• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ایک مشت سے زائد ڈاڑھی کٹانےکے جواز پر صحابہ کا اجماع

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
"ہمارے یہاں" کی دلیل کم ازکم ان تصاویر سے نہیں دی جاسکتی ، ان تصاویر پر انٹرنیٹ پر مختلف عناوین سے بیشمار باتیں ہیں ۔ بات سنت پر هو تو غیر مسلموں کی تصاویر پیش کرنے کیا مقصد؟
اس سادہ سے سوال کا سادہ سا جواب دیں ۔
کیوں ان تصاویر کو دلیل کیوں نہیں بنا سکتے ہو
یہ تصاویر صرف غیر مسلموں کی نہیں ہیں بلکہ مسلمانوں کی بھی ہیں،میں نے یہ ثابت کیا ہے کہ ڈاڑھی اتنی لمبی بھی ہوتی ہے،مسلمانوں کی اکثریت صرف ایک مشت کی قائل ہے اس لیے وہ اپنی داڑھی کٹوا دیتے ہیں اگر مسلمان اپنی ڈاڑھیاں نہ کٹوائیں تو وہ بہت لمبی ہو سکتی ہیں
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
یہ تشبیہات بهی ناقابل قبول ہیں ۔ داڑهی جیسی سنت کو اس طرح کیوں تشبیہ دے رہے ہیں؟
نہ تو آپ صحابہ کی تشبیہات کو قبول کرتے ہیں نہ تابعین کی بات آپ کے دل میں اترتی ہے اور نہ ہی ائمہ اربعہ کا موقف آپ کو پسند ہے اور نہ امام ابن تیمیہ جیسا شخص آپ کو اس معاملے میں پسند ہے،تو بتائیں کہ آپ کو کس طرح سمجھائیں؟
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
داڑھى كاٹ كر برابر كرنے والے كا حكم

الحمد للہ:

داڑھى پورى اور گھنى ركھنا فرض ہے، اور داڑھى كا كوئى بال بھى كاٹنا جائز نہيں؛ كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت ہے آپ نے فرمايا:

" مونچھيں كاٹو، اور داڑھى كو بڑھاؤ مشركوں كى مخالفت كرو"

متفق عليہ. يہ حديث ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما سے مروى ہے.

اور صحيح بخارى ميں ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما سے مروى ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" مونچھيں كاٹو، اور داڑھى پورى ركھو مشركوں كى مخالفت كرو "

اور صحيح مسلم ميں ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ سے مروى ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" مونچھيں پست كرو، اور داڑھى لمبى كرو مجوسيوں كى مخالفت كرو "

يہ سب احاديث داڑھى پورى اور گھنى اور اپنى حالت پر باقى ركھنے پر دلالت كرتى ہيں، اور مونچھوں كے كاٹنے كے وجوب پر دلالت كرتى ہيں، مشروع بھى يہى ہے، اور يہى واجب اور فرض ہے جس كى راہنمائى نبى كريم صلى اللہ عليہ نے فرمائى اور اس كا حكم بھى ديا.

اور پھر داڑھى پورى ركھنے ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى اقتدا اور پيروى اور صحابہ كرام كى اقتدا اور مشركوں كى مخالفت، اور كفار اور عورتوں سے مشابہت بھى سے بھى دورى ہے.

ليكن ترمذى شريف ميں جو حديث مروى ہے كہ:

" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اپنى داڑھى كے طول و عرض سے كاٹا كرتے تھے "

اہل علم كے ہاں يہ خبر باطل ہے، نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت نہيں، بعض لوگ اس كو دليل بناتے ہيں، حالانكہ يہ حديث ثابت ہى نہيں، كيونكہ اسكى سند ميں عمر بن ہارون بلخى ہے جو متہم بالكذب رواتى ہے.

لہذا مومن شخص كے ليے اس باطل حديث كو دليل بنانا جائز نہيں، اور نہ ہى اہل علم كے اقوال كے ساتھ رخصت حاصل كرنا جائز ہے، كيونكہ سنت نبويہ سب كے ليے حاكم ہے.

اور پھر اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

﴿ جو كوئى شخص رسول ( صلى اللہ عليہ وسلم ) كى اطاعت كرتا ہے، اس نے اللہ تعالى كى اطاعت كى ﴾.

