• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

بنت حوا کے مسائل اور ان کا شرعی حل

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,391
ری ایکشن اسکور
452
پوائنٹ
209
شمولیت
مئی 20، 2017
پیغامات
269
ری ایکشن اسکور
36
پوائنٹ
66
شمولیت
مئی 20، 2017
پیغامات
269
ری ایکشن اسکور
36
پوائنٹ
66
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ، شیخ محترم ، صحت کے لیے دعا کی درخواست ہے. جسمانی صحت کے ساتھ ساتھ اب نفسیاتی صحت بھی متاثر ہو گئی ہے. آنکھیں بہنا شروع ہوتی ہیں تو تھمتی نہیں. میں نماز کو بہت اہتمام سے ادا کرنے والی ہوں، اور اب نماز میں بالکل بھی دل دماغ نہیں لگتا بلکہ جیسے ہی نماز شروع کرتی ہوں کندھے بالکل بوجھل ہو جاتے ہیں، نماز مکمل کر کے بھی یوں لگتا کہ کچھ پڑھا ہی نہیں، نسیان طاری ہونے لگتا ہے. ہر نماز کے بعد، ایک مختصر سا رقیہ بھی ہڑھتی ہوں جو روحانی علاج کے دوران معالج نے بتایا لیکن وہ بھی خالی الذہنی سے ہی پڑھا جاتا، دعائیہ الفاظ میں تکرار ہو رہی ہوتی اور پتہ نہیں چلتا. ہر ماہ قرآن مجید کا ایک دورہ کرتی ہوں لیکن اب زبان ساتھ ہی نہیں دیتی. بلکہ تلاوت کے دوران اگر صفحہ پلٹ جائے تو یہی بھول جاتا ہے کہ کس آیت پر تھی. صدقہ خفی کی عادت بھی ہے. کوئی بھی ایسا لغو مشغلہ نہیں ہے، بلکہ گھریلو کام کے دوران اذکار کا اہتمام یا کوئی درس سن لیتی ہوں. اور اسی مزاج کی وجہ سے بالکل اکیلی ہوں. اور اب انٹرنیٹ پر جو دینی سرگرمیاں تھیں، وہ بھی بند کر دیں.
اعصابی کمزوری تو پہلے بھی ہے. اب بار بار کسی چھوٹی بیماری کے حملہ سے، رہے سہے اعصاب بھی متاثر ہو جاتے ہیں. تکلیف دینے والی باتوں اور چیزوں سے بچنے کی کوشش کرتی ہوں. پچھلے ماہ ڈاکٹر کے دوائی لینے گئی تو کچھ بھی کہنے کی بجائے، آنکھوں سے ایسے آنسو جاری ہوئے جو رکنے کا نام نہیں لے رہے تھے. اسی کیفیت کی وجہ سے، کسی کا سامنا کرنے سے کتراتی ہوں.
ہمارے ہاں، دینی محافل یا دینی صحبت کا کوئی تصور نہیں ہے. سالہا سالوں کی کوششوں میں ناکامی کے بعد، اب دینی لوگوں یا دینی سرگرمیوں کو انٹرنیٹ پر دیکھ کر دل میں شکوہ پیدا ہوتا ہے. دوہرے معیارات دیکھ کر دل بہت دکھا.
میں نے بہت مجبور ہو کر آپکے سامنے اپنی کیفیات بیان کی ہیں، کیونکہ مجھے اللہ تعالیٰ سے شکوہ نہیں، بلکہ میرے پاس اس ذوا لقوة المتين کے علاوہ کوئی ساتھی نہیں، یہ میرے لیے باعثِ فخر اور باعثِ قوت ہے. کہ وہ میرے معاملات اور حاجات میں مجھے کافی ہو جاتا ہے. لیکن میں ان رسوا کرنے والی کیفیتوں کو ناپسند کرتی ہوں. میں ہر چھوٹی بڑی نعمت پر اسکا شکر ادا کرتی ہوں. لیکن یہ کیفیات اور عبادات میں خلل میرے لیے سخت تکلیف دہ ہے. مجھے خود بھی نہیں معلوم کہ ایسا کیوں ہے.
برائے مہربانی، میری رہنمائی کیجئے.
 

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,391
ری ایکشن اسکور
452
پوائنٹ
209
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ، شیخ محترم ، صحت کے لیے دعا کی درخواست ہے. جسمانی صحت کے ساتھ ساتھ اب نفسیاتی صحت بھی متاثر ہو گئی ہے. آنکھیں بہنا شروع ہوتی ہیں تو تھمتی نہیں. میں نماز کو بہت اہتمام سے ادا کرنے والی ہوں، اور اب نماز میں بالکل بھی دل دماغ نہیں لگتا بلکہ جیسے ہی نماز شروع کرتی ہوں کندھے بالکل بوجھل ہو جاتے ہیں، نماز مکمل کر کے بھی یوں لگتا کہ کچھ پڑھا ہی نہیں، نسیان طاری ہونے لگتا ہے. ہر نماز کے بعد، ایک مختصر سا رقیہ بھی ہڑھتی ہوں جو روحانی علاج کے دوران معالج نے بتایا لیکن وہ بھی خالی الذہنی سے ہی پڑھا جاتا، دعائیہ الفاظ میں تکرار ہو رہی ہوتی اور پتہ نہیں چلتا. ہر ماہ قرآن مجید کا ایک دورہ کرتی ہوں لیکن اب زبان ساتھ ہی نہیں دیتی. بلکہ تلاوت کے دوران اگر صفحہ پلٹ جائے تو یہی بھول جاتا ہے کہ کس آیت پر تھی. صدقہ خفی کی عادت بھی ہے. کوئی بھی ایسا لغو مشغلہ نہیں ہے، بلکہ گھریلو کام کے دوران اذکار کا اہتمام یا کوئی درس سن لیتی ہوں. اور اسی مزاج کی وجہ سے بالکل اکیلی ہوں. اور اب انٹرنیٹ پر جو دینی سرگرمیاں تھیں، وہ بھی بند کر دیں.
اعصابی کمزوری تو پہلے بھی ہے. اب بار بار کسی چھوٹی بیماری کے حملہ سے، رہے سہے اعصاب بھی متاثر ہو جاتے ہیں. تکلیف دینے والی باتوں اور چیزوں سے بچنے کی کوشش کرتی ہوں. پچھلے ماہ ڈاکٹر کے دوائی لینے گئی تو کچھ بھی کہنے کی بجائے، آنکھوں سے ایسے آنسو جاری ہوئے جو رکنے کا نام نہیں لے رہے تھے. اسی کیفیت کی وجہ سے، کسی کا سامنا کرنے سے کتراتی ہوں.
ہمارے ہاں، دینی محافل یا دینی صحبت کا کوئی تصور نہیں ہے. سالہا سالوں کی کوششوں میں ناکامی کے بعد، اب دینی لوگوں یا دینی سرگرمیوں کو انٹرنیٹ پر دیکھ کر دل میں شکوہ پیدا ہوتا ہے. دوہرے معیارات دیکھ کر دل بہت دکھا.
میں نے بہت مجبور ہو کر آپکے سامنے اپنی کیفیات بیان کی ہیں، کیونکہ مجھے اللہ تعالیٰ سے شکوہ نہیں، بلکہ میرے پاس اس ذوا لقوة المتين کے علاوہ کوئی ساتھی نہیں، یہ میرے لیے باعثِ فخر اور باعثِ قوت ہے. کہ وہ میرے معاملات اور حاجات میں مجھے کافی ہو جاتا ہے. لیکن میں ان رسوا کرنے والی کیفیتوں کو ناپسند کرتی ہوں. میں ہر چھوٹی بڑی نعمت پر اسکا شکر ادا کرتی ہوں. لیکن یہ کیفیات اور عبادات میں خلل میرے لیے سخت تکلیف دہ ہے. مجھے خود بھی نہیں معلوم کہ ایسا کیوں ہے.
برائے مہربانی، میری رہنمائی کیجئے.
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کا یہ دکھ بھرا رسالہ پڑھ کر مجھے بھی بیحد دکھ ہے ، ان سارے دکھ بھرے مسائل سے نکلنے کا راستہ یقینا آسان نہیں لگتا تاہم محال بھی نہیں ہے ، رب کریم ہرکسی کی مشکلیں آسان کرنے والا ہے وہ چاہے تو آپ جس وجہ سے ان سارے مسائل سے دوچار ہیں سب کچھ ٹھیک کرسکتا ہے اور دل کی گہرائی سے اس مالک کون ومکاں کے حضور دعاگو ہوں کہ آپ کی ساری مشکلیں آسان فرمائے۔ ان سارے مسائل پہ مزید غوروفکر کرتا ہوں اورجلد کو آپ کو اپنی رائے سے باخبر کرتا ہوں ۔
 
