• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

بے نمازی کی تکفیر؟

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
یہ حیث ملتی ہے:


واضح رہے کہ اس میں بھی حکم باجماعت نماز کا ہے۔ ۔ ۔تو بے نمازی کا کیا حکم ہو گا؟؟؟؟
باجی یہ صرف زجر وتوبیخ کے لیے ہے،آپ زرا شروحات حدیث کا مطالعہ کرین بات واضح ہو جائے گی
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
ایک حکم کافر کے ساتھ دنیا میں ہمارےتعامل کا ہے اور ایک آخرت میں ان کے انجام کا ہے میرے خیال میں ہم دینا میں تعامل کے مکلف ہیں آخرت میں مشرک کے علاوہ کس کی بخشش ہو گی یا نہیں ہم اس کے مکلف نہیں
میں نے کافی حد تک اس بحث کا مطالعہ کیا ہے اور سمجھتا ہوں کہ اس بحث کو پھیلا زیادہ دیا گیا ہے جس کی وجہ سے نتیجہ نہیں نکل رہا
میری تجویز ہے کہ پیلے ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ محل نزاع کیا ہے تو میری عقل کے مطابق مندرجہ ذیل دلائل سے موضوع کو فائدہ نہیں ہو گا
1۔شرک معاف نہیں باقی سب معاف ہے اسی طرح جس نے کلمہ پڑھا وہ جنت میں جائے گا اسی طرح امام احمد بن حنبل کا قول کہ شرک ہی انسان کو اسلام سے خارج کر سکتا ہے اسی طرح ایک پرچی والی حدیث اور اس جیسی تمام احادیث و اقوال- اس کی وجہ یہ ہے کہ ان تمام دلائل کو دینے والے بھی اس میں سے مستثنی نکالتے ہیں مثلا ان تمام دلائل کو جب منکرین زکوۃ اور جھوٹے نبیوں کے پیروکاروں پر لاگو کریں یا کلمہ گو گستاخان نبی صل اللہ علیہ وسلم پر لاگو کریں تو سب استثنی کے قائل ہوں گے پس جب ایک جگہ استثنی جائز ہے تو قران واحادیث کے بعد کیا نماز کے معاملہ میں ان میں تخصیص جائز نہیں جبکہ گستاخی بھی ایک عمل ہے زکوۃ نہ دینا بھی عمل اور نماز بھی عمل- یہی بات اوپر محترم طاہر بھائی نے لکھی تھی مگر شاہد نظر نہیں آ سکی
2۔سستی کاہلی کی دلیل کے بارے بھی یہی کہنا ہے کہ سستی کاہلی نفس کی خواہش کے تابع ہونے سے ہوتی ہے اسی نفس کے تابع ہو کر پیسوں کے لئے سلمان رشدی نے گند گھولا تھا پس شریعت میں عام قائدہ یہی ہے کہ سستی کی وجہ عمل میں کوتاہی گناہ کبیرہ ہے مگر اس میں کچھ اعمال سستی سے کرنے سے بھی اسلام سے خارج کر دیتے ہیں مگر ان پر ٹھوس قران و حدیث کی دلیل لازمی ہونی چاہیے
3۔بخاری کتاب التوحید کی حدیث کی دلیل لکھی ہے کہ یا معاذ انک تاتی قوما من اھل الکتاب والی حدیث جس میں یہ کہا گیا ہے کہ پہلے توحید کی دعوت دیں فانھم اطاعوک لذلک فاعلمھم کہ اگر وہ توحید میں اطاعت کر لیں تو نماز کا بتائیں- میری سمجھ کے مطابق اس میں کہیں نہیں کہ توحید ہی کم از کم مطلوب ہے کیونکہ اس بعدصدقہ کاحکم ہے فاعلمھم ان اللہ افترض علیھم صدقۃ توخذ من اغنیاھم و ترد الی فقراھم- جس کے انکار پر ابوبکر نے جھاد کیا تھا



یہ تو تھی میری تجویز جس پر اہل علم رائے دے سکتے ہیں اور اسی طرح محترم طاہر بھائی نے بھی اوپر بتایا ہے آپ دیکھ سکتے ہیں البتہ ابھی میں ایک چیز کو سمجھنے کی کوشش کر ریا ہوں جو غالبامحترم ارسلان بھائی نے پوچھی ہے اور مجھے بھی ابھی تشنگی ہے کہ سستی کی حد کیا ہے کہ کبھی سونے کی وجہ سے ایک آدھ نماز چھوٹ جائے تو پھر بھی کافر-