اور ايك مقام پر ارشاد بارى تعالى ہے:

﴿ كہہ ديجئے كہ اللہ تعالى كا حكم مانو، اور رسول ( صلى اللہ عليہ وسلم ) كى اطاعت و فرمانبردارى پھر بھى اگر تم نے روگردانى كى تو رسول ( صلى اللہ عليہ وسلم ) كے ذمہ تو صرف وہى ہے جو اس پر لازم كر ديا گيا ہے، اور تم پر اس كى جوابدہى ہے جو تم پر ركھا گيا ہے، ہدايت تو تمہيں اسى وقت ملےگى جب تم رسول كى اطاعت كروگے سنو رسول كے ذمہ تو صرف صاف طور پر پہچا دينا ہے ﴾النور ( 54 ).

اور ايك مقام پر اللہ رب العزت كا فرمان اس طرح ہے:

﴿ اے ايمان والو! اللہ تعالى كى اطاعت كرو، اور رسول ( صلى اللہ عليہ وسلم ) كى فرمانبردارى كرو، اور تم سے جو اختيار والے ان كى اطاعت كرو، اور اگر تم كسى چيز ميں اختلاف كرو تو اسے اللہ تعالى اور اس كے رسول كى طرف لوٹاؤ، اگر تمہيں اللہ تعالى اور قيامت كے دن پر ايمان ہے، يہ بہت بہتر ہے اور باعتبار انجام كے بہت اچھا ہے ﴾ النساء ( 59 ).

اللہ تعالى ہى توفيق بخشنے والا ہے.

ديكھيں كتاب: مجموع فتاوى و مقالات المتنوعۃ فضيلۃ الشيخ علامہ عبد العزيز بن عبد اللہ بن باز رحمہ اللہ ( 4 / 443 ).

https://islamqa.info/ur/13660
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
لہذا مومن شخص كے ليے اس باطل حديث كو دليل بنانا جائز نہيں، اور نہ ہى اہل علم كے اقوال كے ساتھ رخصت حاصل كرنا جائز ہے، كيونكہ سنت نبويہ سب كے ليے حاكم ہے.
اہل علم کی بات تو بہت بعد کی بات ہے ،اس پر صحابہ کرام کا اجماع ہے کہ ایک مشت سے زائد داڑی کاٹنا جائز ہے،یک مشت سے زائد داڑی کاٹنے کی حرمت کا قول چوہدویں صدی کے علما کا ہے۔
علامہ البانی اور حافظ زبیر علی زئی وغیرہ کا یہ دعوی ہے کہ یک مشت سے زائد ڈاڑھی کٹانے کے جواز پر صحابہ کرام کا اجماع ہے،اجماع کی شروط میں سے یہ کوئی شرط نہیں ہے کہ صحابہ کرام میں سے ہر ایک صحابی کی رائے ہم تک نقل ہوکرآتی ،باوجود اس کے کہ وہ مختلف علاقوں میں پھیلے ہوئے تھے،ہمارے لیے صرف اتنا ہی کافی ہے کہ بڑے بڑے اجل محدث اور سب سے بڑھ کر متبع سنت صحابہ کرام(ابن عمر،ابن عباس،ابو ہریرہ،عبد اللہ بن جابر) جن کی علمی اور فقہی قدر و منزلت مسلم ہےاوروہ مشہور فقہی مدارس کے شیوخ الحدیث تھے،وہ یک مشت ڈاڑھی سے زائد ڈاڑھی کے کٹانے کو جائز سمجھتے تھے،حالاں کہ ان چاروں نے رسول اللہ ﷺ سے ڈاڑھی کی حدیث بیان کی ہے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ یک مشت سے زائد ڈاڑھی کے کٹانے کے جواز میں کوئی صحابی ان کا مخالف بھی نہ تھا،اس لیے ہم اس کو اجماع سکوتی کہہ سکتے ہیں،دور حاضر کے مشہور و معروف مفسر جناب امین شنقیطی نے لکھا ہے:
فان انتشر في الصحابة ولم يظهر له مخالف فهو الإجماع السكوتي وهو حجة عند الأكثر
اگر کسی صحابی کا کوئی عمل دیگر صحابہ کرام میں پھیل جائے اور کوئی صحابی اس کی مخالفت بھی نہ کرے تو اسی کو اجماع سکوتی کہتے ہیں جو اکثر علمائے کرام کے نزدیک حجت ہے۔
(مذکرہ فی اصول الفقہ ،امین شنقیطی:ص:198)
یہاں سمجھنے کی بات یہ ہے کہ کیا صحابہ کرام کا یہ عمل ڈھکا چھپا تھا،کیا دیگر اصحاب رسول مذکورہ صحابہ کے اس عمل سے نا آشنا تھے؟مزید یہ کہ یہاں تو صرف ایک صحابی کے عمل کی مشہوری کی بات ہو رہی ہے،دوسری طرف چار وہ صحابہ کرام ہیں جنھوں نے اسلام ہم تک پہچایا ہے،پھر آگے ان کے تلامذہ نے بھی اس عمل(تکثیر اللحیہ) میں ان کی پیروی کی ہے،کتب حدیث اور کتب فقہ و سیرت اس بات کی دلیل ہیں کہ ان صحابہ کرام کے شاگردوں نے بھی یہ عمل جاری رکھا،یعنی یہ بھی یک مشت سےزائد ڈاڑھی کٹانے کے قائل و فاعل تھے،اور ایک لاکھ چوبیس ہزار صحابہ میں سے کسی نے بھی ان پر اعتراض نہیں کیا کہ تم سنت کی خلاف ورزی کر رہے ہو،یا ان سے یہ نہیں کہا کہ تم دین میں اضافہ کر رہے ہو۔کیا صحابہ کرام دوران حج و عمرہ مجوس اور مشرکین مشابہت اختیار کرتے تھے،کیا عقل اس بات کو تسلیم کرتی ہے کہ کوئی عبد اللہ بن عمر جیسا متبع سنت صحابی اور دیگر اصحاب رسول مشت سے زائد ڈاڑھی کٹوا کر مجوس اور مشرکین کی مشابہت اختیار کرکے حج وعمرہ کے دوران اللہ تعالی کا قرب حاصل کریں گے۔
کون اس اجماع کو نہ مان کر ویتبع غیر سبیل المؤمنین کا مصداق بنے گا؟