شمولیت
مئی 20، 2017
پیغامات
269
ری ایکشن اسکور
36
پوائنٹ
66
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کا یہ دکھ بھرا رسالہ پڑھ کر مجھے بھی بیحد دکھ ہے ، ان سارے دکھ بھرے مسائل سے نکلنے کا راستہ یقینا آسان نہیں لگتا تاہم محال بھی نہیں ہے ، رب کریم ہرکسی کی مشکلیں آسان کرنے والا ہے وہ چاہے تو آپ جس وجہ سے ان سارے مسائل سے دوچار ہیں سب کچھ ٹھیک کرسکتا ہے اور دل کی گہرائی سے اس مالک کون ومکاں کے حضور دعاگو ہوں کہ آپ کی ساری مشکلیں آسان فرمائے۔ ان سارے مسائل پہ مزید غوروفکر کرتا ہوں اورجلد کو آپ کو اپنی رائے سے باخبر کرتا ہوں ۔
السلام عليكم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
امید ہے کہ آپ فضل اللہ تعالیٰ، خیریت سے ہیں .
شیخ محترم، الحمد للہ، اللہ تعالیٰ کی بے پناہ رحمتوں سے طبیعت مزاج اور زندگی بھی مثبت ڈگر پر ہے.
آپ سے دعا کی درخواست ہے کہ معاملات میں جو ایک قدم کا فاصلہ رہ گیا ہے، اللہ تعالیٰ اپنی رحمتوں سے اس تک پہنچا دے. الله کی قسم، "اللہ لطیف بعباده" کا عکس اپنی زندگی میں دیکھ رہی ہوں. اللہ تعالیٰ صبر و استقامت عطا فرما دے. آمین ثم آمین
 

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,391
ری ایکشن اسکور
452
پوائنٹ
209
السلام عليكم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
امید ہے کہ آپ فضل اللہ تعالیٰ، خیریت سے ہیں .
شیخ محترم، الحمد للہ، اللہ تعالیٰ کی بے پناہ رحمتوں سے طبیعت مزاج اور زندگی بھی مثبت ڈگر پر ہے.
آپ سے دعا کی درخواست ہے کہ معاملات میں جو ایک قدم کا فاصلہ رہ گیا ہے، اللہ تعالیٰ اپنی رحمتوں سے اس تک پہنچا دے. الله کی قسم، "اللہ لطیف بعباده" کا عکس اپنی زندگی میں دیکھ رہی ہوں. اللہ تعالیٰ صبر و استقامت عطا فرما دے. آمین ثم آمین
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
یقینا اللہ اپنے بندوں کی مدد کرتا ہے ، مشکلیں آسان کرنے والا ہے اور ہمہ وقت وہ پکارنے والے کی پکار سنتا ہے ۔ آپ کے معاملے کی آسانی اور مثبت فکر پہ مجھے بیحد خوشی ہے ۔ رب العالمین سے دعا کرتا ہوں جو ایک قدم کا فاصلہ رہ گیا ہے وہ جلد طے ہوجائے اور زندگی میں خوشیوں کی بہار آجائے ۔آمین
 
شمولیت
مئی 20، 2017
پیغامات
269
ری ایکشن اسکور
36
پوائنٹ
66
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
یقینا اللہ اپنے بندوں کی مدد کرتا ہے ، مشکلیں آسان کرنے والا ہے اور ہمہ وقت وہ پکارنے والے کی پکار سنتا ہے ۔ آپ کے معاملے کی آسانی اور مثبت فکر پہ مجھے بیحد خوشی ہے ۔ رب العالمین سے دعا کرتا ہوں جو ایک قدم کا فاصلہ رہ گیا ہے وہ جلد طے ہوجائے اور زندگی میں خوشیوں کی بہار آجائے ۔آمین
آمین و جزاک اللہ خیرا و بارك الله فيك
 

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,391
ری ایکشن اسکور
452
پوائنٹ
209
بنت حواکے مسائل اور ان کا شرعی حل (قسط نمبرگیارہ)

جوابات ازشیخ مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوۃ سنٹر، شمالی طائف (مسرہ)

