یہ لشکر طیبہ نہیں لشکر خبیثہ ہے جبھی تو خبیثوں کے ساتھ بیٹھی ہے
ہم اس جماعت کے بارے میں آپ کو ایک مفصل رپورٹ پیش کرتے ہیں جو کہ انٹرنیٹ سے ہی حاصل کی گئی ہے :
تاریخ گواہ ہے کہ لشکر طیبہ ابتداء سے ولا وبرأ کے عقیدے سے مستثنیٰ ہو کر ہمیشہ کسی خفیہ ہاتھوں ہی استعمال ہوتی رہی۔ اس حوالے سے ہم پہلے یہاں اس تنظیم کے اوائل میں ان پر مسلک اہلحدیث سے تعلق رکھنے والے افراد کی کتابوں سے شروع کرتے ہیں۔ آپ کے سامنے ایک کتاب ''جمہوریت دین ابلیس'' مصنف ڈاکٹر سید شفیق الرحمن مکتبہ دار التوحید و السنہ رانا ٹاؤن ملتان روڈ لاہور سے جو کہ حافظ سعید صاحب کے بھائی حامد محمود صاحب نے خصوصی طور پر چھپوائی اس سے ابتداء کرتے ہیں۔ اندازہ لگائیں کہ حامد محمود صاحب کی سوچ اور فکر سے جناب حافظ سعید امیر لشکر طیبہ کا ابتداء ہی سے اختلاف چلا آ رہا ہے۔ یہ قدرتِ الٰہی کا ایک نمونہ ہے۔ اگر کہیں لوگ لشکر طیبہ' حافظ سعید اور جماعۃ الدعوۃ کے غلط نظریات پر ان کی بھلائی کی خاطر اصلاح کے لیے کچھ لکھ ڈالے تو یہ نمونہ کارآمد ہے تاکہ لشکر طیبہ (جماعۃ الدعوۃ) والے اپنے کارکنوں کو اگر اپنے خلاف لکھنے والوں کو بے جا تنقید اور من گھڑت واقعات بتا کر رد نہ کریں۔ اللہ رب العزت بڑی شان والا ہے۔ ''فرعون کے گھر موسیٰ'' والی سچی آیت اس پر بالکل پوری اُترتی ہے۔
اس کے علاوہ ایک کتاب اہلحدیث مسلک سے تعلق رکھنے والے مولانا طالب الرحمن صاحب نے ''بارود'' کے نام سے لکھی جس میں لشکر طیبہ کی اندر کی بدعنوانیاں بیان کیں۔ یہ کتاب اسلام آباد سے چھپی اور چھپنے کے فوراً بعد مارکیٹ سے غائب ہوگئی کیونکہ جماعۃ الدعوۃ کی یہ خصلت ہے جو ان کے خلاف لکھتا ہے یا پبلشرز جو اِن کے خلاف کتابیں چھاپتے ہیں ان کو قتل اور سنگین نتائج کی دھمکیاں عام ملتی رہتی ہیں۔ کچھ عرصے قبل ایک کتاب ''گوانتانامو کی ٹوٹی زنجیریں'' چھپ کر منظرعام پر آئی جو کہ اہلحدیث کے حلقے میں کافی مشہور ہوئی۔ اس کے مصنفین دو بھائی عبدالرحیم مسلم دوست اور بدرالزمان بدر' جماعۃ الدعوۃ سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کی کتاب کا حوالہ آگے آئے گا۔ اس کتاب کے الخلافہ پبلشرز کے حوالے سے روزنامہ اسلام میں ایک خبر بھی چھپ کر منظرعام پر آئی۔ بہرحال یہ کتاب اب بالکل ناپید ہو گئی اور پاکستان بھر میں کہیں بھی دستیاب نہیں۔
اس کے علاوہ جمعیت اہلحدیث کے جناب ساجد میر صاحب کے گروپ سے تعلق رکھنے والے جناب شفیق پسروری صاحب نے بھی اپنی کتاب اسلام اور جمہوریت میں جماعۃ الدعوۃ پر خوب تنقید کی لیکن یہ کتاب مارکیٹ سے اور جمعیت مرکز واقع بتی چوک راوی روڈ سے دستیاب ہے۔ جماعۃ الدعوۃ اور جمعیت اہلحدیث کی آج کل خوب اَن بن ہے۔ جمعیت والے اکثر ان کے خلاف بغیر کسی نام کے پمفلٹ اور کتابچے چھاپ کر مفت تقسیم کرتے ہیں۔ اکتوبر 2009ء کے شروع میں پروفیسر ساجد میر صاحب کا بیان جو کہ تمام اخبارات میں چھپ کر منظرعام پر آیا کہ''جماعۃ الدعوۃ نے جمعیت اہلحدیث کی (سات) 7 مساجد پر قبضہ کرلیا ہے۔'' جبکہ جماعۃ الدعوۃ کے عام کارکن کو مرکز القادسیہ میں جمعہ کے روز یہ کہہ کر راضی کیا کہ ساجد میر صاحب اس بیان کے اگلے روز خود مرکز القادسیہ چوبرجی چوک جا پہنچے اور حافظ سعید صاحب سے اس اخباری بیان کی معذرت کرلی۔ یہ جماعۃ الدعوۃ کے اندر کارکنوں کے متعلق بیان تھا جبکہ جماعۃ الدعوۃ کے ترجمان یحییٰ مجاہد کا میڈیا پر اس واقع پر جو وضاحتی بیان آیا۔ اس کا خلاصہ یہ تھا کہ ''جماعۃ الدعوۃ'' کے زیر اہتمام آنے والی مساجد خود محلے اور مسجد کی انتظامیہ کے ارکان کی طرف سے ہے وہاں کی انتظامیہ نے جمعیت اہلحدیث کو مسجدوں کے انتظام وانصرام سے غفلت برتنے پر جماعۃ الدعوۃ کے ہاتھ ان کا کنٹرول دیا کیونکہ جمعیت والے مسجدوں کے انتظام وانصرام پر ہونے والے اخراجات برداشت نہیں کر رہے تھے۔'' جماعۃ الدعوۃ کے اس بیان کے بعد جمعیت اہلحدیث کی طرف سے غلط بیانی منسوب کرنے کا یہ سلسلہ جاری ہے۔ دونوں فریق واضح طور پر کسی نقطے پر جمع نہ ہو سکے۔
علاوہ ازیں افغانستان میں چار سال قید وبند گزار کر آنے والے ایک مجاہد منصور نے ایک کتاب لکھی ''شمالی اتحاد کی قید میں'' اس میں بھی لشکر طیبہ کے پُرانے کرتوت اس طرح بیان ہوئے۔ ملاحظہ ہو۔
لشکر طیبہ کے مجاہدین طالبان کے خلاف بر سر پیکار:
پاکستانی لشکر طیبہ موجودہ نام جماعۃ الدعوۃ نے افغانستان میں باقاعدہ طور پر طالبان کی آمد سے قبل کام کیا ان کا کنٹر میں معسکر تھا جہاں اپنے مجاہدین کو تربیت دیتے تھے۔ جب طالبان نے جلال آباد کا کنٹرول سنبھالا تو ان کی چھٹی کرا دی۔ کیونکہ ان کے بارے میں طالبان کو شکوک و شہبات تھے کہ یہ لوگ ایجنسیوں کے ہیں اور انہی کے حکم کو بجا لاتے ہیں چاہے سامنے اپنے اسلامی بھائی ہی کیوں نہ ہوں۔
