• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

جب تمام اہلِ حدیث علماء و عوام نے ان کتابوں کا رد کردیا ہے تو ------ !!!

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
رفع یدین پر ایک دیوبندی عالم کی عجیب و غریب سوچ؟
3499d8x.gif
السلام و علیکم دوستو

میرا مقصد کسی پر طنز کرنا نہیں لکین اس تحریر کو پڑھ کر حیرانگی ضرور ہوئی اس لیے سب کے سامنے شئر کر رہا ہوں ۔۔

1۔کبھی تو مولوی صاحب کہتے ہین کہ دونوں ثابت ہین ۔۔
تو عمل بھی دونوں‌ پر ہونا چاہیے تھا؟

2۔امام بخاری کی جز رفع یدین پر تنقید کی گئی ہے۔
لیکن وہی صحیح بخاری ان کے مدرسہ میں‌ بڑے زوق شوق سے پڑھائی جاتی ہے۔

3۔لکھتے ہین اختلاف صرف افضلیت اور عدم افضلیت کا ہے۔
تو کرنا افضل ہونا چاہیے تھا۔۔۔کیونکہ کوئی نیکی کا کام ہو کرنا افضل ہوتا ہے نہ کے نہ کرنا؟

4 ۔لکھتے ہیں‌ رفع یدین کرنا رسول اللہ صلٰی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے ۔۔۔۔

تو پھر نہ کرنے کا مقصد؟ شاید یہ جملہ غلطی سے لکھا گیا ہے۔؟

5۔لکھتے ہیں‌ حنفییہ کے نزدیک رفع یدین رسول اللہ صلٰی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے۔

لیکن پھر بھی نہ کرنا افضل ؟

6۔حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ کے بارے میں‌لکھتے ہیں کے وہ صرف پہلی مرتبہ کے قائل تھے۔

لیکن وتر اور عیدین کی نماز میں حنفی بھائی بھی اس بات کے خلاف کرتے ہیں ۔
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
دیوبندی اکابر کی رفع الدین کے بارے میں رائے

کبھی کہتے ہیں کہ رفع الیدین اور ترک رفع الیدین دونوں سنت ہیں۔


نماز میں رفع الیدین کرنا، نہ کرنا اہل حدیث اور احناف کے مابین انتہائی معرکتہ الآراء مسئلہ ہے جس پر جانبین کی جانب سے متعدددھواں دھار تصانیف منصہ شہو د پر جلوہ گر ہوچکیں ہیں۔رفع الیدین کے اثبات میں دلائل کی مضبوطی نے حنفیوں کو اس قدر مخبوط الحواس کر دیا ہے کہ آج تک یہ لوگ رفع الیدین کے حکم سے متعلق کوئی حتمی فیصلہ نہیں کرسکے بلکہ دفع الوقتی کے تحت مختلف اور متصادم حیلوں، بہانوں اور بودی تاویلوں کے سہارے اس سنت متواترہ سے انکار کرکے جان چھڑانے کی فکر میں رہتے ہیں۔

1۔ کبھی کہتے ہیں کہ رفع الیدین اور ترک رفع الیدین دونوں سنت ہیں۔

۱۔ جیسے شاہ ولی اللہ حنفی کہتے ہیں: میرے نزدیک حق بات یہ ہے کہ رفع الیدین کرنا یا نہ کرنا دونوں طرح سنت ہے۔(حجتہ اللہ بالغہ)

۲۔ اسی طرح یوسف لدھیانوی دیوبندی رفع الیدین اور ترک رفع الیدین کے مسئلے میں بحث کرتے ہوئے دونوں کو سنت کہتے ہوئے لکھتے ہیں: اسی طرح امام ابوحنیفہ و مالک اور ان کے متبعین نے بھی ان صورتوں میں سے سنت ہی کی ایک صورت کو اختیار کیا ہے۔ اس لئے ان کوبھی ترک سنت کا الزام دینا صحیح نہیں۔
(اختلاف امت اور صراط مستقیم، صفحہ 365)

۳۔ ریاست علی بجنوری دیوبندی مسئلہ رفع الیدین سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے رفع الیدین اور ترک رفع الیدین دونو ں کے سنت ہونے کا اقرار کرتے ہوئے لکھتے ہیں: جن فروعی مسائل میں ایک سے زائد طریقے ثابت بالسنتہ ہیں۔(رفع یدین صحیح بخاری میں پیش کردہ دلائل کی روشنی میں،صفحہ 3)

۴۔ ترک اور رفع یدین سے متعلق شاہ عبدالقادر دہلوی کا موقف بھی دونوں کے سنت ہونے کا ہے۔فرماتے ہیں: جس طرح رفع یدین سنت ہے اسی طرح ارسال بھی سنت ہے۔(ارواح ثلاثہ، صفحہ 114)

۵۔ سید فخر الدین احمد دیوبندی کے اس کلام سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک بھی رفع الیدین اور ترک رفع الیدین دونوں سنت ہیں۔ملاحظہ کیجئے : رکوع میں جاتے ہوئے اور رکوع سے سر اٹھاتے ہوئے رفع یدین سنت ہے، امام بخاری کا مسلک یہی ہے .....ان کا دعویٰ ہے کہ ترک رفع حدیث سے ثابت نہیں جبکہ واقعہ یہ ہے کہ دونوں مسلک حدیث ہی سے ثابت ہیں۔(رفع یدین صحیح بخاری میں پیش کردہ دلائل کی روشنی میں،صفحہ 11)

غیر ثابت شدہ ترک رفع الیدین کو بھی زبردستی سنت کہنااصل میں رفع الیدین کی ثابت شدہ سنت سے انکار کی ایک کوشش ہے۔تاکہ حنفی عوام ایک خلاف سنت اور بدعی عمل کو سنت سمجھ کر سینے سے لگائے رکھیں اور ترک رفع الیدین کے ترک کی نوبت نہ آئے۔

2۔ اور کبھی رفع الیدین کو متروک و منسوخ قرارد یتے ہیں۔

۱۔ عبدالغنی طارق لدھیانوی دیوبندی رفع الیدین کوبزعم خویش منسوخ ثابت کرتے ہوئے رقمطراز ہیں: اس سے معلوم ہوا کہ یہ روایت (رفع الیدین والی....راقم)منسوخ ہے...ورنہ حضرت ابن عمر ؓ کبھی اس پر عمل ترک نہ کرتے۔(شادی کی پہلی دس راتیں،صفحہ30)

۲۔ انوار خورشید دیوبندی کے نزدیک رفع الیدین متروک ہے۔چناچہ لکھتے ہیں: ملاحظہ فرمایئے: احادیث و آثار سے تو ثابت ہو رہا ہے کہ رکوع والا رفع الیدین باقی نہیں رہا۔(حدیث اور اہلحدیث، صفحہ426)

۳۔ یوسف لدھیانوی دیوبندی بھی اس سنت ثابتہ کوسنت متروکہ کہتے ہوئے رقم کرتے ہیں: ان تما م امورسے معلوم ہوتا ہے کہ رفع الیدین آپ کی سنت دائمہ نہیں بلکہ سنت متروکہ ہے۔(اختلاف امت اور صراط مستقیم، صفحہ 390)