اور بعض لوگوں اس اجماع کو اس روایت سے توڑنے کی کوشش کی ہے:
” رَأَيْتُ خَمْسَةً مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُمُّونَ شَوَارِبَهُمْ وَيُعْفُونَ لِحَاهُمْ وَيَصُرُّونَهَا: أَبَا أُمَامَةَ الْبَاهِلِيَّ، وَالْحَجَّاجَ بْنَ عَامِرٍ الثُّمَالِيَّ، وَالْمِقْدَامَ بْنَ مَعْدِيكَرِبَ، وَعَبْدَ اللهِ بْنَ بُسْرٍ الْمَازِنِيَّ، وَعُتْبَةَ بْنَ عَبْدٍ السُّلَمِيَّ، كَانُوا يَقُمُّونَ مَعَ طَرَفِ الشَّفَةِ ”
’’ میں نے پانچ صحابہ کرام کو دیکھا کہ وہ مونچھوں کو کاٹتے تھے اور داڑھیوں کو چھوڑتے تھے اور ان کو رنگتے تھے ،سیدنا ابو امامہ الباہلی،سیدنا حجاج بن عامر الشمالی،سیدنا معدام بن معدی کرب،سیدنا عبداللہ بن بسر المازنی،سیدنا عتبہ بن عبد السلمی،وہ سب ہونٹ کے کنارے سے مونچھیں کاٹتے تھے۔‘‘
ہائی لائیٹ کردہ الفاظ کا درست ترجمہ یہ ہے:
داڑھی کوبڈھایا کرتے تھے
،حالاں کہ اس روایت سے اجماع نہیں ٹوٹتا،کیوں کہ دوسری روایت اس طرح ہے:
اسی طرح جابر بن عبد اللہ بیان کرتے ہیں:
((كُنَّا نُعْفِي السِّبَالَ إِلَّا فِي حَجٍّ أَوْ عُمْرَةٍ) سنن أبوداود:رقم:4203)
حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم لوگ (صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین ) داڑھی کے بالوں کوبڈھایا کرتے تھے، مگر حج یا عمرہ میں(مشت سے زائد) کٹوایا کرتے تھے۔
قال المباركفوري في (تحفة الأحوذي)(8/38): سنده حسن، وكذلك قال قبله الحافظ في(فتح الباري)(10/350) والحديث سكت عنه المنذري:عون المعبود شرح سنن أبي داود:(4 / 136)
آپ سے ایک سوال ہے:اگر کسی کی داڑی ناف سے نیچے یا گھٹنوں تک یا اس سے بھی نیچے چلی جائے تو کیا اسے کاٹ سکتے ہیں؟جب کہ یہی علمائے کرام اس کو کاٹنے کی اجازت بھی دیتے ہیں تو آپ اس کے بارے میں کیا کہیں گے؟
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
یہ پڑھیں کسی نے یہودی ربی سے یہودیوں کی داڑیوں کے متعلق سوال پوچھا ہے اور سوال کا جواب کیا ملا:
Question:
I have often wondered why many religious Jews have long hairy beards. Is this, like the kipah, a means of identifying oneself as a Jew or do the beards serve some other purpose?
Answer:
There is more to the beard than just identifying as a Jew. According to Kabbalah the beard should not even be trimmed, but should be allowed to grow freely.
http://www.chabad.org/library/article_cdo/aid/160973/jewish/The-Beard.htm
سوال:بسا اوقات میں اس بات پر حیران ہوتا ہوں کئی مذہبی یہودی اتنی لمبی لمبی داڑیاں کیوں رکھتے ہیں،کیا یہ داڑی بھی ان کی مذہبی ٹوپی کی طرح یہودیوں کی پہچان ہے۔