سوال(1): ایک عورت کا خلع ہوا اور اسی دن حیض آیا تو اس کی عدت کب ختم ہوگی ؟
جواب : سب سے پہلے تو ہمیں یہ جاننا ہے کہ حیض کی حالت میں خلع ہوگا کہ نہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ حیض کی حالت میں بھی خلع واقع ہوجائے گا۔ اور خلع کی عدت میں علماء کے درمیان اختلاف ہے تاہم صحیح بات یہ ہے کہ خلع کی عدت ایک حیض ہے اور جس حیض میں خلع واقع ہوا ہے اس کا شمار نہیں ہوگا بلکہ اس حیض سے پاک ہوکر جب اگلا حیض آجائے تب عدت پوری ہوگی ۔ابن قدامہ نے المغنی میں لکھا ہے کہ حیض میں طلاق دی جائے تو اس کا شمار عدت میں نہیں ہوگا اس بات میں اہل علم کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے ۔
سوال(2): کیا عورت جوڑا بناکر نماز پڑھ سکتی ہے؟
جواب : صحیح مسلم(2128) میں جہنمی عورتوں کی ایک صفت بتلائی گئی ہے: رُؤُوسُهُنَّ كَأَسْنِمَةِ البُخْتِ المائِلَةِ یعنی ان کے سربختی اونٹ کی کوہان کی طرح ایک طرف جھکے ہوئے ہوں گے ۔ محدثین نے اس کے کئی معانی بیان کئے ہیں ان میں ایک معنی امام نووی نے قاضی کی طرف منسوب کرکے یہ بھی بیان کیا ہے کہ بال اکٹھا کرکے درمیانی سر کے اوپر جمع کرلینا جو بختی اونٹ کی کوہاں کی طرح معلوم ہوتا ہے۔ اس طرح مسلمان عورت کے بالوں کا جوڑا بنانا جائز نہیں ہے ۔
اگر کسی عورت نے لاعلمی میں اس حالت میں نماز پڑھ لی بشرطیکہ بال ڈھکے ہوئے تھے تو اس کی نماز صحیح ہے، دہرانے کی ضرورت نہیں ہے تاہم یہ عمل نہ نماز میں درست ہے اور نہ ہی نماز کے باہر لہذا ہمیشہ کے لئے اس عمل سے باز رہے ۔

سوال(3): شوہر کی اجازت کے بغیر عورت کا گھر سے نکلناکیسا ہے ؟
جواب : اللہ نے عورتوں کو گھروں میں سکونت اختیار کرنے کا حکم دیا ہے ، فرمان الہی ہے : وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ(الاحزاب:33) ترجمہ:اور اپنے گھروں میں قرار سے رہو۔
یہی وجہ ہے کہ احادیث میں عورتوں کے متعلق گھر سے نکلتے وقت اجازت طلب منقول ہے ۔ صحیحین میں مذکور ہے کہ جب عائشہ رضی اللہ عنہا والد کے گھر جانے کا ارادہ فرمائیں تو رسول اللہ ﷺ سے کہا: أتأذن لي أن آتي أبوي(صحیح البخاري:4141وصحیح مسلم:2770).
ترجمہ: کیا آپ مجھے والدین کے گھر جانے کی اجازت دیتے ہیں ؟
نبی ﷺ کا فرمان ہے:إِذَا اسْتَأْذَنَكُمْ نِسَاؤُكُمْ باللَّيْلِ إلى المَسْجِدِ، فَأْذَنُوا لهنَّ.(صحيح البخاري:865)
ترجمہ:اگر تمہاری بیویاں تم سے رات میں مسجد آنے کی اجازت مانگیں تو تم لوگ انہیں اس کی اجازت دے دیا کرو۔
ان نصوص سے اور اس معنی کی دوسری دلائل سے معلوم ہوتا ہے کہ بیوی شوہر کی اجازت کے بغیر گھر سے باہر نہیں جاسکتی ہے اور جب شوہر نے خصوصیت کے ساتھ باہر جانے سے منع کیا ہوایسے میں باہر نکلنا سخت قسم کی نافرمانی اور گناہ کا باعث ہے۔

سوال(4) : نوجوان خاتون کا مرد معلم سے قرآن کی قرات سیکھنا کیسا ہے ؟
مردوں کا عورتوں سے اور عورتوں کا مردوں سے دین سیکھنا جائز ہے ، یہ دونوں شکلیں عہد رسول میں پائی جاتی ہیں ۔ صحابہ کرام ازواج مطہرات سے مسائل پوچھا کرتے تھے اور صحابیات رسول اکرم ﷺ سے سوال کیا کرتی تھیں ۔ مسلم سماج میں کہیں کہیں جوان لڑکی امام اور مولوی صاحب کے سامنے بلاحجاب تعلیم حاصل کرتی ہے جہاں بسا اوقات خلوت بھی ہوتی ہے اور بسا اوقات اور بھی لڑکیاں ہوتی ہیں ۔ یہ بڑے فتنے کا باعث ہے ، اپنے سماج سے اس پرفتن اور ناجائزطریقہ تعلیم کوختم کریں۔ رہا مسئلہ پردے کے پیچھے سے بغیر اختلاط وخلوت کے اور شرعی حدود کی رعایت کرتے ہوئےمدرسہ یا کسی جگہ تعلیم دینے کا تو یہ صورت جائز ہے ،ایسی جگہ پہ لڑکیاں اور عورتیں مردوں سے تعلیم حاصل کرسکتی ہیں ۔
سوال(5): گھروں میں چیوٹیاں تکلیف دیں تو انہیں مارنا چاہئے کہ نہیں ؟
جواب : نبی ﷺ نے چیونٹی کو مارنے سے منع فرمایا ہے جیساکہ ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں :
إنَّ النبيَّ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ نهى عن قتلِ أربعٍ من الدوابِّ ؛ النملةِ، والنحلةِ، والهدهدِ، والصّردِ(صحيح أبي داود:5267)
ترجمہ: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے چار جانوروں کے قتل سے روکا ہے چیونٹی، شہد کی مکھی، ہد ہد، لٹورا چڑیا۔
اس حدیث کی شرح میں عون المعبود میں مذکور ہے کہ جو چیونٹی ضرر پہنچانے والی ہو اسے مار سکتے ہیں ۔ یہاں پر بڑے پاؤں والی سلیمانی چیونٹی مراد ہے کیونکہ وہ کم نقصان پہنچانے والی ہے لیکن چھوٹی چیونٹی زیادہ ضرر رساں ہوتی ہے اسے مار سکتے ہیں۔ امام مالک نے کہا کہ اگر چیونٹی ضرر رساں ہو اور ضرر دور کرنے کے لئے قتل کے علاوہ کوئی راستہ نہ ہو تو مار سکتے ہیں ۔ خلاصہ یہ ہوا کہ گھروں میں موجود چھوٹی چیونیاں جو ضرر پہنچاتی ہوں انہیں قتل کرسکتے ہیں ۔