۔شرک معاف نہیں باقی سب معاف ہے اسی طرح جس نے کلمہ پڑھا وہ جنت میں جائے گا اسی طرح امام احمد بن حنبل کا قول کہ شرک ہی انسان کو اسلام سے خارج کر سکتا ہے اسی طرح ایک پرچی والی حدیث اور اس جیسی تمام احادیث و اقوال- اس کی وجہ یہ ہے کہ ان تمام دلائل کو دینے والے بھی اس میں سے مستثنی نکالتے ہیں مثلا ان تمام دلائل کو جب منکرین زکوۃ اور جھوٹے نبیوں کے پیروکاروں پر لاگو کریں یا کلمہ گو گستاخان نبی صل اللہ علیہ وسلم پر لاگو کریں تو سب استثنی کے قائل ہوں گے پس جب ایک جگہ استثنی جائز ہے تو قران واحادیث کے بعد کیا نماز کے معاملہ میں ان میں تخصیص جائز نہیں جبکہ گستاخی بھی ایک عمل ہے زکوۃ نہ دینا بھی عمل اور نماز بھی عمل- یہی بات اوپر محترم طاہر بھائی نے لکھی تھی مگر شاہد نظر نہیں آ سکی
آپ کا موقف بالکل کمزور ہے
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
ایک حکم کافر کے ساتھ دنیا میں ہمارےتعامل کا ہے اور ایک آخرت میں ان کے انجام کا ہے میرے خیال میں ہم دینا میں تعامل کے مکلف ہیں آخرت میں مشرک کے علاوہ کس کی بخشش ہو گی یا نہیں ہم اس کے مکلف نہیں
میں نے کافی حد تک اس بحث کا مطالعہ کیا ہے اور سمجھتا ہوں کہ اس بحث کو پھیلا زیادہ دیا گیا ہے جس کی وجہ سے نتیجہ نہیں نکل رہا
میری تجویز ہے کہ پیلے ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ محل نزاع کیا ہے تو میری عقل کے مطابق مندرجہ ذیل دلائل سے موضوع کو فائدہ نہیں ہو گا
1۔شرک معاف نہیں باقی سب معاف ہے اسی طرح جس نے کلمہ پڑھا وہ جنت میں جائے گا اسی طرح امام احمد بن حنبل کا قول کہ شرک ہی انسان کو اسلام سے خارج کر سکتا ہے اسی طرح ایک پرچی والی حدیث اور اس جیسی تمام احادیث و اقوال- اس کی وجہ یہ ہے کہ ان تمام دلائل کو دینے والے بھی اس میں سے مستثنی نکالتے ہیں مثلا ان تمام دلائل کو جب منکرین زکوۃ اور جھوٹے نبیوں کے پیروکاروں پر لاگو کریں یا کلمہ گو گستاخان نبی صل اللہ علیہ وسلم پر لاگو کریں تو سب استثنی کے قائل ہوں گے پس جب ایک جگہ استثنی جائز ہے تو قران واحادیث کے بعد کیا نماز کے معاملہ میں ان میں تخصیص جائز نہیں جبکہ گستاخی بھی ایک عمل ہے زکوۃ نہ دینا بھی عمل اور نماز بھی عمل- یہی بات اوپر محترم طاہر بھائی نے لکھی تھی مگر شاہد نظر نہیں آ سکی
2۔سستی کاہلی کی دلیل کے بارے بھی یہی کہنا ہے کہ سستی کاہلی نفس کی خواہش کے تابع ہونے سے ہوتی ہے اسی نفس کے تابع ہو کر پیسوں کے لئے سلمان رشدی نے گند گھولا تھا پس شریعت میں عام قائدہ یہی ہے کہ سستی کی وجہ عمل میں کوتاہی گناہ کبیرہ ہے مگر اس میں کچھ اعمال سستی سے کرنے سے بھی اسلام سے خارج کر دیتے ہیں مگر ان پر ٹھوس قران و حدیث کی دلیل لازمی ہونی چاہیے
3۔بخاری کتاب التوحید کی حدیث کی دلیل لکھی ہے کہ یا معاذ انک تاتی قوما من اھل الکتاب والی حدیث جس میں یہ کہا گیا ہے کہ پہلے توحید کی دعوت دیں فانھم اطاعوک لذلک فاعلمھم کہ اگر وہ توحید میں اطاعت کر لیں تو نماز کا بتائیں- میری سمجھ کے مطابق اس میں کہیں نہیں کہ توحید ہی کم از کم مطلوب ہے کیونکہ اس بعدصدقہ کاحکم ہے فاعلمھم ان اللہ افترض علیھم صدقۃ توخذ من اغنیاھم و ترد الی فقراھم- جس کے انکار پر ابوبکر نے جھاد کیا تھا



یہ تو تھی میری تجویز جس پر اہل علم رائے دے سکتے ہیں اور اسی طرح محترم طاہر بھائی نے بھی اوپر بتایا ہے آپ دیکھ سکتے ہیں البتہ ابھی میں ایک چیز کو سمجھنے کی کوشش کر ریا ہوں جو غالبامحترم ارسلان بھائی نے پوچھی ہے اور مجھے بھی ابھی تشنگی ہے کہ سستی کی حد کیا ہے کہ کبھی سونے کی وجہ سے ایک آدھ نماز چھوٹ جائے تو پھر بھی کافر-