یا اس لمبی داڑی کا کوئی دوسرا مقصد ہے؟
جواب:
داڑی کا مقصد خود کو یہودی شناخت کرانے سے بڑھ کر اور بہت کچھ ہے،کبالا(تورات کا نچوڑ) کے مطابق داڑی میں تراش خراش باکل جائز نہیں ہے،بلکہ داڑی کو مطلق بڈھنے دیا جانا چاہیے۔
کیا ہمیں بھی ان کی طرح داڑی کو چھوڑ دینا چاہیے جیسا کہ یہودیوں کی تصاویر میں دکھایا گیا ہے کہ ان کی داڑیاں پاؤں تک پہنچی ہوئی ہیں،یا ہمیں سلف کے فہم کی پیروی کرتے ہوئے داڑیوں کو سنوارنا چاہیے؟
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
((كُنَّا نُعْفِي السِّبَالَ إِلَّا فِي حَجٍّ أَوْ عُمْرَةٍ) سنن أبوداود:رقم:4203)
حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم لوگ (صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین ) داڑھی کے بالوں کوچھوڑ دیا کرتے تھے، مگر حج یا عمرہ میں(مشت سے زائد) کٹوایا کرتے تھے۔
قال المباركفوري في (تحفة الأحوذي)(8/38): سنده حسن، وكذلك قال قبله الحافظ في(فتح الباري)(10/350) والحديث سكت عنه المنذري:
عون المعبود شرح سنن أبي داود:
(4 / 136)
اس روایت کی سند یوں ہے :
حَدَّثَنَا ابْنُ نُفَيْلٍ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ قَرَأْتُ عَلَى عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي سُلَيْمَانَ وَقَرَأَهُ عَبْدُ الْمَلِكِ عَلَى أَبِي الزُّبَيْرِ وَرَوَاهُ أَبُو الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ
اب اس پر شیخ شعیب ارناؤط کا حاشیہ ملاحظہ کریں :
سنن أبي داود ت الأرنؤوط (6/ 265)
إسناده ضعيف، وفي متنه اضطراب. أبو الزبير -وهو محمد بن مسلم بن تدرُس المكي- مدلس وقد عنعن. ابن نُفيل: هو عبد الله بن محمد بن علي بن نُفيل الحراني أبو جعفر.
وأخرجه الرامهرمزي في "المحدّث الفاصل" ص 433، وابن عدي في "الكامل" 5/ 1940 من طريق أبي جعفر النُّفيلي، بهذا الإسناد.
وأخرجه الخطيب البغدادي في "الكفاية" ص 265 عن أحمد بن عبد الملك الحراني، عن زهير بن معاوية، به لكن بلفظ: ما كنا نُعفي السِّبال إلا في حج أو عُمرة. فعكس المعنى.
وأخرجه ابن أبي شيبة 8/ 567، والبيهقي 5/ 33 من طريق أشعث بن سَوَّار، عن أبي الزبير، عن جابر. ولفظه عند ابن أبي شيبة: كنا نؤمر أن نوفي السّبال ونأخذ من الشوارب، ولفظه عند البيهقى: كنا نؤمر أن نوفر السّبال في الحج والعمرة.
وأخرجه الطبراني في "الأوسط" (8908) من طريق عبد الله بن لهيعة، عن أبي الزبير، عن جابر: أن النبي - صلَّى الله عليه وسلم - نهى عن جَزّ السِّبال. وابن لهيعة سيئ الحفظ.