۴۔ رفع الیدین کی سنت سے تقلیدیوں کو سخت چڑ ہے اسی لئے امین اوکاڑوی اس سنت رسولﷺ کا تمسخرانہ انداز میں ذکر کرتے ہوئے لکھتا ہے: معلوم ہوا کہ خیرالقرون میں رفع یدین کرکے نماز پڑھنے والا شخص عجائب گھر میں رکھنے کے لئے بھی نہ ملتا تھا۔اور رفع یدین کی تمام روایات اس پاک دور میں متروک العمل تھیں۔ (تجلیات صفدر، جلددوم، صفحہ 353)
ایک اور مقام پر رفع الیدین کی سنت سے اپنے بغض کا اظہار اس طرح کرتا ہے: کسی زمانہ میں یہ رفع یدین حضرت نے کی تو تھی مگر پھر ایسی متروک ہوئی کہ بعض متاخر الاسلام صحابہ کو اس کا علم تک نہ تھا۔(تجلیات صفدر، جلددوم، صفحہ 297)

3۔ کبھی رفع الیدین کو ناپسندیدہ یعنی مکروہ اور خلاف اولیٰ کہتے ہیں۔

۱۔ محمود الحسن دیوبندی صاحب فرماتے ہیں: حنفیہ کے نزدیک رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے اٹھتے وقت رفع الیدین کرنا مکروہ یعنی خلاف اولیٰ ہے۔ (ادلہ کاملہ، صفحہ 25)

۲۔ محمد یوسف لدھیانوی صاحب کہتے ہیں: البتہ ان (حنفیہ) کے نزدیک یہ عمل سنت متروکہ ہونے کی وجہ سے خلاف اولیٰ ہے۔(اختلاف امت اور صراط مستقیم، صفحہ 391)

۳۔ حبیب الرحمنٰ اعظمی دیوبندی لکھتے ہیں: تکبیر تحریمہ کے علاوہ رفع یدین کا خلاف اولیٰ ہونا بالکل ظاہر ہے۔(تحقیق مسئلہ رفع یدین، صفحہ 14)

4۔ کبھی تو یہ عاقبت نا اندیش حضرات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس سنت کو بدعت بھی کہہ دیتے ہیں۔

۱۔ پرائمری اسکول ماسٹر امین اوکاڑوی کی زندگی میں بہت ہی کم ایسے مواقع آئے ہونگے جب دین کے معاملے میں اس مشہور کذاب نے سچ بولا ہوگا ورنہ یہ شخص کثرت سے جھوٹ بولنے کا عادی تھا۔ رفع الیدین کے بارے میں بہت بڑا جھوٹ بولتے ہوئے صحابہ و تابعین پر بہتان گھڑتا ہے: اس سے معلوم ہوا کہ خیرالقرون میں نہ کوئی رفع یدین کرتاتھا۔ بلکہ عمل کرنا تو کجا صحابہ وتابعین نے کبھی یہ مسئلہ سنا نہ تھا۔ (تجلیات صفدر، جلددوم، صفحہ 358)
تو گویا رفع الیدین کرنا بدعت ہوئی ! لاحول ولاقوۃ

امین اوکاڑوی دجلیات صفدر (تجلیات صفدر)میں ایک جگہ واضح طور پر اس سنت کو بدعت کہہ کر اپنا نامہ اعمال مزید سیاہ کرتے ہوئے لکھتا ہے: تکبیر تحریمہ کے علاوہ دوسرے مواضع میں رفع یدین کرنا تعارض روایات کی وجہ سے سنیت اور نسخ سنیت میں دائر ہے، اور جب کوئی چیز سنیت اور بدعت میں دائر ہو یعنی اس کے سنت یا بدعت ہونے میں شبہ ہو تو اسکے بدعت ہونے کے پہلو کو راجح قرار دیاجاتا ہے۔ (تجلیات صفدر، جلددوم، صفحہ 372)

امین اوکاڑوی دیوبندی کے اس مکذبانہ دعویٰ کی تردید میں اتنا ہی کافی ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے فرمایا: نبی ﷺ کے صحابہ میں سے کسی ایک سے بھی یہ ثابت نہیں کہ وہ رفع یدین نہیں کرتا تھا۔ (جز رفع الیدین، صفحہ 86)

5۔ کبھی ان کے ہاں رفع الیدین ایک اختلافی مسئلہ بن جاتا ہے۔

۱۔ محمود الحسن دیوبندی صاحب لکھتے ہیں: رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے اٹھتے وقت رفع یدین سنت ہے یا نہیں؟ اس میں امت کا اختلاف ہے۔(ادلہ کاملہ، صفحہ 25)

۲۔ یوسف لدھیانوی دیوبندی رقم طراز ہیں: رفع الیدین کے باب میں جو احادیث مروی ہیں ان میں اختلاف و اضطراب ہے۔(اختلاف امت اور صراط مستقیم، صفحہ 390)

۳۔ محمد پالن حقانی دیوبندی کے نزدیک بھی رفع الیدین ایک اختلافی مسئلہ ہے اور وہ بھی کسی اور کے درمیان نہیں بلکہ صحابہ کرام کے مابین، چناچہ موصوف لکھتے ہیں: یہ ہے اختلاف۔حضرت عبداللہ بن عمرؓ کہتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں بار بار ہا تھ اٹھاتے تھے یعنی رفع یدین کرتے تھے اور حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کہتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کی نیت کرنے کے بعد نماز شروع کرتے وقت صرف ایک مرتبہ ہاتھ اٹھایا ہے بار بار نہیں اٹھایا ہے یعنی رفع یدین نہیں کیا ہے۔ واضح ہو کہ یہ اختلاف صحابہ کرام کا ہے اماموں کا نہیں۔(شریعت و جہالت، صفحہ 174)

۴۔ ریاست علی بجنوری دیوبندی رقمطراز ہیں: رفع یدین کا مسئلہ عہد صحابہؓ سے اختلافی ہے۔(رفع یدین صحیح بخاری میں پیش کردہ دلائل کی روشنی میں،صفحہ 5)

۵۔ نورالصباح نامی کتاب کے مقدمہ میں سرفراز خان صفدر دیوبندی لکھتے ہیں: ان فروعی اختلافات میں سے ایک مسئلہ رفع الیدین عند الرکوع و عندرفع الراس من الرکوع بھی ہے جو آنحضرت صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم اور حضرات صحابہ کرامؓ کے مبارک عہد سے تاہنوذ چلا آرہا ہے۔(نورالصباح، صفحہ 11)

