• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تصوف وہ راہ ہے۔۔۔۔۔۔

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,121
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
موسی علیہ السلام کہتے کہ اللہ پاک مجھے اپنا آپ منام مین دکھا دیں یا میں آپ کی تجلیات کا یا آپ کی ذات کا تصور کر لیتا ہوں؟ عجیب
یہ تو موسی علیہ السلام پر اپنی پسند لگانے والی بات ہو گئی۔ بھئی انہوں نے آنکھوں سے دیکھنا چاہا اور اللہ پاک نے فرمایا کہ نہیں دیکھ سکتے۔
اس میں باقی چیزوں کی نہ نفی ہوئی نہ اثبات۔

قرآنی گرائمر والے مشورے پر جزاک اللہ خیرا۔ بندہ آپ کی طرح اہل علم نہیں لیکن نرا جاہل بھی نہیں۔

جس چیز کا نہ تو قرآن و حدیث میں انکا ہو نہ اثبات اس کی کیا حیثیت ہوتی ہے؟ اور اگر اس کی طرف اشارہ موجود ہو تو کیا حیثیت ہوتی ہے؟

افلا یتدبرون والا اعتراض میرا وہم ہے؟ ہوگا بھائی۔ آپ درست کہتے ہوں گے۔ شیخ کے تصور والی بات آپ کا وہم ہے۔
تو آپ قرآن و سنت کی روشنی میں اپنی پسندیدہ بات حضرت موسٰی ؑ سے منسوب کر دیں۔
جس چیز کا انکار یا اثبات قرآن و سنت میں نہ ہو اور اسکو دین میں ثابت کیا جائے تو اس کو بھی قرآن و سنت کی کسوٹی پر پرکھا جائے گا ورنہ وہ چیز فتنہ کا موجب ہو گی۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
تو آپ قرآن و سنت کی روشنی میں اپنی پسندیدہ بات حضرت موسٰی ؑ سے منسوب کر دیں۔
جس چیز کا انکار یا اثبات قرآن و سنت میں نہ ہو اور اسکو دین میں ثابت کیا جائے تو اس کو بھی قرآن و سنت کی کسوٹی پر پرکھا جائے گا ورنہ وہ چیز فتنہ کا موجب ہو گی۔
اپنی پسندیدہ بات منسوب کر دوں؟؟؟ لاحول ولاقوۃ الا باللہ
بھائی میری پسندیدہ بات نہیں، موسی علیہ السلام نے اللہ پاک سے رویت کا مطالبہ کیا تھا اور اللہ پاک نے منع فرما دیا اس طرح کہ تم نہیں دیکھ سکتے۔

دین میں ثابت کرنے کی اگر تھوڑی تشریح ہو جائے تو مشکور ہوں گا۔


یہ طویل حدیث کا ایک حصہ ہےاس میں '' احسان '' کا تذکرہ ہو رہا ہے ، عبد کا معبود کو دیکھنے کا نہیں۔
مزید یہ کہ حدیث کے الفاظ یہ نہیں ہیں کہ '' احسان یہ ہے کہ گویا کہ تم اللہ تعالیٰ کو دیکھ رہے ہو '' بلکہ الفاظ یہ ہیں کہ '' احسان یہ ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کی عبادت اس طرح کرو گویا کہ تم اسے دیکھ رہے '' تو پتہ چلا کہ یہاں اللہ تعالیٰ کی عبادت کا ذکر احسان کے ساتھ ہو رہا ہے نہ کہ اللہ تعالیٰ کو دیکھنے کا۔

