أَنَّ زَيْنَبَ بِنْتَ أُمِّ سَلَمَةَ أَخْبَرَتْهُ أَنَّ أُمَّهَا أُمَّ سَلَمَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخْبَرَتْهَا عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ سَمِعَ خُصُومَةً بِبَابِ حُجْرَتِهِ فَخَرَجَ إِلَيْهِمْ فَقَالَ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ وَإِنَّهُ يَأْتِينِي الْخَصْمُ فَلَعَلَّ بَعْضَكُمْ أَنْ يَكُونَ أَبْلَغَ مِنْ بَعْضٍ فَأَحْسِبُ أَنَّهُ صَدَقَ فَأَقْضِيَ لَهُ بِذَلِكَ فَمَنْ قَضَيْتُ لَهُ بِحَقِّ مُسْلِمٍ فَإِنَّمَا هِيَ قِطْعَةٌ مِنْ النَّارِ فَلْيَأْخُذْهَا أَوْ فَلْيَتْرُكْهَا
ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا، ان سے صالح بن کیسان نے اور ان سے ابن شہاب نے کہ مجھے عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے خبر دی، انہیں زینب بنت ام سلمہ رضی اللہ عنہما نے خبر دی اور انہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے حجرے کے دروازے کے سامنے جھگڑے کی آواز سنی اور جھگڑا کرنے والوں کے پاس تشریف لائے۔ آپ نے ان سے فرمایا کہ میں بھی ایک انسان ہوں۔ اس لیے جب میرے یہاں کوئی جھگڑا لے کر آتا ہے تو ہو سکتا ہے کہ ( فریقین میں سے ) ایک فریق کی بحث دوسرے فریق سے عمدہ ہو، میں سمجھتا ہوں کہ وہ سچا ہے۔ اور اس طرح میں اس کے حق میں فیصلہ کر دیتا ہوں، لیکن اگر میں اس کو ( اس کے ظاہری بیان پر بھروسہ کرکے) کسی مسلمان کا حق دلا دوں تو دوزخ کا ایک ٹکڑا اس کو دلا رہا ہوں، وہ لے لے یا چھوڑ دے۔
‌صحيح البخاري: كِتَابُ المَظَالِمِ وَالغَصْبِ (بَابُ إِثْمِ مَنْ خَاصَمَ فِي بَاطِلٍ، وَهُوَ يَعْلَمُهُ)
صحیح بخاری: کتاب: ظلم اور مال غصب کرنے کے بیان میں (باب : اس شخص کا گناہ، جو جان بوجھ کر جھوٹ کے لیے جھگڑا کرے)

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ زَيْنَبَ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِنَّكُمْ تَخْتَصِمُونَ إِلَيَّ، وَلَعَلَّ بَعْضَكُمْ أَلْحَنُ بِحُجَّتِهِ مِنْ بَعْضٍ، فَمَنْ قَضَيْتُ لَهُ بِحَقِّ أَخِيهِ شَيْئًا، بِقَوْلِهِ: فَإِنَّمَا أَقْطَعُ لَهُ قِطْعَةً مِنَ النَّارِ فَلاَ يَأْخُذْهَا
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا امام مالک سے ، ان سے ہشام بن عروہ نے ، ان سے ان کے باپ نے ، ان سے زینب نے اور ان سے ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، تم لوگ میرے یہاں اپنے مقدمات لاتے ہو اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ایک تم میں دوسرے سے دلیل بیان کرنے میں بڑھ کر ہوتا ہے (قوت بیان یہ بڑھ کر رکھتا ہے ) پھر میں اس کو اگر اس کے بھائی کا حق ( غلطی سے ) دلادوں ، تو وہ حلال ( نہ سمجھے ) اس کو نہ لے ، میں اس کو دوزخ کا ایک ٹکڑا دلارہا ہوں ۔
صحيح البخاري: كِتَابُ الشَّهَادَاتِ (بَابُ مَنْ أَقَامَ البَيِّنَةَ بَعْدَ اليَمِينِ)

صحیح بخاری: کتاب: گواہوں کے متعلق مسائل کا بیان (باب : جس مدعی نے ( مدعیٰ علیہ کی ) قسم کھالینے کے بعد گواہ پیش کیے)

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ هِشَامٍ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ زَيْنَبَ بِنْتِ أُمِّ سَلَمَةَ عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ وَإِنَّكُمْ تَخْتَصِمُونَ إِلَيَّ وَلَعَلَّ بَعْضَكُمْ أَنْ يَكُونَ أَلْحَنَ بِحُجَّتِهِ مِنْ بَعْضٍ وَأَقْضِيَ لَهُ عَلَى نَحْوِ مَا أَسْمَعُ فَمَنْ قَضَيْتُ لَهُ مِنْ حَقِّ أَخِيهِ شَيْئًا فَلَا يَأْخُذْ فَإِنَّمَا أَقْطَعُ لَهُ قِطْعَةً مِنْ النَّارِ
ہم سے محمد بن کثیر نے بیان کیا، ان سے سفیان نے، ان سے ہشام نے، ان سے عروہ نے، ان سے زینت بنت ام سلمہ نے اور ان سے ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں تمہارا ہی جیسا انسان ہوں اور بعض اوقات جب تم باہمی جھگڑا لاتے ہو تو ممکن ہے کہ تم میں سے بعض اپنے فریق مخالف کے مقابلہ میں اپنا مقدمہ پیش کرنے میں زیادہ چالاکی سے بولنے والا ہو اور اس طرح میں اس کے مطابق فیصلہ کردوں جو میں تم سے سنتا ہوں۔ پس جس شخص کے لیے بھی اس کے بھائی کے حق میں سے کسی چیز کا فیصلہ کردوں تو وہ اسے نہ لے۔ کیوں کہ اس طرح میں اسے جہنم کا ایک ٹکڑا دیتا ہوں۔
‌صحيح البخاري: كِتَابُ الحِيَلِ (بَابُ)
صحیح بخاری: کتاب: شرعی حیلوں کے بیان میں (باب)

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ عَنْ مَالِكٍ عَنْ هِشَامٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ زَيْنَبَ بِنْتِ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ وَإِنَّكُمْ تَخْتَصِمُونَ إِلَيَّ وَلَعَلَّ بَعْضَكُمْ أَنْ يَكُونَ أَلْحَنَ بِحُجَّتِهِ مِنْ بَعْضٍ فَأَقْضِي عَلَى نَحْوِ مَا أَسْمَعُ فَمَنْ قَضَيْتُ لَهُ مِنْ حَقِّ أَخِيهِ شَيْئًا فَلَا يَأْخُذْهُ فَإِنَّمَا أَقْطَعُ لَهُ قِطْعَةً مِنْ النَّارِ
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا، کہا ہم سے امام مالک نے، ان سے ہشام نے، ان سے ان کے والد نے، ان سے زینب بنت ابی سلمہ نے اور ان سے ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، بلاشبہ میں ایک انسان ہوں، تم میرے پاس اپنے جھگڑے لاتے ہو۔ ممکن ہے تم میں سے بعض اپنے مقدمہ کو پیش کرنے میں فریق ثانی کے مقابلہ میں زیادہ چرب زبان ہو اور میں تمہاری بات سن کر فیصلہ کردوں تو جس شخص کے لیے میں اس کے بھائی( فریق مخالف) کا کوئی حق دلادوں۔ چاہئے کہ وہ اسے نہ لے کیوں کہ یہ آگ کا ایک ٹکڑا ہے جو میں اسے دیتا ہوں۔
صحيح البخاري: كِتَابُ الأَحْكَامِ (بَابُ مَوْعِظَةِ الإِمَامِ لِلْخُصُومِ)
صحیح بخاری: کتاب: حکومت اور قضا کے بیان میں (باب : فریقین کو امام کا نصیحت کرنا)

حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ صَالِحٍ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ قَالَ أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ أَنَّ زَيْنَبَ بِنْتَ أَبِي سَلَمَةَ أَخْبَرَتْهُ أَنَّ أُمَّ سَلَمَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخْبَرَتْهَا عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ سَمِعَ خُصُومَةً بِبَابِ حُجْرَتِهِ فَخَرَجَ إِلَيْهِمْ فَقَالَ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ وَإِنَّهُ يَأْتِينِي الْخَصْمُ فَلَعَلَّ بَعْضَكُمْ أَنْ يَكُونَ أَبْلَغَ مِنْ بَعْضٍ فَأَحْسِبُ أَنَّهُ صَادِقٌ فَأَقْضِي لَهُ بِذَلِكَ فَمَنْ قَضَيْتُ لَهُ بِحَقِّ مُسْلِمٍ فَإِنَّمَا هِيَ قِطْعَةٌ مِنْ النَّارِ فَلْيَأْخُذْهَا أَوْ لِيَتْرُكْهَا
ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا، ان سے صالح نے، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا، انہیں عروہ بن زبیر نے خبردی، انہیں زیب بنت ابی سلمہ نے خبردی اور انہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے خبردی۔ آپ نے اپنے حجرہ کے دورازے پر جھگڑے کی آواز سنی تو باہر ان کی طرف نکلے۔ پھر آپ نے فرمایا کہ میں بھی ایک انسان ہوں اور میرے پاس لوگ مقدمے لے کر آتے ہیں۔ ممکن ہے ان میں سے ایک فریق دوسرے فریق سے بولنے میں زیادہ عمدہ ہو اور میں یقین کرلوں کی وہی سچا ہے اور اس طرح اس کے موافق فیصلہ کردوں۔ پس جس شخص کے لیے بھی میں کسی مسلمان کا حق دلادوں تو وہ جہنم کا ایک ٹکڑا ہے وہ چاہے اسے لے یا چھوڑ دے، میں اس کو در حقیقت دوزخ کا ایک ٹکڑا دلارہا ہوں۔
صحيح البخاري: كِتَابُ الأَحْكَامِ (بَابُ مَنْ قُضِيَ لَهُ بِحَقِّ أَخِيهِ فَلاَ يَأْخُذْهُ، فَإِنَّ قَضَاءَ الحَاكِمِ لاَ يُحِلُّ حَرَامًا وَلاَ يُحَرِّمُ حَلاَلًا)
صحیح بخاری: کتاب: حکومت اور قضا کے بیان میں (باب : اگر کسی شخص کو حاکم دوسرے مسلمان بھائی کا مال ناحق دلادے تو اس کو نہ لے کیوں کہ حاکم کے فیصلہ سے نہ حرام حلال ہوسکتا ہے نہ حلال حرام ہوسکتا ہے)

حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ عَنْ الزُّهْرِيِّ أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ أَنَّ زَيْنَبَ بِنْتَ أَبِي سَلَمَةَ أَخْبَرَتْهُ عَنْ أُمِّهَا أُمِّ سَلَمَةَ قَالَتْ سَمِعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَلَبَةَ خِصَامٍ عِنْدَ بَابِهِ فَخَرَجَ عَلَيْهِمْ فَقَالَ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ وَإِنَّهُ يَأْتِينِي الْخَصْمُ فَلَعَلَّ بَعْضًا أَنْ يَكُونَ أَبْلَغَ مِنْ بَعْضٍ أَقْضِي لَهُ بِذَلِكَ وَأَحْسِبُ أَنَّهُ صَادِقٌ فَمَنْ قَضَيْتُ لَهُ بِحَقِّ مُسْلِمٍ فَإِنَّمَا هِيَ قِطْعَةٌ مِنْ النَّارِ فَلْيَأْخُذْهَا أَوْ لِيَدَعْهَا
ہم سے ابو الیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، انہیں زہری نے، انہیں عروہ بن زبیر نے، انہیں زینب بنت ابی سلمہ رضی اللہ عنہ نے خبر دی، ان سے ان کی والدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دروازے پر جھگڑا کرنے والوں کی آواز سنی اور ان کی طرف نکلے۔ پھر ان سے فرمایا‘میں تمہارے ہی جیسا انسان ہوں، میرے پاس لوگ مقدمہ لے کر آتے ہیں، ممکن ہے ایک فریق دوسے سے زیادہ عمدہ بولنے والا ہو اور میں اس کے لیے اس حق کا فیصلہ کردوں اور یہ سمجھوں کہ میں نے فیصلہ صحیح کیا ہے (حالانکہ وہ صحیح نہ ہو) تو جس کے لیے میں کسی مسلمان کے حق کا فیصلہ کردوں تو بلا شبہ یہ فیصلہ جہنم کا ایک ٹکڑا ہے ۔

صحيح البخاري: كِتَابُ الأَحْكَامِ (بَابٌ القَضَاءُ فِي قَلِيلِ المَالِ وَكَثِيرِهِ سَوَاءٌ)
صحیح بخاری: کتاب: حکومت اور قضا کے بیان میں (باب : ناحق مال اڑانے میں جو وعید ہے وہ تھوڑے اور بہت دونوں مالوں کو شامل ہے)

حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى التَّمِيمِيُّ أَخْبَرَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ زَيْنَبَ بِنْتِ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ قَالَتْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّكُمْ تَخْتَصِمُونَ إِلَيَّ وَلَعَلَّ بَعْضَكُمْ أَنْ يَكُونَ أَلْحَنَ بِحُجَّتِهِ مِنْ بَعْضٍ فَأَقْضِيَ لَهُ عَلَى نَحْوٍ مِمَّا أَسْمَعُ مِنْهُ فَمَنْ قَطَعْتُ لَهُ مِنْ حَقِّ أَخِيهِ شَيْئًا فَلَا يَأْخُذْهُ فَإِنَّمَا أَقْطَعُ لَهُ بِهِ قِطْعَةً مِنْ النَّارِ
ابومعاویہ نے ہمیں ہشام بن عروہ سے خبر دی، انہوں نے اپنے والد سے، انہوں نے زینب بنت ابی سلمہ رضی اللہ عنہا سے اور انہوں نے حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم میرے پاس جھگڑے لے کر آتے ہو، ہو سکتا ہے تم میں سے کوئی اپنی دلیل کے ہر پہلو کو بیان کرنے کے لحاظ سے دوسرے کی نسبت زیادہ ذہین و فطین (ثابت) ہو اور میں جس طرح اس سے سنوں اسی طرح اس کے حق میں فیصلہ کر دوں، تو جس کو میں اس کے بھائی کے حق میں سے کچھ دوں وہ اسے نہ لے، میں اس صورت میں اس کے لیے آگ کا ٹکرا کاٹ کر دے رہا ہوں گا۔"
صحيح مسلم: كِتَابُ الْأَقْضِيَةِ (بَابُ بَيَانُ اَنَّ حُكمَ الحَاكِمِ لَا يُغَيَّرُ البَاطِنَ)
صحیح مسلم: کتاب: جھگڑو ں میں فیصلے کرنے کے طریقے اور آداب (باب: حاکم کا فیصلہ اصل حقیقت کو تبدیل نہیں کرتا)

حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى التَّمِيمِيُّ، أَخْبَرَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ زَيْنَبَ بِنْتِ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّكُمْ تَخْتَصِمُونَ إِلَيَّ، وَلَعَلَّ بَعْضَكُمْ أَنْ يَكُونَ أَلْحَنَ بِحُجَّتِهِ مِنْ بَعْضٍ، فَأَقْضِيَ لَهُ عَلَى نَحْوٍ مِمَّا أَسْمَعُ مِنْهُ، فَمَنْ قَطَعْتُ لَهُ مِنْ حَقِّ أَخِيهِ شَيْئًا، فَلَا يَأْخُذْهُ، فَإِنَّمَا أَقْطَعُ لَهُ بِهِ قِطْعَةً مِنَ النَّارِ
ابومعاویہ نے ہمیں ہشام بن عروہ سے خبر دی، انہوں نے اپنے والد سے، انہوں نے زینب بنت ابی سلمہ رضی اللہ عنہا سے اور انہوں نے حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم میرے پاس جھگڑے لے کر آتے ہو، ہو سکتا ہے تم میں سے کوئی اپنی دلیل کے ہر پہلو کو بیان کرنے کے لحاظ سے دوسرے کی نسبت زیادہ ذہین و فطین (ثابت) ہو اور میں جس طرح اس سے سنوں اسی طرح اس کے حق میں فیصلہ کر دوں، تو جس کو میں اس کے بھائی کے حق میں سے کچھ دوں وہ اسے نہ لے، میں اس صورت میں اس کے لیے آگ کا ٹکرا کاٹ کر دے رہا ہوں گا
صحيح مسلم: كِتَابُ الْأَقْضِيَةِ (بَابُ بَيَانُ اَنَّ حُكمَ الحَاكِمِ لَا يُغَيَّرُ البَاطِنَ)
صحیح مسلم: کتاب: جھگڑو ں میں فیصلے کرنے کے طریقے اور آداب (باب: حاکم کا فیصلہ اصل حقیقت کو تبدیل نہیں کرتا)

دیکھیں؛ یہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی واقعہ اور احوال رجال، رجال سے ہی معلوم کرتے ہیں، اور اس واقعہ اور احوال رجال پر حکم وحی کا صادر فرماتے ہیں!
لہٰذا ایسی بے سروپا کی باتیں کرنے سے گریز کریں!
ایک طرف ایوب سختیانی اور انہی کی طرح کے کچھ افراد ہیں اوردوسری جانب پوری امت ہے،ان چند حضرات کےقول کو اتناوزن دینا کہ پوری امت بے وزن ہوکر رہ جائے،عقل انصاف اورعلم سبھی سے بعید ہے۔
عقل سلیم اور انصاف کا تقاضا تو یہ ہے علماء کے مؤقف کے مقابلہ میں ''غیر عالم '' امت کو کھڑا نہ کیا جائے!
یہ کہنا کہ ایوب سختیانی اور ان کی طرح کے کچھ افراد ہیں اور دوسری جانب پوری امت! یہ تاثر دینا کہ ایوب سختیانی اور کچھ افراد پوری امت کے اجماع کے خلاف ہے، یہ درست نہیں!
یہاں معاملہ علم الحدیث اور علم الفقہ کا ہے، لہذا یہاں علماء کے مؤقف کا ہی تقابل کیا جائے گا!
اور پھر آپ نے ابن عبد البر کی جس کتاب سے قطع وبرید شدہ عبارت پیش کی تھی، اسی کتاب میں ابن عبد البر نے کہا ہے کہ اکثر اہل الحدیث اہل الرائے کی فقہی بنیاد کے سبب بھی امام ابو حنیفہ کی مذمت کرتے ہیں، اور عام حنابلہ بھی امام ابو حنیفہ کی مذمت کے مؤقف پر ہیں، باقی رہے علمائے اہل الرائے، تو وہ تو خود اس مسئلہ میں مدعی علیہ ہیں!