سچ ہے کہ جھوٹے آدمی کی عقل نہیں ہوتی۔بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ نبی کریمﷺ کی موجودگی اور زمانہ مبارک میں ہی کسی مسئلہ پر صحابہ کرام کا اختلاف واقع ہوا ہو اور صحابہ نے اس اختلاف کا حل رسول اللہ ﷺ سے دریافت نہ کیا ہو اور نتیجتاً وہ اختلاف رفع نہ ہوگیا ہو؟! اصل حقیقت یہ ہے کہ ایسا کوئی اختلاف نہ تو رسول اللہ ﷺ کی عہد مبارک میں اور نہ ہی ان کے بعد صحابہ کے دور میں واقع ہوا ہے یہ یار لوگوں کی اختراع ہے جو انہوں نے ترک رفع یدین کو ثابت کرنے کے لئے گھڑی ہے۔اس ایک حوالے میں دیوبندیوں کے ’’امام اہل سنت‘‘ سرفراز خان صفدر نے رسول اللہ ﷺ اور ا ن کے تمام صحابہ پرسیاہ جھوٹ بولا ہے۔

6۔ کبھی تمام حدود پھلانگ کر کہتے ہیں کہ نماز میں رفع الیدین کرنا باعث فساد ہے۔

۱۔ شیخ محمد بن حیات سندھی حنفی رفع یدین کے بارے میں احناف کا موقف تحریر کرتے ہوئے رقم کرتے ہیں: اس میں چار اقوال ہیں۔ اور راجح یہ ہے کہ یہ جائز نہیں ہے کیونکہ نماز میں رفع یدین کرنا نماز کے مفسدات میں سے ہے۔(غایۃ التحقیق و نہایۃ التدقیق، صفحہ 3، بحوالہ تحفتہ المناظر از امین اللہ پشاوری، صفحہ150)

7۔ اور کبھی رفع الیدین کی سنت مبارکہ کو قابل نفرت قرار دیتے ہیں۔

اوکاڑی کی زبانی سنیے فرماتے ہیں: سیدنا امام اعظم ابوحنیفہ نے 20 مرتبہ بصرہ کا علمی سفر کیا، 55 حج کیے 6 سال مستقل مکہ مکرمہ میں قیام پذیر رہے۔ آپ بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح اس رفع یدین سے نفرت کا اظہار فرماتے تھے۔(تجلیات صفدر، جلددوم، صفحہ 313)

اپنی بے دلیل بات میں وزن پید اکرنے کے لئے اوکاڑوی دوہرا جرم کرتا ہے ۔ پہلے ایک جھوٹ گھڑتا ہے پھر اس جھوٹ کو نبی ﷺ کے ذمہ لگا دیتا ہے۔استغفراللہ!

8۔ کبھی کہتے ہیں کہ رفع الیدین شاذ ہے۔

۱۔ امین اوکاڑوی دیوبندی رقم طراز ہے: الغرض عدم رفع تعاملاً متواتر تھی اور رفع یدین عملاً شاذ۔ (تجلیات صفدر، جلددوم، صفحہ266)
رفع یدین کے بارے میں شاذ کا موقف دہراتے ہوئے امین اوکاڑوی لکھتا ہے: اور رفع یدین شاذ یا منکر ۔ (تجلیات صفدر، جلددوم، صفحہ376)

9۔ کبھی رسول اللہ ﷺ کی اس پیاری سنت کو جسے اللہ کے رسول ﷺ نے کبھی ترک نہیں کیا ، جانوروں کا فعل کہتے ہیں۔

دیوبندیوں کا مناظر ’’اسلام‘‘ امین اوکاڑوی لکھتا ہے: اس رفع یدین پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ناراضگی کا اظہار بھی فرمایا اور اسے جانوروں کے فعل سے تشبیہ بھی دی۔ (تجلیات صفدر، جلددوم، صفحہ350)

اس عبارت میں اوکاڑوی نے ناپاک جسارت کرتے ہوئے دوانتہائی خطرناک جھوٹ بولے ہیں پہلارفع یدین کو جانوروں کے فعل سے تشبیہ دینے کا اور دوسرااپنی گھڑی ہوئی جھوٹی بات کو نبی ﷺ سے منسوب کرنے کا۔

10۔ کبھی کبھی تو شرم وحیا کو بالائے طاق رکھ کر،بے غیرتی کا لبادہ اوڑھ کر اور دیانت و امانت کا سر عام جنازہ نکال کر رفع الیدین کرنے والے کو کافر کہتے ہیں۔ نعوذ باللہ من ذالک

محمد عاشق الہی میرٹھی دیوبندی لکھتے ہیں: اصل بات یہ تھی کہ بعض حنفیوں نے اہل حدیث یعنی غیر مقلدین زمانہ کو رفع یدین پر کافر کہنا شروع کردیا تھا۔ (تذکرۃ الخلیل ، حاشیہ صفحہ 132 تا 133)

آپ نے رفع الیدین کے حکم کے تعین میں تقلیدیوں کا اختلاف ملاحظہ کیا اب ہم انہیں کے بنائے ہوئے اصول آپ کی خدمت میں رکھتے ہیں دیکھئے کہ کس طرح ان کے اصول ان کی بے اصولیوں کے سبب ان ہی کے گلے پڑ گئے ہیں۔

غیر عالم اسکول ماسٹر امین اوکاڑوی (جوکہ دیوبندیوں کا مناظر اسلام تھا) نے جھوٹی بنیاد پراہل حدیث کے خلاف ایک اصول ذکر کیا ہے۔ لکھتا ہے: بعض غیر مقلدین سجدہ کی رفع یدین کو سنت کہتے ہیں ابو حفص عثمانی وغیرہ اور عام غیر مقلدین اس کے سنت ہونے کے منکر ہیں ۔اب سوال یہ ہے کہ سنت کا منکر بھی لعنتی ہوتا ہے اور غیر سنت کو سنت کہنے والا بھی لعنتی ہوتا ہے۔ (تجلیات صفدر، جلددوم، صفحہ371)

امین اوکاڑوی کسی معتبر اہل حدیث عالم سے سجدہ کی رفع الیدین کے سنت ہونے کا موقف ثابت نہیں کرسکا بلکہ صرف کسی ابوحفص عثمانی نامی مجہول شخص کا تذکرہ کرکے موصوف نے دھوکہ دینے کی نامراد سعی کی ہے۔چونکہ سجدہ کے رفع یدین کا کوئی ثبوت رسول اللہ ﷺ سے نہیں ملتا اسی لئے ایک معدوم عمل کے لئے سنت اور غیر سنت کی بحث تقلیدیوں کی فضول شعبدہ بازی ہے۔اس کے برعکس ہم نے آل تقلید کے مستند اور معتبر علماء سے رفع الیدین کے مسئلہ میں ان کا شدید اختلاف ثابت کیا ہے۔لہذاامین اوکاڑوی صاحب کا اصول اہل حدیث پر تو فٹ نہیں ہوتا الٹا ان کی اپنی گردن اس اصول کے شکنجے میں جکڑ گئی ہے۔ اگر رفع الیدین سنت ہے تو اس سنت کو بدعت، شاذ، متروک، منسوخ، مکروہ وغیرہ کہنے والے دیوبندی و حنفی لعنتی ہیں اور اگر رفع الیدین مکروہ، مفسد نماز اور جانوروں کا عمل ہے تو اس کو سنت کہنے والے دیوبندی و حنفی علماء و عوام یقینی لعنتی ہیں یعنی ہر دو صورتوں میں آل تقلید اپنے اصولوں کی لعنت و پھٹکار سے کسی صورت بچ نہیں سکتے۔ والحمداللہ