یعنی ایک تو اس کی سند میں ابو الزبیر کا عنعنہ پایا جاتا ہے ، دوسرا متن میں مخالفت ہے ۔
صاحب تحفہ نے حافظ ابن حجر کی ہی عبارت نقل کی ہے ، لیکن وجوہ ضعف واضح ہیں ، ان کی موجودگی میں روایت کو حسن کہنا محل نظر ہے ۔ اگر ان دونوں علماء کرام یا کسی اور نے ان وجوہ ضعف کی تردید کی ہے تو بیان فرمادیں ۔
کیا اس روایت میں اس عمل کو تمام صحابہ کرام کی جانے منسوب نہیں کیا گیا،یہ سادہ سی آپ بات بھی آپ کو سمجھ نہیں آ رہی ہے،کیا آپ نے اس روایت کو نہیں پڈھا جس میں تابعین سے اس عمل کو اپنے وقت کے تمام لوگوں کی جانب منسوب کیاہے:حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ محمد بن جعفر الهذلي ، عَنْ شُعْبَةَ بن الحجاج بن الورد، عَنْ منصور بن المعتمر بن عبد الله بن ربيعة بن حريث بن مالك بن رفاعة بن الحارث بن بهثة بن سليم ، قَالَ: سَمِعْتُ عَطَاءَ بْنَ أَبِي رَبَاحٍ، قَالَ: «كَانُوا يُحِبُّونَ أَنْ يُعْفُوا اللِّحْيَةَ إِلَّا فِي حَجٍّ أَوْ عُمْرَةٍ» (مصنف ابن ابي شيبة:الرقم: 25482، سنده صحيح )
تابعی جلیل جناب عطا بن ابی رباح(م 114 ه) بیان کرتے ہیں کہ وہ (ہمارے زمانے کے لوگ یعنی صحابہ کرام و تابعین عظام) صرف حج و عمرے کے موقع پر اپنی مشت سے زائدداڑیاں کاٹنا پسند کیا کرتے تھے۔
اس میں آپ کے موقف کی دلیل ہے ہی نہیں ، جو لوگ ایک مشت داڑھی رکھتے ہیں ، ان میں سے کتنے ہیں جو حج اور عمرہ کرنے کے کاٹنے کا فریضہ سرانجام دیتے ہیں ؟
محدث کبیر امام ابن ابی شیبہ بیان کرتے ہیں:
حَدَّثَنَا عَائِذُ بْنُ حَبِيبٍ، عَنْ أَشْعَثَ، عَنِ الْحَسَنِ، قَالَ: «كَانُوا يُرَخِّصُونَ فِيمَا زَادَ عَلَى الْقَبْضَةِ مِنَ اللِّحْيَةِ أَنْ يُؤْخَذَ مِنْهَا»