(جاری ہے)
 
Last edited:

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
تیسری بات یہ ہے کہ آپ نے مطلقاًبلادلیل کیسے کہہ دیاکہ انہوں نے امام ابوحنیفہ کی فقہ وفقاہت کوخارش سے تعبیر کیاہے، ان کے ارجاء الفقہاء والے مسئلہ کو خارش سے تعبیر نہیں کیاہے؟
ماشاء اللہ! یہ تو ایسے کہا جا رہا ہے کہ جیسے ارجاء کا تعلق فقہ وفقاہت سے ہے ہی نہیں! اور ارجاء عبارت النص سے ثابت ہوتا ہے!
حالانکہ امام ابو حنیفہ سے منسوب کتاب
''الفقه الاكبر'' میں بھی امام ابو حنیفہ کا ارجاء کا مؤقف ذکر ہے، اور کتاب کا نام ہے ''الفقه الاكبر''!
اور امام ابو حنیفہ کا یا دیگر مرجیہ کا عمل کا ایمان میں شامل نہ ہونا اپنی فقاہت سے ہی ثابت کرتے ہيں! گو یہ یہ فہم و فقاہت مردود ہے!
دوم کہ امام ایوب سختیانی کا امام ابو حنیفہ کی مذمت کرنا امام ابو حنیفہ کے کسی ایک ہی مؤقف کی وجہ سے ہونا لازم نہیں! کہ یا تو امام ابو حنیفہ کے ارجاء کے مؤقف کے سبب امام ایوب سختیانی امام ابو حنیفہ پر تنقید کریں، یا پھر امام ابو حنیفہ کے اہل الرائے ہونے کی بناء پر امام ابو حنیفہ پر تنقید کریں! یہ لازم نہیں، بلکہ ان دونوں وجوہات کی بنا پر امام ایوب سختیانی کی تنقید کا ہونا درست معلوم ہوتا ہے، کیونکہ امام ایوب سختیانی نے ان دونوں امور پر تنقید کی ہے؛


حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ الْحَسَنِ، قَالَ: ثَنَا جَعْفَرٌ الْفِرْيَابِيُّ، قَالَ: ثَنَا أَحْمَدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: ثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، قَالَ: ثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، قَالَ: سَمِعْتُ أَيُّوبَ، وَقِيلَ لَهُ: "مَا لَكَ لَا تَنْظُرُ فِي هَذَا - يَعْنِي الرَّأْيَ - فَقَالَ أَيُّوبُ: قِيلَ لِلْحِمَارِ أَلَا تَجْتَرُّ، فَقَالَ: أَكْرَهُ مَضْغُ الْبَاطِلِ"

حماد بن زید نے بیان کیا کہ میں نے ایوب سختیانی کو یہ کہتے ہوئے سنا جبکہ آپ سے کہا گیا تھا کہ کیا بات ہے آپ رائے میں غور کیوں نہیں کرتے ہیں، تو اس پر آپ نے جواب دیا تھا کہ گدھے سے کہا گیا کہ تم جگالی کیوں نہیں کرتے تو اس نے جواب دیا میں خراب چیز کو پسند نہیں کرتا۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 08 جلد 03 حلية الأولياء وطبقات الأصفياء - أبو نعيم أحمد بن عبد الله بن أحمد بن إسحاق بن موسى بن مهران الأصبهاني (المتوفى: 430هـ) - دار الفكر للطباعة والنشر والتوزيع، بيروت - مكتبة الخانجي، القاهرة
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 37 جلد 03 حلیۃ الأولیاء وطبقات الأصفیاء (مترجم اردو) – مترجم منیب الرحمن دیوبندی – دار الاشاعت، کراچی

حدثا أبو زرعة قَالَ: وَحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ تَوْبَةَ قال: حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مَهْدِيٍّ عَنْ أَبِيهِ عَنْ حَمَّادِ بْنِ زَيْدٍ قال: قَالَ لِي أَيُّوبُ: لَوْ جِئْتَ حَتَّى تَنْظُرَ فِي شَيْءٍ مِنَ الرَّأْيِ قَالَ: قُلْتُ: نَعَمْ. قَالَ: فَسَكَتَ سَكْتَةً ثُمَّ قَالَ: قِيلَ لِلْحِمَارِ: مَا لَكَ لَا تَجْتَرُّ؟ قَالَ: أَكْرَهُ مَضْغَ الباطل.

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 247 جلد 01 تاريخ أبي زرعة الدمشقي - عبد الرحمن بن عمرو بن عبد الله بن صفوان النصري المشهور بأبي زرعة الدمشقي الملقب بشيخ الشباب (المتوفى: 281هـ) - دار الكتب العلمية، بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 507 - 508 جلد 01 تاريخ أبي زرعة الدمشقي - عبد الرحمن بن عمرو بن عبد الله بن صفوان النصري المشهور بأبي زرعة الدمشقي الملقب بشيخ الشباب (المتوفى: 281هـ) - مجمع اللغة العربية، دمشق

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خَلِيفَةَ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ الْحُسَيْنِ، ثنا جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْفِرْيَابِيُّ، ثنا أَحْمَدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدَّوْرَقِيُّ قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ مَهْدِيٍّ يَقُولُ: سَمِعْتُ حَمَّادَ بْنَ زَيْدٍ يَقُولُ: قِيلَ لِأَيُّوبَ: مَا لَكَ لَا تَنْظُرُ فِي الرَّأْيِ؟ قَالَ أَيُّوبُ: "قِيلَ لِلْحِمَارِ مَا لَكَ لَا تَجْتَرُّ؟ قَالَ: أَكْرَهُ مَضْغَ الْبَاطِلِ"

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 1073 جلد 02 - جامع بيان العلم وفضله - أبو عمر يوسف بن عبد الله بن محمد بن عبد البر بن عاصم النمري القرطبي (المتوفى: 463هـ) - دار ابن الجوزي، المملكة العربية السعودية

أنا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ الْحِنَّائِيُّ، أنا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الشَّافِعِيُّ، نا جَعْفَرُ بْنُ كَزَالٍ، نا أَحْمَدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، وعَبَّاسُ بْنُ طَالِبٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مَهْدِيٍّ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ زَيْدٍ، قَالَ: قِيلَ لِأَيُّوبَ: لَوْ نَظَرْتَ فِي الرَّأْيِ قَالَ أَيُّوبُ: "قِيلَ لِلْحِمَارِ لَوِ اجْتَرَرْتَ قَالَ: إِنِّي أَكْرَهُ مَضْغَ الْبَاطِلِ"

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 459 جلد 01 الفقيه والمتفقه - أبو بكر أحمد بن علي بن ثابت بن أحمد بن مهدي الخطيب البغدادي (المتوفى: 463هـ) - دار ابن الجوزي، المملكة العربية السعودية

حماد بن زيد سمعت أيوب وقيل له: ما لك لا تنظر في هذا؟ يعني الرأي قال: قيل للحمار: ألا تجتر؟ قال أكره مضغ الباطل.
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 131 جلد 01 تذكرة الحفاظ - شمس الدين أبو عبد الله محمد بن أحمد بن عثمان بن قَايْماز الذهبي (المتوفى: 748هـ) - دار الكتب العلمية، بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 123 - 124 جلد 01 تذكرة الحفاظ - شمس الدين أبو عبد الله محمد بن أحمد بن عثمان بن قَايْماز الذهبي (المتوفى: 748هـ) - مجلس دائرة المعارف النظامية، حيدرآباد الدكن

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بنُ أَحْمَدَ بنِ الحَسَنِ، حَدَّثَنَا الفِرْيَابِيُّ، حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بنُ إِبْرَاهِيْمَ، حَدَّثَنَا ابْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بنُ زَيْدٍ سَمِعْتُ أَيُّوْبَ وقيل له: مالك لاَ تَنْظُرُ فِي هَذَا يَعْنِي الرَّأْيَ فَقَالَ: قِيْلَ لِلْحِمَارِ إلَّا تَجْتَرُّ؟ فَقَالَ: أَكْرَهُ مَضْغَ البَاطِلِ.

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 1177 سير أعلام النبلاء - شمس الدين أبو عبد الله محمد بن أحمد بن عثمان بن قَايْماز الذهبي (المتوفى: 748هـ) - بيت الافكار الدولية
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 17 جلد 06 سير أعلام النبلاء - شمس الدين أبو عبد الله محمد بن أحمد بن عثمان بن قَايْماز الذهبي (المتوفى: 748هـ) - مؤسسة الرسالة

حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ: سَمِعْتُ أَيُّوبَ وَقِيلَ لَهُ: مَا لَكَ لا تَنْظُرُ فِي الرَّأْيِ؟ قَالَ: قِيلَ لِلْحِمَارِ أَلا تَجْتَرَّ؟ قَالَ: أَكْرَهُ مَضْغَ الْبَاطِلِ.

ملاحظہ فرمائیں: مجلد 08 صفحه 381 - 382 تاريخ الإسلام ووفيات المشاهير والأعلام - شمس الدين أبو عبد الله محمد بن أحمد بن عثمان بن قَايْماز الذهبي (المتوفى: 748هـ) - دار الكتاب العربي، بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 620 جلد 03 تاريخ الإسلام ووفيات المشاهير والأعلام - شمس الدين أبو عبد الله محمد بن أحمد بن عثمان بن قَايْماز الذهبي (المتوفى: 748هـ) - دار الغرب الإسلامي

مزید کہ ان اہل الرائے پر امام ایوب سختیانی سے امام ابو حنیفہ کا نام لے کر بھی نقد منقول ہے:

حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ قَالَ: ثنا حَمَّادٌ عَنْ يُونُسَ عَنْ مُحَمَّدٍ أَنَّهُ كَانَ يَكْرَهُ بَيْعَ الثِّمَارِ قَبْلَ أَنْ تُصْرَمَ.
وَقَالَ سُلَيْمَانُ: هَذَا خَطَأٌ، الْحَدِيثُ حَدِيثُ أَيُّوبَ، قَالَ حَمَّادٌ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ مُحَمَّدٍ أَنَّهُ كَانَ لَا يَرَى بَأْسًا بِشَرْيِ التَّمْرَةِ عَلَى رُءُوسِ النَّخِيلِ بَأْسًا. وَقَالَ: لَا أَدْرِي ما بيعه قبل أن يصرم. (271 ب) وَقَالَ سُلَيْمَانُ: كَانَ أَيُّوبُ يَرْغَبُ عَنْ هَؤُلَاءِ الثَّلَاثَةِ: رَبِيعَةَ وَالْبَتِّيِّ وَأَبِي حَنِيفَةَ.

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 20 جلد 03 المعرفة والتاريخ - يعقوب بن سفيان بن جوان الفارسي الفسوي، أبو يوسف (المتوفى: 277هـ) - مكتبة الدار بالمدينة المنورة
لہٰذا امام ایوب سختیانی رائے اور اہل الرائی کی مذمت کیا کرتے تھے۔
اسی طرح امام ایوب سختیانی ارجاء اور مرجئ کی بھی مذمت کیا کرتے تھے، جو آپ کو بھی تسلیم ہے؛

حَدَّثَنِي هَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ أَبُو مُوسَى، ثنا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ زَيْدٍ، قَالَ: جَلَسْتُ إِلَى أَبِي حَنِيفَةَ بِمَكَّةَ فَذَكَرَ سَعِيدَ بْنَ جُبَيْرٍ فَانْتَحَلَهُ فِي الْإِرْجَاءِ فَقُلْتُ مَنْ يُحَدِّثُكَ يَا أَبَا حَنِيفَةَ؟ قَالَ: سَالِمٌ الْأَفْطَسُ، فَقُلْتُ لَهُ: فَإِنَّ سَالِمًا يَرَى رَأْيَ الْمُرْجِئَةِ، وَلَكِنْ حَدَّثَنَا أَيُّوبُ قَالَ: رَآنِي سَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ جَلَسْتُ إِلَى طَلْقِ بْنِ حَبِيبٍ فَقَالَ: أَلَمْ أَرَكَ جَلَسْتَ إِلَى طَلْقٍ؟ لَا تُجَالِسْهُ، قَالَ: فَكَانَ كَذَلِكَ، قَالَ: فَنَادَاهُ رَجُلٌ: يَا أَبَا حَنِيفَةَ وَمَا كَانَ رَأْي طَلْقٍ فَأَعْرَضَ عَنْهُ ثُمَّ نَادَاهُ فَأَعْرَضَ عَنْهُ، فَلَمَّا أَكْثَرَ عَلَيْهِ قَالَ: وَيْحَكَ كَانَ يَرَى الْعَدْلَ"
حماد بن زید نے کہا کہ میں ابو حنیفہ کے پاس بیٹھا تھا کہ انہوں نے (امام ابو حنیفہ نے) سعید بن جبیر کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ سعید بن جبیر مرجئی المذہب تھے، میں نے (حماد بن زید) نے کہا کہ اے ابو حنیفہ آپ کو یہ بات کس نے بتلائی ہے کہ سعید بن جبیر مرجئی المذہب تھے؟ ابو حنیفہ نے کہا کہ سالم الافطس نے؛ میں نے (حماد بن زید) ان سے (امام ابو حنیفہ سے) کہا کہ سالم الافطس خود مرجئی المذہب تھے، (اس لئے انھوں نے بزعم خویش سعید بن جبیر کے متعلق بھی یہی مرجئی ہونے کی رائے قائم کر لی)، لیکن مجھے ایوب سختیانی نے کہا کہ سعید بن جبیر نے مجھے طلق کے پاس بیٹھا دیکھا تو انھوں نے مجھ سے کہا کہ تم طلق کے پاس مت بیٹھا کرو کیونکہ طلق مرجئی المذہب ہیں، ایک شخص نے امام صاحب سے کہا طلق کی کیا رائے (یعنی عقیدہ ومذہب) تھا؟ تو امام ابو حنیفہ نے اس کا جواب دینے سے اعراض کیا، پھر (امام ابو حنیفہ سے) سوال یہی سوال کیا، پھر امام اس کا جواب دینے سے اعراض کیا، پھر جب زیادہ بار سوال کیا گیا تو (امام ابو حنیفہ نے) کہا کہ طلق کا مذہب ''العدل'' تھا۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 202 – 203 جلد 01 السنة - أبو عبد الرحمن عبد الله بن أحمد بن محمد بن حنبل الشيبانيّ البغدادي (المتوفى: 290هـ) - دار ابن القيم، الدمام

حَدَّثَنِي أَبِي، نا إِسْمَاعِيلُ، عَنْ أَيُّوبَ، قَالَ: قَالَ سَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ غَيْرُ سَائِلِهِ وَلَا ذَاكِرًا ذَاكَ لَهُ: «لَا تُجَالِسْ طَلْقًا يَعْنِي أَنَّهُ كَانَ يَرَى رَأْيَ الْمُرْجِئَةِ»

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 302 – 303 جلد 01 السنة - أبو عبد الرحمن عبد الله بن أحمد بن محمد بن حنبل الشيبانيّ البغدادي (المتوفى: 290هـ) - دار ابن القيم، الدمام

حَدَّثَنِي أَبِي، نا مُؤَمَّلُ، نا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، نا أَيُّوبُ، قَالَ: قَالَ لِي سَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ: " أَلَمْ أَرَكَ مَعَ طَلْقٍ؟ قَالَ: قُلْتُ: بَلَى، فَمَا لَهُ؟ قَالَ: لَا تُجَالِسْهُ فَإِنَّهُ مُرْجِئٌ، قَالَ: قَالَ أَيُّوبُ: وَمَا شَاوَرْتُهُ فِي ذَلِكَ وَلَكِنْ يَحِقُّ لِلْمُسْلِمِ إِذَا رَأَى مِنْ أَخِيهِ مَا يَكْرَهُ أَنْ يَأْمُرَهُ وَيَنْهَاهُ "

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 323 جلد 01 السنة - أبو عبد الرحمن عبد الله بن أحمد بن محمد بن حنبل الشيبانيّ البغدادي (المتوفى: 290هـ) - دار ابن القيم، الدمام

حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ قَالَ: شَهِدْتُ أَبَا حَنِيفَةَ وَسُئِلَ عَنِ الْوِتْرِ فَقَالَ: فَرِيضَةٌ. قُلْتُ: كَمِ الصَّلَوَاتُ؟ قَالَ: خَمْسٌ.
قُلْتُ: فَالْوِتْرُ؟ قَالَ: فَرِيضَةٌ.
«وَقَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ قَالَ: جَلَسْتُ إِلَى أَبِي حَنِيفَةَ فِي الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ فَذَكَرَ سَعِيدَ بْنَ جُبَيْرٍ فَانْتَحَلَهُ لِلْأَرْجَاءِ. فَقُلْتُ: يَا أَبَا حَنِيفَةَ مَنْ مُحَدِّثُكَ؟ قَالَ: سَالِمٌ الْأَفْطَسُ. فَقُلْتُ: إِنَّ سَالِمًا كَانَ مُرْجِئًا، وَلَكِنْ حَدَّثَنَا أَيُّوبُ قَالَ: رَآنِي سَعِيدٌ جَلَسْتُ إِلَى طَلْقٍ فَقَالَ: ألَمْ أَرَكَ جَلَسْتَ إِلَى طَلْقٍ! لَا تُجَالِسْهُ. فَقَالَ رَجُلٌ: يَا أَبَا حَنِيفَةَ فَمَا كَانَ رأي طلق؟ قال: فسكت، ثم سأله فَسَكَتَ، ثُمَّ سَأَلَهُ فَسَكَتَ، فَقَالَ: وَيْحَكَ كَانَ يَرَى الْعَدْلَ». ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَيَّ فَقَالَ: يَرْحَمُ اللَّهُ أَيُّوبَ لَقَدْ قَدِمَ الْمَدِينَةَ وَأَنَا بِهَا،
فَقُلْتُ لَأَجْلِسَنَّ إِلَيْهِ لَعَلِّي أَتَعَلَّقُ عَلَيْهِ بِسَقْطَةٍ. قَالَ: فَجَاءَ فَقَامَ مِنَ الْقَبْرِ مَقَامًا لَا أَذْكُرُ ذَلِكَ الْمَقَامَ إِلَّا اقْشَعَرَّ جِلْدِي.
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 793 – 794 جلد 02 المعرفة والتاريخ - يعقوب بن سفيان بن جوان الفارسي الفسوي، أبو يوسف (المتوفى: 277هـ) – مكتبة الدار بالمدينة المنورة

أَخْبَرَنَا ابن الفضل، قَالَ: أَخْبَرَنَا عَبْد الله بن جَعْفَر، قَالَ: حَدَّثَنَا يَعْقُوب بن سُفْيَان، قَالَ: حَدَّثَنَا سُلَيْمَان بن حرب وَأَخْبَرَنَا ابن الفضل أَيْضًا، قَالَ: أَخْبَرَنَا أَحْمَد بن كامل الْقَاضِي، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّد بن موسى البربري، قَالَ: حَدَّثَنَا ابن الغلابي، عن سُلَيْمَان بن حرب، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّاد بن زيد، قَالَ: جلست إلى أَبِي حنيفة، فذكر سَعِيد بن جُبَيْر، فانتحله في الإرجاء، فَقُلْتُ: يا أَبَا حنيفة، من حدثك؟ قَالَ: سالم الأفطس، قَالَ: قُلْتُ لَهُ: سالم الأفطس كَانَ مرجئا ولكن حَدَّثَنِي أيوب، قَالَ: رآني سَعِيد بن جُبَيْر جلست إلى طلق، فَقَالَ: ألم أرك جلست إلى طلق؟ لا تجالسه.
قَالَ حَمَّاد: وَكَانَ طلق يرى الإرجاء، قَالَ: فَقَالَ رجل لأبي حنيفة: يا أَبَا حنيفة، ما كَانَ رأي طلق؟ فأعرض عَنْهُ، ثُمَّ سأله فأعرض عَنْهُ، ثُمَّ قَالَ: ويحك، كَانَ يرى العدل.

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 511 جلد 15 تاريخ بغداد - أبو بكر أحمد بن علي بن ثابت بن أحمد بن مهدي الخطيب البغدادي (المتوفى: 463هـ) - دار الغرب الإسلامي، بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 374 جلد 13 تاريخ بغداد وذيوله - أبو بكر أحمد بن علي بن ثابت بن أحمد بن مهدي الخطيب البغدادي (المتوفى: 463هـ) - دار الكتب العلمية، بيروت

واضح رہے کہ ابن تیمیہ کہہ چکے ہیں کہ امام ابوحنیفہ کے ارجاء اورمحدثین کے ایمان کے تعلق سے موقف میں نزاع محض لفظی ہے ،نتیجہ کے اعتبار سے کوئی فرق نہیں،یہ کیوں نہ ماناجائے کہ جہاں بہت سے محدثین امام ابوحنیفہ سے ارجاء کے مسلک سے ناراض تھے کیونکہ اگرچہ یہ محض لفظی نزاع ہے لیکن لفظ کی حد تک محدثین کے موقف سے الگ ہے،وہیں ایوب سختیانی بھی امام ابوحنیفہ سے اسی ارجاء والے موقف سے ناراض ہوں،
شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے محدثین اور امام ابو حنیفہ کے مابین ایمان کے حوالہ سے ارجاء کے مسئلہ کو محض لفظی نزاع نہیں کیا! بلکہ اس مسئلہ میں اکثر نزاع کو لفظی نزاع کہا ہے! اور اس اکثر کے علاوہ بقیہ محض لفظی نہیں کہا بلکہ اسے بدعت قرار دیا ہے؛
ہم آپ کو شیخ الاسلام ابن تیمیہ کا کلام پیش کرتے ہیں:

وَأَنْكَرَ حَمَّادُ بْنُ أَبِي سُلَيْمَانَ وَمَنْ اتَّبَعَهُ تَفَاضُلَ الْإِيمَانِ وَدُخُولَ الْأَعْمَالِ فِيهِ وَالِاسْتِثْنَاءَ فِيهِ؛ وَهَؤُلَاءِ مِنْ مُرْجِئَةِ الْفُقَهَاءِ وَأَمَّا إبْرَاهِيمُ النَّخَعِي - إمَامُ أَهْلِ الْكُوفَةِ شَيْخُ حَمَّادِ بْنِ أَبِي سُلَيْمَانَ - وَأَمْثَالُهُ؛ وَمَنْ قَبْلَهُ مِنْ أَصْحَابِ ابْنِ مَسْعُودٍ: كعلقمة وَالْأَسْوَدِ؛ فَكَانُوا مِنْ أَشَدِّ النَّاسِ مُخَالَفَةً لِلْمُرْجِئَةِ وَكَانُوا يَسْتَثْنُونَ فِي الْإِيمَانِ؛ لَكِنَّ حَمَّادَ بْنَ أَبِي سُلَيْمَانَ خَالَفَ سَلَفَهُ؛ وَاتَّبَعَهُ مَنْ اتَّبَعَهُ وَدَخَلَ فِي هَذَا طَوَائِفُ مِنْ أَهْلِ الْكُوفَةِ وَمَنْ بَعْدَهُمْ. ثُمَّ إنَّ " السَّلَفَ وَالْأَئِمَّةَ " اشْتَدَّ إنْكَارُهُمْ عَلَى هَؤُلَاءِ وَتَبْدِيعُهُمْ وَتَغْلِيظُ الْقَوْلِ فِيهِمْ؛ وَلَمْ أَعْلَمِ أَحَدًا مِنْهُمْ نَطَقَ بِتَكْفِيرِهِمْ؛ بل هُمْ مُتَّفِقُونَ عَلَى أَنَّهُمْ لَا يُكَفَّرُونَ فِي ذَلِكَ؛ وَقَدْ نَصَّ أَحْمَد وَغَيْرُهُ مِنْ الْأَئِمَّةِ: عَلَى عَدَمِ تَكْفِيرِ هَؤُلَاءِ الْمُرْجِئَةِ.
ملاحظہ فرمائیں : صفحه 507 جلد 07 - مجموع الفتاوى شيخ الإسلام ابن تيمية - مجمع الملك فهد لطباعة المصحف الشريف
ملاحظہ فرمائیں : صفحه 311 جلد 07 - مجموع الفتاوى شيخ الإسلام ابن تيمية - دار الوفاء

وَلِهَذَا لَمْ يُكَفِّرْ أَحَدٌ مِنْ السَّلَفِ أَحَدًا مِنْ " مُرْجِئَةِ الْفُقَهَاءِ " بَلْ جَعَلُوا هَذَا مِنْ بِدَعِ الْأَقْوَالِ وَالْأَفْعَالِ؛ لَا مِنْ بِدَعِ الْعَقَائِدِ فَإِنَّ كَثِيرًا مِنْ النِّزَاعِ فِيهَا لَفْظِيٌّ لَكِنَّ اللَّفْظَ الْمُطَابِقَ لِلْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ هُوَ الصَّوَابُ
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 394 جلد 07 - مجموع الفتاوى شيخ الإسلام ابن تيمية - مجمع الملك فهد لطباعة المصحف الشريف
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 311 جلد 07 - مجموع الفتاوى شيخ الإسلام ابن تيمية - دار الوفاء


شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے
''مرجئة الفقهاء '' کو سلف کے خلاف قرار دیا، انہیں اعمال واقوال میں بدعت کا مرتکب قرار دیا، اور اکثر نزاع کو نزاع لفظی قرار دیا اور یہ بھی فرما دیا کہ صواب یہی ہے کہ الفاظ کی کتاب وسنت سے موافقت ہی درست ہے۔ہاں اتنا بیان کیا ہے کہ ان ''مرجئة الفقهاء'' کی سلف نے تکفیر نہیں کی!! فتدبر!!
البحر الرائق شرح كنز الدقائق بھی ملاحظہ فرمائیں، یہ ابن نجیم المصری، جنہیں محرّر مذہب نعمانی وابو حنیفہ ثانی کہا جاتا ہے، وہ کیا بیان کرتے ہیں؛
الْخَامِسُ مَسْأَلَةُ الِاسْتِثْنَاءِ فِي الْإِيمَانِ فَاعْلَمْ أَنَّ عِبَارَتَهُمْ قَدْ اخْتَلَفَتْ فِي هَذِهِ الْمَسْأَلَةِ فَذَهَبَ طَائِفَةٌ مِنْ الْحَنَفِيَّةِ إلَى تَكْفِيرِ مَنْ قَالَ أَنَا مُؤْمِنٌ إنْ شَاءَ اللَّهُ وَلَمْ يُقَيِّدُوهُ بِأَنْ يَكُونَ شَاكًّا فِي إيمَانِهِ وَمِنْهُمْ الْأَتْقَانِيُّ فِي غَايَةِ الْبَيَانِ وَصَرَّحَ فِي رَوْضَةِ الْعُلَمَاءِ بِأَنَّ قَوْلَهُ إنْ شَاءَ اللَّهُ يَرْفَعُ إيمَانَهُ فَيَبْقَى بِلَا إيمَانٍ فَلَا يَجُوزُ الِاقْتِدَاءُ بِهِ وَذَكَرَ فِي الْفَتَاوَى الظَّهِيرِيَّةِ مِنْ الْمَوَاعِظِ أَنَّ مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ سُئِلَ عَمَّنْ يُسْتَثْنَى فِي الْإِيمَانِ فَقَالَ إنَّ اللَّهَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى ذَكَرَ فِي كِتَابِهِ ثَلَاثَةَ أَصْنَافٍ قَالَ تَعَالَى فِي مَوْضِعٍ {أُولَئِكَ هُمُ الْمُؤْمِنُونَ حَقًّا} [الأنفال: 4] وَقَالَ فِي مَوْضِعٍ آخَرَ {أُولَئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ حَقًّا} [النساء: 151] وَقَالَ فِي مَوْضِعٍ آخَرَ {مُذَبْذَبِينَ بَيْنَ ذَلِكَ لا إِلَى هَؤُلاءِ وَلا إِلَى هَؤُلاءِ} [النساء: 143] فَمَنْ قَالَ بِالِاسْتِثْنَاءِ فِي الْإِيمَانِ فَهُوَ مِنْ جُمْلَةِ الْمُذَبْذَبِينَ اهـ.
وَفِي الْخُلَاصَةِ وَالْبَزَّازِيَّةِ مِنْ كِتَابِ النِّكَاحِ عَنْ الْإِمَامِ أَبِي بَكْرٍ مُحَمَّدِ بْنِ الْفَضْلِ مَنْ قَالَ أَنَا مُؤْمِنٌ إنْ شَاءَ اللَّهُ فَهُوَ كَافِرٌ لَا تَجُوزُ الْمُنَاكَحَةُ مَعَهُ قَالَ الشَّيْخُ أَبُو حَفْصٍ فِي فَوَائِدِهِ لَا يَنْبَغِي لِلْحَنَفِيِّ أَنْ يُزَوِّجَ بِنْتَهُ مِنْ رَجُلٍ شَفْعَوِيِّ الْمَذْهَبِ وَهَكَذَا قَالَ بَعْضُ مَشَايِخِنَا وَلَكِنْ يَتَزَوَّجُ بِنْتَهمْ زَادَ فِي الْبَزَّازِيَّةِ تَنْزِيلًا لَهُمْ مَنْزِلَةَ أَهْلِ الْكِتَابِ اهـ.
وَذَهَبَ طَائِفَةٌ إلَى تَكْفِيرِ مَنْ شَكَّ مِنْهُمْ فِي إيمَانِهِ بِقَوْلِهِ أَنَا مُؤْمِنٌ إنْ شَاءَ اللَّهُ عَلَى وَجْهِ الشَّكِّ لَا مُطْلَقًا وَهُوَ الْحَقُّ لِأَنَّهُ لَا مُسْلِمَ يَشُكُّ فِي إيمَانِهِ وَقَوْلُ الطَّائِفَةِ الْأُولَى أَنَّهُ يَكْفُرُ غَلَطٌ لِأَنَّهُ لَا خِلَافَ بَيْنِ الْعُلَمَاءِ فِي أَنَّهُ لَا يُقَالُ أَنَا مُؤْمِنٌ إنْ شَاءَ اللَّهُ لِلشَّكِّ فِي ثُبُوتِهِ لِلْحَالِ بَلْ ثُبُوتُهُ فِي الْحَالِ مَجْزُومٌ بِهِ كَمَا نَقَلَهُ الْمُحَقِّقُ ابْنُ الْهُمَامِ فِي الْمُسَايَرَةِ وَإِنَّمَا مَحَلُّ الِاخْتِلَافِ فِي جَوَازِهِ لِقَصْدِ إيمَانِ الْمُوَافَاةِ فَذَهَبَ أَبُو حَنِيفَةَ وَأَصْحَابُهُ إلَى مَنْعِهِ وَعَلَيْهِ الْأَكْثَرُونَ

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 80- 81 جلد 02 البحر الرائق شرح كنز الدقائق- زين الدين بن إبراهيم، ابن نجيم المصري - دار الكتب علميه - بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 49 جلد 02 البحر الرائق شرح كنز الدقائق- زين الدين بن إبراهيم، ابن نجيم المصري – طبع قدیم، دار الكتب علميه - بيروت


ابن نجیم مصری نے بیان کیا ہے کہ فقہاء احناف کا ایک گروہ، ایمان مین استثناء کا قول یعنی کہ یہ کہے کہ ان شاء اللہ مومن ہوں، کہنے پر کافر قرار دیتا ہے، اور باقی اس پر کہ جو شک کرتے ہوئے استثناء کا قول کہے، لیکن اس کے جواز کا قائل کوئی بھی نہیں! بلکہ اس کو جائز کہنے والوں کو کوئی حنفی کافر قرار دے رہا ہے، کوئی حنفی کہتا ہے کہ یہ اہل الکتاب کی مانند ہیں، اور ان کی عورت سے نکاح کر سکتے ہیں، مگر اپنی عورت ان کے ہاں نہیں بیاہ سکتے!
دیکھ لیں، فقہائے احناف خود اسے محض اختلاف لفظی نہیں مانتے!
آپ نے یہ کیسے اورکس بنیاد پر طے کردیاکہ امام ابوحنیفہ سے ان کی فقاہت کی وجہ سے ناراض تھے اوران کی فقہ کو انہوں نے خارش کہاہے، بغیر دلیل کے کوئی بھی دعویٰ ان کا کام ہوتاہے جن کو جنون لاحق ہے، ورنہ صاحبان عقل لکھنے سے پہلے سوچتے ہیں کہ ان کے دعویٰ کی دلیل کیاہے اور یہ دلیل کتنی کمزو ریامضبوط ہے؟لہذا پہلے توآپ یہ ثابت کریں کہ ایوب سختیانی نے امام ابوحنیفہ کے تعلق سے جوکچھ کہا،اس کی بنیاد امام ابوحنیفہ کی فقاہت ہے ؟اگریہ کسی واضح دلیل سے نہیں کرسکتے تواپنے اوندھے علم کلام کو کام میں لانے کے بجائے معذرت کا طریقہ اختیار کریں نہ کہ ہٹ دھرمی کا۔
اس کی تفصیل ہم نے بیان کر دی ہے، اور اب آپ شیخ الاسلام ابن تیمیہ اور ابن عبد البر کے حوالہ سے بیان کردہ بیان پر معذرت کا طریقہ اختیار کریں نہ کہ ہٹ دھرمی کا!
مزید کہ آپ کو چاہئے کہ کسی بات پر مدعا قائم کرنے سے قبل اس عبارت کو بغور دیکھ لیا کریں!