جماعۃ الدعوۃ کا تعلق افغانستان میں کمانڈر عبدالرسول سیاف کے علاوہ چار دیگر شخصیات کے ساتھ بھی ہے جنہوں نے اپنے مفادات کے تحفظ کی خاطر بے شمار مجاہدین کو شہید کروا دیا ان فاسد وفاسق شخصیات میں کمانڈر سمیع اللہ، کمانڈر روح اللہ، کمانڈر حیات اللہ اور کمانڈر ولی اللہ ہیں۔ جو افغان جہاد میں عربوں کے ساتھ مل کر کام کرنے والوں میں سر فہرست ہیں انہوں نے عرب مجاہدین اور تاجروں کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ کر اپنے محل بنائے۔ جہاد کے پیسے سے گاڑیاں خریدی گئیں۔
اگست2001 ء میں جب میں بگرام محاذ پر تھا وہاں ایک دن طالبان کمانڈرمولوی رحمت اللہ صاحب محاذ کی صورت حال دیکھنے کے لیے آئے تمام تنظیموں کے مورچوں پر گئے دشمن کی طرف سے نئے بنائے گئے مورچے دیکھتے ہوئے کہا ان لوگوں کو (شمالی اتحاد) اگر ہمارے بھائیوں کی مدد حاصل نہ تو ہم کب کے ان کا صفایا کر چکے ہوتے۔ انہوں نے بتایا کچھ دن پہلے میں تخار کے محاذ پر تھا رات کو دشمن کی طرف سے مارٹر چلے جواب میں ہم نے مارٹر، بی ایم کے گولے برسائے آہستہ آہستہ صورت حال تعارض کی طرف بڑھنے لگے ہم نے پیچھے سے کمک بلائی اور تعارض(حملہ) کر دیا یہ تعارض چھ گھنٹے جاری آخر دشمن کو منہ کی کھانی پڑی۔ اس تعارض میں ہم نے دشمن کے دس بندوں کو زندہ گرفتار کر لیا۔ ان گرفتار شدگان جب مرکز لے جا کر تفتیش کی تو معلوم ہوا کہ یہ پاکستانی جہادی تنظیم جماعۃ الدعوۃ کے ہیں۔
کمانڈر رحمت اللہ صاحب نے کہا طالبان کو پہلے ہی اس تنظیم پر شک تھا ان کا تعلق شمالی اتحاد سے ضرور ہے یہ تنظیم شمالی اتحاد کو ہر قسم کا تعاون دیتی ہے۔ اس لیے ان کو افغانستان میں داخل نہیں ہونے دیتے تھے اور اب یہ لوگ سیاف کی معرفت شمالی اتحاد میں شامل ہوتے ہیں۔
جماعۃ الدعوۃ آئی ایس آئی کے اشاروں پر ناچتی ہے آئی ایس آئی جو ہدف دے گی اس پر جماعت کام کرے گی چاہئے وہ ہدف کشمیر میں یا افغانستان میں طالبان کی صورت میں۔ افغانستان میں طالبان کی بڑھتی ہوئی مقبولیت پاکستانی آئی ایس آئی کے لیے تشویش کا باعث تھی اس لیے انہوں نے شمالی اتحاد کے ساتھ مل کرطالبان کے خلاف لڑایا۔ جماعۃ الدعوۃ اصل میں آئی ایس آئی ہی کی تنظیم ہے جو اپنے مفادات کی خاطر اپنے مسلمان بھائیوں کو قتل کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتی۔
امریکہ نے طالبان پر بمباری تو پاکستانی جماعۃ الدعوۃ نے طالبان کے نام پر بے شمار پیسہ اور امدادی سامان اکٹھا کیا۔ جن کی صرف تصویریں مجلہ میں چھپی مگر مظلوم طالبان کو ایک چادر تک نہ ملی۔ پورے افغانستان میں اس جماعت نے کسی کو کوئی چیز نہ دی سارے کا سارا مال خود ہی ہڑپ کر گئے۔
گوانتا نامو کی ٹوٹی زنجیریں کتاب کا حوالہ پیش نظر ہے۔
قیدی ہمیشہ پورے خلوص کے ساتھ دعائیں مانگتے اور نماز میں قنوت نازلہ پڑھتے۔تمام کفار،مشرکین اور عرب وعجم کے منافقین، جاسوسی اداروں، جاسوسوں اور ان لوگوں کو بددعائیں دیتے جو مسلمانوں سے خیانت کے مرتکب ہوئے اور بے گناہ لوگوں کوامریکہ کے ہاتھوں فروخت کیا۔ بالخصوص پرویز مشرف اور ان کی اسلام نماتنظیموں اور مجاہدنما کٹھ پتلی تنظیموں اور اشخاص کو بددعائیں دیتے جن میں اکثر بددعائیں جلد قبول ہوئیں۔ اور باقی کی قبولیت کا بھی ہمیں مکمل یقین ہے۔ قیدی امریکیوں اور ان کی کٹھ پتلیوں اور اتحادیوں کو بددعائیں دیتے۔ بش، مشرف، کرزئی، سیاف، ربانی اور ان کے اتحادی ، افغانی وپاکستانی جماعۃ الدعوۃ اور ان کے بعض اشخاص مثلاً، پاکستانی جماعت الدعوۃ کے حافظ سعید، ذکی الرحمن لکھوی،جبران، ابوسعید اور بعض دوسروں کو اور اسی طرح افغانستان میں شمالی اتحاد کی جماعت الدعوۃ، سمیع اللہ، روح اللہ ، حیات اللہ،ولی اللہ ، حاجی عبدالقدیر، حضرت علی اور دیگربہت سے منافقین اور مرتدین کو بد دعائیں دی جاتیں جن میں سے کئی تو فوری قبول ہوئیں۔ وہ کہتے : '' اللہم علیک بجیش ملحدین'' ہم کہتے امین ''اللہم اخسف بہم الارض'' ہم کہتے امین۔