(مصنف ابن ابي شيبة:الرقم: 25484، سنده حسن )
محدث کبیر امام ابن ابی شیبہ تابع جلیل جناب ابراہیم بن یزید نخعی(متوفی۹۵ھ) سے بیان کرتے ہیں:
''كانوا يأخذون من جوانبها، وينظفونها. يعني: اللحية'' (مصنف ابن ابي شيبة: (8/564) :الرقم

25490
، سنده صحيح )
وہ (ہمارے زمانے کے لوگ یعنی صحابہ کرام و تابعین عظام)داڑی کے اطراف سے(مشت سے زائد) بال لیتے تھے اور اس میں کانٹ چھانٹ کیا کرتے تھے ۔
آپ نے دو طرح کے آثار نقل کیے ہیں ، ایک میں ہے کہ حج و عمرہ کے موقعہ پر ایک مشت سے زائد کاٹتے تھے ، دوسرے میں مطلقا جواز کی بات ہے ، دونوں میں سے کس کو صحیح سمجھتے ہیں ؟ اگر مطلقا صحیح سمجھتے ہیں تو حج وعمرہ والی قید کا کیا جواب ہے ؟
جو دلیل آپ نے پیش کی ہے اس سے بھی میرا موقف ہی ثابت ہوتا ہے نہ کہ آپ کا کیوں کہ اعفاء کا معنی تکثیر ہے جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا،اور تکثیر کو اصحاب رسول ﷺ نے ایک مشت کے ساتھ مقید کیا ہے،
اعفاء کا اصلی معنی تکثیر نہیں ہے محترم ، یہ تاویل ہے سلف میں سے ان لوگوں کے عمل کی جو داڑھی کاٹتے تھے ، تو اعفاء کا معنی تکثیر کرکے ان کے لیے عذر تلاش کیا گیا ہے ۔
حقیقت اور تاویل میں فرق ہوتا ہے ۔ آپ تاویلی معنی لیکر اس کو اصل بنار ہے ہیں ۔
اللہ تعالی قرآن مجید میں فرماتے ہیں : ثم عفونا عنکم من بعد ذلک لعلکم تشکرون
یہاں آپ والا معنی کیسے مراد لیا جائے گا ؟
قرآنی دعا واعف عنا کا کیا معنی کریں گے ؟
اعفاء سے مراد تکثیر اور پھر تکثیر سے مراد ایک مشت ، حالانکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے صرف اعفاء ثابت ہے ، اگلی دونوں قیدیں بعد والوں کا اضافہ ہے ۔
یہ تمام صحابہ کرام کا عمل ہے اور اس پر کسی کی کوئی نکیر نہیں ہے،یہ سادی سی بات آپ کے من میں کیوں نہیں اترتی؟
اثبت العرش ثم انقش
آپ کا دعوی ہے کہ ڈاڑھی کتنی بھی لمبی ہوجائے اس کو چھیڑنا نہیں چاہیے،اس دعوے کے لیے آپ کے پاس کوئی ایسی صریح روایت ہونی چاہیے کہ جس میں کسی صحابی کا یہ قول ہو کہ ایک مشت سے زائد ڈاڑھی کاٹنا حرام ہے۔اب تک آپ نے کسی صحابی سے کوئی بھی ایسا قول ذکر نہیں کیا جس سے میں یہ صراحت ہو کہ ایک مشت سے زائد کاٹنا ممنوع ہے۔
کیونکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ہے ۔ اور یہی دلیل کافی ہے ، اگر ہم صحابہ کے کسی قول کو چھوڑ رہے ہیں تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مقابلے میں چھوڑ رہے ہیں ، اور ان صحابہ کے مقابلے میں چھوڑ رہے ہیں ، جن سے مطلقا اعفاء پر عمل کرنا منقول ہے ۔
میرا مقصد یہ ہے کہ کوئی ایسی حدیث پیش کریں کہ جس میں یہ وضاحت موجود ہو کہ رسول اللہ نے کبھی اپنی ڈاڑھی کو چھیڑا ہی نہیں۔ پھر میں یہ ثابت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی ڈاڑھی بڑی نہیں تھی اب آپ یہ ثابت کریں کہ آپ کی ڈاڑھی مبارک اتنی لمبی تھی کہ اسے کاٹنے کی ضرورت پیش آتی۔
مان لیں ، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی داڑھی بڑھی نہیں ، کیا ایک لاکھ صحابہ کرام میں سے بھی کسی نہیں بڑھی تھی ؟ کیا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کو کہا تھا کہ ایک قبضہ سے زائد کاٹ لیا کرو ؟!
آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ اللہ کے رسول سے منع بھی تو نہیں کیا ؟
کیا وجہ ہے کہ آپ کو یہ معنی نظر کیوں نہیں آ رہا ہے:
لسان العرب: (عفا القوم كثروا، وفي التنزيل: {حتى عفوا} أي كثروا، وعفا النبت والشعر وغيره يعفو فهو عاف: كثُر وطال، وفي الحديث: أنه - صلى الله عليه وسلم - أمر بإعفاء اللحى، هو أن يوفَّر شعرها ويُكَثَّر، ولا يقص كالشوارب، من عفا الشيء إذا كثر وزاد
(لسان العرب:75/15)

ابن دقیق العید نے اعفاء کے معنی تکثیر لکھے ہیں:
تَفْسِيرُ الْإِعْفَاءِ بِالتَّكْثِيرِ
(فتح الباری:351/10)

وقال القرطبي في (المفهم) (1/512) قال أبو عبيد: (يقال عفا الشيء إذا كثر وزاد)
شارح بخاری امام ابن بطال نے بھی اعفاء اللحیۃ کے معنی تکثیر اللحیۃ کیے ہیں۔
(شرح ابن بطال:146/9)
شارح بخاری حافظ ابن حجر توفیر کےمعنی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

(وَفِّرُوا فَهُوَ بِتَشْدِيدِ الْفَاءِ مِنَ التَّوْفِيرِ وَهُوَ الْإِبْقَاءُ أَيِ اتْرُكُوهَا وَافِرَةً)
(فتح الباری:350/10)

توفیر کا معنی باقی رکھنا ہے،یعنی داڑی کو وافر مقدار میں باقی رکھو۔
شارح مشکوۃشرف الدین طیبی( یک مشت سے زائد داڑی کو کاٹنے کے قائل) نے اعفاء کے معنی یوں بیان کے ہیں:

(فالمراد بالإعفاء التوفير منه ، كما في الرواية الأخرى (وفروا اللحى)

(الكاشف عن حقائق السنن2930/9:)
''یہاں اعفاء کے معنی توفیر یعنی کثرت کے ہیں،جیسا کہ دوسری روایت (وفروااللِحا) میں یہ وضاحت موجود ہے۔''

حافظ ابن حجر نے تو یہاں تک لکھ دیا ہے:
(وَذَهَبَ الْأَكْثَرُ إِلَى أَنَّهُ بِمَعْنَى وَفِّرُوا أَوْ كَثِّرُوا وَهُوَ الصَّوَابُ)