قرآن وحدیث کو ترک کرکے رجال کے اقوال و آرا میں جائے پناہ ڈھونڈنے والے دنیا میں بھی ذلیل و رسواء ہیں اور آخرت میں ذلیل و رسواء ہونگے ۔ان شاء اللہ۔ یہی وجہ ہے کہ یہ واحد اصول نہیں تھا جس کی زد میں آکر تقلیدیو ں نے ذلت اٹھائی ہے ابھی اس سے بڑھکر ایک اصول اور باقی ہے۔مفتی عبدالشکورقاسمی دیوبندی رقم طراز ہیں: جس شخص نے حدیث متواتر کا انکار کیا وہ کافر ہوگیا۔(کفریہ الفاظ اور ان کے احکامات مع گناہ کبیرہ و صغیرہ کا بیان، صفحہ45)



رفع الیدین کی احادیث متواتر ہیں اس کا اقرار دیوبندیوں کو بھی ہے۔ انور شاہ کشمیری دیوبندی ارشاد فرماتے ہیں: اور یہ جاننا چاہیے کہ رفع یدین بلحاظ سنداور عمل دونوں متواتر ہے۔اس میں کوئی شک نہیں ہے اور رفع یدین بالکل منسوخ نہیں ہوابلکہ اس کا ایک حرف بھی منسوخ نہیں ہوا۔(نیل الفرقدین، صفحہ 24، فیض الباری، جلد دوم، صفحہ 455)
تنبیہ: انور شاہ کشمیری کا رفع یدین کو سنداً متواتر کہنا رفع الیدین کی احادیث کو متواتر تسلیم کرنا ہے۔



انور شاہ کشمیری کی اس شہادت سے ایک جانب تو وہ تمام دیوبندی و حنفی علماء جھوٹے ثابت ہوتے ہیں جومتواتر رفع یدین کو منسوخ و متروک کہتے نہیں تھکتے اور دوسری جانب اس سنت غیر منسوخہ اور متواترہ کا مختلف حیلوں اور بہانوں سے انکار کرکے یہ لوگ اپنے ہی اصول کی زد میں آکر کافر قرار پاتے ہیں کیونکہ احادیث سے ایک ثابت شدہ سنت کو منسوخ، متروک ، مکروہ، خلاف اولیٰ ، بدعت،شاذ، اختلافی مسئلہ، مفسدات نماز، قابل نفرت عمل اور حیوانوں کا فعل قرار دینا ہی اصل میں رفع الیدین کی سنت متواترہ کے انکار کی ایک زوردارکوشش ہے۔

ہوسکتا ہے کہ کوئی کہے کہ رفع الیدین کو منسوخ و متروک وغیرہ قرار دینا متواتررفع الیدین کا انکار نہیں ہے۔ایسے لوگوں کی خدمت میں آل تقلید کا صاف انکار بھی پیش خدمت ہے۔ امین اوکاڑوی دیوبندی رقم طراز ہے: دوسری بات ابراہیم نخعی کے ارشاد سے یہ ثابت ہوئی کہ رفع یدین کی حدیث نہ سنداً متواتر ہے اور نہ عملاً۔ (تجلیات صفدر، جلددوم، صفحہ435)

دیکھا آپ نے! انورشاہ کشمیری صاحب نے صاف صاف اقرار کیا کہ رفع یدین کی احادیث بھی متواتر ہیں اور عملی طور پر بھی رفع یدین متواتر ہے اور مفتی عبدالشکورقاسمی صاحب نے ایک اصول ذکر کیا کہ متواتر احادیث کا انکار کرنے والا کا فر ہے اور امین اوکاڑوی صاحب نے واضح طور پر رفع الیدین کی احادیث کے متواتر ہونے کا انکار کرکے کفر کا طوق اپنی گردن میں پہن لیا۔

مفتی عبدالشکورقاسمی دیوبندی نے اپنی کتاب کے ایک اور مقام پرتواتر کے ردکو کفرکہا ہے: اگر کوئی رکوع اور سجدوں کی فرضیت کا بالکلیہ انکار کرے گا تو وہ کافر ہوجائے گا حتیٰ کہ اگر صرف دوسرے سجدے کی فرضیت کا بھی انکار کرے گا تو وہ کافر ہوگا اس لئے کہ اس نے اجماع اور تواتر کا رد کیا ہے ۔(کفریہ الفاظ اور ان کے احکامات مع گناہ کبیرہ و صغیرہ کا بیان، صفحہ53)

اس حوالے میں اس شخص کے کافر ہونے کی اصل وجہ اجماع اور تواتر کا رد و انکار بیان ہوا ہے اورانور شاہ کشمیری کی زبانی رفع الیدین کا سنداً اور عملاً متواتر ہونا سطور بالا میں ذکر کیا جاچکا ہے اور دیوبندی علماء رفع یدین کو منسوخ ، متروک و معدوم مان کر رفع یدین کے عملی تواتر کا ردکرتے ہیں بلکہ سرے سے رفع الیدین کے تواتر کے منکر ہیں۔

امین اوکاڑوی دیوبندی نے لکھا: غیرمقلدین یہ بھی جھوٹ بولا کرتے ہیں کہ اختلافی رفع یدین کی حدیث متواتر ہے...یہ ایک دفعہ بھی اللہ کے نبیﷺ، کسی صحابی اور کسی ایک تابعی سے ثابت نہیں، چہ جائیکہ متواتر ہو۔ (تجلیات صفدر، جلدچہارم، صفحہ126)

پرائمری اسکو ل ماسٹر امین اوکاڑی ہی نے لکھا ہے: لا مذہبوں کا دعویٰ ہے کہ اس رفع یدین کی حدیث متواتر ہے اگر ان کا یہ دعویٰ صحیح ہوتا...الخ (تجلیات صفدر، جلددوم، صفحہ387)

محمد حبیب اللہ ڈیروی دیوبندی لکھتا ہے: معلوم ہوا کہ حضرات صحابہ کرام کاترک رفع الیدین پر اجماع تھا۔(نورالصباح، صفحہ 170)

حبیب اللہ ڈیروی کے خود ساختہ اجماع اور امین اوکاڑوی دیوبندی کی تصریحات سے معلوم ہوا کہ ان کے نزدیک رفع الیدین متواتر نہیں ہے جبکہ ان ہی کے محدث انورشاہ کشمیری کے نزدیک رفع الیدین متواتر ہے حتی کہ اس کا ایک حرف بھی منسوخ نہیں ہوا۔ پس دیوبندی رفع یدین کے تواتر کا انکار کرکے اپنے ہی اصولوں کی روشنی میں دائرہ کفر میں داخل ہوگئے ہیں۔انا اللہ وانا الیہ راجعون