اللہ تعالی نے وہ بد دعائیں قبول کیں اور پاکستان میں ایسا زلزلہ آیا کہ کشمیر میں بڑے بڑے کیمپ زمین میں دھنس گئے اور ان پر خسف آیا اور وہ زمین میں جذب ہوئے۔تاہم پاکستان کے اطلاعاتی ذرائع حکومت کے کنٹرول میں ہے اور شرم کے مارے مسلمانوں کے خلاف جنگ میں اور دوسرے خسارے کے حقائق چھپاتے ہیں۔تاہم حکام کی قباحتوں کی سزا عام لوگوں کو بھی بھگتنا پڑی جن کو ہم شہید سمجھتے ہیں۔شاید بے گناہ عوام ان حکام کے خلاف نہ اُٹھنے پر سزاوار ٹھہرے۔ لشکرِ طیبہ کے افراد تو ایک طرف امریکیوں سے دشمنی کی باتیں کر رہے ہیں مگر دوسری طرف کشمیر میں زلزلہ زدگان کی امداد کے لئے امریکیوں کے پہلو بہ پہلو امدادی کیمپ لگا کر ان کے خیر خواہ بننے کا ثبوت دیا اور جب ممبئی بم حملوں کے بعد سلامتی کونسل کی طرف سے جماعۃ الدعوۃ پر پابندی لگا کر اس کے تمام دفاتر کو سیل کرنے اور ان کے لیڈران کو گرفتار کرنے پر ان کے کارکنوں نے نہ کوئی مزاحمت کی بلکہ الٹا امریکا کی منت و سماجت سے جماعۃ الدعوۃ کو بحال کرانے کی کوشش میں مصروف رہیں.لیکن اپنی منافقت کی وجہ سے نہ امریکا ان پر راضی ہوا اور نہ مسلمانوں میں مقبولیت بحال ہوئی۔ لشکرِ طیبہ جس طاغوت کی کٹھ پتلی تھے اور جس بت کی وہ پرستش کرتے تھے اللہ تعالیٰ نے انہی بے دینوں کے ہاتھوں ذلیل و خوار کیا اور یہی اسلام نما تنظیمیں لال مسجد ' سوات اور قبائلی علاقوں پر بمباری نہ صرف تماشائی بن گئے بلکہ اُلٹا اُن کو تنقید کا نشانہ بنانے لگے۔جناب ایڈیٹر صاحب ''ہفت روزہ غزوہ''امیر حمزہ نے لال مسجد کے شہداء کو خراج تحسین پیش کرنے کی بجائے ان کو ۵۵ دلائل سے ناحق ثابت کرنے کی کوشش کی۔
افغانی جماعۃ الدعوۃ نے سینکڑوں عرب او دیگر بے گناہ افراد امریکیوں پر فروخت کئے اور پاکستانی جماعۃالدعوۃ نے ابوزبیدہ، یاسر الجزائری اور دیگر عرب اپنے ساتھ رکھے ہوئے تھے اور پھر انھیں امریکیوں پر فروخت کردیا۔ لشکر طیبہ جسے اب جماعۃ الدعوۃ پاکستان کہاجاتاہے کے بعض افراد جو ان کی خیانتوں کی جہ وسے ان سے الگ ہوئے، نے ہمیں بتایا کہ ابو زبیدہ کے پاس ایک ارب اٹھارہ کروڑ روپے تھے جو اس نے لشکر طیبہ( جماعۃ الدعوۃ) کے پاس امانت رکھے تھے، لشکر طیبہ نے یہ رقم بھی ھضم کرلی اور امریکہ وپاکستانی انٹیلی جنس ادارے اداروں اور مشرف حکومت سے بھی ان کے عوض بڑی مقدار میں روپے وصول کئے اور یوں بڑی خیانت کے مرتکب ہوئے۔۔۔۔ لشکرطیبہ ہمیشہ حکومت کے مفادات کے لئے کام کررہی ہے اور اپنے مکارا نہ اعمال چھپانے کے لئے اسلام کا لبادہ اوڑھا ہواہے۔ پاکستان اور افغانستان کی جماعت الدعوۃ ہمیشہ حکومت کے اشاروں پران کے لئے کام کر رہی ہے اور سمجھتے ہیں کہ وہ اللہ تعالی کو بھی دھوکہ دے سکیں گے اور اسلامی امت اور امریکہ کو بھی دھوکہ دے رہے ہیں۔ بعض عربوں کو بڑی رقوم کے بدلے میں غائب کرادیا اور بعض کوڈالروں کے عوض امریکیوں کے حوالے کردیا۔
مثال کے طورپر کچھ رپورٹیں جو کہ اخبارات میں چھپ چکی ہیں۔ ملاحظہ کیجئے اور خود اندازہ لگائیں کہ سچ اور جھوٹ کیا ہے؟ 29 مارچ 2002ء کے نوائے وقت سمیت تمام قومی اخبارات میں یہ خبر نمایاں کر کے لگائی گئی کہ ''لاہور اور فیصل آباد میں القاعدہ کے خلاف پاک امریکا آپریشن''یہ آپریشن فیصل آباد میں 28مارچ کو ہوا تھا جبکہ 31مارچ2002ء کے نوائے وقت میں ہی دو نمایاں خبریں موجود ہیں جن میں بڑی خبر ''لشکر طیبہ کے امیر پروفیسر حافظ سعید کو رہا کر دیا گیا'' مزید اس خبر سے تھوڑا سا نیچے آئیں تو ایک انکشاف انگیز خبر جو کہ ''نیویارک ٹائمز'' اور ''واشنگٹن پوسٹ'' کے حوالے سے لگی ہے''فیصل آباد آپریشن میں 20امریکی فوج شامل تھے القاعدہ کے کئی افراد کو لشکر طیبہ کے سینئر کارکن 'حمید نیازی' کے گھر سے گرفتار کیا گیا۔ حمید نیازی کو پاکستانی حکام نے پہلے گرفتار نہیں کیا تھا۔''
قارئین ان شواہد کو آپ درج بالا تاریخوں کے پرانے اخبارات میں دیکھ سکتے ہیں لیکن اس واقعے میں حیرت کی بات یہ ہے کہ کالعدم لشکر طیبہ اور موجودہ جماعۃ الدعوۃ کے امیر حافظ سعید کو القاعدہ کے ابوزبیدہ ' یاسر الجزائری اور دیگر عرب مجاہدین کی امریکیوں کو حوالہ کرنے کے دو دن بعد رہا کر دیا گیا جو کہ جماعۃ الدعوۃ اور حکومت کے تعلقات کی ایک واضح دلیل ہے۔ یوں بھی پورے پاکستان میں سوائے جماعۃ الدعوۃ کے کسی جہادی تنظیم کے مرکز اور دفاتر کھلے عام نہیں۔ لیکن جماعۃ الدعوۃ کے دفاتر نہ سیل کئے جاتے ہیں اور نہ ہی ان کی کھالوں کے کیمپ اور فنڈ کے کیمپ پر پابندی ہے۔
(بحوالہ: گونتانامو کی ٹوٹی زنجیریں، صفحہ نمبر 158 مصنف، عبدالرحیم مسلم دوست، قلم دوست پبلشرز، اردو بازار لاہور)
مجاہدین کو امریکہ کے حوالے کرنے کے متعلق ایک ثبوت کو سابق سفیر امارت اسلامیہ افغانستان ملا عبدالسلام ضعیف (حفظہ اللہ) اپنی کتاب جرم ضعیفی میں ان الفاظ میں تحریر کیا ہے۔۔۔
اغسان جو عرب تھا اس نے مجھے بتایا کہ میں اپنے چند ساتھیوں سمیت لاہور کے ایک ہوٹل میں کرائے کے عوض کمرہ لے کر اس انتظار میں بیٹھا تھا کہ کسی طریقے سے پاکستان سے باہر نکل سکوں ۔ پاکستان سے باہر جانا آسان تھا مگر اس کے لیے رقم کی ضرورت تھی جو میرے پاس نہیں تھی۔ باہر بھجوانے کا کام پاکستانی اہلکار باقاعدہ مک مکا کر کے کرتے تھے جب سودا طے نہ ہوا تو انہی اہلکاروں نے چھاپہ مار کر گرفتار کر لیا۔
