جب صحابہ کو اجازت نہیں تھی اس طرح کی عبادت کی تو پتا نہیں حنفی بزرگوں کو کیسے یہ عمل صحیح بلکے انکے ماننے والوں کو کرامت نظر آگیاامام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس واقعے کو یوں بیان کیا ہے:
جاء ثلاث رهط إلى بيوت أزواج النبي صلى الله عليه وسلم ، يسألون عن عبادة النبي صلى الله عليه وسلم ، فلما أخبروا كأنهم تقالوها ، فقالوا : أين نحن من النبي صلى الله عليه وسلم ؟ قد غفر الله له ما تقدم من ذنبه وما تأخر ، قال أحدهم : أما أنا فإني أصلي الليل أبدا ، وقال آخر : أنا أصوم الدهر ولا أفطر ، وقال آخر : أنا أعتزل النساء فلا أتزوج أبدا ، فجاء رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال : ( أنتم الذين قلتم كذا وكذا ؟ أما والله إني لأخشاكم لله وأتقاكم له ، لكني أصوم وأفطر ، وأصلي وأرقد ، وأتزوج النساء ، فمن رغب عن سنتي فليس مني )
(صحیح بخاری کتاب النکاح باب الترغیب فی النکاح”
“تین آدمی (صحابی )نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی ازواج مطہرات کے گھروں کی طرف آئے اور (ازواج مطہرات سے) نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی عبادت کے بارے میں پوچھنے لگے۔ جب انہیں اس کی خبر دی گئی تو گویا انہوں نے اسے تھوڑا جانا۔ پھر کہنے لگے “کہاں ہم اور کہاں نبی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم، اللہ نے ان کے اگلے پچھلے گناہ معاف فرما دیے ہیں”۔ ایک نے کہا “جہاں تک میرا تعلق ہے تو میں رات کو ہمیشہ قیام کروں گا، دوسرے صحابی نے کہا “میں ہمیشہ روزہ رکھوں گا اور کبھی نہیں چھوڑوں گا۔ تیسرے صحابی نے کہا “میں عورتوں سے دور رہوں گا اور کبھی نکاح نہیں کروں گا”۔
پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم تشریف لائے تو (معاملے کی اطلاع ملنے پر) فرمایا “تم لوگوں نے یہ یہ باتیں کی ہیں؟ اللہ کی قسم، میں تم سب سے زیادہ اللہ سے ڈرتا ہوں اور تم سب سے زیادہ اس کے لیے تقویٰ اختیار کرتا ہوں لیکن میں (نفلی)روزہ رکھتا بھی ہوں اور چھوڑتا بھی ہوں، (رات کو) نماز بھی پڑھتا ہوں اور آرام بھی کرتا ہوں اور عورتوں سے نکاح بھی کرتا ہوں۔ پس جس نے میری سنت سے منہ موڑا وہ مجھ سے نہیں ہے”۔
اس حدیث پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ تینوں صحابہ رضی اللہ عنہم نے اچھے کاموں کا ارادہ کیا۔ رات کو قیام کرنا بڑے اجر و ثواب کی بات ہے، روزہ رکھنا بڑی فضیلت رکھتا ہے، عفت و پاکیزگی اختیار کرنا مومن کا شیوہ ہوتا ہے۔ لیکن کیونکہ انہوں نے ان تینوں عبادات کی کیفیت اور شکل رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے طریقے کے مطابق نہیں تھی اس لیے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے انہیں منع فرما دیا اور اپنے فہم سے عبادت میں اضافہ کرنےرو ک دیا۔ اور اپنے اس فرمان کی عملی صورت امت کے سامنے رکھ دی کہ :
“من عمل عملا لیس علیہ امرنا فھو رد”
“جس نے کوئی ایسا کام کیا جو ہمارے طریقے کے مطابق نہیں تو وہ رد ہے”
اس واقعے میں ایک اور لطیف تنبیہہ بھی ہے کہ اچھی نیت سے نیک عمل کرنا اسے اللہ تعالیٰ کے ہاں مقبول نہیں بنا سکتا جب تک وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے طریقے کے موافق نہ ہو۔
لہذا ان بزرگوں ا یک دن میں ایک ہزار رکعات پڑھنا کیسے صحیح ہو سکتا ہے ؟
الله ایسے عقیدوں سے حفاظت فرماے آمین
جزاک الله خیرا عامر بھائی