اصل میں یہ نتیجہ ہے جھوٹ بولنے کااور سنتوں کو اپنانے کے بجائے ان سے دشمنی رکھنے کا۔ اگر تقلیدی تعصب انکی عقلیں زائل نہ کردیتا تو اصولوں کی شکل میں انہیں کے جوتے انہیں کے سروں پر نہ پڑتے ۔اللہ ہمیں تقلیدی و مذہبی تعصب سے محفوظ رکھے جوراہ حق میں سب سے بڑی روکاوٹ ہے۔آمین یا رب العالمین۔
 
شمولیت
مئی 12، 2014
پیغامات
226
ری ایکشن اسکور
68
پوائنٹ
42
ترک رفع یدین کے مضبوط دلائل نے اکابر اہل حدیث کو مجبور کر دیا حق لکھنے پر!
مولانا سید نذیر حسین صاحب دہلوی اپنے فتاویٰ نذیریہ جلد1 صفحہ 141 میں فرماتے ہیں
کہ رفع یدین میں جھگڑاکرنا تعصب اور جہالت کی بات ہے ، کیونکہ آنحضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وسلم سے دونوں ثابت ہیں ، دلایل دونوں طرف ہیں۔
نواب صدیق حسن خاں صاحب بھوپالی کی کتاب روضہ الندیہ میں حضرت شاہ ولی اللہ صاحب سے نقل کرتے ہوے فرماتے ہیں۔
۔"رفع یدین و عدم رفع یدین نماز کے ان افعال میں سے ہے جن کو آنحضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے کبھی کیا ہے اور کبھی نہیں کیا ہے ، اور سب سنت ہے ، دونوں بات کی دلیل ہے ، حق میرے نزدیک یہ ہے کہ دونوں سنت ہیں۔۔۔(صفحہ 148)"۔
دیکھتا ہوں ہند وپاک کے اہل حدیث کب "ترک رفع یدین " کی سنت پر عمل کرتے ہیں؟
عامر بھائی نے لکھا ہے کہ
رفع الیدین کی احادیث متواتر ہیں اس کا اقرار دیوبندیوں کو بھی ہے۔ انور شاہ کشمیری دیوبندی ارشاد فرماتے ہیں: اور یہ جاننا چاہیے کہ رفع یدین بلحاظ سنداور عمل دونوں متواتر ہے۔اس میں کوئی شک نہیں ہے اور رفع یدین بالکل منسوخ نہیں ہوابلکہ اس کا ایک حرف بھی منسوخ نہیں ہوا۔(نیل الفرقدین، صفحہ 24، فیض الباری، جلد دوم، صفحہ 455)
فتاویٰ علماۓحدیث میں سجدوں کی رفع یدین کو سنت اور رسول اللہ ﷺ کا آخری فعل لکھا ہے اگر رفع یدین کا ایک حرف بھی منسوخ نہیں تو سجدوں میں رفع یدین اہل حدیث کیوں نہیں کرتے؟؟؟اسی محدث لائبریری میں "محدث لائبریری" کی ٹیم نے دو کتابوں کو پاس کر کے اپلوڈ کیا ہے "علامہ البانی کی کتاب نماز نبوی" اور علامہ رئیس احمد ندوی کی کتاب رسول اکرم کا صحیح طریقہ نماز" ان دونوں کتب میں ہر تکبیر کے ساتھ رفع یدین کی احادیث نقل کی گئی ہیں ۔جب رفع یدین کا ایک لفظ بھی منسوخ نہیں تو ہر تکبیر کے ساتھ رفع یدین چھوڑ کر اہل حدیث اس سنت کے منکر کیوں بنے ہوئے ہیں؟؟؟
 
شمولیت
مئی 12، 2014
پیغامات
226
ری ایکشن اسکور
68
پوائنٹ
42
کیا اہل حدیث اس حدیث کے منکر ہیں؟
-بَاب رَفْعِ الْيَدَيْنِ لِلسُّجُودِ
۳۶-باب: سجدہ کرتے وقت رفع یدین کرنے کا بیان
1086- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ نَصْرِ ابْنِ عَاصِمٍ، عَنْ مَالِكِ بْنِ الْحُوَيْرِثِ: أَنَّهُ رَأَى النَّبِيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَفَعَ يَدَيْهِ فِي صَلاتِهِ، وَإِذَا رَكَعَ، وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنْ الرُّكُوعِ، وَإِذَا سَجَدَ، وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنْ السُّجُودِ، حَتَّى يُحَاذِيَ بِهِمَا فُرُوعَ أُذُنَيْهِ۔
(تحفۃ الأشراف: ۱۱۱۸۴)، (صحیح)

۱۰۸۶- مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کو صلاۃ میں جب آپ رکوع کرتے، اور جب رکوع سے اپنا سر اٹھاتے، اور جب سجدہ کرتے، اور جب سجدہ سے اپنا سر اٹھاتے رفع یدین کرتے دیکھا، یہاں تک کہ آپ اپنے دونوں ہاتھوں کو اپنے دونوں کانوں کی لو کے بالمقابل کر لیتے
سجدہ میں جاتے اور اُٹھتے وقت رفع یدین اس صحیح حدیث سے ثابت ہے اور بقول اہل حدیث حضرات کے مالک بن حویرث نبی اکرم ﷺ کے آخری دور میں مسلمان ہوئے تھے ۔
اس لئے یہ عمل بھی آخری عمر کا ہوا اس آخری عمل کو اہل حدیث حضرات نے کیوں چھوڑ رکھا ہے؟ ثابت ہوا اہل حدیث حضرات اس حدیث مبارکہ کے منکر ہیں؟؟؟
 
شمولیت
مئی 09، 2014
پیغامات
93
ری ایکشن اسکور
46
پوائنٹ
18
محترم معاویہ بھائی -

اگر میں آپ سے کہوں کہ آپ پانچ نمازوں کے ارکان و اوقات اور وضو کے طریقے جن کے بارے میں سنی مسلمانوں میں کسی قسم کا کوئی اختلاف بھی نہیں ہے - اور سب متفق بھی ہیں- ان کو آپ کم از کم ٧٠ صحابہ کرام رضوان الله اجمعین سے با روایت ثابت کردیں تو کیا آپ ایسا کرسکیں گے؟؟؟ -
جواد بھیا اگر میں یہ دعوی کروں (پانچ نمازوں کے ارکان و اوقات اور وضو کے طریقے) تمام صحابہ کرام سے ثابت ہیں تو آپ یقینا مجھ سے ستر صحابہ کرام سے انہیں ثابت کرنے کا مطالبہ کر سکتے ہیں
ورنہ نہیں؟؟؟
عامر بھیا نے تمام صحابہ کرام سے رفع یدین کا جھوٹا دعوی کیا اس لئے اُن سے میرا مطالبہ کرنا میرا حق ہے اور انہیں اس جھوٹ سے جلد بری الذمہ ہونا چاہئے ۔کزاب آدمی کی کوئی بات قابل قبول نہیں ہوتی ،انہیں سمجھائیں
 
شمولیت
مئی 12، 2014
پیغامات
226
ری ایکشن اسکور
68
پوائنٹ
42
10154272_652383078150900_8217884995008906801_n.jpg