انہوں نے جب چھاپہ مارا تو ہمارے پاس سبزی کاٹنے والی چھریاں تھیں جبکہ ان کے پاس بھاری اسلحہ تھا اس کے باوجود ہم نے خوب مزاحمت کی ہماری مزاحمت دیکھ کر اہلکاروں نے کہا کہ ہم آپ کی مدد کر رہے ہیں ہم نے کہا آپ کے ساتھ امریکی ہیں اور ہم خود کو امریکہ کے حوالے نہیں کریں گے۔ اہلکاروں نے کہا کہ آپ کو امریکہ کے حوالے نہیں کیا جائے گا بلکہ ہم پوچھ گچھ کرنے کے لیے گرفتار کیا جارہا ہے ہم نے خدا اور رسولﷺ کے واسطے دئیے اور کہا کہ ہم مسلمان ہیں اور عرب مجاہدین ہیں مگر وہ نہ مانے، محاصرہ کر کے جب انہوں نے ہمیں گرفتار کر لیا تو با اثر دکھائی دینے والے چند افراد آئے اور قسم اٹھا کر کہا کہ ہم لشکر طیبہ کے لوگ ہیں اور آپ کے ساتھی ہیں آپ مزاحمت نہ کریں۔ ان پاکستانی اہلکاروں نے پہلے ہمیں لوٹا اور امریکی فوجیوں کو لایا گیا کہ آئیں دیکھیں ہم کس طرح آپ کے لیے مخلصانہ کوشش کر رہے ہیں۔
(بحوالہ: کتاب، جرم ضعیفی، منصف، ملا عبدالسلام ضعیف، مترجم، عبدالرحمان اخونزادہ، فاروقی کتب خانہ، سردار پلازہ اکوڑہ خٹک)
مارکیٹ میں نومبر 2009ء مصنف مومن خان عثمانی آف اُگی مانسہرہ جو کہ جمعیت علمائے اسلام(ف) سے تعلق رکھتے ہیں۔ موصوفنے بھی اپنی کتاب ''تاریخ کالا پانی سے گوانتانامو تک'' میں لشکر طیبہ کی بدعنوانیوں پر اوپر مذکورہ مواد بھی لکھا ہے۔
گویا ان کتابوں اور پمفلٹ کے اعدادوشمار اکٹھے کیے جائیں تو پاکستان میں کسی جہادی تنظیم کے خلاف چھپنے والے مواد میں لشکر طیبہ (جماعۃ الدعوۃ) صف اول کی تنظیموں میں شمار ہوتی ہے۔
اب تو خود موحدین نے بھی ان کے خلاف لکھنا اور چھاپنا اپناوطیرہ بنا لیا ہے۔ القاعدہ کے میڈیا ونگ ''السحاب'' نے بھی واضح اشاروں میں اپنے قائدین کی جاری کردہ ویڈیو پیغامات میں ان پر جابجا تنقید شروع کی۔ ان ناقدین میں ابو یحییٰ الیبی' شیخ سعید مصطفی ابو الیزید' شیخ ایمن الظواہری شامل ہیں۔ شیخ ایمن نے اپنے ایک پیغام میں جماعۃ الدعوۃ پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ جہادِ کشمیر کو ایجنسیوں کے چنگل سے نکالنا ہوگا۔ جماعۃ الدعوۃ کے منہج کے خلاف اور ان کے غلط نظریات کو پرکھنے کے لیے مسلم ورلڈ یٹا پروسیسنگ پاکستان کی اس ویب سائٹ پر موجود مواد دیکھ سکتے ہیں۔
http/
www.muwahideen.tk, E-mail:
info@muwahideen.tk
اب میرے خیال میں اس ویب سائٹ کا ایڈریس تبدیل ہوکر
http://muwahideen.co.nrہوگیا ہے۔
اس سے واضح ہوتا ہے کہ موجودہ حالات میں جہادِ کشمیر کا شور جماعۃ الدعوۃ نے زیادہ مچایا ہوا ہے۔ اس کے برعکس پاکستان کی جہادی تنظیمیں افغانستان میں امریکی افواج کا مقابلہ کر کے ان کو اس خطے سے روس کی طرح باہر نکالنا چاہتی ہیں۔ جماعۃ الدعوۃ کی بدنصیبی کا مزید رونا کیا روئیں کہ آج تک افغانستان کے کسی محاذ پر ان کا کوئی مجاہد شہید نہیں ہوا اور حافظ سعید صاحب نے آج تک افغانستان میں جماعۃ الدعوۃ کے شہید ہونے والے کسی مجاہد کا غائبانہ نمازِ جنازہ نہیں پڑھایا۔ جماعۃ الدعوۃ اپنے اخبارات' جرار' ماہنامہ الحرمین' ماہنامہ طیبات' انگلش میگزین Voic of Jihad اور ماضی میں تقریباً عرصہ بیس سال سے چھپنے والے میگزین ''مجلہ الدعوۃ'' میں افغانستان میں کسی ایک امریکہ مخالف کارروائی دکھا ڈالے جو کہ لشکرطیبہ اور جماعۃ الدعوۃ سے منسوب ہو۔ تو ہمارے اشکال دور ہو جائیں۔ حالانکہ انڈیا میں ہونے والی کارروائیوں کو اب تک ان کے اخبارات ورسائل بڑے فخریہ انداز میں چھاپتے ہیں۔ بات اسی پر بس نہیں ہوتی بلکہ انڈین کے خلاف ہونے والی کارروائی کی ذمہ داری کو مرکز میں ہونے والی نشستوں میں بیان کیا جاتا ہے تاکہ جماعۃ الدعوۃ کے کارکنوں کا لہو گرم رہے اور اس کے بدلے ٹھنڈی کھالوں کی آمد لگی رہے۔ یہ شعر بالکل اس جگہ صادق آتا ہے۔
جھپٹنا پلٹنا پلٹ کر جھپٹنا
کھالیں جمع کرنے کا ہے اک بہانہ
اپنے قیام کے دو عشروں پر محیط جماعۃ الدعوۃ والے مریدکے اور پنجاب بھر میں منعقدہ اجتماعات میں انڈین آرمی اور انڈیا کے ہندو سرکاری اہلکار سے مالِ غنیمت سے حاصل ہونے والی بندوقیں' سرکاری کارڈ' آرمی کی دستاویزات لاکھوں کے مجمعے میں دکھاتے تھے اور ہنوز کا یہ سلسلہ جاری ہے۔