اکثر علماء کا یہ موقف ہے کہ یہاں اعفاء کے معنی توفیر یا تکثیر کے ہیں اور یہی بات درست ہے۔''
اتنے حوالے ہونے کے باوجود بھی آپ اس کے معنی معاف کرنا لیں تو یہ آپ کی مرضی ہے۔
مجھے یہ بتائیں ’ اعفاء ‘ اور ’ تکثیر ‘ میں کوئی تضاد ہے ، جو بندہ داڑھی کو اس کی حالت پر چھوڑتا ہے ، کیا اس کی داڑھی زیادہ نہیں ہوتی ، یا اس کے حال پر چھوڑنے سے داڑھی کم ہوجاتی ہے ؟
ان معانی میں تضاد ہے،کیا بڑھانے اور معاف کرنے میں کوئی اختلاف نہیں ہے؟َ
نہیں ۔
یہ آپ کی رائے ہے لاکھوں میں کسی ایک کے ساتھ یہ مسئلہ ہے،ہمارے ہاں تو ایسی بہت سے لوگ جن کی ڈاڑھیاں حد سے زیادہ بڑھی ہوئی ہیں، ان میں سے بعض تو یہ ہیں
ان میں سے کتنے لوگ ہیں ، جن سے آپ کی ملاقات ہوئی ہے ؟ یا جن کی تصویریں آپ نے خود لی ہیں ، یا آپ کے کسی جاننے والے نے لی ہیں ؟
کیا اس استثنا کی آپ کے پاس کوئی ایسی دلیل ہے کہ جس میں یہ وضاحت موجود ہو کہ جس کی داڑی زیادہ لمبی ہوجائے وہ واعفوا اللحا پر عمل نہیں کرے گا،آپ کا دعوی تو یہی ہے کہ داڑی چاہے زمین سے ٹکرائے بس اس کو بڑھاتے جاؤ،کاٹنا نہیں ہے،چاہے سکھوں جیسی ہوجائے یا یہودیوں جیسا چہرہ ہوجائے۔
اصل حکم پر پہلے بات کریں ، استثنائی صورت پر بعد میں بات کرلیں گے ۔
دوسری بات : جب ہماری دلیل سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے تو پھر اختلاف اپنی جگہ لیکن اسے یہودیوں سکھوں کے ساتھ تشبیہ دینا درست نہیں ۔ امید ہے آئندہ آپ گریز کریں گے ۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
کیوں ان تصاویر کو دلیل کیوں نہیں بنا سکتے ہو
یہ تصاویر صرف غیر مسلموں کی نہیں ہیں بلکہ مسلمانوں کی بھی ہیں،میں نے یہ ثابت کیا ہے کہ ڈاڑھی اتنی لمبی بھی ہوتی ہے،مسلمانوں کی اکثریت صرف ایک مشت کی قائل ہے اس لیے وہ اپنی داڑھی کٹوا دیتے ہیں اگر مسلمان اپنی ڈاڑھیاں نہ کٹوائیں تو وہ بہت لمبی ہو سکتی ہیں
اگر آپ کو یہودیوں کی ایک مشت داڑھی والی تصویریں کوئی دکھا دے تو آپ ایک مشت کا بھی صفایا کردیں گے ؟
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,806
پوائنٹ
773
ایک بھائی نے اس دھاگے میں مجھے ٹیگ کیا ہے اور ذاتی میسج میں یہاں کا لنک بھی باربار دے رہے شاید میرا موقف جاننا چاہتے ۔
بھائی اس سلسلے مجھے راجح یہی لگتا ہے داڑھی کو اس کے حال پر چھوڑ دینا چاہئے ۔
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
یعنی ایک تو اس کی سند میں ابو الزبیر کا عنعنہ پایا جاتا ہے ، دوسرا متن میں مخالفت ہے ۔
صاحب تحفہ نے حافظ ابن حجر کی ہی عبارت نقل کی ہے ، لیکن وجوہ ضعف واضح ہیں ، ان کی موجودگی میں روایت کو حسن کہنا محل نظر ہے ۔ اگر ان دونوں علماء کرام یا کسی اور نے ان وجوہ ضعف کی تردید کی ہے تو بیان فرمادیں ۔
عالی جناب گزارش یہ ہے کہ دیگر صحابہ کا عمل اس روایت کی صحت پر دال ہے جیسا کہ پہلے بھی اس کا ذکر کیا گیا ہے،آپ کی تسلی کے لیے دوبارہ ذکر کیے دیتا ہوں:
عن ابن عباس أنه قال:(التفث الحلق والتقصير والرمي والذبح والأخذ من الشارب واللحية ونتف الإبط وقص الإظفار)
(معانی القرآن للنحاس: 4/400)(سنده صحیح)
(( وكان ابن عمر إذا حج أو اعتمر قبض على لحيته فما فضل أخذها )) (صحیح البخاری:رقم الحدیث: 5892)