اس کی وجہ یہ ہے کہ ان تمام دلائل کو دینے والے بھی اس میں سے مستثنی نکالتے ہیں مثلا ان تمام دلائل کو جب منکرین زکوۃ اور جھوٹے نبیوں کے پیروکاروں پر لاگو کریں یا کلمہ گو گستاخان نبی صل اللہ علیہ وسلم پر لاگو کریں تو سب استثنی کے قائل ہوں گے پس جب ایک جگہ استثنی جائز ہے تو قران واحادیث کے بعد کیا نماز کے معاملہ میں ان میں تخصیص جائز نہیں جبکہ گستاخی بھی ایک عمل ہے زکوۃ نہ دینا بھی عمل اور نماز بھی عمل


آج کبھی کسی نے بھی اس بات اس مسئلے مین دلیل نہیں بنایا،یہ غیر متعلق چیز ہے
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
ایک حکم کافر کے ساتھ دنیا میں ہمارےتعامل کا ہے اور ایک آخرت میں ان کے انجام کا ہے میرے خیال میں ہم دینا میں تعامل کے مکلف ہیں آخرت میں مشرک کے علاوہ کس کی بخشش ہو گی یا نہیں ہم اس کے مکلف نہیں
میں نے کافی حد تک اس بحث کا مطالعہ کیا ہے اور سمجھتا ہوں کہ اس بحث کو پھیلا زیادہ دیا گیا ہے جس کی وجہ سے نتیجہ نہیں نکل رہا
میری تجویز ہے کہ پیلے ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ محل نزاع کیا ہے تو میری عقل کے مطابق مندرجہ ذیل دلائل سے موضوع کو فائدہ نہیں ہو گا
1۔شرک معاف نہیں باقی سب معاف ہے اسی طرح جس نے کلمہ پڑھا وہ جنت میں جائے گا اسی طرح امام احمد بن حنبل کا قول کہ شرک ہی انسان کو اسلام سے خارج کر سکتا ہے اسی طرح ایک پرچی والی حدیث اور اس جیسی تمام احادیث و اقوال- اس کی وجہ یہ ہے کہ ان تمام دلائل کو دینے والے بھی اس میں سے مستثنی نکالتے ہیں مثلا ان تمام دلائل کو جب منکرین زکوۃ اور جھوٹے نبیوں کے پیروکاروں پر لاگو کریں یا کلمہ گو گستاخان نبی صل اللہ علیہ وسلم پر لاگو کریں تو سب استثنی کے قائل ہوں گے پس جب ایک جگہ استثنی جائز ہے تو قران واحادیث کے بعد کیا نماز کے معاملہ میں ان میں تخصیص جائز نہیں جبکہ گستاخی بھی ایک عمل ہے زکوۃ نہ دینا بھی عمل اور نماز بھی عمل- یہی بات اوپر محترم طاہر بھائی نے لکھی تھی مگر شاہد نظر نہیں آ سکی
2۔سستی کاہلی کی دلیل کے بارے بھی یہی کہنا ہے کہ سستی کاہلی نفس کی خواہش کے تابع ہونے سے ہوتی ہے اسی نفس کے تابع ہو کر پیسوں کے لئے سلمان رشدی نے گند گھولا تھا پس شریعت میں عام قائدہ یہی ہے کہ سستی کی وجہ عمل میں کوتاہی گناہ کبیرہ ہے مگر اس میں کچھ اعمال سستی سے کرنے سے بھی اسلام سے خارج کر دیتے ہیں مگر ان پر ٹھوس قران و حدیث کی دلیل لازمی ہونی چاہیے
3۔بخاری کتاب التوحید کی حدیث کی دلیل لکھی ہے کہ یا معاذ انک تاتی قوما من اھل الکتاب والی حدیث جس میں یہ کہا گیا ہے کہ پہلے توحید کی دعوت دیں فانھم اطاعوک لذلک فاعلمھم کہ اگر وہ توحید میں اطاعت کر لیں تو نماز کا بتائیں- میری سمجھ کے مطابق اس میں کہیں نہیں کہ توحید ہی کم از کم مطلوب ہے کیونکہ اس بعدصدقہ کاحکم ہے فاعلمھم ان اللہ افترض علیھم صدقۃ توخذ من اغنیاھم و ترد الی فقراھم- جس کے انکار پر ابوبکر نے جھاد کیا تھا