محترم عامر یونس صاحب: اس دھاگہ میں بات نواب صدیق حسن خان صاحب کی کتاب کے اس پیج سے شروع ہوئی اور بہت دور نکل گئی،اس پر واپس آتے ہیں
بندہ نے آپ سے پوچھا تھا کہ ان باتوں کی وضاحت فر مادیں
اکثر نواب صدیق حسن خان کی کتب سے بعض شاذ اقوال اور غیر مفتیٰ بہ مسائل پیش کرتے ہیں
شاذ قول کسے کہتے ہیں؟ اور غیر مفتیٰ بہ مسائل کون کون سے ہیں اور "غیر مفتیٰ بہ " کسے کہتے ہیں؟ مکمل تشریح کریں۔اور یہ بھی بتائیں کہ شاذ اور غیر مفتیٰ بہ قول پیش کر کے کسی مذہب کو طعن و تشنیع کا نشانہ بنانا صحیح ہے یا غلط؟
نواب صاحب کے بعض ذاتی اجتہادات اور ذاتی آرا کو پوری جماعت اہل حدیث کا مذہب بتا کر عوام الناس کو دھوکا دیتے ہیں
یہاں جناب کیا یہ کہنا چاہتے ہیں کہ کسی عالم کی ذاتی رائے اور اجتہاد کو پوری جمات کا مذہب بتا کر پیش کرنا عوام الناس کو دھوکا دینا ہے ؟ اور یہ بھی بتائیں کہ ذاتی رائے اور ذاتی اجتہاد کسے کہتے ہیں؟
نواب صدیق حسن خان نے بھی اہل حدیث ہونے کے ناطے
یہاں جناب نے نواب صدیق حسن خان صاحب کو "اہل حدیث " تسلیم کیا ہے ، کیا میں صحیح سمجھا ہوں ؟
امید ہے کہ میرا بھائی اصل موضوع کی طرف آتے ہوئے ان باتوں کی وضاحت ضرور کریگا
 
شمولیت
مئی 12، 2014
پیغامات
226
ری ایکشن اسکور
68
پوائنٹ
42
میرے بھائی آپ ایک صحیح حدیث پیش کر دے ترک رفع یدین پر 70 نہیں
عامر بھائی :شرم تم کو مگر نہیں آتی !
اتنا بڑا جھوٹا دعوی("تمام صحابہ رفع الیدین کے قائل و فاعل تھے") کر کےاسے ثابت کرنے کی بجائے دوسروں سے مطالبہ کرتے شرم نہیں آتی؟
چلو میں سو صحابہ کرام کے مطالبہ میں کمی کرتے ہوئے بھائی زین العابدین کے مشہور عدد ستر کو سامنے رکھتے ہوئے تیس روایات جناب کو معاف کرتا ہوں
میرا اور بھائی زین العابدین کا ایک ہی مطالبہ ہے کہ جناب تمام صحابہ کرام میں سے صرف ستر صحابہ کرام علیہم الرضوان سےالگ الگ باسند صحیح رکوع میں جاتے اور اُٹھتے ہوئے کا رفع یدین نقل کر دیں ،تاکہ جناب کزاب ہونے سے بچ سکیں؟
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
عامر بھائی :شرم تم کو مگر نہیں آتی !
اتنا بڑا جھوٹا دعوی("تمام صحابہ رفع الیدین کے قائل و فاعل تھے") کر کےاسے ثابت کرنے کی بجائے دوسروں سے مطالبہ کرتے شرم نہیں آتی؟
چلو میں سو صحابہ کرام کے مطالبہ میں کمی کرتے ہوئے بھائی زین العابدین کے مشہور عدد ستر کو سامنے رکھتے ہوئے تیس روایات جناب کو معاف کرتا ہوں
میرا اور بھائی زین العابدین کا ایک ہی مطالبہ ہے کہ جناب تمام صحابہ کرام میں سے صرف ستر صحابہ کرام علیہم الرضوان سےالگ الگ باسند صحیح رکوع میں جاتے اور اُٹھتے ہوئے کا رفع یدین نقل کر دیں ،تاکہ جناب کزاب ہونے سے بچ سکیں؟


میرے بھائی آپ کے لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک صحیح حدیث کافی نہیں کیا ھمارے لئے نبی کی ایک ہی بات کافی نہیں کیا یہ طرز عمل صحابہ رضی اللہ عنہا کا تھا -

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد رفع الدین کا ثبوت میں پیش کر دیتا ہو

ایک ایسی حدیث جس میں پوری نماز کا طریقہ بیان کے گیا اور وہ بھی دس صحابہ کی موجودگی میں

یہ حدیث جامع ترمذی میں بیان ہوئی ہے اور یہ حسن صحیح ہے

جامع ترمذی:جلد اول:حدیث نمبر 286 حدیث مرفوع مکررات 63 بدون مکرر


حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّی قَالَا حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْحَمِيدِ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ عَطَائٍ عَنْ أَبِي حُمَيْدٍ السَّاعِدِيِّ قَالَ سَمِعْتُهُ وَهُوَ فِي عَشَرَةٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحَدُهُمْ أَبُو قَتَادَةَ بْنُ رِبْعِيٍّ يَقُولُ أَنَا أَعْلَمُکُمْ بِصَلَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالُوا مَا کُنْتَ أَقْدَمَنَا لَهُ صُحْبَةً وَلَا أَکْثَرَنَا لَهُ إِتْيَانًا قَالَ بَلَی قَالُوا فَاعْرِضْ فَقَالَ کَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا قَامَ إِلَی الصَّلَاةِ اعْتَدَلَ قَائِمًا وَرَفَعَ يَدَيْهِ حَتَّی يُحَاذِيَ بِهِمَا مَنْکِبَيْهِ فَإِذَا أَرَادَ أَنْ يَرْکَعَ رَفَعَ يَدَيْهِ حَتَّی يُحَاذِيَ بِهِمَا مَنْکِبَيْهِ ثُمَّ قَالَ اللَّهُ أَکْبَرُ وَرَکَعَ ثُمَّ اعْتَدَلَ فَلَمْ يُصَوِّبْ رَأْسَهُ وَلَمْ يُقْنِعْ وَوَضَعَ يَدَيْهِ عَلَی رُکْبَتَيْهِ ثُمَّ قَالَ سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ وَرَفَعَ يَدَيْهِ وَاعْتَدَلَ حَتَّی يَرْجِعَ کُلُّ عَظْمٍ فِي مَوْضِعِهِ مُعْتَدِلًا ثُمَّ أَهْوَی إِلَی الْأَرْضِ سَاجِدًا ثُمَّ قَالَ اللَّهُ أَکْبَرُ ثُمَّ جَافَی عَضُدَيْهِ عَنْ إِبْطَيْهِ وَفَتَخَ أَصَابِعَ رِجْلَيْهِ ثُمَّ ثَنَی رِجْلَهُ الْيُسْرَی وَقَعَدَ عَلَيْهَا ثُمَّ اعْتَدَلَ حَتَّی يَرْجِعَ کُلُّ عَظْمٍ فِي مَوْضِعِهِ مُعْتَدِلًا ثُمَّ أَهْوَی سَاجِدًا ثُمَّ قَالَ اللَّهُ أَکْبَرُ ثُمَّ ثَنَی رِجْلَهُ وَقَعَدَ وَاعْتَدَلَ حَتَّی يَرْجِعَ کُلُّ عَظْمٍ فِي مَوْضِعِهِ ثُمَّ نَهَضَ ثُمَّ صَنَعَ فِي الرَّکْعَةِ الثَّانِيَةِ مِثْلَ ذَلِکَ حَتَّی إِذَا قَامَ مِنْ السَّجْدَتَيْنِ کَبَّرَ وَرَفَعَ يَدَيْهِ حَتَّی يُحَاذِيَ بِهِمَا مَنْکِبَيْهِ کَمَا صَنَعَ حِينَ افْتَتَحَ الصَّلَاةَ ثُمَّ صَنَعَ کَذَلِکَ حَتَّی کَانَتْ الرَّکْعَةُ الَّتِي تَنْقَضِي فِيهَا صَلَاتُهُ أَخَّرَ رِجْلَهُ الْيُسْرَی وَقَعَدَ عَلَی شِقِّهِ مُتَوَرِّکًا ثُمَّ سَلَّمَ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ قَالَ وَمَعْنَی قَوْلِهِ وَرَفَعَ يَدَيْهِ إِذَا قَامَ مِنْ السَّجْدَتَيْنِ يَعْنِي قَامَ مِنْ الرَّکْعَتَيْنِ