(جاری ہے)
 

رحمانی

رکن
شمولیت
اکتوبر 13، 2015
پیغامات
382
ری ایکشن اسکور
105
پوائنٹ
91
کیاجواب مکمل ہوگیاہے؟اگرمکمل ہوگیاہے تو واضح فرمادیں اوراگرنہیں مکمل ہواہے توجلدی کریں،ورنہ کہیں ایسانہ ہو کہ یہ جواب دوہزار بیس تک میں مکمل ہو
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
علاوہ ازیں خود حماد بن زید جو ایوب سختیانی کے خاص شاگرد ہیں وہ کہتے ہیں کہ میں امام ابوحنیفہ سے اس لئے محبت کرتاہوں کہ وہ ایوب سختیانی سے محبت وعقیدت رکھتے ہیں۔
حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ
قَالَ وَنا الْحَسَنُ بْنُ الْخَضِرِ الأَسْيُوطِيُّ قَالَ نَا أَبُو بِشْرٍ الدُّولابِيُّ قَالَ نَا مُحَمَّدُ بْنُ سَعْدَانَ قَالَ نَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ قَالَ سَمِعْتُ حَمَّادَ بْنَ زَيْدٍ يَقُولُ وَاللَّهِ إِنِّي لأُحِبُّ أَبَا حَنِيفَةَ لِحُبِّهِ لأَيُّوبَ وَرَوَى حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ أَبِي حَنِيفَةَ أَحَادِيثَ كَثِيرَةً
الانتقاء في فضائل الثلاثة الأئمة الفقهاء (ص: 130)
جی! آپ کی پیش کردہ یہ روایت کی بالکل اسی طرح موجود ہے، میں آن لائن کتاب کا لنک بھی پیش کردیتا ہوں؛
قَالَ وَنا الْحَسَنُ بْنُ الْخَضِرِ الأَسْيُوطِيُّ قَالَ نَا أَبُو بِشْرٍ الدُّولابِيُّ قَالَ نَا مُحَمَّدُ بْنُ سَعْدَانَ قَالَ نَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ قَالَ سَمِعْتُ حَمَّادَ بْنَ زَيْدٍ يَقُولُ وَاللَّهِ إِنِّي لأُحِبُّ أَبَا حَنِيفَةَ لِحُبِّهِ لأَيُّوبَ وَرَوَى حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ أَبِي حَنِيفَةَ أَحَادِيثَ كَثِيرَةً.
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 201 الانتقاء في فضائل الثلاثة الأئمة الفقهاء مالك والشافعي وأبي حنيفة رضي الله عنهم - أبو عمر يوسف بن عبد الله بن محمد بن عبد البر بن عاصم النمري القرطبي (المتوفى: 463هـ) – مكتب المطبوعات الإسلامية بحلب
یہ سند حسن درجہ کی ہے،اس کے راوی اول ابن دخیل صیدلانی کے تعلق سے جرح میں کچھ مذکور نہیں ہے لیکن ذہبی نے ان کا سیر،تاریخ اور تذکرۃ الحفاظ میں ذکر کیاہے اورکہیں محدث مکہ تو کہیں مسند مکہ کے الفاظ سے ان کو یاد کیاہےاورتذکرۃ الحفاظ میں ان کا ذکر ہی بتارہاہے کہ وہ حفظ کے ساتھ متصف ہیں اوران پر کوئی جرح نہیں ہے تویہ ہی اعتبار کیلئے کافی ہے، علاوہ ازیں وہ حافظ عقیلی کی کتاب الضعفاء الکبیر کے راوی بھی ہیں،اس سے بھی ان کی ثقاہت واضح ہے،مزید برآں انہوں نے امام ابوحنیفہ کے فضائل پر مشتمل ایک کتاب بھی لکھی ہے،جس کانام’’ سیرۃ ابی حنیفۃ ‘‘ہے۔
جی! یہ ابن دخیل صیدلانی کا تعارف تو ٹھیک ہے، یہ امام ذہبی نے ذکر فرمایا ہے؛
يوسف بْن أحْمَد بْن يوسف بْن الدخيل، أَبُو يعقوب الصَّيْدلاني الْمَكِّيّ [المتوفى: 388 هـ]
راوي كتاب " الضعفاء " لأبي جَعْفَر العقيلي، عَنْهُ.
تُوُفِّي بمكّة.
سَمِعَ: مُحَمَّد بْن عمرو العقيلي، وعَبْد اللَّه بْن أَبِي رجاء، وعَبْد الرَّحْمَن بْن عبد الله ابن المقرئ، وإسحاق بْن أحْمَد الحلبي، وعَلِيّ بْن مُحَمَّد بْن أَبِي قراد الكوفي، وأَبَا التُرَيْك محمد بن الحسين الطرابُلُسِي، وأَبَا سَعِيد ابن الْأعْرابي، ومُحَمَّد بْن عَلِيّ السامرِّي صاحب الرَّماديّ، وخلقًا من القادمين إلى الحجّ.
وصنّف كتاب " سيرة أَبِي حنيفة ".
رَوَى عَنْهُ: الحكم بْن المنذر البَلُّوطي، وأَحْمَد بْن مُحَمَّد العَتِيقي، ومُحَمَّد بْن أحْمَد بْن نوح الْإصبهاني، وعَلِيّ بْن الوراق.

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 178 جلد 27 تاريخ الإسلام ووفيات المشاهير والأعلام - شمس الدين أبو عبد الله محمد بن أحمد بن عثمان بن قَايْماز الذهبي (المتوفى: 748هـ) - دار الكتاب العربي، بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 643 جلد 08 تاريخ الإسلام ووفيات المشاهير والأعلام - شمس الدين أبو عبد الله محمد بن أحمد بن عثمان بن قَايْماز الذهبي (المتوفى: 748هـ) - دار الغرب الإسلامي
سند کے درمیان میں ابوبشرالدولابی ہیں، جن کو حافظ ذہبی نے متعدد مرتبہ’’ الحافظ البارع‘‘ کے لقب سے یاد کیاہے،اوران پر کوئی مستند جرح نہیں ہے،
اب ایسا بھی نہیں کہ ابو بشر دولابی پر جرح کو ائمہ حدیث نے مستند سمجھا ہی نہ ہو! امام ابن حجر اور امام ذہبی نے تو ان پر تعصب مذہب کی جرح کو مستند جانا ہے؛
وقال ابن عدي: ابن حماد متهم في ما يقوله في نعيم بن حماد لصلابته في أهل الرأي.
قلت قد أقذع في رميه نعيما بالكذب، مع أن نعيما صاحب مناكير فالله أعلم،

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 760 جلد 02 تذكرة الحفاظ - شمس الدين أبو عبد الله محمد بن أحمد بن عثمان بن قَايْماز الذهبي (المتوفى: 748هـ) - دار الكتب العلمية، بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 123 - 124 جلد 01 تذكرة الحفاظ - شمس الدين أبو عبد الله محمد بن أحمد بن عثمان بن قَايْماز الذهبي (المتوفى: 748هـ) - مجلس دائرة المعارف النظامية، حيدرآباد الدكن

وَنسبه أَبُو بشر الدولابي إِلَى الْوَضع وَتعقب ذَلِك بن عدي بِأَن الدولابي كَانَ متعصبا عَلَيْهِ لِأَنَّهُ كَانَ شَدِيدا على أهل الرَّأْي وَهَذَا هُوَ الصَّوَاب وَالله أعلم.

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 1202 جلد 01 هدي الساري مقدمة فتح الباري شرح صحيح البخاري - أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) - دار الطيبة للنشر والتوزيع، الرياض
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 470 جلد 01 هدي الساري مقدمة فتح الباري شرح صحيح البخاري - أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) - دار الريان للتراث، القاهرة
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 470 جلد 01 هدي الساري مقدمة فتح الباري شرح صحيح البخاري - أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) - مكتبة الملك فهد الوطنية
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 447 جلد 01 هدي الساري مقدمة فتح الباري شرح صحيح البخاري - أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) - المكتبة السلفية
لہٰذا ابو بشر الدولابی کی روایات میں ان کے مذہبی تعصب کو مد نظر رکھنا چاہیئے!
بقیہ سند کے روات ثقہ ہیں،اس طرح یہ سند حسن کے درجہ سے کم ترنہیں ہے۔
آپ محمد بن سعدان کا تعارف پیش کر دیجیئے!

بالفرض اس روایت کو حماد بن زید سے ثابت مانا جائے، تب بھی یہاں حماد بن زید سے امام ابو حنیفہ کی فقہ وفقاہت کی مداح ثابت نہیں ہوتی، محض اتنا معلوم ہوتا ہے کہ حماد بن زید امام ابو حنیفہ سے اس لئے محبت کرتے تھے، کہ امام ابو حنیفہ امام ایوب سختیانی سے محبت کرتے تھے، نہ کہ حماد بن زید کی امام ابو حنیفہ سے محبت، امام ابو حنیفہ کی فقہ وفقاہت کی بناء پر!
امام ابو حنیفہ کی فقہ وفقاہت بشمول امام ابو حنیفہ کے ایمان میں ارجاء کے مؤقف پر حماد بن زید سے خود نقد وقدح ثابت ہے۔
امام ابو حنیفہ پر ارجاء کے معاملہ میں حماد بن زید کا بیان سابقہ مراسلہ میں بیان ہوا؛ اب امام ابو حنیفہ کی فقہ اور حدیث کی مخالفت کے حوالہ سے حماد بن زید کا بیان ملاحظہ فرمائیں:

حَدَّثَنِي سَهْلُ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالَ: حَدَّثَنَا الْأَصْمَعِيُّ عَنْ حَمَّادِ بْنِ زَيْدٍ قَالَ: شَهِدْتُ أَبَا حَنِيفَةَ سُئِلَ عَنْ مُحْرِم لَمْ يَجِدْ إِزَارًا، فَلَبِسَ سَرَاوِيلَ، فَقَالَ: عَلَيْهِ الْفِدْيَةُ.
فَقُلْتُ: سُبْحَانَ اللَّهِ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ زَيْدٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ فِي الْمحرم: "إِذَا لَمْ يَجِدْ إِزَارًا لَبِسَ سَرَاوِيلَ، وَإِذَا لَمْ يَجِدْ نَعْلَيْنِ لَبِسَ خُفَّيْنِ".
فَقَالَ: دَعْنَا مِنْ هَذَا، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ عَنْ إِبْرَاهِيمَ أَنَّهُ قَالَ: عَلَيْهِ الْكَفَّارَةُ.

حماد بن زید نے کہا کہ ابو حنیفہ سے پوچھا گیا کہ احرام باندھے والا تہہ بند نہ پائے اور شلوار پہ لے تو ابو حنیفہ نے کہا اس پر فدیہ ہے۔
حماد بن زید کہتے ہیں کہ میں نے کہا: سبحان اللہ، ہم سے بیان کیا عمرو بن دینار نے، انہوں نے جابر بن زید سے، انہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے، ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: احرام باندھنے والا تہہ بند نہ پائے تو شلوار پہن کے اور اگر اسے جوتیاں نہ ملیں تو موزے پہن لے۔
تو ابو حنیفہ نے کہا: ہمارے سامنے اس کا (حدیث کا) ذکرنہ کر۔ ہم سے حماد نے بیان کیا، انہوں نے ابراہیم سے کہ انہوں نے (ابراہیم نے) کہا کہ اس پر (جو احرام باندھنے والا تہہ بند نہ پائے اور شلوار پہن لے، اس پر) کفارہ ہے۔

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 103 – 104 تأويل مختلف الحديث - أبو محمد عبد الله بن مسلم بن قتيبة الدينوري (المتوفى: 276هـ) - المكتب الاسلامي - مؤسسة الإشراق
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 131 – 132 تأويل مختلف الحديث - أبو محمد عبد الله بن مسلم بن قتيبة الدينوري (المتوفى: 276هـ) - دار ابن عفان – دار ابن القيم
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 52 تأويل مختلف الحديث - أبو محمد عبد الله بن مسلم بن قتيبة الدينوري (المتوفى: 276هـ) - الكليات الأزهرية
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 63 – 64 تأويل مختلف الحديث - أبو محمد عبد الله بن مسلم بن قتيبة الدينوري (المتوفى: 276هـ) - مطبعة كردستان العلمية، مصر

حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْحَجَّاجِ النَّاجِيُّ، ثنا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، قَالَ: جَلَسْتُ إِلَى أَبِي حَنِيفَةَ بِمَكَّةَ فَجَاءَهُ رَجُلٌ فَقَالَ: لَبِسْتُ النَّعْلَيْنِ أَوْ قَالَ: لَبِسْتُ السَّرَاوِيلَ وَأَنَا مُحْرِمٌ أَوْ قَالَ: لَبِسْتُ الْخُفَّيْنِ وَأَنَا مُحْرِمٌ - شَكَّ إِبْرَاهِيمُ - فَقَالَ أَبُو حَنِيفَةَ: عَلَيْكَ دَمٌ، فَقُلْتُ لِلرَّجُلِ وَجَدْتَ نَعْلَيْنِ أَوْ وَجَدْتَ إِزَارًا؟ قَالَ: لَا، فَقُلْتُ: يَا أَبَا حَنِيفَةَ إِنَّ هَذَا يَزْعُمُ أَنَّهُ لَمْ يَجِدْ قَالَ: سَوَاءٌ وَجَدَ أَوْ لَمْ يَجِدْ، قَالَ حَمَّادٌ: فَقُلْتُ حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ عَنْ جَابِرِ بْنِ زَيْدٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «السَّرَاوِيلُ لِمَنْ لَمْ يَجِدْ الْإِزَارَ وَالْخُفَّيْنِ لِمَنْ لَمْ يَجِدِ النَّعْلَيْنِ»
وَحَدَّثَنَا أَيُّوبُ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «السَّرَاوِيلُ لِمَنْ لَمْ يَجِدِ الْإِزَارَ وَالْخُفَّيْنِ لِمَنْ لَمْ يَجِدِ النَّعْلَيْنِ» فَقَالَ بِيَدِهِ وَحَرَّكَ إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْحَجَّاجِ يَدَهُ أَيْ لَا شَيْءَ، فَقُلْتُ لَهُ: فَأَنْتَ عَنْ مَنْ؟ قَالَ: نا حَمَّادُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ قَالَ: عَلَيْهِ دَمٌ وَجَدَ أَوْ لَمْ يَجِدْ، قَالَ: فَقُمْتُ مِنْ عِنْدِهِ فَتَلَقَّانِي الْحَجَّاجُ بْنُ أَرْطَأَةَ دَاخِلَ الْمَسْجِدِ
فَقُلْتُ لَهُ: يَا أَبَا أَرْطَأَةَ مَا تَقُولُ فِي مُحْرِمٍ لَبِسَ السَّرَاوِيلَ وَلَمْ يَجِدِ الْإِزَارَ وَلَبِسَ الْخُفَّيْنِ وَلَمْ يَجِدِ النَّعْلَيْنِ، فَقَالَ حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ زَيْدٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «السَّرَاوِيلُ لِمَنْ لَمْ يَجِدِ الْإِزَارَ وَالْخُفَّيْنِ لِمَنْ لَمْ يَجِدِ النَّعْلَيْنِ»
قَالَ فَقُلْتُ لَهُ: يَا أَبَا أَرْطَأَةَ: أَمَا تَحْفَظُ أَنَّهُ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: لَا
قَالَ: وَحَدَّثَنِي نَافِعٌ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «السَّرَاوِيلُ لِمَنْ لَمْ يَجِدِ الْإِزَارَ وَالْخُفَّيْنِ لِمَنْ لَمْ يَجِدِ النَّعْلَيْنِ»
قَالَ: وَحَدَّثَنِي أَبُو إِسْحَاقَ، عَنِ الْحَارِثِ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّهُ قَالَ: «السَّرَاوِيلُ لِمَنْ لَمْ يَجِدِ الْإِزَارَ وَالْخُفَّيْنِ لِمَنْ لَمْ يَجِدِ النَّعْلَيْنِ» قَالَ: فَقُلْتُ لَهُ مَا بَالُ صَاحِبِكُمْ قَالَ كَذَا وَكَذَا؟ قَالَ: فَفِي ذَاكَ وَصَاحِبُ مَنْ ذَاكَ قَبَّحَ اللَّهُ ذَاكَ