یہ تو تھی میری تجویز جس پر اہل علم رائے دے سکتے ہیں اور اسی طرح محترم طاہر بھائی نے بھی اوپر بتایا ہے آپ دیکھ سکتے ہیں البتہ ابھی میں ایک چیز کو سمجھنے کی کوشش کر ریا ہوں جو غالبامحترم ارسلان بھائی نے پوچھی ہے اور مجھے بھی ابھی تشنگی ہے کہ سستی کی حد کیا ہے کہ کبھی سونے کی وجہ سے ایک آدھ نماز چھوٹ جائے تو پھر بھی کافر-
آپ ماشاءاللہ اچھی اور علمی گفتگو کر رہے ہیں، میری گزارش ہے کہ آپ مزید علمی باتیں لکھیں تاکہ ہم سب ایک دوسرے سے سیکھ سکیں۔
کسی بھی مسئلے میں مختلف رائے ہوتی ہیں، اس مسئلے میں بھی دو مختلف آ راء ہیں، میرا رجحان اس طرف ہے کہ بے نمازی کا معاملہ اگرچہ بہت زیادہ حد تک خطرناک ہے، لیکن اللہ چاہے تو معاف کر سکتا ہے، کیونکہ نماز ایک عمل صالح ہے، اور شرک و کفر کے علاوہ ہر گناہ معاف ہو سکتا ہے۔

بے نمازی کے متعلق میرا موقف جو اب تک میں معلوم کر سکا ہوں وہ دو حصوں میں ہے:
(1) مستقل بے نمازی
جو نہ تو نماز کو اہمیت دیتا ہو، نہ نماز پڑھتا ہو، نا ہی وہ اس اہم فریضے کو سر انجام دینے کی ذرا سی بھی کوشش کرتا ہو، ایسا شخص بہت حد تک معیوب ہے، احادیث میں ایسے شخص کے بارے میں کہا گیا ہے کہ اس نے کفر کیا ہے، اب یہاں یہ بات ہے کہ یہ کفر اکبر ہے یا کفر اصغر؟ میرا رجحان ان لوگوں کی طرف ہے جو اسے کفر اصغر شمار کرتے ہیں، کہ بے نمازی اگرچہ بہت ہی خطرناک معاملہ ہے اور ہو سکتا ہے کہ وہ اس کی سزا میں جہنم میں بہت عرصے تک جلتا رہے (معاذاللہ) لیکن اس کے بعد اللہ چاہے تو اسے جنت میں داخل فرما دے۔

(2) عارضی بے نمازی
ایسا شخص جو نمازیں تو پڑھتا ہے لیکن کچھ نمازیں چھوڑ دیتا ہے، اس میں وہ سستی ہرگز نہیں جس کو بہانہ بنایا جائے، مثلا ایک شخص نے رات کو اپنی بیوی سے ہم بستری کی اور اس پر غسل واجب ہو گیا، اب وہ فجر کی نماز سے اٹھ کر بھی غسل کر سکتا ہے اور نماز پڑھ سکتا ہے، لیکن وہ شخص سویا رہتا ہے کہ سردی کی وجہ سے صبح جب دھوپ نکلے گی تو غسل کر کے ظہر کی نماز کے بعد قضا کر لے گا، یا پھر کثرت سے نوافل پڑھ لے گا، تو ایسا شخص بھی میرے خیال میں کافر نہیں۔ واللہ اعلم

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کے فتویٰ سے ایسا معلوم ہوا کہ وہ عارضی بے نمازی کے بھی کفر کے قائل ہیں، لیکن ہو سکتا ہے کہ مجھے انکے فتاویٰ جات کو سمجھنے میں غلطی ہوئی ہو۔
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
واضح رہے کہ میری گفتگو بے نمازی کے آخرت میں بخشش کے حساب سے کافر ہونے یا نہ ہونے کی ہے، شیخ ابن عثیمین کے فتویٰ جات میں نے پڑھے جس میں وہ بے نمازی کے مکمل طور پر کافر ہونے اور اُن پر مرتد کے احکام لاگو کرنے کے قائل ہیں، جبکہ میں اس بات کو تسلیم کرتا ہوں کہ بے نمازی کوئی اچھا انسان نہیں ہوتا، لیکن نماز چونکہ عمل صالح ہے جس کا ترک کرنا کفر ہے، لیکن یہ کفر کفر اصغر بھی ہو سکتا ہے جیسا کہ کچھ لوگوں کا موقف ہے اور حافظ عمران بھائی نے علامہ البانی رحمہ اللہ کا بھی یہی موقف بیان کیا ہے کہ بے نمازی کا کفر کفر اصغر ہے، جو کہ قیامت کے دن جہنم میں جانے کا سبب بن سکتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ چاہے تو بخش دے، البتہ کافرو مشرک کی بخشش ممکن نہیں۔ واللہ اعلم

ایک بار وہ تمام دلائل میں دوبارہ یہاں ذکر کر رہا ہوں، ان دلائل کو مدنظر رکھتے ہوئے، اخت ولیدصاحبہ، محمد علی جوادصاحب اور طاہر عسکری صاحب اپنا موقف بیان کریں۔




علاوہ ازیں حافظ عمران بھائی نے جو دلائل پیش کیے ہیں اُن کے جواب کے تاحال ہم منتظر ہیں۔
میرے محترم ارسلان بھائی اور عمران بھائی -