جامع ترمذی:جلد اول:حدیث نمبر 286 حدیث مرفوع مکررات 63 بدون مکرر

محمد بن بشار، محمد بن مثنی، یحیی بن سعید، عبدالحمید بن جعفر، محمد بن عمرو بن عطاء، ابوحمید ساعدی سے نقل کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میں نے ابوحمید کو کہتے ہوئے سنا اس وقت وہ وہ دس صحابہ میں بیٹھے ہوئے تھے جن میں ابوقتادہ ربعی بھی شامل ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نماز کے بارے میں تم سب سے زیادہ جانتا ہوں صحابہ نے فرمایا تم نہ حضور کی صحبت میں ہم سے پہلے آئے اور نہ ہی تمہاری رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاں زیادہ آمد ورفت تھی ابوحمید نے کہا یہ تو صحیح ہے صحابہ نے فرمایا بیان کرو ابوحمید نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب نماز کے لئے کھڑے ہوتے تو سیدھے کھڑے ہوتے اور دونوں ہاتھ کندھوں تک لے جاتے
جب رکوع کرنے لگتے تو دونوں ہاتھ کندھوں تک لے جاتے اور اللَّهُ أَکْبَرُ کہہ کر رکوع کرتے اور اعتدال کے ساتھ رکوع کرتے نہ سر کو جھکاتے اور نہ اونچا کرتے اور دونوں ہاتھ گھٹنوں پر رکھتے پھر سمع اللہ لمن حمدہ کہتے اور ہاتھوں کا اٹھاتے اور معتدل کھڑے ہوتے یہاں تک کہ ہر ہڈی اپنی جگہ پہنچ جاتی پھر سجدہ کے لئے زمین کی طرف جھکتے اور اللَّهُ أَکْبَرُ کہتے اور بازؤں کو بغلوں سے علیحدہ رکھتے اور پاؤں موڑ کو اس پر اعتدال کے ساتھ بیٹھ جاتے یہاں تک کہ ہر ہڈی اپنی جگہ پر پہنچ جاتے پھر سجدے کے لئے سر جھکاتے اور اللَّهُ أَکْبَرُ کہتے پھر کھڑے ہو جاتے اور ہر رکعت میں اسی طرح کرتے یہاں تک کہ جب دونوں سجدوں سے اٹھتے تو تکبیر کہتے اور دونوں ہاتھ کندھوں کے برابر اٹھاتے جیسے کہ نماز کے شروع میں کیا تھا پھر اسی طرح کرتے یہاں تک کہ ان کی نماز کی آخری رکعت آجاتی چنانچہ بائیں پاؤں کو ہٹاتے اور سیرین پر بیٹھ جاتے اور پھر سلام پھیر دیتے

امام ابوعیسی فرماتے ہیں یہ حدیث حسن صحیح ہے اور إِذَا السَّجْدَتَيْنِ سے مراد یہ ہے کہ جب دو رکعتوں کے بعد کھڑے ہوتے تو رفع یدین کرتے