سوال(6) : باپ کا اپنے بیٹے کی سالی سے نکاح کرنے کا حکم کیا ہے ؟
جواب : باپ کا اپنے بیٹے کی سالی اور اسی طرح بیٹے کی ساس سے نکاح کرنا جائز ہے کیونکہ وہ محرمات میں سے نہیں ہیں ۔
سوال(7): گھروں میں کام کرتے وقت ٹیپ وغیرہ سے قرآن کی تلاوت لگاسکتے ہیں تاکہ تلاوت سے بھی فائدہ اٹھائیں اور کام بھی کرتے رہیں ؟
جواب : سورہ اعراف میں حکم دیا گیا ہے کہ جب قرآن کی تلاوت ہو تو دھیان سے سنو اورخاموشی اختیار کرو، یہ حکم اللہ نے اس وقت دیا جب کفار تلاوت کے وقت شور مچایا کرتے تھے جیساکہ فصلت میں کفار کا حال مذکور ہے وہ کہتے تھے اس قرآن کو نہ سنواور اس کے پڑھے جانے کے وقت شور وغل مچایاکرو۔
قرآن کی تلاوت کے آداب میں سے ہے کہ اسے غور وفکرسے سنا جائے اور عورتیں اپنے گھروں اور مطبخ میں کام کرتے وقت خاموشی سے تلاوت بھی سننا چاہیں تو کوئی حرج نہیں ہے لیکن اس جگہ شورشرابہ ہو تو تلاوت نہ لگائی جائے کیونکہ ایسے میں قرآن کی اہانت ہوتی ہے ۔ تلاوت سے اصل مقصود ہے خاموشی سے اس کے معانی پہ غوروفکر کیا جائے تاہم جو عربی نہ سمجھے اس کے لئے بغیر غوروفکر کے بھی دھیان سے اور خاموشی کے ساتھ قرآن سننا باعث اجر ہے ۔

سوال(8): جنبی عورت کا وضو کرکےمسجد یا اس کے صحن میں بیٹھنا کیسا ہے ؟
جواب : اللہ کےفرمان: "وَلَا جُنُبًا إِلَّا عَابِرِي سَبِيلٍ(النساء:43) کا ایک مطلب اہل علم نے یہ لیا ہے کہ جنابت کی حالت میں مسجد کے اندر مت بیٹھو ،ہاں مسجد سے گزرنے کی ضرورت ہو تو گزر سکتے ہیں ۔
لہذا اس بات میں اختلاف نہیں ہے کہ ضرورت کے وقت جنبی مسجد سے گزر سکتا ہے یا مسجد میں مختصر وقت کے لئے داخل ہوسکتا ہے تاہم دیر تک مسجد میں ٹھہر سکتا ہے کہ نہیں ، اس میں اختلاف ہے ۔ بعض اہل علم نے کہا ہے کہ وضو کرنے کے بعد ناپاکی کم ہوجاتی ہے اس وجہ سے مسجد میں جنبی وضو کے بعد ٹھہر سکتا ہے ۔ دلیل میں عطاء کا یہ قول پیش کیا جاتا ہے :
رأيتُ رجالًا من أصحاب رسول الله صلَّى اللهُ عليه وسلَّم يجلسونَ في المسجدِ وهم مُجنِبونَ إذا توضَّؤوا وضوءَ الصَّلاةِ۔
ترجمہ: میں نے اصحاب رسول کو نماز کی طرح وضو کرکے مسجد میں بیٹھتے دیکھا اس حال میں کہ وہ جنبی تھے ۔
اس کی سند کو شمس الحق عظیم آبادی نے صحیح کہا ہے ۔(غاية المقصود:2/291)ابن کثیر نے مسلم کی شرط پہ کہا ہے ۔
شیخ صالح فوزان نے الملخص الفقہی میں کہا کہ جس کو حدث اکبر لاحق ہو وہ وضو کرلے تو اس کے لئے مسجد میں ٹھہرنا جائز ہوگیا انہوں نے دلیل کے طور پر مذکورہ قول پیش کیا ہے ۔
جہاں تک نبی ﷺ کا یہ فرمان کہ میں حائضہ اور جنبی کے لئے مسجد کو حلال نہیں سمجھتا ، اسے شیخ البانی نے ضعیف کہا ہے ۔

سوال(9): حیض سے پاک ہوکر غسل کرنے سے پہلے جماع کرنے کا حکم کیا ہے ؟
جواب : سورہ بقرہ کی آیت نمبر دو سو بائیس میں اللہ نے حکم دیا ہے کہ حیض کی حالت میں عورتوں سے الگ رہو اور جب وہ پاک ہوجائیں تب ان کے پاس جاؤ۔ اہل علم نے اس مسئلہ میں اختلاف کیا ہے کہ حیض سے پاک ہونے پر جماع کرنا جائز ہے یا غسل جنابت کے بعد ہی جماع کرسکتے ہیں ۔ راحج معلوم ہوتا ہے کہ جب عورت حیض سے پاک ہوجائے اور غسل جنابت کرلے تب جماع کرے ۔ اس بات کو علامہ ابن کثیر نے مذکورہ آیت کی تفسیر میں علماء کا متفقہ مسئلہ کہاہے۔
سوال(10): پیار ومحبت کے طور پر میاں بیوی ایک دوسرے کے سامنے گانا گا سکتے ہیں ؟
جواب : مجرد گانا منع نہیں بلکہ لغو، جھوٹ ،فحش اور بےہودہ گوئی منع ہے یا ایسا گانا منع ہے جو آلات موسیقی یا رقص پہ گایا جایا۔مجرد صحیح کلام جو لحن سے پڑھا جائے اس کی ممانعت نہیں ہے اس لئے میاں بیوی صحیح باتیں ایک دوسرے کے سامنے گاسکتے ہیں ۔
سوال (11):کیا عورت جماعت سے نماز پڑھے تو وہی ثواب ملے گا جو مردوں کے لئے ہے؟
جواب : عورتوں کی نماز گھر میں افضل ہے اگرچہ وہ اکیلے پڑھتی ہو اور جماعت سے نمازپڑھنے کا ستائیس گنا ثواب یہ مردوں کے ساتھ ہی خاص ہے کیونکہ وہ جماعت سے نماز پڑھنے کا حکم دئے گئے جبکہ عورتوں کو جماعت سے نماز پڑھنے کا حکم نہیں دیا گیا ہے ۔ عورتوں کا جماعت سے نماز پڑھنا محض جواز کی حیثیت رکھتا ہے نہ کہ وجوب اور افضلیت کا۔
سوال(12):خلع کے بعد میاں بیوی پھر سے لوٹنا چاہیں تو رجوع کا کیا طریقہ ہوگا؟
جواب : خلع کے بعد مرد کو طلاق کی طرح رجوع کا حق نہیں ہے کیونکہ خلع طلاق نہیں ہے بلکہ یہ فسح نکاح ہے جس میں رجعت نہیں ہے ۔ ہاں بیوی کی رضامندی کے ساتھ شوہر عدت کے دوران یا عدت کے بعد بھی نئے نکاح اور مہر جدیدکے ساتھ اکٹھا ہوسکتا ہے ۔
سوال(13):نفاس کی عدت میں اگر شوہر نے بیوی سے جماع کرلیا تو کیا حکم ہے ؟
جواب : حیض اور نفاس میں جماع کا حکم یہ ہے کہ ایک دینار یا آدھا دینار صدقہ کرے نیز اللہ سے سچی توبہ بھی کرے ۔
سوال(14):میاں بیوی الگ رہتے ہوں وہ اگر اپنی اپنی نیکیاں ایک دوسرے سے بیان کریں تو کیا ریاکاری میں شمار ہوگی ؟
جواب : اطلاع کی غرض سے میاں بیوی ایک دوسرے سے نیکی کا کام ذکر کریں تو اس میں مضائقہ نہیں ہے مثلا بیوی کہے کہ ابھی نماز پڑھ رہی ہو یا تلاوت کررہی ہو، آج روزے سے ہوں اور شوہر کہے کہ میں نے زکوہ کا مال محتاجوں میں تقسیم کردیا ۔
اگر ایک دوسرے سے نیکی بیان کرنے کا مقصد تعریف حاصل کرنا ہے تو اس سے بچنا چاہئے ۔ نہ جانے کس بہانے آپ کی نیت میں فتور پیدا ہوجائے اور عبادت ریاکاری میں تبدیل ہوجائے ۔ ویسے بھی شیطان انسان کے ساتھ لگا ہوا ہے وہ انسانی دلوں میں وسوسے اور بہکاوے ڈالتا رہتا ہے ۔ ہم شیطان کو اپنے اوپر غلبہ پانے کا موقع نہ دیں ۔