اس میں کوئی اشکال نہیں کہ کلمہ طیبہ وہ کلمہ ہے جو ایک انسان کی شناخت کرتا ہے کہ وہ مسلمان ہے - لیکن اس کلمہ حق کے کچھ تقاضے ہیں -اگر ایک مسلمان ان تقاضوں کو پورا نہیں کرتا تو اس کا الله سے عہد ختم ہو جاتا ہے کہ الله اس کو بخش دے - اسلام کے بہت سے ایسے ارکان ہیں جو کلمہ طیبہ کے تقاضوں کو پورا کرنے کا لئے ضروری ہیں - ورنہ اس کا کلمہ طیبہ قیامت کے دن اس کو کچھ کام نہیں دے گا - ان ارکان میں سے سب سے اہم رکن نماز ہے - یہی وجہ ہے کہ نبی کریم صل الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے جان بوجھ کر نماز چھوڑی اس کا الله سے کوئی عہد نہیں -یعنی ایک مسلمان کی حثیت سے جو اس کے ساتھ عہد کیا گیا تھا کہ اس کو قیامت کے دن بخش دیا جائے گا -چاہے کسی کی سفارش سے بخشش ہو یا الله اپنے رحم سے اس کو بخش دے- وہ عہد نماز کے چھوڑنے کی وجہ سے ختم ہو گیا- یہی وجہ ہے کہ الله کا قرآن میں بے نمازیوں کے لئے فرمان ہے کہ باوجود سفارش کے ان کو نہیں بخشا جائے گا -

مَا سَلَكَكُمْ فِي سَقَرَ قَالُوا لَمْ نَكُ مِنَ الْمُصَلِّينَ وَلَمْ نَكُ نُطْعِمُ الْمِسْكِينَ وَكُنَّا نَخُوضُ مَعَ الْخَائِضِينَ وَكُنَّا نُكَذِّبُ بِيَوْمِ الدِّينِ حَتَّىٰ أَتَانَا الْيَقِينُ فَمَا تَنْفَعُهُمْ شَفَاعَةُ الشَّافِعِينَ سوره المدثر ٤٢-٤٨
(اہل جنّت پوچھنگے) کس چیز نے تمہیں دوزخ میں ڈالا -وہ کہیں گے کہ ہم نمازی نہ تھے-اور نہ ہم مسکینوں کو کھانا کھلاتے تھے-اور ہم بہانے بناتے تھے بہانے بنانے والوں کے ساتھ -اور ہم انصاف کے دن کو جھٹلایا کرتے تھے-یہاں تک کہ ہمیں موت آ پہنچی- پس ان کو سفارش کرنے والوں کی سفارش نفع نہ دے گی-


ان آیات میں ظاہر ہے کہ یہودیوں اور عیسایوں کا ذکر نہیں بلکہ ان مسلمانوں کے ذکر ہو رہا ہے جو کلمہ طیبہ پڑھنے کے باوجود الله کے نازل کردہ احکامات کو پس پشت ڈال دیتے ہیں - جن میں نماز سر فہرست ہے اور ان آیات میں الله واضح طور پر فرما رہا ہے کہ باوجود ظاہری طور پر مسلمان ہونے کے جو نماز کے چھوڑنے کا مرتکب ہوتا ہے - قیامت کے دن کسی نبی ولی، یا فرشتوں یا اور دوسرے لوگ جن کو سفارش کا حق ملے گا - ان کی بھی سفارش ان کو کچھ کام نہ دے گی - یعنی ہمیشہ کا لئے جہنم کی آگ کا ایندھن بن جائے گا -

یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ نماز کے رہ جانے اور چھوڑ دینے میں بہت فرق ہے - اگر کسی وجہ سے نماز رہ جاتی ہے تو الله درگزر کرنے والا ہے اور اس کا کفارہ بھی ہے کہ بعد میں پڑھ لی جائے - لیکن جان بوجھ کر چھوڑنا الله کے صریح احکام کی خلاف ورزی ہے - جس کی مداوت انسان کو کافر بنا دیتی ہے -

والسلام
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
ص
میرے محترم ارسلان بھائی اور عمران بھائی -

اس میں کوئی اشکال نہیں کہ کلمہ طیبہ وہ کلمہ ہے جو ایک انسان کی شناخت کرتا ہے کہ وہ مسلمان ہے - لیکن اس کلمہ حق کے کچھ تقاضے ہیں -اگر ایک مسلمان ان تقاضوں کو پورا نہیں کرتا تو اس کا الله سے عہد ختم ہو جاتا ہے کہ الله اس کو بخش دے - اسلام کے بہت سے ایسے ارکان ہیں جو کلمہ طیبہ کے تقاضوں کو پورا کرنے کا لئے ضروری ہیں - ورنہ اس کا کلمہ طیبہ قیامت کے دن اس کو کچھ کام نہیں دے گا - ان ارکان میں سے سب سے اہم رکن نماز ہے - یہی وجہ ہے کہ نبی کریم صل الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے جان بوجھ کر نماز چھوڑی اس کا الله سے کوئی عہد نہیں -یعنی ایک مسلمان کی حثیت سے جو اس کے ساتھ عہد کیا گیا تھا کہ اس کو قیامت کے دن بخش دیا جائے گا -چاہے کسی کی سفارش سے بخشش ہو یا الله اپنے رحم سے اس کو بخش دے- وہ عہد نماز کے چھوڑنے کی وجہ سے ختم ہو گیا- یہی وجہ ہے کہ الله کا قرآن میں بے نمازیوں کے لئے فرمان ہے کہ باوجود سفارش کے ان کو نہیں بخشا جائے گا -