کیا آپ یہ فرمانا چاہتے ہیں کہ "تراہ" کی ضمیر "عبادت" طرف راجع ہے؟ تھوڑا سا ابہام رہ گیا۔
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
جواب :- قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا الْإِحْسَانُ قَالَ أَنْ تَعْبُدَ اللَّهَ کَأَنَّکَ تَرَاهُ فَإِنَّکَ إِنْ لَا تَرَاهُ فَإِنَّهُ يَرَاکَ
اس نے عرض کیا اے اللہ کے رسول احسان کس کو کہتے ہیں؟ فرمایا احسان یہ ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کی عبادت اس طرح کرو گویا تم اس کو دیکھ رہے ہو اور اگر تم اس کو نہیں دیکھ رہے تو (کم از کم اتنا یقین رکھو) کہ وہ تم کو دیکھ رہا ہے۔
صحیح مسلم:جلد اول:حدیث نمبر 100
یہ طویل حدیث کا ایک حصہ ہےاس میں '' احسان '' کا تذکرہ ہو رہا ہے ، عبد کا معبود کو دیکھنے کا نہیں۔ عبادت صرف نماز تک محدود نہیں بلکہ یہ انسان کی پوری زندگی پر محیط ہے۔ عبادت کا مطلب ہے ہر لمحہ زندگی کا اللہ تعالیٰ کی کامل اطاعت میں گزارنا۔ احسان کا مطلب ہے کسی کام کو بہترین انداز میں ادا کرنا۔ لہذا یہاں سمجھنے میں کوئی اشکال نہیں رہتا کہ ہمیں اپنی زندگی اللہ تعالیٰ کی کامل اطاعت میں گزارنی چاہیے اور یہاں اسی مفہوم میں عبادت اور احسان کا ذکر ہوا ہے۔ اور کامل اطاعت اسی وقت ممکن ہے جب اس میں '' رضا '' کا عنصر شامل ہو
سوال کو شاید آپ نے دھیان سے ملاحظہ نہیں فرمایا ایک بار پھر میں آپ کی خدمت میں ایسے تھوڑا بڑا کرکے پیش کئے دیتا ہوں
علم دین کا وہ کون سا شعبہ ہے جو اس طرح عبادت الہی کرنے کی راہ بتاتا ہے ؟
چناچہ ہم احسان کو دو درجوں میں تقسیم کریں گے۔
پہلا درجہ ( مقربینِ الٰہی)
دوسرا درجہ ( اصحاب الیمین)
اور ان درجات تک پہنچنے کی راہ کیا ہمیں محدثین ،مفسرین ، یا پھر فقہا بتلاتے ہیں یا پھر ان کے علاوہ کوئی اور لوگ ہیں ؟
جواب:- رہا اللہ تعالیٰ کو پہلی بار دیکھنے کا معاملہ، تو ہو سکتا ہے کہ مرنے کے بعد عالمِ برزخ میں اور روزِ محشر سے پہلے مسلمانوں کو بہشت کے نظاروں کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ اپنا دیدار بھی کرا دیں کیونکہ جب مرنے کے بعد غیب سے پردہ اٹھ ہی جائے گا تو اللہ تعالیٰ کا عالمِ برزخ میں پہلی بار دیدار کرا دینا کچھ بعید نہیں لگتا۔
شائد اس لیے مسلمان جب میدانِ محشر میں اللہ تعالیٰ کو دوسری صورت میں دیکھ کر پہچان نہیں سکیں گے تو اللہ تعالیٰ اپنی اس پہلی صورت میں جسے مسلمان عالمِ برزخ میں دیکھ چکے ہوں اپنی شان کے لائق جلوہ افروز ہونگے اور مسلمان اللہ تعالیٰ کے ساتھ چل دیں گے۔
یعنی جب کوئی دلیل نہ ملی تو نرے قیاس سے کام چلا لیا اور یہ جائز بھی ہوگیا کہ
اللہ تعالیٰ کا عالمِ برزخ میں پہلی بار دیدار کرا دینا کچھ بعید نہیں لگتا۔
'' عہدِ الست '' والی آیت سے بھی اس بات کا ثبوت نہیں نکلتا کہ بنی آدم سے اقرار لیتے وقت اللہ تعالیٰ نے اپنا دیدار کرایا ہو گا۔ اگر اس سے دیدارِ الٰہی ثابت ہوتا ہے تو اس میں سب طرح کے لوگوں شامل ہو جاتے ہیں قطع نظر وہ کفار ہوں یا مومنین کیوں کہ یہ سب نبی آدم میں شامل ہیں۔ جبکہ قرآنی دلائل کے ساتھ یہ بات واضح کی جا چکی ہے کہ اللہ تعالیٰ کا دیدار آخرت میں صرف مومنین سے خاص ہے اس میں کفار و مشرکین شامل نہیں۔ اور دیدارِ الٰہی اس دنیا میں کسی کے لیے بھی ممکن نہیں چاہے وہ نبی ، رسول ، صحابی یا ولی ہی کیوں نہ ہو۔۔
تو کیا" عہد الست " میں تمام نبی نوح انسان نے صرف اللہ کا کلام ہی سنا تھا اللہ تعالیٰ کا دیدار نہیں کیا تھا ؟ جب کہ یہ رویت الہی عالم ارواح میں ہوئی نہ کہ دنیا میں جب کہ آپ اعتراف فرماچکے ہیں کہ
"دیدارِ الٰہی صرف اس دنیا میں کسی کے لیے بھی ممکن نہیں چاہے وہ نبی ، رسول ، صحابی یا ولی ہی کیوں نہ ہو"
لیکن دوسری جانب آپ عالمِ برزخ میں دیدار الہی کے بارے میں فرماتے ہیں کہ
"اللہ تعالیٰ کا عالمِ برزخ میں پہلی بار دیدار کرا دینا کچھ بعید نہیں لگتا۔"
پھر بھی عالم ارواح میں دیدار الہی کا انکار !!!!!
کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے

سوال:- کیا آپ کو اس پہلی بار کا دیکھنا بھی یاد ہے ؟
جواب:- اس سوال کا جواب اوپر آ چکا ہے۔
واللہ اعلم
سوال پھر سے قائم ہوگیا ہے۔
یا پھر میں اس سوال کو آپ کے دلائل کی روشنی میں اس طرح کئے دیتا ہوں کہ
کیا آپ کو "عہد الست" یاد ہے ؟
علم دین کے کس شعبے میں اس عہد کو دیا دلانے کی سعی کی جاتی ہے ؟؟؟
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
علی بہرام کے سوالات کے جوابات عرض ہیں:-
واللہ اعلم
ایک ہی پوسٹ آپ نے کئی بار کردی ہے
تکرار ختم کردیا گیا ہے ۔ بھائی ٹی کے صاحب کی دیگر بعض جگہوں پر بھی اس طرح شراکتوں میں تکرار ہے ۔ شاید کوئی تکنیکی مسئلہ ہوگا ۔ اس طرح کی کوئی پریشانی ہے تو شاکر بھائی سے رابطہ کریں ۔
 

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,121
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
اپنی پسندیدہ بات منسوب کر دوں؟؟؟ لاحول ولاقوۃ الا باللہ
بھائی میری پسندیدہ بات نہیں، موسی علیہ السلام نے اللہ پاک سے رویت کا مطالبہ کیا تھا اور اللہ پاک نے منع فرما دیا اس طرح کہ تم نہیں دیکھ سکتے۔

دین میں ثابت کرنے کی اگر تھوڑی تشریح ہو جائے تو مشکور ہوں گا۔



کیا آپ یہ فرمانا چاہتے ہیں کہ "تراہ" کی ضمیر "عبادت" طرف راجع ہے؟ تھوڑا سا ابہام رہ گیا۔
'' تراہ'' میں '' ہ '' کی ضمیر بیشک اللہ تعالیٰ کی طرف ہے مگر عبادت کا طریقہ احسان کے درجہ پر ہونا چاہیے اور اللہ تعالیٰ کو دیکھنے کا ذکر تمثیلا بیان فرمایا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کو دیکھنے کی تشریح میں بیان کر چکا ہوں۔
 