یہ حدیث سنن ابوداؤد میں بھی موجود ہے

سنن ابوداؤد:جلد اول:حدیث نمبر 726 حدیث مرفوع مکررات 63 بدون مکرر
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ الضَّحَّاکُ بْنُ مَخْلَدٍ ح و حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ حَدَّثَنَا يَحْيَی وَهَذَا حَدِيثُ أَحْمَدَ قَالَ أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْحَمِيدِ يَعْنِي ابْنَ جَعْفَرٍ أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عُمَرَ بْنِ عَطَائٍ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا حُمَيْدٍ السَّاعِدِيَّ فِي عَشْرَةٍ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْهُمْ أَبُو قَتَادَةَ قَالَ أَبُو حُمَيْدٍ أَنَا أَعْلَمُکُمْ بِصَلَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالُوا فَلِمَ فَوَاللَّهِ مَا کُنْتَ بِأَکْثَرِنَا لَهُ تَبَعًا وَلَا أَقْدَمِنَا لَهُ صُحْبَةً قَالَ بَلَی قَالُوا فَاعْرِضْ قَالَ کَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا قَامَ إِلَی الصَّلَاةِ يَرْفَعُ يَدَيْهِ حَتَّی يُحَاذِيَ بِهِمَا مَنْکِبَيْهِ ثُمَّ يُکَبِّرُ حَتَّی يَقِرَّ کُلُّ عَظْمٍ فِي مَوْضِعِهِ مُعْتَدِلًا ثُمَّ يَقْرَأُ ثُمَّ يُکَبِّرُ فَيَرْفَعُ يَدَيْهِ حَتَّی يُحَاذِيَ بِهِمَا مَنْکِبَيْهِ ثُمَّ يَرْکَعُ وَيَضَعُ رَاحَتَيْهِ عَلَی رُکْبَتَيْهِ ثُمَّ يَعْتَدِلُ فَلَا يَصُبُّ رَأْسَهُ وَلَا يُقْنِعُ ثُمَّ يَرْفَعُ رَأْسَهُ فَيَقُولُ سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ ثُمَّ يَرْفَعُ يَدَيْهِ حَتَّی يُحَاذِيَ بِهِمَا مَنْکِبَيْهِ مُعْتَدِلًا ثُمَّ يَقُولُ اللَّهُ أَکْبَرُ ثُمَّ يَهْوِي إِلَی الْأَرْضِ فَيُجَافِي يَدَيْهِ عَنْ جَنْبَيْهِ ثُمَّ يَرْفَعُ رَأْسَهُ وَيَثْنِي رِجْلَهُ الْيُسْرَی فَيَقْعُدُ عَلَيْهَا وَيَفْتَحُ أَصَابِعَ رِجْلَيْهِ إِذَا سَجَدَ وَيَسْجُدُ ثُمَّ يَقُولُ اللَّهُ أَکْبَرُ وَيَرْفَعُ رَأْسَهُ وَيَثْنِي رِجْلَهُ الْيُسْرَی فَيَقْعُدُ عَلَيْهَا حَتَّی يَرْجِعَ کُلُّ عَظْمٍ إِلَی مَوْضِعِهِ ثُمَّ يَصْنَعُ فِي الْأُخْرَی مِثْلَ ذَلِکَ ثُمَّ إِذَا قَامَ مِنْ الرَّکْعَتَيْنِ کَبَّرَ وَرَفَعَ يَدَيْهِ حَتَّی يُحَاذِيَ بِهِمَا مَنْکِبَيْهِ کَمَا کَبَّرَ عِنْدَ افْتِتَاحِ الصَّلَاةِ ثُمَّ يَصْنَعُ ذَلِکَ فِي بَقِيَّةِ صَلَاتِهِ حَتَّی إِذَا کَانَتْ السَّجْدَةُ الَّتِي فِيهَا التَّسْلِيمُ أَخَّرَ رِجْلَهُ الْيُسْرَی وَقَعَدَ مُتَوَرِّکًا عَلَی شِقِّهِ الْأَيْسَرِ قَالُوا صَدَقْتَ هَکَذَا کَانَ يُصَلِّي صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
سنن ابوداؤد:جلد اول:حدیث نمبر 726 حدیث مرفوع مکررات 63 بدون مکرر
احمد بن حنبل، ابوعاصم، ضحاک بن مخلد، مسدد، یحی، احمد، عبدالحمید، ابن جعفر، محمد بن عمر بن عطاء، حضرت ابوحمید ساعدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دس صحابہ کے درمیان بیٹھے ہوئے تھے جن میں ابوقتادہ بھی تھے ابوحمید نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نماز کے متعلق میں تم میں سے سب سے زیادہ واقفیت رکھتا ہوں صحابہ نے کہا وہ کیسے؟ بخدا تم ہم سے زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیروی نہیں کرتے تھے اور نہ ہی تم ہم سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحبت میں آئے تھے ابوحمید نے کہا ہاں یہ درست ہے صحابہ نے کہا اچھا تو پھر بیان کرو ابوحمید کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تھے تو اپنے دونوں ہاتھ مونڈھوں تک اٹھاتے اور تکبیر کہتے یہاں تک کہ ہر ہڈی اعتدال کے ساتھ اپنے مقام پر آجاتی اس کے بعد قرات شروع فرماتے پھر (رکوع) کی تکبیر کہتے ہوئے دونوں ہاتھ مونڈھوں تک اٹھاتے اور رکوع کرتے اور رکوع میں دونوں ہتھیلیاں گھٹنوں پر رکھتے اور پشت سیدھی رکھتے سر کو نہ زیادہ جھکاتے اور نہ اونچا رکھتے۔ پھر سر اٹھاتے اور ۔سَمِعَ اللہ لِمَن حَمِدَہ کہتے۔ پھر سیدھے کھڑے ہو کر دونوں ہاتھ مونڈھوں تک اٹھاتے اور تکبیر کہتے ہوئے زمین کی طرف جھکتے (سجدہ کرتے) اور (سجدہ میں) دونوں ہاتھوں کو پہلوؤں سے جدا رکھتے پھر (سجدہ سے) سر اٹھاتے اور بائیں پاؤں کو بچھا کر اس پر بیٹھتے اور سجدہ کے وقت پاؤں کی انگلیوں کو کھلا رکھتے پھر (دوسرا) سجدہ کرتے اور اللہ اکبر کہہ کر پھر سجدہ سے سر اٹھاتے اور بائیں پاؤں کو بچھا کر اس پر اتنی دیر تک بیٹھتے کہ ہر ہڈی اپنے مقام پر آجاتی (پھر کھڑے ہوتے) اور دوسری رکعت میں بھی ایسا ہی کرتے پھر جب دو رکعتوں سے فارغ ہو کر کھڑے ہوتے تو اللہ اکبر کہتے اور مونڈھوں تک دونوں ہاتھ اٹھاتے جس طرح کہ نماز کے شروع میں ہاتھ اٹھائے تھے اور تکبیر کہی تھی پھر باقی نماز میں بھی ایسا ہی کرتے یہاں تک کہ جب آخری سجدہ سے فارغ ہوتے یعنی جس کے بعد سلام ہوتا ہے تو بایاں پاؤں نکالتے اور بائیں کولھے پر بیٹھتے (یہ سن کر) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ نے کہا تم نے سچ کہا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسی طرح نماز پڑھتے تھے۔
 
شمولیت
مئی 12، 2014
پیغامات
226
ری ایکشن اسکور
68
پوائنٹ
42
عامر بھائی میری آپ کی اس دھاگہ میں یہ بحث ہر گز نہیں چل رہی کہ رفع یدین کرنا چاہئیے یا نہیں؟بات چل رہی ہے جناب کے ایک بہت بڑے جھوٹ ("تمام صحابہ رفع الیدین کے قائل و فاعل تھے")پر جو جناب نے تمام صحابہ کرام کے ذمہ لگایا ہے۔ اپنے اس جھوٹ پر پردہ نہ ڈالیں ،کوشش کریں صرف ستر صحابہ کرام سے الگ الگ با سند صحیح روایات نقل کر کے اپنے آپ کو کزاب ہونے سے بچائیں ،
یا اپنے اس جھوٹ سے توبہ کرتے ہوئے اللہ تعالی سے معافی مانگیں ۔
جناب نے لکھا ہے کہ
"میرے بھائی آپ کے لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک صحیح حدیث کافی نہیں کیا ھمارے لئے نبی کی ایک ہی بات کافی نہیں"
اپنی اس بات پر قائم رہیں اور فوری اس حدیث مبارکہ پر عمل شروع کر دیں
-بَاب رَفْعِ الْيَدَيْنِ لِلسُّجُودِ
۳۶-باب: سجدہ کرتے وقت رفع یدین کرنے کا بیان
1086- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ نَصْرِ ابْنِ عَاصِمٍ، عَنْ مَالِكِ بْنِ الْحُوَيْرِثِ: أَنَّهُ رَأَى النَّبِيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَفَعَ يَدَيْهِ فِي صَلاتِهِ، وَإِذَا رَكَعَ، وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنْ الرُّكُوعِ، وَإِذَا سَجَدَ، وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنْ السُّجُودِ، حَتَّى يُحَاذِيَ بِهِمَا فُرُوعَ أُذُنَيْهِ۔
(تحفۃ الأشراف: ۱۱۱۸۴)، (صحیح)
۱۰۸۶- مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کو صلاۃ میں جب آپ رکوع کرتے، اور جب رکوع سے اپنا سر اٹھاتے، اور جب سجدہ کرتے، اور جب سجدہ سے اپنا سر اٹھاتے رفع یدین کرتے دیکھا، یہاں تک کہ آپ اپنے دونوں ہاتھوں کو اپنے دونوں کانوں کی لو کے بالمقابل کر لیتے۔
 
Top