ہمیں ابراہیم بن الحجاج نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہمیں حماد بن زید نے بیان کیاکہ
حماد بن زید نے کہا: میں (حماد بن زید) مکہ میں ابو حنیفہ کے پاس تھاکہ ایک شخص آیا اور اس شخص نے کہا: کہ میں نے پاجامہ پہنا جبکہ میں محرم تھا، یا یہ کہا: میں نے موزے پہنے جبکہ میں محرم تھا ﴿ابراہیم کو اس میں شک تھا﴾،
تو ابو حنیفہ نے کہا: تجھ پر دم (قربانی) ہے،
تو میں نے (حماد بن زید) اس شخص سے پوچھا، کہ تجھے جوتے میسر تھے، یا تہہ بند میسر تھا؟
اس شخص نے کہا: نہیں،
تو میں نے (حماد بن زید نے) کہا: اے ابو حنیفہ! کہ اس شخص نے خیال ہے کہ اسے (جوتے یا تہہ بند) میسر نہیں تھا۔
ابو حنیفہ نے کہا: کوئی فرق نہیں کہ میسر ہوں یا نہ ہوں،
حماد بن زید نے کہا کہ پھر میں نے کہا: ہم سے عمر بن دینار نے بیان کیا، انہوں نے جابر سے بیان کیا، انہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کی کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: میں نے (ابن عباس نے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے سنا؛ ﴿جسے تہہ بند میسر نہیں، اس کے لئے پاجامہ ہے، اور جسے جوتے میسر نہیں، اس کے لئے جوتے ہیں﴾
اور (حماد بن زید نے کہا) ہم سے ایوب نے بیان کیا، انہوں نے نافع سے روایت کیا، انہوں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کیا کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: ﴿جسے تہہ بند میسر نہ ہو، اس کے کئے پاجامہ ہے، اور جسے جوتے میسر نہ ہو، اس کے لئے موزے ہیں﴾
تو ابو حنیفہ اپنے ہاتھ سے کہا (یعنی ہاتھ سے نفی ا اشارہ کیا کہیہ کچھ بھی نہیں) اور ابراہیم بن الحجاج (حدیث کے راوی نے) نے اپنے ہاتھ کو نفی کی حرکت دی یعنی کچھ بھی نہیں،
پھر میں نے (حماد بن زید نے) ان سے (امام ابو حنیفہ سے) کہا: آپ کی دلیل کیا ہے؟
تو ابو حنیفہ نے کہا: ہم سے حماد نے بیان کیا کہ ابراہیم نے کہا: کہ اس پر دم (قربانی) ہے، خواہ میسر ہو یا نہ ہو۔
تو میں (حماد بن زید) ا ن کے پاس سے (ابو حنیفہ کے پاس سے) چلا گیا، پھر مجھے الحجاج بن ارطاۃ سے مسجد میں ملے، تو میں نے (حماد بن زیدنے) الحاج بن ارطاۃ سے کہا: اے ابو ارطاۃ اس محرم کے بارے میں کیا کہتے ہو، جو تہہ بند میسر نہ ہونے پر پاجامہ پہنے، اور جوتے میسر نہ ہونے پر موزے پہنے؟
تو الحجاج بن ارطاۃ نے کہا: مجھے عمر بن دینارنے بیان کیا، انہوں نے جابر بن زید سے روایت کیا، انہوں نے ابن عباس رضی اللہ سے روایت کیاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: ﴿جسے تہہ بند میسر نہیں، اس کے لئے پاجامہ ہے، اور جسے جوتے میسر نہیں، اس کے لئے جوتے ہیں﴾
میں نے (حماد بن زید نے) ان سے (الحجاج بن ارطاۃسے) کہا: اے ابو ارطاۃ کیا آپ کو یاد ہے کہ انہوں نے (ابن عباس رضی اللہ عنہما نے) کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سنا؟
الحجاج بن ارطاۃ نے کہا: نہیں،
الحجاج بن ارطاۃ نے کہا: اور مجھے نافع نے بیان کیا، انہوں نے عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کیا کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ نے کہا: ﴿جسے تہہ بند میسر نہیں، اس کے لئے پاجامہ ہے، اور جسے جوتے میسر نہیں، اس کے لئے جوتے ہیں﴾
اور الحجاج بن ارطاۃ نے کہا: اور مجھے ابو اسحاق نے بیان کیا، انہوں نے حارث سے روایت کیا، انہوں نے علی رضی اللہ عنہ سے روایت کیا کہ انہوں نے کہا: ﴿جسے تہہ بند میسر نہیں، اس کے لئے پاجامہ ہے، اور جسے جوتے میسر نہیں، اس کے لئے جوتے ہیں﴾
حماد بن زید نے کہا: تو میں نے (حماد بن زید نے) ان سے (الحجاج بن ارطاۃسے) کہا کہ تو آپ کے صاحب ایسا کیوں کہتے ہیں؟
الحجاج بن ارطاۃ نے کہا: وہ کون ہے! کس کا صاحب! اللہ اسے غارت کرے۔

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 202 – 203 جلد 01 السنة - أبو عبد الرحمن عبد الله بن أحمد بن محمد بن حنبل الشيبانيّ البغدادي (المتوفى: 290هـ) - دار ابن القيم، الدمام

أَخْبَرَنَا الْحَسَنُ بْنُ سُفْيَانَ الشَّيْبَانِيُّ قَالَ حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْحَجَّاجِ قَالَ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ قَالَ جَلَسْتُ إِلَى أَبِي حَنِيفَةَ بِمَكَّةَ وَجَاءَ سُلَيْمَانُ فَقَالَ إِنِّي لَبِسْتُ خُفَّيْنِ وَأَنَا مُحْرِمٌ أَوْ قَالَ لَبِسْتُ السَّرَاوِيلَ وَأَنَا مُحْرِمٌ فَقَالَ لَهُ أَبُو حَنِيفَةَ عَلَيْكَ دَمٌ قَالَ فَقُلْتُ لِلرَّجُلِ وَجَدْتُ نَعْلَيْنِ أَوْ وَجَدْتُ إِزَارًا فَقَالَ لَا فَقُلْتُ يَا أَبَا حَنِيفَةَ إِنَّ هَذَا يَزْعُمُ أَنَّهُ لَمْ يَجِدْ فَقَالَ سَوَاءَ وَجَدَ أَمْ لَمْ يَجِدْ فَقُلْتُ حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ عَنْ جَابِرِ بْنِ زَيْدٍ عَنِ بن عَبَّاسٍ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ السَّرَاوِيلُ لِمَنْ لَمْ يَجِدِ الإِزَارَ وَالْخُفَّيْنِ لِمَنْ لَمْ يَجِدِ النَّعْلَيْنِ وَأَخْبَرَنَا أَيُّوبُ عَنْ نَافِعٍ عَنِ بن عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ السَّرَاوِيلُ لِمَنْ لَمْ يَجِدِ الإِزَارَ وَالْخُفَّيْنِ لَمْ يَجِدِ النَّعْلَيْنِ قَالَ فَقَالَ بِيَدِهِ كَأَنَّهُ لَمْ يَعْبَأْ بِالْحَدِيثِ
فَقُمْتُ مِنْ عِنْدِهِ فَتَلَقَّانِي الْحَجَّاجُ بْنُ أَرْطَاةَ دَاخِلَ الْمَسْجِدِ فَقُلْتُ يَا أَبَا أَرْطَاةَ مَا تَقُولُ فِي مُحْرِمٍ لَبِسَ السَّرَاوِيلَ أَوْ لَبِسَ خُفَّيْنِ فَقَالَ حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ عَنْ جَابِرِ بْنِ زيد عَن بن عَبَّاسٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ السَّرَاوِيلَ لِمَنْ لَمْ يَجِدِ الإِزَارَ وَالْخُفَّيْنِ لِمَنْ لَمْ يَجِدِ النَّعْلَيْنِ وَأَخْبَرَنَا أَبُو إِسْحَق عَنِ الْحَارِثِ عَنْ عَلِيٍّ أَنَّهُ قَالَ السَّرَاوِيلُ لِمَنْ لَمْ يَجِدِ الإِزَارَ وَالْخُفَّيْنِ لِمَنْ لَمْ يَجِدِ النَّعْلَيْنِ قَالَ قُلْتُ فَمَا بَالُ صَاحِبِكُمْ يَقُولُ كَذَا وَكَذَا قَالَ وَمَنْ ذَاكَ وَصَاحِبُ ذَاكَ قَبَّحَ اللَّهُ ذَاكَ

ہمیں حسن بن سفیان الشیبانی نے خبر دی، کہا ہمیں ابراہیم بن الحجاج نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہمیں حماد بن زید نے بیان کیاکہ
حماد بن زید نے کہا: میں (حماد بن زید) مکہ میں ابو حنیفہ کے پاس تھاکہ ایک شخص آیا اور اس شخص نے کہا: کہ میں نے پاجامہ پہنا جبکہ میں محرم تھا، یا یہ کہا: میں نے موزے پہنے جبکہ میں محرم تھا ﴿ابراہیم کو اس میں شک تھا﴾،
تو ابو حنیفہ نے اس شخص سے کہا: تجھ پر دم (قربانی) ہے،
تو میں نے (حماد بن زید) اس شخص سے پوچھا، کہ تجھے جوتے میسر تھے، یا تہہ بند میسر تھا؟
اس شخص نے کہا: نہیں،
تو میں نے (حماد بن زید نے) کہا: اے ابو حنیفہ! کہ اس شخص نے خیال ہے کہ اسے (جوتے یا تہہ بند) میسر نہیں تھا۔
ابو حنیفہ نے کہا: کوئی فرق نہیں کہ میسر ہوں یا نہ ہوں،
پھر میں نے (حماد بن زید نے) کہا: ہم سے عمر بن دینار نے بیان کیا، انہوں نے جابر سے بیان کیا، انہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کی کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: میں نے (ابن عباس نے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے سنا؛ ﴿جسے تہہ بند میسر نہیں، اس کے لئے پاجامہ ہے، اور جسے جوتے میسر نہیں، اس کے لئے جوتے ہیں﴾
اور (حماد بن زید نے کہا) ہم سے ایوب نے بیان کیا، انہوں نے نافع سے روایت کیا، انہوں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کیا کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: ﴿جسے تہہ بند میسر نہ ہو، اس کے کئے پاجامہ ہے، اور جسے جوتے میسر نہ ہو، اس کے لئے موزے ہیں﴾
حماد بن زید نے کہا: امام ابو حنیفہ نے ہاتھ سے اشارہ کیا کہ جیسے انہیں حدیث سے سروکار نہیں۔
تو میں (حماد بن زید) ا ن کے پاس سے (ابو حنیفہ کے پاس سے) چلا گیا، پھر مجھے الحجاج بن ارطاۃ سے مسجد میں ملے، تو میں نے (حماد بن زیدنے) الحاج بن ارطاۃ سے کہا: اے ابو ارطاۃ اس محرم کے بارے میں کیا کہتے ہو، جو تہہ بند میسر نہ ہونے پر پاجامہ پہنے، اور جوتے میسر نہ ہونے پر موزے پہنے؟
تو الحجاج بن ارطاۃ نے کہا: مجھے عمر بن دینارنے بیان کیا، انہوں نے جابر بن زید سے روایت کیا، انہوں نے ابن عباس رضی اللہ سے روایت کیاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: ﴿جسے تہہ بند میسر نہیں، اس کے لئے پاجامہ ہے، اور جسے جوتے میسر نہیں، اس کے لئے جوتے ہیں﴾
اور الحجاج بن ارطاۃ نے کہا: اور مجھے ابو اسحاق نے بیان کیا، انہوں نے حارث سے روایت کیا، انہوں نے علی رضی اللہ عنہ سے روایت کیا کہ انہوں نے کہا: ﴿جسے تہہ بند میسر نہیں، اس کے لئے پاجامہ ہے، اور جسے جوتے میسر نہیں، اس کے لئے جوتے ہیں﴾
حماد بن زید نے کہا: تو میں نے (حماد بن زید نے) ان سے (الحجاج بن ارطاۃسے) کہا کہ تو آپ کے صاحب ایسا کیوں کہتے ہیں؟
الحجاج بن ارطاۃ نے کہا: وہ کون ہے! کس کا صاحب! اللہ اسے غارت کرے۔

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 408 جلد 02 المجروحين من المحدثين والضعفاء والمتروكين - محمد بن حبان بن أحمد بن حبان بن معاذ بن مَعْبدَ، التميمي، أبو حاتم، الدارمي، البُستي (المتوفى: 354هـ) - دار الصميعي
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 66 - 67 جلد 03 المجروحين من المحدثين والضعفاء والمتروكين - محمد بن حبان بن أحمد بن حبان بن معاذ بن مَعْبدَ، التميمي، أبو حاتم، الدارمي، البُستي (المتوفى: 354هـ) - دار المعرفة، بيروت

أَخْبَرَنَا الْبَرْقَانِيُّ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا الْقَاسِمِ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ إِبْرَاهِيمَ الآبَنْدُونِيَّ، يَقُولُ: قَرَأْتُ عَلَى أَبِي يَعْلَى أَحْمَدَ بْنِ عَلِيِّ بْنِ الْمُثَنَّى، وَقُرِئَ عَلَى الْحَسَنِ بْنِ سُفْيَانَ حَدَّثَكُمْ إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْحَجَّاجِ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، قَالَ: جَلَسْتُ إِلَى أَبِي حَنِيفَةَ بِمَكَّةَ فَجَاءَهُ رَجُلٌ، فَقَالَ: لَبِسْتُ سَرَاوِيلَ وَأَنَا مُحْرِمٌ؟ أَوْ قَالَ: لَبِسْتُ خُفَّيْنِ وَأَنَا مُحْرِمٌ؟ شَكَّ إِبْرَاهِيمُ، فَقَالَ أَبُو حَنِيفَةَ: عَلَيْكَ دَمٌ قَالَ حَمَّادٌ: وَجَدْتُ نَعْلَيْنِ، أَوْ وَجَدْتُ إِزَارًا؟ قَالَ: لا، فَقُلْتُ: يَا أَبَا حَنِيفَةَ، هَذَا يَزْعُمُ أَنَّهُ لَمْ يَجِدْ، فَقَالَ: سَوَاءٌ وَجَدَ أَوْ لَمْ يَجِدْ، قَالَ حَمَّادٌ: فَقُلْتُ: قَالَ: حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ زَيْدٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " السَّرَاوِيلُ لِمَنْ لَمْ يَجِدِ الإِزَارَ، وَالْخُفَّانِ لِمَنْ لَمْ يَجِدِ النَّعْلَيْنِ "، وَحَدَّثَنَا أَيُّوبُ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " السَّرَاوِيلُ لِمَنْ لَمْ يَجِدِ الإِزَارَ، وَالْخُفَّانِ لِمَنْ لَمْ يَجِدِ النَّعْلَيْنِ ".
فَقَالَ بِيَدِهِ، وَحَرَّكَ إِبْرَاهِيمُ يَدَهُ، أَيْ لا شَيْءَ، قَالَ: فَقُلْتُ لَهُ: فَأَنْتَ عَمَّنْ تَقُولُ؟ قَالَ: حَدَّثَنِي حَمَّادٌ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: عَلَيْهِ دَمٌ وَجَدَ أَوْ لَمْ يَجِدْ، لَمْ يَذْكُرِ الْحَسَنُ بْنُ سُفْيَانَ فِي حَدِيثِهِ حَدِيثَ حَمَّادٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ.
قَالَ: فَقُمْتُ مِنْ عِنْدِهِ، فَتَلَقَّانِي الْحَجَّاجُ بْنُ أَرْطَاةَ دَاخِلَ الْمَسْجِدِ، فَقُلْتُ لَهُ: يَا أَبَا أَرْطَاةَ، مَا تَقُولُ فِي مُحْرِمٍ لَبِسَ السَّرَاوِيلَ وَلَمْ يَجِدِ الإِزَارَ، وَلَبِسَ الْخُفَّيْنِ وَلَمْ يَجِدِ النَّعْلَيْنِ؟ قَالَ: حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ زَيْدٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " السَّرَاوِيلُ لِمَنْ لَمْ يَجِدِ الإِزَارَ، وَالْخُفَّانِ لِمَنْ لَمْ يَجِدِ النَّعْلَيْنِ ".
فَقُلْتُ لَهُ: يَا أَبَا أَرْطَاةَ، مَا تَحْفَظُ أَنَّهُ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: لا.
وَحَدَّثَنِي نَافِعٌ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " السَّرَاوِيلُ لِمَنْ لَمْ يَجِدِ الإِزَارَ، وَالْخُفَّانِ لِمَنْ لَمْ يَجِدِ النَّعْلَيْنِ ".
قَالَ: وَحَدَّثَنِي أَبُو إِسْحَاقَ، عَنِ الْحَارِثِ، عَنْ عَلِيٍّ، أَنَّهُ قَالَ: السَّرَاوِيلُ لِمَنْ لَمْ يَجِدِ الإِزَارَ، وَالْخُفَّانِ لِمَنْ لَمْ يَجِدِ النَّعْلَيْنِ.
فَقُلْتُ: فَمَا بَالُ صَاحِبِكُمْ قَالَ كَذَا وَكَذَا؟ قَالَ: وَمَنْ ذَاكَ؟ وَصَاحِبُ مَنْ ذَاكَ؟ قَبَّحَ اللَّهُ ذَاكَ، لَفْظُ أَبِي يَعْلَى