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,121
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
سوال کو شاید آپ نے دھیان سے ملاحظہ نہیں فرمایا ایک بار پھر میں آپ کی خدمت میں ایسے تھوڑا بڑا کرکے پیش کئے دیتا ہوں
علم دین کا وہ کون سا شعبہ ہے جو اس طرح عبادت الہی کرنے کی راہ بتاتا ہے ؟


اور ان درجات تک پہنچنے کی راہ کیا ہمیں محدثین ،مفسرین ، یا پھر فقہا بتلاتے ہیں یا پھر ان کے علاوہ کوئی اور لوگ ہیں ؟

یعنی جب کوئی دلیل نہ ملی تو نرے قیاس سے کام چلا لیا اور یہ جائز بھی ہوگیا کہ
اللہ تعالیٰ کا عالمِ برزخ میں پہلی بار دیدار کرا دینا کچھ بعید نہیں لگتا۔

تو کیا" عہد الست " میں تمام نبی نوح انسان نے صرف اللہ کا کلام ہی سنا تھا اللہ تعالیٰ کا دیدار نہیں کیا تھا ؟ جب کہ یہ رویت الہی عالم ارواح میں ہوئی نہ کہ دنیا میں جب کہ آپ اعتراف فرماچکے ہیں کہ
"دیدارِ الٰہی صرف اس دنیا میں کسی کے لیے بھی ممکن نہیں چاہے وہ نبی ، رسول ، صحابی یا ولی ہی کیوں نہ ہو"
لیکن دوسری جانب آپ عالمِ برزخ میں دیدار الہی کے بارے میں فرماتے ہیں کہ
"اللہ تعالیٰ کا عالمِ برزخ میں پہلی بار دیدار کرا دینا کچھ بعید نہیں لگتا۔"
پھر بھی عالم ارواح میں دیدار الہی کا انکار !!!!!
کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے


سوال پھر سے قائم ہوگیا ہے۔
یا پھر میں اس سوال کو آپ کے دلائل کی روشنی میں اس طرح کئے دیتا ہوں کہ
کیا آپ کو "عہد الست" یاد ہے ؟
علم دین کے کس شعبے میں اس عہد کو دیا دلانے کی سعی کی جاتی ہے ؟؟؟
احسان دین ِ اسلام کا وہ شعبہ ہے جو اس طرح اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے کو کہتا ہے۔
ان درجات تک پہنچنے کی راہ ہمیں قرآن و سنت ہی سے معلوم ہوتی ہےجیسا کہ میں نے اپنے مضمون میں وضاحت کی۔
اگر میں نے قیاس کا سہارا لیا ہے تو قرآن وسنت ہی کی روشنی میں ایسا کیا ہے۔ اگر آپ قرآن و سنت کی بنیاد پر بہتر قیاس کر سکتے ہیں تو ضرور کریں۔ اور میرے قیاس میں بھی غلطی کا امکان ہے۔
عالم ِ ارواح میں کیا دیدارِ الٰہی ہوا تھا کہ نہیں ؟ اس کی وضاحت میرے علم کی حد تک قرآن و سنت میں نہیں ہے۔ اگر آپ قرآن و سنت کی روشنی میں کر دیں تو مہربانی ہو گی۔
عالمِ برزخ کا تعلق مرنے کے بعد کا ہے مرنے سے پہلے نہیں۔
کیاآپ کی نظر میں عالمِ برزخ کا مرحلہ مرنے سے پہلے کا ہے ؟
ایک بات یاد رکھیں کہ '' عہدِ الست '' والی آیت کی تفسیر میں مفسرین کے درمیان اختلاف ہے کوئی اسے حقیقی واقعہ کے طور پر لیتا ہے اور کوئی تمثیلی طور پر۔ علامہ قرطبیؒ نے بھی اس کو مشکل آیات میں شمار کیا ہے۔ آپ کس تفسیر کو ترجیح دیتے ہیں ؟
 