سوال(15):عورت کبھی کبھار گھر میں اکیلی ہوتی ہے خصوصا جب شوہر باہر ہو تو کیا یہ منع ہے کیونکہ میں نے سنا ہے اکیلے نہیں رہنا چاہئے ؟
جواب: بستی میں آپ اپنے گھر میں اکیلے رہتے ہیں تو یہ معیوب نہیں۔ ہاں معیوب یہ ہے کہ کوئی لوگوں سے مل جل کر نہ رہے یعنی الگ تھلگ رہیں، کسی سے کوئی مطلب یا تعلق نہ ہو ۔نبی ﷺ کا فرمان ہے :
المؤمنُ الَّذي يخالطُ النَّاسَ ويصبرُ على أذاهم أعظمُ أجرًا منَ المؤمنِ الَّذي لاَ يخالطُ النَّاسَ ولاَ يصبرُ على أذاهم(صحيح ابن ماجه:3273)
ترجمہ: وہ مومن جو لوگوں سے مل جل کر رہتا ہے، اور ان کی ایذاء پر صبر کرتا ہے، تو اس کا ثواب اس مومن سے زیادہ ہے جو لوگوں سے الگ تھلگ رہتا ہے، اور ان کی ایذاء رسانی پر صبر نہیں کرتا ہے۔

سوال(16):کوئی گھر میں سویا ہوا ہو اس کے پاس نماز پڑھنا کیسا ہے؟
جواب : اصل میں لوگوں میں غلط فہمی کا سبب یہ ہے کہ میت کو سامنے رکھ کرجنازہ کی نماز پڑھی جاتی ہے اس وجہ سے سوئے ہوئے آدمی کے پاس اس طرح نماز نہیں پڑھی جاسکتی۔ یہ خیال غلط ہے کیونکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں:
كانَ النبيُّ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ يُصَلِّي وأَنَا رَاقِدَةٌ مُعْتَرِضَةً علَى فِرَاشِهِ، فَإِذَا أرَادَ أنْ يُوتِرَ أيْقَظَنِي، فأوْتَرْتُ.(صحيح البخاري:997)
ترجمہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم (تہجد کی) نماز پڑھتے رہتے اور میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بستر پر عرض میں لیٹی رہتی۔ جب وتر پڑھنے لگتے تو مجھے بھی جگا دیتے اور میں بھی وتر پڑھ لیتی۔
لہذا گھر میں کوئی سویا ہو تو اس کے پاس نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔

سوال(17):کیا خالہ ماں کے برابر اور چچا باپ کی طرح ہے ؟
ہاں خالہ ماں کے درجہ میں ہے ، نبی ﷺ فرماتے ہیں :
الخَالَةُ بمَنْزِلَةِ الأُمِّ(صحيح البخاري:2699)
ترجمہ: خالہ ماں کے درجے میں ہے۔
اور چچا کے متعلق وارد ہے:العمُّ والِدٌ۔(صحيح الجامع:4142)
ترجمہ: چچا والد کے درجہ میں ہے ۔

سوال(18):گھر بدلنے کے لئے کیا کوئی دن افضل ہے ؟
جواب : گھر بدلنے کا نہ کوئی خاص دن ہے ، نہ ہی کوئی خاص طریقہ ہے اور نہ ہی کوئی دعا ہے ۔آپ کے لئے جب مناسب ہو اور جس طریقے سے آسانی ہو گھر بدل سکتے ہیں ۔
سوال(19):کیا بیوی کی وفات پر شوہر کے لئے بھی سوگ منانا ہے جیسے شوہر کی وفات پہ بیوی مناتی ہے ؟
جواب : سوگ منانا عورتوں کے ساتھ خاص ہے ،مردوں پر کوئی سوگ نہیں ہے ۔
سوال(20):کیا آج کل کے فتنے کے زمانے میں جوان سسر سے پردہ کرناچاہئے ؟
جواب : سسر سے پردہ نہیں ہے کیونکہ وہ محرم ہے لیکن اگر بہو کوپتہ چلے کہ اس کا سسر بدکردار ہے تو اس سے خود کو محفوظ رکھے۔
 

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,391
ری ایکشن اسکور
452
پوائنٹ
209
بنت حوا کے مسائل اور ان کا شرعی حل (بارہویں قسط)
جواب ازشیخ مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوۃ سنٹرشمالی طائف(مسرہ)

سوال(۱):کیا شہید کی بیوی پر عدت ہے؟
جواب : اللہ تعالی کا فرمان ہے : وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا يَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِهِنَّ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا ۖ(البقرة:234)
ترجمہ: تم میں سے جو فوت ہوجائیں اور بیویاں چھوڑ جائیں وہ عورتیں اپنے آپ کو چار مہینے اور دس دن عدت میں رکھیں ۔
اللہ کے اس فرمان کے مطابق ہر عورت جس کا شوہر وفات پاجائے یاقتل و شہید کردیاجائے چارماہ دس د ن عدت گزارے گی سوائے حاملہ عورت کے ۔ حمل والی عورت کی عدت وضع حمل ہے یعنی جب بچے کی پیدائش ہوگی اس وقت عدت مکمل ہوگی ۔
سنن اربعہ میں زینب بنت کعب بن عجرہ کا واقعہ ہے جن کے شوہر ابوسعید خدری ؓ شہید (غلام نے قتل کیا)ہوگئے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں چار ماہ دس دن عدت گزارنے کا حکم دیا ۔(صحيح أبي داود:۲۳۰۰، صحيح الترمذي:۱۲۰۴، صحيح النسائي:۳۵۳۲، صحیح سن ابن ماجہ: ۲۰۳۱)