برقانی- ابو قاسم عبد اللہ بن ابراہیم الآبندونی – ابو یعلی احمد بن علی بن مثنی – حسن بن سفیان – ابراہیم بن الحجاج نے کہا: ہمیں حماد بن زید نے بیان کیاکہ؛
حماد بن زید نے کہا: میں (حماد بن زید) مکہ میں ابو حنیفہ کے پاس تھاکہ ایک شخص آیا اور اس شخص نے کہا: کہ میں نے پاجامہ پہنا جبکہ میں محرم تھا، یا یہ کہا: میں نے موزے پہنے جبکہ میں محرم تھا ﴿ابراہیم کو اس میں شک تھا﴾،
تو ابو حنیفہ نے کہا: تجھ پر دم (قربانی) ہے،
میں نے (حماد بن زید اس شخص) سےکہا، کہ تجھے جوتے میسر تھے، یا تہہ بند میسر تھا؟
اس شخص نے کہا: نہیں،
تو میں نے (حماد بن زید نے) کہا: اے ابو حنیفہ! کہ اس شخص نے خیال ہے کہ اسے (جوتے یا تہہ بند) میسر نہیں تھا۔
تو ابو حنیفہ نے کہا: کوئی فرق نہیں کہ میسر ہوں یا نہ ہوں،
حماد بن زید نے کہا کہ پھر میں نے کہا: ہم سے عمر بن دینار نے بیان کیا، انہوں نے جابر سے بیان کیا، انہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کی کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: میں نے (ابن عباس نے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے سنا؛ ﴿جسے تہہ بند میسر نہیں، اس کے لئے پاجامہ ہے، اور جسے جوتے میسر نہیں، اس کے لئے جوتے ہیں﴾
اور (حماد بن زید نے کہا) ہم سے ایوب نے بیان کیا، انہوں نے نافع سے روایت کیا، انہوں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کیا کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: ﴿جسے تہہ بند میسر نہ ہو، اس کے کئے پاجامہ ہے، اور جسے جوتے میسر نہ ہو، اس کے لئے موزے ہیں﴾
تو ابو حنیفہ اپنے ہاتھ سے کہا (یعنی ہاتھ سے نفی ا اشارہ کیا کہیہ کچھ بھی نہیں) اور ابراہیم بن الحجاج (حدیث کے راوی نے) نے اپنے ہاتھ کو نفی کی حرکت دی یعنی کچھ بھی نہیں،
پھر میں نے (حماد بن زید نے) ان سے (امام ابو حنیفہ سے) کہا: آپ کی دلیل کیا ہے؟
تو ابو حنیفہ نے کہا: ہم سے حماد نے بیان کیا کہ ابراہیم نے کہا: کہ اس پر دم (قربانی) ہے، خواہ میسر ہو یا نہ ہو۔
﴿حسن بن سفیا ن نے اپنی روایت میں حماد کی ابراہیم کی روایت کاذکر نہیں کیا﴾
حماد بن زید نے کہا: تو میں (حماد بن زید) ا ن کے پاس سے چلا گیا، پھر مجھے الحجاج بن ارطاۃ مسجد میں ملے، تو میں نے (حماد بن زیدنے) الحاج بن ارطاۃ سے کہا: اے ابو ارطاۃ اس محرم کے بارے میں کیا کہتے ہو، جو تہہ بند میسر نہ ہونے پر پاجامہ پہنے، اور جوتے میسر نہ ہونے پر موزے پہنے؟
تو الحجاج بن ارطاۃ نے کہا: مجھے عمر بن دینارنے بیان کیا، انہوں نے جابر بن زید سے روایت کیا، انہوں نے ابن عباس رضی اللہ سے روایت کیاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: ﴿جسے تہہ بند میسر نہیں، اس کے لئے پاجامہ ہے، اور جسے جوتے میسر نہیں، اس کے لئے جوتے ہیں﴾
میں نے (حماد بن زید نے) ان سے (الحجاج بن ارطاۃسے) کہا: اے ابو ارطاۃ کیا آپ کو یاد ہے کہ انہوں نے (ابن عباس رضی اللہ عنہما نے) کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سنا؟
الحجاج بن ارطاۃ نے کہا: نہیں،
(الحجاج بن ارطاۃ نے کہا:) اور مجھے نافع نے بیان کیا، انہوں نے عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کیا کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ نے کہا: ﴿جسے تہہ بند میسر نہیں، اس کے لئے پاجامہ ہے، اور جسے جوتے میسر نہیں، اس کے لئے جوتے ہیں﴾
اور الحجاج بن ارطاۃ نے کہا: اور مجھے ابو اسحاق نے بیان کیا، انہوں نے حارث سے روایت کیا، انہوں نے علی رضی اللہ عنہ سے روایت کیا کہ انہوں نے کہا: ﴿جسے تہہ بند میسر نہیں، اس کے لئے پاجامہ ہے، اور جسے جوتے میسر نہیں، اس کے لئے جوتے ہیں﴾
حماد بن زید نے کہا: تو میں نے (حماد بن زید نے) ان سے (الحجاج بن ارطاۃسے) کہا کہ تو آپ کے صاحب ایسا کیوں کہتے ہیں؟
الحجاج بن ارطاۃ نے کہا: وہ کون ہے! اور کس کا صاحب! اللہ اسے غارت کرے۔
﴿ابو یعلی کی راویت کے الفاظ میں﴾

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 539 - 540 جلد 15 تاريخ بغداد - أبو بكر أحمد بن علي بن ثابت بن أحمد بن مهدي الخطيب البغدادي (المتوفى: 463هـ) - دار الغرب الإسلامي، بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 392 - 393 جلد 13 تاريخ بغداد وذيوله - أبو بكر أحمد بن علي بن ثابت بن أحمد بن مهدي الخطيب البغدادي (المتوفى: 463هـ) - دار الكتب العلمية، بيروت

یہاں حماد بن زید نے امام ابو حنیفہ پر حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت، حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے بے رغبتی، اور حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کو حقیر سمجھنے کی جراح کی ہے!
اور اہل الرائے اور امام ابو حنیفہ کے اس طرز پر کہ وہ حدیث کے مقابلہ میں اپنے اصحاب کے قول کو اختیار کرتے ہیں، ناراضگی کا اظہار فرمایا ہے، پھر اس الحجاج بن ارطاۃ کے قول سے امام ابو حنیفہ پر جرح ثابت کی ہے!
حماد بن زید کا امام ابو حنیفہ کی فقہ وفقاہت کو مذموم سمجھنا اور قرار دینا تو ثابت ہے!
لہٰذا حماد بن زید کا امام ابو حنیفہ سے محبت کے بیان کو یوں سمجھا جائے گا کہ جیسا کہ انہوں نے بیان کیا ہے، کہ ان کی امام ابو حنیفہ سے محبت کی وجہ امام ابو حنیفہ کی فقہ وفقاہت نہیں، بلکہ امام ابو حنیفہ کی امام ایوب سختیانی سے محبت ہے! اور حماد بن زید کے اس قول سے حماد بن زید کی امام ابوحنیفہ کی فقہ وفقاہت کی مداح کشید کرنا باطل ہے!

اب ذرا الحجاج ابن ارطاة کا تعارف بھی دیکھ لیں، گو کہ ان پر روایت حدیث میں ان پر کچھ کلام ہے، مگر یہ محض محدث نہیں بلکہ فقیہ بھی ہیں!

حَجَّاجُ بنُ أَرْطَاةَ بنِ ثَوْرِ بنِ هُبَيْرَةَ النَّخَعِيُّ * (4، م)
ابْنِ شَرَاحِيْلَ بنِ كَعْبٍ، الإِمَامُ، العَلاَّمَةُ، مُفْتِي الكُوْفَةِ مَعَ الإِمَامِ أَبِي حَنِيْفَةَ، وَالقَاضِي ابْنِ أَبِي لَيْلَى، أَبُو أَرْطَاةَ النَّخَعِيُّ، الكُوْفِيُّ، الفَقِيْهُ، أَحَدُ الأَعْلاَمِ.
وُلِدَ: فِي حَيَاةِ أَنَسِ بنِ مَالِكٍ، وَغَيْرِهِ مِنْ صِغَارِ الصَّحَابَةِ.

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 1366 سير أعلام النبلاء - شمس الدين أبو عبد الله محمد بن أحمد بن عثمان بن قَايْماز الذهبي (المتوفى: 748هـ) - بيت الافكار الدولية
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 68 جلد 07 سير أعلام النبلاء - شمس الدين أبو عبد الله محمد بن أحمد بن عثمان بن قَايْماز الذهبي (المتوفى: 748هـ) - مؤسسة الرسالة

حَجَّاجُ بْنُ أَرْطَاَةَ بْنُ ثَوْرٍ بْنِ هُبَيْرَةَ، أَبُو أَرْطَأَةَ النَّخَعِيُّ الْكُوفِيُّ. [الوفاة: 141 - 150 ه]
أَحَدُ الأَئِمَّةِ الأَعْلامِ عَلَى لِينٍ فِي حَدِيثِهِ.

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 100 جلد 09 تاريخ الإسلام ووفيات المشاهير والأعلام - شمس الدين أبو عبد الله محمد بن أحمد بن عثمان بن قَايْماز الذهبي (المتوفى: 748هـ) - دار الكتاب العربي، بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 839 جلد 03 تاريخ الإسلام ووفيات المشاهير والأعلام - شمس الدين أبو عبد الله محمد بن أحمد بن عثمان بن قَايْماز الذهبي (المتوفى: 748هـ) - دار الغرب الإسلامي

حجاج بن أرطأة:
بفتح الهمزة. مذكور فى أول حيض المهذب. هو أبو أرطأة الحجاج بن أرطأة بن ثور ابن هبيرة بن شراحيل بن كعب بن سلامان بن عامر بن حارثة بن سعد بن مالك بن النخع النخعى الكوفى الفقيه. أحد الأئمة فى الحديث والفقه، وهو من تابعى التابعين.

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 152 جلد 01 تهذيب الأسماء واللغات - أبو زكريا محيي الدين يحيى بن شرف النووي (المتوفى: 676هـ) - دار الكتب العلمية، بيروت

معلوم ہوا کہ یہ بھی امام ابو حنیفہ کی فقہ وفقاہت پر امام ابو حنیفہ کے ہم عصر فقیہ کی جرح ہے!

مزید دیکھیں؛ حماد بن زید نے امام ابو حنیفہ کی فقہ وفقاہت پر خود امام ابو حنیفہ کو لا جواب کر دیا تھا، کہ امام ابو حنیفہ کے فقہ وفقاہت کے مطابق تو گنتی بھی درست نہیں، رہتی، یا یوں کہیئے کہ امام ابو حنیفہ کہ فقہ وفقاہت میں تو گنتی کا خیال بھی نہیں! اور اس کی نشاندہی کے بعد بھی امام ابو حنیفہ اس پر مصر رہتے ہیں!
ملاحظہ فرمائیں:

حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ قَالَ: شَهِدْتُ أَبَا حَنِيفَةَ وَسُئِلَ عَنِ الْوِتْرِ فَقَالَ: فَرِيضَةٌ. قُلْتُ: كَمِ الصَّلَوَاتُ؟ قَالَ: خَمْسٌ.
قُلْتُ: فَالْوِتْرُ؟ قَالَ: فَرِيضَةٌ.

ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، کہا میں نے ابو حنیفہ کو پایا، اور ان سے وتر کے متعلق سوال کیا، تو ابو حنیفہ نے جواب دیا کہ فرض ہے۔ میں نے کہا کتنی نمازیں ہیں؟ تو ابو حنیفہ نے جواب دیا پانچ (5) ۔ میں نے کہا پھر وتر؟ تو ابو حنیفہ نے جواب دیاکہ فرض ہے۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 793 جلد 02 المعرفة والتاريخ - يعقوب بن سفيان بن جوان الفارسي الفسوي، أبو يوسف (المتوفى: 277هـ) – مكتبة الدار بالمدينة المنورة

جب بات یوں ہے کہ حماد بن زید امام ایوب سختیانی کے شاگرد رشید ہیں، اور حماد بن زید کے مؤقف سے ایوب سختیانی کے مؤقف کو سمجھا جا سکتا ہے، تو حماد بن زید کے شاگرد کے مؤقف کو دیکھ کر حماد بن زید کا مؤقف بھی سمجھا جا سکتا ہے، آپ کی پیش کردہ روایت میں حماد بن زید کا قول بیان کرنے والے سلیمان بن حرب ہیں، اور یہی سلیمان بن حرب امام ابو حنیفہ اور ان کے اصحاب کے بارے میں کیا فرماتے ہیں؛

حَدَّثَنَا سليمان بن حرب حدثنا حماد بن زيد قَالَ: قَالَ ابْنُ عَوْنٍ:
نُبِّئْتُ أَنَّ فِيكُمْ صدادين يصدون عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ. قَالَ سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ:
وَأَبُو حَنِيفَةَ وَأَصْحَابُهُ مِمَّنْ يَصُدُّونَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ.

ہمیں سلیمان بن حرب نے بیان کیا، انہیں حماد بن زید نے کہا؛ کہ ابن عون نے کہا: مجھے معلوم ہوا ہے کہ تم میں کچھ لوگ اللہ کی راہ سے روکنے والے ہیں۔
سلیمان بن حرب نے کہا: ابو حنیفہ اور ان کے اصحاب ہیں اللہ کی راہ سے روکتے ہیں۔

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 786 جلد 02 المعرفة والتاريخ - يعقوب بن سفيان بن جوان الفارسي الفسوي، أبو يوسف (المتوفى: 277هـ) - مكتبة الدار بالمدينة المنورة

أَخْبَرَنَا ابن الفضل، قَالَ: أَخْبَرَنَا ابن درستويه، قَالَ: حَدَّثَنَا يَعْقُوب، قَالَ: حَدَّثَنَا سليمان بن حرب، قَالَ: حَدَّثَنَا حماد بن زيد، قال: قال ابن عون: نبئت أن فيكم صدادين يصدون عن سبيل الله، قال سليمان بن حرب: وأبو حنيفة وأصحابه ممن يصدون عن سبيل الله.
ہمیں سلیمان بن حرب نے بیان کیا، انہیں حماد بن زید نے کہا؛ کہ ابن عون نے کہا: مجھے معلوم ہوا ہے کہ تم میں کچھ لوگ اللہ کی راہ سے روکنے والے ہیں۔
سلیمان بن حرب نے کہا: ابو حنیفہ اور ان کے اصحاب ہیں اللہ کی راہ سے روکتے ہیں۔

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 550 جلد 15 تاريخ بغداد - أبو بكر أحمد بن علي بن ثابت بن أحمد بن مهدي الخطيب البغدادي (المتوفى: 463هـ) - دار الغرب الإسلامي، بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 399 جلد 13 تاريخ بغداد وذيوله - أبو بكر أحمد بن علي بن ثابت بن أحمد بن مهدي الخطيب البغدادي (المتوفى: 463هـ) - دار الكتب العلمية، بيروت

معلوم ہوا کہ حماد بن زید کے شاگرد سلیمان بن حرب امام ابو حنیفہ کو اللہ کے راہ سے روکنے والا قرار دیتے ہیں!
مزید اس بات کو بھی مد نظر رکھیں کہ امام ابو حنیفہ امام سختیانی سے محبت کرتے ہوں گے، مگر امام سختیانی امام ابو حنیفہ سے بیزاری کا اعلان کرتے ہیں!
اس سند میں دیکھئے تو کس طرح اس جھوٹ کی بھی قلعی کھل رہی ہے کہ امام ابوحنیفہ قلیل الحدیث ہیں، جب کہ حماد بن زید جیسے جلیل القدر محدث ان سے بکثرت حدیثیں روایت کرتے ہیں۔
قلعی اکھڑتی معلوم ہوتی ہے، مگر امام ابو حنیفہ کے قلیل الحدیث ہونے کی نہیں، بلکہ اس روایت کی!
اول تو معلوم ہونا چاہیئے کہ یہ الفاظ کہ حماد بن زید کے نہیں ہیں، کہ انہوں نے امام ابو حنیفہ سے کثرت سے احادیث روایت کی ہیں!
دوم کہ حماد بن زید جلیل القدر محدث ہی نہیں بلکہ جلیل القدر فقیہ بھی ہیں! اور یہ حماد بن زید خود یہ بیان کرتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ کو حدیث کے معاملہ میں بے رغبتی برتنے والے تھے۔
ویسے آپ امام ابو حنیفہ کے قلیل الحدیث ہونے کو جھوٹ قرار دیتے ہوئے، کن ائمہ حدیث کی طرف جھوٹ کی نسبت فرما رہے ہیں، اس پر غور فرما لیں:


أبو عبد الرحمن عبد الله بن المبارك بن واضح الحنظلي، التركي ثم المرْوزي رحمه الله (المتوفى: 181هـ)

آپ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی شاگردی میں بھی رہ چکے ہیں اورشاگر اپنے استاذ کی کیفیت بہترانداز میں بیان کرسکتا ہے تو آئیے دیکھتے ہیں کہ امام ابن عبدالمبارک رحمہ اللہ اپنے استاذ کی حدیث دانی کی بابت کیا گواہی دیتے ہیں:
امام ابن ابی حاتم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

حدثنا عبد الرحمن ثنا حجاج بن حمزة قال نا عبدان ابن عثمان قال سمعت ابن المبارك يقول: كان أبو حنيفة مسكينا في الحديث ﴿سنده صحيح عبدان هوا الحافظ العالم أبو عبد الرحمن عبد الله بن عثمان بن جبلة بن أبي رواد﴾
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 450 جلد 01 الجرح والتعديل - أبو محمد عبد الرحمن بن محمد بن إدريس بن المنذر التميمي، الحنظلي، الرازي ابن أبي حاتم (المتوفى: 327هـ) - طبعة مجلس دائرة المعارف العثمانية، بحيدر آباد الدكن، الهند - تصوير دار الكتب العلمية

امام ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

حَدَّثَنَا مُحَمد بْنُ يُوسُفَ الْفِرْبَرِيُّ، حَدَّثَنا عَلِيُّ بْنُ خَشْرَمٍ، حَدَّثَنا علي بْن إِسْحَاق، قَالَ: سَمِعْتُ ابْن المبارك يَقُول كَانَ أَبُو حنيفة في الحديث يتيمًا. ﴿سنده صحيح يوسف الفربري من رواة الصحيح للبخاري﴾
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 122 جلد 10 الكامل في ضعفاء الرجال - أبو أحمد بن عدي الجرجاني (المتوفى: 365هـ) - مكتبة الرشد

امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
سَمِعْتُ مُحَمَّدَ بن مَحْمُود النَّسَائِيّ يَقُول سَمِعت عَليّ بن خشرم يَقُول سَمِعت عَلِيَّ بْنَ إِسْحَاقَ السَّمَرْقَنْدِيَّ يَقُولُ سَمِعت بن الْمُبَارَكِ يَقُولُ كَانَ أَبُو حَنِيفَةَ فِي الْحَدِيثِ يَتِيمًا ﴿سنده حسن﴾
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 411 جلد 02 المجروحين من المحدثين والضعفاء والمتروكين - محمد بن حبان بن أحمد بن حبان بن معاذ بن مَعْبدَ، التميمي، أبو حاتم، الدارمي، البُستي (المتوفى: 354هـ) - دار الصميعي
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 71 جلد 03 المجروحين من المحدثين والضعفاء والمتروكين - محمد بن حبان بن أحمد بن حبان بن معاذ بن مَعْبدَ، التميمي، أبو حاتم، الدارمي، البُستي (المتوفى: 354هـ) - دار المعرفة، بيروت

الإمام الحافظ العلامة القاضي أبو عمر حفص بن غياث النخعي الكوفي رحمه الله (المتوفي: 194ه)
امام عبداللہ بن احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمٌ، سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ حَفْصِ بْنِ غِيَاثٍ، يُحَدِّثُ عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: «كُنْتُ أَجْلِسُ إِلَى أَبِي حَنِيفَةَ فَأَسْمَعُهُ يُفْتِي فِي الْمَسْأَلَةِ الْوَاحِدَةِ بِخَمْسَةِ أَقَاوِيلَ فِي الْيَوْمِ الْوَاحِدِ، فَلَمَّا رَأَيْتُ ذَلِكَ تَرَكْتُهُ وَأَقْبَلْتُ عَلَى الْحَدِيثِ». ﴿اسناده صحيح﴾
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 205 جلد 01 السنة - أبو عبد الرحمن عبد الله بن أحمد بن محمد بن حنبل الشيبانيّ البغدادي (المتوفى: 290هـ) - دار ابن القيم، الدمام
کسی کو یہاں اگر یہ سمجھنے میں مشکل ہو کہ یہاں امام ابو حنیفہ کا قلیل الحدیث ہونا کیسے ثابت ہوتا ہے، تو عرض ہے کہ ابو عمر حفص بن غیاث امام ابو حنیفہ کی محفل میں بیٹھتے تھے، مگر وہاں انہیں حدیث سیکھنے موقع نہیں ملتا تھا، یعنی کہ امام ابو حنیفہ کو چھوڑنے کے بعد وہ حدیث کی طرف متوجہ ہوئے! امام ابو حنیفہ کی مجلس کو چھوڑ کر حدیث کی طرف متوجہ ہونا اس پر دلالت کرتا ہے کہ امام ابو حنیفہ کی مجلس میں حدیث کی تعلیم نہیں ہوتی تھی!