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,121
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
اس لڑی کو شروع ہوئے تقریبا 6 ماہ ہو چکے ہیں ۔ لیکن بات ابھی تک کسی نتیجے پر نہیں پہنچی ۔

اس طرح کے موضوعات دیکھ کر ایک سوچ ذہن میں آتی ہے کہ ان کو ’’ مناظرانہ ‘‘ اصول و ضوابط کے مطابق چلانا چاہیے ۔
مثلا فریقین پہلے طے کریں کہ کسی اختلافی مسئلہ میں حقیقت تک پہنچنے کے لیے بات کہاں سے شروع ہو اور کہاں پر ختم ہو ؟
پھر ایک حکم مقرر ہو جو فریقین کو شروط اور قواعد و ضوابط کی پابندی پر مجبور کرے ۔
غیر ضروری باتیں اور غیر متعلقہ باتیں نہ ہوں ۔
فریق مخالف کے دلائل کا جواب دوسرے فریق سے دلوایا جائے ۔
پھر جوں جوں بات آگے بڑھتی جائے ۔ پہلی گفتگو کا خلاصہ نکالا جائے ۔
اور اگر دو اراکین یا ایک سے زیادہ اراکین چاہیں کہ بات انہیں کے ساتھ مخصوص ہو اور کوئی تیسرا آدمی اس میں دخل اندازی نہ کرے تو اس کی بھی سہولت ہونی چاہیے ۔

مناظرے کا لفظ سن کر عموما ہونے والے مناظرات جو تقریری ( شفہی ) ہوتے ہیں ، کے تناظر میں کوئی اچھا تصور ذہن میں نہیں آتا ۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ’’ تحریری مناظرہ ‘‘ تقریری سے بہت مختلف ہے ۔ اور بہت مفید بھی رہتا ہے ۔ مولانا عبد المنان نورپوری صاحب عموما اسی کو ترجیح دیا کرتے تھے اور ماشاء اللہ انہوں نے اس طریقے پر بہت کامیاب تحریری مناظرے کیے ہیں ۔
السلام علیکم !
خضر حیات بھائی ! آپ نے اب تک کیا نتیجہ اخذ کیا ہے کیا میرے دونوں مضمون مضبوط دلائل پر مبنی ہیں یا نہیں ؟ ضرور بتائیں۔
 

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,121
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
محترم بھائی۔
جب تصوف کی بات کی جاتی ہے تو میں نہیں جانتا کہ آپ لوگوں کے اذہان میں کون سا تصوف ہوتا ہے یا یوں کہہ لیں کہ تصوف کا کیا مفہوم ہوتا ہے۔
دراصل یہ وہ لائن ہے جس میں اہل بدعت و باطل لوگوں نے بہت کچھ شوشے چھوڑے اور مطلب بیان کیے ہیں۔ فقط اپنی مطلب برآری کے لیے۔
اگر ان باطل نظریات کے بارے میں یہ کہا جائے تو درست ہے لیکن یہ اصل تزکیہ نفس کے لیے تصوف نہیں۔
اگر آپ درست راہ تصوف پر چلتے ہوئے افراد کے افعال کو دیکھنا چاہیں تو صرف بر صغیر میں مجدد الف ثانیؒ سے لے کر عبد المجید دین پوریؒ تک دین کی ہر خدمت میں ایسے لوگ نظر آئیں گے جو اپنے شیوخ کے ہاتھ پر بیعت تھے اور سلوک کی راہ کے راہی تھے۔ ان سب کو ایک جانب رکھ کر یہ کہنا کہ اہل تصوف جہاد وغیرہ نہیں کرتے ایک عجیب اور حیرت انگیز بات ہے۔
محترمی!
میں خود تصوف کے ایک سلسلے سے منسلک ہوں لیکن نہ تو میں کونے میں بیٹھ کر صرف ضربیں لگاتا رہتا ہوں اور نہ ہی امت مسلمہ کے آلام و مصائب سے ناواقف ہوں۔ میں علم شریعت حاصل کرتا ہوں۔ دین و دنیا کے ہر کام میں بساط بھر حصہ ڈالنے کی کوشش کرتا ہوں اور امت مسلمہ کے غم میں کڑھتا ہوں۔ میری ہر پوزیشن اور کامیابی پر میرے شیخ مجھے دعا دیتے ہیں۔
لیکن مجھے ترک دنیا کا حکم نہیں دیا گیا۔ آخر کیوں؟ اور یہ صرف میرے ساتھ خاص نہیں بلکہ میں آپ کو صرف کراچی میں موجود ہزاروں لوگ دکھا سکتا ہوں۔