سوال(۲):بلاضرورت خلع طلب کرنے والی عورت کا کیا حکم ہے ؟
جواب : نکاح مردوعورت کے لئے سکون زندگی ہے جس کی بنیاد پاکیزہ اصولوں پر قائم ہے ۔ اس رشتے کو بلاسبب توڑنے والا مرد یا توڑنے والی عورت اللہ کے یہاں گنہگار ٹھہریں گے ۔ عورت کے لئےبڑی سخت وعید آئی ہے ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
أيُّمَا امرأةٍ سألت زوجَها طلاقًا في غيرِ ما بأسٍ فحرامٌ عليها رائحةُ الجنةِ(صحيح أبي داود:2226)
ترجمہ: جس عورت نے اپنے شوہر سے بغیر کسی ایسی تکلیف کے جو اسے طلاق لینے پر مجبور کرے طلاق کا مطالبہ کیا تو اس پر جنت کی خوشبو حرام ہے ۔
یہ طلاق کی وعید ہے جبکہ بلاسبب خلع طلب کرنا شمار کی علامت ہے ۔ ارشاد نبوی ہے:إِنَّ المختلِعاتِ والمنتَزِعاتِ ، هُنَّ : المنافِقاتُ (صحيح الجامع:1938)
ترجمہ: {بلا ضرورت } اپنے شوہروں سے چھٹکارا لینے اور خلع کرانے والی عورتیں ہی منافق ہیں ۔
ہاں ، اگر عورت شوہر میں دینی ، اخلاقی، معاشرتی اور مردانہ خرابی پائے تو خلع طلب کرسکتی ہے اس صورت میں کوئی گناہ نہیں ہوگا۔

سوال(۳):عورت سر کا مسح کیسے کرے جبکہ گھنے بال ہونے کی وجہ سے پیچھے سے واپس ہاتھ لانے سے بال بکھرنے کا ڈر ہے اور سر بھی ننگا ہوگا؟
جواب : عورت ومرد کے مسح میں کوئی فرق نہیں ہے ، اللہ تعالی کا فرمان ہے :"وَامْسَحُوا بِرُءُوسِكُمْ" یعنی اپنے سروں کا مسح کرو ۔ یہ فرمان مردوعورت دونوں کو شامل ہے ۔ نبی نے ہمیں مسح کا طریقہ یہ بتلایا کہ تر ہاتھوں کو سر کے اگلے حصے پر پھیرتے ہوئے گدی تک لے جائیں اور پھر واپس آگے کی طرف لے آئیں اور شہادت کی انگلی سے کان کا اندرونی حصہ اور انگوٹھے سے بیرونی حصہ مسح کریں ۔
عورت کو اپنا بال ننگا کرنے کی ضرورت نہیں ہے اور نہ ہی چوٹی ہو تو کھولنے کی ضرورت ہے ۔ دوپٹے کے اندر سے بالوں پر ہاتھ پھیرلیں اور اجنبی مرد آس پاس نہ ہو تو سر ننگا ہونے اور بال بکھرنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔

سوال(۴):بیوی نے پہلے مہر معاف کردیا پھر مہر کا مطالبہ کررہی ہے ایسا کرنا کیسا ہے ؟
جواب: اگر عورت کو مہر معاف کرنے کے لئے سسرال والے یا شوہر نے دھمکی یا طلاق کا خوف دلاکر مجبور کیا ہو اور مجبور ہوکربیوی نے مہر معاف کردیا ہو ایسی صورت میں یہ معاف کرنا لغو ہوگا اور شوہر کے ذمہ مہر باقی رہےگا اور بیوی مہر طلب کرے تو ادا کرنا واجب ہوگا، مطالبہ نہ بھی کرے تب بھی شوہر کو دینا ہوگا لیکن اگر بیوی نے ہوش وحواش میں اپنی مرضی سے معاف کردیا یا مہر لینے کے بعد شوہر کو ہدیہ کردیا تو دوبارہ مہر مانگنے کا حق بیوی کو نہیں ہے جیساکہ اللہ کا فرمان ہے: وَآتُوا النِّسَاءَ صَدُقَاتِهِنَّ نِحْلَةً ۚ فَإِن طِبْنَ لَكُمْ عَن شَيْءٍ مِّنْهُ نَفْسًا فَكُلُوهُ هَنِيئًا مَّرِيئًا (النساء:4)
ترجمہ:اور عورتوں کو ان کے مہر راضی خوشی دے دو ، ہاں اگر وہ خود اپنی خوشی سے کچھ مہر چھوڑ دیں تو اسے شوق سے خوش ہو کر کھالو ۔
اس آیت سے معلوم ہوا کہ بیوی خوش دلی سے کچھ مہر یا سارا معاف کردے تو شوہر کے لئے حلال ہے اور خوش دلی سے معاف کئے ہوئے مہر کا دوبارہ مطالبہ کرنا بیوی کے لئے جائز نہیں ہے ۔

سوال(۵):ایک عورت کو حیض آیا ہے مگر وہ شرم کی وجہ سے جماعت والی نماز میں شامل ہونا چاہتی ہے تاکہ کسی کو حیض کا علم نہ ہو ، کیا اس کا ایسا کرنا ٹھیک ہے ؟
جواب : اللہ تعالی نے دین کے احکام بتانے میں شرم نہیں کیا اور نہ اس کے رسول نے شرم کیا جبکہ آپ بہت ہی حیا والے تھے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد کی خواتین نے دینی احکام کی جانکاری حاصل کرنے میں بھی کسی قسم کی شرم محسوس نہیں کیں ۔ اللہ نے قرآن میں ذکر کیا کہ اے نبی آپ سے لوگ حیض کے بارے میں سوال کرتے ہیں اور اسی طرح حدیث میں مذکور ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ہم عہد رسول میں حیض سے ہوتے تو ہمیں صرف روزے کی قضا کا حکم دیا جاتا اور نماز کی قضا کا حکم نہیں دیا جاتا۔ ان باتوں کے ذکر کا مقصد یہ ہے کہ کسی عورت کو حیض آجائے تو شرم کی وجہ سے نماز نہ پڑھے ، نبی نے حیض والیوں کو نماز اور روزہ سے منع فرمایا ہے :
أَليسَ إذَا حَاضَتْ لَمْ تُصَلِّ ولَمْ تَصُمْ، فَذلكَ نُقْصَانُ دِينِهَا(صحيح البخاري:1951)
ترجمہ:کیا جب عورت حائضہ ہوجاتی ہے تو نمازاورروزہ نہیں چھوڑ دیتی ؟ یہی اس کے دین کا نقصان ہے۔
اگر کسی عورت نے یہ جانتے ہوئے کہ وہ حیض کی حالت میں ہے پھر بھی نماز پڑھ لی ہے تو اسے اللہ سے توبہ واستغفار کرنا چاہئے اورہمیشہ کے لئے اس عمل سے باز رہنا چاہئے ۔