الإمام الكبير، أمير المؤمنين في الحديث أبو سعيد يحيى بن سعيد القطان رحمه الله (المتوفي: 198ه)
امام ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
حَدَّثَنَا ابْن حَمَّاد، حَدَّثني صالح، حَدَّثَنا علي، قَالَ: سَمِعْتُ يَحْيى بْنَ سَعِيد يَقُولُ مر بي أَبُو حنيفة وأنا فِي سوق الكوفة فَقَالَ لي قيس القياس هذا أَبُو حنيفة فلم أسأله عن شيء قيل ليحيى كيف كَانَ حديثه قَالَ ليس بصاحب حديث. ﴿اسناده صحيح﴾
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 237 جلد 08 الكامل في ضعفاء الرجال - أبو أحمد بن عدي الجرجاني (المتوفى: 365هـ) - الكتب العلمية، بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 122 - 123 جلد 10 الكامل في ضعفاء الرجال - أبو أحمد بن عدي الجرجاني (المتوفى: 365هـ) - مكتبة الرشد
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 2473 جلد 07 الكامل في ضعفاء الرجال - أبو أحمد بن عدي الجرجاني (المتوفى: 365هـ) - دار الفكر للطباعة والنشر والتوزيع

امام عقیلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
حَدَّثَنَاهُ مُحَمَّدُ بْنُ عِيسَى قَالَ: حَدَّثَنَا صَالِحٌ قَالَ: حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْمَدِينِيِّ قَالَ: سَمِعْتُ يَحْيَى بْنَ سَعِيدٍ يَقُولُ: مَرَّ بِي أَبُو حَنِيفَةَ وَأَنَا فِي سُوقِ الْكُوفَةِ، فَقَالَ لِي: تَيْسُ الْقَيَّاسِ هَذَا أَبُو حَنِيفَةَ، فَلَمْ أَسْأَلْهُ عَنْ شَيْءٍ، قَالَ يَحْيَى: وَكَانَ جَارِي بِالْكُوفَةِ فَمَا قَرَبْتُهُ وَلَا سَأَلْتُهُ عَنْ شَيْءٍ. قِيلَ لِيَحْيَى: كَيْفَ كَانَ حَدِيثُهُ؟ قَالَ: لَمْ يَكُنْ بِصَاحِبِ الْحَدِيثِ.
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 160 جلد 07 الضعفاء الكبير - أبو جعفر محمد بن عمرو بن موسى بن حماد العقيلي المكي (المتوفى: 322هـ) – مكتبة دار مجد الاسلام ۔ مکتبة دار ابن عباس
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 282 - 283 جلد 04 الضعفاء الكبير - أبو جعفر محمد بن عمرو بن موسى بن حماد العقيلي المكي (المتوفى: 322هـ) - دار المكتبة العلمية، بيروت

خطیب بغدادی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

أَخْبَرَنَا الْبَرْقَانِيّ، قَالَ: أَخْبَرَنَا مُحَمَّد بن العَبَّاس بن حيويه، قَالَ: أَخْبَرَنَا مُحَمَّد بن مَخْلَد، قَال: حَدَّثَنَا صالح بن أَحْمَد بن حَنْبَل، قَال: حَدَّثَنَا عَليّ، يعني: ابن المَدينِي، قَالَ: سَمِعْتُ يَحْيَى، هُوَ ابن سَعِيد القَطَّان، وذكر عنده أَبُو حنيفة، قَالُوا: كيف كَانَ حديثه؟ قَالَ: لم يكن صاحب حديث.
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 575 جلد 15 تاريخ بغداد - أبو بكر أحمد بن علي بن ثابت بن أحمد بن مهدي الخطيب البغدادي (المتوفى: 463هـ) - دار الغرب الإسلامي، بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 415 - 416 جلد 13 تاريخ بغداد وذيوله - أبو بكر أحمد بن علي بن ثابت بن أحمد بن مهدي الخطيب البغدادي (المتوفى: 463هـ) - دار الكتب العلمية، بيروت

الإمام الحافظ الفقيه، شيخ الحرم أبو بكر عبد الله بن الزبير الحميدي رحمه الله (المتوفي: 219ه)
امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
سَمِعت الْحميدِي يَقُول قَالَ أَبُو حنيفَة قدمت مَكَّة فَأخذت من الْحجام ثَلَاث سنَن لما قعدت بَين يَدَيْهِ قَالَ لي اسْتقْبل الْقبْلَة فَبَدَأَ بشق رَأْسِي الْأَيْمن وَبلغ إِلَى العظمين
قَالَ الْحميدِي فَرجل لَيْسَ عِنْده سنَن عَن رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلا أَصْحَابه فِي الْمَنَاسِك وَغَيرهَا كَيفَ يُقَلّد أَحْكَام الله فِي الْمَوَارِيث والفرائض وَالزَّكَاة وَالصَّلَاة وَأُمُور الْإِسْلَام

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 41 جلد 02 التاريخ الأوسط (التاريخ الصغير) - محمد بن إسماعيل بن إبراهيم بن المغيرة البخاري، أبو عبد الله (المتوفى: 256هـ) - دار المعرفة، بيروت

أبو زكريا يحيى بن معين بن عون بن زياد بن بسطام بن عبد الرحمن المري بالولاء، البغدادي رحمه الله (المتوفى: 233هـ)

امام عبداللہ بن احمدبن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
حَدَّثَنِي أَبُو الْفَضْلِ ثنا يَحْيَى بْنُ مَعِينٍ، قَالَ «كَانَ أَبُو حَنِيفَةَ مُرْجِئًا وَكَانَ مِنَ الدُّعَاةِ وَلَمْ يَكُنْ فِي الْحَدِيثِ بِشَيْءٍ وَصَاحِبُهُ أَبُو يُوسُفَ لَيْسَ بِهِ بَأْسٌ»
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 226 جلد 01 السنة - أبو عبد الرحمن عبد الله بن أحمد بن محمد بن حنبل الشيبانيّ البغدادي (المتوفى: 290هـ) - دار ابن القيم، الدمام

أبو عبد الرحمن أحمد بن شعيب بن علي الخراساني، النسائي رحمه الله (المتوفى: 303هـ)
آپ فرماتے ہیں:
أبو حنيفة ليس بالقوي في الحديث وهو كثير الغلط والخطأ على قلة روايته
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 71 تسمية الضعفاء والمتروكين والثقات ممن حمل عنهم الحديث من أصحاب أبي حنيفة (من مجموعة رسائل في علوم الحديث) - أبو عبد الرحمن أحمد بن شعيب بن علي الخراساني، النسائي (المتوفى: 303هـ) - مؤسسة الكتب الثقافية، بيروت (المكتبة الشاملة)

محمد بن حبان بن أحمد بن حبان بن معاذ بن مَعْبدَ، التميمي، أبو حاتم، الدارمي، البُستي رحمه الله (المتوفى: 354هـ)
امام ابن حبان رحمہ اللہ اپنی کتاب میں لکھتے ہیں:
النُّعْمَان بن ثَابت أَبُو حنيفَة الْكُوفِي صَاحب الرَّأْي يروي عَن عَطاء وَنَافِع كَانَ مولده سنة ثَمَانِينَ فِي سوا الْكُوفَة وَكَانَ أَبوهُ مَمْلُوكا لرجل من بني ربيعَة من تيم الله من نجد يُقَال لَهُم بَنو قفل فَأعتق أَبوهُ وَكَانَ خبازا لعبد الله بن قفل وَمَات أَبُو حنيفَة سنة خمسين وَمِائَة بِبَغْدَاد وقبره فِي مَقْبرَة الخيزران وَكَانَ رجلا جدلا ظَاهر الْوَرع لم يكن الحَدِيث صناعته حدث بِمِائَة وَثَلَاثِينَ حَدِيثا مسانيد مَا لَهُ حَدِيث فِي الدُّنْيَا غَيره أَخطَأ مِنْهَا فِي مائَة وَعشْرين حَدِيثا إِمَّا أَن يكون أقلب إِسْنَاده أَو غير مَتنه من حَيْثُ لَا يعلم فَلَمَّا غلب خَطؤُهُ على صَوَابه اسْتحق ترك الِاحْتِجَاج بِهِ فِي الْأَخْبَار
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 405 - 406 جلد 02 المجروحين من المحدثين والضعفاء والمتروكين - محمد بن حبان بن أحمد بن حبان بن معاذ بن مَعْبدَ، التميمي، أبو حاتم، الدارمي، البُستي (المتوفى: 354هـ) - دار الصميعي
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 61 - 63 جلد 03 المجروحين من المحدثين والضعفاء والمتروكين - محمد بن حبان بن أحمد بن حبان بن معاذ بن مَعْبدَ، التميمي، أبو حاتم، الدارمي، البُستي (المتوفى: 354هـ) - دار المعرفة، بيروت

أبو أحمد عبد الله بن عدي بن عبد الله بن محمد ابن مبارك بن القطان الجرجاني رحمه الله (المتوفى: 365هـ)
آپ اپنی کتاب میں فرماتے ہیں:
وأَبُو حنيفة لَهُ أحاديث صالحة وعامة ما يرويه غلط وتصاحيف وزيادات فِي أسانيدها ومتونها وتصاحيف فِي الرجال وعامة ما يرويه كذلك ولم يصح لَهُ فِي جميع ما يوريه إلا بضعة عشر حديثا وقد روى من الحديث لعله أرجح من ثلاثمِئَة حديث من مشاهير وغرائب وكله على هَذِهِ الصورة لأنه ليس هُوَ من أهل الحديث، ولاَ يحمل على من تكون هَذِهِ صورته فِي الحديث.
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 246 جلد 08 الكامل في ضعفاء الرجال - أبو أحمد بن عدي الجرجاني (المتوفى: 365هـ) - الكتب العلمية، بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 133 - 134 جلد 10 الكامل في ضعفاء الرجال - أبو أحمد بن عدي الجرجاني (المتوفى: 365هـ) - مكتبة الرشد
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 2479 جلد 07 الكامل في ضعفاء الرجال - أبو أحمد بن عدي الجرجاني (المتوفى: 365هـ) - دار الفكر للطباعة والنشر والتوزيع

أبو عبد الله الحاكم محمد بن عبد الله بن محمد بن حمدويه بن نُعيم بن الحكم الضبي الطهماني النيسابوري المعروف بابن البيع رحمه الله (المتوفى: 405هـ)
آپ اپنی کتاب میں فرماتے ہیں:
ذِكْرُ النَّوْعِ الْحَادِي وَالْخَمْسِينَ مِنْ عُلُومِ الْحَدِيثِ هَذَا النَّوْعُ مِنْ هَذِهِ الْعُلُومِ مَعْرِفَةُ جَمَاعَةٍ مِنَ الرُّوَاةِ التَّابِعِينَ، فَمَنْ بَعْدَهُمْ لَمْ يُحْتَجَّ بِحَدِيثِهِمْ فِي الصَّحِيحِ، وَلَمْ يَسْقُطُوا
۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔

وَمِثَالُ ذَلِكَ فِي أَتْبَاعِ التَّابِعِينَ
۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔

أَبُو حَنِيفَةَ النُّعْمَانُ بْنُ ثَابِتٍ،
۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔

قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ: فَجَمِيعُ مَنْ ذَكَرْنَاهُمْ فِي هَذَا النَّوْعِ بَعْدَ الصَّحَابَةِ وَالتَّابِعِينَ فَمَنْ بَعْدَهُمْ قَوْمٌ قَدِ اشْتَهَرُوا بِالرِّوَايَةِ، وَلَمْ يَعُدُّوا فِي الطَّبَقَةِ الْأَثْبَاتِ الْمُتْقِنِينَ الْحُفَّاظَ، وَاللَّهُ أَعْلَمُ

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 664 - 670 معرفة علوم الحديث - أبو عبد الله الحاكم محمد بن عبد الله بن محمد بن حمدويه بن نُعيم بن الحكم الضبي الطهماني النيسابوري المعروف بابن البيع (المتوفى: 405هـ) - دار ابن حزم، بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 254 - 256 معرفة علوم الحديث - أبو عبد الله الحاكم محمد بن عبد الله بن محمد بن حمدويه بن نُعيم بن الحكم الضبي الطهماني النيسابوري المعروف بابن البيع (المتوفى: 405هـ) - دار الآفاق الجديدة، بيروت

شمس الدين أبو عبد الله محمد بن أحمد بن عثمان بن قَايْماز الذهبي رحمه الله (المتوفى: 748هـ)

آپ مناقب ابی حنیفہ میں لکھتے ہیں:
قُلْتُ: لَمْ يَصْرِفِ الإِمَامُ هِمَّتَهُ لِضَبْطِ الأَلْفَاظِ وَالإِسْنَادِ، وَإِنَّمَا كَانَتْ هِمَّتُهُ الْقُرْآنُ وَالْفِقْهُ، وَكَذَلِكَ حَالُ كُلِّ مَنْ أَقْبَلَ عَلَى فَنٍّ، فَإِنَّهُ يُقَصِّرُ عَنْ غَيْرِهِ،
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 45 مناقب الإمام أبي حنيفة وصاحبيه - شمس الدين أبو عبد الله محمد بن أحمد بن عثمان بن قَايْماز الذهبي (المتوفى: 748هـ) - لجنة إحياء المعارف النعمانية، حيدر آباد الدكن
بشکریہ شیخ @کفایت اللہ

اس تفصیل کے مد نظر الانتقاء کی مذکور روایت معلول بھی قرار پاتی ہے! کم از روایت کا یہ حصہ!
(جاری ہے)
نوٹ: @رحمانی صاحب! اس طرح کے موضوع پر گفتگو کرنے میں وقت تو درکار ہوتا ہے، ذرا دھیرج رکھیئے!
 