عن أبي زرعة: ((كَانَ أَبُو هُرَيْرَةَ يَقْبِضُ عَلَى لِحْيَتِهِ، ثُمَّ يَأْخُذُ مَا فَضَلَ عَنِ الْقُبْضَةِ))
سیدنا ابو ہریرہ اپنی داڑی کو مٹھی میں لیتے پھر مٹھی سے زاید داڑی کو پکڑ کاٹ دیتے تھے۔
أخرجه ابن أبي شيبة(5/225)(رقم:25481) بسند صحيح.
اس كے ساتھ ساتھ بعض تابعين نے صحابہ کا یہ عمل صحیح سند سے بیان کیا جو درج ذیل ہے:
عَطَاءَ بْنَ أَبِي رَبَاحٍ، قَالَ: «كَانُوا يُحِبُّونَ أَنْ يُعْفُوا اللِّحْيَةَ إِلَّا فِي حَجٍّ أَوْ عُمْرَةٍ» (مصنف ابن ابي شيبة:الرقم: 25482، سنده صحيح )
حَدَّثَنَا عَائِذُ بْنُ حَبِيبٍ، عَنْ أَشْعَثَ، عَنِ الْحَسَنِ، قَالَ: «كَانُوا يُرَخِّصُونَ فِيمَا زَادَ عَلَى الْقَبْضَةِ مِنَ اللِّحْيَةِ أَنْ يُؤْخَذَ مِنْهَا»
(مصنف ابن ابي شيبة:الرقم: 25484، سنده حسن )
محدث کبیر امام ابن ابی شیبہ تابع جلیل جناب ابراہیم بن یزید نخعی(متوفی۹۵ھ) سے بیان کرتے ہیں:
''كانوا يأخذون من جوانبها، وينظفونها. يعني: اللحية'' (مصنف ابن ابي شيبة: (8/564) :الرقم 25490 ، سنده صحيح )

وہ (ہمارے زمانے کے لوگ یعنی صحابہ کرام و تابعین عظام)داڑی کے اطراف سے(مشت سے زائد) بال لیتے تھے اور اس میں کانٹ چھانٹ کیا کرتے تھے۔
اس حدیث کی سند پر ابو زبیر کی تدلیس کا اعتراض ہے،لیکن ہم دیگر صحابہ کرام عبد اللہ بن عمر،عبد اللہ بن عباس،سیدنا ابو ہریرہ اور تابعین وغیرہم کے عمل کو اس حدیث کی سند کے لیے شاہد بنا سکتے ہیں۔سیدنا جابر کا بولا گیا لفظ ''کنا'' میں یہ تمام صحابہ اور تابعین معنوی طور پر آجاتے ہیں۔
اس لیے اس حدیث کی صحت کے لیے صرف اتنا ہی کافی ہے کہ بڑے بڑے اجل محدث اور سب سے بڑھ کر متبع سنت صحابہ کرام(ابن عمر،ابن عباس،ابو ہریرہ،عبد اللہ بن جابر) اور تابعین عظام جن کی علمی اور فقہی قدر و منزلت مسلم ہےاوروہ مشہور فقہی مدارس کے شیوخ الحدیث تھے،وہ یک مشت ڈاڑھی سے زائد ڈاڑھی کے کٹانے کو جائز سمجھتے تھے۔
خضر حیات post: 266666member: 202 نے کہا ہے:
صاحب تحفہ نے حافظ ابن حجر کی ہی عبارت نقل کی ہے
اگر صاحب تحفہ ابن حجر سے متفق ہیں تو انھوں نے ان کی عبارت نقل کیا ہے ،اگر کوئی اعتراض ہوتا تو وہ اس کو ضرور ذکر کرتے۔ بہرحال ابن حجر کا اس حدیث کی سند کو حسن کہنا سو فی صد درست ہے،فضیلۃ الشیخ دبیان محمد الدبیان نے بھی اس کی سند کو دوبار حسن قرار دیا ہے:

ويكون ما ثبت عن ابن عباس، وابن عمر، وجابر شاهدًا له؟ذكر ذلك عنهم جابر بن عبدالله بسند حسن، وسيأتي تخريجه، والكلام عليه.

اسی طرح فضیلۃ الشیخ مختار الاخضر طیباوی نے یہ کہہ کر اس حدیث کی سند کو حسن قرار دیا ہے:
أخرجه أبو داود(4/136)(رقم:4203)بإسناد حسن. ويشهد لصحته الأحاديث الصحيحة عن ابن عمر و أبي هريرة.
http://www.kulalsalafiyeen.com/vb/showthread.php?t=29172
بہر حال آپ اس کو مانے گے نہیں۔
 
Top