سوال(۶):چھوٹے بچیوں کو بنا بازو کے رنگین اور بھڑکیلے لباس پہننانے کا کیا حکم ہے جبکہ آج کل یہ سماج میں عام ہے؟
جواب: بچیوں کے لباس بھی ہمیں صحیح اختیار کرنا چاہئے ۔ یہ نہ بھولیں کہ ہم مسلمان ہیں اور آج کل خواتین کے جو کپڑے ریڈی میڈ ملتے ہیں اکثر فاحشہ عورتوں کی ہوتی ہیں ۔ بچپن سے ہمیں اپنی بچیوں کو اسلامی ماحول میں ڈھالنا ہے ،اسلام نے ہمیں بچوں کی اسلامی تربیت کا حکم دیا ہے ، جب لڑکیوں سے تربیت چھین لیں گے تو آگے وہ اسلام پر کیسے چلے گی ؟۔
ذرا سوچیں کہ جس بچی کو بچپن سے رنگین اور چھوٹے چھوٹے کپڑوں کی عادت ہوجائے وہ بعد میں پردہ کیسے کرے گی ؟آج جس قدر فتنہ عام ہے اس کے حساب سے بچپن سے بچیوں کی سخت نگرانی کے ساتھ اچھی تربیت کی ضرورت ہے تاکہ بدقماشوں کی بھینٹ نہ چڑھے اور نظر بد کا بھی اپنی جگہ مسئلہ ہے اچھوں کی بھی نظر لگ سکتی ہے ۔ اس لئے اپنی بچیوں کو اسلامی ماحول دیں ۔

سوال(۷): گھر میں غیر مسلم خادمہ سے کام لینا جائز ہے ؟
جواب: نوکرانی مسلم ہو یا غیرمسلم ،اس کے بڑے مفاسد ہیں ۔ اگر شرعی حدود میں رہ کر نوکرانی سے کام لیا جائے تو اس سے گھریلو کام لینے میں حرج نہیں ہے ۔ شرعی حدود میں سب سے اہم مردوزن کا اختلاط نہ ہوناہے۔ اگر گھر میں نوکرانی کا سامنا مردوں سے ہو ، کھانے پینے کی چیز اس کے سامنے پیش کرے ، کام کرتے اختلاط ہو یا مرد کے ساتھ خلوت ہو تو ان صورتوں میں نوکرانی سے کام لینا جائز نہیں ہے۔ نوکرانی سے کام لیتے وقت بڑے احتیاط کی ضرورت ہے اور مسلم خادمہ ہو تو بہتر ہے کہ وہ نظافت، پردہ اور دین واخلاق کا اہتمام کرسکے ۔
سوال(۸):ایک شخص کو دو بیوی تھی، ایک پاس میں رہتی تھی اور دوسری الگ رہا کرتی تھی،اب اس کے شوہر کا انتقال ہوگیا ہے ایسی صورت میں کیا دونوں عورت پر عدت ہے یا صرف اس عورت پر جو پاس میں رہا کرتی تھی ؟
جواب : ایک شخص کی دو،تین یا چارجتنی بیویاں (اسلام میں مرد کو چار بیوی تک کی اجازت ہے)ہوں ، شوہر کی وفات پر ساری بیویاں عدت گزاریں گی خواہ وہ شوہر کے ساتھ رہتی ہوں یا الگ الگ ۔
سوال(۹):جو عورت شوہر کی وفات کی عدت میں ہو کیا وہ عید گاہ جا سکتی ہے اور عید کے دن نئے لباس اورزینت کی چیزیں استعمال کر سکتی ہے؟
جواب : جب زینب بنت کعب بن عجرہ کے شوہر شہید کردئے گئے اور انہوں نے نبی سے کہا اگر آپ مناسب سمجھیں تو مجھے اجازت دے دیں کہ میں اپنے اقارب اور اپنے بھائیوں کے گھر چلی جاؤں توآپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں حکم دیا:امْكُثي في بيتِكِ الَّذي جاءَ فيهِ نعيُ زوجِكِ حتَّى يبلغَ الْكتابُ أجلَهُ(صحيح ابن ماجه:۱۶۶۴)
ترجمہ: جب تک اللہ کی مقرر کردہ مدت (موت کی عدت) پوری نہیں ہو جاتی، اسی گھر میں رہائش رکھو جہاں تمہیں اپنے خاوند کی وفات کی خبر پہنچی۔
یہ حدیث اور اس معنی کی متعدد احادیث سے معلوم ہوتا ہے عورت شوہر کی وفات پہ لازمی طور پر شوہر کے گھر میں ہی عدت وفات گزارے گی اور بلاضرورت، بغیر کسی عذر کے گھر سے قدم نہیں نکالے گی ۔
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے متوفی عنہا زوجہا کی عدت میں نمازعید سے متعلق سوال کیا گیا تو انہوں نے جواب دیا کہ جس کا شوہر وفات پاجائے اس کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے پڑوسی یا رشتہ داریا نمازعید یا اس کے مثل کسی کام کے لئے گھر سے نکلے بلکہ وہ اپنے گھر میں باقی رہے گی ۔ (فتاوى نور على الدرب)
اس بنیاد پرعورت نمازعید کے لئے گھر سے باہر نہیں نکلے گی اور نہ ہی وہ اس دن زینت کی چیزیں استعمال کرے کیونکہ وہ سوگ منارہی ہے اور سوگ میں زینت اختیار کرنا منع ہے ۔

سوال(۱۰):میت کو وضو کرانے کا کیاحکم ہے ؟
جواب : میت کو غسل دیتے وقت پہلے ناپاکی کی صفائی کی جائے پھر وضو کرایا جائے گا۔ میت کے حق میں وضو ضروری نہیں ہے بلکہ مستحب ہے جیساکہ عام غسل طہارت میں مستحب ہے ۔ ام عطیہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی صاحبزادی (زینب رضی اللہ عنہا) کی وفات پر غسل دینے کے وقت فرمایا تھا:ابْدَأْنَ بمَيَامِنِهَا ومَوَاضِعِ الوُضُوءِ منها.(صحيح البخاري:167)
ترجمہ:غسل داہنی طرف سے دو اور اعضائے وضو سے غسل کی ابتداء کرو۔
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میت کی نجاست اور ناپاکی دور کرنے کے بعد استحبابی طور پر وضو کرایا جائے گا ، یہ وضو وجوبی طورپر نہیں ہے اس کی دلیل ایک صحابی کا واقعہ ہے جو اونٹنی سے گر کر وفات پاگیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پانی اور بیری سے غسل دینے کا حکم دیا ، آپ نے اسے وضو کرانے کا حکم نہیں دیا۔(الشرح الممتع)