Last edited:

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
حَدثنَا عبد الله بن مُحَمَّد بن عبد المؤمن بْنِ يَحْيَى رَحِمَهُ اللَّهُ قَالَ أَنا أَبُو بكر مُحَمَّد بن بكر بن عبد الرازق التَّمَّارُ الْمَعْرُوفُ بِابْنِ دَاسَةَ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا دَاوُدَ سُلَيْمَانَ بْنَ الأَشْعَثِ بْنِ إِسْحَاقَ السِّجِسْتَانِيَّ رَحِمَهُ اللَّهُ يَقُولُ رَحِمَ اللَّهُ مَالِكًا كَانَ إِمَامًا رَحِمَ اللَّهُ الشَّافِعِيَّ كَانَ إِمَامًا رَحِمَ اللَّهُ أَبَا حَنِيفَةَ كَانَ إِمَامًا(الانتقاء في فضائل الثلاثة الأئمة الفقهاء (ص: 32)
یہ سند بھی حسن ہے اوراس کے تمام روات ثقہ وصدوق ہیں۔

امام ابودائود سے زیادہ کون واقف ہوگاکہ امام احمد بن حنبل اوردیگر محدثین کاامام ابوحنیفہ کے تعلق کیاموقف تھا؟لیکن اس کے باوجود وہ بڑی صراحت اور صاف گوئی کے ساتھ کہتے ہیں کہ امام ابوحنیفہ بھی اسی طرح ائمہ مسلمین ہیں جیسے امام مالک اورامام شافعی ہیں ،دوسرے لفظوں میں جس طرح یہ حضرات حدیث اورفقہ کےا مام ہیں، اسی طرح امام ابوحنیفہ بھی ہیں۔
حَدثنَا عبد الله بن مُحَمَّد بن عبد المؤمن بْنِ يَحْيَى رَحِمَهُ اللَّهُ قَالَ أَنا أَبُو بكر مُحَمَّد بن بكر بن عبد الرازق التَّمَّارُ الْمَعْرُوفُ بِابْنِ دَاسَةَ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا دَاوُدَ سُلَيْمَانَ بْنَ الأَشْعَثِ بْنِ إِسْحَاقَ السِّجِسْتَانِيَّ رَحِمَهُ اللَّهُ يَقُولُ رَحِمَ اللَّهُ مَالِكًا كَانَ إِمَامًا رَحِمَ اللَّهُ الشَّافِعِيَّ كَانَ إِمَامًا رَحِمَ اللَّهُ أَبَا حَنِيفَةَ كَانَ إِمَامًا
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 66 - 67 الانتقاء في فضائل الثلاثة الأئمة الفقهاء مالك والشافعي وأبي حنيفة رضي الله عنهم - أبو عمر يوسف بن عبد الله بن محمد بن عبد البر بن عاصم النمري القرطبي (المتوفى: 463هـ) – مكتب المطبوعات الإسلامية بحلب

امام احمد بن حنبل اور دیگر محدثین کا امام ابو حنیفہ کے تعلق کا سے مؤقف ان کے اپنے اقوال میں موجود ہے، اور محدثین کا مؤقف محدثین نے خود صراحت سے بیان کیا ہے! امام احمد بن حنبل اور دیگر محدثین کا مؤقف جاننے کے لئے امام احمد بن حنبل اور دیگر محدثین کا مؤقف جاننے کے لئے امام احمد بن حنبل کے بیٹے عبد اللہ بن احمد بن حنبل کی کتاب '
'السنة'' کا مطالعہ مفید رہے گا!
جی ! اب جب آپ کہتے ہیں کہ امام ابو داؤد امام احمد بن حبل رحمہ اللہ اور دیگر محدثین کے امام ابو حنیفہ کے تعلق سے ان کے مؤقف سے واقف تھے، تو امام ابو داؤد کے اس قول کو اسی تناظر میں سمجھا جائے گا!
لیکن آپ نے امام ابو داؤد کے قول سے جو مطلب کشید کرنے کی سعی کی ہے کہ امام ابو دؤد امام ابو حنیفہ کو ''امام'' اور ''رحمہ الله'' کہہ کر انہیں امام ابو حنیفہ کو امام مالک اور امام شافعی کی طرح حدیث اور فقہ دونوں کا امام قرار دیا ہے، یہ مطلب تو بلکل باطل اور خلاف حقیقت ہے!
بات صرف اتنی ہے کہ اہل الرائے کی تکفیر نہیں کی جاتی، اور اہل الرائے کے کا شمار بھی مسلمین میں ہوتا ہے، اور ان کے امام بھی مسلمین کے
''امام'' شمار ہوتے ہیں! اور ان کے لئے ''رحمه الله'' کہا جاتا ہے!
لیکن اس سے کوئی حدیث کا امام ثابت نہیں ہو جاتا!
معنی اس کا یہ ہے کہ امام بو حنیفہ رحمہ اللہ، امام شافعی رحمہ اللہ اور امام مالک رحمہ اللہ مسلمانوں کے امام ہیں!
اور امام ابو حنیفہ کا فقہ اہل الرائے کا امام ہونا اور امام شافعی وامام مالک کا فقہ اہل الحدیث کا امام ہونا ثابت ہے،
حدیث میں امام ہونے کی، تو امام شافعی اور امام مالک کا حدیث میں امام ہونا تو ثابت ہے، اور امام ابو حنیفہ کی حدیث میں امامت تو کجا، حدیث کے اچھے طلباء میں شمار کرنا بھی مشکل ہے!
اس حوالہ سے اوپر مراسلوں میں بھی ائمہ حدیث وفقہ کا کلام موجود ہے!

اگر کوئی اس بات پر مصر ہو کہ یہاں امام امالک اور امام شافعی اور امام ابو حنیفہ تینوں کے ساتھ ایک ہی الفاظ ادا کیئے ہیں، تو تینوں کی امامت بالکل ایک جیسی ہے، تو پھر امام ابو حنیفہ کو بھی امام مالک اور امام شافعی کی طرح فقہ اہل الحدیث کا امام قرار دینا پڑے گا، اور یہ خلاف حقیقت ہے، یا امام مالک اور امام شافعی کو بھی فقہ اہل الرائے کا امام قرار دینا پڑے گا، اور یہ بھی خلاف حقیقت ہے!
لہٰذا یہاں سے ''بالکل اسی طرح'' کا مطلب کشید کرنا ہی باطل ہے، امام ابو حنیفہ کی امامت اور امام مالک وشافعی کی امامت میں جو فرق ہے، اسے ختم کرنا باطل ہے!

ویسے @رحمانی صاحب کے اس عبارت سے امام ابو حنیفہ کو حدیث کا امام ثابت کرنا، اہل الرائے کا ہی کمال ہو سکتا ہے! علم الکلام میں غوطہ لگا کار کلام کےحقیقت کے برخلاف معنی کشید کرنے میں واقعی یہ مہارت رکھتے ہیں!
اسی کے پیش نظر میں نے کہا تھا:
اس تھریڈ کو محدثین کے زمرے سے فقہاء کے زمرے میں منتقل کیا جانا چاہیئے!
(جاری ہے)
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
حقیقت یہ ہے کہ اس طرح سے سوشہ چھوڑ کر ایک تھریڈ بنانا اور کسی ایک شخص کا قول نقل کردینا جہالت سے بھراہواکام ہے، اگرآپ کو لگتاہے کہ امام ابوحنیفہ کی فقاہت ناقابل اعتماد ہے تواس کے تمام گوشوں اورجوانب کا جائزہ لیں اورپھر اپنی بات مدلل طورپر ثابت کریں، محض کسی کا ایک قول نقل کرنا اور پھر ایک تھریڈ کھول دینا شیرہ لگانے جیسی شیطانی حرکت ہے۔
اس تھریڈ کا عنوان بغور دیکھیں:
''
ابوحنیفه نعمان بن ثابت, امام ایوب سختیانی کی نظر میں.''
اس تھریڈ بنانے والے نے امام ابو حنیفہ کے متعلق امام ایوب سختیانی کا ہی مؤقف بیان کیا ہے!
امام ایوب سختیانی کا یہ مؤقف تھا، اس کا انکار تو آپ نے بھی نہیں کیا، آپ نے فرمایا ہے:
ایک طرف ایوب سختیانی اور انہی کی طرح کے کچھ افراد ہیں اوردوسری جانب پوری امت ہے،ان چند حضرات کےقول کو اتناوزن دینا کہ پوری امت بے وزن ہوکر رہ جائے،عقل انصاف اورعلم سبھی سے بعید ہے۔
امام ابو حنیفہ کے متعلق امام ایوب سختیانی کا قول نقل کرنا، اور اس پر ایک تھریڈ بنانا جہالت نہیں، جہالت تو یہ ہے، امام ایوب سختیانی اور دیگر محدثین وفقہاء کی امام ابو حنیفہ پر روایت اور فقہ وفقاہت پر ثابت شدہ جرح کے باوجود امام ابو حنیفہ اور ان کی فقہ وفقاہت کو غیر مجروح قرار دیا جائے!
فقہائے اہل الحدیث کے نزدیک امام ابو حنیفہ کی فقہ وفقاہت کے ناقابل اعتماد ہونے پر ائمہ وفقہائے اہل الحدیث کے کئی اقوال موجود ہیں، اور امام ابو حنیفہ اور اہل الرائی کا خبر واحد کے تعلق سے اصول ہی کافی ہے! اور اس کا بیان آپ کی اپنی پیش کردہ عبارت کے سیاق سے ہم نے پیش کردیا ہے!
امام ابو حنیفہ واہل الرائی کے متعلق اسلاف امت کے اقوال کے بیان میں کوئی قباحت نہیں، بلکہ یہ بہت ضروری ہے، کہ لوگوں کو اہل الرائی علماء نے اہل الرائی فقہاء بالخصوص امام ابو حنیفہ کے بہت سے بھونڈے اور جھوٹے مناقب بیان کر کرے، انہیں ان کی عقیدت کے بت کی پوجا میں مبتلا کردیا ہے! یہ علمائے اہل الرائی خود بھی گمراہ ہیں اور لوگوں کو بھی گمراہ کرتے ہیں!
اور جب امام ابو حنیفہ کے متعلق حقیقت کا بیان سامنے آتا ہے، تو ان شیطان کے چیلوں کو ''اس عقیدت کے بت'' پر پڑتی چوٹ تکلیف دیتی ہے، اور وہ بلبلاتے جھنجلاتے، حقیقت بیان کرنے والوں کو کسنے لگتے ہیں!

اب آتے ہیں، ابن دائود کی جانب جو عقل سے عاری ہوکر فرماتے ہیں۔
تاریخ کے اوراق کھول کر دیکھیں، کہ امام مالک،امام احمد بن حنبل اور امام بخاری کے ساتھ ان اہل الرائے فقہاء نے کیا کیا مظالم کیئے ہیں!
اب اس پاگل پن پر کوئی افسوس ہی توکرسکتاہے کہ امام مالک پر فقہاء اہل الرائی نے کیاظلم کیاہے؟ان پر جوکچھ کیاہے،وہ مدینہ کے حاکم نے کیاہے؟
یاتو یہ جہالت ہے، یا خود فریبی ہے کہ امام مالک پر جو کچھ ظلم کیا گیا، ومدینہ کے حاکم نے کیا، اور فقہاء اہل الرائی نے امام مالک پر کوئی ظلم کیا ہی نہیں!
امام مالک پر صرف وہی ظلم نہیں ہوا جو حاکم مدینہ نے کیا، بلکہ امام مالک پر جھوٹ اور افتراء باندھنے کا ظلم بھی ہوا ہے!
رہ گئی علمی رد اورتردید کی بات تواس کا ظلم سے کوئی تعلق نہیں اورجواس کو ظلم سمھتاہے، اس کے دماغ میں خلل ہے۔
رحمانی صاحب! آپ اپنی طرف سے مخالف کا خود پر اعتراض از خودکشید کر کے کوسنے نہ دیں!
ہم نے نہ علمی تردید کی بات کی ہے، اور نہ ہم علمی تردید کو ظلم سمجھتے ہیں!
آپ اپنے اس دماغی خلل کا علاج کروائیں!
امام مالک پر حاکم مدینہ کے ظلم کے معاملہ کے علاوہ اہل الرائےکا، اور وہ بھی حنفی کا امام مالک اور اما شافعی پر ظلم کا ایک ثبوت دیکھیں!
پہلے میں اہل الرائے کے شیخ الاسلام کا کا تعارف اہل الرائے کی کتب سے پیش کرتا ہوں؛

مَسْعُود بن شيبَة بن الْحُسَيْن ابْن السندي عماد الدّين الملقب شيخ الْإِسْلَام لَهُ كتاب التَّعْلِيم وَله طَبَقَات أَصْحَابنَا رَحْمَة الله عَلَيْهِم أَجْمَعِينَ.
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 469 جلد 03 الجواهر المضية في طبقات الحنفية - عبد القادر بن محمد بن نصر الله القرشي، أبو محمد، محيي الدين الحنفي (المتوفى: 775هـ) - دار هجر،
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 169 جلد 02 الجواهر المضية في طبقات الحنفية - عبد القادر بن محمد بن نصر الله القرشي، أبو محمد، محيي الدين الحنفي (المتوفى: 775هـ) - دار المعارف النظامية، حيدر آباد، دكن

الإمام شيخ الإسلام عماد الدين مسعود بن شَيبة بن حسين السّنْدي الحنفي، صاحب "كتاب التعليم" و"طبقات الفقهاء الحنفية". ذكره تقي الدين.

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 329 جلد 03 سلم الوصول إلى طبقات الفحول - مصطفى بن عبد الله القسطنطيني العثماني المعروف بـ «كاتب جلبي» وبـ «حاجي خليفة» (المتوفى 1067 هـ) - مكتبة إرسيكا، إستانبول

الشيخ مسعود بن شيبة السندي
الشيخ الفاضل الكبير مسعود بن شيبة بن الحسين السندي عماد الدين الملقب بشيخ
الإسلام، له كتاب التعليم وله طبقات الحنفية كما في الأثمار الجنية،

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 210 جلد 02 الإعلام بمن في تاريخ الهند من الأعلام المسمى بـ (نزهة الخواطر وبهجة المسامع والنواظر) - عبد الحي بن فخر الدين بن عبد العلي الحسني الطالبي (المتوفى: 1341هـ) - دار ابن حزم، بيروت

اب دیکھیں کہ اہل الرائے کے یہ شیخ الاسلام امام مالک اور امام شافعی پر علمی رد فرماتے ہیں یا ظلم!
مسعود بن شيبة بن الحسين السندي عماد الدين الحنفي.
مجهول.
لا يعرف عمن أخذ العلم، وَلا من أخذ عنه.
له مختصر سماه التعليم كذب فيه على مالك وعلى الشافعي كذبا قبيحا فيه ازدراء بالأنبياء.
وقال فيه: لا يعرف للشافعي مسألة اجتهد فيها، وَلا حادثة استنبط فيها حكمها غير مسائل معدودة تفرد بها كذا قال!

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 46 جلد 08 لسان الميزان - أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) - مكتب المطبوعات الإسلامية، دار البشائر الإسلامية، بيروت

مَسْعُود بن سينة بن الْحُسَيْن المسندي عماد الدّين الْحَنَفِيّ
مَجْهُول لَا يعرف عَن من أَخذ الْعلم وَلَا من أَخذ عَنهُ لَهُ مُخْتَصر سَمَّاهُ التَّعْلِيم كذب فِيهِ على مَالك وعَلى الشَّافِعِي كذبا قبيحا فِيهِ ازدراء بالأنبياء وَقَالَ فِيهِ لَا يعرف للشَّافِعِيّ مَسْأَلَة اجْتهد فِيهَا وَلَا حَادِثَة استنبط حكمهَا غير مسَائِل مَعْدُودَة تفرد بهَا كَذَا قَالَ
قلت كَانَ فِي عصر الْمُعظم بن الْعَادِل بِدِمَشْق

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 90 ذيل ميزان الاعتدال - أبو الفضل زين الدين عبد الرحيم بن الحسين بن عبد الرحمن بن أبي بكر بن إبراهيم العراقي (المتوفى: 806هـ) - دار الكتب العلمية، بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 322 ذيل ميزان الاعتدال - أبو الفضل زين الدين عبد الرحيم بن الحسين بن عبد الرحمن بن أبي بكر بن إبراهيم العراقي (المتوفى: 806هـ) - عالم الكتب - مكتبة النهضة العربية

کیا کہیئے گا؟ امام مالک اور امام شافعی پر جھوٹ باندھنا علمی رد یا یا ظلم؟

امام احمد بن حنبل کے ساتھ جو کچھ کیاوہ معتزلہ نے کیا، معتزلہ حضرات فروعات میں حنفی ہیں لیکن عقائد میں ان کا احناف سے اختلاف ہے اوراحناف ہمیشہ ان کے خلاف لکھتے اوران کی تردید کرتے آئے ہیں،
جب آپ کو خود تسلیم ہے کہ امام احمد بن حنبل پر ظلم کرنے والے معتزلی حنفی ہیں، اور یقیناً وہ اہل الرائے بھی ہیں! تو آپ کو ہماری کس بات سے انکار ہے؟
ہم نے تو صرف اہل الرائے لکھا تھا، آپ نے خود ان کا حنفی ہونا بھی قبول کر لیا ہے!
یہ آپ نے خوب کہی کہ معتزلی حنفی کا عقائد میں احناف سے اختلاف ہے!
تو میرے بھائی! حنفی تو در حقیقت ہوتا ہی فروع میں ہے! اور اختلاف عقیدہ کی بناء پر یہ حنفیوں کی ہی اقسام شمار کی جاتی ہیں!

وَمِنْهُم من قَالَ: ان مُرَاد الشَّيْخ من الْحَنَفِيَّة فرقة مِنْهُم وهم المرجئة.
وتوضيحه: ان الْحَنَفِيَّة عبارَة عَن فرقة تقلد الامام ابا حنيفَة فِي الْمسَائِل الفرعية، وتسلك مسلكه فِي الاعمال الشَّرْعِيَّة، سَوَاء وافقته فِي اصول العقائد ام خالفته، فان وافقته يُقَال لَها: (الْحَنَفِيَّة الْكَامِلَة) وان لَو توافقه يُقَال لَهَا: (الْحَنَفِيَّة) مَعَ قيد يُوضح مسلكه فِي العقائد الكلامية فكم من حَنَفِيّ حَنَفِيّ فِي الْفُرُوع معتزلي عقيدة، كالزمخشري جَار الله مؤلف الْكَشَّاف وَغَيره وكمؤلف الْقنية وَالْحَاوِي والمجتبي شرح مُخْتَصر الْقَدُورِيّ: نجم الدجين الزَّاهدِيّ. وَقد ترجمتهما فِي الْفَوَائِد البهية فِي تراجم الْحَنَفِيَّة، وكعبد الجبار، وابي هَاشم، والجبائي، وَغَيرهم. وَكم من حَنَفِيّ حَنَفِيّ فرعا مرجئ، اَوْ زيدي أصلا.
وَبِالْجُمْلَةِ: فالحنفية لَهَا فروع بِاعْتِبَار اخْتِلَاف العقيدة، فَمنهمْ الشِّيعَة، وَمِنْهُم الْمُعْتَزلَة، وَمِنْهُم المرجئة، فَالْمُرَاد بالحنفية هَاهُنَا هم الْحَنَفِيَّة المرجئة، الَّذين يتبعُون ابا حنيفَة فِي الْفُرُوع ويخالفونه فِي العقيدة، بل يوافقون فِيهَا المرجئة الْخَالِصَة.

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 385 - 386 الرفع والتكميل في الجرح والتعديل - محمد عبد الحي بن محمد عبد الحليم الأنصاري اللكنوي الهندي، أبو الحسنات (المتوفى: 1304هـ) - مكتب المطبوعات الإسلامية، حلب
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 178 - 179 الرفع والتكميل في الجرح والتعديل - محمد عبد الحي بن محمد عبد الحليم الأنصاري اللكنوي الهندي، أبو الحسنات (المتوفى: 1304هـ) - مكتبة ابن تيمية

بہر حال امام احمد بن حنبل پر اہل الرائے نے ظلم کیا، اور یہ اہل الرائے حنفی اور معتزلی تھے!

(جاری ہے)
 
Top