مَا سَلَكَكُمْ فِي سَقَرَ قَالُوا لَمْ نَكُ مِنَ الْمُصَلِّينَ وَلَمْ نَكُ نُطْعِمُ الْمِسْكِينَ وَكُنَّا نَخُوضُ مَعَ الْخَائِضِينَ وَكُنَّا نُكَذِّبُ بِيَوْمِ الدِّينِ حَتَّىٰ أَتَانَا الْيَقِينُ فَمَا تَنْفَعُهُمْ شَفَاعَةُ الشَّافِعِينَ سوره المدثر ٤٢-٤٨
(اہل جنّت پوچھنگے) کس چیز نے تمہیں دوزخ میں ڈالا -وہ کہیں گے کہ ہم نمازی نہ تھے-اور نہ ہم مسکینوں کو کھانا کھلاتے تھے-اور ہم بہانے بناتے تھے بہانے بنانے والوں کے ساتھ -اور ہم انصاف کے دن کو جھٹلایا کرتے تھے-یہاں تک کہ ہمیں موت آ پہنچی- پس ان کو سفارش کرنے والوں کی سفارش نفع نہ دے گی-


ان آیات میں ظاہر ہے کہ یہودیوں اور عیسایوں کا ذکر نہیں بلکہ ان مسلمانوں کے ذکر ہو رہا ہے جو کلمہ طیبہ پڑھنے کے باوجود الله کے نازل کردہ احکامات کو پس پشت ڈال دیتے ہیں - جن میں نماز سر فہرست ہے اور ان آیات میں الله واضح طور پر فرما رہا ہے کہ باوجود ظاہری طور پر مسلمان ہونے کے جو نماز کے چھوڑنے کا مرتکب ہوتا ہے - قیامت کے دن کسی نبی ولی، یا فرشتوں یا اور دوسرے لوگ جن کو سفارش کا حق ملے گا - ان کی بھی سفارش ان کو کچھ کام نہ دے گی - یعنی ہمیشہ کا لئے جہنم کی آگ کا ایندھن بن جائے گا -

یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ نماز کے رہ جانے اور چھوڑ دینے میں بہت فرق ہے - اگر کسی وجہ سے نماز رہ جاتی ہے تو الله درگزر کرنے والا ہے اور اس کا کفارہ بھی ہے کہ بعد میں پڑھ لی جائے - لیکن جان بوجھ کر چھوڑنا الله کے صریح احکام کی خلاف ورزی ہے - جس کی مداوت انسان کو کافر بنا دیتی ہے -