جماعۃ الدعوۃ اب بھی افغانستان کے مشرقی صوبوں' کنٹر' ننگرہار' نورستان اور لغمان کے صوبوں میں اپنے مجاہدین کے امریکیوں کے خلاف لڑنے والے جھوٹے دعویٰ کرتی ہے۔ دراصل یہ کارروائیاں افغانستان کے سلفی مجاہدین کرتے ہیں اور ان مجاہدین نے ملا عمر صاحب کے ہاتھ پر بیعت کی ہوئی ہے۔ اگرچہ طالبان ایک مخصوص مسلک سے تعلق رکھتے ہیں مگر ان کی حکومت میں ایسی کوئی بات نہ تھی۔ مسلم برادری میں مسلکی رواداری کے لیے انہوں نے اصول دیا تھا کہ ''اللہ اور اس کے رسولؐ کے علاوہ کسی کی کوئی بات قبول بھی کی جا سکتی ہے اور رد بھی کی جا سکتی ہے۔'' یہ وہ اصول ہے جس کی کسی شرعی دلیل سے مخالفت نہیں کی جا سکتی۔ غیرمقلدین بھی اس کے خلاف کوئی شرعی دلیل نہیں دے سکتے۔ اس کے مقابل آج بھی سرزمین افغانستان میں سفلی' حنفی' شافعی' حنبلی اور مالکی مسلک رکھنے والے مجاہدین امریکہ کے خلاف برسر پیکار ہیں۔ اس تناظر میں جماعۃ الدعوۃ والے ثابت کریں کہ ان کے کتنے مجاہدین افغانستان میں شہید ہوئے کتنے اسیر ہوئے اور کتنے غازی اور آج تک انہوں نے انڈیا کے مقابلے امریکہ کے مردار فوجیوں کی کتنی باقیات مثلاً امریکی گنیں' فوجیوں کے بوٹ' فوجی کارڈ اور بیج وغیرہ اپنے اجتماعات میں دکھانے ہیں یا اپنے اخبارات ورسائل میں ان کے فوٹیج دیتے ہیں۔ اس کا جواب انشاء اللہ یہ ہرگز نہیں دے سکتے اور اب لوگوں کو بھی ان کی خباثتوں کا جوں جوں پتہ چل رہا ہے وہ اپنی زندگی کو اصل منہج اور فکر سے وابسطہ کر رہے ہیں۔
الدعوۃ رسالے میں وقتاً فوقتاً ایسی باتیں پڑھنے کو ملتی ہیں جو اسلامی عقیدہ ولاوبرأ کے خلاف ہیں۔ چند ملاحظہ فرمائیں۔
.1 اگست 1991ء کے مجلہ الدعوۃ کے سرورق پر پاکستان کے نقشے اور مینار پاکستان پر وہ آیت لکھی جو اللہ تعالیٰ نے مدینہ کے مسلمانوں پر بطور احسان نازل فرمائی تھی۔
ترجمہ: ''یاد کرو وہ وقت جب تم تھوڑے تھے۔ زمین میں تم کو بے زور سمجھا جاتا تھا تم ڈرتے رہتے تھے کہیں لوگ تمہیں مٹا نہ دیں پھر اللہ نے تم کو جائے پناہ مہیا کر دی۔ اپنی مدد سے تمہارے ہاتھ مضبوط کیے اور تمہیں اچھا رزق پہنچایا کہ شاید تم شکر گزار بنو۔'' (الانفال:26/8)
جس ملک میں انسانوں پر اللہ کے بجائے انسانوں کی حکمرانی ہو۔ کیا اس کے باشندوں کو وہ آیت سنا کر خوش کیا جا سکتا ہے جو آیت مدینۃ النبی ملنے پر صحابہ کرام ص کو بطور احسان سنائی گئی تھی۔
.2 مئی 1992ء کے صفحہ نمبر 12 پر پاکستان پر اللہ کے قانون کو نافذ کرنے کے بجائے مارشل کا قانون چلانے والے جنرل ضیاء الحق کو مردِ مومن اور مردِ مجاہد کہا۔
.3 ستمبر 1992ء کے صفحہ نمبر 5 پر مجددی کی حکومت کو مجاہدین کی حکومت کہا۔
.4 جون' جولائی 1990ء کے الدعوۃ میں لکھا ہے کہ جہاد کانفرنس میں مہمان خصوصی سردار عبدالقیوم خان صدر آزاد کشمیر تھے اور جب ایک مقرر نے بے نظیر کے رویے پر تنقید کی تب سٹیج سیکرٹری نے کہا کہ جہاد کانفرنس میں سیاسی گفتگو سے پرہیز بہتر ہے جبکہ مارچ 1991ء کے صفحہ نمبر 32 اور مارچ 1993ء کے صفحہ نمبر 20 پر سردار عبدالقیوم خان کے شرکیہ افعال کا ذکر ہے۔
.5 مئی 1998ء کا صفحہ نمبر 19 ملاحظہ فرمائیں۔
جھلکیاں مرکز الدعوۃ الارشاد
حافظ محمد سعید نے کہا کہ اگر صدر پاکستان اسلام آباد اور گورنر پنجاب بادشاہی مسجد میں امامت کروائیں تو فرقہ واریت ختم ہو سکتی ہے۔ گورنر پنجاب جناب شاہد حامد صاحب اس تقریب کے مہمان خصوصی تھے۔ کیا یہ سب کچھ اسلام کے بنیادی عقیدہ ولاوبرأ کی نافرمانی نہیں ہے؟
کیا رانا شفیق خان پسروری صاحب کا یہ الزام درست نہیں ہے؟ ''پاکستان کے عام انتخابات کے موقع پر مجلہ الدعوۃ میں کلمۃ الدعویٰ کے عنوان سے گروہ کے سربراہ نے پیپلزپارٹی کے مقابل مسلم لیگ کی حمایت کی۔۔۔ کشمیر کی لڑائی ساری کی ساری اقوام متحدہ کے تحت حق خودارادیت کی لڑائی ہے یعنی کشمیر کا فیصلہ ووٹ کے ذریعے۔ اب اس لڑائی کے لیے زور شور کیوں؟
اگر جمہوریت واقعتاً کفر ہے اور نہایت ناپسندیدہ ہے تو بتایا جائے کہ جمہوری شخصیات' جمہوری پارٹیاں اور حکومتی شخصیات سے تعلقات اور ان کو اجتماعات کی دعوت' اجتماعات میں لے جانے کے لیے بار بار رابطے اور منتیں اور اجتماعات میں ان کی تقاریر کیوں کروائی جات ہیں؟'' (اسلام اور جمہوریت ص39)
کیا تکفیر بالطاغوت اسی کا نام ہے؟
اگر ہم خلافت اسلامیہ کا قیام چاہتے ہیں تو ہمیں اپنی قوم کا اصل مسئلہ پہچان لینا چاہیے۔ جمہوریت اور جہاد کشمیر کے بجائے اس اصل مسئلہ کو حل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ حافظ حامد محمود صاحب قوم کی اصل ضرورت یوں بیان کرتے ہیں۔
''اور یہ ہے کہ اسے لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ کے معنی بتا دیئے جائیں۔ اسے اللہ کی بندگی کا مطلب سمجھا دیا جائے سب سے پہلے اس کو غیراللہ کی بندگی سے تائب کرا لیا جائے۔ یہاں قانون ودستور اور ہیرو ان قوم کے مزارات' ارشادات اور مورت پرستی کے جو جو بچھڑے مغرب سے لا کر پوجے جا رہے ہیں۔ ان کی راکھ تک پہلے دریا برد کر دی جائے۔ لندن اور پیرس کی تہذیب یہاں کوڑے کے ڈھیرے پر پڑی نظر آئے۔ اللہ کی کبریائی کا اعلان صرف ریڈیو اور لاؤڈ سپیکر پر نہیں طرز معاشرت تک سے کر دیا جائے۔ محمدا کی شریعت اور تہذیب کو ان شہروں اور بستیوں میں عملی طور پر نظر آنے دیا جائے۔ اس قوم کے کم ازکم مؤثر اور فعال عناصر کو اللہ کے حکم وقانون پر عمل کرنے اور کرانے کا ڈھنگ آتا ہو اور اس کی فکری وادبی قیادت لادین ادیبوں اور ملحد صحافیوں اور دانشوروں کے بجائے اہل علم کے پاس ہو جو اسے اللہ اور رسولؐ کی بات بتا اور سکھا سکیں۔