بات یہ ہے کہ منازل سلوک اور اذکار و ادعیہ تو درست ہیں لیکن ان میں کسی کو بند کرنا یا ان کی غلط تشریحات میں پھنسا دینا اہل حق کا کام نہیں اور نہ وہ کرتے ہیں۔
یہ ان اہل باطل نے مشہور کیا ہے جن کا مقصد کچھ اور ہوتا ہے۔
ہاں یہ ضرور یاد رکھنے کی بات ہے کہ بسا اوقات کسی ایک بندے کو کسی خاص کام سے روکا جاتا ہے وقتی طور پر یا مستقل۔ لیکن وہ اس کے خاص حالات کی وجہ سے ہوتا ہے۔ سب کے لیے یہ نہیں ہوتا۔
ازراہ کرم تھوڑا ذہن کو وسیع کیجیے اور جو نہ معلوم ہو وہ جاننے والوں سے پوچھ لیا کریں۔ جو جس لائن کا بندہ ہوتا ہے وہ اس کی زیادہ جانکاری رکھتا ہے۔ اگر آپ اہل ظاہر سے اہل باطن کے بارے میں سوال کریں گے تو یقینا جواب درست نہیں ملے گا۔
ہم قرآن وسنت کی لائن والے بندے ہیں اور قرآن و سنت میں '' ظاہر '' اور '' باطن '' دونوں کے متعلق ہدایات موجود ہیں۔ لہذا ہمیں '' اہلِ باطن '' سے ہدایات لینے کا شوق نہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے لیے اسوہء حسنہ صرف اور صرف نبی ﷺ کی ذات ہے۔ اگرآپ کی نظر میں مجدد الف ثانی اور عبد المجید دین پوری اسوہ حسنہ ہیں تو ایسی جسارت تو آپ کو ہی شیوہ دیتی ہیں۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
ہم قرآن وسنت کی لائن والے بندے ہیں اور قرآن و سنت میں '' ظاہر '' اور '' باطن '' دونوں کے متعلق ہدایات موجود ہیں۔ لہذا ہمیں '' اہلِ باطن '' سے ہدایات لینے کا شوق نہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے لیے اسوہء حسنہ صرف اور صرف نبی ﷺ کی ذات ہے۔ اگرآپ کی نظر میں مجدد الف ثانی اور عبد المجید دین پوری اسوہ حسنہ ہیں تو ایسی جسارت تو آپ کو ہی شیوہ دیتی ہیں۔
کیا عجیب عجیب باتیں کرتے ہیں؟
لگتا ہے آپ کو یہی علم نہیں کہ ہم کیا کہتے ہیں اور کیا نہیں۔
یہ کس نے کہا ہے کہ مجدد الف ثانی وغیرہ کی سیرت نبی ﷺ کے مقابلے میں اسوہ حسنہ ہے؟
پتا نہیں کیا کیا سوچتے ہیں اور اس پر حکم لگانا شروع ہو جاتے ہیں۔ کرتے رہیے۔
 
Top