والسلام
ان آیات میں ظاہر ہے کہ یہودیوں اور عیسایوں کا ذکر نہیں
صرف آیات کو غور سے پڈھ لیں تو آپ کو سمجھ آجائے کیا ایک بے نماز یہ کہتا ہے کہ قیامت قائم نہیں ہو گیا آخرت میں حساب و کتاب نہیں ہو گا کیا وہ مزاق بھی کرتا ہے مسلمانو ن کے ساتھ؟ان آیات مین تو یہود و نصاری سے بھی برے لوگوں کا ذکر ہو رہا ہے جو منکرین آخرت ہیں
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
جناب عالی کفر کی اصطلاحی تعریف تو کر دیںاور پھر دیکھیں کہ وہ ایک فرض کے ترک پر صادق آتی ہے جبکہ اس میں تکاسل بھی پایا جاتا ہو
محترم عمران بھائی آپ نے تکاسل کے بارے لکھا تھا تو میں نے ت سستی اور کاہلی کے بارے اپنی سوچ لکھی دوسرا آپ نے امام احمد بن حنبل کا قول لکھا تھا کہ وہ صرف شرک ہے تو میں نے لکھا کہ گستاخ رسول کی آپ بھی اس قول میں سے تخصیص کریں گے تیسرا کسی نے لاالہ الا اللہ سے اور فقط توحید سے جنت جانے والی احادیث کو نے نمازی کے کافر نہ ہونے کی دلیل بنایا تھا تو میں نے وہی گستاخ رسول والی مثال لکھی کہ جس بنیاد پر اس میں ہم توحید والے گستاخ رسول کی تخصیص کرتے ہیں تو نماز میں بھی ہو سکتی ہے اور اسکی مثال میں نے صحابہ سے دی ہے کہ انھوں نے منکرین زکوۃ کے معاملہ میں توحید ہونے کے باوجود اور ان ساری احادیث کا پتہ ہونے کے باوجود کافر کا معاملہ کیا اسلئے یہ تجویز دی کہ ان دلائل کو نکال دیں اور باقی دلائل ٹھیک ہیں ان پر بحث ہو سکتی ہے میرا تو یہ معاملہ تھا مگر محترم عمران بھائی کو غیر متعلقہ لگا اس پر معافی چاہتا ہوں کیانکہ میرا اتنا تجربہ نہیں اسلیے معذرت قبول فرمائیں
دوسرا حذیفہ رضی اللہ عنہ والی دلیل کی تفصیل مجھے پتہ نہیں مگر پھر بھی میرے ناقص علم کے مطابق یہ ایک صحابی کا قول ہے جس کو قران و سنت کے دلائل کی تحت دیکھنا ہو گا جیسے سماع موتی وغیرہ پر-
ارسلان بھائی کا شکریہ - ان کے اس نکتےکی ابھی تک سمجھ نہیں آ سکی کہ سستی کی حد کیا ہے امید ہے باقی بھائی علم میں اضافہ کریں گے اسی حد کے واضح نہ ہونے کی وجہ سے ابھی تکفیر میں معمولی سا شک ہے اللہ ہدایت دے
باقی ارسلان بھائی شیخ عثیمین کے فتوی کو لکھ دیں تاکہ اسکو سمجھا جا سکے
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
محترم عمران بھائی آپ نے تکاسل کے بارے لکھا تھا تو میں نے ت سستی اور کاہلی کے بارے اپنی سوچ لکھی دوسرا آپ نے امام احمد بن حنبل کا قول لکھا تھا کہ وہ صرف شرک ہے تو میں نے لکھا کہ گستاخ رسول کی آپ بھی اس قول میں سے تخصیص کریں گے تیسرا کسی نے لاالہ الا اللہ سے اور فقط توحید سے جنت جانے والی احادیث کو نے نمازی کے کافر نہ ہونے کی دلیل بنایا تھا تو میں نے وہی گستاخ رسول والی مثال لکھی کہ جس بنیاد پر اس میں ہم توحید والے گستاخ رسول کی تخصیص کرتے ہیں تو نماز میں بھی ہو سکتی ہے اور اسکی مثال میں نے صحابہ سے دی ہے کہ انھوں نے منکرین زکوۃ کے معاملہ میں توحید ہونے کے باوجود اور ان ساری احادیث کا پتہ ہونے کے باوجود کافر کا معاملہ کیا اسلئے یہ تجویز دی کہ ان دلائل کو نکال دیں اور باقی دلائل ٹھیک ہیں ان پر بحث ہو سکتی ہے میرا تو یہ معاملہ تھا مگر محترم عمران بھائی کو غیر متعلقہ لگا اس پر معافی چاہتا ہوں کیانکہ میرا اتنا تجربہ نہیں اسلیے معذرت قبول فرمائیں
دوسرا حذیفہ رضی اللہ عنہ والی دلیل کی تفصیل مجھے پتہ نہیں مگر پھر بھی میرے ناقص علم کے مطابق یہ ایک صحابی کا قول ہے جس کو قران و سنت کے دلائل کی تحت دیکھنا ہو گا جیسے سماع موتی وغیرہ پر-
ارسلان بھائی کا شکریہ - ان کے اس نکتےکی ابھی تک سمجھ نہیں آ سکی کہ سستی کی حد کیا ہے امید ہے باقی بھائی علم میں اضافہ کریں گے اسی حد کے واضح نہ ہونے کی وجہ سے ابھی تکفیر میں معمولی سا شک ہے اللہ ہدایت دے
باقی ارسلان بھائی شیخ عثیمین کے فتوی کو لکھ دیں تاکہ اسکو سمجھا جا سکے
آپ نے امام احمد بن حنبل کا قول لکھا تھا کہ وہ صرف شرک ہے تو میں نے لکھا کہ گستاخ رسول کی آپ بھی اس قول میں سے تخصیص کریں گے تیسرا کسی نے لاالہ الا اللہ سے اور فقط توحید سے جنت جانے والی احادیث کو نے نمازی کے کافر نہ ہونے کی دلیل بنایا تھا تو میں نے وہی گستاخ رسول والی مثال لکھی کہ جس بنیاد پر اس میں ہم توحید والے گستاخ رسول کی تخصیص کرتے ہیں تو نماز میں بھی ہو سکتی ہے اور اسکی مثال میں نے صحابہ سے دی ہے کہ انھوں نے منکرین زکوۃ کے معاملہ میں توحید ہونے کے باوجود اور ان ساری احادیث کا پتہ ہونے کے باوجود کافر کا معاملہ کیا ا
منکرین زکاۃ اور منکرین صلاۃ دونوں ہی کافر ہیں،اس سے آپ کا موقف ثابت نہیں ہوتااور جہاں تک گستاخ رسول کا مسئلہ ہے تو میں یہ کہتا ہوں کہ نماز اور گستاخی میں بہت فرق ہے
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
تارك نماز كے احكام:

صحيح احاديث ميں صراحت كے ساتھ موجود ہے كہ تارك نماز كافر ہے اور اگر ہم حديث كے ظاہر كو ليں جان بوجھ كر عمدا نماز ترك كرنے والے كو وراثت كے سارے حقوق سے محروم كيا جائيگا، اور ان كے ليے قبرستان بھى عليحدہ بنايا جائيگا، اور ان كے ليے رحمت اور سلامتى كى دعاء بھى نہيں كى جائيگى، كيونكہ كافر كے ليے امن و سلامتى نہيں.

ہم يہ مت بھوليں كہ اگر ہم مومن اور غير مومنوں ميں سے نمازى مردوں كا سروے كريں تو چھ فيصد ( 6% ) سے زيادہ نہيں ہو گا، اور خاص كر عورتيں تو اس سے بھى كم.

چنانچہ شريعت اسلاميہ كى اس سلسلہ ميں كيا رائے ہے، اور تارك نماز كو سلام كرنے اور سلام كا جواب دينے كا حكم كيا ہے ؟

الحمد للہ :

جان بوجھ كر عمدا نماز ترك كرنے والا مسلمان اگر نماز كى فرضيت كا انكار نہ كرے تو اس كے حكم ميں علماء كرام كا اختلاف پايا جاتا ہے.

بعض علماء اسے كافر اور دائرہ اسلام سے خارج قرار ديتے ہيں، اور وہ مرتد شمار ہو گا، اس سے تين يوم تك توبہ كرنے كا كہا جائيگا، اگر تو تين دنوں ميں اس نے توبہ كر لى تو بہتر وگرنہ مرتد ہونے كى بنا پر اسے قتل كر ديا جائيگا، نہ تو اس كى نماز جنازہ ادا كى جائيگى، اور نہ ہى اسے مسلمانوں كے قبرستان ميں دفن كيا جائيگا، اور نہ زندہ اور مردہ حالت ميں اس پر سلام كيا جائيگا، اور اس كى بخشش اور اس پر رحمت كى دعا بھى نہيں كى جائيگى نہ وہ خود وارث بن سكتا ہے، اور نہ ہى اس كے مال كا وارث بنا جائيگا، بلكہ اس كا مال مسلمانوں كے بيت المال ميں ركھا جائيگا، چاہے بے نمازوں كى كثرت ہو يا قلت، حكم ايك ہى ہے ان كى قلت اور كثرت سے حكم ميں كوئى تبديلى نہيں ہو گى.

زيادہ صحيح اور راجح قول يہى ہے، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" ہمارے اور ان كے درميان عہد نماز ہے، چنانچہ جس نے بھى نماز ترك كى اس نے كفر كيا "

اسے امام احمد نے مسند احمد ميں اور اہل سنن نے صحيح سند كے ساتھ بيان كيا ہے.

اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا يہ بھى فرمان ہے:

" آدمى اور كفر و شرك كے درميان نماز كا ترك كرنا ہے "

اسے امام مسلم رحمہ اللہ تعالى نے صحيح مسلم ميں اس موضوع كى دوسرى احاديث كے ساتھ روايت كيا ہے.

اور جمہور علماء كرام كا كہنا ہے كہ اگر وہ نماز كى فرضيت كا انكار كرے تو وہ كافر ہے اور دين اسلام سے مرتد ہے، اس كا حكم وہى ہے جو پہلے قول ميں تفصيل كے ساتھ بيان ہوا ہے.

ليكن اگر وہ اس كى فرضيت كا انكار نہيں كرتا بلكہ وہ سستى اور كاہلى كى بنا پر نماز ترك كرتا ہے تو وہ كبيرہ گناہ كا مرتكب ٹھرے گا، ليكن دائرہ اسلام سے خارج نہيں ہو گا، اسے توبہ كرنے كے ليے تين دن كى مہلت دى جائيگى، اگر تو وہ توبہ كر لے الحمد للہ وگرنہ اسے بطور حد قبل كيا جائيگا كفر كى بنا پر نہيں.

تو اس بنا پر اسے غسل بھى ديا جائيگا، اور كفن بھى اور اس كى نماز جنازہ بھى پڑھائى جائيگى، اور اس كے ليے بخشش اور مغفرت و رحمت كى دعاء بھى كى جائيگى، اور مسلمانوں كے قبرستان ميں دفن بھى كيا جائيگا، اور وہ وراث بھى بنے گا اور اس كى وراثت بھى تقسيم ہو گى، اجمالى طور پر اس پر زندگى اور موت دونوں صورتوں ميں گنہگار مسلمان كا حكم جارى كيا جائيگا.

ماخوذ از: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 6 / 49 ).

http://islamqa.com/ur/2182
 
Top