(کتاب جمہوریت دینِ ابلیس صفحہ 96 تا 99)
اوباما کی نئی افغانستان' پاکستان پالیسی میں بھی یہ نقطہ زیرِ غور ہے کہ کس طرح امریکی حمایت یافتہ مسلک جہادی تنظیم یا تجدد پسند روشن خیال مولویوں کو اپنا ہمنوا بنا کر ایک ایسی فرقہ واریت کی داغ بیل ڈال دی جائے کہ امریکہ کا اُلو سیدھا ہوا اور عوام امریکا اور اس کی کٹھ پتلی حکومتوں کے ہاتھوں ہزیمت سے دوچار ہو۔ اس کے لیے افغانستان سے ملا وکیل احمد متوکل' گلبدین حکمت یار' حکمتیار کے داماد غیرت بحیر معتدل طالبان میں شامل ہے یہ معتدل لوگ امریکہ سے مکمل رابطے میں ہیں۔ متوکل صاحب نے خود کو امریکہ کے حوالے کیا تھا اور بعد میں معتدل طالبان کی 'الفرقان ' نامی تنظیم بھی قائم کی جو چل نہ سکی اور پاکستان میں کئی نام نہاد جہادی' پروفیسر' اینکرز اور افغانی بشمول سرکاری اہلکار امریکی احکامات کی بجاآوری میں مسلسل معروف ہیں۔ پاکستان میں جیو ٹی وی چینل کے عامر لیاقت سابقہ ایم کیو ایم دہشت گرد تنظیم کا بھگوڑا الطاف اور جاوید احمد غامدی پیش پیش ہیں۔ نیوز ٹی وی چینل کے عبدالمالک جو کہ سرکاری PTV چینل پر آکر فوج کے ریٹائرڈ افسران کے خلاف زبان درازی کرتا ہے۔ جنرل اسد دُرانی سابقہ آئی ایس آئی سربراہ کے بارے پروگرام سچ تو یہ ہے' میں کہا کہ ان سب کو جیل میں ڈال دینا چاہیے۔ عبدالمالک صاحب غالباً امریکی مخالف کی مخالفت سے امریکہ کو یہ ثبوت پیش کرنا چاہتے ہیں کل کو ڈالروں کی منڈی میں اگر عنایات کی بارشیں ہوگی تواس بدنصیب کو بھی ان کلمات پر ڈالروں سے جھولی بھر لینے کی امید تو ہوگی۔
حالانکہ اس فلم کو بریلوی اور شیعہ مسالک کے علاوہ باقی تمام علماء اور مفتیانِ کرام نے مسترد کر دیا۔ اس کے علاوہ جیو چینل کی ایک بڑی گستاخی یہ بھی ہے کہ اُس نے بنی آخر الزمان ا اور صحابہ کرام ث کے حوالے سے بنائی جانے والی انگلش فلم (The Message) کا اردو ترجمہ بھی خوب نشر کیا۔ پرویزی دور کے روشن خیالی کی پیداوار کا یہ بچہ اب بالغ ہوچکا ہے۔ جو بچہ بچپن میں اتنا شیطان تھا۔ اب بلوغت کے وقت وہ کیا گل کھلا رہا ہوگا۔ اپنی اسلام اور پختون دشمنی کا لگاتار مظاہرہ کرتے ہوئے وہ ''خدا زمین سے گیا نہیں'' کے عنوان سے ڈرامہ چلا رہا ہے۔ اس چینل اور گروپ سے وابسطہ زیر و پوائنٹ والے جاوید چوہدری اور کئی سابقہ رفقاء جنگ گروپ ان سے علیٰحدہ ہوئے لیکن وہ آسمان سے گرا کھجور میں اٹکا' کے مصداق سیکولر اور اسلام مخالف نظریات کے حامل ایکسپریس نیوز میں جاپھنسے۔ جنگ اور ایکسپریس گروپ کی اسلام دشمنی کی اس سے بڑھ کر اور کیا مثال پیش کریں کہ اب امریکی ڈرون طیاروں کے ذریعے شہید ہونے والوں کو یوں لکھا جاتا ہے ''5 دہشت گرد ہلاک''۔اسی جیو چینل سے وابسطہ صحافی حامد میر بھی ہے جنہوں نے اپنے ایک کالم میں انگریزوں کے خلاف برسرپیکار وزیرستان کے مجاہد فقیرایپی کو بھی قیام پاکستان سے پہلے کی تاریخ میں بھارت کا ایجنٹ ثابت کیا۔ مزید اُس نے قبائلی پختونوں کو راکا ایجنٹ ظاہر کرنے کی بھرپور کوشش کی میں حامد میر کے کالموں کو روزانہ قسط وار پڑھتا تھا۔ اس کالم سے چند روز قبل حامد میر نے مولانا حسین احمد مدنی ؒ کے بارے میں بھی بدبودار زبان قسط وار استعمال کی۔ قافلہ حسین احمد مدنی کے ہمنواؤں نے اس سورما صحافی کی جاوید چوہدری کی طرح وہ درگت کی کہ سلسلہ معافی تلافی پر آگیا۔ اس سلسلے میں مولانا سعید احمد جلال پوری صاحب نے بھی بڑی ہمت اور دلیری کے ساتھ جواب دیا موصوف 8 تا 15 جون 2009ء میں ہفت روزہ ختم نبوت کے ایک مضمون جو کہ زید حامد کا تعارف کے عنوان سے چھپا میں رقمطر از ہیں۔ ''اسی طرح جناب حافظ توفیق حسین شاہ صاحب نے روزنامہ جنگ کراچی میں حامد میر کے جواب میں ر اقم الحروف کے مضمون کی اشاعت پر اپنے مسیج میں لکھا ''حضرت مدنیؒ سے متعلق بہترین جوابات بھی انہماک سے پڑھے ہیں میں خاکسار آپ کی توجہ کے لیے عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ٹی وی کے ایک پروگرام میں ایک صحافی زید حامد صاحب نے گستاخ حامد میر کو ''را'' کا ایجنٹ قرار دیا ہے۔
یہاں واضح کرتے چلیں کہ یہ اقتباس مولانا سعید احمد جلالپوری کی زید حامد کے یوسف کذاب کے مرید خاص کے ثبوت میں لکھے گئے مضمون سے نقل کیا ہے۔ تفصیل کے لیے ہفت روزہ ختم نبوت سے رابطہ کریں۔