سوال(۱۱):میت کے غسل وتکفین پہ غیر مسلم سے کام کاج کے لئے مدد حاصل کرنا شرعا کیسا ہے؟
جواب : بہتر اور افضل یہی ہے غسل وتکفین کا سارا کام مسلمان ہی انجام دے تاہم ناگزیر حالات میں میت کے غسل اور اس کی تجہیز وتکفین پہ بعض کام کاج کے واسطے غیرمسلم سے مدد لی جا سکتی ہے جیسے بازار سے کوئی سامان منگوانا تاہم خالص غسل اور تجہیزو تکفین کے لئے مدد نہیں لی جائے گی۔شیخ صالح فوزان نے بیان کیا ہے کہ کسی کافر کا مسلمان کو غسل دینا جائزنہیں ہے کیونکہ میت کو غسل عبادت ہے اورعبادت کسی کافر کی جانب سے صحیح نہیں ہوگی ۔
سوال(۱۲):کیا آپریشن کے بعد آنے والا خون نماز و روزہ کے لئے مانع ہے ؟
جواب : ولادت کے بعد آنے والا خون نفاس کا مانا جائے گا چاہے ولادت آپریشن سے ہو یا طبعی طورپر۔ اس بنا پر عورت کو جب تک نفاس کا خون آئے اسے نما زوروزہ سے رکنا ہوگا اور جب خون بند ہوجائے تب غسل طہارت کے بعد نماز شروع کرے ۔
سوال(۱۳):کیا بیوی شوہر سے تعلقاتی مردوں کے بارے میں جانکاری لے سکتی ہے تاکہ میاں بیوی کے درمیان فتنہ وفساد اور سماج میں شر پھیلانے سے روکا جا سکے ؟
جواب : یقینا بیوی کا حق ہے کہ اگر شوہر کے حلقہ احباب پر شک ہو تو اس کے ساتھیوں کے دین و اخلاق کی جانکاری حاصل کرے اور یہ یقین سے معلوم ہو جائے کہ فلان شخص میاں بیوی کے درمیان فساد پیدا کرنے والا ہے یا شوہر کو برائی کے راستے پر لے جانے والا ہے یا سماج میں شرانگیزی کرنے والا ہے تو اپنے شوہر کو اس آدمی سے دور رہنے کی تاکید کر سکتی ہے بلکہ سختی کے ساتھ بیوی کو منع کرنا چاہیے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
مَن رَأَى مِنكُم مُنْكَرًا فَلْيُغَيِّرْهُ بيَدِهِ، فإنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِلِسانِهِ، فإنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِهِ، وذلكَ أضْعَفُ الإيمانِ.(صحيح مسلم:29)
ترجمہ:جوشخص کوئی برائی دیکھے تو چاہئے کہ اس برائی کو اپنے ہاتھ سے بدل دے ، جسے اتنی طاقت نہ ہو وہ اپنی زبان سے اسے بدل دے اورجسے اس کی طاقت بھی نہ ہووہ اپنے دل میں اسے براجانے اوریہ ایما ن کا سب سے کمتردرجہ ہے۔

سوال(۱۴) : جیساکہ لوگوں میں دوا کھاتے وقت "ھوالشافی" کہنا رائج ہے کیا یہ دوا کھانے کی دعا ہے یا کوئی اور مخصوص دعا ہے ؟
جواب : نبی ﷺ سے دوا کھانے کی کوئی مخصوص دعا ثابت نہیں ہے۔ ھوالشافی عام طور سے مسلم اطباء نسخہ جات کے شروع میں لکھتے پڑھتے ہیں اس وجہ سے لوگوں میں یہ رائج ہوگیا ۔ اصل میں ھوالشافی عقیدہ ہے کہ دوا کھانے والا اس ایمان و یقین کے ساتھ دوا کھائے کہ یہ بذات خود فائدہ نہیں کرے گی ، شفا تو اصل میں اللہ تعالی دینے والا ہے ۔
کھانا کھاناہو، پانی پینا ہو، دوا کھانی یا پینی ہو شروع میں بسم اللہ کہیں جیساکہ حدیث سے ثابت ہے ۔ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی ﷺ فرماتے ہیں :
إذا أكَلَ أحدُكُم فليذكُرِ اسمَ اللَّهِ تعالى ، فإن نسِيَ أن يذكرَ اسمَ اللَّهِ تعالى في أوَّلِهِ فليقُلْ : بسمِ اللَّهِ أوَّلَهُ وآخرَهُ(صحيح أبي داود:3667)
ترجمہ : جب کوئی کھانا کھائے تو پہلے بسم اللہ کہے ۔اگر کھانے کے شروع میں بسم اللہ کہنا بھول جائے تو" بسمِ اللَّهِ أوَّلَهُ وآخرَهُ" (اس کھانے کا آغاز اور اختتام اللہ کے نام کے ساتھ کرتاہوں)کہے ۔

سوال(۱۵):کسی کا کوئی عزیز وفات پاجائے اور اس کی یاد آجائے ، اس کی یاد میں رونا آجائے تو کیا کیا جائے یعنی ایسا کیا جائے کہ دل کو تسلی ہو؟
جواب : میت پہ رونا ایک فطری امر ہے جسے روکنا مشکل ہے ،کچھ ایسے بھی عزیز ہوتے ہیں جن کی یاد مدتوں آتی ہے ۔ کسی فوت شدہ رشتہ دار کی یاد میں رونا آجائے اس سے کوئی گناہ نہیں ہے ۔ ہاں ایسا رونا منع ہے جس میں نوحہ خوانی یعنی گریبان چاک کرنا اور چیخنا چلانا ہو۔
اگر کسی کو میت کی یاد آجائے تو کثرت سے ان کے لئے استغفار کرے، استغفار سے ان کے درجات بلند ہوں گے ، دل کی تسلی کے لئے ان کی جانب سے صدقہ وخیرات بھی کرسکتے ہیں ۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ میت کی یاد سے ہمیں اپنا مرنا یاد آنا چاہئے ، ہمیں سوچنا چاہئے کہ یہاں کسی کو بقا نہیں ہے ، ہمیں بھی دنیا سے رخصت ہونا ہے ،جب یہ سوچ پیدا ہوگی تو نیک کام کا خیال آئے گا اور اس طرح دل کی تسلی کے ساتھ آخرت میں نجات کی کوشش کریں گے ۔
 
Top