گویا حامد میر دوسروں کو بھارت اور راکا ایجنٹ کہنے والا اپنے ہی ہمنوالہ اور ہم پیالہ صحافی اور دجالی لشکر کے ایجنٹ زید حامد کے ہاتھوں حقیقت حال تک پہنچا اور یوں دنیا والوں کو بھی ہمارا پیغام ہے کہ دجال کے لشکر میں شامل افراد اور صحافیوں کو پہچان لیں۔ یہ لوگ آج اپنے دلائل سے جہاد' قتال کے نام سے افغانستان کے طالبان کے زبردست حمایتی ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور درپردہ یہ امریکی ڈالروں کے عوض اپنے ایمان کا سودا کرنے سے بھی نہیں چونکتے۔ پنجاب کی ایک جہادی تنظیم جماعۃ الدعوۃ کے امیر پروفیسر حافظ سعید صاحب بھی راکے اس ایجنٹ کو القادسیہ مرکز چوبرجی چوک لاہور میں ہونے والی میڈیا ورکشاپ میں مدعو کرتے رہتے ہیں۔ پروفیسر صاحب بھی اپنے جمعہ کے خطبات میں حامد میر کا نام لے کر بڑے مؤدبانہ انداز میں ان کی شجاعت اور قلمی جہاد کا بھرم بھرتے ہیں۔ کبھی پروفیسر موصوف حامد میر کو انجانے میں خط لکھ بیٹھتے ہیں اور ان سے تعلق کو اپنے اخبار میں نمایاں کر کے چھاپتے ہیں۔ حامد میرا اس خفیہ خط کے الفاظ دیوانگی کو کبھی کالم کی شکل میں اور کبھی جنگ' آواز وغیرہ اخبار میں د و کالمی خبر کے طور پر شائع کروا کر اپنی خط و کتابت کے عشق کا اظہار فرماتے ہیں۔
حامد میر کو لکھے گئے خط میں جماعۃ الدعوۃ کے امیر پروفیسر حافظ سعید نے یہ فتویٰ لکھا کہ غیر مسلموں پر خودکش حملے کرنا جائز نہیں' لیکن ممبئی بم دھماکوں کے حوالے سے جماعۃ الدعوۃ کے مجاہدین اپنی تقریروں میں علی الاعلان عام پبلک کے سامنے اعتراف کرتے ہیں کہ دس حملہ آوروں بمع اجمل قصاب آف فرید کوٹ اوکاڑہ کا تعلق جماعۃ الدعوۃ سے ہے۔ پروفیسر موصوف کو اس حوالے سے سچی شہادتیں انہی کے گھر سے مل سکتی ہیں۔
جماعۃ الدعوۃ کو اقوامِ متحدہ سے خصوصی ٹاسک ملا ہے کہ آپ جہاد کی بجائے فلاحی کاموں کا نام زیادہ لیا کریں۔ جس کاپاس رکھتے ہوئے حافظ سعید نے کھال کی جگہ پورا اُونٹ اس فتویٰ کی صورت نذر کر دیا ہے۔ اگر حافظ سعید صاحب تھوڑی سی مزید ہمت کر کے اس فتویٰ کو اپنے دارالافتاء سے مہر لگا کر وزیر داخلہ ملک صاحب کو پیش کر دیتے تو زرداری صاحب کی ڈھارس بندھ جاتی۔ ملک صاحب کو بھی حافظ سعید صاحب کے فتویٰ نے بے چین کر دیا تھا اور وہ خیبر سے کراچی تک مدارس کا دورہ کرتے رہے اور مزید مفتیان کے فتویٰ حاصل کرنے کے چکر میں ہیں۔ مبارک ہو حافظ سعید صاحب کو ملک صاحب کے فتویٰ وصولی کا سارا ثواب تو جماعۃ الدعوۃ والے حاصل کر گئے۔
جماعۃ الدعوۃ کے امیر حمزہ اپنے ایک مضمون میں بلیک واٹر سے یوں مخاطب ہیں۔
جب کالے کتے ہمیں بھنبھوڑنے کے لئے آگے بڑھیں تو مائیں اپنے گھبرو جوانوں کو ان کا علاج کرنے کا کہیں؟ مجھے یقین ہے سات سو نہیں سات ہزار بلکہ اس سے بھی زیادہ مائیں اپنا کردار ادا کریں گی، بیویاں اپنا کردار ادا کریں گی، بیٹیاں اپنا کردار ادا کریں گی، اور پھر پورا پاکستان، اس کے جوان عبد الرحمن مکی بنیں گے، ان کالے کتوں کی لاشیں بھی امریکہ کو نہیں ملیں گی، لہٰذا اے حکمرانو! ڈالر کھاؤ اور اپنے آقاؤں کو کہہ دو کہ ان کالے کتوں کو روک کر رکھو وگرنہ پاکستان کے غیرت مند ان کا علاج کریں گے۔ ویسے بھی ہمارے پیارے رسول معظم و محترم و مطہر ا نے فرما دیا ہے کہ کالا کتا شیطان ہے۔ کالے کتے کو مارنا باعث ثواب ہے اور جی ہاں! جب میرا ملک ان کے ہاتھوں عدم استحکام کا شکار اور ہماری عزتوں کا لباس، ہمارے ایٹموں کا ہتھیار، ہماری فوجوں کی آبرو داؤ پر لگی ہو تو کالے کتوں کو مارنا ہر غیرت مند مسلمان پر پاکستانی فرض ہو جائے گا۔ لہٰذا وہ وقت آنے سے پہلے، اے چوہدریو!' ان کو روک لو، باندھ لو، واشنگٹن کے کلے پر ہی انہیں بندھا رہنے کا بندوبست کرو وگرنہ ان کی ایف آئی آر درج کرنے والا پاکستان میں کوئی تھانیدار نہ ہو گا۔
سلسلہ وار جرار نمبر 45' 16 اکتوبر 2009ء
جناب امیر حمزہ صاحب نے مضمون میں برملا اقرار کر لیا ہے کہ فوج دو قسم کی ہے' ایک پاکستان کی وردی والی دوسری لشکر طیبہ (جماعۃ الدعوۃ) کی داڑھی والی آرمی یا قربانی کی کھالیں جمع کرنے والے آرمی۔ لہٰذا ان کی تحریر کے الفاظ پر دوبارہ غور کریں۔ ''ہماری فوجوں کی آبرو داؤ پر لگی ہو۔'' امیر حمزہ صاحب نے غالباً جنرل پرویز مشرف کے دور میں بھرتی ہونے والی فوجی خواتین کی آبرو کی بات کررہے ہیں) یا یہاں پر واضح کرتے ہیں۔ لشکر طیبہ کا معنی پاک فوج ہے۔ طیبہ بمعنی پاک' لشکر بمعنی فوج' لہٰذا اے جماعۃ الدعوۃ والوں تمہیں یہ القاب مبارک ہوں۔
28 نومبر 2009ء کو نوائے وقت کے اخبار میں پروفیسر حافظ سعید صاحب کا ایک کالم چھپا جس میں پروفیسر موصوف کے الفاظ یہ ہیں۔
پاکستان میں تو غیرمسلموں کے حقوق کا تحفظ حکومت کے ساتھ ساتھ سوسائٹی کی بھی ذمہ داری ہے۔ سوسائٹی کا ایک متحرک عنصر ہونے کے ناطے جماعۃ الدعوۃ نے ہمیشہ اس حوالے سے اپنی ذمہ داریاں بھی ادا کی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب گزشتہ سال جماعۃ الدعوۃ پر اقوام متحدہ نے پابندیاں لگائیں تو کراچی اور اندرون سندھ میں ہندوؤں اور عیسائیوں نے بطور خاص اس پابندی کے خلاف ریلیاں نکالیں۔
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اب تک اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے کئی مسلمان ممالک کی رفاہی اور جہادی تنظیموں پر پابندی عائد کی ہے لیکن جماعۃ الدعوۃ واحد تنظیم ہے جس نے اس پابندی کو سلامتی کونسل میں باقاعدہ چیلنج کیا ہے ہم نے ڈی لسٹنگ (Dilisting) کے لیے اپنا کیس جمع کروایا' سلامتی کونسل اور س کے بعد یورپی یونین نے بھی ہم سے رابطہ کیا لیکن افسوس کہ پاکستانی حکومت نے اس کیس میں ہماری کوئی مدد نہیں کی اور ابھی تک ہمارا ڈی لسٹنگ کا کیس وہاں چل رہا ہے۔''
(بحوالہ ممبئی حملے اور میرا موقف۔ تحریر: حافظ سعید ، روزنامہ نوائے وقت28نومبر 2009ء )
محترم حافظ سعید صاحب اس کالم میں ملاحظہ فرمائیں کہ حضرت ہندوؤں اور عیسائیوں کو اپنا ہمدرد سمجھ رہے ہیں بات اس پر بس نہیں بلکہ اپنی تحریر میں واضح طورپر لکھ دیا کہ سلامتی کونسل کے بعد یورپی یونین نے بھی ہم سے رابطہ کیا عقیدہ ولا وبرأ کا تصور کہاں گیا۔ گویا قرآن پاک کی اس آیت پر آج تک موصوف کو غالباً شک ہے۔
کہ ''اے ایمان والو! یہود و نصاریٰ کو اپنا دوست مت بناؤ۔''
مزے کی بات یہ ہے کہ حافظ سعید صاحب کا فتویٰ کہ کافر کو خود کش حملے میں مارنا جائز نہیں عید الاضحی(کھالوں والی عید) سے دو دن پہلے آیا اور اوپر مذکورہ کالم نوائے وقت میں بروز عید الاضحی شائع ہوا تاکہ زرداری اور ایجنسیوں کے افراد کی طرف سے کھالیں ملتی رہیں۔ دنیا والے لاکھ دفعہ جماعۃ الدعوۃ کو ایجنسیوں امریکیوں کی جماعت کہتے رہیں لیکن پہلے جنرل پرویز مشرف اور اب صدر زرداری صاحب سمیت ایجنسیوں اور ہائیکورٹ نے بھی خفیہ امریکی اشاروں پر جماعۃ الدعوۃ کے کھالوں کے کیمپ کی اجازت دے رکھی ہے اس کے مقابلے میں باقی تمام جہادی، اسلامی فلاحی تنظیموں پر پابندی اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ حافظ سعید صاحب ویسے بھی طاغوتی نظام اور جمہوری کفریہ حکومت کی چاکری انجینئرنگ یونیورسٹی میں کر رہے ہیں کیونکہ آج تک وہ پنشن حاصل کر رہے ہیں۔ عقیدہ ولا وبرأ ''دوستی اور دشمنی کا معیار'' پر جماعۃ الدعوۃ کے کالعدم اشاعتی ادارے دارالاندلس نے ایک کتاب بھی چھاپی تھی لیکن حکومت پاکستان کی مداخلت پر اس کتاب کو غائب کر دیا گیا کئی افراد اللہ کے شکر سے اس کتاب کا مطالعہ کرنے کے بعد راہ راست پر آگئے اور طاغوتی نظریات سے ہمیشہ توبہ کر لی۔ انہی میں سے ایک پرانے جماعتی ساتھی نے بتایا کہ مرکز القادسیہ میں آج تک تہہ خانے میں بند تھیلیوں میں یہ کتاب ردی کی نظر ہوئی پڑی ہے۔ خدا موصوف کو اُن کے بھائی حامد محمود ایڈیٹر سہ ماہی ''ایقاظ''کے سوچ اور فکر کی ایک رتی بھی نصیب کر دے تو یہ ہدایت یافتہ ہو جائیں گے۔
پروفیسر موصوف کے فخریہ کلمات کے بعد ہم اقوام متحدہ کے قیام سے دجالی ریاست کے معرض وجود آنے کے بارے بھارت کے محقق و مصنف اسرار عالم صاحب کی کتاب دجال جو کہ تین جلدوں پر مشتمل ہے۔ اس کتاب کی پہلی جلد کی ابتداء میں ہی اقوامِ متحدہ کے دجالی ریاست کے بارے میں دلائل کے انبار لگا دیے اس طرف آنے سے پہلے یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ یہ ادارے دنیا کے بدترین دجالی طاغوتی طاقتوں کے آلہ کار ہیں۔کوئی بے وقوف بھی اس کتاب کے پڑھنے کے بعد کبھی بھی امریکی دجالی اقوامِ متحدہ (یعنی اقوامِ کشتہ' قوموں کی قاتل) کی تعریف' اس سے اعانت کی اپیل' اس کی عدالت میں اپیل اور ان سے اپنی کالعدم تنظیموں کی بحالی کی بھیک مانگنے والا بھی لشکر دجالیہ میں شمار ہوگا۔
اس حوالے سے قبل قرآن مجید سے اللہ رب العزت کے سچے فرمان میں سے سورۃ النساء کی آیت کے ترجمے پر غور کریں۔
الم ترإلی الذین یزعمون انھم آمنوا بما أنزل إلیک وما أنزل من قبلک یریدون أن یتحاکموا إلی الطاغوت وقد أمروا أن یکفروا بہ ویرید الشیطان أن یضلھم ضلالا بعیدا۔ (سورۃ النساء)
ترجمہ: کیا تم نے اُن لوگوں کو نہیں دیکھا جو دعویٰ تو یہ کرتے ہیں کہ وہ اس (کتاب) پر ایمان رکھتے ہیں جو تم پر نازل ہوئی اور ان (کتابوں) پر بھی جو تم سے پہلے نازل ہوئیں لیکن چاہتے یہ ہیں کہ اپنے معاملات طاغوت کے پاس لے جا کر فیصلہ کرائیں۔ حالانکہ اُن کو اس کے انکار کا حکم دیا گیا ہے اور شیطان تو یہ چاہتا ہے کہ اُن کو نہایت دُور کی گمراہی میں ڈال دے۔